Monday 6 April 2015

ماہنامہ پیش رفت اپریل 2015

ماہنامہ پیش رفت اپریل 2015

پیش نامہ
ترقی پسند، جدید، مابعد جدید
 اور اسلامی ادب- ایک تعارف

          ہمارے ادراک و احساس ،خواب و خیال، شعور کی اخلاقی اور جمالیاتی ساخت کا تخلیقی توانائی سے حرارت لے کر حسنِ اظہار کے مختلف اسالیب میں ڈھل جانے کا نام ادب ہے۔ انسانی زندگی”احسنِ تقویم“ سے ”اسفل السافلین“ کے درمیان جھولتی ، گرتی ،سنبھلتی اور ہچکولے کھاتی رہتی ہے۔ اس کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اور دکھانے کی فنی مہارت ، کبھی قریب اور کبھی فاصلے سے برتنے کا ہنر ، اس کی آگہی اور بصیرت کا جمالیاتی بیان اور حسن کا ری کے ساتھ ترسیل و ابلاغ، ادب کا وظیفہ ہے۔اس طرح فرد اور سماج کے تعلقات، حیات و کائنات کے تصورات،عقل و عشق کی کشمکش،خواب اور حقیقت کے ٹکراوکے ساتھ لفظ و معنی کے رشتوں سے بننے والی بے شمار اداﺅں ، نقشوں اور شیوہ ہاے رنگا رنگی کی امانت کا بوجھ اُٹھانا اور ناز برداری کرنا ادب کا تقاضہ ہے۔ اسی لیے ہر زمانے کا ادب مختلف زاویہ ہاے نگاہ ، تحریکات اور اس سے پنپنے والے رجحانات اوراس کے زیرِ اثر ترجیحات کو قبول کرتے ہوئے آگے بڑھتاہے اورکشتِ حیات کو سیراب کرتا رہتا ہے۔
          چناں چہ جب ہم ادب کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس میں نئی سوچ ، تھیوری اور موضوعات جنم لیتے رہتے ہیں اور ان سے تخلیقی رویے کی تازہ کونپلیں پھوٹتی رہتی ہیں، جن سے ادب کی جمالیات اور شعریات میں ایک شادابی رہتی ہے ۔ اسالیب ِاظہار اور ان کے آداب میں رنگ برنگ کے گل بوٹے کھلتے رہتے ہیں ۔ جن سے ادبی تنقید میں نئے نئے ادبی مکالمات ، ڈسکورس اور تحقیقی سطح پر نئے نئے مکاشفات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔اگرہم گذشتہ ستّر پچھتّر برس کی ادبی تحریکات کا جائزہ تعقلاتی فریم ورک (Conceptual Frame work ) اور تخلیقی نظامِ اقدار کے حوالے سے لیتے ہیں تو چار مختلف تخلیقی رویے نمایاں طور پرسامنے آتے ہیں۔ جن میں آپس میں گرما گرم بحث ، دھول اُڑانے کی حد تک نقد و جرح اور ایک دوسرے کو چِت کرنے کی ضد بھی جاری رہی ہے۔ میرے خیال میں ادب کی دنیا اور جمالیات کی ارفع سطح پر دھول دھپے کی گنجائش نہیں ہے۔ بشر طے کہ جمالیاتی شعور بالیدہ ہو ۔ ادب ،جمالیات، کھیل اور تفریح کا فرق بھی واضح رہے۔ کھیل اور تفریحات کو جمالیاتی آسودگی کا ذریعہ سمجھ لیا جائے تو بلے بازی اور کشتی کی گنجائش پیدا ہو جا نا لازمی ہے۔ ورنہ ادب فن کے جس سانچے میں ڈھلے اور تخلیقی رویہ جس نظامِ اقدار کے حوالے سے اپنی شناخت قائم کرے وہ اتنا سبک ،نازک اور لطیف ہوتا ہے کہ وہ ہمارے جمالیاتی شعور کی کسی نہ کسی سطح پر ایک انبساط کا سامان کرتاہے۔ہاں آسودگی کے معیار اور اس کی سطح کے حوالے سے یقینا بحث کی جا سکتی ہے اور کی جانی چاہیے اور اس سطح پر مختلف نظریہ اقدار(Value system) اور نظریہ حیات(World view) کی روشنی میں تنقیدی مباحث اور تقابلی جائزہ با معنی اور تعمیری ہو سکتاہے۔ بہ ہر حال ادبی تنقید میں یہ کھلا ڈسکورس اور مکالمہ جاری رہنا چاہیے۔ علامہ اقبال نے صحیح کہاہے:
ز شرر ستارہ جویم ز ستارہ آفتابے
سر منزلِ نہ دارم کہ بمیرم از قرارے
          بہ ہر حال مجھے اس وقت ان تخلیقی رویوں کی شناخت پر روشنی ڈالنی ہے۔ ان تخلیقی رویوں کی کمی اور کجی سے ابھی بحث نہیں ہے۔ ان چاروں ادبی رویوں کی شناخت درج ذیل خانہ وار ترتیب کے ذریعے آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے۔
۱۔ ترقی پسند ادبی تحریک سماج اساس          سماجی سروکار،طبقاتی کشمکش  رومانی انقلابیت، سماجی حقیقت نگاری اور موضوعات کی تکرار
۲۔ جدید ادب    ذات اساس شخصی داخلیت، وجودیت    شکستِ ذات،فنی اقدار کی خود مختاری، لمحاتی تجربات
۳۔ مابعد جدید ادب       لا مرکزیت     انسانی جبلت، ثقافتی سروکار(مقامیت)  مہا بیانیے کا انکار، اقدار کی اضافیت اور تکثیریت
۴۔اسلامی ادب  توحید اساس    آفاقیت، تحدیث نعمت  جمالیاتی تزکیہ، فطرت کی نگہبانی اور تخلیقی تنوع
          یہ چار مختلف تخلیقی رویے ہیں جو بیسویں صدی کے مختلف ادوار میں ایک ہمہ گیر فلسفیانہ اخلاقی فریم ورک سے پھوٹتے ہیں۔ ان سے وابستہ فن کار پرمضامین غیب سے ضرور آتے ہیں مگر اس غیب کا تصور ہر جگہ جداہے۔ ترقی پسند ادب سماج اساس ہے اور وہاں فن کار کا سماجی سروکار کا مطلب طبقاتی کشمکش سے وابستگی ہے جو سماجی حقیقت نگاری کے تحت اظہار پاتی ہے جہاں ادبی رویے ،پیداواری نظامِ معیشت اور سرمایہ و محنت کی کشمکش سے طے پاتے ہےں ۔جن کی منزل انقلاب ہے اور ادب اس انقلاب کا حربہ بن جاتاہے اور یہاں جمالیات سماجی حرکیات سے وابستہ ہو کرتکرار اور فارمولا بندی کا شکار ہو جاتی ہے۔
          جمالیاتی جدیدیت (Modernism) بعض تخلیق کاروں کے انفرادی رجحان کا غماز نہیںہے بلکہ اس کا انحصار فرد ،سماج اور کاینات کے متعلق ایک نئی بصیرت (Wisdom)پر استوار ہے۔ جہاں فن کار سماج سے ایک جمالیاتی فاصلہ رکھتاہے اور اس کی ذات سماج سے علاحدہ اپنی انفرادیت اور شناخت رکھتی ہے۔ جدید ادب کی اساس سماج نہیں، فن کار کی ذات ہے۔اس لیے اس سے پیدا ہونے والے رویے میں شخصی داخلیت اِسمِ اعظم کی حیثیت رکھتاہے ۔جس کے نتیجے میں فنی اقدار کی خود مختاری یہاں جمالیاتی اظہار کا بنیادی آلہ بن جاتاہے جس میں لمحاتی تجربہ بھی شامل ہوتاہے۔ اس طرح جدیدیت فرد، تجربہ اور لمحہ حاضر کی تثلیث سے اپنے تخلیقی عمل کو جاری رکھتی ہے اور مثالیت پسندی کی طرف ایک جھکاو بھی ۔
          ما بعد جدیدیت ذات یا سماج کی اساس پر تخلیق کاروں کے رویے سے گریز اور اجتناب کا نام ہے اور اس طرح لا مرکزیت اس کی اساس بن جاتی ہے۔ ترقی پسندی ، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت سب تجربے مغرب سے آئے ہیں۔ مغرب نے اپنی بیداری اور نشاة ثانیہ کے اول مرحلے میں فیضانِ سماوی سے خود کو محروم کرکے توحید کے تصور سے اپنی تہذیب کو بے گانہ کردیا ۔ اس لیے ما بعد جدیدیت تک آتے آتے فن کار لا محالہ اپنی ذاتی جبلت کا شکار اور سماج میں قریبی ثقافت سے وابستہ ہوجاتا ہے اور اسی کے ساتھ مابعد جدید ادب تکثیریت کا اظہار بن جاتاہے۔مہا بیانیہ کے انکار سے عقل کی محدودیت کا عرفان تو ہوا لیکن آئیڈیالوجی سے محروم ہونے کی وجہ سے تکثیریت کے ساتھ لا مرکزیت اس کی پہچان بن جاتی ہے۔
          جہاںتک ادبِ اسلامی کا سوال ہے یہ توحید سے بننے والا تخلیقی شعور اس کی اساس ہے۔توحید اسلامی تہذیب کی بنیاد ہے،اس کی ساری خارجی ، داخلی، علمی، عملی، تخلیقی سرگرمیاں توحیدکے محور پر گردش کرتی ہیں،تصور خیر ، شعورِ حسن سب کا چشمہ خدا ہی کی ذات ہے۔ توحید کا تصور اگر سچا ،زندہ ، متحرک، فعال ہو اور انسانی زندگی کے شعور اور وجود میں اس طرح سرایت ہو ” برگِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کا نم“تو پھر توحید انسانی زندگی کے داخل کی تہہ در تہہ میں سرایت کرکے اس کو داخلی طورپر بھی متحرک رکھتاہے۔ خدا سے تعلق اسے نہ اپنی ذات سے بے گانہ کرتاہے، نہ سماجی زندگی کے سروکار سے کنارہ کش رکھتا ہے بلکہ دونوں میں ایک توازن پیدا کر دیتاہے ۔ اس طرح فن کار کے لیے ایک ایسا معتدل اور متوازن تخلیقی مدار خلق کردیتاہے جو اس کو افراط و تفریط سے بچاتاہے اور لا مرکزیت کا شکار نہیں ہونے دیتاہے اور اس طرح توحید کے نو

¾ر سے روشن ایک نیا تخلیقی پاتھ وے(Path way) بن جاتاہے جو اس کو آوارہ ہونے سے بھی بچاتاہے۔ اسلامی ادب کا یہ تخلیقی تفاعل ہمارے تزکیے کا سامان بھی کرتاہے ، جس کے اندر ایک فطری تنوع اور رنگا رنگی بھی پائی جاتی ہے۔ جو آئیڈیالوجی سے خالی مابعد جدیدیت کی تکثیریت بالکل مختلف ہے۔یہاں تکثیریت کو توحید کا مرکزی نقطہ ایک وحدت عطا کرتاہے ۔اقبال نے سچ کہا ہے :

خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زنّاری
نہ ہے زماں ،نہ مکاں! لا اِلٰہ الا اللہ
 ڈاکٹرحسن رضا
***
حمد
تو واحد، تو یکتا، تو اکبر خدایا
نہیں ہے ترا کوئی ہمسر خدایا

ہے آنکھوں میں غم کا سمندر خدایا
بنا میرے اشکوں کو گوہر خدایا

اُتر جائے میری رگ و پے میں یکسر
وہ فاراں کا جلوہ وہ منظر خدایا

کرم سے تو اپنے گلستاں بنادے
ہے شعلوں میں لپٹا مرا گھر خدایا

وہی آدمی ہے حقیقت میں بزدل
نہیں جس کے دل میں ترا ڈر خدایا

مرا دم جو نکلے تو نکلے زباں سے
خدایا، خدایا، مکرر خدایا

سخن میرا بن جائے تفسیر تیری
بنا مجھ کو ایسا سخنور خدایا

شہید اُن کے جیسا میں ہو جاوں اک دن
صحابہ کا دے دے مقدر خدایا

فقیری میں مل جائے طاہر کو راحت
بنا اس کو ایسا تونگر خدایا

طاہر گلشن آبادی
حیدرآباد

مری زبان پہ آیا جو تیرا نام اللہ
زمانہ کرنے لگا میرا احترام اللہ

دل و دماغ ترا، جسم و جان بھی تیری
تری ہی راہ میں آجائیں کاش کام اللہ

وہ بے پڑھے بھی بڑے علم والے لگتے ہیں
ترے کلام سے کرتے ہیں جو کلام اللہ

جو اتحاد کے خوگر ہیں امن کے پیکر
”وہ عام کرتے ہیں توحید کا پیام اللہ“

جہاں پہ بات تری حکمتوں کی آجائے
حکیم کو بھی ہے زیبا نہیں کلام اللہ

جنوں ہے رخت سفر اور آسرا تجھ پر
چلا ہوں شوق کی راہوں پہ تیز گام اللہ

رضوان الحق رضوان الٰہ آبادی
ریاض(سعودی عربیہ)

نعت
درود پاک کی محفل سجا رہا ہے کوئی
اندھیری رات سے پردہ ہٹا رہا ہے کوئی

چمن میں نعت کے نغمے سنا رہا ہے کوئی
وفور عشق کو میرے بڑھا رہا ہے کوئی

ہر ایک عیش و مسرت سے کھینچ کر دامن
’عجیب شان سے طیبہ کو جارہا ہے کوئی‘

انھی کے نام سے برہم بھی ہیں کئی بدبخت
انھی کے ہجر میں آنسو بہا رہا ہے کوئی

انھی کے فیض نے بخشا ہے حوصلہ ایسا
زمانہ تجھ سے جو آنکھیں ملا رہا ہے کوئی

کسی نے کرلیا دیدار ان کے روضے کا
تصورات میں سپنے سجا رہا ہے کوئی

لٹا رہا ہے کوئی ان کے نام پر دنیا
انھی کے نام پہ دنیا کما رہا ہے کوئی

حرم سے آئے زمانہ گزر گیا لیکن
جہان دل میں ابھی تک سما رہا ہے کوئی

مکین دل میں ہوا ہے مرے کوئی دانش
حواس و فکر و نظر پر بھی چھا رہا ہے کوئی

عبد الغفار دانش نور پوری
9810760623

رحمت و برکت ہے ہر سو یہ فضا کچھ اور ہے
شہر آقا کی میاں آب و ہوا کچھ اور ہے

عہد حاضر کے مسلمانو! تمھیں ہے کچھ خبر
کام تو کچھ اور ہے، عہد وفا کچھ اور ہے

حشر کے دن پیرو سنت کہے گا فخر سے
منکرِ سنت کو کچھ، مجھ کو ملا کچھ اور ہے

مدحتِ آقا سے پہلے سوچنا ہے لازمی
شاعری کچھ اور نعت مصطفی کچھ اور ہے

آمد سرکار سے روشن ہوا ہے یہ جہاں
وہ جہاں کچھ، اور تھا اب یہ جہاں کچھ اور ہے

دھول رکھنا سر پہ طیبہ کی کہاں قسمت رفیق
تاج کچھ خاک دیارِ مصطفی کچھ اور ہے

محب اللہ رفیق
نئی دہلی
9311523016

اقبال کا پیغام، نوجوانوں کے نام
ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی
صدر شعبہ اردو، گورنمنٹ ڈگری کالج، کاروارکرناٹک
            اقبال جتنا عظیم شاعر اور فن کار تھا، اتنا ہی بڑا مفکر اور فلسفی بھی۔ یہی وجہ ہے کہ حکمت و عظمت سے اس کا دامنِ شعر و ادب گہربار ہے۔ اقبال پیامبر حیات ہے اور ناقد حیات بھی۔ اس کی شاعری کا بیشتر حصہ یقین کی روشنی، محبت کی گرمی اور حرکت و عمل کا ایک ایسا پُر کیف نغمہ ہے، جس سے ہماری پوری زندگی نغمہ بار ہوجاتی ہے۔
            اقبال کے فکر و فلسفہ اور پیام کی جستجو میں جب ہم ان کا کلام پڑھتے ہیں تو فکر و نظر میں ایک انقلاب محسوس ہوتا ہے اور ان کی شاعری کی عظمت اور آفاقیت ہمیں بے حد متاثر کرتی ہے، مگر اس وقت حیرت ہوتی ہے کہ جب کچھ لوگ اقبال کی شاعری اور ان کے پیام پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے انھیں محض مسلمان شاعر قرار دیتے ہیں، جس کی شاعری کا محور اسلام اور مسلمان قوم ہے۔ اقبال کو اس طرح محدود کردینا میرے خیال میں کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ در اصل یہ غلط فہمی اقبال کی شاعری کو غلط معانی دینے سے پیداہوئی ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
            یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ عرب و ایران اور ہندوستان کے تہذیبی و تمدنی تعلق نے اردو زبان کو جنم دیاہے، جو فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور اس کے ذخیرالفاظ میں ہزار ہا عربی و فارسی الفاظ ہیں، لیکن اس کے باوجود اس کا ڈھانچہ خالص ہندوستانی ہے۔ اقبال نے اس مشترکہ اور تمدنی میراث کو اپنی شاعری کی بنیاد قرار دیا ہے۔اقبال نہ کٹر قسم کے مذہبی تھے اور نہ متعصب انسان۔ اقبال کی شاعری کسی بھی مذہب کے متعلق تو ہین آمیز انداز اختیار نہیں کرتی۔ اُن کااعتقاد عالمی اتحادو یگانگت پر پختہ تھا، جس کا اندازہ ان کے نظریہ عظمت آدم سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔ یہاں پر ایک بات اور عرض کردوں کہ چوں کہ اسلام اسی نظریہ کاحامی ہے، اس لےے اقبال نے اپنے شاعرانہ وجدان کے لےے اسلام کو ہی موزوں قرار دیا اور یہ کوئی عیب نہیں ہے۔ اپنے اپنے مذہبی عقائد و اقدار کے تحت ادب کی تخلیق کے نمونے عالمی ادب میں بھی ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر دانتے اور ملٹن کی شاعری، فردوسی کا شاہنامہ، کالی داس کے ڈرامے، سعدی و حافظ کی غزل سرائیاں اور ٹالسٹائی کی کہانیاں، سب کے پیچھے کوئی نہ کوئی اعلیٰ مقصد اور بلند نصب العین موجود ہیں۔ بہر حال اقبال اس نظریہ کاحامی ہے ۔ہر انسان آزاد پیدا ہوتا ہے اور آزاد انسان کو کسی دوسرے انسان کا غلام ہرگز نہیں ہونا چاہےے۔ انسانی آزادی سے گہری محبت، انسانیت سے لگاو اور احترام آدمی کا جذبہ ہی اقبال کی شاعری کوآفاق کی بلندیوں میں بہت اونچالے جاتاہے:

آدمیت، احترام آدمی
باخبر شد از مقام آدمی
            اقبال کے نزدیک انسانی تہذیب و تربیت کا جو نظام اسلام نے پیش کیا تھا، وہ توحید کے آفاقی تصور ” الخلق عیال اللہ“ کی تفسیر احترام آدم ہے۔ اس موقع پر مناسب یہ ہے کہ میں آپ کے سامنے اقبال کا وہ پیام بھی پیش کردوں جو انھوں نے اپنے انتقال سے چند ماہ پہلے لاہور ریڈیو سے نشر کیا تھا۔ وہ فرماتے ہیں:
            ” دور حاضرکو علوم عقلیہ اور سائنس کی عدیم المثال ترقیات پر بہت فخر و ناز ہے اور یہ فخر و ناز بلا شبہ حق بجانب ہے۔ لیکن اس تمام ترقیات کے باوجود ملوکیت کے جبر و استبداد نے جمہوریت، قومیت، فسطائیت، اشتراکیت، خدا جانے کیا کیا نقاب اوڑھ رکھے ہیں اور ان نقابوں کے نیچے دنیا بھر کے گوشوں میں قدر حیرت اور شرف انسانیت کی مٹی پلید ہورہی ہے کہ تاریخ عالم کا کوئی تاریک سے تاریک صفحہ بھی اس کی مثال پیش نہیں کرسکتا .... یا د رکھو! انسان کی بقا کا راز انسانیت کے احترام میں ہے۔ جب تک تمام دنیا کی تعلیمی طاقتیں اپنی توجہ کو محض احترام انسانیت کے درس پر مرتکز نہ کردیں گی، یہ دنیا بدستور درندوں کی بستی بنی رہے گی۔ان واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ قومی وحدت بھی ہرگز قائم و دائم نہیں ۔ وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ بنی نوع انسانی کی وحدت ہے، جو نسل، زبان اوررنگ و قوم سے بالا تر ہے۔
            اقبال کا یہ پیام انقلاب جسے ہم ” احترام آدم“ کے نام سے موسوم کرتے ہیں،ہمہ گیر بھی ہے اورآفاقی بھی۔ اقبال نے اپنے کلام میں عصر حاضر کے نوجوانوں کے نام انسانیت کے اسی پیغام کوپیش کیا ہے۔ در اصل اقبال کا پیام ہی ملت کے ان ” شاہین بچوں‘ ‘ کے لےے ہے جن سے اقبال کی ساری امیدیں وابستہ تھیں اور جن کے بال و پر کے لےے اقبال نے دعائیں کی تھیں:
جوانوں کو مری آہ سحر دے
تو ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کردے
            اقبال نوجوانوں میں نور بصیرت، درد و تپش اور اپنی آہ و سوز دیکھنے کی تمنا کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدایا! میرا سوزِ جگر اور عشق و نظر نوجوانوں کو بخش دے:
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مرا عشق میری نظر بخش دے
            اقبال کو اپنے ان نونہالوں سے بڑی محبت ہے جو بلند نظر، عالی ہمت اور تسخیر کائنات کے لےے ستاروں پر کمند ڈالنے کا حوصلہ رکھتے ہیں:
محبت مجھے ان نوجوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
            مغربی تہذیب نے نوجوانوں کی حقیقی روح کو کچل کر ان کے اندر جو نزاکت، زنانہ پن او رتن آسانی پیدا ہورہی ہے اس کو دیکھ کر اقبال خون کے آنسو روتے ہیں۔ اپنی نظم ” ایک نوجوان کے نام“ پیغام میں اپنے احساسات و جذبات کو بڑی خوبی سے پیش کیا ہے:
ترے صوفے ہیں افرنگی، تری قالین ہے ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
امارت کیا، شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زور حیدری تجھ میں، نہ استغنائے سلمانی
نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں
کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی
            اقبال کہتے ہیں کہ تہذیب حاضر کی یہ ظاہری چمک دمک، یہ ایرانی قالین اور افرنگی صوفے ہمارے نوجوانوں کے لےے سم قاتل ہیں۔ ان کو دیکھ کر اقبال خون کے آنسو روتے ہیں۔ ان کے نزدیک امارت و حکومت بھی اگر زور حیدری اور استغنائے مسلمانی سے خالی ہو تو بیکار ہے۔ ایسی فقر و درویشی جس میں ” زور حیدری“ ہو زیادہ بہتر ہے ۔ چنانچہ کہتے ہیں:
جنھیں نانِ جویں بخشی ہے تو نے
انھیں بازوئے حیدر بھی عطا کر
            اقبال نوجوانوں میں قوت و توانائی اور سادگی و دلآویزی چاہتے تھے۔ شہروں کی پرتکلف اور مصنوعی زندگی کے مقابلے میں انھیں کوہستانی زندگی کی سخت کوشی اور سرمستی و رعنائی زیادہ پسند تھی۔ اسی لےے وہ چاہتے تھے کہ نوجوانوں کے اندر عقابی روح بیدار ہوجائے تاکہ ان کو اپنی منزل آسمانوں میںنظر آئے:
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہ ہو نومید، نومید زوال علم و عرفاں ہے
امید مر د مومن ہے خدا کے رازدانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
            اقبال کے یہ شاہین صفت نوجوان اپنے عقیدہ و عمل اور سیرت و کردار کے ساتھ اس جادہ مستقیم پر گامزن ہیں جو اسلام اپنے پیرووں میں دیکھنا چاہتا ہے۔ی ہی وجہ ہے کہ جب اقبال مسلم نوجوانوں کو اسلام کے بجائے دوسرے ازموں اور مغربی فلسفوں سے متاثر اور مرعوب دیکھتے ہیں تو انھیں شدید صدمہ ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنا نقطہ نظر آل احمدسرور کے نام اپنے ایک خط میں وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
            ” میرے نزدیک کمیونزم یا زمانہ حال کے اور ازم کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ میرے عقائد کی رو سے صرف اسلام ہی ایک حقیقت ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لےے ہر نقطہ نگاہ سے موجب نجات ہے۔

            چنانچہ اپنی ایک نظم ” فلسفہ زدہ سید زادے کے نام“ میں موجودہ فلسفوں سے اپنی بیزاری کا اظہا ر یوں کرتے ہیں:
تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا
زناری برگساں نہ ہوتا
انجام خرد ہے بے حضوری
ہے فلسفہ زندگی سے دوری
افکار کے نغمہ ہائے بے صوت
ہیں ذوق عمل کے واسطے موت
            نوجوانوں کی اسی ذہنی پستی، بے ہمتی، شکم پرستی اور اخلاقی گراوٹ کی ساری ذمہ داری اقبال مغربی تہذیب او رعصری نظام تعلیم کو قرار دیتے ہیں:
اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کفِ جو
            اقبال کے نزدیک مغربی نظام تعلیم نے نوجوانوں میں مغرب کی اندھی تقلید پیدا کردی ہے، جس سے ان کا اپنا وجود کھوچکا ہے، وہ تہذیب جدید کے ایسے فرزند بن گئے ہیں، جن کا اپنا کچھ نہیں، سب کچھ مستعار ہے اور وہ جسم وشکم کا ایک ایسا ڈھانچہ ہوکر رہ گئے ہیں، جو روح و زندگی سے یکسر خالی ہو۔ یورپ کا یہ نظام تعلیم اہل مشرق اور خصوصاً ان کی نئی نسلوں کے خلاف ایک منظم سازش تھی۔ ان کی سب سے بڑی کوشش یہ تھی کہ مسلمان نوجوانوں کے سینوں میں ایمان و یقین کی جو چنگاری دبی پڑی ہے، انھیں جس طرح بھی ہوسکے بجھا دیا جائے، کیوں کہ یہی وہ جذبہ ہے جو ایک مسلمان کو ہر قسم کی قربانی کے لےے آمادہ کرتا ہے۔ اسی حقیقت کو اقبال ایک شعر میں یوں بیان کرتے ہیں:
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا اللہ
            اسی لےے شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنے ان نوجوانوں کے لےے جو بجھی بجھی اور جمود کی سی زندگی گزارتے ہیں اور جو صاحب کتاب نہ ہو کر صرف کتاب خواں بن کر رہ گئے ہیں، کسی طوفاں سے آشنا ہونے کی دعا کرتے ہیں:
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ ترے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
            اور اب اقبال کے دلِ دردمند اور زبانِ ہوشمند سے نکلی ہوئی وہ پُرخلوص گزارش بھی سن لیجےے جو انھوںنے ” پیر حرم“ یعنی نئی نسل کے مربی و معلم کی خدمت میں پیش کی ہے۔ اسی طرح انھوں نے حقیقتاً اپنے نوجوانوں کو زندگی کا پیام سنایا ہے:
اے پیر حرم رسم درہ خانقہی چھوڑ
مقصود سمجھ میری نوائے سحری کا
اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت
دے ان کو سبق خود شکنی خود نگری کا
تو ان کو سکھا خارہ شگافی کے طریقہ
مغرب نے سکھایا انھیں فن شیشہ گری کا
دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی
دارو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا
            اقبال کا یہ پیام اور ان کی یہ آرزو کتنی شدید تھی، اس کااندازہ ایک مختصر سے واقعہ سے کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کا بیان ہے کہ:
            ” ۱۳۹۱ءمیں جب گول میز کانفرنس میں شرکت کے لےے ابا جان انگلستان گئے تو اس وقت میری عمر تقریباً سات سال تھی اور میں انھیں ایک اُٹ پٹانگ سا خط لکھا اور خواہش ظاہر کی کہ جب وہ واپس تشریف لائیں تو میرے لےے ایک گراموفون لیتے آئیں۔ گراموفون تو وہ لے کر نہ آئے لیکن میرا خط ان کی مندرجہ ذیل نظم کی شان نزول کا باعث ضرور بنا۔
            در اصل اقبال کی یہ نظم جس کا عنوان ہے ”جاوید کے نام“اقبال کا وہ پیام ہے جو صرف ان کے صاحبزادے کے لےے نہیں بلکہ حقیقتاً یہ ملت کے ان تمام نوجوانوں کے نام ہے جو مغرب میں رہ کر مغربی نظام تعلیم کے ذریعہ جدید علم و فن حاصل کررہے ہیں:
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں
سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
            علامہ اقبال کے مزید تین اشعار اور سن لیجےے جس میں اقبال کا پیام خودی پوری معنویت کے ساتھ موجود ہے:
خودی کے ساز میں ہے عمر جاوداں کا سراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہین بچوں کو صحبت زاغ
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے جوانی تری رہے بے داغ
            آخر میں یہ پیام بھی سن ہی لیجيے:
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
کتابیات
۱-اقبال سب کے ليے۔ از ڈاکٹر فرمان فتح پوری
۲- روحِ اقبال۔ از ڈاکٹر یوسف حسین خاں
۳- اقبال ،شخصیت اور پیام۔ از مولانا شاہ طیب عثمانی ندوی
۴- اقبال مغربی مفکرین کی نظر میں۔ از جناب ظفر اقبال۔
***

اقبال کا نظریہ تعلیم اور عصری تقاضے-ایک مطالعہ

ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی
کشمیر یونیورسٹی ، سری نگر
            نظریہ علم یا علمیات (Epistemology) انسانی علم کے ذرائع اور مواد کے مطالعہ کا نام ہے۔ ہم کیاجان سکتے ہیں اور کس طرح جان سکتے ہیں۔ یہ اور اس قسم کے سوالات Epistemology کے ضمن میں آتے ہیں۔ یہ استفسارات محض فلسفیانہ موشگافیوں کے لےے نہیں ہیں بلکہ یہ مضبوط حقائق پر مبنی سوالات ہیں جن کے جواب تمام انسانی کار گزاریوں پر محیط ہیں۔ ایک بہترین معاشرہ انھی سوالات کے نتیجے میں تعمیر و تشکیل دیا جاسکتاہے۔ مغربی علمیات نے محض منطق (Logic) اور عقل (Reason) کی بنیاد پر فلسفہ کی بہت بڑی دنیا سجا کے رکھی ہے، جس میں بہت ساری بنیادی خرابیاں پائی جاتی ہیں، کیوں کہ مغربی علمیات میں قلب و جگر کی آمیزش یکسر مفقود ہے۔ اسی وجہ سے مغربی تہذیب کی تمام بنیادیں ہل چکی ہیں۔ یہ فاتح تہذیب اپنے مادّی فلسفہ حیات میں اب مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جارح تہذیب علم و آگہی کے فیضان اور انسانی اقدار (Human Values) کو سرے سے رد کرکے صرف انسانی کاوش اور تحقیق کو مواد سمجھ کر ہر جائز و ناجائز طور پر اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یوں دیانت داری (Honesty) اس نے بحیثیت پالیسی اختیار کی نہ کہ اس کو معیار یا اصول بنایا۔ اس طرح اس مغربی استعماری تہذیب نے تمام کرہ ارض کو کنٹرول میں رکھنے اور ان پر مکمل تسلط قائم کرنے کے شوق نے ماحولیات کا ایسا سنگین بحران پیدا کیا کہ اب زمین پر انسان کا مستقبل تباہ کن خطرات سے دوچار ہے۔ اب تو مغربی سائنس کا انسداد جبر وتشدد کوئی اتفاقی معاملہ نہیں رہا بلکہ بے اعتدال پرست علمیات کی وجہ سے کیمیائی ہتھیاروں کے انبار جمع ہوچکے ہیں جو تمام کرہ ارض کو کئی بار مکمل طور پر تباہ کرنے کے لےے کافی ہیں۔ اب تو خود مغربی دانش کدے تک اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی میں جو فساد فی الارض ہوا اور ماحولیات میں جو خطرناک اور نا قابل اصلاح حدتک آلودگی ایٹمی ہتھیاروں کے انبار کی شکل میں ظاہر ہوئی وہ اسی مغربی نظریہ علم کی دین ہے۔ اس کے برخلاف اسلامی علمیات (Islmic Espistemology) پورے تصور کائنات یعنی World View کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ مغربی علم کے مقابلے میں اسلامی نظریہ علم تمام علوم کے باہم مربوط ہونے پر زور دیتا ہے۔ یہ نظریہ اس امر پر زور دیتا ہے کہ علم کی تمام شاخیں باہم مربوط ہوں تاکہ قرآنی روح ہر شاخ میں رچی بسی ہو۔ لہٰذا اسلام علم حاصل کرنے کو نہ صرف ضروری قرار دیتا ہے بلکہ اس کو عبادت کا درجہ دیتا ہے بشرطیکہ یہ علم اللہ کی خوشنودی اور اس کی مخلوق کی بہتری کے لےے حاصل کیا جائے۔ اسی لےے قرآن کے بتائے ہوئے تمام اقدار کا سیکھنا علم کے زمرے میں آتا ہے۔ علم اور عبادت کو مربوط کرکے اسلام نے یہ واضح کیا فطرت کو تقدس مآب اور صحت مند کیسے بنایا جائے۔ دنیا میں اللہ کا خلیفہ ماحولیات کوپراگندہ کرکے علم حاصل نہیں کرسکتا، نہ وہ فن سیکھ سکتا ہے جو فطرت پر فتح حاصل کرنے کی غرض سے سیکھا جائے بلکہ فطرت کا خادم رہتے ہوئے فطرت میں اللہ کی نشان دہی کرنے کے لےے علم سیکھا جاسکتا ہے۔ یہ دوطرفہ عمل مادّی دنیا کو مسخر کرنے اور روحانی حقائق تک پہنچنے کاعمل ہے۔ بعینہ علم اور عدل کو مربوط کرنے سے سماجی عدم برابری کو ختم کرنے، معاشرتی اور معاشی انصاف قائم کرنے کا راستہ ہموار کیا جاسکتا ہے جو ایک آئیڈیل مسلم معاشرے کی صحت مند نشو ونما کے لےے درکار ہے۔ چنانچہ درج بالا اوصاف پر حامل اسلامی سوسائٹی تاریخی طور پر وقوع پذیر ہوچکی ہے جس میں مسلمان فلکیات، زراعت، ریاضی، سائنس، دینیات اور دیگر علوم کو بڑھاتے چلے گئے جو کہ اُس وقت ایک تہذیبی ضرورت تھی۔ تاریخ ہمیں آگہی دلاتی ہے کہ سائنس جب مسلمانوں کے ہاتھ میں آئی اور جب تک مسلمانوں کے ہاتھ میں رہی وہ تمام بنی نوع انسان کی خدمت گزاری کے لےے وقف رہی۔ اس کامقصد محض دولت پیدا کرنا نہیں تھا اور نہ ہی اپنے حلیفوں سے انتقام لینا تھا بلکہ اس کا منتہا و مقصود عملی طور پر فلاح عام یعنی Public Interest تھا۔
            علامہ محمد اقبال (۸۳۹۱-۷۷۸۱ئ) اسی تصور علم کے نہ صرف حامی بلکہ داعی اور علمبردار ہیں۔ اُن کے فلسفے کی بنیاد ہی چوں کہ فکر اسلامی پر استوار ہے، لہٰذا آپ اسی تصور تعلیم کے نقیب اعلیٰ رہے ہیں اور آپ کا نظریہ علم یا علمیات (Epsitemology) فکریاتِ اسلامی ہی سے ماخوذ ہے۔ علامہ کا نظریہ علم اُن کے نظریہ اخلاق کے عین مطابق ہے۔ اُن کے نزدیک علم کی ترقی کے ساتھ آدمی کی آدمیت پر اچھا اثر پڑنا چاہےے۔ علم کی گہرائی اور وسعت کے مطابق آدمی کے احساسات اور نظریات میں لطافت اور کشادگی واقع ہونی چاہےے اور اس میں بقدر علم بہتر انداز میں زندگی بسر کرنے کی اہلیت و صلاحیت پیدا ہونی چاہےے۔ اس سلسلے میں آپ ہمیں نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
آگہی از علم و فن مقصود نیست
غنچہ و گل از چمن مقصود نیست
علم از سامان حفظ زندگی است
علم از اسباب تقویم خودی است
            اپنے اردو کلام میں آپ نے اسی حقیقت کو ایک دوسرے پیرائے میں یوں ادا کیا ہے:
زندگی کچھ اور شئے ہے، علم ہے کچھ اور شئے
زندگی سوزِ جگر ہے، علم ہے سوزِ دماغ
علم میں دولت بھی ہے، قدرت بھی ہے، لذت بھی ہے
ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ
            یعنی یہ صحیح ہے کہ علم کی وساطت سے رزق کے بہتر وسائل بہم ہوتے ہیں۔ علم کی دولت سے ہتھیاروں کے انبار جمع ہوسکتے ہیں۔ علم کی بدولت ہم آرام و آسائش اور گوناگوں لذتوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں لیکن ان سب کا حاصل ہوجانا کسی بہتر انسان ہونے کی دلیل نہیں بلکہ ایک ناتربیت یافتہ انسان علم کوجب صرف اپنی تن پروری کا ذریعہ سمجھ کر دوسروں کے دکھ درد سے بے پروا ہوجائے گا تو پھر وہ خود غرض Self Centered بن کر خود اپنی تباہی وبربادی کا سامان پیدا کرے گا۔ اس تناظر میں علامہ کے مرشد روحانی جلال الدین رومیؒ نے بھی فرمایا ہے:
علم را برتن زنی مارے بود
علم را بردل زنی یارے بود
            اور علامہ اقبال خود فرماتے ہیں کہ:
علم را بے سوزِ دل خوانی شر است
نورِ اُو تاریک بحر و بر است
            علامہ کے نزدیک عہد حاضر میں لوگوں نے اگرچہ مختلف علوم و فنون میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرلی ہیں لیکن یہ تمام علوم تب تک ناقص ہیں جب تک اس علم و فضل میں جذبے کی صداقت موجود نہ ہو۔گویا یہ فارغ التحصیل لوگ اہل علم تو کہلاسکتے ہیں لیکن اہل عشق کہلانے کے مستحق نہیں ہیں، کیوں کہ عشق کے بغیر علم محض گمراہی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ معلوم نہیں ہمارے ہاں سے یہ عشق کی مضبوط اور مستحکم تلوار کون اُڑا کر لے گیا۔ موجودہ صورت میں تو ہمارا علم ایسا ہی ہے جیسے کسی سپاہی کے ہاتھ میں خالی نیام مگر تلوار نہیں او رجس کے پاس خالی نیام ہو وہ رزم گاہِ حیات میں باطل سے نبرد آزما نہیں ہوسکتا۔ اگر کسی شخص کے سینے میں روشن دل و دماغ ہو تو اعلیٰ ادب اور علم کا سوز و گداز اس کے لےے زندگی بخش ثابت ہوسکتا ہے لیکن اگر سینے میں تاریک دل ہو تو یہی شاعری اور اعلیٰ علم و ادب اُس کے لےے ابدی موت ثابت ہوسکتے ہیں۔ ”بال جبریل“ میں علامہ اسی حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں:
عشق کی تیغ جگر دار اُڑالی کس نے
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
سینہ روشن ہو تو ہے سوزِ سخن عینِ حیات
ہو نہ روشن تو سخن مرگِ دوام اے ساقی
سینہ روشن ہونے سے مراد سچے عشق کا جذبہ اور عقائد ونظریات سے سچی لگن ہے۔ اگر کوئی صاحب سخن پاک جذبے سے معمور ہو تو وہ اپنی سچی لگن اور پرخلوص جذبے سے قوم و ملت کو ایک نشاة ثانیہ بخشنے کا موجب بن سکتا ہے، لیکن اگر اس کی باتیں دل سے نہ نکلی ہوں بلکہ محض زبان تک محدود ہوں تو ایسے سخن ور یادانش ور کوئی انقلاب تو درکنار، مچھر کو بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلاسکتے۔ کیوں کہ:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پَر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
            دوسری جگہ ” بال جبریل“ ہی میں علامہ علم کو خودی اور عشق سے مربوط کرنے پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں:
خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریلؑ
اگر ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیلؑ
            ” بال جبریل“ ہی میں علامہ ” علم اور دین“ کے حوالے سے فرماتے ہیں:
وہ علم کم بصری جس میں ہمکنار نہیں
تجلیاتِ کلیم و مشاہدات حکیم
یعنی خودی کے لےے علم اور عشق دونوں کی ضرورت ہے۔ پہلے درجے پر خودی کو جب انسان حصولِ علم سے مضبوط بناتا ہے تو اس کی شخصیت حضرت جبرئیل کے لےے بھی باعثِ رشک بن جاتی ہے کیوں کہ حضرت جبرئیل اتنا ہی علم پیغمبروں تک منتقل کرتے تھے جتنا کہ اللہ کا منشا ہوتاتھا، لیکن اگر خودی علم کے بعد عشق کے جذبے کو بھی پیدا کرلے تو وہ صورِ اسرافیل کی طرح قوی ہوجاتی ہے۔ صور اسرافیل مُردوں کو زندہ کردے گا۔ گویا عشق سے محکم ہونے والی خودی مردہ قوموں کے لےے بھی حیات بخش ثابت ہوسکتی ہے۔
            وہ مغربی علوم و فنون سے اسی لےے نالاں ہیں کہ اس میں صرف عقل و خرد پر زور دیا جارہا ہے، سیرت سازی اور قلب و جگر کی راحت کے لےے اس میں کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اس لےے اس کی تباہ کاریاں پہلے کی طرح اب بھی اپنے عروج پر ہیں۔یورپی علوم و فنون کی ان تباہ کاریوں پر علامہ اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہاں اگرچہ علم و فن اپنے عروج پر ہے لیکن حقیقت میں وہاں انسانیت کی اعلیٰ اقدار کا کہیں نام و نشان تک نہیں ہے۔ یورپ کی مادہ پرستی تمام چیزوں سے بڑھ کر خطرناک ہے۔ وہاں زندگی تاجرانہ اہمیت رکھتی ہے۔ علم و حکمت، حکومت و سیاست جس پر یورپ کو فخر و ناز ہے ، محض دکھاوا ہے۔ انسانیت کے یہ نام نہاد ہمدرد انسانوں کا گلا کاٹنے اور خون بہانے میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں لیکن دوسری طرف انسانی مساوات اور اجتماعی عدل و انصاف کی تعلیم کاڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ بے کاری، عریانی، شراب نوشی، اور بے مروتی تو اس تہذیب کی نمایاں خصوصیات بن گئی ہیں۔ اس طرزِ تعلیم اور نظریہ علم کی بیخ کنی کرتے ہوئے علامہ کہتے ہیں:
یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات
بیکاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات؟
            علامہ اقبال نے اگرچہ خود بھی عصر حاضر کے یورپی تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں سے عصری علوم اور مغربی تعلیم حاصل کی تھی بلکہ بقول علامہ مودودیؒ ان علوم میں وہ مبتدی نہیں بلکہ امام تسلیم کےے جاتے تھے۔ اپنے وقت کے مغربی ماہرین اساتذہ سے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ انگلستان او رجرمنی میں کسب فیض کیا اور وہاں کے علم و فن سے کما حقہ سیراب ہوکر علوم اسلامی میں ایک بطل جلیل کے طور پر اُبھرے۔ در اصل انھیں ایک کامل دانشور اور مفکر ملت بنانے اور ان کے کلام میں عصریت اور مقصدیت پیداکرنے میں ان کی علمی فتوحات کے علاوہ ان کے ایمان باللہ، عشق رسول ، قرآن حکیم سے انتہائی شغف اور عرفانِ نفس یعنی خود شناسی وہ عناصر ہیں جو ان کی عبقریت یعنی Genius ہونے کا حقیقی منبع اور سرچشمہ ہیں۔ انھوں نے قیام یورپ کے دوران مغربی تہذیب کا بہت قریب سے مشاہدہ کرکے اس سے گہری واقفیت حاصل کی اور اس طرح اس تہذیب کی بنیادی کمزوریوں اور اس کے عصری فساد اور بگاڑ کو دیکھ لیا، لہٰذا انھوں نے فسادِ قلب و نظر کو اس تہذیب کی روح کی ناپاکی کا ثمر قرار دیا ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں:
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیر پاک، و خیال بلند و ذوق لطیف
            اسی تہذیب فرنگ کی کوکھ سے مغربی اور عہد حاضر کا دین بیزار نظام تعلیم وقوع پذیر ہوا، جسے استعماری اغراض و مقاصد کے تحت مشرقی اور اسلامی ممالک میں آنکھیں بند کرکے درآمد کیا گیا اور اس طرح اپنے منہاج تعلیم کے مطابق اسے مفتوح ممالک کے لوگوں کو اپنے حقیر مفادات کے سانچے میں ڈھالا گیا۔ علامہ اقبال جو خود بھی اسی نظام تعلیم کے پروردہ تھے اور اس کی روح سے پوری طرح آشنا تھے، لہٰذا وہ اس کی حقیقت کے متعلق ہمیں باخبر کراتے ہوئے کہتے ہیں کسی بھی نظام تعلیم کی بدولت انسان کی جو قلب ماہیت ہوتی ہے اس سے وہ ایک نئے سانچے میں ڈھل جاتا ہے ۔ اس کا بیان وہ اس طرح کرتے ہیں:
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہوجائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر
تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر
            آپ اس لےے اُس تعلیم پر شدید ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں جس نے مسلم نوجوانوں کی ذہنیت پر منفی اثرات ڈالے۔ اس سلسلے میں ان کے نزدیک اہل کلیسا کا نظام تعلیم پہلا ہدف ہے کیوں کہ یہی اس روحانی اضمحلال کا سبب ہے:
اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروّت کے خلاف
            آپ اس ناپختہ تعلیم اور اس سے اثر پذیری کی ذمہ داری محض نوجوانوں پر ہی نہیں ڈالتے بلکہ ان اساتذہ و علماءاور صوفیوں سے بھی آپ نالا ں ہیں، جو خود نہ تعلیم کا حقیقی مقصد سمجھتے ہیں اور نہ ہی علم میں غائر نظر رکھتے ہیں۔ چنانچہ آپ شیخ مکتب اور نام نہاد علماءکو اس کا موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے کہتے ہیں:
مکتب و ملاّ سخنہا ساختند
مومناں ایں نکتہ را نہ شناختند
زندہ قومے بود از تاویل مُرد
آتش او در ضمیر اُو فُسرد
صوفیاں با صفا را دیدہ ام
شیخ مکتب را نکو سنجیدہ ام
عصرِ من پیغمبرے از خود ندید
ہر یکے دانائے قرآن و خبر
در شریعت کم سواد و کم نظر
            پھر آگے اسی ” پس چہ باید کرد اے اقوام شرق“ میں اپنی نظم ” در حضور رسالت مآب“ میں شیخ مکتب کی یوں شکایت کرتے ہیں:
شکایت ہے مجھے یارب خداوندان مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا
            اور عصر حاضر کے دانش کدوں پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں:
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدائے لا الہ الا اللہ
            چنانچہ وہ مزید فرماتے ہیں کہ:
مقصد ہو اگر تربیت لعل بدخشاں
بے سود ہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پرتو
            بھٹکے ہوئے خورشید سے مراد ایسا سورج جو صحیح راہ پر نہ چلے۔ مراد وہ استاد یا معلم جو خود مغربی تعلیم کے اثر سے صحیح راہ پر نہ ہو کیوں کہ مغربی مادہ پرستانہ نظام تو Honesty as a policy اپنائے ہوئے ہے۔ وہ اسے Honesty as a principle اپنائے ہوئے نہیں ہے۔ اگر اس پالیسی سے اسے نفع حاصل ہوتا ہے تو ٹھیک ورنہ اس پالیسی سے عملی دنیا میں اُسے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اسی لےے علامہ کہتے ہیں:
دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار
کیا مدرسہ، کیا مدرسے والوں کی تگ و دو
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو
            لہٰذا وہ ملت کے نوجوانوں سے مستقبل کی زمام کار سنبھالنے کے لےے یوں نصیحت کرتے ہیں:
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
            علامہ کے نزدیک آج کل کی درس گاہیں اپنے مقاصد اور اہداف Ultimate Goals سے یکسر بے خبر ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
مکتب از مقصود خویش آگاہ نیست
تا بہ ہدف اندرونش راہ نیست
یعنی ہمارے تعلیمی اداروں کو ہماری نسل نو کی بہترین ذہنی اور عملی تربیت کرکے سماج کے لےے چلتا پھرتا ماڈل بنانا چاہےے تھا مگر افسوس وہ تو اپنے بنیادی ہدف Ultimate Goal ہی سے ناواقف اور غافل ہیں۔ اسی وجہ سے ان تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل افراد کے اندرونی جذبات تک مقصدیت کو راستہ ہی نہیں ملتا ہے اور اُس تعلیم کی بدولت ان کا جذب ِ اندرون بیدار ہی نہیں ہوپاتا ہے۔ اس بے روح نظام تعلیم نے تو نوجوانوں کے نورِ بصیرت کو اُن کے دلوں سے دھوڈالا ہے، لہٰذا اس تعلیمی سسٹم سے ایک بھی پرکشش اور خوب صورت پھول اب کھل نہیں رہا ہے جو ایک انقلاب آفرین پیغام حق سے ملت کو نوازتا۔
            علامہ کے نزدیک اس کے برخلاف ہماری نئی نسل موجودہ تعلیمی اداروں سے اس حالت میں نکلتے ہیں کہ نہ وہ اِدھر کے اور نہ اُدھر کے:
یہ بُتان عصر حاضر کے بنے ہیں مدرسے میں
نہ ادائے کافرانہ، نہ تراش آذرانہ
            ” جاوید نامہ“ میں علامہ نے نام نہاد علم اور حقیقی علم کی بہترین انداز سے وضاحت کرتے ہوئے ہمیں سمجھایا ہے کہ:
علم اگر کج فطرت و بد گوہر است
پیشِ چشم ما حجاب اکبر است
علم را مقصود اگر باشد نظر
می شود ہم جادہ وہم راہبر
یعنی علم اگر معرفت الٰہی اور حب رسول سے خالی ہو تو پھر وہ کج فطرت اور بد گوہر ہے۔ مروجہ دنیاوی علوم و آداب نے عام طور پر یہی صورت ِ حال اختیار کرلی ہے کہ بظاہر وہ انسانوں کو تو بہترین دنیوی رتبے او راعلیٰ ڈگریوں سے مزین کرتے ہیں لیکن اپنے حقیقی وجود اور مقصد وجود سے انھیں قطعاً باخبر نہیں کراتے ہیں۔ لہٰذا علامہ کے نزدیک ایسا علم بہت بڑا حجاب بن گیا ہے اور اس لےے ہم اس علم و ادب میں وہ لطافت اور شائستگی نہیں پاتے جس کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس کے برعکس حقیقی علم سے مقصود معرفت نفس اور معرفت رب ہے اور یہی علم در اصل صحیح راستے کی طرف انسان کی رہنمائی کرتا ہے اور دنیا و آخرت میں یہی علم موجب نجات بن سکتا ہے اور اسی علم کی تربیت اللہ سبحانہ نے اپنے بندہ خاص او رہمارے آقا حضور کو اپنی اولین وحی نازل کرتے ہوئے کی کہ:

          اقرأ باسم ربك الذي خلق، خلق الإنسان من علق، اقرأ وربك الأكرم، الذي علم بالقلم، علم الإنسان مالم يعلم.
            ترجمہ: پڑھو (اے نبی) اپنے رب کے نام کے ساتھ، جس نے جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو اور تمھارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا، انسان کووہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔
            علامہ نے اپنے دور کے ایک قریبی جونئیر ہم عصر ماہرتعلیم خواجہ غلام السیدین کے نام اپنے ایک اہم ترین خط میں اسی قرآنی نظریہ علم کی وضاحت کرتے ہوئے رقم کیا ہے:
            ” علم سے میری مراد وہ علم ہے، جس کا دارومدار حواس پر ہے۔ عام طور پر میں نے علم کا لفظ انھی معنوں میں استعمال کیا ہے ۔ اس علم سے ایک طبعی قوت ہاتھ آتی ہے، جس کو دین کے ماتحت رہنا چاہےے۔ اگر دین کے ماتحت نہ رہے تو محض شیطنت ہے۔ یہ علم، علم حق کی ابتداءہے، جیسا کہ میں نے ”جاوید نامہ“ میں لکھا ہے:
علم حق اول حواس آخر حضور
آخر اُو می نہ گنجد در شعور
مسلمان کے لےے لازم ہے کہ علم کو (یعنی اس علم کو، جس کا مدار حواس پر ہے اور جس سے بے پناہ قوت پیدا ہوتی ہے) حاصل کرے۔ ” بولہب راحیدرِ کرارکن“ ۔اگر یہ بولہب حیدر کردار بن جائے یا یوں کہئے کہ اگر اس کی قوت دین کے تابع ہوجائے تو نوع انسان کے لےے رحمت ہے۔
            علامہ کے نزدیک اسی علم و حکمت کی آبیاری کے لےے انسان کو تخلیق کیا گیا ہے۔ دانشورانِ ملت اور شیوخ مکاتب کو اسی حقیقی علم کو پھیلانے کے لےے یک جُٹ ہونا چاہےے اور پھر ایسے ہی شیوخ عمارت گروں کی مانندہیں جن کی صنعت روح انسانی کی تربیت پر موقوف ہے۔ لہٰذا اسے ایک آئیڈیل ہونا چاہےے:
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی
            مگر علامہ کف ِ افسوس ملتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر ایک طرف خدا بیزار مغربی تعلیم و تربیت کی وجہ سے نئی نسل روحانیت سے عاری اور مذہبیات سے خالی ہورہی ہے لیکن دوسری طرف ہمارے خانقاہی نظام میں حکمت، بصیرت اور فکر و نظر کا زبردست فقدان نظر آتا ہے، لہٰذا وہ دونوں طرزِ عمل سے بیزار ہوکر یوں شکوہ سنج ہوتے ہیں:
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ
            حاصل مطالعہ یہی ہے کہ علامہ کا تصور ِ علم خالص اسلامی نقطہ

¿ نظر سے ماخوذ ہے اور اس دینِ حنیف کے مطابق علم کے دو اقسام ہیں، ایک دل و جان سے تعلق رکھتا ہے اور وہی علم انسان کے لےے نفع بخش اور فائدہ مند ہے جب کہ دوسرا علم صرف زبان تک محدود ہے اور وہ اللہ کی جانب سے انسان کے خلاف حجت قائم کرسکتا ہے۔اسی لےے فرمایا گیا کہ:

            ” العلم علمان، فعلم فی القلب فذلک العلم النافع وعلم علی اللسان فذلک حجة اللہ علٰی ابن آدم“(فوز القادر)
            در اصل دلوں میں گھر کرنے والا علم ہی سیرت سازی کا عظیم کارنامہ انجام دے سکتا ہے اور یہی سیرت و کردار کی تعمیر دینی تعلیم و تربیت کی متقاضی ہے۔ اس کے بغیر نہ تو نگاہ بلند کا تصور کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی یقین محکم کا۔
            لا دینی تعلیم ذہن کو تو روشن رکھ سکتی ہے لیکن دل میں حرارت پیدا نہیں کرسکتی۔ وہ فکر کو تو آزاد کر سکتی ہے لیکن اسے مربوط اور منظم نہیں کرتی۔ لہٰذا اس کے لےے اسلامی فقر و استغنا کی دولت میسر آنی چاہےے کیوں کہ فقر کے متعلق رسول رحمت کا ارشاد گرامی ہے کہ ” الفقر فخری“ فقر کی وجہ سے ہی ایک فرد کے قلب و روح میں صفائی اور نگاہ میں عفت پیدا ہوسکتی ہے، لہٰذا علامہ کے نظریہ

¿ علم میں فقر کا عنصر بھی موجود ہے۔ جبھی تو انھوں نے کہا ہے کہ:

علم کا مقصود ہے پاک عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے عفت قلب و نظر
علم فقیہ و حکیم، فقر مسیح و کلیم
علم ہے جویائے راہ، فقر ہے دانائے راہ
فقر مقام نظر، علم مقام خبر
فقر میں مستی ثواب، علم میں مستی گناہ
***

اقبال اور نسوانيت زن
ڈاکٹر ضیاءالرحمٰن فلاحی مدنی
شانتا پورم(کیرلہ)
9526029212
            دور جدید نے جن نئے مسائل کو جنم دیا ، ان میں سے ایک ’ عورت‘ کا مسئلہ بھی ہے۔ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ مسئلہ جتنا نیا ہے ۔ اتنا ہی پرانا بھی ہے۔ معاشرت میں ’عورت ‘ کا مسئلہ ازمنہ قدیمہ سے ایک اہم مسئلہ کی حیثیت سے نمودار ہوتا رہا ہے۔ علماءاور مفکرین نے ہر دور میں اس مسئلہ کو سلجھانے کی کوشش کی مگر بقول اقبال یہ مسئلہ سلجھنے کے بجائے اور الجھتا چلا گیا ، اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی:
ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا
مگر یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں
             جہاں تک صنف نازک کے تئیں اقبال کے خیالات کا تعلق ہے تو انہوں نے اس موضوع پر جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ بقول یوسف حسین خان اسلامی تہذیب کے اصلی رنگ کو برقرار رکھنے والے ہیں ۔ اسلام نے عورت کو جو اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمایا ہے، اس کا اعتراف تمام اصحاب فکر و نظر نے کیا ہے ۔ اقبال نے عورت کا مقام کائنات میں اس قدر بلند بتایا ہے کہ کائنات کی ساری رنگینیاں اسی کی مرہون منت ہےں۔ زندگی کا سوز اسی کے ساز سے قائم ہے ۔ اس کی مشتِ خاک شرف و منزلت میں ثریا سے بھی بڑھ کر ہے ۔ آج جو بھی عزت و شرافت دنیا میں پائی جاتی ہے وہ اسی درج کا ایک موتی ہے :
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں
            اقبال کے نزدیک عورت کی فطری جبلت اس کی نسوانیت ہے۔ سیاست و معیشت، دفتر اور کارخانہ اس کے نسوانی حسن و جمال کے لیے سخت ضرر رساں ہیں ۔ عورت کے حسن و جمال کی تابناکی اس نسوانی جوہر کی حفاظت میں پوشیدہ ہے۔ مکالمات فلاطوں نہ لکھنا اس کے لیے کوئی عیب کی بات نہیںہے ۔ اس کی عظمت اس سے ہے کہ وہ ” مکالمات فلاطوں “ لکھنے والے ”افلاطون“ کو جنم دیتی ہے۔ افلاطونی علم و حکمت اسی کی گود میں پرورش پاتے ہیں:
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے ساز سے ٹوٹا شرار افلاطوں
            عورت کی عظمت اس سے زیادہ کیا ہو سکتی ہے کہ رسول خدا نے جنت کو ماوں کے قدموں کے تلے بتایا ہے ۔ اس ارشاد سے ایک طرف عور ت کی عظمت ظاہر ہوتی ہے تو دوسری طرف اس کے فرائض امومت کی اہمیت پر روشنی پڑتی ہے۔ اقبال معاشرتی اور عائلی زندگی میں ماں کے مرکزی اور فعّال کردار کے قائل ہیں ۔ ان کے خیال کے مطابق جس طرح گھر سے باہر کی سرگرمیوں میں مردوں کو فوقیت حاصل ہے ، اسی طرح گھر کے اندر کی سرگرمیوں میں عورت خصوصاََ ماں کی اہمیت ہے ۔ عورت کا شرف و امتیاز اس کے ماں ہونے کی وجہ سے ہے۔ جو قومیں امومت کے آداب نہیں بجا لاتیں ،ان کا نظام معاشرت غیر مستحکم اور نا پائیدار ہوتا ہے۔ ”رموز بیخودی “ میں امومت کی اہمیت پر یوں روشنی ڈالتے ہیں :

از امومت پختہ تر تعمیر ما
در خط سیماے او تقدیر ما
گفت آں مقصود حرف کن فکاں
زیر پائے آمہات آمد جناں
از امومت پیچ و تاب جوئے ما
موج و گرداب و حباب جوئے ما
حافظ رمز اخوّت مادراں
قوت قرآن و ملت مادراں
 نسوانیت زن:
             قدرت نے مرد اورعورت دونوںکو جدا گانہ خصوصےات کے ساتھ پیدا کیا ہے ۔دونوں کوجداگانہ جسمانی ساخت اورجداگانہ مزاج ومیلانات کے ساتھ ایک دوسرے کے لےے پرکشش بنایا گےا ہے۔ اور دونوں کے درمیان تباین کے بجائے توافق کا تعلق رکھا گےا ہے اور اسی اعتبار سے ان کے وظائف حےات سپرد کےے گئے ہیں ۔انسانی تمدن کی کامیابی اسی میں ہے کہ دونوں اپنی اپنی جبلی خصوصیات پر قائم رہتے ہوئے تعاون باہمی سے اپنا اپنا وظیفہ حےات بحسن وخوبی ادا کرتے رہیں ۔
            بات اس وقت بگڑجاتی ہے اور تمدن کے نظام میں خلل اس وقت پیدا ہوتا ہے جب عورتےں اپنی زنانہ خصوصیات یا نسوانےت سے دست بردار ہونے کی کوشش کرتی ہیں ۔مغربی تہذیب نے مساوات مرد و زن اور آزادینسواں کا جو نعرہ دیا، جس سے بہت سے مسلمان بھی متاثر ہو گئے اور جس نے خود عورتوں کو بھی مسحور کر دیا، جس کی وجہ سے عورتیں با لخصوص مغربی عورتیں امومت اور مادریت کے فریضے کی ادائیگی سے گریزاں نظر آتی ہیں۔وہ چراغِ خانہ بننے کے بجائے شمع انجمن بننا پسند کرتی ہیں جس سے معاشرے میں کئی طرح کی پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں ، اقبال اس طرز معاشرت اور رجحان کے سخت خلاف ہیں ۔

            ”ضرب کلیم “ میں ”عورت کی حفاظت“ کے عنوان سے اقبال کی صرف تین اشعار پر مشتمل ایک چھوٹی سی نظم ہے :
اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد
نے پردہ نہ تعلیم نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت زن کا نگہباں ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
اس نظم میں اقبال نے تین نہاےت حکیمانہ باتےں ارشاد فرمائی ہیں :
۱-        پہلی حقیقت جس سے علامہ نے پردہ کشائی کی ہے یہ ہے کہ عورت کی نسوانےت کا محافظ حقیقی صرف اورصرف مرد ہے۔
اگر مرد اس کے تحفظ کی ذمے داری نہ نبھائے یا اس کاسینہ نسوانےت زن کی قدروقیمت سے خالی ہو تو اس مقصد کے لےے استعمال کئے گئے دوسرے سارے ہی وسائل بے سود ثابت ہوں گے۔ خواہ وہ پردہ ہو یا تعلیم ۔تعلیم جدیدہو یا تعلیم قدیم ۔
۲-        دوسری بات حکیم الامت نے یہ کہی کہ اس زندہ حقیقت کا ادراک صرف فلسفیانہ اور سائنسی نقطہ نظر سے ممکن نہیں ۔ اس کا ادراک صرف وہی شخص کرسکتا ہے جس کی رگوں میں غےرت وحمےت کاخون گردش کررہا ہو۔ انسانی غےرت وحمیت سے عاری ہوکر اس حقیقت کا ادراک ممکن نہیں ۔
            علامہ نے اس نظم میں درحقیقت قرآن حکیم کی ترجمانی حکیمانہ اسلوب میں کی ہے ۔ قرآن نے شادی شدہ عورتوں کے لئے محصنٰت کا لفظ استعمال کیا ہے ۔حصن عربی زبان میں قلعہ یا مضبوط مقام کو کہتے ہیں ۔مُحصَن اس شخص کو کہا جاتا ہے جو قلعہ یا کسی مضبوط مقام میں پناہ گزین ہو۔شادی شدہ عورتوں کو محصنٰت اس لئے کہا گےا ہے کہ شادی کے ذریعے وہ مردکی مضبوط پناہ گاہ میں آجاتی ہیں۔ جہاںاس کا شوہر ایک باغےرت سپاہی بن کر اس کی عفت وعصمت کی حفاظت پر تعےنات ہوجاتا ہے۔الرجال قوامون علی النساءمیں مرد کی جس قوامیت کی بات کی گئی ہے اس میں مرد کے ذریعے نسوانےت زن کی حفاظت کا یہ پہلو بھی شامل ہے ۔
            اسی حقیقت کو علامہ اقبال نے پھول اور کانٹے کے استعارے میں اس طرح بےان کیا ہے کہ فطرت نے پھول کے اندر نزاکت و لطافت رکھی ہے تو کانٹے کے اندرسختی و صلابت۔اگر کانٹوں کے اندر صلابت اور سختی نہ ہو تو وہ پھولوں کی حفاظت کی فریضہ ادا کرنے پر قادر نہیں ہوسکتے :
تمیز خار و گل سے آشکارا
نسیم صبح کی روشن ضمیری
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے
اگر کانٹوں میں ہو خوئے حریری
اکبرالہ آبادی کی تائید:
            اقبال کے ہم عصر دوسرے بزرگ شاعر حضرت اکبر الہ آبادی نے بھی اپنے اس مشہور قطعہ میں اسی حقیقت کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی ہے :
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبےاں
اکبر زمیں میں غےرت قومی سے گڑ گےا
پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑگےا
            مردوں کی عقل پر جس پردہ کے پڑنے کی بات اکبر نے کی ہے وہ یہی بے غےرتی وبے حمیتی کا پردہ ہے جس کی طرف اقبال نے اپنے اس مصرعے میں اشارہ کیا ہے :
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد
 ۳-       تےسری بات اس نظم میں یہ کہی گئی ہے کہ نسوانےت زن کی حفاظت یا عدم حفاظت کوئی معمولی اور غےر اہم بات نہیں ہے۔
            اس انسانی رویہ کا راست تعلق قوموں کے عروج وزوال سے ہے۔ جو بھی قوم اس زندہ حقیقت کا ادراک نہ کرے گی یا اسے نظر انداز کرے گی اسے ذلت اور پستی کے گڑھے میں گرنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچاسکتی ۔
پردہ اور تعلیم:
            مذکورہ بالا نظم سے یہ بات بھی خود بخود مترشح ہوتی ہے کہ اقبال پردہ اور تعلیم کو بھی نسوانےت زن کی حفاظت کے لئے اہم عامل مانتے ہیں ۔چنانچہ پردہ اور تعلیم کے بارے میں انہوں نے اپنے خیالات تفصیل کے ساتھ پیش کئے ہیں ۔
پردہ:
  اقبال کے خیال میں آزادی نسواں کا ایک مظہر بے پردگی عورت کی نسوانےت اور اس کی متاع شرم وحےا کوتباہ و تاراج کر دےتا ہے۔ اسی لئے وہ بے پردگی کی سخت مخالفت کرتے ہیں ۔ اقبال بے پردگی پر پردہ کو ترجیح دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” خلوت “ بہر حال جلوت سے بہتر ہے ۔ اس دور کی ساری خرابیوں کی جڑ جلوت کی ہوس ہی ہے۔ اسی وجہ سے نگاہیں تو روشن ہیں لیکن ”آئینہ دل “تاریک و مکدّر ہے ۔ ذوق نظر فی نفسہ برا نہیں ہے لیکن جب یہ ذوق اپنی حدوں سے تجاوز کر جاتا ہے تو افکار ابتر و پراگندہ ہو جاتے ہیں :
رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے
روشن ہے نگہ آئینہ دل ہے مکدّر
بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوںسے
ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
  ” خلوت “ کو ”جلوت “ پر اور ”پردہ کو ”بے پردگی “ پر ترجیح دینے کے لیے اقبال نے فطرت سے یہ دلیل دی ہے کہ وہی قطرہ  نیساں گوہر بنتا ہے ، جسے صدف کا آغوش نصیب ہوتا ہے:
آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
وہ قطرہ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر

            اقبال کے نزدیک مغرب کی مادّی ترقی کا راز رقص و سرور ، عریانیت اور بے پردگی و بے حیائی میں نہیں بلکہ ان کے علم و فن اور سائنسی ترقی میں پوشیدہ ہے ۔ جاوید نامہ میں احمد شاہ ابدالی کی زبانی اس حقیقت کا اظہار اس طرح کرتے ہیں :
قوت مغرب نہ از چنگ و رباب
نے ز رقص دختران بے حجاب!
نے زسحر ساحران لالہ روست
نے ز عریاں ساق و نے از قطع موست
حکمی او را نہ از لادینی است
نے فروغش از خط لا طینی است!
قوت افرنگ از علم و فن است
از ہمیں آتش چراغش روشن است!
            اقبال پردے کی حمایت میں کہتے ہیں کہ پردہ عورت کی ترقی کی راہ میں کسی طرح رکاوٹ نہیں بنتا ۔ وہ پردے میں رہ کر تمام جائز سر گرمیوں میں شریک ہو سکتی ہے اور اپنے فرائض بھی ادا کر سکتی ہے کیونکہ خالق کائنات پس پردہ ہی کار گاہ عالم کو چلا رہا ہے۔ اس کی ذات حجاب قدس میں ہے۔ لیکن اس کی صفات کا پر تو پوری کائنات میں موجود ہے :
جہاں تابی زنور حق بیاموز
کہ اوبا صد تجلّی در حجاب است
تعلیم:
            اقبال کے خیال میں اصولاَ تعلیم نسواں کی ضرورت و اہمیت سے تو کسی کو انکار نہیں لیکن عورتوں کی تعلیم کا مقصد متعین ہونا چاہیے۔ اور وہ مقصد ایسا ہونا چاہیے جو نسوانی زندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو ۔ ان کے نزدیک تعلیم کا یہ مقصد غلط ہے کہ انہیں مردوں کے دوش بدوش زندگی کے ہر میدان میں جوتا جائے ۔ ان کی تعلیم کا اصل مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ امومت کے فرائض خوش اسلوبی سے ادا کر سکیں ۔ مدرسہ زن دین سے بیگانہ ہوگی تو عشق و محبت کے لیے اس کی تعلیم موت کا پیام بن جائے گی ۔اقبال تعلیم نسواںسے متعلق اپنے ایک مضمون میں دوٹوک الفاظ میں اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ:
             ” تمام وہ مضا مین جو ان کی نسائیت کی نفی کرنے یا اسلام کی حلقہ بگوشی سے انہیںآزاد کرنے والے ہوں با حتیا ط ان کے نصاب تعلیم سے خارج کر دینے چاہئیں ۔
 (اقبال کے نثری افکار،عبدالغفار شکیل ص۹۳۳-۸۳۳)
            عورتوں کی اعلا تعلیم اگر انہیں امومت کی ذمے داریوں سے فرار کی راہ دکھاتی ہے اور انہیں انفرادی عیش و آرام کی راہ پر گامزن کرتی ہے، تو نوع انسانی کے لیے اس سے بڑھ کر خطرے کی بات اور کوئی نہیں ہو سکتی ۔ اقبال ایک جگہ حکیم یورپ سے ایسی تعلیم اور تہذیب کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ کیا معاشرت کا کمال اسی کو کہتے ہیں مرد بے کار ہو جائیں انہیں کام نہ ملے اور عورتوں کی گود بچوں سے خالی ہو :
کوئی پوچھے حکیم یورپ سے
ہند و یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش
کیا یہی ہے معاشرت کا کمال
مرد بے کار زن تہی آغوش
   اقبال ایسی تہذیب اور تعلیم کو انسانےت کے حق میںسم قاتل سمجھتے ہیں جو زن کو نازن بنا دیتی ہے۔جوعورت سے اس کی نسوانی خصو صیات چھین لیتی ہے۔ ایسا علم ان کے نزدیک علم نہیں بلکہ موت ہے کیونکہ اس علم کا لازمی نتیجہ عورت کو مادرےت سے گرےز کی راہ پر گامزن کرناہے اور مغربی تہذیب اسی موت کی طرف قوموں کی رہنمائی کر رہی ہے :
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت
ہے حضرت انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت
آزادی نسواں:
             اقبال جہاں پردے اور مذہبی واخلاقی تعلیم کو نسوانيت زن کی حفاظت میں ممد ومعاون مانتے ہیں وہیں آزادی نسواں اور بے پردگی کی پروردہ جدید تہذیب کے بھی سخت خلاف ہیں۔ ان کے خیال میں آزادی نسواں کی تحریک سے سماج کی مشکلات کم ہونے کے بجائے اورپیچیدہ ہوجائیں گی۔اور سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ جذبہ امومت ختم ہوجائے گا۔ مغربی تہذیب کی یہی غےر فطری روش تھی جس کو اقبال نے اپنی سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کو شاخ نازک پہ آشیانہ سے تشبیہ دے کر اس کے اپنی موت آپ مرنے کی پیشین گوئی کردی:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
            زمانہ گواہ ہے کہ اقبال کی پیشین گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی ۔تازہ رپورٹ کے مطابق 9/11 کے بعد امریکہ میں سالانہ ۰۴ہزارافراد جبکہ برطانیہ میں ۴۱ہزار افراد اسلام قبول کررہے ہیں۔ان سعادت مند وں میں ستر فیصد سے زیادہ خواتین ہیں۔
***


(دوسری اور آخری قسط)

دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
مختصر خاکے
(اساتذہ کرام شعبہ اردو، رانچی یونی ورسٹی)

ڈاکٹر حسن رضا
            پوسٹ گریجویٹ شعبے مےں رےسرچ اسکالر کو ابتدا سے انتہا تک بڑے دلچسپ مراحل سے گزرناپڑتا ہے۔ا س سے شعبے مےںچھوٹے بڑے گناہوں اور کچھ نےکےوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ کالج مےں ےہ منظر سامنے نہےں آتا ہے ۔وہاں سارا ثواب اور گناہ لچھمی پوجا سے متعلق ہوتاہے ۔ میرا تجربہ ہے کہ اسکول میں سرسوتی پوجا ، کالج میں لچھمی پوجا اور یونی ورسٹی میں دوات پوجا کی روایت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس پوجا پاٹھ میں سب سے زیادہ خوشی کرپشن دیوتا کو ہوتی ہے۔ بہر حال پوسٹ گرےجوےٹ شعبے مےں کوئی بھی استاد لاولد رہنا نہےں چاہتا۔ اس کے لیے خفےہ وعلانےہ کو ششیں جاری رہتی ہےں۔ بعض اساتذہ کے لےے ےہ نفع بخش سودا ہے ۔ اس راہ مےںانڈرگراونڈ اور فلائی اُووَر دونوں مراحل آتے ہےں۔شعبے مےں رےسرچ کے مراحل مثلاً پری رجسٹر ےشن ، پری سب مےشن Viva اور پی۔اےچ۔ڈی مقالے کے لےن دےن کے ذرےعے ہی داستانِ ’الف لیلہ‘کی کوئی نہ کوئی کہانی زندہ رہتی ہے۔بعض اساتذہ کے کےرےر مےں’ طلسمِ ہوش ربا‘ جےسی کرشمہ سازےاں بھی اسی حوالے سے ےاد کی جاتی ہےں۔ بعض استاد رےسرچ سے زےادہ رےسرچ اسکالر پر لہا لوٹ ہو کر غزنوی کی تڑپ کا اےسا مظاہرہ کرتے ہےں جو بعد مےں کئی دنوں تک شعبے مےں جی بہلانے کا موضوع بنا رہتا ہے۔ واقعی پی۔اےچ۔ڈی کا سلسلہ بہت پُر پیچ اور نازک ہے اور اگر صنفِ نازک ہو تو یہ مسئلہ اور بھی نازک ہو جاتاہے۔ البتہ اس معاملے میں پردے کااہتمام سب کرتے ہیں۔ غالب کے یہاں بھی پردہ نشینوں کا ذکر آیا ہے۔مجھے تو فاروقِ کے رجسٹرےشن کے وقت بڑے تلخ وشيريں تجربے سے گزرنا پڑا۔پی ۔جی ۔ کے ایک استاد نے ہمارے Consent Letter کو بھی عاشق کا گربےاں بنا دیا۔ مےں اس وقت اےس۔اےس۔ مےمورےل کالج مےں تھا۔ اس سلسلے میں جو گراوٹ آرہی ہے۔ اس سے ڈر لگتا ہے کہ ”اب کہ جنوں مےں فاصلہ شاےد نہ کچھ رہے“۔ ابھی تک تو بہر حال اےک فاصلہ ہے۔ اسی سلسلے نے دعوت اڑانے اور مٹھائی کے چٹخارے مےں کچھ اساتذہ کو مبتلا کر دےا ہے اور کچھ مےں کھٹّے انگوروں کا لالچ بھی پےداہو گیا ہے ۔ رانچی ےونی ورسٹی کے اساتذہ مےں عام طور سے ڈاکٹرغلام ربانی صاحب ان مو قعوں پر اکثر رونق افروز ہوتے تھے۔اصلاً وہ سائنسMaths کے آدمی ہےں لےکن غلطی سے ادب کے مےدان مےں آگئے ہےں۔ غالب کو اپنی شاعری کا رونا تھا، ان کو بھی شکاےت ہے کہ ان کی شعبہ¿ اردو مےںجو پذےرائی ہونی چاہےے تھی، نہےں ہو سکی۔مےں نے اردو کے دو استاد اےسے دےکھے جن کی شناخت کو ان کی سواری سے خاص نسبت رہی،اےک ڈاکٹرغلام ربانی صاحب اور دوسرے پروفیسرسمےع الحق صاحب۔ ان کی موٹر سائےکل اتنا زور سے پھٹ پھٹ کی آواز کے ساتھ چلتی تھی کہ ڈاکٹر وہاب اشرفی صاحب مرحوم کہتے تھے کہ ’ لےجےے جرمن والا آگےا‘۔ ربّانی صاحب کی لونا (Luna)کا بھی ےہی حال ہے ،جےسے جاپانی گاڑی ساﺅ نارہ کی آواز کے ساتھ چل رہی ہو۔ ہندی شعبے کے بعض اساتذہ ان کو” روانی صاحب“ کہتے تھے۔اس مےں تلفظ کی کوتاہی کے ساتھ ان کارواں دواں رہنا بھی شامل رہتا ۔ اکثر وہ پانچ دس منٹ کے لیے ہی آتے اور جلد روانہ ہو جاتے۔اےسے موقعوں پر ہندی شعبے کے استاد کے اس تلفظ کا نےا مزہ ملتا تھا۔ ان کی حساب دانی کا قائل اس وقت ہونا پڑتاتھا جب وہ سے می نار یا وائی و ا میں مٹھائی تقسیم ہونے سے چند منٹ قبل تشریف لاتے تھے اور دانے دانے پر لکھا ہے کھانے والے کا نام پر ہمارے ایمان کو تازہ کر دیتے تھے۔ ویسے حساب کے وہ اچھے استاد بھی ہیں اور سے می ناروں میں شرکت کرکے رانچی یونی ورسٹی کا نام بڑھاتے رہتے ہیں۔

            شعبے مےں سب سے زےادہ پندار کا صنم کدہ وےراں کیے ہوئے ڈاکٹر سرور ساجد کو دےکھا ۔وہ ”جام دے نہ دے ،شراب تو دے“ کے قائل ہےں ۔ ملن سار اور دوست دار آدمی ہےں۔ کبھی کبھی ”ےارِ طر ح دار کی جھلک “بھی آجاتی ہے ۔جس میںاقرار اور انکار کا فرق مٹ جاتا ہے۔ ان کے ےہاں اےک البیلاپن ہے ،وہ ون ڈے مےچ کے بڑے اچھے کھلاڑی ہےں ۔اس کم عمری مےںرندی اور پارسائی دونوں کا اچھا تجربہ رکھتے ہےں۔ ےاری مےں چوری کو جائز سمجھتے ہےں۔ان کو شعبے مےںبت پرستی اور بت شکنی دونوں کرتے ہوئے دےکھا:
مے مےری توبہ شکن ،توبہ مےری جام شکن
 اےسے مےں ٹوٹے ہوئے پےمانوں کے ڈھےر کو وہ زندگی کا سرماےہ سمجھتے ہےں ۔مارکسی ترقی پسندی کے مرحلے سے گزر چکے ہےں،اب ان میں حقےقی ترقی پسندی آگئی ہے۔ان کی شخصےت کا رخ بتاتا ہے کہ’ کشف المحجوب‘ کا مرحلہ بھی آنے والا ہے ۔وہ فطری شاعرہےں اور اےک ادبی ماحول پےدا کرنا چاہتے ہےں ۔شاعری اور مشاعرے کے حوالے سے سرگرم بھی رہتے ہےں ۔سہ ماہی ’عہد نامہ‘ سخت حالات کے باوجود ناغہ کے ساتھ نکالتے رہتے ہےں ۔ ان کی شاعری بھی ان کے قد کی طرح اےک مقام پر آکر رک گئی ہے ۔اس سے آگے اےک نئی بلندی چھونے کے لیے ایک نئی جست کی ضرورت ہے ۔ ابھی جواں سال ہیں ، چاہیں تو یہ کر سکتے ہیں۔ بہ شرطیکہ مشاعرے کی واہ واہ کا شوق کچھ کم ہو جائے۔ذہن زرخیز ہے ۔
مےں نے کئی با ر سوچا کہ ان کو اس طرف متوجہ کروں ۔ان کے اندر اےک تازہ جنون کی ضرورت ہے۔ اس کے بغےر ان کی غزلوں مےں نئے تےور کی توقع نہےں کی جاسکتی۔وےسے اب تک جو کچھ انھوں نے کہا ہے ۔اس سے آگے بڑھنے کے امکانات بہت ہےں ۔ان کی غزلوں کوپڑھنے سے ان کے خواب و خےال مےں اےک جرات ِرندانہ اور تازگی کا احساس ہوتا ہے ۔ان کے ےہ چند اشعار مجھے اکثر ےاد آتے ہيں
اگر چہ رات بھر ميں جل چکا ہوں
مگر اميد کا جلتا دےا ہوں
             يہ شعر زمان و مکان کے کتنے گوشے پر محیط ہے اور’دےا‘ کا لفظ کس خوبصورتی کے ساتھ استعمال ہوا ہے ۔اس شعر کو آپ بار بار پڑھیے اور لطف اندوز ہوئیے۔اسی طرح 
کسی کی ےاد مےں بھےگا ہوا اےندھن ہوں
تمام عمر مجھے ےوں ہی جلتے رہنا ہے
            ’بھےگا ہوا اےندھن‘،’ےوں ہی جلتے رہنا‘، دونوں کو ملا کر پڑھےے اور زندگی کے اےسے لمحات کا تصور کےجےے جب زندگی اپنی معنویت کھو دے۔
جی مےں آتا ہے کہ اب آپ کو پتھر کہہ کر
چند لمحوں کے لیے بوجھ تو ہلکا کرلوں
            محبوب کی بے وفائی کے لیے پتھر کا استعارہ اردو غزل مےں عام ہے ۔لےکن ’چند لمحوں کے لیے بوجھ کا ہلکا کرنا‘ اےک تازہ خےال ہے ۔ اس مےں اےک ندرت ہے۔ اس مےں عشق کی اےک خاص کےفےت کو بالکل نئے انداز مےں پےش کےا گےا ہے ۔ اس مےں محبوب کی ناز برداری کا بوجھ، اس کی بے وفائی اور دل کی سختی ،اپنی مجبوری سب شامل ہے ۔
تجھ سے ملنا تجھے پانے کی تمنا کرنا
کےا کروں، دونوں گنا ہوں سے مےں توبہ کرلوں

ساجد تمام لوگوں کے چہرے ہی کھو گئے
سچا ہمارے دور کا درپن نہےں رہا
             ميں برابر اسی پر زور دےتا رہا کہ وہ اپنے پرانے شوقِ فضول کو اور ہوا دےں ۔اس کے لیے ان کو اپنی دنیا بدلنی ہوگی اور نئی دنےا خود پےدا کرنی ہوگی۔اس لیے کہ اب شعبے مےں تخلےقی سرگرمےوں کی ہمہ ہمی اور تحقےقی کاموں کی چہل پہل ،تنقےدی مباحثوں کی گرما گرمی سب ٹھندی ہو چکی ہےں۔ڈاکٹر عبد الوہاب اشرفی کی آمد سے ےقےنا شعبے مےں اےک نئی جان آگئی تھی اور مسابقت کی خوش گوار فضا قائم ہوگئی تھی ۔ اُس وقت پوسٹ گرےجوےٹ کے اساتذہ ’جو ذرہ جہاں ہے ، وہیںآفتاب ہے‘ کے مانند تھے۔ ےا د آتا ہے اس وقت ہم لوگ کبھی کبھی شعبے مےں آتے تھے تو پروفےسر ابو ذر عثمانی صاحب کے قہقہے کی گونج سے پورا شعبہ گلزار رہتا تھا ۔وہاں بیٹھنے اور ان سے تھوڑی دےر گفتگو کے بعدان کے تنقےدی شعور اور گہرے مطالعے کا احساس ہونے لگتا تھا ۔ان کی ملن ساری بے تکلفی اور رواداری کا قائل ہونا پڑتا تھا ۔انھوں نے طلبا کی نصابی ضرورت کے لیے بھی کتابیں لکھی ہیں۔اردو میں تنقید ان کا خاص موضوع رہا ہے۔انجمن ترقی اردو سے وہ ہمیشہ وابستہ بھی رہے۔ جھارکھنڈ بننے کے بعد تو انجمن ترقی اردو ان پر سوار تھی، اب وہ انجمن ترقی اردو پر سوار ہیں۔ دونوں میںکسی کو ایک دوسرے سے نجات نہیں۔
            ان کے دوسرے ساتھی ڈاکٹر شےن اختر کی شخصےت مےں ادبی والہانہ پن، تخلےقی خلوص اور کمٹمنٹ کی ولولہ انگےزی کے ساتھ ترقی پسندی کا طنطنہ پورے شعبے کو لالہ

¿ زار بنائے رکھتا تھا۔وہ ترقی پسند ہیں، لیکن ان کی شخصیت ، وضع قطع اور رکھ رکھاﺅ سے بورژوائی حسن ٹپکتا ہے۔ اسی طرح شعبے میںڈاکٹر احمد سجاد صاحب کا دانش ورانہ رکھ رکھاﺅ ، مشرقی وضع داری ، ادبِ اسلامی کے ساتھ وابستگی، چہرے پہ داڑھی کے ساتھ کھےلتی، پھیلتی اور پھسلتی مسکراہٹ اےک تنوع پےدا کرتی تھی۔احمد سجاد صاحب زمانہ سازی اور با زمانہ ستیز دونوں ہنر سے واقف ہیں۔ٹوپی ،شیروانی ،ٹائی اور سوٹ دونوں کا استعمال موسم اور حالات کے حساب سے کرتے رہتے ہیں۔ان سب لوگوں سے شعبے میں ایک رنگا رنگی، چہل پہل اور دھوپ چھاﺅں کی کیفیت بنی رہتی تھی۔ ان لوگوں کے درمےان ادبی موضوعات پر گرما گرم بحثیں بھی ہوتی تھیں۔لےکن اس مےں اےک علمی معےار بھی تھا ۔ ان لوگوں کی فکر مےں ہم آہنگی نہ تھی لےکن فضا مےںاےک ہمواری ضرور تھی ۔جس سے خوش گواری قائم رہتی تھی۔ فنون ِلطیفہ کے مشترکہ جوہر سے وہ سب واقف تھے ۔ادب کے اساتذہ کے لیے ےہ بہت ضروری ہے۔ بعد مےں مولانا شعےب رحمانی مرحوم نے لابیِِ خاص کے تحت براہ راست پی۔جی جوائن کےا ۔عربی زبان و ادب پر مضبوط گرفت اور دےنی علوم مےں رسوخ کی وجہ سے وہ پانچویں سواروں مےں شامل ہوگئے۔اللہ نے ان کو کچھ مخصوص صلاحیتیں دی تھیں۔ سماج پر ان کی بڑی اچھی پکڑ تھی۔ رنگساز مسجد میں جمعہ کا خطبہ بڑے سوز اور درد کے ساتھ دیتے تھے۔لیکن شہر کے تمام داداﺅں سے بھی ان کے بڑے گہرے تعلقات تھے۔ اس معاملے میں ان کی فن کاری کے ہم سب قائل تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت پی۔جی ۔ شعبہ

¿ اردو کے اساتذہ میں سرد جنگ بھی جاری رہتی تھی لیکن شعبے کی علمی فضا میں کبھی برف باری نہیں ہوئی بلکہ ایک نئی حرارت ان لوگوں نے اپنے اندر پیدا کر لی تھی،جس سے توازن قائم رہا اور اس معاملے میںڈاکٹر عبد الوہاب اشرفی صاحب کی نرمی ، مصلحت پسندی ، چشم پوشی اور خاموشی بھی کام کر جاتی تھی۔ عبدالوہاب اشرفی زےادہ تنظےم، تعمےر اور ڈسپلےن کے پھےرے مےں نہےں پڑتے تھے۔ ادب ،زندگی، ملازمت، پرموشن اور ادبی کےرےر کو انھوں نے اپنی نگاہ سے دےکھا تھا ۔ڈاکٹر عبدالوہاب اشرفی میرِ مجلس ہوتے،ان کا انداز ِگفتگو ، دفتریت سے پاک اسلوب اور مزاح سب مل کر جاڑے کی دھوپ جیسی خوش گواری پیدا کر دیتے۔ ان کے ساتھ بیٹھنے اور گفتگو کرنے کے تھوڑی دیر بعد ہی منٹو اورعصمت کے افسانوںکے کئی کردار سامنے اُبھر آتے تھے اور وہاب صاحب کی ان کرداروں سے خصوصی دلچسپی پھر اس پر ڈرامائی اور ملامتیہ انداز اظہارسے ایک نیا لطف ملتا تھا۔”قصہ بے سمت زندگی کا“ جو ان کی خود نوشت ہے، اس میں بھی ان کے ملامتیہ انداز کی جھلک ملتی ہے۔ بہرحال ان کے پٹنہ چلے جانے کے بعد وہ فضا باقی نہ رہی۔ڈاکٹراحمد سجاد صاحب نے صدر شعبہ

¿ اردو کا چارج لےا ۔پروفےسر ابوذر عثمانی صاحب صدر شعبہ اردو ، وےنووا بھاوے ےونیورسٹی ہو کر چلے گئے۔شےن اختر صاحب نے پہلے تو لائبرےری کا اےک گوشہ پکڑ لےا،بعد مےں وہ پرو۔ وی۔سی۔ ہوکر ےو نی ورسٹی چلے گئے۔مولانا شعےب رحمانی صاحب اللہ کو پےارے ہو گئے۔ بےچ مےں ٹرانسفر کا اےک دلچسپ ڈرامہ بھی ہم لوگوں کے ساتھ ہوا جو اردو مےں ڈراما کی رواےت کی طرح کمزور ثابت ہوا۔بہرحال پھر وہ علمی و ادبی ماحول قائم نہ ہوسکا۔مغرب کے شاعروں اور افسانہ نو ےسوں کے بارے مےں اقبال کو شکاےت تھی کہ ان کے اعصاب پر عورت سوار ہے۔ڈاکٹر احمد سجاد صاحب کے سرپر کمپےوٹر سوار ہو گےا۔چناںچہ ان کے زمانے مےں شعبے میں کمپےوٹر کی تعلےم کا بندو بست کےا گےا۔ ان کے بعدڈاکٹر اختر یوسف نے شعبے کا چارج سنبھالا،تب شعبے پر نرگسےت طاری ہوگئی ۔اور”ہزاروں سال نرگس اپنی بے نو

¾ری پہ روتی ہے“ کا سماں رہا۔پروفےسر شمےم صاحب نے اسٹےٹس کو بحال رکھا۔ اب پی۔جی ۔ کا وہ اسٹیٹس بھی نہ رہا۔

             اساتذہ کے علاوہ شعبے میں آفس اسسٹنٹ (Assistant) کلام صاحب بھی تھے۔وہی شعبے میں سب سے زےادہ پرانے تھے اس لےے ان کے اندر اےک شان سےنےورےٹی پائی جاتی تھی۔ ابتدا مےں ان کے تاو

¿ بھاو

¿ سے ےہ معلوم ہوتا تھا کہ ہم لوگوںکے ٹرانسفر کووہ تسلےم نہےں کرتے ہےں ۔دو تےن ماہ تک مشاہرہ بھی کالج سے ملا۔جب تنخواہ شعبے سے ملنے لگی تب انھوں نے ہم لوگوں کو پی۔جی کا ٹےچر تسلےم کےا۔ پھر بھی سےنیوریٹی (Seniority) کا احساس آخری دم تک رہا۔ وہ پروفےسر سمےع الحق صاحب کے وقت سے کام کررہے تھے۔ ڈاکٹر سمےع الحق صاحب سے ہم لوگ پوری طرح واقف تھے ۔مےں نے ڈاکٹر سمےع الحق صاحب کو کئی موقعوں پر مباحثہ کرتے ہوئے ان کا وہ انداز دےکھا ہے کہ ’علمِ موسی بھی ہے تےرے سامنے حےرت فروش‘۔ اُن سے میری ایک دو بار مڈ بھیڑ بھی ہوئی تھی۔بہرحال کلام پر سب سے زےادہ انھی کی صحبت کا اثر تھا ۔چناں چہ وہ ہمےشہ ےہ سمجھتا رہا کہ اےم۔اے ،پی۔اےچ۔ڈی کرنے سے علم نہےں آتا، اصل علم صحبت سے حاصل ہوتا ہے۔ طوےل صحبت کی وجہ سے تمام صدور شعبہ کی کمزورےوں ،کو تاہےوں اور خوبےوں سے وہ واقف تھے۔اندھےرے اجالے مےں کون کہاں چوکتا ہے ےا تھو کتا ہے ،ان کو سب معلوم تھا ۔ مختلف مراحل مےں طلباسے شعبے کی ترقی کے نام پر جو لےوی وصولی جاتی ہے ،اس کی امانت داری اُ نھی کے ذمے تھی۔ضرورت کے وقت صدر شعبہ اُس فنڈ سے ’قرضِ ہنسنا‘ لےنے کے مجاز تھے، قرضِ ہنسنا اس کو کہتے ہیں جس کی ادائیگی کے بجائے ہنس ہنس کے ٹال دے۔دوسرے اساتذہ بھی بالکل محروم نہےں رہتے تھے۔اس راز کو کلام بھی جانتا تھا۔ کبھی کبھی اس مسئلے مےں الجھاو بھی پےدا ہو جاتا تھا ۔ اےک دفعہ اُسی فنڈ سے طلبا کے تقرےباًدس ہزار روپےے گورنر سےد سبط رضی صاحب کی خدمت مےں اجتماعی ثواب کے لیے رےلےف فنڈ مےں ڈاکٹر حسن امام نے پےش کےا تھا۔ ےونی ورسٹی سے جو خےرات شعبے مےں آتی ہے ، اس کے لیے واو

¿چر بنا نا، اندراج کرنا، ٹےلےفون کا بل جمع کرنا، اخراجات کے نوک پلک درست کرنا وغیرہ ان تمام کاموں مےں کلام کومعتمد خاص کا درجہ حاصل تھا ۔کبھی کبھی آمد وخرچ کی مانگ ٹےڑ ھی ہو جاتی تو صدر شعبہ چےں بہ جبیں ہوتے اور کلام بھی بُھنبھناتا۔ اس بھُنبھناہٹ کی بھنک سب کو لگ جاتی اور:

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
کا عالم ہوتا۔ کلام کے جانے کے بعد اب دوسرے صاحب تسلیم میاںےونےورسٹی آفس سے آئے ہیں۔ابھی کلام والی بات نہےں ہے لےکن دھیرے دھےرے شعبہ

¿ اردو مےں سب سےکھ جائےں گے کہ:

آتی ہے اردو زباں آتے آتے
            شعبے میں جس سے سب کے دل ےکساں طرےقے سے صاف تھے ،وہ پارو تھی ، یہ سےتا رام مرحوم چپراسی کی بے رنگ وروغن بےوی تھی ۔سب لوگ ےکساں خلوص سے اس کو پکارتے تھے اور وہ بھی سبھوںکے لیے برابری کے ساتھ وفاداری کرتی تھی۔ البتہ پروفےسر شمےم صاحب کا رابطہ اس سے زےادہ تھا ۔اس لیے کہ وہ روزانہ سبھوں کے لیے ۴۔۵کپ چائے اسی سے منگواتے تھے ۔ اس پابندی اور فےاضی سے کوئی دوسرا نہ چائے منگاتا، نہ پلاتا۔پارو جب چائے لاتی اور پےسے واپس کرتی تو کہتے ’پیسہ رکھ لو تم لوگ بھی چائے پی لےنا‘۔شمےم صاحب کے اندر بخالت نہےں ہے ۔ لےکن حساب کتاب پائی پائی کاکرتے ہےں ۔اگر چائے کے ساتھ کسی نے وائے کی فرمائش کردی تو حسن امام صاحب کی طرف اشارہ کردےتے اور وہ پارو سے دو پیکٹ بسکٹ منگوالیتے ۔سرور ساجد لقمہ دےتے ’آج کچھ اچھی چےز منگوائی جائے‘ ، منظر صاحب اپنا پاکٹ ٹٹولتے ،کبھی کوئی ہماری طرف بھی اشارہ کر دےتا ۔اس طرح گرم چائے وائے ، کبھی ٹھنڈا، کبھی کوئی اور چےز کی فرمائش سے ہم لوگ لطف اندوز ہوتے رہتے ۔ شعبے کی فضا باہمی تعلقات کے پہلو سے نارمل کہی جاسکتی ہے۔ ’بہ قدرِپیمانہ تخیل‘ سب اپنی اپنی خودی کے سرورمیں رہتے۔ مستقل عداوت،جتھہ بندی، سرد جنگ ، گرماگرمی، آپسی چشمک ،نجوی ٰکا ماحول نہےں رہتا تھا۔ جو کچھ ہوتا وقتی اور عارضی، پھر بات رفع دفع ہو جاتی ۔اس کا کرےڈٹ ففٹی ففٹی سب کو جاتا ہے ۔ہم مےں کوئی بھی جنگ جو

¾ کےنہ پرور اور لنگھی مارنے والا نہ تھا ۔ تعاون اور اشتراک کی مجموعی خوش گوار فضا زےادہ تر قائم رہتی تھی۔اےک دوسرے کی رعایت سب کرتے۔ سن سال کی وجہ سے رعایت کا سب سے زےادہ حق دار مےں تھا ۔اس کے لیے مےں سبھوں کا بے حد ممنوں ہوں ۔کبھی بھی کسی سے ’تو توميں ميں ‘کی نوبت نہےں آئی۔بہر حال ہم لوگ آپس میں چشم پوشی سے کام لیتے تھے۔ اس مےں دوسرے احباب کا کرےڈٹ کم نہےں ہے ۔ مےں بھی اپنے ساتھےوں کا احترام کرتا تھا اور اکثر چشم پوشی سے کام لےتا۔ کسی مسئلے مےں اصولی اختلاف سے آگے بڑھ کربات ذاتی رنجش کا سبب نہ بن جائے ،اس کامےں نے بہت اہتمام کےا ۔باری باری دعوت کھانے کھلانے کا سلسلہ مےں نے پورے اہتمام سے فرمائش کرکے جاری رکھا۔ اس سے بھی تعلقات مےں اعتدال قائم رہا۔ جس چےز کی اصلاح نہےں ہو سکتی تھی ،اس پر صبر سے کام لےا۔اصلاح کے لیے بھی ہر بات کا اےک موقع اورمحل ہے ۔جوشِ اصلاح مےں کبھی بھی مےں نے بے موقع اور بے محل بات پےدا نہےں کی۔ ڈاکٹر حسن امام صاحب نے جب صدارت سنبھالی تو مےں نے مفصل تحریر شعبے کی اصلاح سے متعلق بہ طور مشورہ دے دےا۔پھر اس کے پےچھے پڑنا مناسب نہےں سمجھا۔مےں نے سمجھ لےا تھا کہ حسن و عشق کا اپنا اپنا تصور سبھوں کے پاس ہے اور اس مےں اختلاف بھی ہے۔ کوئی حسن کے مجرد اور صوفےانہ تصور کا قائل ہے ،کوئی مجازی اور ارضی پہلو پر زور دےتا ہے۔بہر حال ہر شخص اپنی کمائی کے ہاتھوں گروی ہے ۔

            حسن کے تصور کی بات آئی تو ڈاکٹر صدےق مجیبی ےاد آتے ہیں۔ وہ ان چار برسوں مےں کئی بار خصوصی کلاس لےنے مہمان کی حیثےت سے آجاتے تھے۔ان کی ہر چےز مےں اےک والہانہ پن ہے ۔ملنے جلنے ،پڑھانے ،اشعار پڑھنے اور ان کی شاعری مےں بھی والہانہ پن ہے ۔ عصرِ حاضر کے ابلتے ہوئے کرب کو جس شدت اور گہرائی سے انھوں نے غزل مےں سموےا ہے، کسی دوسرے کے بس کا روگ نہےںتھا ۔ان کی شاعری ميں جو نقوش ابھرتے ہےں ،وہ بھی بڑے گہرے، شوخ اور تےکھے ہےں ۔مثلاً ان کا شعر ہے:
اپنا سر کاٹ کر نیزے پہ اٹھائے رکھا
بس یہی ضد کہ میرا سر ہے تو اونچا ہوگا
            ان کی شاعری ،گفتار اورکردار سب مےں والہاپن کے ساتھ اےک بے باکی بھی ہے ۔ جب وہ کلاس لےنے شعبے ميں آتے تو مےں ضرور ان سے اشعار کی فرمائش کرتا۔ ان کی غزلوں مےں مجھے اےک نئی دھار کا احساس ہوتا ہے ۔اکثر وہ فرمائش پوری کر دےتے تھے۔ اےک دفعہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود پر گفتگو نکلی،میں نے سوچا :
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خواہ ہوتا
            عمر کے آخری پڑاومیں انھوں نے بادہ خواری کو ترک کرکے حج کا ارادہ کرلیا تھا۔ میں جب تک یونیورسٹی میں رہا۔مےری بہت خواہش تھی کہ رانچی ےونی ورسٹی کا شعبہ

¿ اردو رانچی شہر کے تمام کالجوں اور اساتذہ اردو کا مرجع بنے۔علمی اور ادب نواز لوگوں کے ساتھ مل بےٹھنے کے بہانے بنتے رہےں ۔طلبا ان سب لوگوں سے واقف ہوں اور شہر مےں جو بھی رےٹائر اساتذہ اورادبی وعلمی شخصےتےں ہےں ،ان کو بھےد بھاو سے پرے ہوکر مختلف موقعوں پر جمع کےا جاتارہے اور اخذ و استفادے کا اےسا علمی ماحول بنے جس سے دانش کدہ مےں نئی علمی و ادبی رواےت قائم ہو، لےکن اےسا نہ ہو سکا۔ ایک دفعہ بڑی مشکل سے رانچی شہر کے مختلف کالجوں کے اردو اساتذہ کو جمع کیا گیا۔ رانچی کالج سے ڈاکٹر جمشید قمر بھی شریکِ نشست تھے۔ انھوں نے کئی ٹکنیکل سوالات داغنے شروع کیے۔ لوگوں نے جواب دینے کی کوشش کی۔ اس سوال و جواب کی چاند ماری میں اصل مقصد فوت ہو گیا۔ ان کے قریبی دوست نے آہستہ سے کہا ’اب جمشید قمر صاحب آگئے ہیں:

ہوئے تم دوست جس کے ، دشمن اس کاآسماں کیوں ہو
 میں مسکرا کے رہ گیا۔میںکیا کہتا؟ وہ ان کے ساتھ رانچی کالج میں رہ چکے تھے۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ڈاکٹر جمشید قمر نے مولانا آزاد پر تحقیقی کام کی ایک اچھی روایت شروع کی ہے۔ خیر جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ ادھر الحمد اللہ کچھ زر خےر ذہن تازہ دم اور حوصلہ مندنوجوان اساتذہ رانچی ےونےورسٹی کے مختلف کالجوں مےں آئے ہےں ۔ ان شاءاللہ دو چار برسوں ميں يہ فضا بدلے گی ۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔
***

بیان میر: بقلم احمد محفوظ

ڈاکٹر غضنفر اقبال
09945015964
            ڈاکٹر احمد محفوظ شعبہ شاعری اور تنقید کا مقبول ترین نام ہے۔ نقد نگاری میں احمد محفوظ نے میریاتی تنقید کے حوالے سے اعتبار حاصل کیا ہے۔ خدائے سخن میر تقی میر پر انھوں نے Doctorial Thesis لکھا۔ قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان نئی دہلی کے زیر اہتمام کلیات میر کو مرتب کیا۔ احمدمحفوظ کی تازہ ترین پیش کش” بیان میر“ ہے۔ میر اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں مگر ان کو وہ مقام ومنصب کیوں حاصل نہیں ہوا جس کا وہ استحقاق رکھتے تھے۔ اس بات کا خلاصہ بیان میر کے خالق احمد محفوظ نے ایک جگہ سوال اور جواب کی صورت میں کیا ہے:
            سوال (احمد محفوظ) : میر ہمارے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ با اثر شاعر ہیں۔اس کے باوجود ان کی شاعری کے مجموعی سرمائے کے تئیں ہمارے ادبی معاشرے نے اس درجہ بے اعتنائی اور عدم توجہی کا رویہ کیوں اختیار کیا؟
(بیان میر،ص:۳۵)
            جواب -۱(احمد محفوظ): اس صورت ِ حال میں خود میرکی بد نصیبی کا کچھ دَخل ہوگا لیکن اس کی حقیقی ذمہ داری اس ادبی معاشرے پر عاید ہوتی ہے جس نے ہر زمانے میں میر کی عظمت کے ترانے گائے ہیں۔
(بیان میر، ص: ۳۵)
            جواب-۲ (احمد محفوظ): میر کی حقیقی عظمت کا احساس ہمارے زمانے میں لوگوں کو اب ہونے لگاہے لیکن یہ احساس ابھی اتنا عام نہیں ہوا ہے، جتنا اِسے ہونا چاہےے۔
(بیانِ میر،ص:۴۲۱)
            ڈاکٹر احمد محفوظ کے محولہ بالا سوال و جواب سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ واقعی میر کی شاعری کی طرف اہلِ قلم نے وہ توجہ نہیں دی جس کی وہ مستحق ہے۔ مقام مسرت ہے کہ احمد محفوظ نے شب و روز میر کو سمجھنے اور سمجھانے کے لےے وقف کےے ہیں۔ ” بیان میرکا اولین مقالہ“، ” تذکروں میں محاکمہ میر“ میں مصنف نے بڑی عرق ریزی سے 19 فارسی اور اردو تذکروں میں میر کے ذکر خیر کو تلاش کیا ہے۔ مذکور ہ تذکروں میں اپنی رائے زنی کی ہے۔ تذکرہ نگاری فی زمانہ بیاض نگاری کی ترقی یافتہ شکل تسلیم کرلی گئی ہے۔ کلیم الدین احمدہر فن پارے اور صنف کو رد کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ردِّ تعمیر اُن کے مزاج کا حصہ تھا۔ موصوف نے تذکروں کو بھی لایعنی قرار دیا ۔ اس کا تذکرہ احمد محفوظ نے اپنے مقالے میں کیا ہے۔

            کتاب کا دوسرا مقالہ ” میرکا جہان دیگر“ در اصل کلیات ِ میر کا دیباچہ ہے۔ مصنف نے کلیات ِ میر کی تدوین و تسوید سے قبل میر کے تمام کلیات کا مطالعہ کیا اور اُس کے بعد کلیات ِ میر کو مرتب کیا۔ احمد محفوظ اپنے اُستاد ِ معنوی شمس الرحمن فاروقی کی ایماءپر حیدرآباد دکن آئے اور اُنھوں نے ڈاکٹر معید جاوید ( شعبہ اردو، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد) کی معیت میں حیدرآباد کے دارالمطالعات میں میر کے متعلق کتب کا مطالعہ و مشاہدہ کیا۔ ڈاکٹر احمد محفوظ یہ انکشاف کرتے ہیں:
            ”حکومت آندھرا پردیش کے ادارے Oriental Manu Sprit Library & Research Institute کو بھی دیکھنے کاموقع ملا، جہا ں کلیات میر کا ایک نہایت عمدہ قلمی نسخہ موجود ہے۔ اس نسخے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں میر کا بیشتر کلام شامل ہے اور یہ میر کی وفات سے قبل کالکھا ہوا ہے۔ اس میں دیگر کلام کے علاوہ میر کے بیشتر مرثےے اور سلام بھی موجود ہیں۔
            زیر نظر مقالہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ میر نے اصناف ِ شعر کی کس کس صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ میر کی مثنویاں (38)،قصیدے (8)، رباعیاں (103) ، مراثیہ (34)، اور سلام (5) ہیں۔احمد محفوظ نے اسی مقالے میں میر کے بعض اشعار کی تشریح دل نشیں انداز میں کی ہے۔ ” میرتقی میر اور پست و بلند کا مسئلہ“ بیان ِ میر کا تیسرا مقالہ ہے۔ اس مقالے میں مصنف نے میر کی شاعری کو پست کرنے کے مسئلہ کو اُٹھایا اور میر کے تعلق سے جو غلط فہمیاں عام کی گئی ہیں اس پر اظہار تاسف کیاہے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ فارسی فقرے ”پستش بغایت پست بلندش بسیار بلند“ کی وجہ سے میر جیسے عظیم المرتبت شاعر کو پست و بلند کے مسئلہ کا سامنا کرنا پڑا۔ میرکا مندرجہ ذیل شعر ہی مذکورہ مسئلہ کا ازالہ کرتا ہے:
پست و بلندیاں کا ہے اور ہی طرف سے
اپنی نظر نہیں ہے کچھ آسماں زمیں پر
            ” بیان میر“ کا چوتھا مقالہ ” مقدمہ مزامیر“ پر ایک نظر ہے۔ اس مقالے میں نواب جعفر علی خاں اثر لکھنوی کا انتخاب میر ” مزامیر“ کاناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے۔ اثر لکھنوی کے مزامیر کو مصنف نے ردو قبول کیا ہے اور یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ دورِ جدید میں سب سے زیادہ بہتر طور پر میر کو اثر لکھنوی نے سمجھا اور بیان کیاہے۔
            ” میر کی خیال بندی“ کتاب کا پانچواں مقالہ ہے۔ اس مقالے میں احمدمحفوظ نے میر کی شعریات سے ” خیال بندی“ کو تلاش کرکے نئے آفاق روشن کےے ہیں۔ مصنف کا احساس ہے کہ معنی آفرینی کے علاوہ خیال بندی کے بھی اشعار میر کے یہاں وافر تعدادمیں ملتے ہیں۔ خاطر نشان رہے کہ احمد محفوظ نے اپنی میر والی تحریرات میں معنی و مضمون آفرینی کو تفصیل سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کی سرسوتی اعزاز یافتہ کتاب ” شعر شور انگیز“ کے جلد چہارم میں مضمون اور معنی آفرینی کا مفصل بیان ملتا ہے۔ ہمارے خیال میں فاروقی صاحب کے ”شعر شور انگیز“ کے معنی اور مضمون آفرینی والے حصے کو علاحدہ سے شائع کرنا چاہےے تاکہ سخنورانِ اردو اور نووا ردانِ بساط شاعری اس بات کو سمجھ سکیں کہ شاعری کا میدان، بازیچہ اطفال نہیں ہے اور کلاسیکی شعرا سے ہم سری کرنے سے موجودہ عہد کے شعرا باز آجائیں۔
            احمد محفوظ کی کتاب ” بیان میر“ کا چھٹا مقالہ ” کلام میر میں عام انسانی صورت حال“ پر مبنی ہے۔ مصنف نے اس مقالے میں میر کے چندابیات کی معرفت عام انسانی صورتِ حال کو پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میر کے کلام میں روز مرہ زندگی کی صورت حال اور انسانی سطح کا بیان اس بات کا غماز ہے کہ میر عام زندگی سے بھی سروکار رکھتے تھے۔
            آخری مقالہ ” میر کی غزلوں میں ہندوستانی تہذیب کے عناصر“ کے زیر عنوان ہے۔ احمد محفوظ نے ہندوستان جنت نشان کی قدیم تہذیب اور دور ِ جدید کی تہذیب جن کا تعلق ہند میں قیام پذیر ایک مخصوص طبقہ کی رسومات اور تہوار سے ہے ، اس مقالے میں بحث کی ہے۔
            ” بیانِ میر“ کی تحاریر پکی سیاہی سے سلیس انداز میں بزبان اور بقلم احمد محفوظ بیان ہوئی ہیں۔ ان مقالوں سے طالبانِ میر نئی جہتوں سے متعارف ہوتے ہیں۔ ” بیان میر“ میر تنقید کا ایسا نگارخانہ ہے جس میں کلام میر کے مضمر معنی کو آشکار کیا گیا ہے۔ مصنف نے مقالوں میں بعض جگہ شمس الرحمن فاروقی کے اقتباس اوراقوال کی روشنی میں اپنی بات بصیرت و آگہی سے پیش کی ہے۔ ان کی تحریریں تحقیقی اور تجزیاتی مزاج کی مظہر ہیں۔ میر تقی میر اپنی حیات میں قدر دانی سے محروم رہے۔ آج احمد محفوظ میر کے بڑے قدر دان ہیں۔ وقت سنجیدہ ہے مگر اہل اردو میں وہ سنجیدگی باقی نہیں رہی۔ ایسی صورت حال میں ہم کو پُر اُمید رہنا چاہےے کہ احمد محفوظ مستقبل میں میر تنقید کی دُھند کو صاف کرتے ہوئے میر کے فکر و فن کے جوانب اور جہات متعین کرتے رہیں گے۔اُن کی جگر کا وی اور قلم فرسائی میر تنقید کو عزت بخشتی رہے گی۔ وہ ایک معتبر میر فہم اور میر شناس ہیں۔ بقول میر:
رات تو تھوڑی ہے، بہت ہے سانگ
کے مصداق یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ڈاکٹر احمد محفوظ نے شہنشاہ غزل میر تقی میر کے چند ہی رنگ آئینہ کےے ہیں جو نشانِ امتیاز کا درجہ رکھتے ہیں۔
***

ڈاکٹر محمود: علم وادب کے پاسدار

رونق افروز
بھیونڈی
9371253917
            تنقید و تحقیق، وہ مشکل اور دشوار طلب فن ہے جس سے نبرد آزما ہونے کے لئے سخت آزمائش سے گذرنا پڑتا ہے، تنقید کے مقابلے میں تحقیق زیادہ کٹھن ہے، تنقید تو سامنے کی چیز ہوتی ہے لیکن تحقیق کے لئے زبردست مطالعہ ، عمیق فکر اور وسیع معلومات کے ساتھ ساتھ مدلّل ثبوت ،علمی بصیرت ، ادبی لیاقت نیز تحقیقی ،تہذیبی اور تخلیقی صلاحیت بھی ہونی چاہیے۔ بصورت دیگر تحریر چوں چوں کامربہ بن کر رہ جائے گی۔ شہربھیونڈی کے قلمکاروں کا جائزہ لیاجائے تو سوائے ڈاکٹر محمود حسن الٰہ آبادی صاحب کے اور کوئی اس معیارپر پورا نہیںاترتا ۔
            راقم السطور نے ڈاکٹر صاحب موصوف کے علم وفکر وفن پر کچھ لکھنے کے لیے قلم تو اٹھا لیا ہے لیکن اپنی علمی کم مائیگی کا احساس بھی دامن گیر ہے۔ دراصل موصوف بڑی صفات وکمالات کے مالک ہیں۔ان کی تحریریں انتہائی معیاری،فکر انگیزاور فصیح وبلیغ ہوتی ہیں جنھیں پڑھیے تو بس پڑھتے ہی جائیے۔وہ جس موضوع کوبھی نوک قلم کا محور بناتے ہیں اسے کھنگال کررکھ دیتے ہیں۔اردو ، فارسی،عربی اور انگریزی پر مہارت رکھنے والے اس باوقاراوربارعب شخصیت کا چہرہ مہرہ بڑا نورانی ہے اور وضع قطع تو کچھ اتنا پرکشش اور مقناطیسی ہے کہ جس کے سحرمیں پورا شہر گرفتار ہے۔ ڈاکٹر صاحب بفضل خدا متدین اور ارکان اسلام کے پابند ہیں۔موصوف بظاہر دھان پان نظر آتے ہیں لیکن ان کی تحریریں انتہائی صحت مند اور معیاری ہوتی ہیں۔
            آج کے ادبی معاشرہ میں داڑھی ٹوپی والے فنکاروںکو فنکار کم اور غیر فنکار زیادہ سمجھا جاتا ہے جبکہ یہ نظریہ بالکل غلط ہے۔لیکن ڈاکٹر صاحب کا معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ ان کو سب لوگ طبیب کم اورفنکارزیادہ سمجھتے ہیں۔موصوف جس وقت شیروانی ، علی گڑھ پاجامہ، ٹوپی ، موزہ اور جوتا پہن کر گھر سے باہر نکلتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اردو ادب کا معیار اور تہذیب وتمدن کا وقار چلا آرہا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ وہ گمشدہ قدروں کی بازیافت ہیں تو غلط نہیںہوگا،کیونکہ اس خوش نما اورروایتی لباس میں اب شاذونادر ہی کوئی نظر آتا ہے۔ موصوف کی ولادت ۷۱ ستمبر ۲۳۹۱ءکو قصبہ لال گوپال گنج ، ضلع الٰہ آباد (یوپی) میں ہوئی۔محکمہ تعلیم یوپی کا اعلیٰ ترین امتحان کامل اور جامعہ اردو آگرہ /علی گڑھ کا اعلیٰ ترین امتحان ”ادیب کامل“ پاس کیا۔ اس کے بعد یونانی میڈیکل کالج الٰہ آباد میں داخلہ لیااور ۱۵۹۱ءمیں بورڈ آف انڈین میڈیسین کا پہلا پروفیشنل امتحان پاس کیا نیز اسی سال پرائیویٹ انٹر بھی کرلیا۔بعدازاں عصری تعلیم کے لیے الہ آباد یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔اسی دوران ۲۵۹۱ءمیں بورڈ آف عربک اینڈ پرشین یوپی کا اعلیٰ ترین فارسی امتحان کامل پاس کیااور ۳۵۹۱ءمیں بی۔اے کیااور سرکاری محکمہ میں ملازمت کرلی جو راس نہ آئی اور استعفیٰ دے دیا۔ ۳۶۹۱ءمیںفاضل ِطب کی سند حاصل کی ۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد پہلی بار ۳۶۹۱ءمیں بھیونڈی شہر تشریف لائے لیکن ناسازگار حالات کی وجہ سے وطن لوٹ گئے لیکن جب دوبارہ ۶۶۹۱ءمیں بھیونڈی آئے تو یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ دوستوںکی خواہش پر مطب کرتے ہوئے انگریزی میں ایم ۔اے کرلیا۔ ایم۔اے کرنے کے بعد موصوف کے مضامین علمی،ادبی اور تحقیقی نوعیت کے ہونے لگے ۔ قومی وبین الاقوامی سیمیناروں میں شرکت کرنے والے ڈاکٹر صاحب سیاسی ،سماجی، تعلیمی ، قانونی، ادبی اور مذہبی عنوانات پر مفصل مضامین لکھنے لگے جو ملک اور بیرو ن ملک کے مقتدر علمی وتحقیقی جریدوں میں شائع بھی ہونے لگے۔جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔ نشاة الثانیہ ممبئی، نوائے ادب (ممبئی)، برہان (دہلی)، معارف (اعظم گڑھ)، زندگی (نئی دہلی)، نوائے اسلام (دہلی)، ترجمان (دہلی)، محدث (وارانسی)، افکارعالیہ(مﺅ) مطالعات (دہلی)، تحقیقات اسلامی(علی گڑھ)، اقبال ریویو (حیدرآباد)، سفیر اردو(کراچی)، اللہ کی پکار (دہلی)، سابر نامہ(احمد آباد)، اردو بک ریویو (دہلی)اور تحریرنو(ممبئی) وغیرہ۔ ڈاکٹر صاحب کی مختلف موضوعات پر اب تک چار کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔جن میں ”مسنون نکاح“، دعوت دین کا انبیائی طریق کار، ادبیات محمود (حصہ اول) اور مقالات محمود(حصہ اول)، مزید متعدد کتابوں کے مسودے بھی منتظر طباعت ہیں جن میں ادبیاتِ محمود(حصہ دوم و سوم)، تنقیداتِ محمود(حصہ اول ودوم)، مقالاتِ محمود (حصہ دوم وسوم)، اور دلائل قاطعہ پر احادیث بخاری کا مطالعہ ( مراجعات) ۔ اگر درج بالا مسودے بھی شائع ہوگئے ہوتے تو آج ادب عالیہ میں ڈاکٹر محمود حسن الٰہ آبادی صاحب کا ایک اعلیٰ مقام ہوتا۔لکھنے لکھانے کا آغاز ۳۵۹۱ءہی میں ہوچکا تھا۔ سب سے پہلا مضمون ”روس میں اسلام“کے عنوان سے سہ روزہ ”دعوت“ دہلی میں شائع ہوا،لیکن بار بار کی نقل مکانی کی وجہ سے مضمون ضائع ہوگیا۔ بقول ایڈوکیٹ عبدالقدیر الٰہ آبادی ، ڈاکٹر محمودحسن ایک کثیر الجہات شخصیت کے مالک ہیں۔ جہاں ایک طرف وہ معروف اسلامی اسکالر ہیں،داعی ہیں،مبلغ ہیں وہیں دوسری طرف ادیب ہیں، تجزیہ وتنقید نگار ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کے یہاں بلا کا تنوع بھی ہے۔ بالکل صحیح فرمایا ہے عبدالقدیر صاحب نے۔ ڈاکٹر محمود صاحب خود فرماتے ہیں ،”ایم ۔اے کرنے کے بعد میرا تحریری ذوق یکسر بدل گیا۔علمی اور تحقیقی کتابوں سے الفت اوررغبت پہلے بھی تھی اور اب میری تحریر کا ا ظہار بھی علمی وتحقیقی ہوگیا ہے۔ (ادبیاتِ محمود، ص۹)۔ ڈاکٹر صاحب واقعی بڑی صفات وکمالات کے مالک ہیں۔ ان پر ایک چھوٹا سا مضمون قلمبندکرنا ان کی شان کے منافی ہے۔ان پرتو ایک ضخیم کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔ پھر بھی ’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘کے مصداق گلاب نہ سہی گلاب کی پنکھڑی ہی سہی۔ ڈاکٹر صاحب ایک قادرالکلام خطیب ہیں۔فن خطابت پر انھیں ملکہ حاصل ہے۔ جب وہ مائیک سنبھالتے ہیں اور فصیح وبلیغ الفاظ میں مخاطب ہوتے ہیں توایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ نہیں بلکہ اردو ادب کا معیار مخاطب ہو۔ان کی زبان انتہائی شائستہ اور بیان اتنا شگفتہ ہوتا ہے کہ سامعین انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ موصوف کی طول کلامی ضرورکھلتی ہے لیکن اندازگفتگو بڑا پیارا ہوتا ہے ، ایک بار کا ذکر ہے ،انصاری صافیہ گرلز ہائی اسکول میں جناب غلام نبی مومن کی کتاب کا اجراءتھا جس میں تمام مقررین کو صرف دس دس منٹ کا وقت دیاگیا تھالیکن جب ڈاکٹرموصوف کا نمبر آیا تو فرمایا کہ میرامعاملہ یہ ہے کہ جب میں اسٹیج پر آتا ہوں اور مائیک سنبھالتا ہوں تو میرا بی پی بالکل لو (کم)رہتا ہے، آہستہ آہستہ جب مخاطب ہوتاہوںتو میرا پریشر نارمل ہونے لگتا ہے اورہائی ہوتے ہوتے دس منٹ لگ جاتا ہے تو میں ان دس منٹوں میں کیا بولوں، جس پر سامعین مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ادبی وعلمی محفلوں میں موصوف کو کم ہی یاد کیا جاتا ہے۔ لکھنا پڑھنا نہ ان کا شوق ہے ، نہ پیشہ اور نہ ضرورت۔وہ تو محض ایک ذمہ داری یا دوسرے لفظوں میں اپنا فرض سمجھ کر لکھتے پڑھتے ہیں۔جہاں تک لکھنے لکھانے کا معاملہ ہے تو وہ محض تفریح طبع کے لیے نہیں لکھتے۔ان کی تحریر کاایک مقصد ہوتا ہے۔ہاں کبھی کبھار شعراءوافسانہ نگاروںکی درخواست پر قلم اٹھالیتے ہیں لیکن انھیں آئینہ دکھانے سے بھی نہیں چوکتے۔ ویسے افسانوی ادب خصوصاً منٹو جیسے رجحانی ادب سے تو انھیں خدا واسطے کا بیر ہے۔ وہ فرماتے ہیں،”آخر یہ بھی کوئی ادب ہوا جس میں فحش زدگی کے ماسوا دگر کچھ بھی نہ ہو۔“ زیادہ تر ادب ، معاشرہ اور شریعت میں در آئی بے اعتدالیوں پر لکھتے ہیں۔ اس لیے ان کے مضامین طوالت کے شکارہوجاتے ہیں۔ اب اسے کوئی طول کلامی کہے یا کچھ اور وہ تو موضوع کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔عام طور پر مبصرین تبصرے کے لیے موصولہ کتابوںکو جستہ جستہ دیکھ کر تبصرہ کرتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب کا معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ وہ نہ صرف کتابوںکو بغور پڑھتے ہیں بلکہ قابل تنقید مقامات پر قلم سے سرخ نشانات بھی لگاتے چلے جاتے ہیں تاکہ تبصرہ کرنے میں زیادہ دشواری نہ ہو۔
            ڈاکٹر صاحب بعض مضامین ڈی ٹی پی کرنے کے بعد پروف ریڈنگ کے لیے خاکسار کودے دیتے ہیں جنھیں پڑھنے اور سمجھنے کے بعد دماغ روشن ہوجاتا ہے اور تمنا کرتا ہے کہ کاش وہ بھی ایسے ہی مضامین لکھے لیکن علمی فقدان اور مطالعہ کی کمی کی وجہ سے وہ موصوف جیسے معیاری مضامین لکھنے سے قاصر رہتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ بیاسی (۲۸) سال کی عمر میں بھی ڈاکٹر صاحب بالکل چاق وچوبندہیں۔جہاں تک ان کے لکھنے لکھانے کا تعلق ہے تو ان کی پہلی تحریر ہی آخری ثابت ہوتی ہے اور جب وہ لکھنے بیٹھتے ہیں تو جیسے بلا سوچے سمجھے اور بلا رُکے لکھتے چلے جاتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان پر الہام ہورہا ہے۔راقم نے ایسا لکھاری آج تک نہیں دیکھا۔
            بقول ڈاکٹر پروفیسر عبدالحق”ڈاکٹر محمود حسن الٰہ آبادی کی دانش وری اور علم دوستی کوآفرین کہتا ہوں۔ وہ عصر حاضر میں تفکیر دینی اور ادراک وآگہی کی روشن قندیل ہیں۔ان کی ذات سے آبروئے علم کو وقاروعظمت حاصل ہوتی ہے۔ ان کے مطالعہ کا بے پایاں انہماک کسی استعجاب سے کم نہیںہے۔ ناچیز نے یہ استغراق کہیںاور نہیں دیکھا“(ادبیاتِ محمود)۔
            پروفیسر صاحب کے اس اقتباس سے ثابت ہواکہ ڈاکٹر موصوف نہ صرف ایک عبقری طبیعت کے مالک ہیں بلکہ وہ ایک ایسی علمی وادبی حیثیت رکھتے ہیں کہ جس کی مثال مشکل سے ملے گی۔راقم الحروف کو فخر ہے کہ وہ موصوف کے تلامذہ میں سے ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس خاکسار کو ادب میں انگلی پکڑکر چلنا سکھایا ہے۔ اس لیے وہ ان کا انتہائی ممنون وشکر گزار ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی پہلی ادبی تنقید ی کتاب ”ادبیاتِ محمود“(حصہ اول) میںجن موضوعات کو موضوع ِ قلم بنایا ہے انھیں یاد گار بنادیا ہے۔مثال کے طور پر چند خاص مضامین کے عنوان کچھ اس طرح ہیں،”ادب غیر ادب، اردو ادب پر مغربی فکر کے اثرات، ادراک ِ زوالِ امت، اردو تنقیدکا سفر، نظریاتی ادب، مقصدِ زندگی کا اسلامی تصور اور اسلام اور تمثیل نگاری“وغیرہ۔
            ڈاکٹر محمود صاحب کی نظر نہ صرف اردو ادب پر ہے بلکہ وہ عربی ،فارسی اور انگریزی ادب پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ موصوف سے جو لوگ واقف ہیںوہ ان کی علمی ،ادبی اور تحقیقی صلاحیت کے اچھی طرح قائل ہیں۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کا دماغ ،دماغ نہیں بلکہ کمپیوٹر یاانسائیکلوپیڈیا ہے۔دراصل ان کے حافظے میں ایسے ایسے مواد ، ایسے ایسے تاریخی واقعات اور شواہد مخفی رہتے ہیں کہ جب وہ مضمون نویسی کے لیے بیٹھتے ہیں تواپنی یادداشت کے سہارے لکھتے اور حوالے دیتے چلے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ہمہ جہت شخصیت کچھ ایسی ہے کہ جس کے کئی پہلو ہیں مثلاًوہ ایک غیر سند یافتہ عالم دین واسلامی اسکالرہیں۔قرآن ، حدیث، فقہ اور دیگر مسئلے مسائل کی کتابوں پر آپ کی گہری نظر ہے۔موصوف نے ایک زمانہ تک ایک مسجد میں بحیثیت خطیب خدمت انجام دی ہے۔ ۴۸۹۱ءسے اسی مسجد میں درس قرآن بھی دے رہے ہیں۔ ان کے تقریباً سارے مضامین قرآن وحدیث پر مبنی ہوتے ہیں۔آپ جماعت اسلامی کے فعال وسرگرم رکن ہیںاور جماعت کی طرف سے تفویض کردہ ذمہ داریاں بخوبی انجام دیتے رہتے ہیں۔اسلام کے اصولوں پر خود چلتے ہیں اور اپنے متلعقین کو بھی چلنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی تنقید و تحقیق سے متعلق ” مقالات محمود “ میں پروفیسر عبد القادر جعفری فرماتے ہیں ” ڈاکٹر صاحب ان محققین اور ناقدین میں ہیں جن کی ژرف نگاری ، وسعت مطالعہ، استدلالی ذہن اور تنقیدی بصیرت کے سبھی ارباب فکر و نظر معترف ہیں ۔
            ڈاکٹر صاحب ایک زبردست محقق ہیں۔ اپنے تحقیقی مضامین میں ٹھوس حوالوں ،مضبوط ثبوتوں اور دلیلوں پر مبنی شواہد پیش کرتے ہیں ۔ مراجعات ،تعلیقات اور حواشی تو مضامین کے جان ہوتے ہیں۔
            موصوف ایک منجھے ہوئے نقاد ہیں ۔جب وہ تنقید کرنے پر اتر آتے ہیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیتے ہیں۔ تنقید سے متعلق ارشادگرامی ہے،”میرے نزدیک تنقید کا مل عدل وانصاف کا تقاضاکرتی ہے اور عدل وانصاف کے بغیر جو چیز پیش کی جائے اسے تنقید نہیں کہا جاسکتا۔“ بالکل صحیح فرمایا ہے موصوف نے۔جب تحریر کے ساتھ عدل وانصاف ہی نہیں ہوگا تووہ تنقید کیسے کہی جائے گی۔یوں تو ملک میں بہت سارے نقاد ہیں لیکن متنی نقد کی طرف کسی کی توجہ نہیں ،لیکن ڈاکٹر موصوف متنی تنقید پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ متنی تنقید پر انھیں مہاراشٹراردو ساہتیہ اکیڈمی کاایوارڈ بھی مل چکا ہے اور دوسرے تنقیدی مسودہ ’مقالات محمودحصہ اول‘پر مالی تعاون بھی۔
            تنقید کی جو قسمیں اب تک وجود میں آئی ہیں ان میں سے ایک متنی تنقید ہے۔ لیکن یہ قسم تنقید کی دوسری اقسام میں ضم ہوجاتی ہے مثلاً ترقی پسند تنقید، نفسیاتی تنقید، سماجی تنقید، جدید تنقید، مابعد جدید تنقید وغیرہ۔اس ذیل میں شاعری اور افسانوں اور ناولوںپر ہمارے نقادوں نے اور خصوصاً ترقی پسندوںنے بیشتر کام کیا ہے لیکن اردو ادب العالیہ پر متنی تنقید کا کوئی نمونہ ابھی تک سامنے نہیں ہے۔ چونکہ متنی نقاد کے لیے لازم ہے کہ جس موضوع کی کتاب پر وہ تنقید کررہا ہے اس موضوع پر وہ حاوی ہو۔اس لیے ادب العالیہ میں بعض اسلامی عنوانات پر اساطین ادب کی جو تصنیفات ہیں ان پر متنی تنقید کرنے والااب تک کوئی نہیں تھا۔مجھے محترم ڈاکٹر محمود حسن الٰہ آبادی کا اس سلسلے میں تعارف کراتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ مقالات محمود (اول) مکمل طور سے متنی تنقید کا نمونہ ہے۔اس میں اردو ادب العالیہ پر پانچ مقالے ایسے ہیں جن میں سرسید ، حالی، ڈپٹی نذیر ، علامہ شبلی اور مولانا ابوالکلام آزاد کے بعض افکار کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اسی طرح اقبالیات والے حصے میں پروفیسر عبدالحق صاحب کی دو کتابوں کے علاوہ انور شیخ کے افکار پر تنقید ہے۔اقبالیات پر عبدالرحیم قدوائی صاحب کے ایک ترجمہ پر انھوںنے متنی تنقید کی ہے جسے قبول عام حاصل ہوا ہے۔
            ڈاکٹر موصوف وہ مورّخ ہیں کہ جب تاریخی مضامین لکھنے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں تو تاریخی واقعات اور مقامات کاحوالہ کچھ اس طرح دیتے ہیں جیسے وہ سب ان کی آنکھوں کے سامنے گردش کررہے ہوں۔ ویسے تاریخ نویسی آسان نہیں ہے ،پتّا پانی کردیتا ہے۔
            ڈاکٹر محمود صاحب فاضلِ طب اور تجربہ کار طبیب بھی ہیں ۔انھیں جدید سائنسی اور میڈیکل کی تمام ٹیکنالوجی سے واقفیت بھی ہے ۔ وہ فرصت کے لمحات میں لکھنے پڑھنے کے کام میں مشغول رہتے ہیں۔آپ شاعر تو نہیں لیکن آپ کے اندر شعر کہنے اورسمجھنے کی بھرپور صلاحیت ہے۔ یہی نہیں بلکہ فن شاعری کے جملہ رموزونکات میں وہ کلّی درک رکھتے ہیں۔آپ شاعری کو جواز پیغمبری نہیں بلکہ عطیہ خدا وندی سمجھتے ہیں۔تبصرہ کے لیے تو مجموعہ ہائے کلام بارش کی طرح برستے ہیں لیکن جو لائقِ تبصرہ مجموعہ ہوتا ہے اسی پر تبصرہ کرتے ہیں۔
***

اُ ردو مرثيہ اور غير مسلم شعرا ءکی خدمات
اقبال حيدر کرمڈی
لکچرار لنگراج کالج۔بلگام
            اردو ادب کی کائنات ميں نثری تخلےقات کے ساتھ ساتھ جہاں نظم کی دنيا کے مختلف اصناف سخن ،حمد ، نعت، قصيدہ ،مثنوی ،ہجو ،غزل ، گيت، اور نظم جديد وغےرہ کو غير معمولی حاصل اہميت رہی ہے وہاں مرثےہ بھی بڑی اہميت کا حامل رہا ہے گرچہ ےہ صنف زمانے کے بدلتے حالات کے تحت متروک تو نہےں البتہ بہت کم ضرور ہوگئی ہے۔ قدےم دور مےںبے شمار شعرائے کرام نے اسے سنوارا ، نکھارا،اور اےک نئی جِلا بخشی ہے ۔ مرثےہ اس قدر مشہور فن بن گےا تھا کہ اس سے اردو کے غےر مسلم شعرا بھی نہ بچ سکے اوراسے اپنی عقےدت مندی اور جذبات و احساسات کا ذرےعہ اظہار بناےا۔
            ’مرثےہ‘ عربی لفظ ’رثاء‘ سے مشتق ہے ، جس کے لغوی معنٰی ” مےت پر رونے کے “ ہےں۔،مگر اصطلاحی حےثےت سے ےہ لفظ عربی مےںشاعری کی اُس صنف کے لئے استعمال ہوا ہے جس مےں کسی عزےز کی موت پررنج و غم کا اظہار کےا جاتا ہے۔ عربوں کے ےہاں حقےقت مےں ’رثا‘ قصےدے کی اےک نوع تھی۔قصےدہ مےں زندہ لوگوں کی تعرےف و توصےف بےان کی جاتی تھی جبکہ بعد مےںمرثےہ کے نام سے مرے ہوئے لوگوں کے اوصاف بےان ہونے لگے ۔پھر رفتہ رفتہ رنج و غم ،حزن و ملال کے اظہار مےںرونا دھونا بھی شروع ہوا۔مثمم،ابن نوئرہ،خنسہ،حماثہ ،متنبّیٰ،اس کی زندہ مثالےں ہےں۔ بعد مےں ےہ صنف فارسی مےں بھی آ گئی ، اور ہوتے ہوتے اُردو تک پہنچ گئی ۔ فارسی میں مرثےے کا اولےن نمونہ ’شاہنامہ ‘ ہے جسے فردوسی نے سہراب کی موت پر لکھا تھا۔ اسی طرح ’فرخی‘ کو بھی اولےن مرثےہ نگار کے طور پرجانا گےا ہے،جنہوں نے محمود غزنوی پر مرثےہ لکھا۔پھر ’نوحہ سوز‘کی مختلف شاخےں پھوٹ نکلےں۔
            مرثےہ گوئی مےں چونکہ مذہبی عقائد و جذبات ہوتے تھے،اس لئے اکثر شاعر فنی پہلوﺅں سے بے نےاز تھے۔ےہی وجہ ہے کہ بے ڈھنگے شاعر کو مرثےہ خواں سمجھا جاتا تھا۔اسی لئے تو ےہ کہاوت مشہور ہو گئی کہ’بگڑا شاعر۔مرثےہ گو‘ پھر جب مستند شعراءنے اس طرف توجہ مبذول کی اور فنی محاسن پر زور دےاتو ےہ صنف بھی شاعری کا اےک نماےاں حصہ بن گئی ۔ (۱)
            ہندوستان مےں مرثےہ کی ابتداءکس نے کی ، اس مےں اختلاف رائے ہے،مگر زےادہ تر ولی جو شاعری کا باوا آدم سمجھا جاتاتھا،سانحہ کربلا پر مثنوی لکھنے کی وجہ سے اولےت کا درجہ دےا گےا ۔اس طرح مرثےہ کی دو اقسام بن گئےں۔اےک شخصی مرثےے جو عرب مےں رائج تھے اور دوسرے سانحہکربلا کے مرثےے جو اےران و ہندوستان مےںقلم بند کےے گئے۔(۲)

            اُ ردو مرثےے کے اولےن نمونے ہم کو دکن ہی مےں ملتے ہےں۔محمد قلی قطب اور ملا وجہی کے ہاں اردو کے اولےن مرثےے دستےاب ہےں،جو سانحہ کربلا پر لکھے گئے تھے۔ان مےں سب سے پہلی تصنےف ’اشرف ‘ کی ’نو سر ہار ‘ ہے جو 909ءمےں لکھی گئی ہے ۔پھر اس کے بعد شمالی ہند کے شعراءنے بھی اس صنف پر طبع آزمائی کی اور سانحہ کربلا کے واقعات کو اس دل سوز انداز مےں پےش کےا کہ ہر کوئی اس کی طرف راغب ہونے لگا۔واقع ےہ تھا کہ لوگ حضرت امام حسےن رضی اللہ عنہُ و اہل بےت پر فدا تھے اور کربلا کا واقعہ اےسا دل ہلانے والا واقعہ تھا کہ ہر کسی کا جگر کانپ اٹھتا ہے ۔اسی لئے لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لےا۔ ان مےں مےر درد اور سودا نے کمال دکھا ےا ۔ اس کے بعد مےر ضمےر، مےر خلےق، فصےح ،دلگےر وغےرہ نے اس مےں مہارت حاصل کی ۔ انےس و دبےر نے تو اس فن کو معراج تک پہنچا دےا۔ پوری اردو شاعری پر انےس و دبےر کی گونج تھی، جنہوںنے شہدائے اہل بےت کی مدح و ثنا اور ان کے دردناک اور سبق آموز حالات و واقعات بےان کرنے مےں کمال و مہارت حاصل کی ۔ ےہاں تک کہ سانحہ کربلا کے مرثےے کو ثواب کادرجہ دےا جاتا تھا،تاکہ سامعےن پر رقت طاری ہواور ان کے دلوں مےں آل ِ رسول سے ہمدردی پےدا ہو۔ اسلام اوردےن پر عمل کا جذبہ پےدا ہو۔ (۳)

            علی جواد زےدی لکھتے ہےں۔
            ” نذےر کی قلندری ۔ضمےر اور خلےق کی بےانےہ خوش سلےقگی،اقبال کی فکری گہرائی دبےرکی جذباتےت، اور انےس کا رزمےہ آہنگ،بزم آرائی ، اعلیٰ اقدار سے وابستگی، وحدت تصور و تنظےمِ خےال کے ساتھ ان سب کے اظہار کا سلےقہ ،مرثےہ کو بام عرو ج تک لے گیا۔انےس اور دبےر نے مرثےے کے آغاز مےں بڑا تنوع پےد ا کےا۔“ (۴)
            سانحہ

¿ کربلا کا واقعہ اتنا دلسوز تھاکہ مسلم تو مسلم،غےر مسلم کی بھی آنکھےںنم ہو جاتی تھےں۔ ےہی وجہ ہے کہ اس دور کے غےر مسلم شعراءکرام نے بھی مرثےہ نگاری پر طبع آزمائی کی اور اپنے دلی جذبات واحساسات کو بےان کےا۔ اٹھاروےں صدی مےں چندولال جو مےر عالم کے درباری وکےل تھے۔فارسی مےں مہارت حا صل کی، اور فارسی کے اچھے شاعر کی حےثےت سے شہرت حا صل کی ،اپنا تخلص شاداں رکھتے تھے۔انہوں نے ’ عشرت کدہ

¿ آفاق نثری تخلےق کے علاوہ قصےدہ ،قطعات، اور مرثےے لکھے ۔ ان ہی کے دربار مےں مکھن لال مکھن شاعر تھے جن کے قصےدے اور مرثےے بہت مشہور و مقبول ہوئے ۔

چند اشعار ملاحظہ ہوں:
آج پانی کے لئے وہ تشنہ لب حےران ہے
ہائے آفتاں جو راست ظلم طوفان ہے
ےعنی کربل بن مےں سرور بے سروسامان ہے
بے سفےنہ آل احمد اس مےں گردان ہے
            مہاراجہ چندو لعل کے زمانہ شعر و شاعری مےں اےک نام بہت اہم تھا’کشن پرشاد شاد‘ ۔ ےہ نرےندر پرتاپ کے لڑکے تھے ۔1864ءمےں حےدرآباد مےں پےدا ہوئے ۔عربی ، فارسی ، تلنگی، اور مرہٹی کے علاوہ انگرےزی زبان مےں تعلےم حاصل کی۔شاد کے والد صوفی منش آدمی تھے ۔ اس کا اثر شاد پر پڑا۔
            مہاراجہ چندو لعل کی طرح کرشن پرشاد شاد بھی ادےبوں کے سرپرست تھے ۔ان کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہےں۔
            1896ءمےںان کا لکھا ہوا اےک مطبوعہ مرثےہ دستےاب ہوا ہے ۔اس مرثےہ کا عنوان ” ماتم حسےن ؓ “ہے ۔ےہ مرثےہ 92بندوں پر مشتمل ہے ۔ چند شعر حاضر ہےں:
گھر کو برباد کےا گھر کے نگہ بانوں نے
قافلہ لوٹ لےا مل کے حدی خوانوں نے
صدقہ مےں پنجتن پاک کے ہم شاد رہےں
عاقبت خےر ہو، دنےا مےں ہم آباد رہےں
            اسی طرح 1681ءمےںکالی داس گپتا رضا جو رام راﺅ کی حےثےت سے جانے جاتے تھے، انہوںنے حضرت علی عباس پر ”روضة الشھدا“ کے عنوان سے مرثےہ لکھا ۔چند شعر ملاحظہ ہوں:
ےہ سن کے آہ جگر سے حسےن نے کھےنچی
کہا کہ اے جگر و جان مرتضیٰ و علی
کسے بتاﺅں مےں حالت جگر کی اور دل کی
            اور آگے بڑھےں تو مکن داس ،بالاجی تسمباک،جنہوں نے ” تارا“ تخلص رکھا تھا ، مرثےہ مےںاپنا نام کماےا۔سوامی پرساد نے بھی اسی زمانے مےں علی اصغر پر مرثےہ لکھااور ہندی مےں اس کا ترجمہ کےا۔منشی چنو لال لکھنوی تخلص طرب نے ”دلگےر“مرثےہ لکھ کر شہدائے کربلا کو عقےدت بھری تہنےت پےش کی ۔ راجہ بلوان سنگھ جو مہاراجہ جےت سنگھ کے فرزند تھے اور اپنا تخلص راجہ رکھتے تھے ، مرثےہ مےںاپنا نام کماےا۔ اور آگے بڑھےں تو لالہ رام پرشاد تخلص بشر نے بھی مرثےہ لکھا، جس مےں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے اوصاف حمےدہ بےان کئے گئے ہےں۔بعض لوگ لالا رام کو مرثےہ کا باقاعدہ شاعر نہےں تسلےم کرتے مگر ” تعزےہ داری “ کلام ضرور کہا ہے ،جو مرثےہ جےسا ہی ہوتا ہے ۔اودھ کے نوابوںکے زمانے مےں لکھنو کے اےک شاعر راجہ تکےت رائے اور راجہ بلاس رائے نے کربلا پر مرثےے لکھے۔
            غرض اور بھی کتنے ہی نام ہےںجنہوں نے مرثےہ مےںزور آزمائی کی اور اسلامی تہذےب سے دور ہونے کے باوجود اےسی مہارت دکھائی کہ تارےخ کے سنہرے اوراق مےں ان کو ادب و احترام کے ساتھ ےاد کےا جاتاہے ۔ان مرثےہ خوانوں مےں اےک نام بڑے احترام کے ساتھ نماےاں نظر آتاہے،وہ ہے اودت نارائن چکبست۔آپ پنڈت گھرانے سے تعلق رکھتے تھے،آپ کے والد پنڈت برج نارائن چکبست تھے ۔
            اب ےہاں سے شخصی مرثےہ کا آغاز ہوتا ہے ۔ جےسا کہ ہم سب جانتے ہےں،مرثےے دو طرح کے مانے گئے ہےں۔اےک واقعہ کربلا اور دوسراشخصی مرثےہ چکبست ،انےس و دبےر کے سخت مداح تھے اور ان کے مرثےوں سے خصوصاََ بہت متاثر تھے ۔لہٰذا انہوںنے بھی خود اےسے مرثےے لکھ کر مثال قائم کی اور بذات خود انےس و دبےر کے فن کو نکھارا جو بلا شبہ ان کا عظےم کارنامہ ہے ۔انہوںنے کل 9مرثےے لکھے ہےںجو حسب ذےل ہےں۔مہادےو گوند رانا، پرتاب کشن گرٹو،اجودھےا ناتھ آغا،گنگا پرساد ورما ، تےج نارائن چکبست،گوپال کرشن گوکھلے،بشن نارائن درد، اقبال نرائن، بال گنگا دھر دتلک۔چند شعر ملاحظہ ہوں: (۵)
کس کے ماتم مےںےہ سامان سےہ پوشی ہے
کچھ عجب طرح کی احباب مےں سرگوشی ہے
جس کو انسان بھلادے ےہ وہ آزار نہےں
ےہ ہے وہ زخم جو مرہم کا طلب گارنہےں
            درچرن سنگھ ،نابھا کے اےک مشہور و معروف شاعر ہےں،اردو مےں ان کی ناقابل تردےد خدمات ہےں۔انہوںنے پروفےسر جگن ناتھ آزاد پر اےک مرثےہ لکھا ہے۔اس کے چند شعر حاضر ہےں: (۶)
تو نے پوجا ہے جو اقبال کی فن کاری کو
تو نے پرکھا ہے جو دیں دار کی سرشاری کو
دےر تھوڑی سی ہے، محفل مےں اجالا ہوگا
تےرے اےثار کا انداز نرالا ہوگا
            اسی طرح خود جگن ناتھ آزاد نے پنڈت جواہر لال نہر و پر مرثےہ لکھا ہے ۔
چپ ہوگےا ہے کےو ں ؟ ےہ زمانے کو کےا ہوا
اے کےف زےست ،تےرے ترانے کو کےاہوا
            مےکش اکبر آبادی جواہر لال نہرو کے غم مےں” رہبر اعظم “ کے عنوان سے اپنی عقےدت ےوں بےان کرتے ہےں:
زمےں نوحہ کرے، آسمان خوں برسائے
کہ اہل ہند نے کھوےا ہے رہبر اعظم
            اور آگے بڑھےے تو اندرا گاندھی کا سانحہ رونما ہوتا ہے۔اس موقع پر جگن ناتھ آزاد نے اندرا گاندھی پر مرثےہ لکھ کر اس طرح خراج عقےدت پےش کی ہے :
ےہ خون جو آج بھی ترے دامن پہ ہے رواں
ہندوستان کی روح مجسم کا خون ہے
            مےکش لکھنوی جو ضلع بارہ بنکی ےوپی کے اےک مشہور ادےب ہےںاور جن کی دو کتابےں ”مےکش کدہ “ اور ” جام مےکش“ منظر عام پر آ چکی ہےں، اپنے مرثےہ مےں ےوں مخاطب ہےں۔ (۷)
صاحب اختےار کے چرچے
عظمت پر وقار کے چرچے
ہر طرف سوگوار کرتے ہيں
ماتم غمگسار کے چرچے
            ٹوبہ ٹےک سنگھ جو ”رتن سنگھ کے فرزند ہےں”کاٹھ کا گھوڑا‘ ’سفر در سفر‘ ’روپ انوپ‘ ’ہےر

¾وارث شاہ ‘ ادارئے ‘کے مصنف ہےںاور اےک اچھے شاعر بھی تسلےم کئے جاتے ہےں۔جبلپور آپ کی پےدائش ہے۔موہن داس کرم چند گاندھی پر لکھے ہوئے مرثےہ کے ےہ شعر دےکھئے ۔ (۸)

کھل گےا باب الم، ماتم منانا چاہئے
رو پڑےں سب اہل غم ماتم منانا چاہئے
ايسی دلکش رُت کہاں ہے موسم پت جھڑ ميں اب
بجھ گئی شمع حرم ماتم منانا چاہئے
            باوا کرشن گوپال مغموم، اےک نامور شاعر، جو نےو جرسی، مےں مقےم تھے ،انہوںنے اس وقت اندرا گاندھی کے غم مےں جو مرثےہ لکھا،اسے بہترےن مرثےہ کہاجا سکتاہے ۔
يہ کس کے غم ميں ہےں پرنم ہزارہا آنکھيں
يہ ڈھونڈتی ہيں کسے حسرت آشنا آنکھيں
تمام روئے زميں پر ےہ کس کا ماتم ہے
بےان ہو نہ سکے جو وہ شدت غم ہے
            کملا پت سہائے ماہر بلگرام کے مشہور شاعرتھے۔وہ اپنے مرثےہ مےں اپنے غم کا اظہار ےوں کرتے ہيں:
اند را جس نے سب کو پےار دےا
سنتے ہےں آج اسی کو ماردےا
            ےہ چند نمونے اقتباس کے طور پر پےش کئے گئے ہےں،ورنہ اور بھی بے شمار نام ہےںجنہوں نے مرثےے لکھ کر فن مرثےہ کو دوامی شکل دے دی ان مےں واحد پرےمی(بھوپال) ےوگےندر پال صابر (مےن پوری ےو پی) راجےو موہن شاداب (مےرٹھ) راج پرےمی (بنگلور) وغےرہ قابل ذکر ہیں۔
            غرض اردو مرثےہ کے فروغ مےںغےر مسلم قلم کاروں نے بھی فن کا مظاہرہ کےا ہے ۔ےہ سلسلہ حسرت وےاس اور غم کی شکل مےںگاہے گاہے اب بھی جاری ہے۔اس مےں شک نہےں کہ عربی و فارسی سے اورسانحہ

¿ کربلا سے آےا ہوا ےہ فن اپنی بلندی پر تو نہےں مگر آج بھی زندہ ضرور ہے اور بلا شبہ اردو ادب مےں مسلم قلم کاروں کے ہم دوش غےر مسلم قلم کاروں نے بھی اس مےں بہت نام کماےا ہے۔اردو جو گنگا جمنی تہذےب کا گہوارہ کہلاتی ہے اردو زبان کو اپنا کر اس سے بے انتہا محبت سے اس کی چاشنی اور شگفتگی کو سلام کےا ہے ۔ہم مبارکباد دےتے ہےں ان غےر مسلم قلم کاروں کو جو ہم زبان ،ہم تہذےب اور ہم مذہب نہ ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں کی طرح بولتے رہے ہےںاور ہما ر ی شاعری کو پروان چڑھایا۔ےقےنا مرثےہ گوئی اےک نازک فن ہے لےکن اس کے باوجود بے شمار غےر مسلم قلم کاروں نے اردو مرثےہ گوئی کو اےک منزل تک پہنچانے مےں مسلم قلم کاروںہمدوش و ہم رکاب رہے ہيں۔

حواشی:
(۱) آب حےات ،مصنف مولوی محمد حسےن آزاد، ص: ۸۴۱۔
(۲) دکن مےں مرثےہ اور عزاداری، مصنف ڈاکٹر رشےد احمد موسوی،ص: ۷۲۔
(۳) چکبست ،رام لعل،ص: ۶۲۔
(۴) ملا وجہی،مصنف ڈاکٹر جاوےد وششٹ۔
(۵) آج کل،چک بست صدی برسی نمبر فروری ۳۸۹۱، ص:۱۳۔
(۶) اُردو ادب ،نہرو نمبر شمار ہ ۴۸۹۱،ص:۹۱۲۔
(۷) نےاد ور جنوری ۵۸۹۱ ، اندراگاندھی نمبر ،ص: ۲۔
  مانک موتی ،مصنف رتن سنگھ، ص:۰۴۔
(۸) نےادور، جنوری ۵۸۹۱ اندرگاندھی نمبر ص:۴۹۔
***

سید احتشام حسین -ذکر وفکر“ ایک جائزہ
ڈاکٹر آفاق فاخری
جلال پور، امبیڈکرنگر (یوپی)
09918617576
            سید احتشام حسین، ضلع اعظم گڑھ کے ایک علمی،ادبی اور تاریخی قصبہ مائل میں پیدا ہوئے۔ وہ نہایت ذہین اور طباع تھے۔ عربی اور فارسی زبان و ادب کے ساتھ ساتھ وہ انگریزی ادب سے بھی بخوبی واقف تھے۔ ابتدائی تعلیم مڈل اسکول ماہل میں حاصل کرنے کے بعد اعظم گڑھ اور اعلیٰ تعلیم کے لےے وہ الٰہ آباد گئے۔ حصول علم کے بعد ۸۳۹۱ءمیں وہ بحیثیت استاد شعبہ اردو لکھنو یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے اور تقریباً بائیس سال درس وتدریس کی خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں وہ ۱۶۹۱ءمیں شعبہ اردو الٰہ آباد یونیورسٹی میں پروفیسر ہوکر آگئے اور تقریباً گیارہ سال اس منصب پر رہے۔ سید احتشام حسین کا الٰہ آباد ہی میں یکم دسمبر ۲۷۹۱ءکو حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال ہوگیا۔ احتشام حسین کے سانحہ ارتحال پر ممتاز دانشور ، مفکر اور مفسر حضرت مولانا عبد الماجد دریاآبادی نے اپنے احساسات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج اردو تنقید کا احتشامی دورختم ہوگیا۔ سچ پوچھئے تو اس جملے میں بڑی جامعیت ، معنویت اور برجستگی ہے، جو ماضی قریب کے تنقیدی منظر نامے پر قطعی طور پر صادق آتی ہے۔

            ”سید احتشام حسین- ذکر و فکر“علی احمد فاطمی کی ایک تازہ اور گراں قدر تصنیف ہے جو ۳۱۰۲ءمیں زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آئی ۔ اس کتاب کا پہلا مضمون ” احتشام حسین کا فکری ارتقا“ نہایت پُر مغز اور وقیع ہے جس میں احتشام حسین کے تنقیدی افکار و نظریات پر دیگر ممتاز اہل قلم کے تاثرات کے ساتھ ساتھ اُن کے فکری ارتقاءکا ایک بھرپورجائزہ ملتا ہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
            ” در اصل فکر احتشام ایک انحرافی فکر تھی جسے باغیانہ رویہ بھی کہا جاسکتا ہے جس سے اردو تنقید کیا اردو ادب بھی آشنا نہ تھا۔ حالانکہ وہ ترقی پسندی کی روایت کو قدیم ادب میں بھی تلاش کرتے ہیں اور ترقی پسندی، انسان دوستی، روشن خیالی ہر دور میںرہی ہے لیکن اسے جانچنے، پرکھنے کے پیمانے رائج نہ تھے۔ احتشام حسین کا یہی اصل کارنامہ ہے کہ انھوں نے اس روایت کو سائنسی و معروضی انداز میں آگے بڑھایا، جس کی ابتدا بہت پہلے حالی کر چکے تھے، لیکن حالی کے پاس شعور تو تھا شاید نظریہ نہ تھا۔ احتشام حسین نے تاریخ، معاشرہ، نظریہ وغیرہ کے ذریعہ تنقید کو ایک فلسفہ کا روپ دے دیا ، لیکن یہ کام یوں ہی تو نہیں ہوتا ، بالخصوص شعبہ تنقید میں کہ اس کام کے لےے تاریخ، تہذیب، عمرانیات ،سماجیات اور دیگر علوم سے گہری واقفیت ضروری ہے اور صرف واقفیت ہی نہیں تجزیاتی ذہن، جانچ، پرکھ کے فکری معیار او ران سب کی تحلیل و تجسیم کے بعد متوازن و مدلل تحریر تنقید کو اعلیٰ و منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ یہ سارے عناصر احتشام حسین کی تحریر و تنقید میں نظر آتے ہیں۔
(سیداحتشام حسین- ذکر وفکر۔ ص: ۲۲)
            فکشن کے حوالے سے سید احتشام حسین کی تنقید نگاری کا ایک جائزہ بھی اس کتاب میں شامل ہے جس میں احتشام حسین کی فکشنی تنقید کو مختلف زاویوں سے پیش کیا گیا ہے:
  ” تحقیقی اعتبار سے نہ سہی لیکن وزن اور وقار، فکر اور استدلال کے اعتبار سے فکشن پر سنجیدہ فلسفیانہ و ناقدانہ بحث کی روایت کا سہرا احتشام حسین کو ہی جاتا ہے۔“ (ایضا، ص:۹۳)
            ”احتشام حسین بحیثیت غالب شناسی“ اس مضمون میں فاطمی صاحب نے احتشام حسین کے تنقی تناظر کی نئی جہتوں کو منکشف کیا ہے اور غالب کی شاعرانہ اور فنکارانہ عظمت کو مختلف پہلوو ں سے پیش کرکے غالب فہمی اور غالب شناسی کو ایک رُخ عطا کیا ہے۔ بقول احتشام حسین:

            ” غالب کی عظمت اسی میں ہے کہ انھوں نے ترقی کی علامتوں کو اور سائنس کے امکانات کو اپنے دائرہ تخیل میں جگہ دی۔
(ایضاً، ص:۰۵)
            ”تہذیب، ادب اور احتشام حسین“ اس کتاب کا اہم مضمون ہے۔ اس میں ہماری تہذیب، تاریخ، ثقافت، معاشرت او رادبیات جیسے موضوعات کے تناظرمیں احتشام حسین کے افکار و نظریات کا بہترین جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ہماری تہذیب ، تاریخ، ثقافت اور معاشرت کے تعلق سے احتشام حسین کے مختلف مضامین کی روشنی میں سیر حاصل گفتگو اس مضمون کا ماحصل ہے۔
            ” احتشام حسین سے قبل اردو تنقیدمکتبی اور تاثراتی نوعیت کی تھی لیکن احتشام حسین نے ادب و تنقیدمیں علم، فکر کے دیگر شعبوں کو شامل کرکے تنقید و تفہیم کا ایک نیا دبستان قائم کیا ۔ اُسے ایک تاریخی کردار اور علمی وقار عطا کیا۔ اسی لےے کہا جاتا ہے کہ احتشام حسین ایک فرد نہ تھے، ایک نقاد نہ تھے بلکہ فکرو خیال ، نظریہ و تجزیہ کا ایک مکمل دبستان تھے۔اردو تنقیدکا ایک ایسا مضبوط ستون کہ جس کے سہارے آج کی تنقید بھی ٹکی ہوئی ہے۔
(ایضاً، ص:۲۷)
            ” ترقی پسند تحریک اور احتشام حسین“ فاطمی صاحب کا ایک اہم اور گراں قدر مضمون ہے۔ احتشام حسین کی طالب علمی کا زمانہ ترقی پسند تحریک کے قیام کا زمانہ ہے،ان کی ذہنی و فکری وابستگی ترقی پسند تحریک سے ہونا لازمی تھا۔ سجاد ظہیر کا روشنائی میں تحریر کردہ یہ اقتباس اہمیت رکھتا ہے:
            ” دسمبر ۵۳۹۱ءمیں الٰہ آباد میں انجمن ترقی پسند مصنفین قائم ہوئی۔احتشام حسین ان دنوں ایم۔اے کے طالب علم تھے۔ وہ ترقی پسند ادبی تحریک میں اسی وقت سے شامل ہوگئے ۔“    (ایضاً، ص:۱۸)
            ”سفر نامہ کا فن اور ساحل سمندر“اپنے اس مضمون میں فاطمی صاحب نے سفر نامے کی اہمیت اور افادیت پر لکھتے ہوئے احتشام حسین کے سفر نامے ” ساحل اور سمندر“ کا بہترین تجزیہ پیش کیا ہے:
            ” ساحل اور سمندر“ صرف ایک سفر نامہ نہیں بلکہ تاریخ و تہذیب، علم و ادب کی ایک ایسی دستاویز بن گیا کہ جس کو پڑھنے کے بعد امریکہ، برطانیہ تو سمجھ میں آتا ہی ہے اس سے زیادہ احتشام حسین سمجھ میں آتے ہیں --- ساحل اور سمندر ایک عمدہ سفرنامہ تو ہے ہی اس سے زیادہ ایک تاریخی، تہذیبی، علمی و ادبی دستاویز ہے جو ذات اور کائنات دونوں کو تخلیقی اور تفکیری سطح پر روشن کرنے میں پورے طور پر کامیاب ہے۔
(ایضا،ص:۴۱۱-۵۱۱)
            ”سید محمدعقیل کی احتشام شناسی“ میں فاطمی صاحب نے عصر حاضر کے معروف نقاد سید محمد عقیل کے ادبی و فکری زاویہ نظر کو پیش کرتے ہوئے سیداحتشام حسین کے تنقیدی اور فکری نقطہ نظر سے تناظر میں سید محمدعقیل کی احتشام شناسی کے مدلل جواز پیش کےے ہیں:
            ” جہاں عقیل صاحب احتشام حسین کی فکر و نظر کی روح میں اتر جاتے ہیں اور غیر معمولی ذکر وفکر، علم واحتساب کے ذریعہ جہاں ایک طرف احتشام شناسی کا ثبوت دیتے ہیں تو دوسری طرف خود اپنی علم شناسی اور تنقید شناسی کا بھی ثبوت دیتے ہیں۔
(ایضاً، ص: ۴۳۲)
            ”ترقی پسند تنقید-چند اشارے“ علی احمد فاطمی کا ایک پرمغز مقالہ ہے جس میں ترقی پسند تنقید کے احوال و ضوابط کے تناظر میں تنقیدی افکار و نظریات کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس مضمون کا محور سیداحتشام حسین کا یہ قول بلیغ ہے:
            ” نظام تنفس میں ارتقا نہیں ہے۔ تنقیدی تصور میں ارتقا ہے جو نتیجہ ہے انسانی شعور کے ارتقاکا ۔
(بحوالہ: سید احتشام حسین-ذکر و فکر۔ص:۵۳۱)
            تنقیدی تصورات میں انسانی شعور کے ارتقائی عوامل کی کارفرمائی کا بھرپور جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ فاطمی کی تحریر کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
  ” ترقی پسند تحریک نے اگر کسی صنف میں سب سے زیادہ روشنی، گرمی اور ترقی دکھائی تو وہ تنقید ہی ہے۔تحریک نے اسے محض تاثر سے آگے بہت آگے بڑھاکر باقاعدہ ایک دبستان فکر بنادیا،ایک مکمل صنف۔ یہی وجہ ہے کہ آج ترقی پسند تنقید، ادب کی تاریخ کا ناگزیر حصہ بن چکی ہے۔ ایک نظریہ اور ایک فلسفہ جس نے ایک تاریخ رقم کردی، اس تاریخ و تفکیر سے آپ اختلاف تو کرسکتے ہیں لیکن نظر انداز نہیں کرسکتے۔“  (ایضاً،ص:۰۴۱)
            علی احمد فاطمی نے احتشام حسین کے افسانے پرایک تاثراتی اورتبصراتی جائزہ پیش کیا ہے۔ احتشام حسین ، افسانہ نگاری کی دنیا میں زیادہ دنوں تک اپنی فنکارانہ استعداد کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ یہ کہہ کر افسانہ نگاری ترک کردی۔
 ”جب اچھے اچھے افسانے پڑھنے کو ملتے ہیں تو کم اچھے افسانے لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے زیادہ افسانے نہیں لکھے۔“     (ایضاً، ص:۲۴۱)
            اس کتاب کا آخری مضمون ” تہذیب سے تعلیم تک“ کے عنوان سے یادوں پر مشتمل ہے جو دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ پُر از معلومات ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع اور مواد کے اعتبار سے نہایت جامع، وقیع اور گراں قدر ہے۔ علی احمد فاطمی صاحب اس اہم تصنیف کے لےے بہرحال مبارک باد کے مستحق ہیں۔
***



غزليات
ملنے کو تو ہر بزم میں احباب ملیں گے
کم ہیں کہ جو شایستہ آداب ملیں گے

ٹوٹے ہوئے تاروں کی طرح راہِ طلب میں
بکھرے ہوئے ہر سمت مرے خواب ملیں گے

آو تو کبھی تم مرے صحرائے جنوں میں
تم کو مری رسوائی کے اسباب ملیں گے

اس شیش محل میں مجھے نیند آئے گی کیسے
سونے کے لےے بسترِ کم خواب ملیں گے

جس روز اتر جائے گا بارِ غم ہستی
اس روز شکستہ مرے اعصاب ملیں گے

بادل کی نوازش کبھی ہوتی نہیں جن پر
ایسے بھی مرے گاوں میں تالاب ملیں گے

جب تک کوئی ساحل پہ دعا مانگ رہا ہے
کشتی کو سنبھالے ہوئے گرداب ملیں گے

ساقی یہ حقیقت تجھے معلوم نہیں ہے
جو تشنہ دہن ہیں وہی سیراب ملیں گے

آغاز ابھی اس کی نوازش کا ہوا ہے
کچھ اور بھی تحفے دل بیتاب ملیں گے

میخانے میں توبہ سے بپا ہوگی قیامت
خاموش مگر منبر و محراب ملیں گے

نسبت جنھیں اعجاز ہے زخموں سے ہمارے
وہ پھول ہی ہر دور میں شاداب ملیں گے
اعجاز رحمانی
کراچی (پاکستان)

خود کو ٹھاٹھیں مارتا دریا نہیں رہنے دیا
زندگی تجھ کو مگر پیاسا نہیں رہنے دیا

روشنی سے کس قدر خائف ہیں اس بستی کے لوگ
اک چراغِ راہ بھی جلتا نہیں رہنے دیا

دشت و صحرا کا سفر ہو یا سرائے میں قیام
تیری یادوں نے کہیں تنہا نہیں رہنے دیا

دل کہیں، نظریں کہیں، تو ہم کہیں، دیکھے گئے
مسئلوں نے خود سے وابستہ نہیں رہنے دیا

مدتوں صحراوں میں رہ کر بھی مصروفِ سفر
زندگی ہم نے تجھے پیاسا نہیں رہنے دیا

تیرے پیروں کی حفاظت کے لےے جانِ غزل
تیری راہوں میں کوئی کانٹا نہیں رہنے دیا
ریاض حنفی
نور پور(یوپی)
09759242219


اُن سے پوشیدہ حال رکھوں میں
کیسے دل کا سوال رکھوں میں

اِتنے روشن خیال رکھوں میں
ذہن و دل کو اُجال رکھوں میں

میرے احساس کی ترنگوں کو
لفظ و معنی میں ڈھال رکھوں میں

اُس کی خاطر تو مر کے خاک ہوا
اور کتنا خیال رکھوں میں

گردشوں میں نہ ڈگمگائے کہیں
ہر قدم دیکھ بھال رکھوں میں

اُف یہ توبہ شکن نظر اُس کی
کب تلک دِل سنبھال رکھوں میں

مجھ سے رشتہ کوئی رکھے نہ رکھے
سب سے رشتہ بحال رکھوں میں

حملہ زَن ہیں قدیر اندھیارے
حرفِ روشن کی ڈھال رکھوں میں
 قدیر احمد قدیر
گدگ(کرناٹک)


بسی ہیں دل میں وطن کی محبتیں لیکن
میرے نصیب میں لکھی ہیں ہجرتیں لیکن

ہمارے خوں سے وفا کے چراغ روشن ہیں
ہمی سے ہوتی ہیں منسوب ظلمتیں لیکن

ہیں دسترس میں مرے وسعتیں جہاں بھر کی
برہنہ سر ہیں میری ساری عظمتیں لیکن

جدیدیت کا جنوں خیز رقص ختم ہوا
لہولہان ہیں ساری روایتیں لیکن

تقاضا اور ہی کچھ بھوک کا ہے بچوں سے
گلوں سے کیسے جدا ہوں گی نکہتیں لیکن
 محب الرحمن وفا
بیودہ، امراوتی(مہاراشٹر)


بُجھے جو پیاس کسی کی تو کس طرح ساقی
مئے خلوص سے خالی ترا پیالہ ہے

جنھیں نہ باپ کی شفقت نہ ماں کی گود ملی
بڑے جتن سے انھیں حادثوں نے پالا ہے

تمام شہر پہ چھائی ہے اک طلسمی فضا
اُڑن کھٹولہ پہ یہ کون آنے والا ہے

اگر یقیں نہ ہو پاوں کے دیکھ لے تلوے
ہمارے عزم کا شاہد ہر ایک چھالا ہے

گراں گراں ہے ترا نرم نرم لہجہ بھی
یہ بات کرنے کا اسلوب کیا نکالا ہے

کیا ہے تجزیہ زیست اے سحر میں نے
غزل کے سانچے میں کچھ تجربوں کو ڈھالا ہے
خلیق الزماں سحر
شرجیل ہارڈ، سیونی(ایمپی)


بڑھ کے ہر اک سے اگر ہاتھ ملانے لگ جائیں
ہم کو دشمن بھی کلیجے سے لگانے لگ جائیں

ایک پل میں وہ اتر آئے نظر سے دل میں
اس سفر کے لےے اوروں کو زمانے لگ جائیں

تیرا دامن بھی ستاروں سے منور ہوجائے
میرے آنسو بھی سلیقے سے ٹھکانے لگ جائیں

اسی امید پہ ماں باپ جئے جاتے ہیں
بیٹی عزت سے اٹھے، بیٹے کمانے لگ جائیں

جا کے آتی نہیں کھوئی ہوئی عزت شیدا
چاہے اِس کے لےے دنیا کے خزانے لگ جائیں
جانی شیدااچل پوری
09890062504


تمھاری خوشبو بکھر رہی ہے تمھارا پیکر دمک رہا ہے
تمھاری یادوں کا ہر پرندہ مرے چمن میں چہک رہا ہے

یہی تو دیکھا ہے زندگی میں یہ اپنی آنکھوں سے میرے ہمدم
کسی کی منزل نہیں ہے کوئی ہر ایک انساں بھٹک رہا ہے

امید سی دل میں جاگ اٹھی ہے نہ کوئی ڈر ہے نہ کوئی خطرہ
کہ تیرے خوابوں کا ایک جگنو سیاہ شب میں چمک رہا ہے

یہ لگ رہا ہے کہ اس کو پہنچی ہے کوئی تکلیف دوسروں سے
وہ اپنے کمرے کو بند کرکے تڑپ رہا ہے، سسک رہا ہے

بہار کی ملکہ

¿ فسانہ لٹا رہی ہے خزانہ اپنا

کلی کلی مسکرا رہی ہے ہر ایک غنچہ مہک رہا ہے

بڑی عقیدت ہے جس سے مجھ کو بڑی محبت ہے جس سے اختر
اسی کے سینے کی دھڑکنوں میں ہمارا دل بھی دھڑک رہا ہے

اختر رانچوی
رانچی (جھارکھنڈ)
09334147358

خوشی کو پا کے بھی ہوتی نہیں خوشی مجھ کو
یہ کس مقام پہ لے آئی زندگی مجھ کو

غم حیات نے دیوانہ کردیا ہے مجھے
خود اپنے حال پہ آتی ہے اب ہنسی مجھ کو

رفیق شیخ
ریاض(سعودی عربیہ)

***
عبد الرشید احمدی
اقبال انصاری
اُوناانکلیو، میوروہار(دہلی)
011-22724299
            ”بڑے صاحب ، مار پیٹ مت کرو.... کہیں ایک آدھ ہاتھ زور کاپڑگیا تو مر جاو¿ں گا، میری صحت تو دیکھ ہی رہے ہو، آپ کو فالتو میں ہتیا لگے گی .... چلو اُس کی تو خیر کوئی بات نہیں .... آپ لوگوں کو لگتی ہی رہتی ہے .... پر میرے قتل کو قدرتی موت ثابت کرنے کی جوکھم تو اٹھانی ہی پڑے گی۔ ہے کہ نہیں؟“ ....زرد چہرے پر غالباً کئی مہینے کی گندی سے بے ترتیب داڑھی والے اس دبلے پتلے مدقوق سے آدمی نے لمبے چوڑے اور مضبوط تگڑے، ہاتھ پےروں والے پولس انسپکٹر رنچھور پٹیل سے کہا۔

            انسپکٹر رنچھور پٹیل کا پتھّڑ میںاٹھا ہوا ہاتھ خلا میں ہی رک گیا .... پھر دھیرے دھیرے نیچے آگیا۔ اُس کے چہرے پر دہشت افروز مخصوص پولس درشتگی بھی تھی اور بڑی بڑی کالی آنکھوں میں گالیاں اور دھمکیاں دیتا ہوا مخصوص پولس اشتعال بھی۔ موٹے موٹے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے۔
            ہمارے پولس افسروں کے ذہن پر کبھی کبھی الہامی طور سے ذہانت بھی طاری ہوجاتی ہے۔ اس وقت انسپکٹر رنچھور پٹیل کے ذہن پر بھی طاری ہوگئی۔ ” واقعی اگر اس مچھر کی اولاد کو ایک تگڑا پتھّڑ بھی لگ گیا تو اس کا فاتحہ ہوجائے گا، اپنی فضیحت .... سالی لاش ٹھکانے لگاتے گھومو....“ اُس نے دل ہی دل میں خود کو بتایا، اور اپنے سامنے کھڑے شخص پر ایک گہری نظر ڈالی جس کے جسم پر ایک گندا سا بوسیدہ کرتا تھا اور اتنا ہی گندا اور بوسیدہ چھوٹی مہری کا پاجامہ۔ عمر رہی ہوگی پینتالیس ایک سال، وزن چھیالیس ایک کلو، قد پانچ فٹ ، سات انچ کے آس پاس۔
            ” کیا بولا تُونے؟“ انسپکٹر رنچھور پٹیل نے اس کی مری مری سی آنکھوں میں گھورتے ہوئے کہا۔ لہجہ درشت تھا۔ ” میں نے کہا صاحب مار پیٹ کا ہے کو کرتے ہو.... اپنی پولس اکثر مار پیٹ کرتے کرتے پیٹ کرنا بھول جاتی ہے، صرف مار کرتی چلی جاتی ہے ، اور جب پھر جب کچھ الٹا سیدھا ہوجاتا ہے تو لیپا پوتی کرنی پڑتی ہے .... لاش ٹھکانے لگانی پڑتی ہے.... چلئے وہ بھی ہوجاتاہے، مگر جوکھم تو اٹھانی ہی پڑتی ہے پولس کو.... ہے کہ نہیں؟ .... آپ کا ہے کولفڑے میں پڑتے ہو؟ میں کوئی انکار تھوڑی کررہا ہوں.... میں تو خود کہہ رہا ہوں کہ میں نے شادی لال حلوائی کو کرسی اٹھاکر ماری اور اُس کے سامنے رکھی ہوئی جلیبیوں میں سے آٹھ دس جلیبیاں اور تین لڈو کھا گیا۔ آپ تو بڑے صاحب مجھے عدالت میں پیش کردو۔ اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہی بیان حضور جج صاحب کے سامنے عدالت میں دے دوں گا ۔ جھوٹ نہیں بولوں گا، نہ بیان بدلوں گا، ایمان سے۔“ اس شخص کے لہجے میں بڑاخلوص تھا۔
            ” کیا نام ہے تیرا؟“ انسپکٹر رنچھور پٹیل نے پوچھا، اس کا لہجہ اب بھی درشت تھا، مگر ایسا لگتا تھا کہ مار پےٹ کا ارادہ ڈھیلا پڑ گیا ہو، وہ اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔
            ” عبد الرشید احمدی
            ” تو نے حلوائی شادی لال کو کرسی کیوں ماری؟“ انسپکٹر نے پوچھا، اُس کے لہجے میں غالباً غیر ارادی طور پر کچھ نرمی در آئی تھی۔
            ” کچھ نہ کچھ تو مارنا ہی تھا بڑے صاحب“ عبد الرشید احمدی نے ڈھیلے ڈھالے لہجے میں کہا” کرسی پڑی تھی، وہی اٹھا کر ماردی۔
            ” کیا دشمنی تھی تیری شادی لال سے؟“ انسپکٹر رنچھور پٹیل نے اُس کی میلی میلی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
            ” کوئی دشمنی نہیں تھی“ عبد الرشید احمدی اس طرح بولا جیسے اُس سے کوئی بے تکا سوال کیا گیا ہو” میری اُس سے کیا دشمنی ....؟ میں تو اُسے جانتا تک نہیں !“
            ” پھر تو نے اُسے کیوں مارا؟“ انسپکٹر کی آواز میں حیرت بھی تھی اور تجسس بھی۔
            ” صاحب کسی نہ کسی کو تو مارنا ہی تھا، ہے کہ نہیں؟ مطلب کچھ نہ کچھ تو ایسا کرنا ہی تھا کہ تھانے لایا جاوں، پھر عدالت میں پیش کیا جاوں، پھر سزا بول دی جائے اور جیل میں بھیج دیا جاوں۔“ عبد الرشید احمدی سمجھاتے ہوئے بولا۔
            ” تو تونے صرف جیل جانے کے لےے یہ سب کیا ہے!!“ انسپکٹر رنچھور پٹیل کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
            ” اور کیا بڑے صاحب“ عبد الرشید احمدی بڑے خلوص سے بولا” جیل جانے کے لےے کچھ نہ کچھ تو جرم کرنا ہی پڑتا ہے، ہے کہ نہیں؟ اب میرے بس کا اس سے زیادہ کچھ کرنا تو تھا نہیں .... اتنا ہی کرسکتا تھا، سو کر گزرا۔ جلیبیاں اور لڈو کھانے کو مل گئے سو الگ .... بڑی بھوک لگی تھی۔
            تقریباً پچاس سیکنڈ تک انسپکٹر رنچھور پٹیل خاموشی سے عبد الرشید احمدی کو دیکھتا رہا۔ کمرے میں موجود وہ دونوں کانسٹبل بھی اسے خاموشی سے دیکھ رہے تھے جو اسے شادی لال حلوائی کی دکان سے پکڑ کر لائے تھے۔
            خاموشی انسپکٹر رنچھور پٹیل کی نرم آواز نے ہی توڑی۔”تو جیل کیوں جانا چاہتا ہے؟
            عبد الرشید احمدی نے ایک طویل سانس لی اور بولا ” جیل میں روٹی ملتی ہے.... کام تو کرنا پڑتا ہے، مگر روٹی ملتی ہے.... قیدیوں کے ہی سہی، مگر پہننے کو کپڑے بھی ملتے ہیں .... ایک چھت ملتی ہے ....ہے کہ نہیں؟
            انسپکٹر رنچھور کچھ دیر پھر اسے خاموشی سے دیکھتا رہا، پھر اس نے پوچھا ” تو رہتا کہاں ہے؟
            ” کبھی بس اڈے پر، کبھی ریلوے اسٹیشن پر، کبھی کسی پارک میں، کبھی سرخیز آستانے کے باہر، کبھی کسی فٹ پاتھ پر.... جہاں رات ہوجائے ، اور جہاں سے پولس دوچار گالیاں دے کر بھگا نہ دے۔“ عبد الرشید احمدی نے بڑی سادگی سے بتایا۔
            ” گھر؟“ انسپکٹر نے استفسار کیا۔
            ” کبھی تھا“ عبد الرشید کا لہجہ پھر سپاٹ تھا ”فسادی حملے میں بابو پورا کے سارے مکان جلا دےے گئے تھے، ان میں میرا مکان بھی تھا، اب اُس پورے علاقے پر دُرگادادا کا قبضہ ہے۔
            ” کوئی رشتے دار؟“ انسپکٹر رنچھور پٹیل نے پوچھا۔
            ” بوڑھے بوڑھے ماں باپ تھے، جو ان جوان ایک بیوی تھی، چھوٹے چھوٹے دو بچے تھے۔ حملے میں سب مار دےے گئے۔ میں اس وقت نہ گھر پہ تھا، نہ بستی میں، شہر میں ہی نہیں تھا.... ہوتا بھی تو کیا کرلیتا مرنے کے علاوہ؟ راج کوٹ گیا ہواتھا، اس لےے بچ گیا۔؟؟
            انسپکٹر رنچھور پٹیل نے ایک با آواز طویل سانس لی اور بولا” جا بھاگ جا.... جاکر کچھ کام دھام کر۔
            ” نہیں ملتا بڑے صاحب“ عبدالرشید احمدی نے سر کو مایوسانہ جنبش دی۔” شکل دیکھ کر لوگ ویسے ہی بھگا دیتے ہیں، نام سن کر بھگانے سے پہلے گالیاں بھی دیتے ہیں۔ جیل بھجوادونہ صاحب! اتنی محنت سے تو شادی لال حلوائی کو کرسی ماری ہے .... اِس جرم میں نہیں بھجواتے تو اور کوئی چارج لگا دو.... ارے کچھ نہیں تو ”اسلامی آتنک وادی“ بناکر ہی عدالت میں پیش کردو، چارج شیٹ میں لکھ دینا کہ آئی ایس آئی یا القاعدہ سے تعلقات ہیں، میں عدالت میں اقرار کرلوں گا.... بلکہ ایسا ہی کرو بڑے صاحب، یہی ٹھیک رہے گا اور سب سے آسان بھی۔ آپ کا نام ہوجائے گا، مجھے لمبی سزا۔ تھوڑی سی زندگی جو بچی ہے، جیل میں ہی کٹ جائے گی.... روٹی کپڑا اور چھت کی فکر سے بھی بچا رہوں گا او راِس عظیم شہر کی اُس نفرت، حقارت، ہتک اور ذلت سے بھی، جنھیں میرا نام عبدالرشید احمدی ہوا دیتا رہتا ہے....“
***

جی ڈھونڈتا ہے....
ظہیر خان
Cell: 0321-3842177
            کسی سنجیدہ شعر میں تحریف کرنا اور اسے مزاح کا رنگ دینا یا کسی سنجیدہ مصرعہ کو قطعہ میں استعمال کرکے تضمین کہنا یاپیروڈی کہنا.... اور اس میں شگفتگی پیدا کرنا یہ ہنر بھی قابلِ تحسین ہے۔ اکثر شعرا نے ایسا کیا ہے اور یقینا وہ داد کے مستحق ہیں۔ اب دیکھیے نا.... علّامہ اقبال کا یہ شعر کس قدر سنجیدہ ہے....
مانا کہ ترے دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو مرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ
            مصرعہ ثانی میں تھوڑی سی تحریف نے صرف مفہوم ہی نہیں بدلا بلکہ اسے مزاح کا ایسا رنگ دیا کہ قاری مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا....
مانا کہ ترے دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو مری کار دیکھ مرا کاروبار دیکھ
            اسی طرح کا ایک اور شعر جس کے خالق حفیظ جونپوری ہیں۔ شعر کہتے وقت شاعرِ محترم نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ شعر میں ذرا سی ردّوبدل سے کیسی ہلچل پیدا ہو جائے گی اور مفہوم کیا سے کیا ہو جائے گا۔حفیظ کا شعر ہے....
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
            تحریف کے بعد کا رنگ ملاحظہ کیجیے....
بیٹھ جاتا ہوں جہاں ’چائے بنی‘ ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
            مرزا غالب کا ایک شعر.... معنی کے اعتبار سے بے نظیر....
رنج سے خو گر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
            مرزا غالب کی منطق کے مطابق رنج کی زیادتی نے ان کی مشکلوں کو آسان کر دیا مگر یہاں معاملہ کچھ اور ہے....
بیویاں مرتی گئیں میں شادیاں کرتا رہا
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
            مومن خاں مومن نے ساری عمر عشقِ بتاں میں گزار دی اور جب عمر کے آخری حصّہ میں پہنچے تو خیال آیا کہ مسلماں ہو جائیں مگر اگلے ہی لمحے یہ بات بھی ذہن میں آئی کہ....
عمر تو ساری کٹی عشقِ بتاں میں مومن
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
            آفرین ہے امیرالاسلام ہاشمی کو کہ انہوں نے مصرعہ اولیٰ کی تبدیلی سے شعر کے مفہوم کا زاویہ تبدیل کر دیا....

نائی آئے گا تو یہ کہہ کے گریزاں ہوں گے
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
            جگر مراد آبادی کا مشہور شعر ہے....
جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا
            کس قدر سنجیدہ شعر میں مرزا عاصی اختر نے مصرعہ اولیٰ میں تحریف کرکے اسے ایسا شگفتگی کا رنگ دیا کہ قاری کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آنا لازمی ہے....

آپ کے دولت کدے سے کھا کے مار آ ہی گیا
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا
            مرزا غالب کا وہ شعر جو عموماً غلط پڑھا اور لکھا جاتا ہے۔
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت‘ کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصوّرِ جاناں کیے ہوئے
            عام طور پر مصرعہاولیٰ میںاحباب ”کے“ پڑھتے یا لکھتے ہیں....
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
            مصرعہ میں لفظ ”فرصت کے“ نہیں ہے بلکہ فرصت کے بعد ’کاما‘ ہے اور اس کے بعد ”کہ رات دن“ ہے۔
            فرصت کے رات دن پڑھنے سے مفہوم تبدیل ہو جاتا ہے۔ مرزا کو فرصت کے رات دن مطلوب نہےںہیں بلکہ وہ فقط فرصت کے خواہاں ہیں۔ فرصت ہو گی تو رات دن تصوّرِ جاناں میں گزار دیں گے۔
            سلسلہ کلام چل رہا تھا اشعار میں تحریف اور تضمین کا اور یہاں بات سے ایک اور بات نکل آئی۔ بہرحال میں واپس اپنے موضوع کی طرف لوٹتا ہوں۔ ہندوستان کے مشہور مزاح گو شاعر پاپولر میرٹھی کی ایک تضمین ملاحظہ کیجیے جس میں انہوں نے غالب کے اس مصرعہ کو ”بیٹھے رہیں تصوّرِ جاناں کیے ہوئے“ مےں تھوڑی سی تحریف کے بعد کیا اچھا مزاح پیدا کیا ہے....
سنتے ہیں ایک لیڈی پولیس پہ ہے تو فدا
یہ عشق تیرا سب کو ہے حیراں کیے ہوئے
ایسا نہ ہو کہ جیل میں کل تو بھی پاپولر
بیٹھا رہے تصوّرِ جاناں کیے ہوئے
            مرزا غالب کے دےوان کی پہلی غزل کا ایک شعر....
کاوِ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا‘ لانا ہے جوئے شیر کا
            معروف مزاح گو شاعر انور مسعود نے غالب کے مندرجہ بالا شعر کے مصرعہ  ثانی کو اپنے ایک قطعہ میں استعمال کیا اور مفہوم کچھ سے کچھ کردیا....

اک اتائی کر رہا تھا ایک مجمع سے خطاب
یاد ہے بس ایک ٹکڑا مجھ کو اس تقریر کا
بات ہے بانگِ درا میں، شیخ سعدی نے کہی
صبح کرنا شام کا‘ لانا ہے جوئے شیر کا
            ایک ایساشعرجوہرمصیبت اورپریشانی میں منیرنیازی کی یادتازہ کردیتاہے....
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
            منیرنیازی کایہ شعرکس قدرسنجیدہ ہے مگرسعیدآغاکی پُر مزاح طبیعت نے اس کارخ مزاح کی طرف موڑدیا....
میں کیسے دریا کا ذکر کرتا منیر صاحب
کہ گرتے گرتے سنبھل رہا تھا تو میں نے دیکھا
اک اور چن چی کا سامنا تھا سعید مجھ کو
میں ایک چن چی سے بچ کے نکلا تو میں نے دیکھا
            مرزاغالب کاایک اورشعر....
داغِ فراق صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
            ایک تضمین ملاحظہ کیجیے۔ اب ذرا یہ دیکھیے کہ لفظ ”شمع“ کو شاعر نے کس معنی میں لیا ہے۔شوخیِ تحریر مشہورمزاح گو شاعر پاپولر میرٹھی کی ہے ....
لڑکی کہاں سے لاں میں شادی کے واسطے
شاید کہ اس میں میرے مقدّر کا دوش ہے
عذرا‘ نسیم‘ کوثر و تسنیم بھی گئیں
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
            اس طرح کی بہت ساری تحریفات اور تضمینات ہیں۔ میں نے آپ کی تفریحِ طبع کے لےے چند کا ذکر کیا ہے۔ اجازت چاہوں گا۔ اللہ حافظ
***


نقد وتبصرہ
نام کتاب:          بزرگ توئی
مصنف:                     ابرار کرت پوری
صفحات:           128
قیمت:             160 روپے
ناشر:    مرکز علم و دانش، قدسیہ منزل
            ۶/۲۷۱، ذاکر نگر، نئی دہلی۔۵۲۰۰۱۱
تبصرہ نگار :   شاہ اجمل فاروق ندوی
            موجودہ دور میں برصغیر کے ادبی افق پر آفتاب و ماہ تاب کی طرح چمکنے والے نعت گویوں میں ایک اہم نام حضرت ابرار کرت پوری کا بھی ہے۔ انہوں نے صرف نعت گوئی ہی نہیں کی بلکہ نعت کو وظیفہ حیات بنا لیا ہے۔ نعت کے ساتھ ہونے والی جانب داریوں پر اہل فکر و دانش کو متوجہ کیا۔ لوگوں کو خطوط لکھے اور اس صنف کا حق ادا کرنے کی دعوت دی۔” حمد و نعت اکیڈمی“ کی شکل میں نعت کے ارتقاءاور نعت کے ناقدین، محققین اور ممتاز شعراءکی خدمات کو سراہنے کا انتظام کیا۔ چنانچہ آج ہندوپاک میں انھیں اسی حوالے سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ یوں تو ادب اطفال اور غزل میں بھی ان کی چھ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، البتہ ان کا اصل امتیاز پاکیزہ اصناف سخن کا وہ عظیم ذخیرہ ہے، جس نے ان کی شخصیت کو بھی برگزیدگی عطا کردی ہے۔ حمد باری تعالیٰ میں ان کے پانچ مجموعے، ایک مجموعہ مناجات اور آٹھ نعتیہ مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ پورے برصغیر میں حمد و نعت پر اتنی کثرت سے شاید ہی کسی نے کہا ہو۔ اگر کہا ہوگا تو ان کی تعداد دوچار سے زیادہ نہیں ہوگی۔یہ ابرار کرت پوری کی ایسی انفرادیت ہے، جو انہیں اردو کے موجودہ منظرنامے پر بالکل منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ ہم نے اپنے ایک مضمون میں ابرار کرت پوری کی نعت پرگفتگو کرنے کی سعادت حاصل کی ہے اور تفصیل کے ساتھ ان کے نعتیہ کلام کے اہم گوشوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔

            مقام مسرت ہے کہ حال میں حضرت ابرار کرت پوری کی نعتوں کا ایک اور مجموعہ ”بزرگ توئی“ شائع ہوکر ان کے ذخیرہ¿ نعت میں قابل قدر اضافہ کرچکا ہے۔ کتاب کا نام غالب کے مشہور مصرعے ”بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر“ سے ماخوذ ہے۔ اس سے پہلے ان ایک مجموعہ ”بعد از خدا“ شائع ہوا تھا اور اب ”بزرگ توئی“ منظر عام پر آیا ہے۔ اس مجموعے میں ۷۹ نعتیں اور سلام شامل ہیں۔

            جس طرح ابرار کرت پوری کے شعری ذخیرے میں تنوع پایا جاتاہے، اُسی طرح ان کے زیرنظر مجموعہ نعت میں بھی بحور، اوزان، ردیف اور قوافی میں بڑا تنوع نظر آتاہے۔ مثال کے طور پر چند اشعار دیکھیے:

نسیمِ شہرِ مدینہ! شفا کا مژدہ لا!
مریضِ ہجر ہوں آقا کا حکم نامہ لا!

میرے سرکار کا وہ طرز تبسم، اللہ
غنچہ و گل نے جو دیکھا ہوئے گم صم، اللہ

بھی آنسو کبھی شعلہ کبھی شبنم بن جا وں
چاہ میں ان کی حسیں نعت کا موسم بن جاوں

عالم افکار میں اشعار برساتی ہے نعت
میں کہاں کہتا ہوں اکثر خود ہی ہوجاتی ہے نعت
            ان اشعار میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ شاعر نے کیسے انوکھے ردیف و قوافی کو کس خوبی کے ساتھ برتا ہے۔ لیکن اس فن کاری میں نعت کی والہانہ کیفیت اور ذات رسالت مآب کے ساتھ قلبی وابستگی ذرا بھی متاثر نہیں ہوئی۔ اس طرح کے دل کش نمونوں سے ابرار کرت پوری کا تازہ مجموعہ کلام بھرا پڑا ہے۔ امید ہے کہ حضرت ابرار مستقبل میں بھی اپنے نعتیہ مجموعوں کے ذریعے اردو کے نعتیہ ذخیرے میں قابل قدر اضافہ کرتے رہیں گے۔
........
نام کتاب:          ایک کتاب ڈاکٹر محبوب راہی
                       کی کثیر الکلامی پر(تحقیق و تجزیہ)
مصنف:                      عبد الوحید نظامی
                      09096977605
مبصر:             ڈاکٹر محمد ذاکر نعمانی (آکولہ)
                      09823182468
صفحات:           300
قیمت:              300/- روپے
تقسیم کار:         مکتبہ جامعہ لمٹیڈدہلی، ممبئی، علی گڑھ
ناشر:               اسباق پبلی کیشنز لوہ گاوں روڈ پونہ-۲۳
  ڈاکٹر محبوب راہی کا نام عصر حاضر کے اردو شعر و ادب کے حد درجہ بسیار نویس اور زود گو قلم کاروں میں سر فہرست ہے۔ ان کی مختلف شعری و نثری اصناف پر تاحال بیالیس (۲۴) کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ زیر تبصرہ ضخیم کتاب کے مرتب نوجوان شاعر و ادیب ڈاکٹر عبد الوحید نظامی ہیں، جنھوں نے نہایت تلاش و جستجو کے بعد راہی صاحب کی مختلف الاصناف تصانیف کی روشنی میں تحریرہکردہ کم و بیش تمام صف ِ اول کے مقتدر قلم کاروں کے گراں قدر مضامین مختلف رسائل سے یکجا کرکے انتخاب کے بعد شامل کتاب کیاہے۔ محبوب راہی کی مختلف تخلیقی جہتوں پر لکھے گئے ان مضامین کی تعداد تیس (۰۳) ہے۔ ان کی غزل، نظم، حمد و مناجات، طنز و مزاح، طفلی نظموں ، نیز تنقید وتحقیق پر مبنی نثری کارناموں کا احاطہ کرتے ہیں۔ مضمون نگاروں میں مظفر حنفی، شمس الرحمن فاروقی، وارث علوی، حقانی القاسمی، فاروق ارگلی، نذیر فتح پوری ، ناوک حمزہ پوری جیسے مشاہرین قلم کار شامل ہیں۔ ان مضامین کی روشنی میں راہی صاحب کے مختلف فنی پہلوو

¿ں کی تفہیم میں مدد ملتی ہے۔

  ڈاکٹر محبوب راہی کی کثیر الکلامی ادبی حلقوں میں مسلسل موضوع گفتگو رہتی ہے۔ جہاں بیشتر قلم کاروں نے ان کی بسیار نویسی کو تحسین و ستائش کی نظروںسے دیکھا ،وہیں چند ایک نے اس پر اپنی منفی آراءکے ذریعے اظہار نا پسندیدگی بھی کیا ہے۔ یہ کتاب راہی صاحب کی ادبی شخصیت کو ایک حقیقی پیکر کی شکل میں پیش کرتی ہے۔
........
نام کتاب:          خیال چہرہ (غزلیات)
شاعر:              افتخار راغب
صفحات:           152
 قیمت:            125 روپئے
ملنے کے پتے:            مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نئی دہلی
                      دبستان ادب پوسٹ بکس 11671
                      دوحہ، قطر
مبصر:           معصوم سیفی، ندوة العلمائ،لکھنو
 08934990950               
            ”خیال چہرہ“ دوحہ (قطرہ) میں مقیم خوش فکر و خوش نوا شاعر افتخار راغب کی شعری کاوش ہے، اس سے پہلے ان کا ایک شعری مجموعہ ”لفظوں میں احساس“ ارباب فن سے خراج تحسین حاصل کرچکا ہے، دیدہ زیب سرورق پرتین پرندے محو پرواز ہیں مگر نگاہ غور سے دیکھا جائے تو ہمیں آرٹ کا کمال دکھائی دیتا ہے جس میں خیال کے پرندوں سے چہرے کو زندہ شکل میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔
            شاعر نے زندگی کو جیسا دیکھا، جیسا پایا ہو بہو کینوس پر اتارتا ہے :
میرے احساس میری سوچوں کی
میرے شعروں نے ترجمانی کی
            اس کے کلام میں نرمی و سادگی اور برجستگی و بے ساختگی قدم سے قدم ملاکر چلتے ہیں، غزلیں عموماً چھوٹی بحروں میں ہیں جن میں جولانی

¿ طبع نے خوب خوب رنگ نکالا ہے۔ موضوعات کا تنوع قوس قزح کا منظر پیش کرتا ہے جس میں مسکراہٹ کے پھول بھی کھلتے ہیں، شبنم کے آنسو بھی ٹپکتے ہیں، ضبط کی انا بھی جھلکتی ہے، فراق و مہجوری کی واردات بھی ملتی ہیں اور ستم ظریفی

¿ روزگار کے احساسات بھی، ساتھ ہی ساتھ حکمت و فراست کی پیوندکاری جگہ جگہ نظر آتی ہے۔

            شاعر جنون سے زیادہ عقل کا، دیوانگی سے زیادہ ہوش کا اور رومان سے زیادہ حقیقت کا قائل ہے۔ شاعر انہیں تجربات و احساسات کو غزل کے کیمرہ میں قید کرتا رہتا ہے:
غم جاناں کا ساز چھیڑتا ہے
کس کا گھر ہے قیام کس کا ہے
دل کی چوکھٹ پہ نام کس کا ہے
            تشبیہات خصوصاً تمثیل میںاچھا رنگ پیدا کیا ہے :
مٹھی میں بھلا قید ہوتی ہے کبھی خوشبو
یہ راز محبت ہے نہاں ہو نہیں سکتا
موسم ہجر میں تمہاری یاد
گرم رُت میں چلی ہے سرد ہوا
            چاند سے محبوب کے رخسار کو سبھی تشبیہ دیتے ہیں مگر ہمارے شاعر نے اس مضمون کو نیا لباس پہنایا ہے :
تیرے چہرہ پہ کوئی داغ نہیں
کیسے کہہ دوں کہ ماہتاب ہے تو
            مومن کا محاکاتی انداز بہت پسند کیا گیا خصوصاً ان کی غزل ”وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا“ بہت مقبول ہوئی اسی محاکاتی انداز میں شاعر منفرد لب ولہجہ کے ساتھ نواسنج ہے :
تیرے استقبال میں ہر دن مرا
راہ میں پلکیں بچھانا یاد ہے
ساحل دریا پہ تنہا بیٹھ کر
تیری تصویریں بنانا یاد ہے
            جابجا تاریخی تلمیحوں نے کلام میں اچھا وزن پیدا کیا ہے :
نوح کے دور کا طوفان سمجھ میں آئے
ابر برسے جو کبھی دیدئہ تر کی صورت
            شاعر حکمت و دانائی کی باتوں میں کہیں سعدی شیرازی تو کہیں حکیم روحی کی دُھن میں دُھن ملاتا ہے :
تقدیر سے زیادہ تدبیر آزماﺅ
تقدیر پر یقیں ہو تدبیر سے زیادہ
نکلنے نہ دو پاﺅں چادر کے باہر
نہ اونچا نظر آﺅ قد سے زیادہ
            ہمارا شاعر زود گو ہے اور اس کے اثر کو شاعر خود یوں بیان کرتاہے:
سارے اشعار کس کے اچھے ہیں
سارے قطرے گہر نہیں ہوتے
            مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ گہر کی جستجو چھوڑ دیں، اسی طرح بعض اشعار میں معنی کی وضاحت نہ ہونے سے ابہام سا پیدا ہوگیا ہے۔
            اسی طرح ان کی شاعری کا صبا رفتار گھوڑا کبھی شرافت زبان کو روندتا ہوا نکل جاتا ہے جس سے وجدان کو صدمہ پہونچتا ہے اور ذوق سلیم کراہ اٹھتا ہے:
اگر غیرت ہے زندہ تو وسائل کیجئے پیدا
ہمیشہ دم ہلانے سے کسی کو کچھ نہیں ملتا
            ہاں البتہ یہ طرز نگارش ہزل میںپسند کیا جاسکتا ہے۔
            مجموعی طور پر شاعر اپنے مقصد میںبڑی حد تک کامیاب ہے جو کچھ اس نے کہنے کی کوشش کی ہے بے خطر کہہ گیا ہے، شفافیت اور مقصدیت پیش نظر رہی ہے جس طرح اس نے خیال کو چہرہ دینا چاہا ہے جس طرح اس کے نوک و پلک درست کئے ہیں جس طرح اس کے گیسوﺅں کو سنوارا قابل ستائش ہے، بس ذرا :
گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر
***
جہان ادب
آل دہلی نعتیہ مشاعرہ
            ماہ ربیع الاول کی مناسبت سے حسب معمول ادارہ ادب اسلامی ہند دہلی کے زےر اہتمام آل دہلی عظےم الشان نعتےہ مشاعرہ کا انعقاد مرکز جماعت اسلامی ہند کے پُر وقار میڈیا ہال مےںکےاگےا،جس کی صدارت مشہور نعت گو شاعر ڈاکٹر تابش مہدی نے فرمائی۔ حضرت ابرار کرتپوری، حضرت نسےم عباسی نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ مشاعرے کی سرپرستی جناب عبدالوحےد امےر حلقہ دہلی وہرےانہ نے کی۔ اس موقع پر ادارہ کے سکرےٹری عبدالغفار دانش نور پوری کے نعتےہ مجموعہ کلام’ نور حرا‘ کا اجرا امےر جماعت اسلامی ہند مولانا سےد جلال الدےن عمری کے ہاتھوں عمل مےں آےا۔ اجرا کی تقرےب کو خطاب کرتے ہوئے محترم امےر جماعت نے فرماےا: نعت اےک نازک فن ہے اس مےں بہت احتےاط کی ضرورت ہے۔ اےک مسلمان کے لےے ےہ بات عز و شرف کی ہے کہ وہ اللہ کے رسول کی مدح وثنا کرے۔ مےری ادارہ ادب اسلامی کے شعراءسے گزارش ہے کہ اپنے کلام مےں گہرائی وگےرائی بھی پےدا کرےں اور فنی اعتبار سے بھی بلندی پر فائز ہوں ورنہ دنےا متوجہ نہ ہوسکے گی۔ امےر جماعت کے علاوہ نورحرا پر ڈاکٹر تابش مہدی ، نسےم عباسی ، ابرار کرتپوری نے بھی اظہار خےال کےا ۔سید راشد حامدی نے ’نورحرا‘ پر اپنا تاثراتی مقالہ پڑھا۔شاہ اجمل فاروق ندوی کا تحرےر کردہ مقالہ تنوےر آفاقی نے پےش کےا۔ رسم اجرا کے بعد نعتےہ مشاعرے کا آغاز ہواجو دےر رات تک جاری رہا۔ نظامت کے فرائض حامد علی اختر اور نورالعےن قےصر نے مشترکہ طورپر انجام دےے۔ ڈاکٹر رضی الاسلام صدرادارہ دہلی نے شعراءو سامعےن کا خےر مقدم کےا۔ دانش نور پوری نے شکرےہ ادا کےا۔ پروگرام کاآغاز قاری عبدالمنان صاحب نے تلاوت کلام مجےد سے کےا ۔پسندیدہ اشعار ہديہ قارئین ہيں :
نام نبی تو ورد زباں ہے ناومگر مجدھار ميں ہے
سوچ رہا ہوں اب بھی يقينا کوئی کمی کردار ميں ہے
ڈاکٹر تابش مہدی
ثنائے شہ سے اے ابرار تطہير سماعت ہو
منور بزم مےں اشعار نور افزاں مہک جائيں
ابرار کرتپوری
مفسدوں کی زد پہ ہے پھر رحمت عالم کی ذات
اے خدا ٹوٹے گاکب تيرا عذاب تيرا عتاب
انتظار نعيم
وہ صدق و صفا جس سے آئےنے جلا مانگيں
اےسی مےرے آقا کی ہےں کردار کی باتيں
نسيم عباسی
خلق حسن سے جھکتا گےا ہر کشیدہ سر
ہاتھوں مےں ان کے تےغ نہ خنجر نہ تےر ہے
حسنين سائر
چاند ذی روح نہيں پھر بھی سمجھ رکھتا ہے
کےا اشاروں ہی مےں سمجھا وہ اشارا تےرا
راشد حامدی
نظر سے لپٹے ہوئے ہےں وہاں کے سب منظر
وہاں کے جلوے مری روح مےں گھلے ہوئے ہےں
شہبازنديم ضيائی
آئےے عرش کے زےنہ کی طرف چلتے ہےں
رب سے ملنا ہے مدےنہ کی طرف چلتے ہےں
معين شاداب
آپ کا قرب تو سنت سے ملے گا مجھ کو
آپ کی شان مےں اشعار کہوں ےا نہ کہوں
درد دہلوی
اےک خوشبو حرا کی عبارت لےے
اےک تحرےر سورج سی ظلمت کے نام
حنيف ترين
اےسی عزت احمد مختار نے پائی کہ بس
کی خدا نے آپ کی اےسی پذےرائی کہ بس
احمد علی برقی
بہار آئی محمد کے خےر مقدم کو
لبوں پہ رنگ نگاہوں مےں دل کشی لے کر
رياض حنفی
کنائے بے ردا ہوں اور صراحت گم ہو جائے
وہ روح معنوےت ہےں محمد مصطفی اپنے
ڈاکٹر واحد نظير
سلام کرتی ہےں صدےاں پلٹ پلٹ کے اسے
جو اےک لمحہ در آمنہ پہ ٹھہرا ہے
نورالعين قيصر
لے کے کشکول در در بھٹکنے لگے
بيج دی رہ بروں نے خودی مصطفی
دانش نور پوری
ميں پےروِ احمد ہی رہوں حشر کے دن تک
ےہ مےری تمنا ہے ےہی مےری دعا ہے
حامد علی اختر
عمل کی مقتضی ہے الفت شاہنشہ عالم
بغےر اس کے ےہ دعوی تو فقط اک لن ترانی ہے
تنوير آفاقی
بھوکے رہ کر جو غرےبوں کی خبر رکھتا ہو
کاش قائد کو مےرے اےسا ادب مل جائے
محب اللہ رفیق
(رپورٹ: شکیل الرحمن، میڈیا انچارج)

ادارہ ادب اسلامی ہند (کولکاتہ) کا حمدیہ ونعتیہ مشاعرہ
            ادارہ ادب اسلامی ہند (کولکاتہ) کی جانب سے بروز اتوار بتاریخ۱۱جنوری ۵۱۰۲ءبوقت بعد نماز مغرب ، بمقام اسلامیہ لائبریری (راجہ بازار)ایک حمدیہ ونعتیہ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا، جس کی صدارت قطعہ تاریخ کہنے والے کہنہ مشق شاعر جناب سفیر الدین کمال نے کی۔ نقابت کے فرائض افسانہ نگار جناب شین انور نے بحسن و خوبی انجام دےے۔ مشاعرہ بڑی کامیابی کے ساتھ رات دس بجے اختتام کو پہنچا۔
            مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک بزم ہونے والوں میں جناب عبد العزیز صاحب، مفتی خالد اعظم حیدری صاحب، جناب سید ترشیہ علی القادری صاحب، جناب محمد ادریس صاحب، کہنہ مشق استاد شاعرجناب حلیم صابر صاحب موجود تھے۔
            پروگرام کا آغاز مفتی خالد اعظم حیدری کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔رئیس اعظم حیدری سکریٹری ادارہ ادب اسلامی ہند کولکاتہ نے ادارہ کے اغراض و مقاصد بیان کےے اور آئندہ کی سرگرمیوں کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ کولکاتہ میں ادارے کی شاخ کے قیام کے بعد پہلے پروگرام کے طور پر اس حمدیہ و نعتیہ مشاعرے کا اہتمام کیا گیا ہے اور ان شاءاللہ ہر ماہ ادارہ کی جانب سے ایک نثری و شعری پروگرام ہوگا۔ ہر سال کسی بڑے ادیب و شاعر و تنقید نگار اورعلمائے کرام پر سمینار ہوگا اور کسی بڑے فن کار کو توصیفی سند و انعام سے نوازا جائے گا۔
            عبد العزیز صاحب نے کہا کہ میں تمام ادباءو شعراءسے گزارش کرتا ہوں کہ اسلامی ادب کو فروغ دیں، جس طرح علامہ اقبال، مولانا حالی نے ادب کو پیش کیاہے۔ آج پھر شعرائے کرام کو اپنی شعری فکر کو منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے۔ اسی میں ہم لوگوں کی کامیابی ہے۔ خالد اعظم حیدری نے کہا کہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ کولکاتہ میں ادارہ ادب اسلامی ہند کا قیام عمل میں آیا۔ میری دلی خواہش ہے کہ یہ ادارہ خوب ترقی کرے اور پھلے پھولے۔ ہمارے بزرگ عبد العزیز صاحب اس کی سرپرستی کررہے ہیں،یہ بہت بڑی بات ہے۔ میرے خیال میں ادب زندگی کا ایک بہترین حصہ ہے۔ علامہ اقبال ،مولانا حالی، اکبر الٰہ آبادی نے جو اشعار پیش کےے، موجودہ دور کے اور آنے والے دور کے لوگوں کے لےے ایک مشعل راہ ہے۔اسی طرح موجودہ دور کے شعرائے کرام کو اشعار پیش کرنا چاہےے اور اُس پر عمل بھی کرنا چاہےے۔ آخر میں جناب محمد ادریس صاحب نے ادارہ ادب اسلامی ہند کے مرکزی صدر اور پیش رفت کے مدیر ڈاکٹر حسن رضا کا تحریر کردہ اِداریہ پڑھ کر سنایا جسے لوگوں نے خوب سراہا اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔
            اس کے بعد مشاعرے کا دور شروع ہوا، جس میں جناب سفیر الدین کمال، جناب حلیم صابر، جناب سید ترشید علی القادری، جناب نسیم عزیزی، جناب رئیس اعظم حیدری، ڈاکٹرجمیل حیدر رشاد، جناب اشرف یعقوبی، جناب مسلم نواز، جناب عنبر صدیقی، جناب اشفاق احمد اشفاق، جناب طاہر بیگ دہلوی، جناب احمد معراج ، ڈاکٹر سید منیار وارثی، جناب نظیر راہی، جناب یوسف اختر، جناب غلام بغدادی، جناب شمیم شاکر اور جناب شارق ریاض نے اپنے اپنے حمدیہ/نعتیہ کلام سے سامعین کو محظوظ فرمایا۔
(رپورٹ: رئیس اعظم حیدری، کولکاتہ)

ڈاکٹرکلیم عاجز صاحب کے سانحہ ارتحال پر تعزیتی جلسہ
            ادارہ ادب اسلامی ہند نے دبستان عظیم آباد کے عالمی شہرت یافتہ ،عظیم فنکار ڈاکٹر کلیم عاجز کے سانحہ ارتحال پر ۳۲ فروری ۵۱۰۲ءکو دفتر ادارہ ابوالفضل انکلیو میں ایک تعزیتی جلسہ کا اہتمام کیا۔ جلسے کی صدارت ادارہ ادب اسلامی ہند کے نائب صدر ڈاکٹر تابش مہدی نے فرمائی۔ آپ نے اپنی صدارتی تقریر میں مرحوم کی شخصیت پر روشنی ڈالی۔ ان کے فن کے تعلق سے کہا کہ انہوں نے مکمل طور پر اپنے فن میں اسلامی اقدار کو پیش کیا وہ حقیقی شاعر تھے اور شخصی حیثیت سے صاحب دل آدمی تھے۔ انہوں نے شاعری کی اعلیٰ قدروں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔
            ادارہ کے جنرل سکریٹری اور ماہنامہ پیش رفت دہلی کے مدیر منتظم جناب حسنین سائر نے کلیم عاجز صاحب کا مختصر تعارف کراتے ہوئے کہا کہ وہ ادب کی دنیا میں دبستانِ عظیم آباد کے آخری باب کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی وفات سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ جناب ابواللیث جاوید معروف افسانہ نویس نے فرمایا کہ ان کی شاعری ان کے کرب کی پناہ گاہ تھی۔ جاوید صاحب نے مزید بتایا کہ کلیم عاجز بہار کے پہلے پدم شری اعزاز سے نوازے جانے والے شاعر ہیں یہ خود صوبہ بہار کے لئے بڑا اعزاز ہے۔ مرحوم سے قربت رکھنے والے ڈاکٹر سرورالہدیٰ صاحب نے کہا کہ کلیم عاجز صاحب نے تاریخ کو اپنے فن میں جذب کیا ہے۔ان کی شاعری میں آفاقیت ہے۔ انہوں نے داخلی سطح پر ذاتی غم کی چادر کو دوسروں تک پھیلادیا ہے۔ ڈاکٹر خالد مبشر صاحب نے ان کے فن پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ صاحب طرز فنکار تھے جو ہر کسی کو حاصل ہونا مشکل ہے۔ ان کی ذات شاعری میں پیوست تھی۔ انہوں نے منفی جذبات و نفسیات کو شاعری کے ذریعہ مثبت اور تعمیری رخ دیا ہے۔ پروفیسر شفیق احمد خاں ندوی صاحب نے اپنے تاثرات میں فرمایا کہ کلیم عاجز صاحب کا نام سامنے آتے ہی شعرو غزل کا سمندر موجیں مارنے لگتا ہے انہوں نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کلیم عاجز کے فن پر فراق گورکھپوری کا یہ تاثر پیش کیا کہ ” مجھے کلیم پر رشک آتا ہے کہ میں ایسی شاعری کیوں نہیں کر سکا“۔ موصوف نے مزید کہا کہ انہوں نے میر تقی میر کی ترجمانی بڑے اچھے انداز میں کی ہے۔
            محب اللہ رفیق قاسمی صاحب نے ڈاکٹر برقی اعظمی صاحب کا منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ ضمیر اعظمی نے اپنے خوبصورت ترنم میں کلام عاجز سے سامعین کو نواز ا۔ محترم قاری عبدالمنان صاحب کی تلاوت قرآن پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ قرب وجوار کے ادب نواز حضرات کے علاوہ طلبہ کی بھی اچھی خاصی تعداد جلسے میں موجود تھی۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض شاہ اجمل فاروق ندوی صاحب نے بحسن و خوبی انجام دےے، صدر مجلس کی دعا پر جلسہ کا اختتام ہوا۔
(رپورٹ :شکیل الرحمن، میڈیا انچارج)

کوی سمیلن کا انعقاد
  ادارہ ادب اسلامی ہند کی ہندی شاخ ،اسلامی ساہتیہ سنگم کے زیر اہتمام آج شام مرکز جماعت اسلامی ہند کے کانفرنس ہال، واقع ابوالفضل انکلیو میں ایک کوی سمیلن منعقد کیا گیا۔سمیلن کی صدارت مشہور شاعر ڈاکٹر تابش مہدی نے کی ، نظامت کے فرائض ہندی شاعر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ہندی پروفیسر ڈاکٹر رحمان مصور نے انجام دئے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہندی کے سینئر پروفیسرڈاکٹر مہیندرپال شرما مہمان خصوصی تھے۔موصوف نے اپنے خطاب میں اسلامی ساہتیہ سنگم کی اس پہل پر مبارک باد دی۔انھوں نے کہا ایک اسلامی تنظیم کی جانب سے ہندی کے مشاعرے کا انعقاد ملک میں بھائی چارے کے قیام اور ایک دوسرے کو سمجھنے میں معاون ہوگا۔ ڈاکٹر تابش مہدی نے اپنے صدارتی خطبہ میں ہندی شعرا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ سماج میں بھلائیوں کے فروغ اور برائیوں کے ازالہ کے لےے شعرا پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔انھوں نے اردو ہندی شاعری کے گرتے معیار پرافسوس کابھی اظہار کیا ۔انھوں نے کہا کہ آج نثر و نظم کا امتیاز ختم ہوتا جارہا ہے اور ہمارے بعض شعرا نظم کے نام پر نثر پیش کررہے ہیں ۔ کوی سمیلن کے آغاز میںمولانا محمد فاروق خاں صاحب کی تین کتابوں کا اجرا کیا گیا۔کوی سمیلن میں ڈاکٹر گیان چندر،جناب محمد الیاس حسین، ڈاکٹر وگیان ورت،آل انڈیا ریڈیو کے سابق دائریکٹر جناب لکشمی شنکر باجپئی،ڈاکٹر چندر دیو یادو، جناب مسیح الزماں انصاری،راجندرراجا، جناب امرت شیش ، جناب عدنان بسم اللہ وغیرہ نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔کوی سمیلن کا آغاز جناب احسن فیروز آبادی نے برج بھاشا میں ایک نہایت خوبصورت نعت پڑھ کر کیا۔آخر میںکنوینر جناب الیاس حسین نے شعرا و سامعین کا شکریہ ادا کیا۔
(رپورٹ شکیل الرحمن ۔میڈیا انچارج)


تاثرات
            پیش رفت ملا۔ ڈاکٹرحسن رضا صاحب کا اداریہ فکر انگیز ہوا کرتا ہے۔ یہی صورت زیر نظر شمارہ میں بھی موجود ہے۔ تانیثی تحریک کے تعلق سے انھوں نے اسلامی ادب کو در پیش چیلنج کا یوں احاطہ کیا ہے:
            ” آج اسلامی ادب کا چیلنج یہ ہے کہ تانیثیت کے حوالے سے ادب میں جن نسائی سرشت کا اظہار یا داخلی سرگزشت کا بیان اعتدال سے ہورہا ہے، ان کا اعتراف کرے اور انتہاپسندی و انحراف کی تمام شکلوںپر تنقید کرے،جس سے اسلامی تہذیب کے تناظر میں ادبی اور اخلاقی قدروں کی نفی ہوتی ہے۔
            ضرورت ہے کہ اس چیلنج کو قبول کرنے اور اس کا سامنا کرنے کی مختلف صورتوں کو ہمارے ادبا اپنی گفتگو کا مرکزی عنوان بنائیں،ورنہ آج کا چیلنج اور ہماری سرد مہری کل کا المیہ بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔
            ڈاکٹر محمود شیخ کا مضمون فکری پس منظر لےے ہوئے ہے، انھوں نے کئی ادبی نظریے یا رجحانات پر نظر ڈالی ہے اور ان کے تصورات کی اجمالی صورت گری کی ہے۔ متذکرہ ادبی نظریوں کے علاوہ جو ادبی نظرےے ہیں، وہاں کاحال بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔ وہاں کا جہانِ تخلیقیت بھی کاروباری مزاج و مذاق سے کسی نہ کسی حد تک متاثر نظر آتا ہے۔ اس جانب ہماری توجہ پہلی ترجیح کا حق رکھتی ہے۔ افسوس ہے کہ ہم آپ بھی کہیں نہ کہیں اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ممکن ہے بعض لوگ اسے ہماری کم نظری یا کم عقلی قرار دیں، لیکن اس سے حقیقت تو وہی رہے گی جو ہے۔
            شاہ اجمل فاروق ندوی کا مضمون بھی توجہ طلب ہے۔انھوں نے اسلامی ادب سے وابستہ افسانہ نگار کا ایک بہت بڑا مسئلہ پیش کرتے ہوئے جن امورکو واضح کیاہے، وہ اہم ہیں او ر ادب کے ذمہ داروں کو افسانہ نگاری کے فنی وفکری معیارات کی سمت میں میدان عمل فراہم کرتے ہیں۔
            ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی، شاہ حسین نہری کی شعری کائنات کا تعارف اور اس کے امتیازات کو روشن کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لطیف احمد خاں، عزیز بگھروی کی شاعری پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کئی معلومات بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ جان کر افسوس ہوا کہ عزیز بگھروی مرحوم پر ۱۰۰۲ءمیں منعقد سمینار کے مضامین کتابی صورت میں ترتیب کے باوجود اب تک غیر مطبوعہ ہیں۔
            سید عبید اللہ ہاشمی کی نظم ایک دکھی دل کی آواز ہے، جو حساس دل والوں کو متوجہ و متاثر کےے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اس صورت میں یہ نظم قابل قبول ہے۔ لیکن کسی کو عید مبارک کہنے سے منع کرنا عجیب لگتا۔ عید مبارک دعائیہ الفاظ ہیں۔ عید روزہ داروں کے لےے انعام ہے۔ عید مبارک کہنے کا مطلب ہے کہ اللہ آپ کی عید کو مبارک ثابت کرے۔ یعنی آپ کو عید کی خوشیاں میسر ہوں، اللہ آپ کو روزہ کے انعام سے نوازے۔ اللہ کے یہاں کس چیز کی کمی ہے؟ وہ چاہے تو اسی دعا کے صدقے میں اُن تمام بے رحم حالات کی تلافی کردے جن کا ذکر نظم میں ہوا ہے۔
  1. عطا عابدی(پٹنہ)

........
            ماہنامہ ” پیش رفت“ مجھے میرے ایک عزیز دوست سے چند ماہ قبل دستیاب ہوا ہے۔ ماہنامہ ”پیش رفت“ ایک تعمیری ادب ،ادب برائے زندگی کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ تازہ شمارہ جنوری ۵۱۰۲ءزیر مطالعہ ہے۔ سبھی مضامین، افسانے، غزلیں معیاری اور تعمیری ہیں۔
            احمد ریاض صاحب( جمشید پور) کا افسانہ ”ایمان دھرم“دیہاتی پس منظر میں امن و قومی یکجہتی کی ایک عمدہ مثال ہے۔ ” پیش رفت“ دیکھ کر خوشی ہوئی جو تعمیری ومعیاری ادب پیش کررہا ہے۔ خدا اس کا سلسلہ دراز کرے۔
سید عبیدالرحمن،جمشید پور(جھارکھنڈ)
........
            آپ کا رسالہ ” پیش رفت“ ہر ماہ بلا تاخیر آپ کے ایجنٹ کی معرفت مل رہا ہے۔ آپ کا رسالہ معنوی اور صوری ہر دو لحاظ سے زیادہ بہتر نظر آرہا ہے۔ امید ہے کہ اس کی اور پذیرائی ہوگی اور ہم جیسے تشنہ ادب نواز کو ادب سے تشنگی بجھانے کا موقع ملے گا۔ خدا کرے ہر آنے والا شمارہ اور بہتر سے بہتر ہو۔
مسلم نواز(کولکاتہ)
........
            محترم المقام ڈاکٹر سید عبد الباری صاحب کے انتقال کے بعد میں نے پیش رفت پڑھنا بند کردیاتھا ۔ گزشتہ تین شمارے گلبرگہ کے ایجنٹ کے معرفت ملے۔ پیش رفت کا نیا انداز دیکھ کر خوشی ہوئی۔ مدیر ، مدیر منتظم اور مجلس مشاورت کی تبدیلی بھی خوب ہے۔ آپ کے ادارےے پڑھے۔ ان اداریوں کی وساطت سے آپ کی تحریرپہلی مرتبہ پڑھنے کا موقع میسر آیا۔ آپ کے اداریوں میں نیاپن ہے، نیا انداز ہے۔ بہرحال پیش رفت کی ادارت کی مبارک باد میری اور والد محترم پروفیسر حمید سہروردی قبلہ (سابق صدر شعبہ اردو فارسی جامعہ گلبرگہ) کی جانب سے قبول کیجيے۔
ڈاکٹرغضنفر اقبال(گلبرگہ)
***







3 comments:

  1. مرجعِ اہلِ نطر ہے ماہنامہ پیشرفت
    اس کے مندرجات ہیں آئینۂ نقد و نظر

    کرتا ہے ہموار یہ فکری تناظر کی زمیں
    اس لئے مداح ہیں اس کے جہاں میں دیدہ ور
    احمد علی برقی اعظمی

    ReplyDelete
  2. ماشااللہ.نہایت عمدہ ادبی صفحہ نظر نواز ہوا

    ReplyDelete
  3. Casino Online: What is the Best Casino Online in India?
    Casino poormansguidetocasinogambling.com online is one of the top types of gambling 1xbet app games to enjoy. If 토토 you https://access777.com/ enjoy casino games, we can 출장안마 help you to win big.

    ReplyDelete