Saturday 31 January 2015

ماہنامہ پیش رفت ـــ فروری 2015

ماہنامہ پیش رفت ـــ  فروری 2015

پیش نامہ
ماہنامہ پیش رفت کا اصل کردار
          پیش رفت ایک فعال ادبی رسالہ ہے، جو کئی مرحلوں اور منزلوں کو طے کرتا ہوا گزشتہ 21 برسوں سے ادارہ ادب اسلامی کی ترجمانی کا کردار ادا کررہا ہے۔ اس پرچے کی ادبی جہت اسلامی شعور کی جمالیاتی ساخت سے متعین ہوتی ہے اوراس کی تخلیقی راہ اسلامی تہذیب میں حق کی بصیرت اور جذبہ خیر کی حرارت سے منور ہوتی ہے۔ اس کے علمی و تحقیقی مضامین کامنہاج علم نافع کے اسلامی تصور سے حرارت لیتا ہے۔ اس طرح بحیثیت مجموعی پرورش لوح و قلم کا یہ پورا عمل ان السمع والبصر والفواد کل کان اولئک عنہ مسؤلا (یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے۔) (بنی اسرائیل:36) کے جذبے سے سرشار رہتاہے ۔یہی جہت، بصیرت، حرارت، منہاج اور جذبہ اس رسالے کو دوسرے ادبی رسالوں سے ممیز کرتا ہے۔
          اس پرچے کا مشن معاشرے کے ادبی مزاج کی تطہیر اور فرد کے ذوق جمال کا تزکیہ ہے اور اس کے ذریعہ ایسے ادب کا فروغ مقصود ہے جو فنون لطیفہ کی ترقی کے ساتھ اعلیٰ انسانی اقدار، امن ، مساوات ، اجتماعی عدل و احترام انسانیت، باہمی رواداری اورخدا کی وفاداری کا ضامن ہو۔ جو فکر وفن کے حسین امتزاج کا نمونہ اور انسان کے لطیف جذبات کی تسکین ، اندرونی احساسات کی طہارت اور باطنی کائنات کی پاکیزگی کا پاسدار ہو اور اسی کے ساتھ تاریخ انسانی کے علمی و ادبی سفر میں علم وتجربے کے ارتقاءاور فن کو کمال تک پہنچانے میں مشرق و مغرب ،من و تو، قدیم و جدید سے بلند ہوکر بنی نوع آدم کے پورے تخلیقی ذخیرے اور تنقیدی تجربے سے اخذ و نقد کی استعداد پیدا کرتے ہوئے آگے بڑھے اور اس راہ میں نئی ادبی روایت کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کی امنگ، اپچ اورصلاحیت کو بھی بروئے کار لاسکے۔
          اس طرح یہ رسالہ جہاں ایک طرف اسلامی ادب کی نمائندگی کرتا ہے وہیں دوسری طرف ادب کی تجربہ گاہ بھی ہے جس کا کینوس یقینا وسیع ہے۔ اس کا مزاج آفاقی ہے ۔یہ اردو زبان میں شائع ضرور ہوتاہے لیکن ادب کے آفاقی تجربے میں شریک ہوکر جہاں بانی کا عزم اور جہاں بینی کا حوصلہ بھی پیدا کرتا ہے۔ یہ اپنی ذات میں گرفتار، معاشرہ گریزاں، بے یقینی کا شکاراور ناتواں وبیمارادب تخلیق نہیں کرتا ہے۔ اس پرچے میںہر زبان کے معیاری مضامین کے ترجمے کے لےے پوری وسعت اور گنجائش ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ اس طرف توجہ کم کی گئی ہے اور ہم اس سطح پر کوئی نمایاں کام نہیں کرسکے ہیں لیکن اس کی وجہ دانستہ چشم پوشی نہیں ہے بلکہ سچی بات یہ ہے کہ:
فرصت ہی نہ دی فیض ہمیں بخیہ گری نے
           اسلامی ادب کے معماروں کے ذہن میں پہلے دن سے یہ بات بہت واضح رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں ہادی اور انبیاءبھیجے ہیں۔ ان پیغمبروں نے اپنی قوم کو جیسے تیسے پیغام نہیں پہنچایا بلکہ پیام الٰہی کو احسن طریقہ سے پیش کیا۔ اس طرح ہر قوم میں ابلاغ، ترسیل اور اظہار کی حسین روایت قائم ہوئی، جس سے اخلاقی ادب کی پرورش ہوتی ہے۔ الہامی تعلیمات کی زبان اور ان کی مشمولات اپنے زمانے کے اعتبار سے اس وقت کے معیاری ادب اور ادبی شہ پارے تھے اور دنیا کی تمام زبانوں میں ایسے ادبی شہ پاروں اور صالح تجربوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ ان کی تلاش و جستجو اور ان کا سراغ گویا مومن کی متاع گم شدہ ہے۔
          اس پرچے میں مضامین کی شمولیت میں دو ہی باتیں ہمیشہ پیش نظر رہی ہیں۔ ایک اخلاقی پہلو ، دوسرا فنی پہلو۔ ایک جمالیاتی قدر دوسرے انسانی قدر۔ہم چاہتے ہیں کہ اس میں شائع ہونے والی تخلیقات ایسی ہوں جن میں ارضی اورسماوی دونوں پیمانے کا توازن ہو۔ اور اس معیار پر جو مضامین پورے اترتے ہیں ان کے لےے پیش رفت کے صفحات ہمیشہ کشادہ رہے ہیں۔
          اس ادبی رسالہ کے ذریعہ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ نئے ادیبوں کا تعارف ہو، ہمارے نوجوان ادیب ، شاعر اور شاعرات آگے بڑھےں ، اس طرح یہ رسالہ نئے فن کاروں کے لےے اظہار کا موقع فراہم کرکے نئی نسل کی ادبی تربیت کرتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پیش رفت میںکچھ صفحات آئندہ خاص کردےے جائیں تاکہ نوجوان طلبہ اور طالبات کی مستقل حوصلہ افزائی ہوتی رہے اور ان کا پوشیدہ تخلیقی جوہر آشکارا ہو اور تنقیدی ذہن جلا پاسکے۔ اس طرح ادب اسلامی کا قافلہ نسل در نسل آگے بڑھتا رہے۔
          ماہنامہ پیش رفت کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں متنوع موضوعات پر مضامین شائع کےے جاتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اگرچہ مختلف اصناف اور موضوعات پر لکھنے والے نمایاںادیبوں اور نام ورفن کاروں کی نظر کرم کے ہم مشتاق بھی رہتے ہیں اور ہنوز یہ شوق، تشنہ اور تکمیل تمنا ہی ہے ۔ ہم آئندہ کے لےے یہ پروگرام بھی رکھتے ہیں کہ ایسے نمایاں ماہرین ادب سے خصوصی رابطہ قائم کریں اور تقریب ملاقات کا سامان انٹرویو اور سمینار کی شکل میں کریں تاکہ ادبی مباحث اور ادبی مسائل پر با وقار اور بامعنی مذاکرہ جاری ہوسکے اور عالمی و ملکی ادب میں نئے رجحانات، تحریکوں اور نئے مباحثوں سے ہمارے قاری واقف ہوتے رہیں۔ اور ان کے سلسلے میں ہمارا موقف بھی واضح ہوتا رہے۔البتہ ہماری کوشش ہوگی کہ ان پر اظہار خیال میں اعتدال و توازن کا حسن قائم رہے تاکہ ادبی مباحث میں مختلف الخیال فنکاروں اور ناقدوں کے درمیان ایک مثبت تعمیر ی فضا قائم رہے۔ ادب کا سچا عاشق وہی ہے جو حسن کا طرفدار ہے۔ لہٰذا اظہار اختلاف میں اعتدال و توازن کا حسن ادارہ ادب اسلامی کا اصل وطیرہ ہے۔ ادبی مباحث میں حسن کی آبروریزی ہمارے مزاج کے منافی ہے۔ پرتشدد اندازبیاں اور انتہاپسندانہ اظہار ، مباحث ، مذاکرے کے حسن کو مجروح کرتے ہیں۔
          پیش رفت ایک ایسا رسالہ ہے جو اپنی پالیسی اور عملی روےے میں اخلاق او رحسن دونوں قدروں کا پاسبان ہے۔ہم یہ جانتے ہیں کہ قوانین فطرت کے اصول،احکام شریعت اور اچھی زندگی کے آداب جب اقدار میں ڈھل کر فنکار کی تخلیقی لمس کے ذریعہ فنی اظہار پاتے ہیں تب ہی اسلامی ادب کے مختلف اصناف واشکال وجود میں آتے ہیں ۔ اس پورے فنکارانہ اور تخلیقی عمل میں تہذیب کی اخلاقی سطح، فنکارکی ذات اس کے قلبی واردات اور ادبی تجربے کی پوری کائنات سب کا رنگ شامل ہوتا ہے۔ جس سے اسلامی ادب کے مختلف شیڈس اور رنگ و آہنگ وجود پزیر ہوتے ہیں۔ اسلامی ادب کا کوئی ایک شوخ رنگ نہیں ہے بلکہ یہاںمختلف رنگوں کا ایک چمن آباد ہے۔
          اس چمن کی آبیاری کے لےے بھی ضروری ہے کہ ہمارے درمیان اظہار اختلاف میں حسن کا پورا خیال رہے۔ اسلام کی نظر میں سب سے قیمتی متاع انسان ہے۔ سورج، چاند، ستارے ، رنگ برنگ کے پھول، بہتے دریا، بلند پہاڑ اور گہرے سمند ر سب عام انسانوں کے لےے ہیںاور اسی کے لےے مسخر کےے گئے ہے۔ اس لےے حقوق انسانی اور تکریم بنی آدم کی نگہبانی ، اسلام کا بنیادی فریضہ اور ادب اسلامی کا بنیادی وظیفہ ہے۔اس کو اتفاق، اختلاف، امن وجنگ، مہربان دوست، نامہربان دشمن، با وفا یار، بے وفا رقیب سب کے لےے ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
          ماہنامہ پیش رفت ادارہ ادب اسلامی کا نمائندہ جریدہ ہے۔اس لےے اس میں اس ادارے کی مختلف شاخوں کی سرگرمیوں کی خبریں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں اور اس کے ساتھ قارئین کو واقف رکھنے کے لےے عام ادبی سرگرمیوں کا ذکر بھی شامل کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ادب پر لکھی گئی اہم کتابوں پر تبصرہ اور اس میدان میں نمایاں شخصیات پر مضامین بھی شائع کےے جاتے ہیں۔ البتہ اس سلسلے میں اردو ادب کے علاوہ دیگر زبانوں کی ادبی کتب اور ان کی نمایاں ادبی شخصیات کے سلسلے میں کوتاہی ہوتی رہی ہے جس کا تدارک اب پیش نظر ہے۔
          بہرحال اس پورے ادبی سفر میں ہماری بنیادی کوشش یہی ہے کہ اس پرچے کی ادبی جہت تبدیل نہ ہواور اس کا قبلہ درست رہے۔ اس میں اعلیٰ انسانی قدروں کی پاسبانی کے ساتھ ادب کی اعلی تخلیق وتنقید کافنی سفر بھی نئی نئی بلندیوں کو چھوتا رہے۔ ہم بزرگ قلم کاروں، نمایاں فن کاروں اور ناقدین سے خواہش کرتے ہیں کہ وہ اس پہلو سے پرچہ کاجائزہ لیں اور قلمی تعاون فرمائیں۔ ان کے علاوہ حوصلہ مند نوجوانوں ، ادیبوں اور ریسرچ اسکالرس سے بھی امید کرتے ہیں کہ وہ اس ادبی مشن سے اپنے کو وابستہ کریں گے تاکہ اس مجلہ کو سب مل کر عہد ساز ادبی مجلہ بنا سکیں۔
 ڈاکٹر حسن رضا


  
مناجات
ظلمت کو رحمت سے پر انوار بنا دے
تو جو چاہے آتش کو گلزار بنا دے

پل میں بکھرے باطل کے فیلوں کا لشکر
کنکریوں سے شہ زوری بیکار بنا دے

ہاتھ میں ہو کشکول امیر شہر کے اک دن
بے مایہ کو بستی کا سردار بنا دے

تیری رحمت جوش میں جب آجائے مولیٰ
لطف و کرم سے کافر کو دیں دار بنا دے

کر مقبول دعا یہ میری ربِّ اکرم
اپنے ہر بندے کو باکردار بنا دے

میرے مالک یہ اعزاز عطا کر مجھ کو
پُر معنیٰ میرے بھی کچھ اشعار بنا دے

کہتے تو ہیں مجھ کو سب ابرار یقینا
سچ مچ مجھ کو اے رب تو ابرار بنا دے
 ابرار کرت پوری
نئی دہلی

نعت
اقرأ کے ساتھ، اسمِ ربّ العلا کی باتیں
آئینِ زندگی ہیں غارِ حرا کی باتیں

دین و ادب کی باتیں، صدق و صفا کی باتیں
سارے جہاں سے اچھی، خیر الوریٰ کی باتیں

جنت کے تذکرے سے کیا کم ہیں، اہلِ دل کو
بطحا کی وادیوں کی آب و ہوا کی باتیں

باتوں میں ہے انھیں کی، حل سارے مسئلوں کا
ہاں، ہم نشیں! کےے جا بس مصطفی کی باتیں

ممکن ہے آ رہی ہو طیبہ کی سمت ہو کر
سنتا ہوں گوشِ دل سے، بادِ صبا کی باتیں

سرتاجِ انبیاءکی کرتا ہے جو اطاعت
گویا وہ مانتا ہے سب انبیاءکی باتیں

ہے آپ کی اطاعت، اللہ کی محبت
بتلائیں آپ ہی نے ہم کو خدا کی باتیں

حبِّ نبی کا دعویٰ، مغرب کی پیروی بھی
اب چھوڑ بھی دو یارو! مکر و ریا کی باتیں

سیرت پڑھی ہے اس نے، قرآن بھی پڑھا ہے
پوچھو رئیس سے تم، شاہِ ہدی کی باتیں

 ڈاکٹر رئیس احمد نعمانی
علی گڑھ
.................
مشیّت ایزدی کا منشا ہے جب بتایا تو لوگ سمجھے
تمام رازوں کو سرور دیں نے آکے کھولا تو لوگ سمجھے

حرا کی رفعت، حرا کی عظمت، کسے پتا تھی جہاں میں پہلے
جو اُس سے رشد و ہدیٰ کا اک آفتاب ابھرا تو لوگ سمجھے

امین و صادق تو مانتے تھے، مگر نہ تسلیم کی رسالت
قمر کو انگلی کے اک اشارے سے شق جو دیکھا تو لوگ سمجھے

حضور نے جو بھی کہہ دیا ہے، عمل اُسی پر رضائے مولا
اُحد میں اک لغزش نظر کا نتیجہ دیکھا تو لوگ سمجھے

ہے ان کی تعلیم کیوں ضروری نجات انسانیت کو آخر
جو بربریت کا ایک طوفاں جہاں میں اٹھا تو لوگ سمجھے

نبی پہ ایمان ہی کو کافی سمجھ کے خوش تھے مگر اچانک
جو صلّوا اور سلّموا کا قرآں میں حکم آیا تو لوگ سمجھے

سکون قلب و نظر ہے اجمل کی نعت گوئی نہ جان پائے
لبوں پہ اُس کے جو نزع میں بھی درود پایا تو لوگ سمجھے

 شاہ اجمل فاروق ندوی
                                نئی دہلی
****

”اک آبلہ پا وادئ پُر خار میں تھا“
 منظور عثمانی
نئی دہلی

          دارِ فانی کی بے ثباتی کے بارے میں فانی نے کہاتھا:
ہم نہ تھے کل کی بات ہے فانی
ہم نہ ہوں گے وہ دن بھی دور نہیں
          سو قدرت کے اٹل اصول کی تعمیل میں سرسید کے سچے وارث، قوم کے ہمدرد، غم گسار اور مسیحا کو بھی 94 سال کی عمر میں ملت کو سوگوار چھوڑ کر رخت سفر باندھنا پڑا۔ بالآخر:
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں
          فیض احمد فیض کے مطابق:
اس جان کی کوئی بات نہیں یہ جان تو آنی جانی ہے
          لیکن قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ :
کس دھج سے کوئی مقتل کو گیا
          تو تمام عمر کے لیکھا جوکھا کو نظر میں اگر رکھا جائے تو مجھے وثوق کے ساتھ کہنے دیجےے کہ بڑے سید کے بعد جس کا یہ سید سچا پیروکار تھا شاید ہی کوئی دوسرا ایسا دیدہ ور، پیدا ہوا ہو جو قوم کے لےے عمر بھر اتنا سوز پا میں مبتلا رہا ہویا جس نے قوم کی فلاح میں اتنی گرد پھانکی ہو۔
          خاکسار سے سید حامدصاحب سے جانکاری اس وقت شروع ہوئی جب آپ یوپی سے آکر مرکز میں Staff Selection Commission کے بانی چیئرمین تھے۔ وجہ یہ بنی کہ مرزا محمود بیگ سابق پرنسپل اینگلو عربک کالج (دلی کالج) دلی ایجوکیشن سوسائٹی (جس کے تحت دلی کالج اینگلو عربک سینئر سیکنڈری اسکول اور شفیق میموریل اسکول (جہاں میں پوسٹ گریجویٹ (P.G.T.) تھا) چل رہے تھے) سکریٹری تھے۔ لیکن ڈاکٹر ذاکر حسین (سابق صدر جمہوریہ) کی ایما پر آپ بطور ایجوکیشنل ایڈوائزر کشمیر جانے لگے تو اپنی خداداد مردم شناسی کے باعث آپ کی نظرانتخاب اپنے متبادل کے طور پر سید حامد صاحب پر پڑی۔ سوسائٹی کی خوش قسمتی سے سید صاحب نے یہ اضافی ذمہ داری بھی اوڑھ لی ۔ احقر اس وقت اپنے ادارے کے اکیڈمک (Academic) معاملات کا ذمہ دار تھا، اس لےے مرحوم سے مسلسل رابطہ بنا رہا۔ کچھ سالوں کے لےے یہ سلسلہ تب منقطع ہوا جب سید صاحب 1958 ءمیں علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوکر چند سالوں کے لےے دہلی چھوڑ گئے۔ اس دوران تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ میں نے دہلی کے اسکولوں کے تعلیمی مسائل اردو کونسل کی فروغ اردو کے سلسلے میں لیت و لعل اور این سی ای آر ٹی کی اردو میں نصابی کتب کی اشاعت میں مجرمانہ پہلو تہی پر سارے ہی اردو اخباروں میں مضامین لکھے۔ اس کے علاوہ اردو اسکولوں کی زبوں حالی اورنتائج کی شرمناک حالت کو بھی ہائی لائٹ کیا۔ اسی دوران مسلم یونیورسٹی سے سبک دوشی کے بعد سید صاحب نے ہمدرد یونیورسٹی کو اپنی ذات کا محور بناکر اس کی نوک پلک سنوارنے میں جٹ گئے۔ لیکن حیرت ہوتی ہے کہ سید صاحب میں کتنی توانائی تھی کہ ملکی پیمانہ پر بھی ان کی نظر رہی اور اس کی اصلاح کے لےے جگر سوزی اور تگ و دو بھی۔
          اسی دوران قوم کی بے عملی سے بے چین ہوکر اپنا پیغام دردر پہنچانے کے لےے آپ نے کارواں لے کر گرد نوردی کی ٹھان لی۔ ابتدا یوپی سے کی ، آپ یوپی اردو رابطہ کے چیئرمین بھی تھے اس کے علاوہ امان اللہ خاں، پروفیسر عتیق احمد مرحوم، پروفیسر شریف احمد مرحوم اور ان کی ٹیم کو لے کر پوری یوپی کو چھان مارا۔ میں اس وقت اپنی ملازمت کے آخری دور میں تھا لیکن اس کارواں کی کامیابی اور پذیرائی برابر اخباروں میں پڑھتا رہا۔ کارواں جہاں جہاں سے گزرا لوگوں نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ بات کیوں کہ دل سے نکلی تھی اس لےے جاکر دل پر اثر انداز ہورہی ہے ۔ چنانچہ اس سے حوصلہ پاکر آبلہ پا سید صاحب کی رہنمائی میں ایک ملک گیر پیمانہ پر تعلیمی کارواں کی ٹھان لی گئی۔ میں اس وقت تک وظیفہ یاب ہوچکا تھا۔ مجھے بھی شمولیت کی دعوت دی گئی اگر چہ میں دل کا روگ لگا بیٹھا تھا لیکن 74 سال کی میر کارواں کی ہمت اور حوصلہ کے آگے سارے مجوزہ احتیاط کو پس پشت ڈال کر میں بھی ساتھ ہولیا۔ پروگرام بھی سرچکر ادینے والا تھا۔ 18 دنوں میں 13 ریاستوں اور 30 شہروں کی خاک چھاننی پڑی۔ پروگرام ایسا بنایا گیا تھا کہ رات میں سفر اور دن میں کئی کئی جلسے۔ مرحبا اپنا میر کارواں سب سے زیادہ چاق و چوبند اور مستعد رہا۔ بلڈ پریشر اور نہ جانے کس کس عارضہ کی دوائیں لیتا اور سرگرمِ عمل اور رواں دواں۔
          سید حامد صاحب کی مہم جوئی کی مبادیات:
۱-      خواندگی اور تعلیمی بیداری
۲-      اصلاحِ معاشرہ
۳-      صحت و صفائی
۴-      فرقہ وارانہ ہم آہنگی
          غور سے دیکھا جائے تو یہی سرسید علیہ الرحمہ کی بھی ساری جدو جہد کا نچوڑ ہیں۔ مرحوم کی زندگی کا محور یہی چار نکات تھے۔ کارواں جن جن راہوں سے گزرا انھی کی ترغیب دیتا رہا۔ شرکاءکاروان بھی انھی بنیادی مقاصد کو اپنی تقریروں کا موضوع بناتے کہ صدیوں کا طار ی جمود کسی طور پر کم ہو۔ میر کارواں کے الفاظ میں:
” کارواں جہاں بھی گیا اس کی پذیرائی گرم جوشی سے کی گئی۔ اسلامی اخوت اور اخلاص کے ایمان افروز مظاہرے ہر پڑاوپر دیکھنے کو ملے۔ یہ محسوس ہوا کہ اب مسلمان خواب غفلت سے قطع تعلق کرنا چاہتا ہے وہ علم و آگہی کے پیاسے ہیں، شعلہ بار مقرروں اور صحافیوں سے ان کا دل بھر چکا ہے، انھیں یہ احساس ستانے لگا ہے کہ وقت عزیز باتوں، خیال آرائیوں اور خرافاتوں میں بہت گنوایا اب سنجیدگی کے ساتھ تعلیم اور تعمیر میں لگانا چاہےے۔ اپنی ذات پر اب وہ کڑھنے لگے ہیں، غیرت انھیں کچھ لَے لگانے لگی ہے جھوٹی قناعت سے وہ اکتانے لگے ہیں۔“
          آگے چل کر فرماتے ہیں:
”اگرچہ یہ دعویٰ کرنا نادانی ہی کہلائے گی کہ کارواں کوئی بڑی تبدیلی لے آیا لیکن اتنا کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بڑے شہروں میں کارواں نے جہاں جہاں پڑاوکیا اضلاع کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ اس کا سندیسہ دوش بدوش اطراف و اکناف میں پھیل گیا۔ کانفرنسوں نے پروبال کا کام کیا۔ روزناموں نے کارواں کی آمد کو مشتہر کیا۔ بعض نے اس پر ادارےے لکھے اور جلسوں کی روداد اور تقریروں کے نکات کو صفحات میں جگہ دی۔ فلاح و تعمیر واصلاح کی لہریں پھیلتی اور جا بجا ساحل سے ٹکراتی گئیں۔“
          ایک بار غالباً میں نے کاروانِ تعلیم کاذکر کیا تو ان کے جواب میں آپ نے اپنے مکتوب 20اپریل 2000 میں لکھا ”کارواں کا ذکر آپ نے :
ایک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے
’نکتہ‘ چینوں نے کہا ” کارواں آیا، خاک اڑائی، گزر گیا، کارواں کا جو از اکبر الٰہ آبادی نے پہلے ہی فراہم کردیا تھا:
ہر چند بگولہ مضطر ہے اک جوش تو اس کے اندر ہے
اک وجہ تو ہے، اک رقص تو ہے بے چین سہی بے تاب سہی
گرد تو ہم نے ضرور اڑائی لیکن بے چینی اور بے تابی بھی ہم بانٹتے چلے گئے اور وہ بھی وجد اور رقص کے انداز میں جب اہلِ کارواں کے دل میں اس کی یادیں پیوست ہوگئیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ جنھوں نے رقص شرر کا منظر دیکھا وہ بالکل بھول گئے ہوں۔ تجارت کے لےے اجناس و انواع کی کوئی کمی نہیں۔ لیکن سب سے اعلیٰ کاروبار جس سے انسانیت کو سروکار رہا ہے، افکار کا کاروبار رہا ہے۔ افکار و خیالات کی تخم ریزی ہمیشہ تہذیب کے برگ و بار لاتی ہے ” میں کارواں کی صفائی کرنے کیوں بیٹھ گیا اور وہ بھی ایسے شخص کے حضور جس نے کارواں میں شریک ہوکر اس کے وقار کو بڑھایا۔“
          غرض اس کارواں کو کسی آنے والے انقلاب کی گھن گرج سے تو نہیں ہاں آہٹ سے ضرور تعبیر کیاجاسکتا تھا۔ ایک بڑی حوصلہ افزا بات یہ دیکھنے میں آئی کہ مسلم تعلیم یافتہ نوجوانوں میں اپنے پچھڑے پن پر زیادہ تڑپ محسوس کی گئی۔
          تعلیمی کارواں سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہو ا کہ ہمیں یہ علم ہوگیاکہ ملک بھر میں مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال کیاہے۔ کہیں صورت حال اطمینان بخش تو کہیں کہیں انتہائی مایوس کن پائی۔ مثلاً مہاراشٹر، کرناٹک اور حیدرآباد میں انجمن اسلام، الامین اور کیرلانے غیر معمولی بیداری کا ثبوت دیا تو شمالی ہندوستان نے مثالی بے حسی کا۔ اپنا یوپی اور دہلی سب سے زیادہ پھسڈی پائے گئے جو کبھی اردوکے گہوارہ رہے تھے۔ یوپی میں ایک بھی اردو میڈیم ہائی اسکول نہ تھا جب کہ اڑیسہ میں 3% مسلمانوں کی آبادی والے صوبے میں 6 اردو میڈیم اسکول پائے گئے۔ کرناٹک میں (جہاں اس وقت ڈھائی سو سے زیادہ اردو میڈیم اسکول تھے) وزیر سلیمان سیٹھ کا یہ دل خراش جملہ بھی سننے کو ملا کہ ایک زمانہ تھا کہ علم کا سورج شمال سے طلوع ہوا کرتا تھا اور جنوبی ہند اس کی روشنی سے مستفید ہوتا تھا پر آج الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ جس پر سید حامد صاحب نے جواب دیا تھا:
جہاں میں اہل ایمان صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
(علامہ اقبال)
          گلبرگہ کے سفر کے دوران ایک محیر العقول واقعہ دیکھنے میں یہ آیا کہ درگاہ خواجہ گیسو دراز کی آمدنی سے وہاں کے قابل فخر سجادہ صاحب نے اکیس ادارے چلا رکھے ہیں جن میں میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج، نرسنگ اور ڈینٹل اور آئی آئی ٹی جیسے بڑے ادارے شامل ہیں۔ اس کارنامہ سے متاثر ہوکر میں نے خصوصی طور پر اجمیر شریف، نظام الدین اور دوسری بڑی درگاہوں کے سجادگان کو غیرت دلائی۔ پروائے بے حسی اور غفلت، وہاں تو:
”ہے یوں کہ انھیں دورِ تہہ جام بہت ہے“
          اس ٹور میں احقر نے ایک خاص چیزنوٹ کی کہ ساوتھ میں مسلمانوں کی تعلیمی ترقی میں وہاں کے لوکل غیر مسلم سیاست دانوں کا بھی تعاون حاصل رہا۔ ہمارے جلسوں میں وہ لوگ برابر دل چسپی لیتے رہے۔ ہم لوگوں نے اپنی تقاریر میں اسے خاص طور سے سراہا۔ ہندوستان جیسے بین الثقافتی ملک میں اس کے بغیر کام بھی نہیں چلتا۔ Polarization یا ارتکاز کے نتائج ہم شمال مغربی ہندوستان میں بھگت ہی رہے ہیں۔
          اس مہم میں اہالیانِ کارواں نے تقابلی تجزیہ بھی کیا اور پایا کہ اہلِ اسلام نے کہیں کسی ریاست میں کتنی بھی تعلیمی ترقی کی ہو لیکن معیار میں سبقت غیر مسلموں کو ہی حاصل تھی۔ اس کے علاوہ بھی دوسرے سروے سے یہ ثابت تھا کہ تعلیمی دوڑ میں ملک کے سب سے نچلے پائیدان پر تھا جس کا واحد حل سید حامد اور سید شہاب الدین جیسے عمائدین کے تئیں یہ تھا کہ مسلمانوں کو ریزرویشن دیا جائے۔
کاروانِ صحت:
          تعلیمی کارواں کے اٹھارہ دنوں کے تھکا دینے والے سفر کے بعد بھی حامد صاحب نچلے نہیں بیٹھے چنانچہ چند دن سانس لینے کے بعد کاروانِ صحت لے کر نکل پڑے ، اس بار ٹارگیٹ یوپی کے دو اضلاع تھے جہاں مسلمان گندگی کے سبب سے پولیو اور ٹی بی جیسے امراض کا شکار تھے۔ حامد صاحب نے خصوصی طور پر مجھے حکم دیا کہ احقر کو شامل سفر رہنا تھا۔ میرٹھ، رڑکی اور بجنور اور مظفر نگر تک میں ساتھ رہا لیکن طبیعت کی خرابی کی وجہ سے مزید تعمیل نہ کرسکا۔
          یہاں کچھ چونکا دینے والے انکشاف ہوئے۔ وہ یہ تھے کہ مظفر نگر کے مشہور ٹی بی اسپیشلسٹ ڈاکٹر بنسل نے بتایا کہ ان کے پاس 75% برقعہ پوش خواتین ٹی بی کی مریضہ تھیں۔ بجنور میں 110 پولیو کے مریضوں میں 103 مسلمان بچے تھے۔ ڈاکٹر خلیل اللہ کے مطابق ان کے مریضوں میں اکثریت گوشت خوروں کی تھی۔ اس لےے اس بار حفظانِ صحت خاص موضوع رہا۔ اہتمام یہ دیکھا گیا کہ ان شہروں کے غیر مسلم ڈاکٹروں کا تعاون بھی شامل حال رہے۔ ضلعوں میں صحت و صفائی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ ہماری تقاریر کا موضوع بھی زیادہ تر صفائی ہی رہا خاصی ہلچل ہر جگہ دیکھنے میں آئی۔کئی غیر مسلموں کو کارواں کی غرض و غایت کا پتہ چلا تو برملا اعتراف کیا کہ یہ تو دیش کی خدمت ہے صرف مسلمانوں ہی کی نہیں۔ جب انھیں میر کارواں کی عمر کا علم ہوا تو کئیوں نے توسید صاحب کے پیر چھوکر اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔
          سید صاحب کے ساتھ احقر کو 22 روز دن رات رہنے کا اعزاز ملا۔ میں دل کی گہرائیوں سے دعویٰ کرتا ہوں کہ ایسا بے نفس، بے ریا، بے غرض درویش صفت اور قوم کی بہبودی میں ہرلمحہ سوزاں فقیر اپنی اسی سالہ زندگی میں ، میں نہ دیکھا اور نہ برتا اور اس مکرو ریا کی دنیا میں شاید ملے بھی نہیں، کاش ہمیں اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی توفیق ہو۔
          کم لوگوں کو علم ہے کہ سچر کمیٹی کو صحیح صورت ِ حال کی جانکاری کرانے میں سید صاحب کی بصیرت اور ملک گیر معلومات کا کتنا بڑا ہاتھ تھا، مجھے علم ہے کہ کمیشن کے سلسلے میں مرحوم کتنی آشائیں، کتنی امیدیں باندھے ہوئے تھے۔ لیکن حقیقت پسند انسان کی طرح انھیں اس کا بھی بخوبی علم تھا کہ Follw up کے بغیر سرد خانے کتنے کمیشنوں سے اٹے پڑے ہیں۔ دباوبنائے بغیر سرکار ہر بڑاتی نہیں۔ حق کو بھیک کی طرح مانگنے میں ہمیں ملکہ حاصل ہے۔ بے عملی کی سیاہ ردائیں اوڑھ کر نوحہ گری میں ہم کو لطف آنے لگا ہے، اسی پر نشانے سادھتے ہوئے مرحوم کوکئی بار دہراتے ہوئے سنا ہے کہ ہم لوگوں کو:
ہے وصلِ یار کی بھی تمنا کو حوصلہ
ڈر یہ بھی ہے کہ طبعِ عدو پر گراں نہ ہو
          یہی ہوا بھی ہم سید صاحب کے بار بار انتباہ کے باوجود وہ دباونہ بناسکے جس کے نتیجے کے طور پر رپورٹ بھی طاقِ نسیاں ہوکر رہ گئی۔ مرحوم نے اس کمیشن کی تیاری میں بڑی محنت کی تھی، بڑی امیدیں وابستہ کی تھیں، لیکن ہوا وہی جس کا خدشہ تھا۔ اثر انداز ہونے کے لےے با عمل ہونے، بیدار ہونے اور جہد مسلسل کی ضرورت ہے جو بد قسمتی سے ہمارے خمیر میںنہیں۔ جاگ جاگ کر سوجانے میں ہمیں بڑا مزہ آتا ہے۔ مرحوم قوم کی بے عملی سے دل برداشتہ ہوکر کئی بار کف ِ افسوس ملتے ہوئے فرماتے بھی تھے کہ ہمارے دلوں سے احساس زیاں تک جاتا رہا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ:
یہ خواب مسلسل کے نتائج ہیں کہ ہم لوگ
خود دارئ احساس کو بھی بھول چکے ہیں
          کم و بیش اسی محرومیِ احساس کی ٹیس ہر دلِ دردمند نے محسوس کی ہے۔ سرسید پر ہماری بے حسی اور گمراہی نے کیا کیا ظلم نہیں ڈھائے۔ اقبال نے اپنے پیغام کی پائمالی پر کیسے کیسے آنسو بہائے ہیں۔ بے حس قومیں اپنے محسنوں کے احسانات کا بدلہ ایسے ہی چکاتی ہیں۔ یہ تو ان کا آہنی عزم تھا ، جو گالیاں کھاکے بھی بے مزہ نہیں ہوئے اور خود کو یہ کہہ کر تسلی دے لی کہ:
مانا کہ اس جہاں کو نہ گلزار کر سکے
کچھ خار تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم
          سرسید کے خلاف ایک مولانا شیخِ حرم سے کفر کا فتویٰ لینے حج پر گئے تو سرسید نے یہ کہہ کر ہنسی میں ٹال دیا ” ہمارا کفر بھی کیا کفر ہے کہ لوگوں کوحاجی بنا دیتا ہے۔“ ان کی روایتوں کا یہ سچا وارث بھی اسی خمیر سے اٹھا تھا،وقتی کدورتوں کی بات دوسری تھی ورنہ حامد صاحب بھی انھی جیسے اعصاب کے مالک تھے۔ ایک بار ایک شہر کے لوگوں کی بے رغبتی ( شاید ناگپور) کے پیشِ نظر میں نے حامد صاحب سے مؤدبانہ عرض بھی کیا ”جناب اپنی قوم کو آپ جیسے مصلح کی ضرورت بھی ہے یا ہم بلا وجہ ہی سرگرداں ہیں؟“۔
          اس گستاخانہ سوال کا جواب سوائے خنده زیر لب کے اور ہو بھی کیا سکتا تھا۔ ایسے لوگ بد دل ہوکر بیٹھ بھی کب سکتے ہیں۔
          مرحوم نے اپنے اوپر آرام حرام کرلیا تھا۔ بڑھاپے میں بھی ہر وقت قوم ، اس کی فلاح و بہبودی کے بارے میں ہی سوچتے۔ ایک دھن تھی جو ہمیشہ سوار رہتی۔ اگرچہ آخری دور کا بیشتر حصہ ہمدرد یونیورسٹی کے بنانے، سنوارنے اور اسے تعلیمی برادری میں نمایاں مقام دلانے میں گزرا لیکن قومی اور ملی مسائل آپ کی نظر سے کبھی اوجھل نہیں ہوئے۔ تعلیمی کارواں کے بعد احقر کا دہلی کے امداد یافتہ اسکولوں کے مسائل کے بارے میں آپ سے مسلسل رابطہ رہا۔ ایک بار نتائج کے بہتر کرنے کے سلسلے میں (جس کو آپ نے سراہا تھا) حکیم عبد الحمید صاحب سے ملاقات بھی کرائی جو ان کے فنانشیل سکریٹری قدوائی صاحب کی کتربیونت کی نذر ہوگئی۔ مرحوم کودہلی کے اردو میڈیم اسکولوں کی بہبود کی فکر ہمیشہ رہتی تھی۔ ایک بار سوچا گیا کہ ایک نگراں کمیٹی مقرر ہو جو اسکولوں کی کارکردگی پر نظر رکھ سکے۔ شریف الحسن نقوی صاحب بھی پیش پیش تھے۔چنانچہ تمام اسکولوں کے منیجر، صدور، پرنسپل صاحبان کی مشترکہ میٹنگ فتح پوری مسلم اسکول میں بلائی گئی جس کا ایک رکن یہ خاکسار بھی تھا۔ پہلی ہی میٹنگ میں ، میں نے محسوس کیا کہ اسکولوںکے ذمہ داران کی نظر میں یہ ان کے اختیارات پر ایک قدغن تھا۔ حامد صاحب نے جب مجھے اپنی رائے پیش کرنے کاحکم دیا تو میں نے عرض کیا کہ ہماری حیثیت تو صرف دردمندان اور مشیر کی سی ہے۔ کرنا نہ کرنا تو اسکولوں کے عہدیداران کو ہے۔ بہر کیف ایک نگراں کمیٹی تشکیل دی گئی۔ سید حامد صدر اور نقوی صاحب سکریٹری اور چند افراد بمع خاکسار ممبر بنائے گئے۔ طے یہ ہوا کہ ہر دو ماہ بعد کسی ایک اسکول میں نگراںکمیٹی کارکردگی کا جائزہ لے۔ لیکن میرے اندازے کے عین مطابق یہ میٹنگ ہی پہلی اور آخری ثابت ہوئی، کیوں کہ بفضل تعالیٰ وہاں تو :
سب کام چل رہے تھے ہنر کے بغیر بھی
          ادھر سے مایوس ہوکر مرحوم اس نتیجے پر پہنچے کے دہلی میں چند انگلش ماڈل اسکول کھڑے کےے جائیں، جہاں قوم کے ہونہار بچوں کا دینیات اور اردو سیکنڈ لینگویج کے ساتھ انگلش میڈیم سے تعلیم دی جائے۔ چنانچہ ہمدرد پبلک اسکول ، کریسنٹ پبلک اسکول، نیو ہورائزن پبلک اسکول اور .... ............ پبلک اسکول (ارون ہسپتال کی پشت پر) اسی خواب کی تابندہ تفسیریں ہیں۔ یقینا اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں شفیع قریشی، شفیع پیکارڈوالے، ریاض عمر، چودھری عارف، عیسیٰ شفیع اور دردمندان کا خون جگر شامل ہے لیکن یہ سب سید حامد صاحب کے اختراعی ذہن کی ہی پیداوار ہیں۔ انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کا قیام بھی ، جو آج سراج الدین قریشی کے خلوص اور محنت کے باعث مثالی ادارہ ہے، سید صاحب ، شفیع قریشی وغیرہ کے ہی خوابوں کا ثمرہ ہے۔
حکیم عبد الحمید اور سید صاحب کا نایاب تال میل
          دنیا کی واحد مثال ہے کہ بیوہ ماں کے دو لائق سپوتوں نے صرف اپنے بل بوتوں پر اور اپنے پیسے سے ہندو و پاک میں دو عظیم یونیورسٹیاں قائم کردیں۔ حکیم صاحب گلے گلے تاجر تھے لیکن ایسے تاجر جس کی تاجرانہ صلاحیتوں سے قوم کو بے پناہ فائدہ پہنچا ہو۔ دولت بہت لوگ کماتے ہیں لیکن دولت کا اتنے مستحسن استعمال کی توفیق چند ہی لوگوں کو ملتی ہے۔ ہمدرد کا مالک واقعی صحیح معنوں میں قوم کا ” ہمدرد“ تھا۔ اس نے دولت کو اپنی آسائش کا ذریعہ نہیں بنایا۔ اپنے پیسے سے ایک عظیم ادارے کے قیام کاخواب نہ جانے کب سے پالا ہوا تھا کہ 47 ءکے پُر آشوب دور میں جب مسلمان اپنی جائدادیں اونے پونے بیچ کر بھاگ رہے تھی تو یہ عبد المومن اپنے مومن کے بھروسے پر تغلق آباد میں اپنے خوابوں کی تعبیر کے لےے زمینیں خرید رہا تھا۔ ہمدرد یونیورسٹی کی بنیاد پڑ چکی تھی لیکن حکیم صاحب اپنے تمام تر وسائل، سارے جذبے کے باوجود ان رموز سے آگاہ نہیں تھے جو تعلیمی اداروں کے لےے درکار ہوتے ہیں لیکن قدرت نے انھیں جوہر شناسی کا ملکہ ضرور دیاتھا۔ ہمدرد دواخانہ کی ترقی سے لے کر ہمدرد یونیورسٹی کے فروغ تک کارکنان کا انتخاب ان کی دور رس نگاہی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ ہر مہرہ جو جس بساط پر موزوں تھا وہ وہیں پر نظر آتا تھا۔ کام کرنے کی اہمیت اپنی جگہ لیکن کامی افراد کا بہترین مصرف کے لےے غیر معمولی لیاقت درکار ہوتی ہے۔ حکیم صاحب کو یہ جوہر خدا کا عطیہ تھا۔ نہ جانے مرحوم کب سے تاک میں تھے کہ سید حامد کب ان کے ہتھے چڑھیں اور وہ انھیں اچک لیں۔ یہی ہوا بھی کہ مسلم یونیورسٹی کی چانسلر شپ سے سبک دوش ہوتے ہی حامد صاحب حکیم جی کے دوش بدوش نظر آئے۔ نہ جانے اللہ نے ان کی زبان میں کیا تاثیر دی تھی کہ آپ کے ساتھ ہر کام کرنے والے اسے اپنا کام سمجھ کر بھنبھیری بنا دن رات ایک کردیتا تھا۔ اتفاق سے ہمدرد دواخانے کے ابتدائی کارکن ماسٹر صاحب (منیجر) محمد محترم عثمانی، سید صاحب، مخمور عثمانی اور وحید صاحب سے میں ذاتی طور پر واقف تھا۔ انھوں نے ہمدرد کو ہمدرد بنانے میں کس طرح ’ ’بصد شوق“ اپنی جانیں وقف کی تھیں اس کامیں عینی شاہد ہوں۔ الجمعیة کے انگریزی جریدے کے بند ہونے کے بعد کس طرح ناز نخرے اٹھاکر سید اوصاف علی کو اپنے ساتھ کام کرنے پر راضی کیا اور ان کے جملہ اوصاف کو یونیورسٹی کے لےے استعمال کیا۔ وہ بھی میرے علم میں ہے۔
          لیکن میری نظر میں حکیم صاحب کا ” ماسٹر اسٹروک“ سید حامد کا استعمال تھا۔حکیم صاحب کے سارے وسائل، ساری دولت، سارے منصوبے، سارا جذبہ سب دھرے رہ جاتے اگر حامد صاحب جیسا جہاں دیدہ، تجربہ کار، ایڈمنسٹریٹیو، مشقت پسند اور قومی جذبے سے سرشار مردمومن انھیں نصیب نہ ہوتا۔ سرسید نے تو اپنی نجات کا ذریعہ ’ مسدس حالی‘ لکھوالانے کو بتایا تھا لیکن حکیم صاحب بجا طور پر سید حامد کے انتخاب پر فخر کرسکتے ہیں۔ سید صاحب کا جذبہ، تجربہ اور رسوخ اگر نہ ہوتے تو ہمدرد یونیورسٹی آج اس مقام پر نہ ہوتی۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ حکیم صاحب کے مہیا کردہ وسائل سید صاحب کو حاصل نہ ہوتے تو اس درویش کے ہاتھوں یہ کام ہرگز نہ ہوپاتا۔ عجیب اتفاق تھا ان دو عظیم شخصیتوں کا۔ شاید یہ قدرت ہی کی طرف سے تھا۔ نیتوں میں خلوص اور جذبوں میں صداقت ہو تو وہ قادر مطلق غیب سے ایسے امکانات پیدا فرما دیتا ہے۔
          بہرحال قدرت کو سید صاحب جیسے فقیر اور درویش سے جتنا اور جیسے کام لینا تھا وہ لے لیا۔ مرحوم فقیرانہ آیا اور صدا کر گیا۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ان کی وراثت کو کس انداز سے تھامتے اور آگے بڑھاتے ہیں۔ ویسے اپنے محسنوں کے بارے میں ہمارا ریکارڈ کچھ زیادہ روشن نہیں رہا۔ تجربہ بتاتا ہے کہ وقتی طور سے خوب خوب تعزیتی جلسے ہوتے ، مرحوم کی خدمات کے بارے میں دل کھول کر اعتراف کےے جاتے ہیں، زبانی جمع خرچ کے جھاڑ باندھے جاتے ہیں۔ یہ ضرور بالضرور کہا جاتا ہے جانے والا جو خلا چھوڑ گیا وہ پُر ہونے والا نہیں۔ لیکن بقول ایک دانش ور:
          ” کوئی خلا پیدا نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی تو مرحوم کے جسدِ خاکی سے پُر بھی ہوجاتا ہے۔“
          وقتی جوش کے تحت کبھی اِکّا دکّا میموریل بھی قائم کردیا لیکن جلد ہی آپسی مناقشے یا شخصی مفادات کے زیر اثر اکھاڑہ بن کر رہ جاتا ہے۔ مرحوم کا پیغام اس کا کردار، خلوص، ایثار اور مقصد طاقِ نسیاں کی نذر کردیا جاتا ہے۔ دعا ہے کہ حکیم صاحب کا اگایا اور حامد صاحب کاسینچا پودا ہمیشہ سرسبز شاداب رہے۔ مسیحا روز روز نہیں آتے، کبھی تو صدیوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ کاش ثمر حامد اور عبد المعید اسی لگن، تال میل اور ایثار کا ثبوت دیں جو ان مرحوم کا عمر بھر وطیرہ رہا۔ آمین!
          سچ تو یہ ہے ایسے نایاب ہستیوں کے بارے میں کسی شاعر کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ:
قبروں میں نہیں ان کو کتابوں میں اتارو
یہ لوگ ”محبت“ کی کہانی میں مرے ہیں
****

”خداکی بستی“ حقیقت نگاری کا منظر نامہ
 شہناز خاتون
ریسرچ اسکالر۔شعبہ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
shanaz58330@gmail.com
          تقسیم ہند کے بعد یوںتو بہت سے ناول لکھے گئے جن میں فکشن نگاروں نے وقت اور حالات کے پیش نظر فرقہ وارانہ فسادات کی بربریت و خونریزی ، خاک و خون میں لپٹے ہوئے انسانوں،عورتوں کی عزت و ناموس لٹ جانے کا بیان اور اذیت زدہ واقعات کو موضوع بنایا لیکن شوکت صدیقی کا ناول ”خدا کی بستی“ ان موضوعات سے مختلف موضوع کا حامل ہے، اس میں تقسیم اور فسادات کے بعد کے اس منظر نامہ کا بیان ہے جب لوگوں نے ایک ملک کو چھوڑ کر دوسرے ملک کو امن و سکون کا گہوارہ سمجھ کر قدم رکھا تھا لیکن وہاں پر انہیں کس طرح کے نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کی نو تشکیل شہری زندگی میں کس طرح کے خود غرض اور بے ضمیر لوگ موجود ہیں۔ بڑے شہر میں رہنے کے باوجود ان کی ذہنیت کس قدر تنگ ہے اور لاکھوں مہاجر غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جھگیوں میں کیڑے مکوڑوں کی طرح سانس لے رہے ہیں اور ان کا کوئی حامی و مدد گار نہیں۔ ناول میں پیش کردہ واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے شہاب قدوائی نے بالکل درست کہا ہے:
          ”خدا کی بستی آزادی اور بر صغیر کی تقسیم کے بعد لکھا جانے والا بڑا اہم ناول ہے، جس میں قیام پاکستان کے فوراً بعد تشکیل پانے والے سماج اور معاشرتی زندگی کو اجاگر کیا گیا ہے اس دور میں پلنے بڑھنے اور پھیلنے والی مفاد پرستی اور مطلب پرستی نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتے ہوئے پاکستان کی معاشرتی زندگی اور معیشت کو دیمک کی طرح کھوکھلا کردیا ۔“(۱)
          اس ناول میں سماج کے اقتصادی اور معاشرتی مسائل کی جس اعتبار سے عکاسی کی گئی ہے وہ انسان کی ترقی سے عبارت ہے اور وہ تمام عناصر موجود ہیںجو کسی فن پارہ کو عوامی اور سماجی اعتبار عطا کرتے ہیں، مثلاً اس میں جہاں معاشرے کی ناہمواریوں، یتیم خانے کی خرابیوں ، غربت زدہ اور سڑکوں پر بھیک مانگنے والوں، تعلیم و تربیت سے محروم بچوں، گداگروں اور جرائم پیشہ لوگوں کا بیان ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ راوی خود ان تجربات سے دوچار ہوچکا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ شوکت صدیقی نے ہجرت کے بعد ایسے ماحول میں کچھ دنوں تک گزر بسر کیا جہاں مختلف طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑا۔ ان کے قریب رہ کر ان کی نفسیات ، عادات و ا طوار، رہن سہن کا بغور مطالعہ ممکن ہوسکا اور اسی لیے خدا کی بستی ”مصنف کے جذبے ا ور سماجی مسائل پر گہری نظر کا بین ثبوت ہے اور یہ ناول ایک خاص دور میں انسانی اغراض پر وجود میں آنے والے پر فریب معاشرے کے باطنی حقائق کی عکاسی کی وجہ سے ترقی پسند تحریک کے بنیاد گزاروں کے نظریہ سے ہم آہنگ نظر آتا ہے۔ اختر انصاری لکھتے ہیں:
          ”ہمارے نزدیک ادب میں دو خصوصیتیں لازمی طور پر پائی جانی چاہئیں اول تو یہ کہ وہ اپنے دور کی اجتماعی زندگی سے ایک گہرا اور براہ راست تعلق رکھتا ہو۔ دوم یہ کہ اس کی تخلیق ایک مخصوص اور واضح سماجی مقصد کے تحت عمل میں آئے۔“(۲)
           قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس ناول کے تمام واقعات کا اپنے دور (تقسیم ہند کے بعد) کی اجتماعی ز ندگی سے ایسا گہرا تعلق ہے کہ وہ تمام پوشیدہ گوشے سامنے آجاتے ہیں جو اس معاشرے میں انسانی اقدار کی پامالی کا موجب بنے نیز اس معاشرے میں معاشی کشمکش کی وجہ سے جو مسائل اور ناقابل فہم متضاد صورتیں پیدا ہوگئی تھیں اس کی مکمل صورت حال کی عکاسی راجہ، نوشا، سلطانہ، اس کی ماں،نیاز اور سلمان سے وابستہ واقعات کے ذریعہ ہوتی ہے۔ غربت اور معاشی پستیوں کی وجہ سے ان معصوم بچوں کا بچپن تباہ ہوجاتا ہے تعلیم و تربیت سے محروم ہو کر جرائم کے اڈوں تک جا پہنچتے ہیں راجا لاوارث ہونے کی وجہ سے یتیم خانے میں رہتا ہے وہاں کی زندگی سے تنگ آکر ایک بیمار گداگر کی گاڑی کھینچ کر دن بھر بھیک منگواتا ہے۔ نوشا دن بھر بے رحم عبداللہ مستری کی نگرانی میں کام کرتا ہے لیکن پھر بھی دو وقت کی پیٹ بھر روٹی بمشکل ہی نصیب ہوتی ہے۔اس کے علاوہ نیاز جیسے بے حس لوگ بھی اس معاشرے میں ہیں جو بچوں کو صحیح راہ دکھانے کے بجائے اپنے معمولی مفاد کے لیے چوری کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ آخر کار مسلسل اذیتوں سے تنگ آکر یہ لوگ شرافت کی زندگی گزارنے اور محنت و مشقت کرکے روزی روٹی کی غرض سے کراچی جاتے ہیں لیکن وہاں بھی شاہ جی کے غنڈوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں جہاں پہنچ کر انہیں بڑی بڑی ڈکیتی کے لیے آلہ کار بنایا جاتا ہے۔ چوری کی سازش کے جرم میںگرفتار ہو کر جیل کی تنگ و تاریک کمروں میںسزا کاٹتے ہیں۔ وہاں ان کی معصومیت مزید مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔ راجا کو اسی جیل میں ایسا زخم لگتاہے جو اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ جیل سے اسے اسپتال تو بھیجا گیا مگر وہاں بے توجہی اور معقول علاج نہ ہونے کے سبب اس کی حالت مزید خراب ہوجاتی ہے اور اس کے پیر کاٹ کر اپاہج بنا کر باہر سڑک پر چھوڑ دیا گیا، مسلسل آزمائشوں اور ناکامیوں کے باوجود راجہ کا عزم و حوصلہ کم نہیں ہوتا اور خود کو نوشا کے سامنے مضبوط ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی خستہ حالی کو قسمت کا کھیل کہہ کر حالات سے مفاہمت کرلیتا ہے۔
          اسی طرح نوشا بھی جیل سے رہا ہونے کے بعد از سر نو شرافت کی زندگی بسر کرنے کے لیے قدم اٹھاتا ہے مگر وقت اس کا ساتھ نہیںدیتا وہ بھی تھک ہار کر واپس اپنی ماں کے پاس آتا ہے۔ قصبہ میں داخل ہوتے ہی ایک رکشہ والے سے ملاقات ہوتی ہے جو کہ اس کا دوست شامی ہے والد کے انتقال کے بعد مصیبتوں سے تنگ آکر رکشہ کھینچتے کھینچتے ٹی بی کے مرض میں مبتلا رہتا ہے۔ وہ راجہ کو صورت حال کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتا ہے:
          ”یار بات یہ ہے کہ تیری اماں نے نیاز سے نکاح پڑھوالیا تھا تو ناراض نہ ہو تو ایک بات بتاﺅں میں نے سنا ہے کہ سلطانہ کی اور نیاز کی کچھ لگ سٹ ہوگئی تھی اسی لیے نیاز نے تیری اماں کو مروادیا۔ سارے محلے والے بھی کہتے ہیں۔“(۳)
          یہ خبر سنتے ہی نوشا کے سر پر خون سوار ہوجاتا ہے اور وہ نیاز کی حویلی پہنچ کر اسے قتل کردیتا ہے اور سلطانہ کے لاکھ روکنے کے باوجود خود کو پولیس کے حوالے کردیتا ہے۔ نابالغ ہونے کی وجہ سے اسے سزائے موت کے بجائے چودہ سال کی قید با مشقت کی سزا دی جاتی ہے۔
          ”نوشا کو ملزموں کے کٹہرے سے نکالا گیا اور جن ہاتھوں کو قلم کی ضرورت تھی ان میں ہتھکڑیاں ڈال دی گئیں، ہتھکڑیاں پہن کر نوشا پاگلوں کی طرح چیخنے لگا۔ مجھے پھانسی دو، مجھے گولی ماردو، میں زندہ نہیں رہنا چاہتا، میں اب جینا نہیں چاہتا، خدا کے لیے مجھے پھانسی دے دو۔“(۴)
          نوشا کے ان جملوں سے زندگی کے متعلق کڑواہٹ و تلخی، نفرت و ناقابل برداشت تکلیفوں کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مصنف کی فنکاری یہ ہے کہ زندگی کے متعلق ان تلخیوں کو لفظی پیکر دینے کے بجائے احساسات و تجربات کے پیکر میں اس طرح ڈھال دیا ہے کہ کوئی بھی شخص اس کرب کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
          ان کرداروں کی زندگی سے وابستہ واقعات میں حقیقت نگاری کا عنصر اس قدر نمایاں ہے کہ آج بھی یہ کردار ہمیں اپنے ارد گرد سڑکوں اور بازاروں میں در بدر پھرتے نظر آجاتے ہیں اور انہیں جیتے جاگتے کرداروں کی یاد تازہ کرجاتے ہیں۔
           سلطانہ کی ماں مسلسل تنگ دستیوں سے عاجز آکر نیاز جیسے ہوس پرست شخص کے بہکاوے میں آکر مالی امداد کی ا میدمیں نکاح کرلیتی ہے۔ نکاح کے بعد نیازبیمہ کی پچاس ہزار رقم اور سلطانہ کو اپنی جنسی خواہشات کی خاطر حاصل کرنے کے لیے سلطانہ کی ماں کو زہریلے انجکشن لگواکر راستے سے ہٹا دیتا ہے اور سماج کی نظروںمیں بیمہ کا قانونی وارث بن کر روپئے حاصل کر لیتا ہے اور سلطانہ کو بنا عقد کے جبراً اپنی بیوی کے طور پر رکھتا ہے۔ مگر سلطانہ بھی اس کے خلاف کوئی احتجاج کا رویہ اختیار نہیںکرتی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حالات کی کرختگی کی وجہ سے بے حس ہوچکی ہے۔ دوسری طرف سلمان جو سلطانہ کا ہمدرد ہے اور اس سے محبت بھی کرتا ہے مگر مالی کمزوریوں کی وجہ سے نکاح نہیں کرسکتا ہے، محبت کی ناکامی ، تعلیم کو جاری نہ رکھ پانے کی الجھن، روپیوں کی قلت کی وجہ سے فاقہ کی نوبت، ماں کے دیے ہوئے ذاتی استعمال کے سامان کو فروخت کرنے کا کرب وغیرہ نے اسے ایسے دو راہے پر لا کھڑا کیا کہ زندگی اس کی نظروں میں تلخی اور مشقت کے سوا کچھ نہیں وہ پروفیسر احمد علی سے گفتگو کے دوران کہتا ہے:
          ”میں تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں مگر جاری نہیں رکھ سکتا، ملازمت چاہتا ہوں وہ ملتی نہیں، ایک معزز شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا چاہتاہوں اس کے امکانات نہیں، سیدھا سادا اقتصادی مسئلہ ہے اور کوئی اقتصادی مسئلہ معاشرے سے ہٹ کر اپنا وجود نہیں رکھتا۔“(۵)
          ”آپ بند کمروں میں بیٹھ کر زندگی کو کتابوں میں تلاش کرتے ہیں اور میں نے زندگی کو شراب خانوں میں، بالا خانوںمیں، قمار خانوں میں اور تنگ و تاریک گلیوں میں دیکھا ہے، مسلسل فاقے کیے ہیں، ذلتیں برداشت کی ہیں، قدم قدم پر ٹھوکریں کھانے کے بعد تجربہ حاصل کیا ہے، زندگی کو برہنہ آنکھ سے دیکھئے وہ کس قدر مظلوم ہے۔“(۶)
          زندگی سے بیزاری کا یہی اظہار راجہ کی زبان سے ملاحظہ ہو:
          ”یار جی چاہتا ہے مرجاﺅں“
          سالی اس زندگی میںرکھا ہی کیا ہے“(۷)
          ”ارے یار آدمیوں کا ساتھ چھوٹ گیا تو جانوروں سے بھی دوستی نہ کروں۔“(۸)
          اس مکاملے کے ذریعہ مصنف نے گہری منطق اور تلخ حقیقت کو پیش کیا ہے جس کا تعلق انسانی جذبات و احساسات اور نفسیات کے رد عمل سے ہے اور یہی احتجاج و رد عمل واقعات کے جنم لینے کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔
          اس ناول کا دوسرا حصہ فلک پیما کے اسکائی لارکوں (فلک پیما تنظیم سے وابستہ افراد اسکائی لارک کہلاتے تھے) کی جد و جہد اور ان کی عملی سرگرمیوں سے تعلق رکھتا ہے جو سماجی و عوامی فلاح و بہبود کے لیے اور معاشرے میںپیدا ہونے والی خرابیوں کو ختم کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا، جس کا بنیادی مقصدتعلیم سے محروم لوگوں کی تربیت کرنا، بے روز گار لوگوں کے لیے روزی روٹی کی تلاش کے راستے ہموار کرنا تھا لیکن خان بہادر جیسے سیاسی رہنما کے غنڈے فلک پیما کے رفاہی کاموں میں بار بار دخل اندازی کرتے ہیں اور ان کے آفس میں آگ لگا کر سارا اسباب تباہ و برباد کردیتے ہیں لیکن اس کے باوجود اسکائی لارکوں کے عزم و حوصلے میں کمی نہیں آتی ہے وہ نئے سرے سے اپنا آفس تیار کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی گرم جوشی دیکھ کر خان بہادر اپنی کامیابی کی راہ میں خطرہ محسوس کرتا ہے اور انہیں پوری طرح اپنے راستے سے ہٹانے کی تدبیریں کرتا ہے۔ اس کی تدبیر اس طرح کامیاب ہوجاتی ہے کہ وہ اپنی دولت اور سیاسی بل بوتے پر سرکاری عہدیداران کو اپنے قبضے میں کرکے فلک پیما پر جان لیوا حملہ کرواتا ہے جس میں سب سے متحرک اسکائی لارک صفدر بشیر کی موت ہوجاتی ہے اور ڈاکٹر زیدی کی ڈسپنسری جلادی جاتی ہے۔ نادار مریضوں کا دواخانہ، ضرورت مندوں کا امدادی بینک، لائبریری اور وہ تمام چیزیں جو غربت و جہالت کو مٹانے کے لیے قائم کی گئی تھیں، نیست و نابود ہوجاتی ہیں، اور سلمان زخمی ہو کر اسپتال میںایڈمٹ ہوجاتا ہے۔ اس حملہ کا سارا الزام اسکائی لارک احمد علی کے سرتھوپ دیا جاتا ہے اور انہیں سزا بھی ملتی ہے اور خان بہادر حرام پیسوں کے بل پر صاف بچ جاتا ہے جبکہ یہ وہ مجرم ہے جس نے مذہب کے نام پر عوام کے جذبات کو مجروح کیا، عوام کا اعتبار حاصل کرنے اور الیکشن میںجیتنے کے لیے اسپتال کے لیے منتخب کی گئی زمین پر راتوںرات مسجد تعمیر کرائی اور اسی طرح کے اور بہت سے نازیبا حرکات کیے جس سے عوام کی حق تلفی ہوئی مگر اس کے باوجود وہ قانون کی نظروں میں اعلیٰ و ارفع ہے۔ ڈاکٹر قمر رئیس ”خدا کی بستی“ میںسماج کے تلخ پہلوﺅں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
          ”پاکستان کے سرمایہ پرستانہ طبقاتی معاشرے میںمذہب کے نام پر ا نسان کی آواز اور اس کے حقوق کو جس طرح پامال کرنے کی سازشیں ہوتی ہیں، شوکت صدیقی نے بڑی جسارت اور وضاحت سے ناول کے پیچیدہ پلاٹ میں انہیںسمونے کی کوشش کی ہے، شوکت صدیقی کا فن تصور پرستی اور رومانیت کے ان عناصر سے پاک ہے جو آزادی سے قبل اردو ناول کی روایت کا جز رہے ہیں۔ انہوں نے سماجی حقیقت نگاری کی اس اعلیٰ روایت کو نئی وسعت دی ہے جس کی تعمیر پریم چند نے کی تھی، ان کا طبقاتی شعور ا ور ا نسان دوستی کا تصور ناول میں پریم چند سے آگے کی راہ دکھاتا ہے۔“(۹)
          ”خدا کی بستی“ میں ظلم و جبر کے خلاف صرف نعرے بازی اور نظریہ سازی نہیںہے بلکہ نہایت ہی فطری انداز میں عملی سرگرمیوں کی بھی عکاسی کی گئی ہے۔ ان کا جذبہ اور خاص سماجی مقصد اس وقت واضح طور پر سامنے آتا ہے جب اسکائی لارک گاﺅں اور قصبوں میںجا کر لوگوں کو اپنے مفید مشوروں سے نواز کر انہیں اپنا مدعا بیان کرنے کا طریقہ یہاں تک کہ الفاظ بھی سکھاتے ہیں اور انہیں اس بات کی بھی تعلیم دیتے ہیں کہ اپنے حقوق کیسے حاصل کیے جائیں۔ اسکائی لارکوں کے مشاغل ا ور انسانی ماحول کو بہتر بنانے کے جذبے کا ا ندازہ اس اقتباس سے ہوگا۔
          ”صفدر بشیر اپنے گروپ کے دو ا سکائی لارکوں کے ہمراہ روزانہ کسی پس ماندہ بستی میں جاتا اور اچھا شہری بننے اور صاف ستھری زندگی بسر کرنے کی اہمیت پر زور دیتا، تو ہم پرستی اور فرسودہ رسم و رواج سے پیدا ہونے والی سماجی برائیوں کی نشاندہی کرتا۔ انہیں چھوڑنے ا ور ان کے خلاف موثر طور پر جد و جہد کرنے کی تلقین کرتا،عام فہم انداز میں ان کی ذہنی تربیت کرتا۔“(۰۱)
          اس عملی جد و جہد کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ آلودگیوں سے پر معاشرے کی اصلاح کے لیے اس تنظیم کی تشکیل بالکل مناسب قدم تھا اور اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف صرف زبانی ہمدردی کا قائل نہیں ہے۔
          ناول کے اختتام میں مصنف کا شعور عوام کے شعور سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے اور تمام مناظر عوام کے جذبات کی ترجمانی کرنے لگتے ہیں۔بحیثیت مجموعی اس ناول کو مصنف کے ذاتی نقطہ نظر کا مظہر نہیں بلکہ عوامی زندگی کا فلسفہ اور مشترکہ طور پر مسائل کا حل تلاش کرنے کی اہم کڑی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس ناول کی سب سے اہم خوبی جو ترقی پسند نظریہ کی ترجمانی کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ایسے سنگین حالات کے باوجود بھی قنوطیت کی فضا غالب نہیں۔ قطع نظر ان معصوم بچوں (راجا، نوشا، شامی) کی زندگی میں چند مایوس کن لمحات کے، لیکن وہاں بھی یکسر مایوسی اور محرومی کے اظہار کے بجائے برے حالات کو مقدر سمجھ کر زندگی سے سمجھوتہ کا رجحان نظر آتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ناول میں حقیقت کا ابلاغ ایسا ہے کہ پاکستان کی اس معاشرتی زندگی اور استحصالی نظام کے خلاف قاری کے دل میں نفرت کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے لیکن مصنف کا کمال یہ ہے کہ شدید حقیقت نگاری کے باوجود کہانی کی تخلیقی فضا کو متاثر نہیں ہونے دیا ہے۔ اسی لیے ناول کے واقعات میں تخلیقیت اور تکمیلیت کا احساس ہوتا ہے۔
          فنی اعتبار سے ناول کے واقعات میں وسعت اور پیچیدگی ہے اور پلاٹ میں ترتیب و تنظیم اس طرح برقرار ہے کہ واقعات کی تمام کڑیاں ایک دوسرے سے بالواسطہ طور پر وابستہ ہیں، مثلاً سلطانہ ہی کو دیکھیں کہ وہ مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی فلک پیما سے وابستہ ہوجاتی ہے اور کرداروں کی پیشکش میں مصنف نے جو فنکاری دکھائی ہے وہ بے مثال ہے، سماج کے اعلیٰ طبقہ سے لے کر بے حد نچلے طبقے کے لوگ، بھکاری، قلندرسبھی موجود ہیں سب کی اپنی اپنی انفرادیت ہے، اس طرح کردار نگاری کی سطح پر ”خدا کی بستی“ یکسانیت و یک رنگی کے نقص سے پاک ہے، کردار بے اثر و بے روح نہیں بلکہ ان میں خیر و شر کا شعور بھی ہے اور مختلف سماجی و طبقاتی میلانات کی نمائندگی بھی کرتے ہیں، مکالمے و محاورے چست اور موقع و محل کی مناسبت سے ہیں، مثلاً ناول میں کردار کی زبان سے ادا ہونے والا پہلا ہی جملہ اس کے Statusکی نمائندگی کرتا ہے، ملاحظہ ہو:  
          ”کیوںاستاد کیسا بیمہ کیا؟“
          ”ابے یہ رہی ببگی، واہ میری جان میں تیرے قربان، سالو! آج تم کو پدا ماروںگا۔“ (۰۱)
          بحیثیت مجموعی فنی اعتبار سے ”خدا کی بستی“ ہمہ داں راوی کے ذریعہ بیان کیے گئے واقعات کا ایسا مجموعہ ہے جس میںدلچسپی، تجسس، تصادم اور منطقیت موجود ہے،عبارت میں کوئی ابہام نہیں علامات و اشارے خارجی ماحول سے اخذ کیے ہوئے ہیں جنہیں قاری بآسانی سمجھ کر نتائج اخذ کرسکتا ہے اور ناول میں تمام مناظرو Discriptionمرکزی خیال کو آگے بڑھانے کے اشارے فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کہ واقعات اور حالات کی نزاکت کو منظر سے وابستہ کرکے مزید تاثر پیدا کردیا گیا ہے۔ اس کی بہترین صورت اس وقت سامنے آئی ہے جب سلطانہ کی خود سپردگی کو ماحول سے منسلک کیا گیا ہے۔
          ساون کے مہینے میںاودی اودی بدلیاں گھرنے کا بیان اس کے بعد موسلادھار بارش اور لائٹ چلے جانے کے بعد سلطانہ کو خوف محسوس ہونا، سلطانہ کے کمرے میں آکر نیاز کا اسے ہوشیار کرنا اور پھر اسے پیار سے ڈانٹنا اور پھر اسے اپنے بازﺅںمیں اٹھا لینا، نیاز کے اس عمل پر سلطانہ کا کوئی مزاحمت نہ کرنا ایسا فطری بیان ہے جس میںحقیقت نگاری اور موقع محل کی مناسبت کا عنصر غالب ہے۔
حواشی:
(۱)     نقد و نظر کا متلاشی ناول نگار شوکت صدیقی، مطبوعہ سہ ماہی کہکشاں، کراچی، اکتوبر تا دسمبر۱۰۰۲ئ)
(۲)     اختر انصاری، افادی ادب ص ۸۲، بحوالہ اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک، خلیل الرحمن اعظمی، ص ۶۴۳
(۳)     ص۵۵۵ ”خداکی بستی“، شوکت صدیقی ۲۰۰۲ئ
(۴)     ایضاً ص۳۵۶
(۵)     ص ۸۱۲”خدا کی بستی“، شوکت صدیقی ۲۰۰۲ئ
(۶)     ص۹۱، ”خدا کی بستی“ شوکت صدیقی
(۷)     ص۶۱۲، ”خدا کی بستی“ شوکت صدیقی
(۸)     حوالہ بالا، ص ۰۹۴
(۹)     تلاش و توازن ص ۳۵، بحوالہ اردو ناول آزادی کے بعد، اسلم آزاد
(۰۱)   ص ۱۱، ”خدا کی بستی“ شوکت صدیقی
****

فراق کی سحر انگیز شاعری
 ہاجرہ خاتون
ریسرچ اسکالر۔ رانچی یونیورسٹی ، رانچی
09430254770, hajrakhatoon987@gmail.com
          فراق (۹۶۸۱-۳۸۹۱ئ) کے شاعرانہ مزاج کو انگریزی ادب،ہندو دیومالا اور سنسکرت ادب کے فیضان نے جلا بخشی اور نکھار عطا کیا۔ کہا جاتا ہے کہ رگھوپت سہائے فراق بڑے ہی پڑگو بلکہ زیادہ گو اورحشو گو شاعر تھے۔ انھوں نے غزلوں، نظموں کے علاوہ رباعیوں میں بھی اپنے فن کے جوہر دکھائے ہیں۔ ان کے شعری مجموعے میں گل نغمہ، غزلستاں، شبنمستاں، چراغاں، گلبانگ، مشعل، روپ اور دھرتی کی کروٹ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان میں سب میں ” گلبانگ‘ سب سے ضخیم ، قابل مطالعہ اور سب سے نادر مجموعہ ہے۔ گل نغمہ اور گلبانگ میں بہت سی تخلیقات مشترک ہیں۔ اردو کی عشقیہ شاعری، حاشےے اور اندازے کے ذریعے فراق نے اپنی تنقیدی گرفت اور نثر نگاری کا لوہا منوایا۔
          فراق کی شاعری احساس کی جس سطح کی ترجمانی مختلف زاویوں اور بصری پیکروں کے ساتھ کرتی ہے اسے ہم روایتی اور جدید غزل کے درمیان ایک پل کا نام دے سکتے ہیں، یا پھر دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ فراق اس جدید شاعری کے پیش رو ہیں، جس کی باضابطہ ابتدا اردو میں ناصر کاظمی سے ہوتی ہے۔ انتظار حسین اپنے ایک مضمون ” فراق: اردو ادب کا ہمالیہ پہاڑ“ میں فراق کی غزل گوئی سے متعلق اپنی رائے کچھ یوں دیتے نظر آتے ہیں:
          ” وہ یہ بھی عجب ہوا کہ فراق صاحب ہندوستان میں رہے،ہمنوا پاکستان میں پیدا ہوئے۔پاکستان کے ابھرنے کے ساتھ ناصر کاظمی کی غزل ایک نئی آواز بن کر ابھری۔ اِرد گرد اور آوازیں ابھریں اور اب غزل نے پھر سے اپنے عہد کے ساتھ پیوست ہوکر تخلیقی اظہار کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ لیکن اگر فراق صاحب نے اتنے عرصے تک اس میں جان کو نہ کھپایا ہوتا تو اس میں یہ توانائی کیسے پیدا ہوتی۔“
          فراق نے اپنا شعری سفر ۸۱۹۱ءکے لگ بھگ شروع کیا۔ ابتدائی دور میں امیر مینائی کے شاگرد وسیم خیر آبادی سے اصلاح لیتے تھے۔ لیکن جلد ہی انھوں نے اپنی شاعرانہ انفرادیت کو حاصل کرلیا۔ ان کی غزلوں کا انوکھا پن ان کی عشقیہ شاعری کا نیا لہجہ ہے۔ فراق کے نزدیک عشق مادی اور جسمانی سطح سے شروع تو ہوتا ہے مگر وہاں ختم نہیں ہوتا۔ وہ مادی آلودگی اور جسمانی لذتیت سے پاک کرکے عشقیہ شاعری کو جذباتی تطہیر سے آشنا کراتے نظر آتے ہیں۔
          یہ بات پہلی ہی نظر میں سامنے آجاتی ہے کہ فراق کی شاعری لہجے سے بڑا عمیق ربط رکھتی ہے اور دیکھا جائے تو ان کا لہجہ صحیح معنوں میں جدید غزل کا لہجہ ہے، جس میں دل کی لطیف دھڑکنوں کی تھرتھراہٹ اور تیز گام کلمات کی شوخ آہٹ باہم دگر غلطاں ہیں۔ ان کے لہجے کی مانوس اپنائیت غزل کو بیک وقت سوز وساز بھی دیتی ہے اور شاعری کو گویا یہ بھی میرے دل میں ہے کا امین بھی بناتی ہے۔ یہ لب و لہجہ فراق کی سب سے بڑی اور انمول دولت ہے جو ان کے قلم تک قطرہ قطرہ پہنچ کر پیکراں بنتی ہے اور حقیقتاً اسی لہجے کا نام فراق کی غزل بھی ہے اور فراق بھی۔
          فراق صاحب نئے لب و لہجے کے باوجود کلاسیکی آئین و ادب کی پوری پوری پابندی کرتے ہیں، جس کے سبب مندرجہ ذیل لا تعداد ضرب المثل اشعار وجود میں آئے:
پڑ گئی سازِ کائنات میں جان
وہ گل نغمہ وہ صدا ہیں آپ

ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

آتش عشق بھڑکتی ہے ہوا سے پہلے
ہونٹ جلتے ہیں محبت میں دعا سے پہلے

اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہوگئی ہے
          فراق کی شاعری کا جب ہم عمیق مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے ان کی انتہائی منفرد خصوصیات یہ بھی سامنے آتی ہیں کہ انھوں نے متعدد نغموں، مختلف دھنوں اور نہ جانے کتنی آوازوں کو باہم دگر حل کرکے ایک ایسی ” لے“ تخلیق کی، جسے ہم ان کی اپنی ” لے“ کہہ سکتے ہیں۔ وہیں فراق نے چھوٹی چھوٹی بحروں میں ایسے آفاقی اشعار کہے ہیں جو حکیمانہ بھی ہیں اور بلیغ بھی۔ نیز زندگی کی حقیقتوں کے عکاس کے ساتھ ساتھ ان اشعار میں مترنم آواز کی جھنکار بھی پوشیدہ ہے۔ زبان کی صفائی، الفاظ کی نشست کے اعتبار سے یہ اشعار زبان زد خاص و عام تو ہیں ہی ساتھ ہی لا زوال بھی ہیں۔ چند نمونے ملاحظہ کریں:
سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں
لیکن اس ترک محبت کا بھروسہ بھی نہیں

جتنی ہوئی با زن محبت
کھیلا ہوں تو مات ہوگئی ہے

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں

تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو
تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں

ہم سے کیا ہوسکا محبت میں
خیر تم نے تو بے وفائی کی

فراق دور گئی روح سی زمانے میں
کہاں کا درد بھرا تھا ترے فسانے میں
          آل احمد سرور نے ایک جگہ لکھا ہے کہ جگر کے یہاں محبت کی نفسیات ملتی ہے۔ فراق کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی شاعری میں محبت اور انسان دونوں ہی کی نفسیات موجود ہے، کیوں کہ جینئس شاعر فراق نے اپنی شاعری کو کسی دائرے میں قید نہیں کیا ہے، بلکہ ان کی شاعری حیاتِ انسانی اور اس کی بو قلمونیوں کا ہر طرح سے احاطہ کرتی نظر آتی ہے۔ فراق کی ابتدائی غزلوں میں جو خلش اور چبھن ہے، زندگی کی آگ ہے اس کے دو پہلو ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ زندگی کی بنیادی اقدار اور عملی جدوجہد اور دوسری یہ کہ حسنِ انسانی کے نازک تصورات سے معمورنئے کلچر سے مملو کیفیات کی مصوری۔
          فراق نے حسن و عشق کی نفسیات کو ذاتی تجربات کی روشنی میں پڑھنے کی کوشش کی ہے، لیکن جنس کو روح کا مرتبہ بھی انھوں نے دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عشقیہ تجربوں کے بیان میں پاکیزگی ، معصومیت اور سپردگی نظر آتی ہے:
دلوں میں داغ محبت کا اب یہ عالم ہے
کہ جیسے نیند میں ڈوبے ہوں، پچھلی رات چراغ

ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست
ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
تو ایسے میں تیری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
          غزل کے علاوہ فراق نے ” روپ“ کی رباعیوں کے ذریعہ اردو ادب میں ایک نئے افق کو روشن کیا ہے اور ایسا اسلوب اختیار کیا ہے جو ہندی کی عشقیہ شاعری کا خاصہ رہا ہے:
بزم خیال چوڑیاں بجتی ہیں
بھیگی راتیں اداسیاں سجتی ہیں
دریا مکھڑوں کے امڈے آتے ہیں فراق
آئینہ دل میں صورتیں سجتی ہیں
          فراق کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ۳۶۹۱ءمیں ” گلِ نغمہ“ پر انھیں ساہتیہ اکادمی اور ۵۶۹۱ءمیں سوویت روس نہرو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان سب کے علاوہ ادب کا سب سے بڑا ایوارڈ ” گیان پیٹھ“ ایوارڈ (۹۹۹۱ئ) بھی فراق کے حصے میں آیا۔
          عظیم شاعر فراق گھورکھپوری کی شاعری میں فکر ونظر کی گہرائی اور گیرائی کا ایک حسین امتزاج ملتا ہے، وہ اردو شاعری کے رنگ و آہنگ کے ادا شناس مغربی اندازِ مفکر کے عارف، اپنے فن کے پیرایہ میں بہترین عکاس اور ترجمان، حسن ارضی کا سچا عاشق اور ساتھ ہی ساتھ عظیم مفکر بھی تھے۔ ان کے طرز ِ فکر میں جو نرمی، تھرتھراہٹ، رچاواور ایک مخصوص آہنگ ہے جو ان کے دیگر ہم عصروں میں ان کو ممیز کرتا ہے اور ان کی آواز کو ایک حیات بخش انفرادیت بھی عطا کرتا ہے:
تیرے اشعار پہ سر دھنتی جائیں گی نئی نسلیں
بچا کر وقت رکھے گا یہ دستاویز انسانی
****


  

غزليـــں
خواب لوگوں کو سہانے ذرا کم آتے ہیں
ہاتھ اب فن کے خزانے ذرا کم آتے ہیں

چھایا رہتا ہے ہر اک سمت غموں کا موسم
اب تو خوشیوں کے زمانے ذرا کم آتے ہیں

بے دریغ اپنا سبھی کچھ جو لٹا بیٹھے تھے
اب نظر ایسے دیوانے ذرا کم آتے ہیں

آہی جاتی ہے صحیح بات زباں پر اپنی
ہم کو عذرات، بہانے ذرا کم آتے ہیں

منحصر ذات کی تشکیل ہے جن پر اپنی
سامنے اب وہ نشانے ذرا کم آتے ہیں

ان گنت اُن کے ہیں احسان یہ سچ ہے لیکن
ناز ہم کو بھی اُٹھانے ذرا کم آتے ہیں

ہم پہ جاوید رہا کرتی ہے رقت طاری
وہ بھی اب رونے رلانے ذرا کم آتے ہیں
مسعود جاوید ہاشمی
حیدرآباد
............

تھوڑا تھوڑا میں بھی کچھ بے باک ہوا
دھوکہ کھا کر میں بھی کچھ چالاک ہوا

ہفت فلک بھی مجھ کو بونے لگتے ہیں
جب سے اس کے قدموں کی میں خاک ہوا

ٹھوکر کھا کر میں نے چلنا سیکھ لیا
جینے کا پھر مجھ کو بھی ادراک ہوا

دنیا نے جب سارے سہارے چھین لےے
میرا سہارا میرا ربّ پاک ہوا

درد و الم کا ایک سمندر مجھ میں ہے
گویا بحرِ درد کا میں تیراک ہوا

اک انساں کی بس یہ حقیقت ہے تنویر
خاک تھا وہ، پھر جسم بنا، پھر خاک ہوا
تنویر آفاقی
ابو الفضل انکلیو، نئی دہلی۔110025
09811912549
........
نہ جانے کیسی ہوا چلی ہے
ہر ایک بستی میں کھلبلی ہے

چمن میں معصوم جو کلی ہے
ہوس کی اس پر چھری چلی ہے

جو شخص تعویذ بیچتا تھا
فقیر تھا کل وہ اب ولی ہے

پھر آگئی ہے نئی مصیبت
کوئی مصیبت اگر ٹلی ہے

میں ان سے آگے نکل گیا ہوں
یہ بات ان کو بہت کھلی ہے

فضا میں خوشبو بھی ہے، دھواں بھی
ضرور کوئی دلہن جلی ہے

گزرنا چاہے ہر آدمی ہی
تری گلی تو تری گلی ہے

جدا ہوئے ہیں وہ جب سے معراج
تبھی سے سینے میں بے کلی ہے
معراج احمد معراج
کلٹی (مغربی بنگال)
........

سچ کا نقیب آج بھی دشتِ خطر میں ہے
کربل کا واقعہ ابھی میری نظر میں ہے

دشوار گرچہ راستہ منزل کا ہے مری
پائے ثبات پھر بھی اِسی رہ گزر میں ہے

یہ زندگی بھی روٹھ کے جائے گی اب کہاں
اس کا ٹھکانہ تو کسی مٹی کے گھر میں ہے

تپتی زمیں ہے سر پہ کوئی سائباں نہیں
ننھی سی جان دھوپ کے دشتِ اثر میں ہے

سر تن سے پھر جدا کسی مظلوم کا ہوا
عنوان آج کی ہر اک تازہ خبر میں ہے

اپنی شکست مان لوں پہلے سے کس لےے
لڑنے کا حوصلہ ابھی میرے جگر میں ہے
ارشد قمر
ڈالٹن گج، پلاموں( جھارکھنڈ)
08092535235
........

کوئی بھگتے، خطا کرے کوئی
ایسی دُنیا میں کیا کرے کوئی

باتوں باتوں میں رات کٹ جائے
کوئی بولے سنا کرے کوئی

دیکھنا چاہتا ہوں میں خود کو
آئنہ اک عطا کرے کوئی

جو مصیبت زدہ ہیں اُن کے لےے
ہاتھ اُٹھا کر دُعا کرے کوئی

ہوگی تعمیرِ دہر تب پوری
دوسرے کا بھلا کرے کوئی

بے وفائی کا بولا بالا ہے
عام رسمِ وفا کرے کوئی

آج خاموش کیوں ہے اُس کی زباں
بات کیا ہے پتا کرے کوئی

میری تقریر تلخ تر ہے نظیر
دِل نہ ٹوٹے خدا کرے کوئی
احمد نظیر
وانم باڑی(تمل ناڈو)
09366111640
............
کوئی تو بات اُسے ناگوار گزری ہے
خلش سی دل میں یہی بار بار گزری ہے

سنی ذرا سی بھی آہٹ تو چونک اٹھا دل
نہ پوچھو کیسے شبِ انتظار گزری ہے

اجالے پھوٹ پڑے آنسووں کے جگنو سے
رِدائے تیرہ شبی آب دار گزری ہے

ہر ایک رُخ پہ تبسّم کی گلفشانی ہے
ابھی ابھی کیا یہاں سے بہار گزری ہے

روایتوں کے کھنڈر سے نئے جزیروں تک
مری غزل کی فضا خوش گوار گزری ہے

قدم قدم پہ لٹاتے ہوئے متاعِ حیات
ہماری ہستی پئے انتشار گزری ہے

جب اس نے دیکھا رسالوں میرا نام صدا
یہ بات اُس پہ قیامت گزار گزری ہے
سید اسلم صداءالامری
چنئی
............
جواں ہیں ہم، جواں ہے دل ہمارا
”بہت روشن ہے مستقبل ہمارا“

ہلے ہے آہ سے عرش الٰہی
دکھا مت اے ستمگر دل ہمارا

ہمارے قتل پر گو خوش ہے دنیا
مگر بے چین ہے قاتل ہمارا

چلے آؤ اندھیروں سے نکل کر
اجالوں کا نگر ہے دل ہمارا

ہمارے قتل کی سازش میں شاید
ہوا ہے دوست بھی شامل ہمارا

گزر آئے ہیں ہم موجِ بلا سے
سفینہ ہے لب ساحل ہمارا

ہرا کچھ اور ہوگا زخم اس سے
نہ پوچھیں ہنس کے حال دل ہمارا

ضیا کی شاعری کیا شاعری ہے
اڑا دے یہ سکون دل ہمارا
ڈاکٹر ضیاءالرحمن ضیا
اسلامک یونیورسٹی ، شانتاپورم (کیرلا)
09526029212
****

رباعیات
خطروں سے بھری یہ آرزو مندی ہے
دنیا کی شراب مت پیو گندی ہے
ناپاک ہے یہ اسی لےے تو اس پر
ساقیِ حقیقی کی پابندی ہے
........
جب دل کی قرابت ہو تو وہ خالص ہو
اظہارِ محبت ہو تو وہ خالص ہو
ڈر ہے نہ کہیں منزل کھوٹی ہو جائے
ساقی کی ارادت ہو تو وہ خالص ہو
........
ایمان میں ایقان میں پورے اترو
تم نفس کے عرفان میں پورے اترو
ساقی کے چہیتے ہو کیا کرتے ہو
اعمال کی میزان میں پورے اترو
........
فطرت کا تقاضا ہے کہ گھر صاف رکھو
دل صاف رکھو اپنی نظر صاف رکھو
آنا ہے اسی راہ سے ساقی کو ظفر
عاقل ہو تو یہ راہ گزر صاف رکھو
........
پہنچیں گے بھلا کیسے وہ صحت کے قریب
اوہام کے ماروں کا کہاں ایسا نصیب
اچھا تو یہی ہوتا کہ بیماری میں
ساقی کو بنا لیتے وہ اپنا طبیب
 ظفر کمالی
شعبہ فارسی۔ زیڈ اے اسلامیہ کالج، سیوان(بہار)
09431056963
****
مُحسن
پرویز اشرفی
نئی دہلی
9990129128, parwezashrafi1955@gmail.com

          اُن دنوں میں آل انڈیا ریڈیو میں جُزوقتی اناونسر تھا۔ اُس ملازمت کی وجہ سے میرا وقت آسانی سے گزر جاتا تھا۔ کیوشیٹ کے مطابق اِسکرپٹ لکھنے، کمپئرنگ کرنے میں آدھا وقت گزر جاتا۔ اُس کے بعد کنسول، سی ٹی آر اور فیڈر کے درمیان مصروف رہتا۔ مجھے احساس ہی نہ ہوتا کہ کب دن گزر گیا اور رات آگئی۔ رات کے سوا نو بجے اختتامی کلمات ادا کرنے کے بعد جب گھر لوٹتا تو تنہائی میری منتظر رہتی۔ میں وقت اور حالات سے مجبور آرام سے کرسی پر ٹیک لگائے دیوار پر لگی گھڑی کے پینڈولم کو حرکت کرتے دیکھتا رہتا۔ میری زندگی بھی اُسی پنڈولم کی طرح ہوگئی تھی۔ ہر وقت اپنے بیٹے کی یاد ستاتی، جسے مجھ سے متنفر کرکے الگ کردیا گیا تھا۔ وہ بیٹا جو میرے بغیر بستر پر سوتا نہیں تھا وہ میری مخالفت پر آمادہ تھا۔ میری بیوی نے مجھ سے علاحدگی اختیار کرلی کیوں کہ میں ایک تعلیم یافتہ بے روزگار تھا اور وہ ایک سرکاری ٹیچر۔ جس کے سبب اکثر مجھے طعن و تشنیع کا شکار ہونا پڑتا تھا۔ عزت نفس کو ٹھیس پہنچانے والی باتیں قلب کو چھلنی کردیتی تھیں۔ جب کبھی سنجیدگی سے اس روےے کی مخالفت کرتا تو ٹکا سا جواب ملتا ” میری بات بُری لگتی ہے تو الگ ہوجائےے، آپ میرے لےے کرتے ہی کیاہیں۔ ایک بچے کی پرورش بھی ٹھیک سے نہیں کر پاتے، اگر میری نوکری نہ ہوتی توکیا حشر ہوتا؟ میری بات اتنی ہی بُری لگتی ہے تو آپ دوسر ی شادی کرلیجےے۔ میں ایسی ہی ہوں اور رہوں گی، آپ مجھے بدل نہیں سکتے۔“ نتیجہ یہ ہوا کہ اُس نے مجھ سے طلاق نامہ لکھوانے کی پُرزور کوشش کی جس کے لےے میں بالکل آمادہ نہ تھا اورمیرے بیٹے کو میرے سائے سے محروم کردیا۔
          میں نے اپنے بیٹے کو حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن تمام تدبیریں بے کار ثابت ہوئیں۔ اُس نے میرے بیٹے کو ہی میرے خلاف ہتھیار بنا لیا تھا۔ میرا دل ٹوٹ گیا۔ زندگی کے سفر کو تنہا کب تک جاری رکھتا، مجبور ہوکر زندگی کو ایک نیا موڑ دے دیا۔ اس کے باوجود ایک باپ کی شفقت میں کوئی کمی نہ ہوئی۔ میری ذہنی پریشانی کو نئی ہم سفر حیات اچھی طرح سمجھتی تھی۔ اُس وقت وہی میری غم گسار تھی۔ میں ذہنی انتشار میں مبتلا تھا، کیوں کہ میرے خاندان کا چراغ کسی اور کے یہاں روشن تھا۔ مجھ سے یہ دیکھا نہ گیا اور اُس شہر سے ہجرت کر گیا۔ ایسے شہر میں جہاں دور دور تک کوئی اپنا نہیں تھا، لیکن میرا یہ قدم میرے حق میں فائدہ مند ثابت ہوا۔ اتفاق سے ایک اسکول میں اُستاد کی اسامی خالی تھی وہاں میرا انتخاب ہوگیا۔ بچوں کے درمیان درس دیتا، جب تک اُن کے درمیان رہتا ماضی کے خیالات سے دور رہتا۔ اس نئے شہر کے لوگ نہایت ملنسار، شفیق اور محبت والے ثابت ہوئے۔ اُنھوں نے اپنی شفقت و محبت کے ایسے پھول برسائے کہ اپنی پچھلی زندگی کو بھول گیا۔ اس کے باوجود میرے دل میں میرے بیٹے کی یاد ہمیشہ قائم تھی۔ جب اُس سے جدائی کا شدت سے احساس ہوتا ، اُس وقت میری کیفیت زخمی پرندے جیسی ہوجاتی تھی۔
          ایک دن اسکول پہنچا تو ناظمِ درس گاہ نے ایک بچے کا تعارف کراتے ہوئے مجھے ہدایت دی کہ میں اُس کا اتالیق ہوں۔ میری نگاہ بغور اُس بچے پر پڑی تو دل دھڑکنے لگا، نہایت خوبصورت اور چہرے پر معصومیت نمایاں تھی۔ میری زبان سے بے ساختہ نکلا: ” فیضان....“
          ” اس کا نام فیضا ن نہیں .... قاسم ہے۔“ ناظمِ درس گاہ نے مجھے ٹوکا۔
          لا شعور ی طور پر ایک لمحے کے لےے میں اپنے بیٹے فیضان کے خیال میں گُم ہوگیا تھا۔ میں نے قاسم کو اپنے پاس بلایا ، سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بیٹھنے کا اشارہ کیا، وہ سعادت مندی سے میرے حکم کی تعمیل کرتا رہا، اُس رات مجھے نیند نہ آئی، کروٹیں بدلتے پوری رات گزر گئی۔ مجھے میرے بیٹے کی یاد نے بے چین کردیا۔
          اگلی صبح جب میری آنکھ کھلی تو پلکیں بھاری تھیں۔ اہلیہ نے سبب جاننا چاہا تو میں نے بات ٹال دی۔ اسکول پہنچا تو قاسم کو دیکھ کر میری تکان دور ہوگئی۔ وہ دوڑتا ہوا آیا اور مجھ سے لپٹ گیا۔ مدتوں بعد لگا کہ فیضان میرے سینے سے لگ گیا ہے۔ قاسم سے اس طرح مانوس ہوناہمارے دیگر ہم منصب کو حیرت زدہ کررہا تھا کہ میں قاسم کو خاص توجہ کیوں دیتا ہوں؟لیکن میں اپنے دل کے درد کوکسی پر ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا۔ قاسم اور دیگر بچوں کے لےے میری شفقت اور محبت کو دیکھ کر دوسرے اساتذہ نے یہ رائے قائم کرلی تھی کہ میری اپنی کوئی اولاد نہیں ہے اسی لےے دوسروں کے بچوں سے محبت جتاتا ہوں۔ ایک بار قاسم کے والدین سے ملنے کا اشتیاق ہوا تاکہ اُس کے مستقبل سے متعلق گفتگو کرسکوں۔ اس خیال سے نہٹور چلا گیا۔ وہ کافی رئیس خاندان کا چشم و چراغ تھا، اُس کے والد فرقہ وارانہ فساد میں جاں بحق ہوگئے تھے۔ بعد میں اُس کی والدہ نے عقد ثانی کرلی اور وہ تنہا رہ گیا۔ اُس کے تایا نے تعلیم و تربیت کے لےے درس گاہ کے ہوسٹل میں داخل کرادیا تھا۔
          دیکھتے دیکھتے دس سال کا لمبا عرصہ گزر گیا۔ اس مدت میں اپنے بیٹے سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تو .... موبائل پر سعادت مندانہ جواب کے بجائے سخت کلامی نے میرے کان پر دستک دی۔ اور بار بار کی سخت کلامی نے مجھے دل کا مریض بنادیا۔ میرے اپنے بیٹے کی سرکشی اورسخت کلامی کے زخموں پر قاسم کی سعادت مندی اور بے لوث خدمت نے مرض سے لڑنے کا حوصلہ بخشا۔ میری دلی کیفیت کو شاید وہ محسوس کرچکا تھا اس لےے اکثر وہ کہتا” چچا میاں! اگر آپ کو اولاد نہیں توکیا ہوا، میں تو ہوں نا....؟“ یہ جملہ سن کر اپنے زخمی احساس کا بھی اظہار نہ کرسکا کہ میں بے اولاد نہیں بد نصیب ہوں۔ شاید اولاد کی الفت میرے لےے نہیں ہے۔
          گھٹتی عمر کی لکیریں چہرے پر نمایاں ہونے لگی ہیں۔ زندگی کی مسافت طے کرتے کرتے بال بھی سفید ہوگئے ہیں۔ سخت گیر روےے کی وجہ سے فیضان بھی پس منظر کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ اب قاسم کی سعادت مندی ہی میری زندگی کا حاصل ہے۔ میں یہی سمجھ رہا تھا۔
           اپنی علالت کے پندرہ دن بعد جب میں درس گاہ لوٹا تو قاسم موجود نہیں تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ اپنے وطن جاچکا ہے اور کبھی نہیں آئے گا۔میرے لےے یہ اذیت ناک خبر تھی۔ مجھے لگا، میں لق و دق صحرا میں کھڑا ہوں، میرا چہرہ آسمان کی طرف اُٹھ گیا۔ میری آنکھوں میں اُمڈ آئے سیلاب نے نیلے آسمان کودھندلا بنادیا تھا۔ اللہ کو شاید یہی منظور تھا۔!!
****
پچھتاوا!!
 یوسف دانش
بیل گچھیا،کولکاتہ
09836678958
          ”تمام ثبوتوںاورگواہوںکے مد ِ نظرملزم اویناشگوربھ‘ملزم نیرجاورملزم دھننجے کویہ عدالت پھانسی کی سزاسناتی ہے اوردومعاون ملزمان انیلاوردھیرجکویہ عدالت عمر قیدکی سزاسناتی ہے۔“
          اورپھرجج صاحب کھڑے ہوگئے۔اُن کی تعظیم کے لئے سب لوگ کھڑے ہوگئے۔
          سورگ واسی رجنیکے گھروالوںکے کلیجے میں ٹھنڈک پڑگئی ۔
          ”آوچلوبھی“اویناشکی ماںنے اپنے شوہرکوٹوکا۔
          وہ ایک دَم سے چونکے ‘ہاں!ہاںچلو‘آٹو رکشہ میںبیٹھتے ہی اندومتی اُداس ہو تے ہوئے بولی‘آج میرے اویناشکوبخشا نہیں گیا۔“
          ”اندو!خبردارجواُسے اپناکہا“ارے وہ توخو نخوار درندہ ہے درندہ‘نوچ کھایامعصوم رجنیکے جسم کو۔۔۔۔۔۔
          اندومتیچپ ہوگئی۔
          اوروہ کھوگئے۔
          ”بیٹا!اندومتیپرخاص دھیان دینا۔“
          سمجھے!وہ اب اُمید سے ہے۔اُسے کسی طرح کی ذہنی پریشانی نہ ہونے پائے اور ہاں! اگراِن دنوںاُس سے کوئی بھول ہوجائے توتم اُسے معاف کردینا۔اوراگرتم نے اُسے ڈانٹا یا پھٹکاراتویہ اُس کے اوراُس کے ہونے والے بچے دونوںکے لئے بُراہوگا۔اُس کے کھانے پینے کا پوراپورادھیان رکھنا اورکسی اچھے سے اسپتال میں اُس کی ڈیلیوری کرانا۔‘اتنا کہہ کرلتادیدی خاموش ہوئیں۔
          ”ہاں!دیدی!میںآپ کے مفید مشورے کی قدر کرتا ہوںاورہر حال میںاُس پر عمل کروں گا۔“کِشن اپنی دیدی کاہاتھ اپنے سرپر رکھتے ہوئے بولا۔
          ”بس دیدی!اپنا آشیر واددے دیجئے کہ میری پتنی کوایک خوبصورت اورصحت مند لڑکا ہو۔“
          ہاں!بیٹامیراآشیرواد ہمیشہ تم دونوں پر ہے۔ اور سُن بدھو!اندومتیکودیکھ کر یہی لگتا ہے کہ وہ لڑکا ہی جنے گی۔
          ”او!کِشن“
          ”ہاںموسیِ !“
          ”بولو!اندومتیکوبچہ ہوگیا؟“
          ”ارے ناہی رے“نہ جانے بھگوان کوکا منظورہے۔“اندومتیکوبہت تیزبخارآگیا ہے اور وہ دردِزہ میںمبتلا ہے۔
          ”میری صلا ح ما نوتواُسے فورًااسپتال لے جاﺅ“موسی نے کہا۔
          وہ اندومتیکو لے کرآنًافانًااسپتال پہنچا۔
          ڈاکٹر نے صلاح دی۔کشِنجی!آپ کی پتنی کی حالت کودیکھتے ہوئے یہ کہناپڑرہاہے کہ اُن کا بچہ نارمل ڈیلیوری سے ہونامشکل ہے اور خطرہ بھی ہے۔ آپ اگراجازت دیںتوہم آپریشن کی تیاری کریں۔‘
          کِشن نے نہ چا ہتے ہوئے بھی آپریشن کے لئے حامی بھرلی۔دل میںاُس کے نہ جانے کتنے ارمان اُبل رہے تھے۔بھگوان!بیٹا ہی دیجئے گا۔اُسے دل کھول کر پڑھاﺅںگا۔اُس کی ہرخواہش اُس کے لب کھولتے ہی پوری کرنے کی ہرممکن کوشش کروںگا۔وہ صرف میرا بیٹا ہی نہیں‘میرے خاندان کا گربھ ہوگا۔
          تب ہی ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر آئی اورکہا!کِشنجی!مبارک ہوآپ پِتابن گئے۔
          وہ خوشی سے دیوانہ ہوگیا۔لیکن اُس کی ساری دیوانگی اُس وقت کا فورہوگئی۔جب ڈاکٹر نے یہ کہا!اندومتی نے ایک پیاری سی بچی کو جنم دیاہے۔
          وہ بیزاررہنے لگا۔اندومتیکوخالی بستر کاٹتا۔ اب تولکشمی توتلاکربولنے بھی لگ گئی ۔ لیکن بیچاری کی جھولی میںپِتاکاپریم نہیں تھا۔ کِشننے اتنے برسوں میںلکشمی کو ایک نظر بھرکربھی نہیںدیکھا۔اندومتیاندرہی اندرگُھلتی رہی اورخودکوکوستی رہی۔کاش!بھگوان! آپ نے اُن کی سن لی ہوتی تویہ کل موہی لکشمی نہ پیداہوئی ہوتی بلکہ اُس کی جگہ لڑکا ہوتا۔تومیںاُن کی بے پناہ محبت سے جد انہ ہوتی۔
          لکشمی نے دیکھا کہ ماںاُس کو بُر ی نظروںسے گھوررہی ہے وہ ماںکے پاس آئی اور بولی اماں!میںبہت بُری ہوں۔
ہاں!ہاں تُو بہت بُری ہے۔ کل موہی کہیںکی اندومتیناک منھ چڑھاتے ہوئے بولی۔
          ایک روزفون آیا۔لتادیدی کے آنے کی خبرتھی۔اندومتیکوراحت ملی‘چلواُن کے یہاں آنے سے سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔
          کیا بات ہے؟بہو!اسٹیشن سے لے کر یہاںتک پوچھ پوچھ کرتنگ آگئی ہوںکہ بتا بہونے کیا جنم دیا بیٹا یابیٹی؟لیکن یہ گونگا ہوگیا ہے۔
          تبھی اندومتیسرپرآنچل ڈالتے ہوئے پھوپھیا ساس کے پاﺅںچھوکرآشیروادلی اور خاموشی کے ساتھ اُن کا سامان اندررکھنے لگی۔
          او!تویہ بات ہے۔ارے پگلی!بھگوان کے گھردیرہے اندھیرناہی‘اورتُوتو پھلتا درخت ہے‘لتادیدی اُس کے سرپرہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں۔
          کاہے کاپھلتادرخت دیدی!یہ توبانجھ ہے بانجھ‘ایک بیٹے کوجنم نہیںدے پائی۔کشِن نے سخت لہجے میںکہا۔
          اندومتیرونے لگی۔تبھی لتادیدی نے کشِن کو ڈانٹا اورخوب سمجھایا۔
          آج پھر کِشن کی امید برآنے والی تھی۔بھگوان!اگر آپ نے مجھے بیٹا دے دیا تومیںآپ کا احسان جیون بھرنہیں بھولوں گا اور سب سے پہلے بچے کو آپ کی چرنوں میں لاکر ڈالوںگا۔جی بھرکربھگوان !اُسے اپنا آشیش دینا۔ ‘ تبھی ڈاکٹر کے جملے اُس کے کانوںمیںپگھلے ہوئے شیشے کی طرح سماگئے۔
          ”آپ کی پتنی نے دو جڑواںبچیّوں کوجنم دیاہے۔“       
          اُن کے پاﺅںکے نیچے سے زمین کھسگ گئی۔
          لکشمیآج اسکول سے لوٹی تودیکھاکہ ماںدونوںچھوٹی بہنوںکو پیٹ ر ہی ہیں۔وہ دونوںبچیّاںہکچیاںلے‘لے کرروئے جارہی ہیںلکشمیآگے بڑھی۔ بس اماں! کیوں انھیں پیٹ ر ہی ہیں؟ دونوںنے آپ سے کچھ کھانے کو مانگاکیا؟لکشمینے اپنی ماںسے ہمت جُٹاکر کہا۔
”ارے کھانے کوتوانھیںزہردے دوں‘ کل موہی میری جان کھائے جارہی ہیںکہ ہم بھی اب اسکول جائیں گے۔ اندومتی عاجز آکر بولی۔
           تواِس میںاُن دونوںکی کیا غلطی ہے اماں؟ لکشمیبولی۔
          مجھ سے کیوںپوچھ رہی ہے؟یہی سوال اپنے پتِاسے پوچھ‘ وہ بیٹے کی تمنا میںکب سے گُھلے جارہے ہیں۔لیکن نہ تو بھگوان کواُن کی قسمت پردَیا آرہی ہے اورنہ ہی میری بے بسی پر۔۔۔۔۔۔یہ کہہ کراندومتیرونے لگی۔
          ہاںبیٹا!تم کو اِس بارلڑ کا ضرورہوگا۔لیکن وہ تم کو۔۔۔۔۔۔بابا!آپ کچھ کہنا چارہے ہیں۔کِشنبولا۔
           وہ تم کوسنا کرکیا فائدہ ۔جاﺅتمہارا کلیان ہوبابا نے کہا۔
          اندومتیاُمید سے ہے۔بیٹیوںکے ساتھ ساتھ کِشن اندومتیکا پورا دھیان رکھ رہا ہے۔ کیوںکہ یہ اُس کی زندگی کی آخری اُمید ہے۔ وہ ہرروزرات کوندی میں غسل کرتااورصبُح تک دھیان کرتا‘جیسے بابانے بتایا تھا۔غریبوںکوروزکھانا کھلاتا‘مندروںکے پجاریوںکی ہرطرح کی مالی امدادکرتا۔غرض وہ ہرطرح سے بھگوان کو مناتا رہا ۔
          اندومتینے لڑکے کوجنم دیا۔ کِشن کو دونوںجہاںکی خوشیاںمل گئیں۔
          بڑے دلارسے بیٹے کی پرورش کرتارہا، اپنی آنکھو ںمیںلاکھوںسپنے سجائے۔وہ تمام چیزیںاویناشکومیسرتھیں‘جن چیزوںکواُس کی تینوںبہنیںترستی رہیں۔
          دسویں پاس کرنے کے بعد اُس نے اپنے پِتاسے صاف کہہ دیا۔میںاب آگے نہیں پڑھوں گا:
          ”لیکن کیوںبیٹا؟“کِشن نے پوچھا۔
          اس کا جواب میرے پاس نہیں‘بس یوں ہی ‘میرامن نہیںکرتا۔
          کِشنآج ٹوٹ گئے۔جو سپنے اُنھوںنے دیکھے تھے وہ سب شیشے کی طرح چور ہوگئے۔ بیٹیوںکی شادی ہوگئی۔وہ اپنے گھرخوش تھیں۔ کِشناب کمزورہونے لگے‘عمرجوڈھلنے لگی۔ ماں نے چاہا کہ اب اویناشکی شادی کردوںیہ مشورہ کشِنکوبھی بہت پسندآیا۔
          اورپھرجب اویناشسے اس بارے میں پوچھا گیاتواُس نے کھلے لفظوںمیںانکارکردیا وہ اس جھول جھال میںپڑنانہیںچاہتا۔ابھی میں آزادرہنا چاہتا ہوں اس لئے کسی کی ذمہ داری اٹھانے کوتیارنہیںہوں۔
          ماتاپِتا!بیٹے کی بات سن کرسناٹے میںرہ گئے۔
          شراب خانے میںاُس کے لفنگے دوست جمع تھے۔نیرج نے کہا!کیوںیار!آج تیرامنھ اُتراہواہے؟
          ”ارے یار!میرے ماتا پِتا میری شادی کرانا چاہتے ہیں۔ میںنے تواُنھیںصاف منع کردیا۔“
          نیرج مسکرایااورکہا!’بیچارے !وہ کیاجانیں کہ تُو توہرشام دُولہابنتاہے الگ الگ دلہنوںکے ساتھ ‘’کیا خوب کہا!‘سب نے جام سے جام ٹکراتے ہوئے کہا۔
          تبھی انیلبولا۔میںایک تازہ خبر لایا ہوں۔پانچوںمتوجہ ہوگئے۔
          اوروہ دھیرے دھیرے سرگوشی کرنے لگا۔۔ ۔۔ ۔۔
          آج جاڑے کی ایک سردصبح تھی۔”ماں میری بس نکل جائے گی۔“رجنیماںسے بولی۔
          ”ہوگیایہ لو!اپنا ٹفن اورہاںدھیان سے کھا لینا‘بھولنا نہیں‘نہیںتومجھے ہی تمہارے باپوکی ڈانٹ کھانی پڑے گی۔ لاڈلی جوہوتم اُن کی۔“ ماںنے پیار سے اُس کے سرپرتھپکی لگاتے ہوئے کہا۔
          ”oh come on mummy میںاب بچی نہیںرہی،پورے اٹھارہ سال کی ہوگئی ہوں“رجنینے ماںکے گلے میںبانہیں ڈالتے ہوئے کہا۔دھیرے بول ورنہ کہیں تیرے دادا جی نے یہ سن لیا تو تیری میڈیکل کی پڑھائی چھڑا کرتیرے ہاتھ پیلے کردیںگے۔
   اچھاممی !میںچلتی ہوں۔  
  بس اب شام ہونے کوتھی۔تب ہی رجنیبس میںسوارہوئی۔بس آدھے سے زیادہ بھری تھی۔ سیٹ مل جانے پراُس نے اطمینان سے اپنا ٹکٹ لیا۔تب ہی د ند ناتےہوئے پانچ موالی منھ پر بندرٹوپی ڈالے ہتھیاروںسے لَیس بس میں گھس آئے اُن میںسے ایک نے ڈرائیورکے پاس جاکراُسے دھمکایاکہ وہ بس کوکہیںبھی نہ روکے اوردوسرے نے مسافروںکویرغمال بنا لیا۔
          رجنیخوف سے تھرتھرکاپنے لگی۔اس سردی میں بھی وہ پسینے میں تر ہوگئی۔
          اُن درندوںنے رجنیکواپنانشانہ بنالیا۔ پہلے تواُس کے کپڑوںسے چھیڑخانی کی اور پھراُس بدنصیب کی شر یرکانمبرآیا۔وہ لاکھ روتی رہی،لاکھ منت سماجت کرتی رہی،لاکھ اُنھیںبھگوان کا واسطہ دیا۔لیکن وہ بھیڑئیے اُس پر ڈٹے رہے۔ اوراُسے پھاڑکرکھاتے ہی رہے ۔وہ لٹتی ہی رہی اوربارباراپنی لٹی آبروکی بھیک مانگتی رہی ۔ لیکن اُن خونخواردرندوںپرکوئی اثرنہ ہوا۔یہ سلسلہ۰۶ منٹ تک جار ی رہا۔یہاںتک کہ وہ بے ہوش ہوگئی۔اُس کی ناک سے خون نکل آیا۔ہونٹ سُوج گئے۔جسم ڈھیلا پڑگیا۔ آنکھیںپتھراگئیں۔ درندوںنے بد نصیب کے جسم پرکپڑے کا تار تک نہیں چھوڑ ا۔
           رجنیکی لاش دیکھ کرآسمان نے اپنی آنکھیںبندکرلیں اورزمین اپنی بے بسی پرکف افسوس ملنے لگی۔
          ’اوہو!اتریئے گھرآگیا،اُندومتینے اپنے شوہرکو ٹوکا۔وہ اپنے بیڈروم میںآرام کرسی پربراجمان تھے۔
          رات کا دوسراحصّہ گزررہاتھا۔
          تبھی اُن کے اندرسے کسی نے کہا۔۔ ۔ ۔
          اُو بلات کاری کے پِتا۔۔۔۔۔۔
          ”نہیں!!میںنہیںہوںکسی بھی بلات کاری کا پِتا۔“
 ارے میںنے تواپنی زندگی میںایک ہونہاربیٹے کا سپنادیکھا تھا اورکچھ نہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ میراخون ہرگزنہیںہوسکتا۔۔۔۔۔۔
          نہیں!یہ میراخون ہرگزنہیں۔
          کِشننے دونوںہاتھوںسے اپنا سرپکڑ لیا۔پوراگھراُن کی آنکھوںکے سامنے گھومنے لگا۔
          بھگو ان!مجھے معاف کردیناکہ میںنے تم سے ہرباربیٹے ہی کی فرمائش کی کاش!تم میری نہ سنتے اورتیسری باربھی مجھے بیٹی ہی دیتے توشایدآج رجنیزندہ ہوتی۔
****
صدائے مؤذّن

شام ہوتے ہی سايے ڈھلتے ہيں
ميرے آنگن کے اونچے پيڑوں کے
اور موذّن صدائيں ديتا ہے
ميں نماز و فلاح کی خاطر
سوئے مسجد روانہ ہوتا ہوں
اور حرص وہوس کے دروازے
مير ے دامن سے پھر لپٹتے ہيں
ميری آغوشِ قبر کی خواہش
مجھ کو حرص و ہوس کے صحرا ميں
کھينچ لاتی ہے، مسکراتی ہے

پھر موذّن صدائيں ديتا ہے
ميں ہوں خاموش، جسم بھی ساکت
اک طرف خير، اک طرف شر ہے
ہے تذبذب حيات کے در پر
اور شيطان لے گےا سبقت
مسکرا کے رحيم ورحمٰن نے
ميری رسّی کو ڈھيل پھر دے دی
پھر موذّن صدائےں دےتا ہے
 ڈاکٹر کلیم ضیاء ، ممبئی



آتش پارے
 محمد طارق
امراوتی(مہاراشٹر)
08055503366
عہد کا ہاتھ
          خون آلود کاغذ کی وہ تحریر جو پڑھی جاسکتی تھی۔ کچھ اس طرح تھی ” بھارت میرا (خون کا دھبّا) ہے۔ سب بھارتی (خون کے چھوٹے بڑے دھبّے) ہیں۔ مجھے اپنے وطن سے پیار ہے۔
          ----خون آلود کاغذ اس ہاتھ میں دبا ہوا تھا جو دورانِ فساد امن پسند انسان کے جسم سے کاٹ دیا گیا تھا۔
جانی دشمن
          قانون کی آنکھ میں دھول جھونک کر اُس نے اپنے سارے دشمنوں کو ختم کردیا اور گھر آکر اطمینان کی سانس لی۔
          ” میری زندگی میں اب کوئی خطرہ نہیں رہا، اب میں سکون سے جیوں گا۔!“
          اُس نے انگڑائی لے کر قدِ آدم آئینے میں خود کو دیکھا تو بے چین ہوگیا ---- آئینہ میں نیا دشمن کھڑا اسے گھور رہا تھا....۔
مجرم
          حسب معمول فساد کے بعد گھروں کی تلاشی کا ابھیان شروع ہوا۔ پولس والوں نے اُس کے گھر کی تلاشی لی اور اُسے ہتھیاروں کا ذخیرہ رکھنے کے جرم میں گرفتار کرلیا....
          وہ کہتا ہی رہ گیا” جناب ----! میرے گھر سے آپ کو لاٹھی ملی نہ ہتھیار، صرف باورچی خانے میں ایک زنگ آلود چھری تھی!“
          ” خاموش ----! تمھارے گھر سے کیا ملا یہ ہم طے کریں گے، تم نہیں!“
وکاس کی بات
          ” آپ کے شہر میں قبرستان اور شمشان کافی کشادہ اور خوب صورت بنے ہوئے ہیں“
          ” جھگی جھونپڑےاں ہٹا کر بنائے گئے ہیں!“
          ” چج چج! بیچارے جھونپڑیوں والے کہاں گئے؟“
          ” ارے بھائی ---- !زندہ آدمی تو کہیں نہ کہیں بسیرا بنا ہی لیتے ہیں۔ بیچارے مردوں کا خیال کون رکھے گا ----ویسے بھی اپنے دیش میں بہت سارے لوگ زندگی بھر غلیظ، گندے ماحول میں مر مر کر جیتے رہتے ہیں ایسے لوگوں کو مرنے کے بعد خوب صورت قبرستان، عالیشان شمشان مل جانا وکاس کی بات نہیں؟!
سڑک
          علی الصبح لوگوں نے دیکھا سڑک غائب تھی۔ شور مچ گیا” کہاں گئی سڑک؟ کہاں گئی سڑک؟“
          رات کی سیاہی پھیلنے تک توسڑک گاوں میں موجودتھی، سیاہ چمکتی ہوئی سڑک، گاوں کے بچے اس پر شام تک کھیل رہے تھے۔
          ” گاوں سے روٹھ کر کہاں چلی گئی سڑک؟ کیا گاوں کی زمین سے اُس کا رشتہ جُڑا نہیں تھا؟“
          ابھی چار دن ہی ہوئے گاوں میں نیتا جی سڑک لائے تھے، لوگ ابھی اس پر اچھی طرح چلے بھی نہیں تھے کہ سڑک چلی گئی۔ اس نیتا کی طرح جو الیکشن جیتنے کے بعد گاوں سے چلے جاتے ہیں، پانچ سال بعد واپس آنے کے ليے۔“
          ” رات میں دھواں دار برسات ہوئی تھی، اس برسات سے روٹھ کر تو نہیں چلی گئی سڑک؟“ کسی نے پوچھا۔
          ” ہاں!“ کھوجی مخبر بولا” اس برسات سے روٹھ کر ہی سڑک ٹھیکیدار کی کار میں بیٹھ کر نیتاجی کی کوٹھی میں چلی گئی۔ اب وہ تمہیں نہیں ملنے والی ۔ ہاں! جب الیکشن کا موسم آئے گا نیتاجی گاوں میں نئی سڑک ضرور لائیں گے۔“
          کھوجی مخبر کی بات سن کر گاوں والوں نے آہ بھری اور خموش رہ گئے۔
ناچ
          گاوں کے حالات کا جائزہ لینے کے لےے شہر سے بڑا افسر آیا ---- گاوں کے سرپنچ اور گرام سیوک نے افسر کے لےے کھانے پینے کا انتظام تو کرہی لیا تھا جب انھیں یہ خبر ملی کہ افسر ناچ ، گانے کا بھی رسیا ہے تو گرام سیوک نے چپراسی کو بلاکر سمجھایا ....
          چپراسی گرام سیوک کی بات سن کر بولا ”صاب! آپ تو جانتے ہیں مہنگائی اور سوکھے کی وجہ سے گاوں والوں کا اتنا برا حال ہوگیا ہے کہ زیادہ دیر کھڑے رہنے سے پاوں ڈگمگاتے ہیں۔“
          ” تو کیا ہوا ----لوک گیتوں کے کیسٹ پر گاوں کی لڑکیوں کو ڈگمگاتے دیکھ کر ہی صاحب خوش ہوجائیں گے۔ انعام دیں گے انعام! انھیں کیا معلوم گاوں کا ڈانس کیا ہوتا ہے!“
          ڈانس کا پروگرام شروع ہوا....
          لوک گیت کے کیسٹ پر گاو ں کی لڑکیاں ڈگمگاتی رہیں....
          افسر ڈانس سمجھ کر خوش ہوتا رہا....
          لڑکیاں ڈگمگاتے----ڈگمگاتے گر پڑیں....
          ” ارے ! کیا ہوگیا؟ بڑا افسر گردن لمبی کرکے پوچھنے لگا۔
          ” کچھ نہیں صاحب! بازو میں بیٹھے ہوئے سرپنچ اور گرام سیوک ایک ” سُر“ میں بجے ---- ”دارو پی کے ناچ رہی تھیں اس لےے گر پڑیں!“
****






گوشہ کاروار ادبی کانفرنس

کاروار ادبی کانفرنس
          26 ستمبر 2014ءکو صوبہ کرناٹک کے ايک دور دراز مقام کاروار میں ادارہ ادب اسلامی ہند کے زیر اہتمام اےک ادبی کانفرنس منعقد کی گئی۔ اردو ادب کے حوالے سے ےہ اےک عام سی کانفرنس تھی ۔ اس میں کوئی نیا پن یا کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔اس طرح کی ادبی مجالس شیدائے زبان و ادب کرتے ہی رہتے ہےں۔مگر ےہ کانفرنس اس پہلو سے خصوصی اہمیت کی حامل اور قابل توجہ قرار پاتی ہے کہ ےہ اےک اےسے مقام پر منعقد کی گئی جو ملک کی معروف دنیائے اردو ادب سے الگ تھلگ خطہ ارضی پر واقع ہے، جو کاروار کے نام سے معروف ہے۔یہاں مقامی سطح پر کنڑ، کونکنی، مراٹھی اور نوائطی زبانیں رائج ہیں ۔ مسلم حلقے میں نوائطی کا چلن ہے۔ ساتھ ہی اردو زبان بھی عام طور پر بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہاں سے کچھ دوری پر واقع کرناٹک کا مشہور شہر بھٹکل جنوبی ہند میں اردوکے اےک مضبوط قلعے کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ زبان وادب کے تعلق سے سمندر کے اس ساحلی شہر کاروار نے بھٹکل کے لسانی اثرات راست طور پر قبول کےے ہےں۔ خوش آئند پہلو ےہ ہے کہ ادب کے میدان میں جو سرگرمیاں ہےں ان میں اردو زبان سے یک گونہ اظہارشغف اور دلچسپی کے ساتھ خیر پسندی، راست فکری اور تعمیری رجحان زیادہ نمایاںبلکہ غالب ہے۔
          اس ادبی کانفرنس کے نثری حصے میں اظہار خیال کے لےے جن عنوانات اور موضوعات کا احاطہ کےا گیا ہے ، اور شعری حصے میں جن مستحسن خیالات کی آبیاری سے جس قسم کے گل بوٹے کھلائے گئے ہےںوہ نہایت پُر امید اور حوصلہ افزا ہےں۔ یہی چیز اس ادبی مجلس کو عام ادبی مجالس، سمیناروں اور کانفرنسوں سے ممیز و ممتاز کرتی اور اسے منفرد بناتی ہے۔
          اس پروگرام کے روح رواں ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی ہیں ۔ موصوف ابھی کچھ ہی عرصہ قبل بھٹکل سے کاروار کے اےک کالج میں منتقل ہوئے ہےں۔عثمانی صاحب ادب میں اےک واضح اور مثبت نظرےہ کے حامل اور اس کے پرُجوش داعی ہےں۔ آدمی جب کسی چیز کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لےتا ہے تو نچلا نہیں بیٹھتا۔کاروار پہنچتے ہی انھوں نے اردو کے بکھرے ہوئے موتیوں کوچنااوراےک خوش نما ہار بنا کر اس پروگرام کی صورت میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ۔ چنانچہ موصوف نے دن بھر کے پروگرام کا تفصیلی تعارف کرایا اور اس کی غرض و غایت بیان کی۔ جناب روف احمد سونور، بھٹکل نے ”اےک نورانی سفر کی روداد “ پیش کی۔ موصوف نے ”کاروار میں اردو ادب کی موجودہ صورت حال“ پر بھی الگ سے روشنی ڈالی۔جناب شیخ علی محمد صالح، انکولہ نے ”کاروار میں اردو زبان کے تحفظ کا مسئلہ “ کے موضوع پر اظہار خیال کےا۔ اس سے ملتے جلتے اےک موضوع پر جناب عبدالصادق شیخ ، کاروار نے بیش قیمت تحریر پیش کی۔ جناب سید عبدالرزاق پیرزادے، انکولہ نے ”اردو زبان اور دینی تعلیم“ کی اہمیت اجاگر کی۔ پروفیسر عبدالقیوم خاں ، کاروار نے اپنا افسانہ اور جناب فاروق نشتر، میسور نے اےک انشائےہ پیش کےا۔ پروگرام کے نثری حصے کی صدارت جناب سید جعفر انعامدار، انکولہ نے کی اور آغازمیں جناب محمد خلےل اللہ، کاروار نے خطبہ استقبالےہ پیش کےا۔
          اظہار خیال اور پیش کی جانے والی تحریروں کے مذکورہ موضوعات سے صاحبان تحریر کی زبان و ادب سے غیر معمولی محبت اور اس کی ترویج و اشاعت کی تڑپ صاف جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے عزائم کو بلند رکھے اور ان کے خوابوں کو سچی تعبیر عطا فرمائے۔پروگرام میں پیش کی جانے والی نگارشات اور کاوشیں مذکورہ پس منظر میں قابل توجہ اور قابل قدر ہی نہیں بلکہ لائق ستائش بھی ہیں، جو اس وقت مےرے سامنے ہیں۔ ان میں سے چند نثری و شعری تخلےقات بطور” گوشہ کاروار ادبی کانفرنس“پیش رفت کے بالغ نظر قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں۔ رسالے کی بعض معذوریوں کی وجہ سے جن احباب کی تحریر یںشامل اشاعت نہیں کی جا سکی ہیں ہم ان سے معذرت خواہ ہیں اور سب کے لےے دعا کرتے ہےں کہ:
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
حسنین سائر (مدیر منتظم)


کاروار ادبی کانفرنس کے اغراض ومقاصد
 ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی
کنوینر ادبی کانفرنس، ادارہ ادب اسلامی کاروار
          جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک میں بحیرہ عرب کے مغربی ساحل پر واقع ” کاروار“ باغات سے سجا ہوا ، سر سبز و شاداب اور پُر رونق شہر ہے۔ جو شمالی کنڑا ضلع کا صدر مقام بھی ہے۔ آج اس تاریخی شہر میں ادارہ  ادب اسلامی ہند کی پہلی سالانہ ادبی کانفرنس منعقد ہورہی ہے۔ جس میں ریاست کرناٹک کے مختلف شہروں سے ادبا و شعرا اور ادب نواز حضرات کی ایک بڑی تعداد شریک محفل ہے۔ ضرورت ہے کہ اس موقع پر سمینار کے اغراض و مقاصد کی وضاحت کے ساتھ ساتھ ادارہ ادب اسلامی کا بھی مختصر تعارف پیش کردیا جائے۔
          ادارہ ادب اسلامی ایک ادبی تنظیم ہے جو ۶۵۹۱ءمیں بمقام رام پور قائم ہوئی تھی۔ اس کا دائرہ کار پورا ملک ہے۔ ملک میں بولی جانے والی ہر بڑی زبان کا سرمایہادب جو مثبت اقدار حیات کا ترجمان ہے اور وہ تمام فن کار جو ادب میں فکری و فنی توازن کے قائل ہیں، اس کے دائرہفکر و تخلیق میں شامل ہیں۔ ادارہ کا اپنا ایک تحریری دستور بھی ہے اور منشور بھی۔ جس میں اس کے اغراض ومقاصد تفصیل سے درج ہیں۔
          آج کے شعر وادب میں جب ہم ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو یہ بات نمایاں نظر آتی ہے کہ آج زندگی میں جو مزاج، انتشار، بے راہ روی اور بے یقینی پائی جاتی ہے اس کے اثرات شعر وادب پر بھی پڑ رہے ہیں۔ جدید مغربی تہذیب جو ایک مذہب دشمن تہذیب ہے اور جو مادیت اور لادینیت سے مرکب ہے، اس غیر مذہبی تہذیبی پس منظر میں جیسا ادب پروان چڑھے گا اس کا نمونہ ہمارے سامنے ہے۔ موجودہ معاشرے میں ادب کی بے سمتی اور بے چہرگی کا زہر نئی نسل کے ادیبوں اور ناقدوں میں سرایت کرچکا ہے۔ یہ اسی کا اثر ہے کہ ہم اپنی اپدی روایت سے دور ہوگئے ہیں۔ ہمارا پورا نظام اقدار متزلزل ہے اور اپنی مذہبی تہذیب پر بھی ہم اپنا یقین کھو بیٹھے ہیں۔ وہ تہذیب جو توحید اور آخرت پر یقین اور انسان کامل کی رہنمائی سے پروان چڑھی تھی۔ یہ ایک بہت ہی تشویشناک صورت حال ہے جس سے نہ صرف شعر و ادب بلکہ خود تہذیب اور معاشرہ کے لےے ایک سنگین خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس صورت حال پر ہمارے ادیبوں، شاعروںاور دانش وروں کو غور کرنا چاہےے۔ اس کے تدارک کے لےے ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کے شعر و ادب کو اپنی حقیقی مذہبی تہذیب سے وابستہ کیا جائے اور ادب میں اس بے یقینی کے خاتمہ کے لےے براہ راست ایمان ویقین کی بات کی جائے۔ روحانی اقدار کے ساتھ ایک جامع نظریہ و نظام اقدار اور کامل نظام حیات کا مژدہ سنایا جائے۔ ادارہ ادب اسلامی انھی مقاصد کے لےے گزشتہ نصف صدی سے اس ملک میں سرگرم عمل ہے۔
          ادارہ ادب اسلامی اپنے اغراض و مقاصد کو بروئے کار لانے کے لےے پورے ملک میں مقامی، ریاستی اور قومی سطح پر سمینار اور کانفرنس، مذاکرے اور مشاعرے کا انعقاد کرتی رہتی ہے اور آج کا یہ ادبی اجلاس اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ کاروار چوں کہ اردو زبان وادب کے مراکز سے دور ایک غیر اردو علاقہ ہے، اس لےے یہاں کے مقامی احباب کے مشورے پر آج کے سمینار میں اردو کی موجودہ ادبی صورت حال پر غور وفکر کے ساتھ ساتھ اردو زبان کے مسائل کو بھی موضوع گفتگو بنایا جارہا ہے۔ حالانکہ ملک میں دوسری لسانی تحریکیں اور انجمنیں موجود ہیں جو اردو زبان کی ترقی اور فروغ کے لےے کوشاں ہیں۔ لیکن بہرحال آج اردو زبان کی جو ناگفتہ بہ صورت حال ہے اس پر بھی غوروفکر ضروری ہے۔ کیوں کہ جب زبان ہی نہیں ہوگی تو ادب کہاں سے وجود میں آئے گا۔ اسی احساس کے پیش نظر کاروار ضلع میںاردو زبان وادب کی صورت حال پر مذاکرہ منعقد کیاجارہا ہے۔ اُمید ہے کہ زبان و ادب کے مسائل پر ہم مثبت انداز سے غوروفکر کے بعد لائحہ عمل مرتب کرسکیں گے اورعوام میں اس کانفرنس میں اپنی زبان اور ادب کے تئیں بیداری اور دلچسپی پیدا ہوسکے گی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ سمینار اپنے مقاصد میں پوری طرح کامیاب و کامران ہو۔ آمین!
****

کرناٹک کے ضلع اترکنڑامیں
 اردو ادب کی موجودہ صورت حال
 رووف احمد سونور
اردو لکچرر، انجمن پی یوکالج، بھٹکل
9448776206
          بحیرئہ عرب کے ساحل پر قدرتی وسائل اور سحر انگیز مناظر سے دنیا بھر کے سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتا ضلع اتر کنڑا کے کاروار ، انکولہ ، مرڈیشور اور بھٹکل جیسے مقامات عالمی سطح پر سیاحتی مراکز کے طورپر مشہور ہیں۔ لسانی طورپر یہاں کنڑا، اردو، کونکنی ، نوائطی اور مراٹھی زبان کا استعمال ہوتاہے۔ ضلع میں اردو ادب کی صورت حال کا جائزہ لیں تو بہت مایوسی ہوتی ہے، البتہ صدیوں سے شہر بھٹکل نے ہچکولے کھاتی اردو کی کشتی کو کسی حد تک سنبھال رکھا ہے، سنبھا ل کیا رکھا ہے بلکہ اس کو چٹان جیسی قو ت بخشی ہے۔ شہر بھٹکل کی ادبی سرگرمیوں کو دیکھ کرمشاہیر ادبا و شعرا نے اس کو جنوبی ہند میں اردو کا مرکز قرار دیا ہے۔
          اترکنڑا ضلع پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو سوائے بھٹکل کے اور کہیں کوئی نثر نگار نہیں پایا جاتا۔ بھٹکل نثری ادب کا گہوارہ ہے۔ مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی اکیڈمی کے بانی جنرل سکریٹری مولانا محمد الیاس ندوی اپنی دینی و سماجی ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی انجام دیتے ہوئے اردو ادب کی آبیاری میں زبردست رول ادا کررہے ہیں۔ وہ بیک وقت مو رخ، سوانح نگاراورادیب کے طورپر جانے وپہچانے جاتے ہیں ، ساتھ ہی دنیا کے مشہور و تاریخی مقامات کا سفر کرنے کے بعد ان کے تحریرکردہ سفرنامے بھی کافی معلوماتی اور پُرتاثیر ہوتے ہیں۔آپ کی تصانیف میں ” سیرت سلطان ٹیپو شہیدؒ “تاریخی و تحقیقی تصنیف کے طورپر مشہور و معروف ہے اور کئی زبانوں میں اس کتاب کا ترجمہ ہوا ہے تو ”اسلامی جغرافیہ “ نئی نسل کے سامنے ماضی کے درخشاں پہلوﺅں کو پیش کرتے ہوئے زمانے کی سچائی بیان کرتی ہے۔ اسی طرح بیت المقدس، فلسطین، چین اور جاپان کی سیاحت کے بعداپنے منفرد اسلوب میں تحریر کردہ سفرنامے کافی معلوماتی و تاثراتی ہیں۔ جس سے نہ صرف متعلقہ مقام کی پوری جانکاری ملتی ہے بلکہ یہ سفر نامے تعمیری ادب کی چاشنی بھی لئے ہوئے ہیں۔ آج بھی ان کے قلم سے زبان وادب کی خوب آبیاری ہورہی ہے، یوں انہوں نے ملک کے ادیبوں میں اپنی ایک شناخت بنا چکے ہیں۔
          مغرب کی بھونڈی نقالی اور مرعوبیت کے نتیجے میں ترقی پسند، جدیدیت ، مابعد جدیدیت جیسی کئی نام نہادتحریکات ادب، غیر ادب اور نظریاتی ادب جیسے مختلف عنوانات پر خامہ فرسائی کررہی تھیں مگر ان کے بلند بانگ دعوے ادب کوکوئی مقام نہیں دے سکے اور نہ ہی سماجی سطح پر اثرانداز ہوسکے ، جس کا ادب مستحق تھا۔ اہم وجہ یہ تھی کہ وہ سب اپنے مرکز سے دور ہوکر کنارے کنارے ہی چلنے میں عافیت سمجھ رہے تھے۔ کسی کے پاس بھی بنیاد نہیں تھی۔ انہی دعووں کے درمیان ادبِ اسلامی کی صدا گونجی۔ ڈاکٹر عبدالمغنی ، ڈاکٹر ابن فرید ، ڈاکٹر سید عبد الباری نے اسلامی ادب اور تنقید کے میدان میں محاذ سنبھالا اور اپنی خاموش ادبی خدمات انجام دے کر سرخروو سربلند ہوئے۔ ان کے بعد ادب کو اسلامی نظریے (جو کہ حقیقی نظریہ تھا )سے ادب کی کئی اصناف کے ذریعے تخلیقی کام میں مصروف و مشغول ہوگئے۔ اسلامی ادب کے معماروں میں شمار کئے جانے والے ڈاکٹر عبدالمغنی ادب میں اقبال کی گم سی ہوتی فکر کو وسعت و نفاست کے ساتھ عظیم فن کی تخلیق کی متمنی تھے۔ ڈاکٹر عبدالمغنی اپنی ریاست بہار کے شہر” گیا “ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی میں اس اقبالی حس کو محسوس کررہے تھے۔ استادِ محترم ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی اپنے وطن سے ہزارو ں میل دور کرناٹک کے بھٹکل میں اپنی تدریسی خدمات کو انجام دیتے ہوئے رات دن اسلامی ادب کی سیرابی میں مگن ہیں۔ بلاشبہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج انہوں نے تنقیدی میدان میں ایک درجن سے زائد کتابیںتصنیف کرکے ادب کے سرمایہ میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ ان کی تصنیفات اس بات کو ثابت کررہی ہیں اور گواہی دے رہی ہیں کہ نظریاتی محاذ پر سکہ بند ادیبوں اور نقادوں نے اپنی علمی و ادبی دادا گیری سے جو ہنگامہ اور واویلا مچار رکھا تھا اس کا ایسا کرارا جواب ہے کہ آج سب اسی اسلامی ادب کی طرف رخ کرتے نظر آرہے ہیں۔ ” ادب کا اسلامی تناظر “اور” تعبیر و تشکیل “ جیسی تصانیف اور فن نعت گوئی پر آپ کی دسترس صاف صاف پیشین گوئی کررہی ہے کہ اب ادب کے میدان کا یہ سپہ سالار اور اسلامی ادب کی اہمیت ، حیثیت اور حقانیت کو ثابت کرنے کے لےے سینہ سپر رہے گا۔ نمونتاً ندا فاضلی پر تحریر کیا گیا تبصرہ ہو یا ” ابن صفی پر لکھاہوامقالہ ” دشمنوں کے شہر میں “ ۔ ادب اسلامی میں ڈاکٹر رشاد عثمانی کا قد کافی اونچا ہے، فی الحا ل وہ تکنیکی طورپر بھٹکل اور کاروار میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ دشواریوں اور ذاتی تکالیف کے باوجود اردو اور ادب اسلامی کی کاوشوں میں سرگرم عمل ہیں۔ ان کی یہ تڑپ اپنے نصب العین سے محبت کی غمازی کرتی ہے۔
          مولانا عبدالمتین منیری شخصیات اور تاریخ پر دسترس رکھتے ہیں ۔ قوم نوائط اور بھٹکل کی تاریخ کے سلسلے میں آپ کو مستند مانا جاتاہے۔ زیادہ تر تاریخ اور شخصیات پر مضامین لکھتے رہتے ہیں ، اب تک صرف مرحومین پر لکھے ہوئے خاکوں کا صر ف ایک مجموعہ منظر عام پر آیا ہے، ا گرچہ کہ وہ مقامی ہیں لیکن مولانا کی تحریر نے انہیں آفاقیت بخشی ہے، شاہد احمد دہلوی اور فرحت اللہ بیگ جیسے خاکہ نگاروں کی طرح آپ نے شخصیت کی اہمیت وحیثیت کوباقی رکھتے ہوئے حقیقت بیانی سے کام لیا ہے ، یہی ان کی انفرادیت اور شناخت ہے۔ آپ کے قلم کی تاثیر دیرپا ہوتی ہے۔ مولانا سے ادبی میدان میں کئی ایک تخلیقات جنم لینی تھیں لیکن ان کی مصروفیت نے انہیں شاید باندھ رکھا ہو۔ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے وسیع مطالعہ اور تجربات سے نئی نسل کو استفادہ کا موقع فراہم کریں گے۔
          انجمن ڈگری کالج بھٹکل کے موظف صدر شعبہ سیاسیات پروفیسر عبدالقیوم خان بہترین افسانہ نگار اور خاکہ نگار کی حیثیت سے مشہور ومعروف ہیں، آپ بیک وقت اردو، فارسی اور انگریزی پر عبور رکھتے ہیں۔ آپ کے افسانوں میں قدرتی مناظر کی منظرکشی پریم چند کے افسانوں کی یاد تازہ کرتی ہے۔ان کا افسانہ ” لنگی “ جب شائع ہوا تو وہ ریاست بھر میں مشہور ہوئے ۔ افسانہ ہو یا خاکے ظرافت کی چاشنی سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی پر لکھا ہوا خاکہ ، فنی و ادبی لحاظ سے بے مثال کہا جا سکتا ہے۔ سبکدوشی کے بعد اس وقت آپ شہر کاروار میں مقیم ہیں اور ادبی سرگرمیوں میں مشغول ہیں۔ ان کے علاوہ کئی علمانے دینی سطح پر کئی تصانیف تحریر کی ہیں ، چونکہ ہم اس وقت صرف ادبی سطح پر بات کررہے ہیں تو ان کا ذکر یہاںمناسب نہیں ہوگا البتہ کسی اور موقع پر ان کی خدمات کا ذکر کیا جائے گا۔ صرف نثری میدان سے وابستہ ادیبوں کے تذکرے کے بعد نثر ونظم دونوںمیں جن کو عبور ہے ان کاتذکرہ الگ سے کیا جائے تاکہ انفرادیت باقی رہے۔
          بھٹکل میں ڈاکٹر محمد حسین فطرتکہنہ مشق اور استاد شعراءمیں شمار کئے جاتے ہیں ۔ اس وقت بھٹکل میں جتنے بھی شعراءطبع آزمائی کررہے ہیں ان میں سے اکثر نے آپ ہی سے اصلاح لی ہے۔ ریاست کے سرکاری نصابی کتب میں بھی آپ کی نظمیں ، غزلیںدیکھی جاسکتی ہیں، ہم جیسے کئی افراد ہیں جنھوں نے ان کی نظموں اور غزلوں کو پرائمری وغیرہ میں پڑھاہے۔ آپ کے کئی شعری مجموعے بھی شائع ہوکر ادبی قارئین سے داد تحسین حاصل کرچکے ہیں،” گلبانگ فطرت “ پر آپ کو اردو اکیڈمی کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ غزل آپ کی پسندیدہ صنف ہے اسی طرح آپ نے نظم کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ فطرت کے کلا م پر ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی رقم طرازہیں ” کلام میں سادگی ، صفائی ، روانی اور برجستگی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے“۔مگر اقبال ؒ کی نظموں کی تضمین میں بھاری بھرکم اور ثقیل الفاظ عوامی ہونے کے بجائے خواص کے لےے مخصوص ہوگئے ہیں۔ اس کے باوجود روانی میں کوئی فرق نہیں آتا ۔
جنوں میں حوصلہ درکار ہے خارا شگافی کا
فقط گلکاریلفظ و بیاں سے کچھ نہیں ہوتا
          نثری میدان میں نفسیات ا ور ادب کے متعلق کئی ایک مضامین روزناموںمیں شائع ہوتے رہے ہیں ، پچھلے سال ڈاکٹر مولانا عبدالحمید اطہر ندوی نے ” مضامین فطرت کے نام سے آپ کے مضامین کا مجموعہ مرتب کیا ہے، جو شائع ہوکر پذیرائی حاصل کرچکا ہے۔
          فطرت کے بعد نظم کے میدان میں فیض کے بلند آہنگ ، جوش کی گھن گرج اور اقبالی فکر کے حسین امتزاج کے ساتھ شعری محاذ سنبھالا ہے تو وہ ” اور لائن کٹ گئی “ جیسی شاہ کار نظم کے خالق ، اسلامی ادب کے مایہ ناز فرزند ڈاکٹر محمد حنیف شباب ہیں۔ ان کے قلم کی جولانیاں جب شعری پیکر میں ڈھل کر تخلیق پاتی ہیں تو سمندروں کو بھی پسینے آتے ہیں اور ایڑیاں اٹھا کر رفعتوں کو پانے کے خواہش مند وں کو اپنی حقیقت سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ذوق ، شہرت یا شناخت کے لئے شاعری نہیں کرتے بلکہ ضمیر کی آواز پر ملت کے نوجوانوں کو بیدار کرنے کی مخلصانہ ، شعوری کوشش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کلاسیکی ، روایتی انداز سے استفادہ کرتے ہوئے شعر کو اپنی فکر کے سانچے میں ڈھالتے ہیں تو اسلامی مجاہدوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ، ایک نیا حوصلہ اور جذبہ پیدا ہوتاہے۔ کلام کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ دبی زبان یا خاموشی سے ڈاکٹر صاحب کے کلام کا مطالعہ مشکل ہے، یہاں شباب کو شباب کے عالم میں ہی مطالعہ کرنا ہوگا تب کہیں زندگی میں ” خواب سلگتے ہیں “ تو عمل کے میدان میں لہولہان ہوکر اپنا فرض ادا کرسکتے ہیں۔
          جنین میں ماری جانے والی معصوم بچیوں پر آپ کی تخلیق کردہ نظم” اور لائن کٹ گئی “ نے کئی ایک ماﺅوں کو سوچنے پر مجبور کیا ہے تو کئی ایک نے ایسی ذلیل حرکت سے توبہ کی، اس سے زیادہ شاعر کو اور کیا چاہئے ، ایک سچا ، مخلص شاعر یہی تو چاہتا ہے کہ اس کا کلام سما ج پراچھے اثرات ڈالے ، بلاشبہ اس معاملے میں ڈاکٹر صاحب کامیاب وکامران ہیں۔ عالمی سطح پر اس نظم نے ڈاکٹر حنیف شباب کو شہرت دوام بخشی ہے۔ اور اس نظم کو بے شمار مقامات پر ڈرامے وغیرہ کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔
          ڈاکٹر حنیف شباب نظم کے ساتھ نثری میدان میں بھی دسترس رکھتے ہیں۔ ادبی میدان میں جب کبھی آپ کے مضامین رسالوں اور اخباروں میں شائع ہوتے ہیں تو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ بنگلور کے روزنامہ میں لفظ” اسلامی “ کو لے کر جو اعتراض ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے اسلامی ادب کے موضوع کو چھیڑ کر بحث کا آغاز کیا اور مدلل مضامین لکھے۔ پھر جب اس کو ایک انجام تک پہنچا ئے تو ریاست کا اردو داں طبقہ اسلامی ادب کی سچائی سے متعارف و مائل ہوتا ہوا نظر آیا۔کالم ”آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے “کے ذریعے ڈاکٹر صاحب سماجی و سیاسی حالات پر تجزیہ کرتے رہتے ہیں ، حالات پر گہری نگاہ اور اس کے حقائق پر مبنی تجزیہ میں ڈاکٹر صاحب ماضی کے حوالوں سے حال کا منظر پیش کرتے ہوئے قاری کو مستقبل سے آگاہ کرتے ہیں اور اس کے شعور کوجگاتے ہوئے اپنی دینی ذمہ داری کو بھی بخوبی ادا کرتے ہیں۔ ڈاکٹرصاحب نظم و نثر دونوں میدانوں میں متحرک و سرگرم ہیں ، اب دیکھنا ہے کہ لہو کے موسم کی تہہ سے کیا اچھلتا ہے۔ انتظار رہے گا۔
          سید اشرف برماور اشرف کو اپنی شرافت سے لبریز شاعری میں سماج کی دکھتی رگوں پر انگلی رکھنا، اور پھر اس کو حل کرنے کی راہ دکھانے کا فن اچھی طرح آتاہے۔ سہل ممتنع، سیدھے سادھے عوامی الفاظ سے معنوں کا سمندر پیدا کردیتے ہیں، مشاعروں میں ان کی طرف سے پیش کی جانے والی غزلوں کو بڑی سنجیدگی سے سماعت کیا جاتاہے۔ نہ جانے کیوں انہوں نے ابھی تک اپنے شعری مجموعے کو شائع کرنے کی طرف توجہ نہیں دی ہے۔چند اشعار بطور نمونہ:
میں ٹمٹماتا سا اک دیا ہوں مجھے دعاوں میں یاد رکھنا
ہوا کے آگے سپر ہوا ہوں مجھے دعاﺅں میں یاد رکھنا
تمھاری خاطر میں جی رہا ہوں تمھاری خاطر مروں گا اک دن
تمھاری خاطر غزل سرا ہوں مجھے دعاوں میں یاد رکھنا

کروٹ کروٹ بے چینی تھی شب بھر نیند نہ آئی تھی
اندر اندر کوئی چبھن تھی ہر سو اداسی چھائی تھی
ایسی بھی کیا بات ہوئی جو پوچھو تو بتلاوں میں
ہمسایہ بھوکا سویا تھا میں نے روٹی کھائی تھی
          حافظ،عالم دین سید احمد سالک برماور ندوی ایک خوش فکر و خوش گلو نوجوان شاعر ہیں، ریاست میں ادبی و فنی لحاظ سے ابھرتے ہوئے اس نوجوان کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے، اور یہ صلاحیت و قابلیت اسلام کے لئے وقف کردینا بھی نعمت خداوندی سے کچھ کم نہیں ہے۔ ریاست بھر کے مشاعروں اور ادبی محفلوں میں اپنے کلام سے اپنا منفرد مقام اور اپنی شناخت بنانے والے سالک کا اسلامی فکر کے حامل شعراءکے رنگ میں غزلوں و نظموں کا تخلیقی سفر جاری و ساری ہے۔ ادب اسلامی کے بزرگ شعراءکی تقلید میں شاعری کا آغاز کرنے کے بعد آج اپنی زمین بنالی ہے، ایسی خداداد صلاحیت و قابلیت کے مالک سالک کے کلام پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو الحمدللہ! ادب اسلامی کا مستقبل روشن نظر آتاہے۔ حال ہی میں ایک بین لسانی مشاعرے میں :
اللہ اللہ بول بندے، اللہ اللہ بول
ذکر الہٰی کرتا جا، یہ ذکر بڑا انمول
 والی نعت نے سامعین سے کھچا کھچ بھرے ہال کو کھڑے ہوکر داد دینے پر مجبور کیا تھا۔ غزل کی محفل ہو یا ادبی محفل ، ہر جگہ اپنی شرکت سے اپنا وجود ثابت کرنے کی ان میں بھرپور صلاحیت ہے۔ ان کے کلام کی خوشہ چینی کر کے کچھ شعر آپ کی خدمت میں پیش کر تا ہوں:
چلئے جگنو ہی سہی اس کی نظر میں لیکن
روشنی ایسی کہ سورج کے برابر ہوں میں
مجھ کو اخلاص کے جذبہ نے چھپا رکھا ہے
مجھ کو ڈھونڈو نہیں بنیاد کا پتھر ہو ں میں
ایسی تفصیل کہ ہر لفظ جہاں معنی
ایسا اجمال کے قطرے میں سمندر ہوں میں
انشاءاللہ ! بہت جلد ان کا شعری مجموعہ منظر عام پر آنے کی امید ہے۔ صحافت کی ڈگری رکھنے والے سالک انٹرنیٹ کی دنیا میں نیوز پورٹل ”ہر پل آن لائن کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ اور دیگر کئی اخبارات سے وابستہ ہیں ساتھ ہی ساحل آن لائن بھٹکل کے لئے بھی آپ خدمات انجام دیتے ہیں۔ گویا نثری سطح پر بھی کاوش جاری ہے۔
          بزرگ شعراءمیں سید عبدالرحمن باطن کا ذکر کافی اہمیت رکھتاہے۔سوسالہ تاریخی تعلیمی ادارے انجمن حامئی مسلمین بھٹکل سے وابستگی کے ذریعے تعلیمی خدمات انجام دینے والے باطنصاحب اپنے کلام کے ذریعے عصری تقاضوں کو پیش کرتے ہیں اور ان پرکڑی تنقید کرتے ہوئے عوام کو حل کے لئے سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ سیاسی، سماجی اور موجودہ حالات پر طنزکے ذریعے اپنی قلبی واردات کااظہار کرنے والے باطن صاحب آج کل بہت خاموش ہیں۔ غالباً عمر کے تقاضوں نے انہیں مجبور کیا ہو، ورنہ وہ ہر مشاعرے میں اپنی مترنم بلند آواز کے ساتھ پیش ہوتے ہیں تو سب کو سماعت پر مجبور کردیتے ہیں۔ابھی تک کوئی مجموعے کا شائع نہ ہونا تعجب خیز ہے۔ کوئی انہیں توجہ دلا ئے اور شائع ہو تو ادب کی بڑی خدمت ہوگی۔ باطن صاحب لکھتے ہیں:
ہم اذاں دیتے ہیں باطن دوسروں کے واسطے
لیکن اپنے کان میں دو انگلیاں رکھتے ہیں ہم
          عبداللہ رفیق بھی بزرگ شاعرہیں، مشاعروں میں اپنے کلام کے ذریعے معاشرتی برائیوں پر بڑی چوٹ کرتے ہیں ، عمر کے تقاضے کس کو چھوڑتے ہیں یہاں بھی وہی حال ہے۔عبد العلیم شاہین خاندانی طور پر شاعر ہیں ان کے گھرانے میں کم و بیش تین شعراءہیں اور جن میں ان کے بڑے بھائی مرحوم کوثر جعفری کا شمار ریاست کے ممتاز نعت گو شعراءمیں ہوتا ہے، عبد العلیم شاہین نے نعتوں کے علاوہ غزلیں بھی خو ب کہی ہیں، ان کا ترنم ا ن کے کلام کو مزید خوبصورتی بخشتا ہے۔نعت کے یہ اشعار دیکھئے کس قدر بلند آہنگ لیے ہوئے ہیں:
جسے دولت سے رغبت تھی نہ حسرت جاہ و منصب کی
وہ رو رو کر خدا سے رات بھر کیا مانگتا ہوگا
شفیع المذنبیں ہو کر اسے یہ غم ستاتا تھا
کہ روز حشر امت کے گنہگاروں کا کیا ہوگا
 حنیف شاہ شبنم انگریزی زبان کے استاذ ہیں، اکیڈمی آف ماڈرن انگلش کے نام سے اپنا ایک دبستان کھول رکھا ہے، اردو سے بھی بڑی محبت کرتے ہیں، اپنے متفرق اشعار کا مجموعہ ”شبنمی موتی“ کے نام سے شائع کر چکے ہیں۔ کہتے ہیں:
اشعار میں گرمی ہے، تمازت ہے، تپش ہے
شبنم ہے تخلص مرا، شعلہ ہوں مگر میں
          پیام سعیدی بھٹکل کے شعری منظر نامہ کا درخشاں نام ہے،لیکن افسوس کے اس بھٹکلی شاعر نے اپنی عمر تجارت کے مرکز ممبئی میں گزاری اور وہاں فلمی دنیاسے وابستہ افراد کے ساتھ رہ کر اردو کی خدمت کی، شاعری میں بلا کی روانی ہے ، خوبصورت اور چھوٹی بحر میں ان کا کلام بے مثال ہے:
مجھے آتا نہیں چہرے بدلنا
میں آئینہ ہوں، آئینہ رہا ہوں
بہت ترسوگے میرے بعد مجھ کو
چمن والو! چمن سے جا رہا ہوں
مولانا نعمان اکرمی ندوی ، ،سید ابوبکر مالکی کے بھی کئی مجمو عہ کلام شائع ہو چکے ہیں، عمان اکرمی ندوی کے مجموعہ کلام ” حرف معتبر “ میں نظموں، سہروں اور قصیدوں کے ساتھ کچھ غزلیں بھی ہیں۔ بعض اشعار میں بڑی معنویت ہے ۔ مثلاً :
نہ چل اس قدر ناز سے فرش گل پر
مجھے لغزش پا کا ہردم خطر ہے
           ایک جگہ کہا ہے کہ:
یہ فکر وفن کی کاوشیں، یہ شعر و نغمہ کا ہنر
ہے لفظ لفظ روشنی، ہے حرف حرف معتبر
سید ابو بکر مالکی کے دو مجموعہ کلام بنام ” احساس اور ” نغمات سید “ شائع ہو چکے ہیں، ان کا کلام مزید گہرائی کا متقاضی ہے۔ ان کے علاوہ حسر ت برماور بھٹکلی، اور محمد حسن معلم بھی قادر الکلام شاعر گذر چکے ہیں، دونوں کا مجموعہ کلام ان کے انتقال کے بعد ان کے چاہنے والوں نے شائع کیا ہے ۔ موجودہ دور میںصادق نوید، علی باشاہ بسمل، اقبال سعیدی، عبد المغنی اکرمی، محمد علی پرواز، ایمن فردوسی ، ابوالحسن مفازسمیت کئی شعراءوادباءادب کی زرخیزی کی خاطر ہل چلا رہے ہیں، ان سبھوں کے کلام کا مطالعہ کرنے کے بعد یقین کے ساتھ کہا جاسکتاہے کہ نئی نسل کو یہاں ادب اسلامی کی بہتر اور سود مند فصل ملے گی۔
          خواتین شاعرات کا تذکرہ کریں تو ریاستی سطح پر نظم و نثر کے ذریعے اپنی شناخت قائم کرنے والی انجمن پی یو کالج فار گرلس بھٹکل کی اردو لکچرر ڈاکٹر فرزانہ فرح محتشم کا نام سرفہرست ہوگا۔ ریاست کی خواتین شاعرات میں ان کا نام بڑے ادب سے لیا جاتاہے۔ زندگی کی تلخ حقیقتوں کو شعر کے پیکر میں ڈھال کر غمِ جہاں بنا دیتی ہیں۔ نثر ی میدان میں بھی آپ متحرک ہیں،رسالوں میںآپ کے کئی مقالہ جات اور مضامین شائع ہو کر پذیرائی حاصل کرچکے ہیں۔ ان کے نثری مضامین کا مجموعہ ” شوخی  تحریر“ شائع ہوا ہے۔ بے پناہ صلاحیتوں کی مالک فرزانہ فرح ریاستی سرکاری نصابی کمیٹی کی ممبر ہیں۔ آپ نے کرناٹکا یونیورسٹی دھارواڑ سے ” بھٹکل میں اردو غزل “ کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ پیش کرتے ہوئے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے:
نبھانی آئی نہ تم کو ہی دوستی ورنہ
خلوص میں تھی کمی نہ مری وفاﺅں میں
اس کی خفگی تو مجھ سے تھی لیکن
روٹھ کر وہ جہان سے نکلا
          ان کے علاوہ نورالنساءنور اور منکی کی شبانہ ثمین خواتین شاعرات کے طورپر ادبی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اترکنڑا ضلع میں بھٹکل کے علاوہ ہمیں کہیں بھی کوئی شاعر نظر نہیں آتا ۔ کیونکہ ضلع میں کہیں بھی مقامی شاعر نہیں ہے اگر ہے تو وہ باہر سے آکر ملازمت یا دیگر وجوہات کی بنا پر رہائش اختیار کی ہے۔ ڈانڈیلی میں شکیل مظہری جن کا انتقال حال ہی میں ہواہے۔ غزل کے پیرائے میں سماجی اور معاشرتی حالات کو پیش کرتے رہے۔ ان کے چار مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ کاروار میں منظور فہیم بزرگ شاعر ہیں۔ ابھی تک کوئی مجموعہ شائع نہیں ہواہے، مشاعروںمیں جب آپ تحت سے غزل سناتے ہیں تو اپنا تجربہ اورمقصد واضح کردیتے ہیں۔ مشاعروں کی نظامت کے لئے بھی آپ مشہور ہیں۔


خطبہ استقبالیہ
(بہ وقت مشاعرہ)
 ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی
کاروار
          صدر مشاعرہ، مہمانان گرامی، محترم شعرائے کرام اور ادب نواز سامعین، خواتین و حضرات!
          ادارہ ادب اسلامی کاروار کی اس پہلی ضلعی ادبی کانفرنس کے آخری سیشن محفل مشاعرہ میں آپ تمام حاضرین کا استقبال کرتے ہوئے مجھے بے حد خوشی محسوس ہورہی ہے۔ اس مسرت و شادمانی کے دو گونہ اسباب ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ تاریخی، ادبی کانفرنس ہم ایک ایسے شہر میں کررہے ہیں جو بحیرہ عرب کے مغربی ساحل پر بسا، باغات سے سجا، سر سبز و شاداب اور پُررونق شہر کاروار اپنی ایک تاریخی و تہذیبی شناخت رکھتا ہے۔ رابندر ناتھ ٹیگور جیسے عظیم شاعرجو روحانیت، مذہبیت اور اپنی فلسفیانہ شاعری کے لےے ساری دنیا میں مشہورہیں۔ اپنی شہرہ آفاق تخلیق گیتانجلی کی تخلیق کا آغاز اسی شہر کاروار سے کیا تھا، پھر یہاں کی قدیم خانقاہیں اور یہاں کے صوفی سنتوں اور بزرگان دین کا روحانی فیضان ہمارے ادب اور معاشرہ دونوں کی فلاح و صلاح کا ضامن ہے۔ شعر و ادب بھی مذہب کے زیر اثر آتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں اعلیٰ ادبی روایات پروان چڑھتی ہیں۔ ہماری مسرت کی دوسری وجہ یہی ہے کہ آج کی یہ ادبی کانفرنس، مذاکرہ اور مشاعرہ ہمارے لےے ادبی و شعری تفریح کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ اس کے پےچھے ایک بلند تعمیری ادبی مقصد ہے اور شعر و ادب کی موجودہ ناخوشگوار رفتار و رجحانات کے بالمقابل شعر وادب کو صحیح سمت و رفتار بخشنا اور اس کو صالح اور اخلاقی خطوط پر استوار کرنا ہمارے پیش نظر ہے۔
          خواتین و حضرات! مشاعرہ تہذیب و ثقافت کے اظہار کا ایک اہم ذریعہ ہے اور اس کے آغاز سے آج تک اس کی مقبولیت برقرار ہے۔ آزادی کے بعد ہندوستان میں اردو زبان کو جن سخت حالات سے گزرنا پڑا ہے ان کے اثرات کو کم کرنے میں بھی ان مشاعروں کا اہم کردار رہا ہے۔ آج بھی مشاعرے عوام تک رسائی کا اہم وسیلہ ہیں۔ آج وہ لوگ بھی جو اردو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے مشاعروں میں ذوق و شوق سے شریک ہوتے ہیں اور مشاعرے کے اختتام پر جب اپنے گھروں کو واپس جاتے ہیں تو ان کے ذخیرہ الفاظ میں اردو کے ایسے کئی الفاظ شامل ہوچکے ہوتے ہیں جن سے اب تک وہ نا آشنا تھے۔ ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ بہت سے غیر اردو داں حضرات میں مشاعرے کی شرکت سے اردو سیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی اور انھوں نے اس خواہش کو عملی شکل بھی دی۔
          آج مشاعرے کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے ساتھ مشاعرے میں تہذیب کے منافی باتیں بھی ہورہی ہیں، جس سے مشاعرے کے معیار و اعتبار پر حرف آتا ہے۔ اس وقت اس کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے۔ در اصل مشاعرہ میں شرکت کرنے والے آج اچھی شاعری کے رسیا بھی ہوتے ہیں اور سستی تفریح کے طلب گار بھی۔
          لیکن دوستو! یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ شعر و ادب بجائے خود مقصد نہیں بلکہ ایک بڑے مقصد کے حصول کا ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ ادب انسانی خیالات، جذبات اور اقدار کو بنانے یا بگاڑنے والی عظیم طاقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تمام تحریکات نے اس طاقت کا خوب خوب ادراک بھی کیا اور بہتر سے بہتر استعمال بھی۔ دنیا میں جتنے بھی انقلابات آئے ہیں ان کا مطالعہ اور خود پوری انبیائی تاریخ کو اگر آپ دیکھیں تو پائیں گے کہ انبیاءعلیہم السلام نے اپنے اپنے دور میں جو تحریکیں چلائیں ان میں خدا کے بتائے ہوئے اسالیب بیان کو اپنی دعوت کے فروغ کے لےے پورے طور پر استعمال کیا۔ اس کی ایک تفصیل ہے جس کا موقع نہیں۔ اس وقت تو میں آپ کے سامنے اردو غزل سے متعلق چند باتیں گوش گزار کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ کیوں کہ ابھی مشاعرے میں آپ زیادہ تر اسی صنف شاعری کو سماعت فرمائیں گے۔
          غزل اردو شاعری کی نہایت خوب صورت صنف سخن ہے، یہ جس قدر خوب صورت ہے اسی قدر پائیدار بھی ہے۔ غزل کی آب و تاب روز اول ہی سے تابناک اور روشن ہے۔ اس کی مقبولیت کا گراف کبھی نیچے نہیں آیا بلکہ روز افزوں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے کہا ہے کہ ” ہماری تہذیب غزل میں اور غزل ہماری تہذیب میں ڈھلی ہوئی ہے۔“ اسی طرح غزل کے بارے میں ان کے دو جملے بہت مشہور ہیں کہ غزل اردو شاعری کی آبرو ہے یا غزل اردو زبان کا تاج محل ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ غزل ہماری شاعری کا سب سے بڑا سرمایہ ہے جس میں حیات و کائنات کی وہ کون سی بات ہے جو اس میں ادا نہیں ہوتی۔ بقول آل احمد سرور:
غزل میں ذات بھی ہے اور کائنات بھی ہے
ہماری بات بھی ہے اور تمھاری بات بھی ہے
          غزل نے ہر دور میں اور آج کے پُر آشوب ماحول میں بھی عصری حسیت اور عصری شعور و ادراک کا ساتھ دیا ہے اور آئندہ بھی دیتی رہے گی اور اسی لےے :
ختم ہونے کو نہ آئے گا غزل کا موسم
          آخر میں ایک بار پھر آپ تمام خواتین و حضرات کا اس مشاعرہ میں استقبال کرتے ہوئے یہ دو اشعار آپ تمام کی خدمت میں پیش کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ:
محفل میں آج ساز محبت کو چھیڑ کر
جو اہل عشق ہیں، انھیں تڑپا رہا ہوں میں

ہر چیز کو نگاہ محبت سے چھیڑ کر
طوفان، بحر عشق میں اب لا رہا ہوں میں
****
مالى
 عبد القیوم خان
کاروار
0974066568
اگر یہ جانتے چن چن کے ہم کو توڑیں گے
تو گل کبھی نہ تمنائے رنگ و بوکرتے
          میں نے سر اٹھا کر دیکھا، میرا ہم عمرشخص میرے گھر کے پھاٹک پر کھڑا میری طرف استہزائیہ نظروں سے دیکھتا ہوا شعر پڑھ رہا تھا۔ کاٹھ کا مضبوط، قد کا لمبا، بہت مرعوب کن شخصیت تھی، میں نے کہا۔ مگر یہ پھول میں نے توڑے نہیں، زمین سے چنے ہیں۔ رات اوس میں نہائے، صبح چڑیوں سے چہلیںکیں اور وفور شوق میں سجدہ ریز ہوگئے۔ مگر تم کون ہو؟ کہیں سے بھی شاعر نہیں لگتے۔ نہ گل و باغ و بہار لگتے ہو۔
          وہ ہنسا۔ ہاں زندگی بھر پولیس کا ڈنڈا گھمایا ہے۔ ریٹائرڈ ڈی آئی جی ہوں، پیشے کی سختی کو شاعری سے نرم کررہا ہوں اور کیا پولیس والوں کا دل نہیں ہوتا۔ وہ گل و بلبل کی زبان نہیں بول سکتے۔ تمھاری طرح باغ کا مالی ہونا ضروری ہے؟
          میں نے غصہ سے کہا۔ اے مسٹر، میں ریٹائرڈ پروفیسر ہوں، سیاسیات پڑھائی ہے۔
          وہ بولا.... اچھا! چہرے سے تو انتہائی غیر سیاسی آدمی لگتے ہو۔ میں تو تمھیں مالی سمجھا تھا۔ کچھ روز سے تمھارے باغ کی تراوٹ روح میں محسوس ہورہی تھی۔ اندر آسکتا ہوں۔
          وہ باتیں کرتے کرتے اندر آچکا تھا۔
          میں نے کہا۔ اندر تو تم آہی چکے ہو۔اچھی طرح آنکھیں سینک لو۔ ایسا باغ پورے شہر میں کسی کا نہیں ہے۔ میں اپنے دن رات کی محنت کی ستائش چاہ رہا تھا۔ وہ ہر پھول اور پودے کا نام اور فیملی بتانے لگا۔ پورے بوٹینکل نام اسے ازبر تھے۔ میری سمجھ میں خاک نہیں آیا۔
          یہ کیا غیر شاعرانہ نام لے رہے ہو؟
          وہ ہنسا۔ میں نے بوٹنی میں ایم ایس سی کی ہے۔ اپنا سبق دہرا رہا ہوں۔آپ تو چمپا، چنبیلی اور موگرے سے آگے نہیں پڑھے ہوں گے۔
          میں نے کہا۔ اچھا تو یہ بات ہے۔ لو نام سنو۔ وہ سفید پھول امن کا پیغام دے رہا ہے۔ وہ اس گوشے میں مساوات کی کلیاں جھوم رہی ہیں۔ یہ لہلہاتی پھولوں سے لدی بیل آزادی کا گیت گارہی ہے۔ یہ تمام باغ بھائی چارگی کا سبق دیتاہے۔
          وہ قہقہہ لگا کر بولا۔ اب سیاسی بھاشن مت دو، سارے پھول مرجھا جائیں گے۔ ساری عمر سیاست دانوں کے پےچھے اٹینشن کھڑے طبیعت ادب گئی تھی۔ ویسے پھول نہیں ہیں، حسین چہرے ہیں، یاد ہے کہ غالب نے کیا کہا تھا؟
          وہ غالب کا شعر پڑھنے ہی جارہا تھا کہ میرا نواسہ بھاگتا ہوا آیا۔ میری گود میں چڑھ بیٹھا۔
          ارے یہ پھول کہاں سے اگ آیا۔
          میں نے نواسے کابوسہ لے کر فخر یہ لہجے میں کہا۔ کیوں پسند آیا۔
          اس نے میرے نواسے بابا کی پیشانی چوم کر کہا۔ سچ کہوں برا تو نہیں مانو گے۔ تمھاری گود میں مجھے یہ احسن تقویم لگ رہا ہے اور تم اسفل سافلین لگ رہے ہو۔
          میں برا مان کر بولا۔ کسی اور انداز میں تعریف نہیں کرسکتے تھے۔
          ارے احسن تقویم کے بعد اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ تمام کائنات میں سب سے بہترین تخلیق انسان ہی تو ہے۔ یہ بہت پیارا ہے، تمھارے باغ کی شادابی اور مہک بس اسی احاطے کی حد تک محدود ہے۔ اللہ کرے اس پھول کی خوشبو دور دورتک پھیلے۔
          میں نے اس کی آنکھوں میں دو موٹے موٹے آنسو دیکھے۔
          کیوں تمھیں کیا ہوا؟
          وہ ان آبدار موتیوں کو اپنے ہاتھوں میں جذب کرتے ہوئے بولا۔ بس میرے بچے یاد آگئے۔ کبھی میرے گھر آو . موٹر بھیج دوں گا۔ یہاں سے بہت دور ہے۔ میرا چمن دیکھ کر تمھیں اپنا باغ جھار جھنکار لگے گا۔ ایسی تراش خراش کی ہے کہ دیکھتے ہی گا اٹھو گے ” دل کہے رک جا رے رک جا“۔ وہ اپنا ایڈریس بتا کر جانے لگا۔ میں نے پکا کر کہا۔ ڈی آئی جی صاحب ! اپنا نام تو بتاو.
          وہ مڑ کر بولا۔ شہباز خان۔
          ارے یہ تو عہدے سے بھی زیادہ خطرناک نام ہے۔ وہ مزاحیہ لہجے میںبولا۔ ارے مالی۔ میں تمھاری طرح زمین پر نہیں رہتا۔ بہت اونچا اڑتا ہوں اور مردار کبھی نہیں کھایا۔
          میں اس بھیگی ہوئی صبح کو تقریباً بھول گیا تھا۔ ایک عرصہ بعد اس کی دعوت یاد آئی تو اطلاع دےے بغیر اس کے بتائے ہوئے ایڈریس پر پہنچ گیا۔شہر سے دور جہاں آبادی اور کھیت ختم ہوتے ہیں اور جنگل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔ ایک تالاب کے کنارے اس کا فارم ہاوس تھا۔ تالاب میں کنول کھلے تھے۔ باز اپنے شکار کی تلاش میں ادھر ادھر اڑ رہے تھے۔ مجھے یہ پرسکون ماحول بہت پسند آیا۔ نیم پختہ سڑک سے گزرتے ہوئے ایک پھاٹک پر پہنچا۔ اندر جھانکا تو بجائے چمن کے ویرانہ ملا۔ ایک اجنبی کو دیکھ کر کہیں دور سے کتا بھونکنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد ایک شخص آیا اور میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ میں نے پوچھا یہ شہباز خان کا کاٹیج ہے۔ اس نے سر ہلا دیا۔ میں نے اپنا تعارف کرایا۔ بولا جی صاحب نے کہا تھا کہ آپ آئیں گے۔ میں نے باغ کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ اس کو کیا ہوا۔ جی صاحب کہتے ہیں جب مالن ہی نہیں رہی تو باغ کا کیا کروں گا۔ گل، باغ وبہار میرے یار کے صدقے سے تھے، اب وہ ہی ساتھ چھوڑ گیا تو آرائش چمن کس لےے۔ بہت ہنس مکھ اور ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے والے لوگ تھے۔
          میں نے پوچھا: تمھارے صاحب کے بچے کہا ں ہیں۔
          اس نے جواب دیا۔ دو بچے ہیں۔ ایک آسٹریلیا میں، دوسرا یہیں انڈیا میں آئی اے ایس آفیسر ہے۔ بڑے اونچے لوگ ہیں، مگر صاحب کے لےے فرصت نہیں ہے۔ آپ باہر کھڑے کیوں ہیں، آئےے آپ کو صاحب سے ملواوں۔ شہباز خان آرام دہ کرسی پر بیٹھا مثنوی مولانا روم پڑھ رہا تھا، مجھے دیکھ کر بغیر کسی تمہید کے بولا۔ خوب آئے۔ پھاٹک سے گزر کر یہاں آنے تک تم نے میری ساری روداد سن لی ہوگی۔
          میں نے خلوص سے کہا: میرے ساتھ چلو شہباز، اپنا بھائی بناکر رکھوں گا۔
          نہیں پروفیسر صاحب! ہم میاں بیوی ایک دوسرے کے بغیر ادھورے تھے۔ بچوں کی کمی ایک دوسرے کی رفاقت میں پوری کرلیتے تھے۔ اس چمن میں اس کی قبر ہے۔ میں نے نوکروں سے کہہ رکھا ہے کہ میرا وقت آئے تو اسی پہلو میں لٹا دینا۔
          میں نے سوچا یہ کیسا مالی ہے، جو اپنے چمن ہی میں خزاں رسیدہ ہوگیا ہے۔
****


بد عنوانی کے عنوان پر....!!!
محمد فاروق نشتر
میسور
09731277785
          آزادی کے بعد سے اب تک ہندوستان پر کئی پنچ سالہ منصوبے گزر چکے ہیں اور ہر پنچ سالہ منصوبے کی نیو ہندوستان کی ترقی پر رکھی گئی تھی اور ہندوستان نے الحمد للہ ترقی کی منزلوں کو اس طرح پار کرلیا ہے جیسے کوئی نو مشق تیرا ک بحیرہعرب پار کرلے (بغیر کسی کشتی، جہاز یا اسٹیمر کے)لیکن آپ ایسے نو مشق تیراک کو کیا کہیں گے جو کشتی، جہاز اور اسٹیمر کی سہولیات رکھنے کے باوجود جان جوکھم میں ڈال کر بحیرہعرب میں ڈوبتا، تیرتا آخر منزل پار کرلے۔ آپ کہیں گے اتنی سہولیات کے باوجود اگر کوئی نو مشق تیراک ہاتھ پاوں مارتا ہوا منزل پار کر چکا تو یقینا وہ جفا کش، بہادر اور ڈیر (Dare) آدمی ہوگا یا پھر احمق۔
          ہندوستان اور ہندوستانیوںکے ساتھ پہلی مثال ہی کا معاملہ ہوا۔ آخر کار وہ آج دنیامیں اس مقام پر ہیں جہاں کھڑے ہوکر وہ اپنے سے کم طاقتور ملکوں سے آنکھ ملا کر بات کرسکتے ہیں، بلکہ بات کرتے کرتے کبھی کچھ ایسا بھی بول دیتے ہیں جسے بڑا بول کہا جاتا ہے۔ اور ایسے بول صرف وہی لوگ بولتے ہیں جن کا کوئی مول نہیں ہوتا، اُن کاتعلق نہ یہاں کی مٹی سے ہوتا ہے، نہ آب و ہوا سے اور نہ ہی ایثار و قربانیوں کے انمٹ نقوش سے۔ بلکہ وہ اس طرح کے ” بول“ اس لےے بول لیتے ہیں کہ ایسے بولوں کے بولنے کا فیشن سا چل پڑا ہے۔ اور ان بولوں کے پس منظر میں ” بد عنوانی“ کا چہرہ اس طرح صاف نظر آتا ہے جیسے کوئی شیشہ میں اپنا عکس دیکھا رہا ہو:
جتنی قریب ہے منزلِ یار
اے دل، اتنی ہی دور بھی ہے
          گو کہ ہندوستان ترقی کی منزلوں سے گزر رہا ہے لیکن جب ” ترقی“ کی روح میں جھانکا جاتا ہے تو اس کے گنبدوں میں ایسے چمگادڑلٹکے نظر آتے ہیں جو بڑے بولوں سے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں اور یہ ” چاٹ“ صرف اور صرف ایک ہی مسالے سے تیار ہوتی ہے جو عرفِ عام میں ” ٹھن ٹھن گوپال“ کہلاتا ہے۔ اِس ٹھن ٹھن گوپال کو پانے، بچانے اور سجائے رکھنے کے لےے ہندوستان اور ہندوستانی وہاں پہنچ چکے ہیں جہاں اب نظر آتے ہیں:
قربان ایک پھول پہ سارا چمن ہوا
          ہر چیز کا ایک دام ہوتا ہے اور عام ہندوستانی بھی اپنا دام رکھتا ہے ، حالانکہ وہ تاجر نہیں ہے لیکن مغربی قدروں نے اُس کو اپنے دام میں ایسا اُلجھایا ہے کہ وہ دام کے دام سے نکل نہیں پارہا ہے۔ آج وہ ” ٹھن ٹھن گوپال“ کی کسی بھی مقدار میں اپنے آپ کو، قوم کو، ملت کو، وطن کو بیچ سکتاہے ۔ کیوں کہ ” لکشمی“ کا حصول ہی بھگوان کی خوشنودی اور رضا ہے، اب کسے پرواہ ہوگی کہ بھگوان کس راستے سے آرہے ہیں؟
اب یہ شئے انکار کے قابل نہیں
          اِس طرح کی خرید و فروخت ہر ہندوستانی کے بس کی بات نہیں لیکن ایک بڑا طبقہ ہے جو ملک، ملت اور قوم کے ساتھ کھلواڑ کررہا ہے اور یہ طبقہ کرپٹ (Corrupt) طبقہ کہلاتا ہے۔ ظاہر ہے جب طبقہ ہوگا تو اس طبقے میں کچھ لوگ ہوں گے، جن کی ایک صورت بھی ہوگی اور کچھ معصوم دل چاہیں گے کہ اِن صورتوں کو دیکھا جائے، لیکن افسوس یہ کہ اُن معصوم دلوں کو وہ صورتیں نظر نہیں آتیں کیوں کہ یہ صورتیں بے چہرہ صورتیں ہوتی ہیں۔ اِن چہروں پر عام آدمی کے چہروں سے الگ لالچ اور حرص و ہوس اس طرح ٹپکتی ہے جس طرح کسی دنیا دار فقیر کے چہرے سے دنیا داری یا ایک خوب صورت نو زائیدہ بچہ کی صورت سے خوب صورتی:
حقیقت میں وہ اک نیرنگیِ بحرِ محبت ہے --!
نہ موجیں ہیں، نہ طوفاں ہے، نہ کشتی، نہ ساحل ہے
          لہٰذا اِن چہروں کی شناخت ایک دشوار گزار امر ہے جس طرح کرپشن(Corruption) کی کئی صورتیں ہیں۔ اِسی طرح کرپٹ افراد کی بھی بھانت بھانت کی صورتیں ہیں۔ عام آدمی اپنی ضرورت پوری کرنے کے لےے ایسے کرپٹ افراد کونہ چاہتے ہوئے بھی ” ضرورت“ کی قیمت ادا کرتا ہے۔ اپنی ” تکلیف“ رفع کرنے کے لےے جرمانہ ادا کرتا ہے، ” غرض“ پوری کرنے کے لےے ہر جانے ادا ہوتے ہیں اور ” قیمت“، ” جرمانے “ اور ” ہرجانے“ کے پس منظر میں کرپٹ چہرے مسکرا مسکراکر کہتے ہیں ” یہ تو ہمارا حق ہے“:
دو گھڑی کے لےے میزانِ عدالت ٹھہرے
کچھ مجھے حشر میں کہنا ہے خدا سے پہلے
          سچ تو یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنا کوئی ” خدا“ نہیں رکھتے۔ حالانکہ ہندوستانی قدروں اور ہندوستانی روایات میں ----- ” خدا“ کو ایک بڑا مقام حاصل تھا اور لوگ باگ اپنے خداکی خوشنودی کے لےے سرگرداں رہتے۔ وہ پردھان منتری کی موت بھی مرتے تو اُن کے بینک بیلنس (Bank Balance) میں چند سو روپیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ لیکن آج اُنھی روپیوں کی خاطر ”خداوں“کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ خدا خریدے جاتے ہیں، خدا بیچے جاتے ہیں، خدا بنائے جاتے ہیں، خدا نچائے جاتے ہیں --- اور جو واقعی خدا ہے ---وہ اِن کرپٹ چہروں کی رسی اسی لےے دراز کرتا ہے کہ --- وہ واقعی اُن کا خدا ہے:
حشر میں میرا لہو چھپتا تو آخر کس طرح
آپ بھی بھولے نہ تھے مجھ کو بھی کچھ کچھ یاد تھا
          در اصل بد عنوانی ایک ایسا عنوان ہے جو ہاٹ کیک (Hot Cake) کی طرح بازار ِ انسانیت میں بک رہا ہے۔ اِس میں لذت بھی ہے، شہرت بھی ہے اور دولت بھی --- اورلذت، شہرت و دولت کے کئی رنگ ہوتے ہیں۔ یک رنگی سے اِن تینوں جذبوں و مادوں کو اتنی ہی نفرت ہے جتنی نفرت ایک پارسا کو بد پرہیزی سے ہوتی ہے۔ لہٰذا کرپشن یا بد عنوانیوں کی زنجیر کافی طویل ہے بلکہ شیطان کی آنت کی طرح لمبی اور الجھی ہے۔ بدکاری کو لیجےے ---یہ پارسائی پر ضرب ہے۔ بد دیانتی کو دیکھےے، یہ دیانت کو شرما رہی ہے--- بدحالی کو تولےے ---یہ خوشحالی کا منھ چڑا رہی ہے۔ بد زبانی کا تجزیہ کیجےے یہ شیریں کلامی کا مذاق اُڑا رہی ہے--- گویا بد عنوانی کے بھی اتنے ہی چہرے ہیں جتنے چہرے انسانوں کے ہوسکتے ہیں۔ بد قماشی، بد معاشی، بد خلقی، بدفعلی، بد دماغی، بد رنگی، بد سلوکی، بدگمانی، بدلگامی، بد نگاہی، بد مزاجی، بد مزگی، بد معاملگی، بد گوئی، بد خواہی، بد عملی، بد صورتی، بد حواسی، بدچلنی، بد پرہیزی، بد امنی، بد انتظامی، بد اندیشی، بدبختی، بد نامی، بد نظری، بد نیتی، بد ذوقی، بد اصلی ---اللہ اللہ اتنی بدیوں میں انسانیت اپنے آپ کو کہاں تلاش کرے:
یہ چمن کے درد ناک انجام کا آغاز ہے
          ویسے ہندوستانیوں میں کئی خوبیوں کے ساتھ ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ آزاد ي وطن کے بعد سے اب تک بہت کچھ بچاتے بھی رہے ہیں۔ اِنھوں نے انگریزوں سے ملک کو بچایا ہے۔ پانی کی قلت میں قطروں کی حفاظت کی ہے۔ بجلی، بجلی کا شور اٹھا تو بجلی کو بچانے کے لےے راستے تلاشے ہیں۔ وطن کے دشمنوں سے وطن کو بچایا ہے۔ سیاست دانوں سے اپنے آپ کو بچایا ہے، اپنے آپ کو شیطان اور نفس کے چنگل سے بچایا ہے اور غالب گمان یہ ہے کہ وہ بد عنوانیوں سے بھی ایک حسین عنوان کو ضرور بچالیں گے جس کوفساد فی الارض کہا جاتا ہے۔
  اب ہندوستانیوں کو پنچ سالہ منصوبوں کی یا دس بیس نکات کے پروگراموں کی نہیں بلکہ ایک ہی نکاتی ایسے پروگرام کی ضرورت ہے جو بے صورت چہروں سے ملک کو بچا سکے اور یہ کام وہی کرسکتے ہیں جن کا کوئی دام نہ ہو، نہ ان کا کوئی دام لگا سکے اور نہ وہ کسی کے دام میں آئیں۔ ہمیں ایسے ہی انمول رتنوں کی تلاش ہے۔
****




نعت
توحيد کی انساں پر تفضيل ضروری تھی
اک نور مجسم کی تشکيل ضروری تھی

طائف کے مصائب سے ہنس ہنس کے گزرجانا
ايثار کی دنيا ميں تمثيل ضروری تھی

مبعوث ہوئے آقا قرآن مبيں لے کر
عيسیٰ کی بشارت کی تکميل ضروری تھی

دل چھوڑ کے کعبہ ميں يثرب کو چلے جانا
احکام الٰہی کی تکميل ضروری تھی

وہ قتل ہوا آخر کم عمروں کے نيزوں سے
بوجہل کی دنيا ميں تذليل ضروری تھی

تعريف کا حق ان کی گوہر نہ نبھا پايا
اس نعت ميں اُسوہ کی تفضيل ضروری تھی
 مشتاق علی گوہر، بلگامی

****

غزلیں
گلاب چہروں کی خار باتیں
ہوا ہوئیں سب سے وہ پیار باتیں

کبھی ہیں برق و شرار باتیں
کبھی ہیں پھولوں کا ہار باتیں

کسی کے لب پر سکوت طاری
کسی کے سر پر سوار باتیں

خدا ہی جانے کہ کیا بگڑتا
جو ہم سے کرتا وہ چار باتیں

خزاں کے موسم میں ہیں سہارا
کسی کی باغ و بہار کی باتیں

ترا بچھڑنا عذاب ٹھہرا
ہزار منھ اور ہزار باتیں

شراب آنکھوں سے ربط ٹوٹا
دھواں ہوئیں سب خمار باتیں

اداس لمحوں میں ذکر اس کا
سلگتے دل پر پھُوار باتیں

ابھی سے پلکیں ہوئی ہیں بھاری
ابھی تو ہیں بے شمار باتیں
ڈاکٹر محمد حنیف شباب
09986300865, haneefshabab@gmail.com

........
یوں تو ظاہراً ہے مری مگر ہے یہ دلکشی کِسی اور کی
میں امینِ بارِ حیات ہوں مری زندگی کِسی اور کی

بھلے تابناک لگے تمھیں یہ حسین چاند و نجومِ شب
اِسے مانئے کہ نہ مانئے یہ ہے روشنی کِسی اور کی

یہ خدا سے مکر و فریب ہے کوئی جرم اِس سے بڑا نہیں
جئیں اس کی آب و ہوا میں ہم، کریں بندگی کِسی اور کی

مجھے شوقِ بزمِ طرب نہیں، مجھے جامِ جم سے غرض نہیں
مرے ساقیا مجھے عمر بھر رہی تشنگی کِسی اور کی

یہ سزا ہے اپنے ہی جرم کی کہ عَروسِ شوکت و سلطنت
ابھی اپنے گھر کی کنیز تھی ابھی ہوگئی کِسی اور کی

اِسے باغیانہ روِش کہیں کہ یہ عقل ہی کا فتور ہے
کوئی اور اپنا اِمام ہو، کریں پیروی کِسی اور کی

نہ میں من ہی اُس میں لگا سکا نہ میں دھن ہی اُس پہ لٹا سکا
یہی بات سچ ہے کہ دوستی مرے دل میں تھی کِسی اور کی
اشرف برماور،بھٹکل
09980564282
........
دِل میں رب کی یاد بسانے والے لوگ
فرعونوں سے آنکھ ملانے والے لوگ

صحرا صحرا پھول کھلانے والے لوگ
کوچہ کوچہ دیپ جلانے والے لوگ

وہ تھے جن کے سینے چھلنی تیروں سے
ہم اِس منظر کو پیٹھ دکھانے والے لوگ

اگلے وقتوں کی دُنیا کیا دُنیا تھی
آج کہاں وہ اگلے زمانے والے لوگ

آگ اُگلتی تلواروں کے ساےے میں
سچائی کے بول سنانے والے لوگ

انصاروں پہ ختم ہے ساری فیاضی
مہاجروں کو گلے لگانے والے لوگ

ہر منظر کا پس منظر بھی ہے مظہر
کاش یہ جانیں شعر سنانے والے لوگ
مظہر محی الدین
کپّل
............
حق کا دامن کھلا نہیں ہے کیا
زیست کا حوصلہ نہیں ہے کیا

ظلم حد سے بڑھے تو ڈرنا کیا
حد سے آگے خدا نہیں ہے کیا

سانس کے آنے اور جانے میں
موت کا سلسلہ نہیں ہے کیا

ہر گھڑی مسئلوں سے ٹکراو
زندگی کربلا نہیں ہے کیا

دائمی زندگی کے متلاشی
آخرت کا پتہ نہیں ہے کیا

دھول ہے، دُھند ہے اور کہرا ہے
کوئی منظر کھلا نہیں ہے کیا

اس کی تنگی پہ کیوں یہ واویلا
آسمان دوسرا نہیں ہے کیا

ہجر میں ان کی یاد کی سوغات
دردِ دل کی دوا نہیں ہے کیا

ہر گھڑی کون ساتھ دے ارشد
قرب میں فاصلہ نہیں ہے کیا
ارشد صدیقی
شانتی سدن نمبر52، آرٹی نگر۔ بنگلور
........
اُن سے پوشیدہ حال رکھوں میں
کیسے دل کا سوال رکھوں میں

اپنے احساس کی ترنگوں کو
لفظ و معنیٰ میں ڈھال رکھوں میں

اُس کی خاطر تو مر کے خاک ہوا
اور کتنا خیال رکھوں میں

گردشوں میں نہ ڈگمگائے کہیں
ہر قدم دیکھ بھال رکھوں میں

اُف یہ توبہ شکن نظر اُس کی
کب تلک دل سنبھال رکھوں میں

مجھ سے رِشتہ کوئی رکھے نہ رکھے
سب سے رِشتہ بحال رکھوں میں

حملہ زن ہیں قدیر اندھیارے
حرفِ روشن کی ڈھال رکھوں میں
قدیر احمد قدیر
کوپل
09980208578
........
اُردو میں فصاحت ہے، بلاغت ہے بلا کی
اِس شیریں زباں سے نہ مگر ہم نے وفا کی

زم زم سے بھی دھویا مگر آئی نہیں پاکی
اُس جبّہ و دستار میں کیچڑ تھی بَلا کی

یہ آج میرے پاس ہے تو کل ہے تیرے پاس
اُمید نہ رکھ دولتِ دنیا سے وفا کی

کی ہمت پرواز تو پَر ہوگئے پیدا
جرات تو میری دیکھےے تسخیر خلا کی

تعلیم کے میدان میں اُف رہ گئے پیچھے
ہم پہلی وحی بھول گئے غارِ حرا کی

اک روز ستم گر کو سزا مل کے رہے گی
آواز نہیں ہوتی ہے لاٹھی میں خدا کی

اغیار نے شبنم مجھے سینے سے لگایا
احباب نے لیکن میرے مرنے کی دعا کی
حنیف شاہ شبنم
........
اپنے ہونے کا یوں احساس دلایا کیجےے
شہر میں روز کوئی جشن منایا کیجےے

جن سے اندیشہ ہو احساس کی رسوائی کا
ایسی باتوں کو نہ تحریر میں لایا کیجےے

یہ ہے اخلاص و محبت کی متاع نایاب
دِل کے ناسور پہ مرہم نہ لگایا کیجےے

میں تکلّف کا ہمیشہ سے مخالف ہوں فہیم
چاہے جس نام سے بھی مجھ کو بلایا کیجےے
منظور فہیم
کاروار


جہان ادب
کاروار میں ادارئہ ادب اسلامی ہند کے زیر اہتمام
 پہلی سالانہ ادبی کانفرنس
          ریاست کرناٹک کے ضلع اترکنڑا میں کاروار ” کرناٹکا کشمیر “ کے نام سے مشہور و معروف ہے۔ سمندری ساحل پر بسا یہ خوبصورت سرسبز و شاداب شہر اپنے قدرتی وسائل کے لئے بھی جانا جاتاہے۔ ایسے حسین شہر میں ادارہ ادب اسلامی ہند، کاروار شاخ کے زیر اہتمام بروز جمعہ 26ستمبر 2014ءکو یونیٹی ہال میں سالانہ ضلعی ادبی کانفرنس کا بڑے اہتمام اور نظم و ضبط کے ساتھ انعقاد کیاگیا۔ کانفرنس کو دونشستوںمیں تقسیم کیا گیا تھا۔ دوپہر تین بجے سے شام 6بجے تک ضلع کے ادبی مسائل پر ایک مذاکرہ ہوا اور شام 7بجے آل کرناٹکا مشاعرے کا پُر وقار اور کامیاب اہتمام ہوا۔
          کانفرنس کا افتتاح بعدنماز جمعہ رحیم خان یونیٹی ہائی اسکول انتظامیہ کے نائب صدر محترم سید محمد جعفر انعامدار کی صدارت میں یونیٹی ہائی اسکول کے ہال میں جناب محمد ذبیح اللہ کی تلاوت قرآن سے ہوا۔نعت خوانی کے بعد کانفرنس کے روح رواں ، انجمن ڈگری کالج بھٹکل ، ادارئہ ادب اسلامی کاروار کے سکریٹری ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی نے مہمانوں کا مختصر تعارف پیش کیا۔
           انجمن پی یوکالج بھٹکل کے اردو لکچرر رووف احمد سونور نے ”کاروار ضلع میں اردو زبان و ادب کی موجودہ صورت حال “ پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ جس میں انہوں نے ضلع بھر میں اردو زبان کے فروغ کے لئے متحرک مختلف اداروں اور انفرادی سطح پر ہورہے کاموں کا جائزہ لیتے ہوئے کہاکہ ضلع کے دیگر تعلقہ جات میں لسانی سطح پر کام بہت کم ہے اور اردو کی زبوں حالی صاف نظر آتی ہے، اس کے برخلاف بھٹکل اردو کا گڑھ ہے یہاں کئی ایک ادارے اردو کے فروغ کے لئے متحرک و سرگرم ہیں ۔انہوں نے کہاکہ اردو کو صرف روزگار سے جوڑ کر فروغ کی تمنا کرنے کے بجائے اس کو اپنے ایمانی اور تہذیبی طورپر اپنائیں گے توکچھ کام ہوسکتاہے۔ ہمیں عملی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ دانشورانہ و مفکرانہ رائے مشوروں کی۔ اس کے بعد موصوف نے ادباءشعراءکا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ ڈانڈیلی میں شکیل مظہری ، کاروار میں منظور فہیم کے علاوہ کہیں بھی کوئی نظر نہیں آتا ، جب کہ بھٹکل میں درجن بھر ادباءو شعراءاپنے ادبی تخلیقی کاموں میں مصروف عمل ہیں۔ اس کے بعد مسلم متحدہ محاذ کاروار کے جنرل سکریٹری جناب شیخ علی محمد صالح نے کاروار تعلقہ میں اردو کے حالات پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ 1953ءسے کاروار میں فارسی اور اردو کی تعلیم سرکاری سطح پر اور گھر گھر میں ہوتی تھی، بعد کے دنوں میں اردو کا زوال ہوا ، یہاں سے کئی اساتذہ تو بنے لیکن کسی ادبی فن کار کا پتہ نہیں چلنا افسوس کی بات ہے۔ اس کانفرنس کے ذریعے امید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ دنوں میں اردوادب کی فصل بہار آسکتی ہے۔ اردو ویلفئیر ٹرسٹ کاروار کے نائب صدر جناب عبدالصادق اور انکولہ کے جناب عبدالرزاق پیرزادے نے اردو زبان کے لئے درپیش مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے کئی ایک مشوروں سے بھی نوازا۔
          مذاکرے میں انجمن ڈگری کالج بھٹکل کے موظف پروفیسر ، صدر شعبہ سیاسیات عبدالقیوم خان نے افسانہ ” ویرانہ کا ماہر “پیش کیااور ادارئہ اداب اسلامی کرناٹکا کے نائب صدر جناب فاروق نشتر نے موجودہ دور میں انسانی زندگی کے لئے ناسور بنی بدعنوانی پرتحریرکردہ انشائیہ پیش کیا ۔ جس سے سامعین کافی محظوظ ہوئے۔ آخر میں محترم سید محمد جعفر انعامدار صاحب نے اپنے صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ عام طورپر انسان اپنے ملک، سماج اورزبان و ادب کے لئے کام کرتاہے لیکن ہماری بدنصیبی ہے کہ اس کی زندگی میں اس کی ستائش نہیں کی جاتی بلکہ اس کے مرنے کے بعد اس کے کافی گن گائے جاتے ہیں، اس کے تحت اہل بھٹکل نے اردو زبان اور اردو ادب کے لئے جتنی کاوشیں کی ہیں اس کی صدق دل سے ستائش کرتاہوں۔ جذبہ کے تحت اس کے مذہب، زبان ، تہذیب اور شخصیت کا تحفظ ہوتاہے۔ لیکن ملک کی تاریخی زبان اردو کے لئے کوئی جدوجہد کے لئے تیار نہیں ہے، جب کہ ہمارے پاس وسائل دستیاب ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا اردو آج صرف غریبوں کے لئے ہی باقی رہے گی ؟ اردو زبان کو کوئی ختم نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ زبان آبِ حیات پی کر آئی ہے۔ اردو کی غزل ، اردو زبان کو ہمیشہ زندہ رکھے گی۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ جو کچھ ہمارے پا س اردو کا سرمایہ ہے اس کو پوری طرح نئی نسل میں منتقل کریں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اردو زبان و ادب کے فروغ کی راہ میںحائل مشکلات اور ا س کے حل کی طرف رہنمائی کی۔ ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی نے نظامت کے فرائض انجام دئیے۔ جناب محمد مزمل، سائنس ٹیچر یونیٹی ہائی اسکول کاروار نے شکریہ اداکیا۔
          بعدنماز مغرب اسی ہال میں کرناٹک کے اسلامی ادب کے نمائندہ شاعر مظہر محی الدین مظہر کی صدارت میں ریاستی سطح کے مشاعرہ کا انعقاد ہوا۔ محمد ذبیح اللہ نے قرآن کی تلاوت کی توملک کے اسلامی ادب کے مایہ ناز نقاد، سرکاری ڈگری کالج کاروار کے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی نے مختصرو موثر خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے مختلف نظریات کا جائزہ لیا اور بتایا کہ تعمیرپسند ادبی ماحول ہی بہترین شاعری کوجنم دیتاہے۔اس کانفرنس کے انعقاد کی شادمانی کے دو اسباب ہیں۔ ایک تو یہ سرسبز و شاداب باغات کے شہر کاروار میں انعقا د ہورہاہے۔دوسرے صوفی و سنتوں ، بزرگان دین کا یہ شہر ہے۔یہ محض ادبی تفریح نہیں،بلکہ بلندمقصد کے لئے منعقد کیا گیا ہے۔شعر و ادب موجودہ ناخوشگوار حالات کو صحیح سمت سفر دینا ہی پیش نظر ہے۔مشاعرہ تہذیبی وثقافتی ادارہ ہے۔ آج بھی مشاعرے عوام تک رسائی کا اہم وسیلہ ہیں۔ مشاعرہ کی مقبولیت کے ساتھ مشاعرے میں تہذیب کے منافی باتیں ہورہی ہیں، مشاعرے کے معیارپر حرف آرہاہے۔ سستی شہر ت اس کی ایک اہم وجہ ہے۔ غزل نہایت خوب صورت صنف سخن ہے۔ ا س کی مقبولیت کا گراف کبھی نیچے نہیں آیا ہے۔ غزل اردو زبان کا تاج محل ہے۔
          اس کے بعد باقاعدہ مشاعرے میں شریک ہوئے ریاست بھر کے شعراءکرام نے اپنے کلا م کے ذریعہ سامعین کو محظوظ کیا۔مشاعرے میں ادارئہ ادب اسلامی ہند کرناٹکا کے صدر جناب قدیر احمد قدیر ،کوپل۔ جناب مشتاق علی گوہر ، بلگام۔ جناب اشرف برماور اشرف، بھٹکل۔ جناب حنیف شاہ شبنم، بھٹکل۔ جناب منظور فہیم کاروار۔ عبدالرزاق پیرزادے انکولہ۔ اکبر خاں مڈگاوں۔ ارشد صدیقی بنگلور۔یونیٹی ہائی اسکول کے سائنس ٹیچر محمد مزمل کے علاوہ صدر مشاعرہ مظہر محی الدین مظہرنے اپنے بہترین کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ کرناٹک کے مشہور و معروف شاعر، ادارئہ ادب اسلامی ہند ریاست کرناٹکا کے سابق صدر ڈاکٹر محمد حنیف شباب کی نظامت نے پورے مشاعرے کو چار چاند لگادئیے ۔ مذاکرے اور مشاعرے میں سامعین کے علاوہ شہر کے معزز حضرات ، مختلف میدانوں کے ماہرین بھی موجود تھے۔ مذاکرے اور مشاعرے کے کامیا ب انعقاد پر خوشی ومسرت کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی نے ادارئہ ادب اسلامی ہند کاروار کے صدر سید خلیل اللہ کا شکریہ اداکرتے ہوئے بتایا کہ ان کی اور دیگر ساتھیوں کی زبردست کوششوں سے یہ کامیابی ملی ہے۔ یہ تو آغاز ہے امید کہ اس سے نئی فضا بنے گی اور کاروار ضلع میں ادب اسلامی کو فروغ ملے گا۔ مندوبین اور سامعین میں سے کئی ایک نے جہاں مذاکرے او رمشاعرے کے اہتمام پر خوشی کا اظہار کیا تو وہیں سید خلیل اللہ صاحب کی کاوشوں کی بھی ستائش کی۔ مشاعرے میں پیش کئے گئے کلام کی جھلکیاں یہا ں پیش کی جارہی ہیں۔
توحید کی انساں پر تفضیل ضروری تھی
ایک نورمجسم کی تشکیل ضروری تھی
مشتاق علی گوہر، بیلگام
زخم جگر میں لاکھ چھپاﺅں، چھن چھن کر ظاہر ہوتے ہیں
دل پر رکھ کر ہاتھ جلانے شمع محفل آیا ہوں
ائے حسن نظر کیا تجھ کو خبرکیا کیا ہے تخیل آرائی
سینے میں مچلتے عزم نہاں تسخیر فلک میں لایا ہوں
اکبر خاں صاحب ۔ گوا
کیا یوں ہی سرابوں کے تعاقب میں رہوگے
کیوں تم بھی بنانے لگے تصویر ہوا کی
حنیف شاہ شبنم۔ بھٹکل
یہ خدا سے مکر و فریب ہے کوئی جرم اس سے بڑا نہیں
جئےں اس کی آب و ہوا میں ہم، کریں بندگی کسی اور کی
سید اشرف برماور۔ بھٹکل۔
نہ جانے آج کس کس کا خدا ہے
وہ پتھر کل جو رستے میں پڑا تھا
منظورفہیم ۔ کا روار
سچ کو سولی پہ چڑھتے دیکھ چکے
آﺅ جھوٹوں کا راج دیکھیں گے
قدیر احمد قدیر۔ کوپل
نیند دستک بھی دے تو کیسے دے
گھرمیں بیٹی جوان ہے بھائی
مشتاق گوہر۔ بیلگام
یقین رکھ کہ زمیں پر ہی لوٹ آنا ہے
اگر چہ وقت نے تجھکو اچھال رکھا ہے
عروج تیری تمنا تھی ہوگئی پوری
اب اس کے بعد تو پیارے زوال رکھا ہے
ڈاکٹر محمد حنیف شباب۔ بھٹکل
آنکھوں پہ کیا بٹھایا، زمیں کا نہیں رہا
نظروں سے گرگیا توکہیں کا نہیں رہا
مظہر محی الدین ۔ہبلی
          ان کے علاوہ محمد مزمل کاروار۔ سید عبدالرزاق پیرزادے، انکولہ اور ارشد صدیقی صاحب نے بھی اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔
****