Sunday 1 March 2015

ماہنامہ پیش رفت ـــ  مارچ 2015

پیش نامه
حالی و شبلی کی ادبی روایت

     مولانا خواجہ الطاف حسین حالی (م، 31 دسمبر 1914ء) اور علامہ شبلی نعمانی (م18 نومبر 1914ء) ، وہ اساطین ادب ہیں، جن کو ہم سے جدا ہوئے ایک صدی بیت چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دو ماہ قبل پورے ملک میں بڑے پیمانے پر حالی و شبلی تقریبات منائی گئیں۔ خصوصاً دارالمصنفین اعظم گڑھ، غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی اور اردو اکادمی دہلی کے سہ روزہ عالمی سمیناروں کے علاوہ ملک کی مختلف یونیورسٹیوں، کالجوں اور ادبی اداروں میں قومی اور یاستی سطح کے سمیناروں کا انعقاد عمل میں آیا۔ اردو کے تقریباً تمام ادبی رسائل میں حالی و شبلی کے موضوع پر ادارےے لکھے گئے اور خصوصی شمارے شائع ہوئے۔ حالی و شبلی کے فکر و فن اور ان کی عصری معنویت پر مطالعہ کی یہ تمام کوششیں یقینا نہایت مستحسن اور قابل مبارک باد ہیں۔
          حالی و شبلی کا عہد انیسویں صدی کا نصف آخر ہے۔ اسی دور میں تاریخی، سماجی اور ذہنی تغیرات کا اثر سب سے زیادہ نمایاں ہوا، جس نے تاریخ ادب کے دھارے کا رخ موڑ دیا۔ نثر نگاری کا عروج اور نثری اصناف کا ارتقا اس دور کا ایک اہم واقعہ ہے۔ حالی و شبلی نے شعر و سخن، سوانح نگاری اور تنقید نگاری میں ایک نئے دور کا آغاز کیا ، جو حقیقتاً مشرقی شعریات کا بہترین نمونہ ہے۔ مگر اسی کے ساتھ حیرت ہوتی ہے جب دیکھتاہوں کہ حالی جیسا حیات سعدی کا مصنف اور میر و مصحفی کے توانا حصہ کلام سے آگاہ شخص قوم کو ” پیروی مغرب“ کا مشورہ کیوں کر دے رہا ہے۔ لیکن بہرحال حالی کی نیک نیتی پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ دراصل سرسید کے زیر اثر وہ سمجھتے تھے کہ اس سے علم و ادب اور ملک و ملت کا بھلا ہوگا۔ حالی کا وہ مفہوم ہرگز نہیں تھا جوان کے پیرووں نے غلطی سے سمجھ لیا ہے۔حالی، شبلی سے کم مشرقی نہیں تھے۔ مسدس مد وزجر اسلام کے علاوہ جو سرسید کی تحریک پر تخلیقی ہوئی، مقدمہ شعر و شاعری میں انھوں نے مغربی تصور ادب کا تعارف ایک اخلاقی نقطہ نظر سے کرایا ہے۔ جب کہ شبلی الفاروق سے سیرة النبی تک زندگی کا سب سے بڑا اخلاقی نصب العین مستقل طور سے پیش کررہے تھے اور پھر اس سے بہت پہلے سرسید کی معرکہ آرا تصنیف ” خطبات احمدیہ“ جو سرسید کو جدید نثر کا پیشرو بناتی ہے، وہ مغرب میں اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کذب و افترا اور گمراہی کے ازالہ اور مغربی مفکرین و مستشرقین کو مسکت جواب دینے کے لےے تصنیف کی گئی تھی۔ اس طرح اپنے اپنے انداز میں مشرق کا تحفظ سرسید، حالی اور شبلی تینوں کا مطمح نظر تھا۔
          حالی نے شاعری میں کئی جہتیں تلاش کی تھیں، وہ ایک غزل گو بھی تھے، جدید نظم کے بھی بانی ہیں اور مرثیہ بھی خاص انداز کا لکھا ہے۔ جدید تنقید کی پیشوائی بھی انھی کے نام سے ہے اور سوانح نگاری کے بھی اولیں معمار سمجھے جاتے ہیں۔ گویا مختلف قسم کی اولیات ان کے حصے میں آئی ہیں۔ حالی کی نثر نگاری کا کینوس خاصا وسیع ہے۔ انھوں نے مولود شریف، تاریخ محمدی، شواہد الہام، مجالس النسائ، تذکرہ رحمانیہ اور مناظرے پر مبنی مقالے اور کتابیں بھی لکھی ہیں۔ ظاہر ہے ان سبھوں میں ایک اسلامی تیور موجود ہے۔ حالی کے قلم سے نکلی ہوئی ان کی تین سوانح عمریاں یادگار غالب، حیات سعدی اور حیات جاوید اپنی ظاہری و معنوی خوبیوں کے لحاظ سے بے نظیر ہیں۔ معاصرین حالی میں کئی لوگوں نے سوانح عمریاں لکھی ہیں مگر ان میں صرف شبلی ہی قابل ذکر سوانح نگار ہیں۔ گرچہ بعض حیثیتوں سے حالی کی سوانح عمری کو شبلی پر فوقیت دی جاتی ہے۔ اردو کی پہلی تنقیدی کتاب مقدمہ شعر و شاعری، جو در اصل حالی کے دیوان کا مقدمہ ہے۔ جس میں پہلی بار حالی نے ادب کامقصد سے کیا تعلق ہے اور زندگی سے اس کا کیا رشتہ ہے جیسے امور پر تفصیلی بحث کی ہے۔ حالی نے ہر جگہ اخلاقی پہلو پر زور دیا ہے۔ حالی کے یہاں افراط و تفریط نہیں ہے،ایک شائستگی اور توازن ہے۔ وہ تمام انسانی عوامل کو اخلاقی اور مشرقی شعریات کے پس منظر میںدیکھتے ہیں۔
          علامہ شبلی نعمانی کی تصنیفات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان میں فلسفہ، ادب ، تاریخ، تنقید، سوانح، علم الکلام، مکاتیب وغیرہ سبھی موضوع پائے جاتے ہیں، مگر جن تصنیفات سے شبلی کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا وہ المامون، الفاروق، الغزالی، مولانا روم، علم الکلام، شعر العجم، موازنہ انیس و دبیر اور سیرة النبی وغیرہ ہیں۔ انھوں نے تاریخی نقطہنظر سے مذہبی خیالات اور فلسفیانہ مسائل پر جو کچھ لکھا ہے اس سے اختلاف بھی ظاہر کیا گیا ہے مگر ادبی تخلیق کے اعتبار سے ان کی بڑی اہمیت ہے۔ پھر یہ کہ اس سے پہلے کسی نے مشرقی و مغربی علما کے خیالات اس طرح جمع نہیں کےے تھے اور نہ ہی ان کو اسلامی فلسفے کے نقطہنظر سے دیکھا تھا۔ شبلی اردو ادب میں اسلامی نشاة ثانیہ کے داعی اول ہیں۔
          حالی و شبلی کی یہ ادبی روایت ان کے معاصر نثر نگاروں میں محمد حسین آزاد، مولوی چراغ علی، منشی ذکاءاللہ، امداد امام اثر وغیرہ کے یہاں بھی پوری طرح موجود ہے۔ اسی طرح حالی وشبلی کے معاصر فکشن نگاروں میں ڈپٹی نذیر احمد ،رتن ناتھ سرشار، مرزا ہادی حسن رسوا، مولانا عبدالحلیم شرر اور مولانا راشد الخیری وغیرہ نے اپنے فن کو اصلاحی، تعمیری اور اخلاقی و اسلامی مقاصد کے لےے ہی استعمال کیا ہے اور پھر یہ روایت آگے بڑھی تو عصر حاضر میں انتظار حسین اور قرة العین حیدر وغیرہ کے یہاں تاریخ اور اسلامی فلسفہ کے حوالہ سے ناول کا یہ فن کہاں سے کہاںپہنچ گیا۔
          مختصر یہ کہ حالی و شبلی کے عہد میں ہونے والی تنقید نگاری ہو یا سوانح نگاری اور ناول نگاری، یہ سب اصلاحی و تعمیری مقاصدکے تحت اخلاقی اقدار اور روحانی افکار کے فروغ کے لےے کی جارہی تھیں۔ آج اکیسویں صدی کے شعر و ادب میں جو تعمیری رجحان پایا جاتا ہے وہ در اصل اسی ادبی روایت کا تسلسل ہے جو حالی و شبلی سے شروع ہوئی تھی۔ یہ عجیب شخصیات تھیں جو اپنے حیات بخش افکار و خیالات کے ذریعہ اکیسویں صدی میں بھی خیر و فلاح اور امن واتحاد کے لےے کام کرنے والے افراداور اداروں کے لےے سرچشمہتوانائی بنی ہوئی ہیں۔ جدید تمدن کی چمک دمک سے مرعوبیت کو ختم کرنے اور اپنی مشرقی اقدار و روایات پر اعتماد بحال کرانے کی کوششیں حالی و شبلی کے بعد علامہ اقبال، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی، دارالمصنفین اور دبستان شبلی کے جانشیں مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی وغیرہ نے اپنے اپنے اسلوب وانداز سے جاری رکھیں اور صاف لفظوں میں ملت کے نوجوانوں کو یہ پیغام سنایا :
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
        ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی
***

منفرد لب و لہجہ کے شہرہ آفاق شاعر
ڈاکٹر کلیم عاجز کا انتقال
     طباعت کے ليے رسالہ پریس میں جانے کو تیار تھا کہ یہ اندوہناک خبر ملی کہ کلاسیکی لب و لہجہ کے عالمی شہرت یافتہ شاعر اور معروف، معتبر اور ہر دل عزیز استاذ ڈاکٹر کلیم عاجز مورخہ 15فروری 2015ءکی صبح صوبہ جھارکھنڈ کے شہر ہزاری باغ میں اس دارِ فانی سے عالم جاودانی کو کوچ کر گئے۔ ان کی عمر تقریباً ۸۸ سال تھی۔ اللہ تعالیٰ انھیں غریق رحمت کرے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے اور ان کے پس ماندگان کو صبرجمیل عطا فرمائے۔
          ہمہ گیر و ہمہ جہت شخصیت کے حامل ڈاکٹر کلیم عاجز کے سانحہ ارتحال سے ایک طرف دبستان عظیم آباد کے ساتھ ساتھ پوری دنیائے ادب سوگوار و غم زدہ ہے تو دوسری طرف علمی و دینی حلقے پر بھی غم کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ کلیم عاجز کا امارت شرعیہ پٹنہ، بہار کے سابق و موجودہ امیر شریعت اور دارالعلوم ندوة العلماءکے سابق و موجودہ ذمہ داران سے قلبی و روحانی تعلق تھا۔ وہ تبلیغی جماعت بہار کے امیر تھے۔ علمی و دعوتی اور دینی و ملی خدمات کے حوالے سے انھیں اندورنِ ملک اور بیرون ملک میں بے پناہ مقبولیت حاصل تھی۔ اس کے باوجود ان کی ذاتی و عوامی زندگی نہایت سادہ اور عجز و انکسار کا اعلیٰ اور قابل تقلید نمونہ تھی۔
          بہار شریف کے قریب تلہاڑا ان کا وطن مالوف تھا۔ بہار شریف میں ابتدائی تعلیم کے بعد پٹنہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور اسی یونیورسٹی سے ایماے (اردو) میں اول مقام حاصل کرنے کے ساتھ وہ گولڈمڈل سے نوازے گئے۔ ۵۶۹۱ءمیں اورینٹل کالج پٹنہ میں لکچرر کے طور پر بحال ہوئے اور ۴۸۹۱ءمیں پٹنہ یونیورسٹی کے پٹنہ کالج ،شعبہ اردو سے بحیثیت ریڈر سبک دوش ہوئے۔ وہ حکومت بہار کے محکمہ راج بھاشا کی اردو مشاورتی کمیٹی کے تا حیات صدر کے منصب جلیلہ پر فائز تھے۔ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو ان کی معلمانہ شفقت و محبت اوردل پذیر طریقہتعلیم کا آج بھی دم بھرتی ہے اور جو آج ان کی وفات سے گہرے صدمے سے دوچار ہے۔
          ادب کی دنیا میں ان کی حیثیت دبستان عظیم آباد کے آخری باب کی تھی۔ میر کے رنگ کی پاسداری کرنے والے گنے چنے شعرا میں ان کا مقام منفرد و ممتاز تھا۔ ۶۴۹۱ءکے فرقہ وارانہ فساد نے انھیں نہ صرف بہت متاثر کیا تھا بلکہ ان کے حساس دل پر ایک گہراگھاوچھوڑ گیا تھا۔اس فساد میں ان کی والدہ اور بہن کے علاوہ دیگر کئی عزیز و اقارب شہید ہوگئے تھے۔کلیم عاجزنے اپنے واردات قلبی، سماج کے تلخ تجربات اور ذاتی طور پر لگنے والے چرکے کو اشعار کی صورت میں پیش کرنے کی کامیاب اور موثر کوشش کی۔ گویا انھوں نے اپنا خونِ جگر نچوڑ کر رکھ دیا۔ ان کی شاعری میں درد وغم کی دبی دبی لہریں اور ٹیس اورکسک کا سبک رو بہاو ان کے اندرونی کرب کا فن کارانہ اور مو ثر اظہار ہے۔وہ ایک وہبی اور اکتشافی شاعر تھے ۔ ان کی شاعری زندہ و تابندہ روایتوں اور اس کی اعلیٰ تہذیبی قدروں کی امین ہے۔ کلیم عاجز کا ادبی سرمایہ تعمیری و اخلاقی قدروں کا آئینہ دار ہے۔ شاعری میں ان کا اپنا ایک مخصوص رنگ و آہنگ تھااور اپنی منفرد شناخت تھی، جس کے معترف اور رسیا عام اہل ذوق و ادب ہی نہیں بلکہ فراق گورکھپوری جیسے مشہور شاعر بھی ان کے قدر دانوں میں شامل تھے۔
          ان کے پہلے مجموعہ  کلام” وہ جو شاعری کاسبب ہوا“ کا اجراء۶۷۹۱ءمیں راشٹرپتی بھون میں ہوا۔ کلیم عاجز کو ان کی ادبی وعلمی خدمات کے لےے ۹۸۹۱ءمیںحکومت ہند نے باوقار ایوارڈ” پدم شری“ سے نوازا تھا۔ اس کے علاوہ اور بھی متعدد ایوارڈ اور اعزازات سے انھیں سرفراز کیا گیا۔ ان میں امتیاز میرایوارڈلکھنومولانا مظہر الحق ایوارڈ حکومت بہار، اور بہار اردو اکیڈمی ایوارڈ قابل ذکر ہیں۔انھیں امریکہ کے اوکلا ہوما ریاست کی اعزازی شہریت بھی تفویض کی گئی تھی۔ کلیم عاجز ایک عرصے تک دنیا بھر میں منعقد کےے جانے والے مشاعروں میں شرکت کرتے رہے۔ البتہ گزشتہ دس پندرہ برس سے انھوںنے مشاعروں میں شرکت کرنا ترک کردیا تھا۔
          ڈاکٹر کلیم عاجز اپنے پےچھے کوئی درجن بھرشعری و نثری تصانیف کا گراں قدر سرمایہ چھوڑ گئے ہیں، جس سے امید ہے کہ ایک دنیا عرصہ  دراز تک استفادہ کرتی رہے گی۔ افسوس کہ ان کی وفات سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔
حسنین سائر
***

حمــــد
ربِّ کریم ہے تو غفور الرحیم ہے
لا ریب، لا شریک ہے تو ہی عظیم ہے

حمد و ثنا کروں میں تری کس طرح بیاں
قاصر قلم ہے میرا تو گونگی میری زباں

وصف و جمال اور ترے فیضِ عام تک
پہنچے گا کیا خیال بھی تیرے مقام تک

حکمت ہے تیری گردشِ لیل و نہار میں
شوکت ہے تیری دشت، چمن ، کوہسار میں

کویل کی کوک اور دھنک میں نہاں ہے تو
رعنائی میں گلوں کی تبسم فشاں ہے تو

ندیوں کے شور، جھرنوں کے گیتوں سے تو عیاں
شمس و قمر ہیں تیری ضیاءسے ہی ضوفشاں

اس ساری کائنات کا حاجت روا ہے تو
ہر موجِ زندگانی پہ جلوہ نما ہے تو

ہر چیز کائنات کی تیری غلام ہے
جاری ترے ہی حکم سے ہر ایک نظام ہے

تو نے بشر کو یہ بھی شرف کردیا عطا
اس کو جہاں میں اپنا خلیفہ بنا دیا

مولیٰ ہمارے حال پہ لطفِ عظیم ہو
ہم رخ کریں جدھر، وہ رہِ مستقیم ہو

حمد و ثنا میں تیری بسر ہو یہ زندگی
دل میں وفا کے ہو تری یادوں کی روشنی
محب الرحمن وفا
امراوتی( مہاراشٹر)
***
نــــــعت
اُسی فضا اُسی ماحول سے بندھے ہوئے ہیں
کہ اپنے دین کی عظمت سے ہم جُڑے ہوئے ہیں

نظر میں کیا ہوا محفوظ روضہ اقدس
ہمارے ذہن کے دروازے سب کھلے ہوئے ہیں

ہے میری فکر، جو تخلیقِ نعت میں مصروف
فرشتے سب ادب آداب سے کھڑے ہوئے ہیں

وہ جس فضا میں اذان بلال گونجتی تھی
نماز ہم بھی وہاں پر ادا کےے ہوئے ہیں

وہ جن میں گزری ہے کچھ دن ہی زندگی اپنی
وہ سبز سائے دل و ذہن میں بسے ہوئے ہیں

نظر سے لپٹے ہوئے ہیں وہاں کے سب منظر
وہاں کے جلوہ مری روح میں گھلے ہوئے ہیں

ابھی تلک وہیں موجود ہے مرا احساس
ابھی تلک مرے ہوش و حواس اڑے ہوئے ہیں

ہو اُن کی ذات کی تمثیل یہ نہیں ممکن
نگاہِ ربِّ تعالیٰ کے وہ چُنے ہوئے ہیں

خدا کے بعد ہیں بے شک وہی عظیم ترین
وہ جس رسول کی اُمت سے ہم جُڑے ہوئے ہیں

وہی تو محسنِ انسانیت ہیں اے شہباز
سنہری جالی کی جو اوٹ میں چھُپے ہوئے ہیں
 شہباز ندیم ضیائی
لال کنواں۔دہلی - 9250659716
***

دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
مختصر خاکے
اساتذ ه کرام شعبہ اردو، رانچی یونی ورسٹی

ڈاکٹر حسن رضا

            مجھے کتاب ،ذہین طالبِ علم، قلم و کاغذ میں مصروف حیا و وفاسے لبریز جھکی جھکی آنکھیں، عنابی رنگ کا نیم باز گلاب؛ بہت اچھے لگتے ہیں۔اس طبیعت و مزاج کی وجہ سے میں نے سوچ رکھا تھا کہ دو ہی پیشے میرے لیے موزوں اور مناسب ہوں گے ۔تعلیم و تدریس یا کسی بڑی لائبریری سے وابستگی۔ اس لیے کہ انھی میں یہ چاروں چیزیں بیک وقت نظارہ دید بن سکتی ہیں۔ جمالیاتی شعور کے دریچے سے اگر جھانکیے تو اندازہ ہوگا کہ یہ چار الگ الگ چیزیں تو ہیں، لیکن ایک ہی کردار کی چار اداﺅں کا تخیلی اظہار بھی ہے۔ اور وہ ہے آئیڈیل طالبِ علم،جو ذہین ہے، حصولِ علم کے لیے مخلص اور محنتی ہے۔ عنابی رنگ خونِ جگر کو پکانے کی علامت بن کربے پناہ اخلاص اور غیر معمولی محنت کا استعارہ بن جاتا ہے۔ حیا جوانی کا جمال اور بے داغ جوانی کی ضمانت ہے۔ رہی وفا تو وہ انسانیت کا اصل جوہر ہے اور آنکھ تو اس کے دو ہی مصرف ہیں، خشیتِ الہی میں آنسو کے گہر لٹانا یا علم کے سمندر سے حکمت کے موتی چننا۔ ہاں ایک تیسرا کام بھی ہو سکتاہے، دل کی آگ کو جلاتے اور بجھاتے رہنا۔
            بہر حال ۵۷۹۱ءکی ایمرجنسی سے پہلے بی ۔ ایس ۔سی اور پھر بی۔اے کر چکا تھا۔ ایمرجنسی میں آدھی ادھوری عربی پڑھی ،اس کے فوراً بعد تاریخ میں ایم۔اے ۔ کیا، اور۹۷۹۱ءمیں اردو ادب میں اےم ۔اے کیا ۔چوں کہ میں فرسٹ کلاس فرسٹ تھااور حالات بھی کچھ مہربان ہو گئے اس لیے فوراً ۰۸۹۱ءمیںہی مجھے رانچی یونی ورسٹی کے ایک کالج میں شعبہ اردو سے وابستہ ہونے کا موقع ملا تو میںنے بلا جھجھک وہاں جوائن کر لیا۔ افسوس کچھ دنوں کے بعد اندازہ ہوا کہ اس کالج میں سب چیزیں تھیں لیکن وہی چار چیزیں نہیں تھیں۔ کالج کے بیش تراساتذہ پڑھنے کے ذوق سے عاری، نن ٹیچنگ اسٹاف معلوم ہوتے تھے۔ زیادہ تر لوگوں میں پڑھنے کا شوق کم اورلیڈری کا شوق زیادہ تھا۔کچھ میں پیسے اور کچھ میں سستی ناموری کی ہوس تھی۔ کالج کے پچیس برس بس اسی طرح گزر گئے کہ :
وہ جو زخم دل کو پکائے ہم، لےے پھر رہے ہیں چھپائے ہم
کوئی ناشناس مزاج غم کہیں ہاتھ اس کو لگا نہ دے
            وہ تو تحریکی سرگرمیوں نے جوانی کو ضایع ہونے سے اور حیاتِ بے مصرف کے ماتم سے بچالیا ۔
            یونی ورسٹی میں ٹرانسفر ہم جیسے لوگوں کے لیے آسان کام نہیں۔ اگرچہ شعبہ اردو اور یونی ورسٹی میں رندو پارسا دونوں طرح کے اساتذہ کر ام اور وائس چانسلر صاحبان آتے جاتے رہے۔البتہ آخر کے چار سال ایک ایمان دار وائس چانسلر نے اپنے جذبہ انصاف کے تحت کالج سے  یونی ورسٹی شعبہ اردو میں پہنچا دیا، لیکن یہ چار برس بھی اس طرح گزرے :
آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا
            بہر حال شعبہ اردو، رانچی یونی ورسٹی میں ہم لوگ پانچ اساتذہ تھے اوررانچی کالج میںصرف دو ہی اساتذہ تھے۔لیکن پہلے والی روایت نہیں رہی۔ یعنی اب رانچی کالج کے اساتذہ اردو پوسٹ گریجویشن میں کلاس نہیں لیتے تھے۔ پی جی شعبہ اردو مےں سوزوسازکی جو فضا تھی، وہ ڈاکٹر طٰہٰ شميم صاحب کے دم سے تھی۔ بصارت کی کمی نے ان کی بصےرت میں اوراضافہ کر دےا۔انھوں نے جبنے کا وہ ہنر سيکھ ليا ہے جس کا ذکر مير نے کيا ہے :
ميرے سليقے سے ميری نبھی محبت ميں
            ےہی ان کی کمزوری بھی ہے اور ےہی خوبی بھی، انھوں نے حقےقت کو رومان بنا لےا ہے ۔اس سے زندگی سبک اور سہل ہو جاتی ہے ۔وہ ہر امام کے پےچھے خشوع و خضوع کے ساتھ نمازپڑھنے کو تےار رہتے ہےں ۔وہ امام کو لقمہ دےنے کے بجائے بعد مےں نماز دہرالےنے ےا اکیلے میں سجدہ سہو کرنے مےں عافےت سمجھتے ہےں۔وہ نپی تلی زندگی گزارتے ہےں اور بات بھی جچی تلی کرتے ہےں۔چشمہ کبھی نہیں اُتارتے ۔ قد و قامت بھی اللہ نے بڑا نپا تلا دیاہے۔عمر نہ گھٹتی ہے، نہ بڑھتی ہے۔ ان کی زندگی مےں کئی خانے ہيں اور ہر چيز کو اسی خانے مےں رکھتے ہيں،جہاں اس کی جگہ ہے ۔شعبے مےں پابندی سے سب سے پہلے وہی آتے ہےں۔ اس مےں پابندی ِوقت کے ساتھ ان کے مکان ر سال دار نگر(ڈورنڈا) سے شعبے تک کے سفر کی سہولت کا تجربہ بھی شامل ہے۔روزانہ شعبے ميں دو کپ چائے اور دو عدد سگريٹ بلا ناغہ پےتے تھے لیکن اس طرح جےسے گناہ ِصغےرہ کر رہے ہےں۔ شعبے کے سب سے کنارے والی کھڑکی کو وہ No Smoking Zone کی طرح استعمال کرتے تھے۔سُنا ہے اب انھوں نے اس گناہ سے توبہ کر لی ہے،معلوم نہیں اب کیا پیتے ہیں؟ شاید خونِ جگر ہی پیتے ہوں گے،اس لیے کہ شعبے کے احوال اب تو اور بھی:
نہ ہے مزہ جینے میں اور نہ مرنے میں
ہے مزہ تو بس خونِ جگر پینے میں
            اُن کی ےادداشت بہت اچھی ہے ۔ہر ماہ وقت پر تنخواہ کا بل بھرتے اور بھرواتے اور ’رےنےو اسٹامپ ‘ اخلاص سے بہ طور صدقہ احباب کو دےتے تھے ۔ چند برس قبل انھوں نے اپنے پی۔ اےچ۔ ڈی مقالے کو کتابی شکل مےں بہ عنوان ’جھار کھنڈ میں اردو افسانہ ‘ شایع کےا ہے ۔ کتاب کی طباعت مےں بھی اےک خوش سلیقگی جھلکتی ہے ۔تحقےقی مواد مےں بھی خلوص ہے۔جو کچھ پڑھا ہے اس پر اعتماد بھی ہے اور طلبا کو اسی اعتماد کے ساتھ پڑھاتے ہیں۔ایک زمانے میں شاعری بھی کرتے تھے۔
            اس سوزِساز کے ساتھ پےچ و تاب کی اپنی معنوےت ہے اور اس کا سہرا ڈاکٹر منظر حسےن صاحب کے سر تھا ۔ ” کُلَّ یَومٍ ھُوَ فِی شَان  “کی کےفےت شعبے مےں ان ہی کی مرہونِ منّت تھی ۔ٹےنشن اور اٹےنشن ہر دو حالت مےں ان کا جھپٹنا،پلٹنا ،پلٹ کر جھپٹنا ماحول کو گرم رکھنے کا اچھا بہانہ تھا۔یہ حالت اس وقت اور بھی دلچسپ ہو جاتی جب ”اوچک نرکچھن“ کی خبر آتی۔ منظر صاحب کبھی گیٹ کی طرف جاتے ،کبھی شعبے کی طرف آتے۔کبھی ٹوپی سیدھی کر کے اُٹھتے بیٹھتے رہتے ۔ اس معاملے میں ایس ۔ایس ۔میموریل کالج میں ڈاکٹر ببن چوبے بہت ماہر تھے۔کلاس نہیں لیتے تھے البتہ جب کبھی ایسی نوبت آتی ،سب سے پہلے چوک (کھلی) اور ڈسٹر اپنے ہاتھ میں سنبھال لیتے۔ چناں چہ جب بھی کوئی معائنہ کے لیے آیا ،ان کے دونوں ہاتھوں کو سفید چاک سے رنگا اور ڈسٹر کو پکڑے ہوئے پایا۔منظر صاحب میں برہمن والی تیزی نہیں ،اقلیتی فرقے والی گھبراہٹ ہوتی تھی۔ مجھے آج تک دانش گاہوں میں وائس چانسلر یا یونی ورسٹی کے دوسرے افسروں کی ناگہانی آمد معقول نہیں لگی۔ یہ رویہ آدابِ دانش گاہ کے خلاف ہے اور زوال کی علامت ہے کہ طلبا، اساتذہ اور یونی ورسٹی کا رشتہ ” اوچک نرکچھن“ کی زد میں رہے۔ ایسے موقعوں پر مجھے سکندر اور پورس کا وہ مکالمہ یاد آتاتھا جب سکندر نے پورس سے پوچھا۔’ تمھارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟‘ اس نے جواب دیا ” جیسا ایک راجا کو ایک راجا کے ساتھ کرنا چاہیے۔“ اسی لیے آئی۔ ایس وائس چانسلر کا میں کبھی قائل نہیںرہا۔ اس منصب پر نام ور اساتذہ ہی کی تقرری ہونی چاہیے۔ جن کی آمد سے شعبے میں ” سو بار جاﺅ ، ہزار بار آﺅ“ جیسی خوش گوار فضا قائم ہو۔ میرا تبادلہ پی۔جی ۔ میں ڈاکٹر انوار احمد خاں وائس چانسلر نے کیا تھا۔ بہت دنوں کے بعد ایک ذہین اور ایمان دار وائس چانسلر رانچی یونی ورسٹی کو ملا تھا۔ ان کو میں سائنس کالج، پٹنہ سے جانتاہوں۔ ہم لوگ ایک سال آگے پیچھے تھے۔ میں کیمسٹری آنرس میں تھا ،وہ فیزکس آنرس کے طالبِ علم تھے اور شروع سے محنتی بھی تھے۔میں نے سوچ رکھا تھا کہ اگر شعبے میں ان کی نا گہانی آمد ہوئی تو میں ان سے ضرور کہوں گا کہ یہ آپ کی شایانِ شان نہیں ہے۔ اگر کسی وجہ سے مجبوراً یہ کام کر رہے ہیں، تو اپنی ذہانت سے کوئی آبرو مندانہ پہلو نکال لیجیے۔ تاکہ نہ آپ شرم سار ہوں ، نہ اساتذہ۔
            بہر حال بات شعبہ اردو میں ڈاکٹر منظر حسین صاحب کی چل رہی تھی، صحیح پوچھیے تو وہ متضاد خوبیوں کے مالک ہیں۔وہ قصےدہ اور مرثےہ دونوں کے فن کو جانتے ہےں اور ا س لیے تشبےب، گرےز اور رجز ، بین سب سے کام ليتے ہيں۔ شانِ دلبری کی کچھ خاص ادائےں بھی ان کے ساتھ ہےں ۔اس لےے شعبے مےں نئے آنے جانے والوں سے ان کی قربت بہت جلدہوجاتی ہے ۔ دانائی کے حوالے سے اپنی نادانی کو جس بھولے پن کے ساتھ بےان کرتے ہےں۔اس سے ماحول مےں دلچسپی کی اےک فضا بنی رہتی ہے ۔اس سلسلے مےں اُن کے ساتھی کامرس کے استاد زبےری صاحب سرسیدی داڑھی کے ساتھ جب شرےکِ محفل ہو تے ہےں تو لطف دوبالا ہوجاتا تھا۔ جمشےدپور کے دورانِ قےام وہ اندھےر ے اجالے کے کئی واقعات و حادثات کے چشم دےد گواہ ہےں ۔ منظر صاحب کی ےہ بڑی خوبی ہے کہ وہ اپنے اوپر بھی ہنسنے کی صلاحےت رکھتے ہےں اور دوسروں کو اپنے اوپر ہنستادےکھ کربُرا نہےں مانتے۔وہ اپنی خوبےوں اور خامےوں کے اظہار مےں ےکساں مخلص ہےں ۔اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر بہت ساری صلاحےتیںرکھی ہےں، جو بر وقت اُجاگر ہوتی ہیں۔ اب تک ان کی کئی کتابےں منظرِ عام و خاص تک پہنچ چکی ہےں ۔ وہ قلم، کاغذ، دوات اور روشنائی سب کو آلہ تجارت سمجھتے ہےں اور ادب اور تجارت کے رشتے سے ڈاکٹر عبدالوہاب اشرفی کی طرح واقف ہےں ۔ انھوں نے اُنھی کی زیرِ نگرانی اپنا تحقیقی کام مکمل کیا ہے۔ وہ الفاظ کے دھنی اور دھن کے پکے ہےں ۔ وہ کام سے کام رکھنے کا اپنا سلےقہ رکھتے ہےں۔ ان کی چال ڈھال میں بھی ایک روا روی ،بھاگ دوڑ کا سا انداز جھلکتاہے۔گفتگو میں کبھی کبھی ایسا About turn لیتے ہیں کہ اچھا سے اچھا بلے باز ایل ۔بی ۔ڈبلو ہو جائے۔ کر کٹ کے کھلاڑی ہوتے توفاسٹ بولر ہوتے۔دوستوں کے اچھے دوست اور دشمنوں کے برے دشمن ہیں۔آر پار کی لڑائی تصفیے کی آڑ میں لڑتے ہیں ۔مجھے بہت کم اےسے لوگوں سے واسطہ پڑا ہے جن کی زنبےل مےں اتنی ساری چےزےں بہ ےک وقت رہتی ہوں ۔مثلاً بڑے فن کاروں اور مختلف ےونےورسٹیوں کے صدورِ شعبہ کا فون نمبر، اکادمےوں کے پتے، فرسٹ ، سےکنڈ اور تھرڈ اےڈ (Aid) کا سامان، ٹوپی، تسبےح، آلہ قبلہ نما، بادِ پےما تاکہ ہوا کا صحيح رُخ معلوم ہوتا رہے اور اپنا قبلہ درست رہے۔’آم کے آم اور گٹھلےوں کے دام‘ پر جيسی پختہ نظر ان کی ہے کسی اور کی نہےں دےکھی۔نيم مشر قیت، چٹکی سی داڑھی اور کبھی ٹوپی کے استعمال سے ان کی شخصےت مےں تصوف کی چاشنی بھی پےدا ہو جاتی ہے ،جس کے سبب رےسرچ اسکالر، طلبا و طالبات سب اکثر :
ديکھتی ہيں حلقہ گردن ميں سازِ دلبری
            اللہ تعالیٰ نے انھیں ۴۱۰۲ءمیں حج کی سعادت بھی نصیب فرمائی۔ مسجدِ نبوی میں مجھ سے اُسی والہانہ انداز میں ملے جیسے شعبے میں ملتے تھے۔دونوں نے ایک دوسرے کو حج کی مبارک باد دی۔
            شعبے کے تیسرے اُستاد ڈاکٹر حسن امام صاحب تھے۔ وہ سوز و سازِرومی اور پےچ و تاب رازی دونوں کی کشمکش سے بہت آگے نکل چکے تھے کہ ” تےرے زماں و مکاں اور بھی ہيں “ ۔ وہ اردو غزل کے محبوب کی تمام اداو ں کی کاٹ جانتے تھے اور رقیبوں سے پوشیدہ رشتہ رکھنے میںبھی اُن کو مہارت ۔چنانچہ شعبے کے امور، افسران ےو نی ورسٹی سے رابطہ، اساتذہ، طلباو طالبات، رےسرچ اسکالرس اور تمام متعلق افراد سے معاملہ کرنے مےں اس ہنر کا استعمال بہت خوبی سے کرتے تھے۔ شعبے مےں بھانت بھانت کے لوگ اپنا اپنا کام لے کر آتے رہتے اورحسن امام صاحب سب کو ’کارِ جہاں دراز ہے ‘ کہہ کر انتظار کی گھاٹی سے ضرور گزارتے۔ انتظار کرانے میں صدر شعبہ اردو کی کر سی کی لذت کا مزہ ان کو ملتاتھا۔ ان کو آفس مےں بےٹھے ہوئے دیکھ کر اکثر آتش کا انداز ےاد آجاتا ۔ آتش کے بارے مےں کہا جا تا ہے کہ وہ مسجد مےں بورےے پر بےٹھے رہتے تھے ۔ بڑے بڑے ر ئےس تلامذہ مےں شامل تھے ۔ان مےں اکثر ان کے ےہاں حاضر ہوتے،استاد سر اُٹھا کر نہےں دےکھتے، کوئی شاگرد بورےے پر بےٹھ گےاتو خفا ہوئے کہ ’اب بےٹھنے کی اِجازت کی ضرورت بھی نہےں‘ جب کوئی چپ چاپ کھڑا رہتا تو تھوڑی دےر بعد کہتے ’ہاں رئےس زادے ہو، بوریے پر بےٹھنے کو کسرِشان سمجھتے ہو‘۔ اس طرح اےک دفعہ شہر کے اےک معروف امام ِمسجد شعبے مےں تشرےف لائے ۔ حسبِ عادت کرسی پر بےٹھ گئے۔چناںچہ صدرِشعبہ(حسن امام صاحب) نے ان سے کہا ’مسجد کے امام آپ ہےں،شعبے کا امام مےں ہوں، ےہاں مقتدی بن کر رہےے‘۔دو سال شےن صاحب کے دور مےں وہ ےونی ورسٹی مےں پروکٹر بھی رہ چکے ہےں اس سے ان کے اندازِ کار مےں کبھی کبھی ےونی ورسٹی افسر اور کلرک دونوں کی جھلک ملتی تھی ۔وہ آفس کی اس روش سے آگاہ تھے جو ٹیبل کے اوپر اور ٹیبل کے نیچے کی جاتی ہے۔ اس سے اےک فائدہ ےہ بھی ہوا کہ ےونی ورسٹی کے مسائل و معاملات مےںتکنےکی معلومات اچھی ہوگئی تھی ۔جس سے ان میںاےک خود اعتمادی پےدا ہوگئی تھی۔ وہ تصوف کے آدمی نہےں ہےں، لےکن خانقاہی آداب کے قائل ہےں۔اس لےے جمہوری آداب اور شفافےت کے تقاضے کو شان ِ ولاےت کے خلاف سمجھتے ہےں ۔ البتہ ’بنتی نہےں ہے بادہ و ساغر کہے بغےر‘ کے بھی قائل ہےں۔ شعبے کے تمام بنےادی ضمنی، ذےلی اور متفرق کاموں کو وہ بہ دستِ خود انجام دےتے ہےں اور ےہ سارے کام جس ا نہماک، لگن اور خلوص سے کرتے ہےں کہ رند و پارسا دونوںغلط فہمی کے شکار ہو جاتے ہےں۔ لائبرےری سے ان کا تعلق ہمےشہ خصوصی رہا ۔ اس لیے وہ کتابوں کی خریداری میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔شمیم صاحب کے زمانے مےں تو وہ لائبرےری کے ذمہ دار تھے لےکن جب صدر شعبہ کی ذمہ داری انھوں نے سنبھالی تو لائبرےری کی ےہ ذمہ داری مجھے اور سرور ساجد کو دے دی۔ ارادہ ہوا کہ ساری المارےوں کو صاف ستھرا کرکے اس طرح قطار در قطار سجا کر رکھاجائے تا کہ احساس ِجمال کی بھی تسکےن ہو ۔ اےک دن طے ہوا کہ اپنے جےب سے پےسہ لگا کر لائبرےری کو پاک صاف کےا جائے۔ چناںچہ سرور ساجد مزدور کو لے کر شعبے میں آگئے۔ حسن امام صاحب نے مزدور کے ہاتھ مےں جھاڑو دےکھ کر محسوس کےا کہ لائبرےری میں جھاڑو پھےرنا مناسب نہےں ۔فوراً دفع ۴۴۱لگا دیاکہ ’جب تک ہم چارج نہیں دیں گے اس وقت تک آگے کا کام کیسے ہو سکتا ہے۔‘ شمیم صاحب نے ایک خطرناک مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا ’ٹھیک ہی کہتے ہیں،چارج کے لین دین کے بغیر یہ کام کیسے ہو سکتاہے۔تھوڑا ٹھہر جائیے اور آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ شعبے کی لائبریری میں دفع ۴۴۱ کے بعد ۷۰۱ نافذ رہا، ہم لوگ حسن امام کی’ تنگیِ داماں‘ کا علاج نہ ڈھونڈ سکے۔افسوس ہے کہ شعبے مےں علمی فضا اور نتےجہ خیز مصروفےات کم رہتی ہےں۔ ےہاں ادبی ذوق کی پرورش کا سامان بھی نہےں ہے ۔ وےسے نصابی سرگرمےوں کی حد تک درس و تدرس کا ماحول غنےمت ہے اور اس معاملے مےں اساتذہ کے آپسی تعاون میں وہی ایمان داری نظر آتی ہے، جو چوری کا مال تقسیم کرنے میں۔البتہ شعبے مےں پی۔اےچ۔ڈی Vivaکے بہانے باہر کے استاد تشرےف لاتے رہتے ہےں ۔ اےک بار پٹنہ سے اےک استاد تشرےف لائے ،انھوں نے شعبے مےں حسن امام صاحب کو بہت سرگرمِ عمل پاےا۔کہنے لگے ’حسن امام کے ساتھ مےں کئی ادبی مےٹنگوں اور علمی ورک شاپس مےں شرےک رہا ہوں ۔موصوف وہاں بالکل خاموش رہتے ہےں ۔بس کچھ سرگوشیاں کر لےتے ہےں ۔ ‘ مےں نے کہا ’وہ بولنے اور چپ رہنے دونوں کے موقع ومحل اور آداب و نزاکت سے آشنا ہيں۔‘ بہت سارے لوگوں کا کام وہ اکثر بڑی خاموشی سے رےموٹ دبا کر تمام کردیتے ہےں ۔ صدر شعبہ کی حےثےت سے وہ رےموٹ اپنے ہاتھ مےں رکھتے ہےں اور بعض چےنل کے نمبر کو حق اطلاعات سے پرے مانتے ہيں۔ وہ برٹش طرےقہ نظم وانصرام کو زےادہ پسند کرتے ہےں۔ شمےم صاحب کے دورِ صدارت مےں بھی رےموٹ اُنھی کے ہاتھ مےں تھا۔یہ شمیم صاحب کی معذوری اور مجبوری تھی۔اُنھی کے زمانے میں اےک دفعہ اےک رےٹائر ڈ ٹےچر ےونےورسٹی کےمپس مےں مل گئے کہنے لگے ’ کےاطرےقہ ہے؟ صدر شعبہ کا ےہ مطلب تو نہیں کہ ’راہ تو رہرو بھی تو رہزن بھی تومنزل بھی تو۔‘ مےں نے کہا کہ ’آپ مصرع غلط پڑھ رہے ہےں،ےہاں سب کو گائےڈ کےا جاتا ہے ۔ انھوں نے کہا ’نہےں مس گائےڈ بھی کےا جاتا ہے ‘ ۔ پھر ’بانگِ درا‘ کی پوری نظم سنا ڈالی ۔پوری نظم پڑھنے کے بعد اُن کی جھنجھلاہٹ خود ختم ہوگئی اور اس نظم کے حسن پر بات نکل پڑی ۔ ميں نے دل مےں سوچا کہ وا قعی شعبے ميں لوگ مِس گائيڈ بھی ہوتے ہيں۔    
(باقی آئندہ)
***

جذباتی سائنس
ڈاکٹر محمود شیخ
جبل پور
            زندہ رہنے کی خواہش فطری امر ہے اور حواسِ خمسہ کی فطری قوتوں کو اپنے دفاع کے لےے مہمیز کرتی ہے۔ ذائقہ، شامہ، باصرہ، سامعہ، لامسہ اپنے محسوساتی اور تجرباتی عمل کے ذریعہ عقلِ انسانی کی خفتہ قوتوں کو بیدار کرتی ہیں۔ ترش و شیریں ذائقہ کی پہچان زبان کی خصوصیت ہے۔ آنکھ کی بصارت اشیاءکی ہیئت اور رنگوں کی شناخت پر مرتکز ہوتی ہے۔ قوت شامہ خوشبو، سامعہ آواز اور لامسہ گرم و سرداحساسات کے ذریعہ اشیاءکی پہچان مختص کرتی ہیں۔ حواس خمسہ ایک یونٹ کی طرح اپنے تجربات عقل کو منتقل کرتے ہیں اور عقل انھیں اپنی یاد داشت میں محفوظ کرلیتی ہے۔ اگر حواس نہ ہوں تو عقل کا وجود کبھی متحرک نہیں ہوسکتا۔
            نظم حواس ارتقاءپذیر ہے۔ جسمانی بلوغیت کے ساتھ ساتھ حواس کی فطرت ِ ادراک میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ جغرافیائی ماحول اورموسمی تغیرات بھی انسانی حواس کو متاثر کرتے ہیں۔ لیکن زندہ رہنے کی خواہش کبھی ختم نہیں ہوتی۔ لہٰذا کائنات کی ہر شئے اپنی بقا کے لےے جدوجہد کرتی ہے۔ خشک علاقوں میں پیدا ہونے والے پیڑ پودوں کی جڑیں زیادہ گہرائی میں اتر کر پانی تلاش کرتی ہیں۔ انسان اور حیوان نامساعد حالات میں بھی زندہ رہنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ شکست خوردگی کائنات، انسان اور حیوان کی فطرت نہیں ہے۔ لیکن دائمیت کسی کو حاصل نہیں۔ ایک دن ہر شئے کا اپنی حیثیت سے آزاد ہونا لازمی ہے کسی کو استقرار نہیں۔ فنائیت ارتقائی عمل کی انتہا بھی ہے۔
            عمر و عیار کی زنبیل کی طرح یادداشت کے نہاں خانوں میں کیا کیا محفوظ ہے؟ کوئی نہیں جانتا، لیکن پانچوں حواس اپنی اپنی ضروریات کے مطابق اپنے تجربات عقل کو منتقل کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً قوت ِ ذائقہ اور باصرہ ترش و شیریں اشیاءکی پہچان عقل کو منتقل کرتی ہیں۔ پتھر کو رگڑنے سے چنگاری پیدا ہوتی ہے اور جب یہ چنگاری کسی سوکھے پتے اور سوکھی گھاس پر گرتی ہے تو آگ اور حرارت کا وجود ہوتا ہے۔ اس طرح حواس خمسہ نے ہزاروں تجربے یاد داشت کے نہاں خانوں میں محفوظ کےے ہوئے ہیں۔ جب یہ تجربے روز مرہ کی ضرورتوں میں شامل ہوجاتے ہیں تو انھیں یاد رکھنا ضروری نہیں ہوتا۔ صرف عمل ہی کافی ہے۔ یاد داشت صدیوں سے عملی صورت اختیار کرتی رہی ہے۔
            ہر عمل ایک مخصوص ترتیب کے ساتھ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ خصوصاً جغرافیائی حالات اور موسموں کی تبدیلیاں وقت اور حالات کے تابع ہیں۔ مشینوں کے غیر فطری اعمال سے جدلیاتی عمل میں تغیر پیدا کیا جاسکتا ہے، لیکن فطری ارتقائیت کو مشینی اعمال کے میکانکی ادوار کے ذریعہ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً پہلے انسان نے پتوں سے، پھر پےڑوں کی چھال اور جانوروں کی کھا ل سے تن ڈھانپنا سیکھا۔ جب سوت سے کپڑا بنایا گیا تو لباس کے علاوہ استعمال کی اور بھی صورتیں نکل آئیں۔ مذکورہ تمام تجربے جذباتی سائنس کے فطری شعور و ادراک کا نتیجہ ہیں۔ جنھیں یاد داشت نے عملی شکل دے کر حواسِ خمسہ کی فطری ارتقائیت کا تعین کیا ہے۔
            جذباتی سائنس کا تصور انسان اور کائنات کی فطری اجتماعیت کی ترتیب و توازن سے ہم آہنگ ہے ، جس کی ابتدا زندگی کے قیام کے ساتھ مخصوص ہے۔ چوں کہ تغیر و تبدل مادی وجود کا خاصہ ہے۔ لہٰذا عمر کی پختگی کے ساتھ انسانی افعال و کردار میں شدت و جامعیت پیدا ہوتی ہے۔ کائنات اور انسان کا وجود ایک مخصوص ترتیب و توازن کے مطابق گردش میں ہے۔ مگر یہ ترتیب و توازن میکانکی ذہن کی اختراع و ایجاد نہیں ہے، بلکہ اسے قانونِ قدرت کے فطری نظم صداقت کی قوت وایمائیت نے از خود پیدا کیا ہے۔ ذہنِ انسانی کے صارفیت زدہ احساسات سے جس کی کوئی مناسبت نہیں ہوسکتی ۔ انسان ذاتی نفع و نقصان اور ذاتی مظہریت کی بنیادپر غوروخوض کرتا ہے۔ کائنات بنا کسی نفع و ضرر اور بنا کسی مظہریت کے قانونِ قدرت کے مطابق گردش میں ہے۔ جمادات و نباتات و حیوانات سب کا وجود فطری تغیرات سے نمودگی حاصل کرتا ہے۔اختیار و آزادی کسی کو حاصل نہیں ہے۔ عمل و توازن، تغیر و تبدل،فنا اور بقا سب کچھ قانونِ قدرت کے مقرر کردہ اصول و ضابطوں پر منحصر ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی کے پروردہ اذہان قانونِ قدرت کی حقیقت سے پہلے بھی ناواقف تھے، آج بھی ناواقف ہیں۔
            جب مادیاتی سائنس و ٹکنالوجی کا وجودنہ تھا، اس وقت انسان نے اشارہ ، کنایہ کی مدد سے بولنا سیکھا اور نطق و بیان کونباتات و جمادات و حیوانات کی آوازوں سے مزین کیا اور حرف و لفظ کی تخلیق میں جذبات کی ترسیل کو مقدم قرار دے کر بیانیہ کی تشکیل میں معاونت کی تھی۔ ہوا، پانی اور روشنی کی طرح آواز کی کوئی مخصوص ہیئت نہیں ہوتی۔ لحن اور غنائیت ہی اس کی پہچان ہے۔ تیز، کرخت اور دھماکہ خیز آوازوں کا فنی وجود باطل ہے۔ وجہ یہ کہ فن اور جذبہ انسانی تعمیریت کا اعلامیہ ہیں۔ تخریب و انتشار ان کی فطرت نہیں، ورنہ کاروانِ زندگی کا سفر معطل ہوجائے گا۔ انسان اس حقیقت سے پیدائشی طور پر واقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دھماکہ خیز آواز سن کر انسان و حیوان مضطرب و بے چین ہوجاتے ہیں۔
            عقل ایک جامدحقیقت ہے لیکن فطری جذبات واحساسات مسامِ جاں میں سیال مادہ کی طرح گردشت کرتے ہیں۔ ان میںتخلیقی قوت نہاں ہوتی ہے۔ عقل کی دسترس جذبوں کے انتخاب تک محدود ہے۔ اس میں تخلیقی قوت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ہزاروں بولیاں اور سینکڑوں زبانیں رائج ہیں۔ حالانکہ سب کا صوتیاتی نظم جدا ہے۔ لیکن انسانوںکی طرح الفاظ بھی تہذیب و ثقافت میں خلط ملط ہوتے رہتے ہیں۔ حرف و لفظ کی اختراع فطرت ِ انسانی کا زبردست کارنامہ ہے۔ جس نے انسانی زندگی کی جذباتی نہج کو سماجی سطح پر استحکام دے کر رشتوں میں فطری اور تہذیبی شائستگی پیدا کی اور قوموں کو منظم کرنے کا فریضہ انجام دیا ہے۔ انسان میں وجودیت کا احساس او رجذبوں کی فطری ترسیل میں نظم شعور پیدا کیا اور لفظ و بیان کو عبارت کی شکل میں منتقل کرنے کا عمل دریافت کیا ہے۔ خصوصاً ایشیائی زبانوں کی تخلیق میں مغربی زبانوں کے مقابلے حرف و لفظ کو مختصر اور پیچدار طریقوں پر لکھے جانے کا رجحان عام ہے۔ اس کی اہم وجہ خاندان اور معاشرتی زندگی کی پیچیدگی ہے۔ خرد کا نظام ِ شعور اسی پیچیدگی سے زندگی کی مثبت اور منفی قدروں کی پہچان کرتا ہے۔
            تجرباتی سائنس مادیاتی ضرورتوں کی تکمیل میں مفروضات وضع کرتی ہے۔ اس لےے اس کا فنی شعور بھی جذباتی صداقتوں سے عاری ہوتا ہے۔ او روضع کردہ نظرےے جذباتی صداقتوں سے متصادم ہوتے ہیں۔ فن کا کوئی تصور سائنٹفک مفروضات پر مبنی نہیں ہے۔اس طرح موجودہ انسان کی علمی شخصیت دو حصوں میں منقسم ہوجاتی ہے۔ ایک وہ جس کا تعلق جذبات اور فن سے، دوسری وہ جسے تجرباتی سائنس نے ترتیب دیا ہے۔ بعض افراد فنی جذبات کی ترسیل میں تجرباتی سائنس کا عمل دخل ضروری سمجھتے ہیں اور جذبات و احساسات کی فنی نہج کو سائنٹفک اصولوں پر استوار کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سائنسی حقیقت پسندی کے قائل ہیں۔ مگر بعض فلسفی اور فن کار، ہوم ورڈزورتھ ، کولرج وغیرہ فنی صداقتوں کے فطری تصورات پر سائنٹفک شعور کی برتری کے قائل نہیں ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ فن کی بنیاد جذباتی صداقتوں پر قائم ہے۔ لیکن آج اس میں دراڑ نظر آنے لگی ہے۔ خصوصاً غیر مقفیٰ اور نثری نظمیں فن کار کی ذاتِ نفس کا بیان ہوگئی ہیں۔ نثری ادب میںناول اور جدید افسانہ ذاتی تجربات کے نفسیاتی محاکات کی ترویج کو فنی ضرورت قرار دیتے ہیں۔
            انفرادیت کی خواہش اور ستائش کی تمنا فن کار کے ذاتی شعور کا المیہ بیان کرتی ہیں اور تخلیقی انانیت فنی رہبری کے فرائض انجام دیتی ہے۔ جس سے فطری اجتماعیت کے جذباتی تقاضوں کو پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہرمن میلول کا، موبی ڈک اور جیمس جوائس کا، یولیسز دو مختلف ومتضاد موضوعات پر لکھے گئے عمدہ ناول ہیں، مگر دونوں کی مرکزیت مصنف کے ذاتی اور انفرادی شعور پر استوار ہے۔ ’ آگ کا دریا‘ اور ’ بستی‘ کی انفرادیت بھی مصنف کے ذاتی شعور کی ترجمان ہے۔ اس کے برعکس ’ ایک چادر میلی سی‘ کا تہذیبی اور ثقافتی پس منظر اس قدر حقیقی اور مربوط ہے کہ ایام گزشتہ کی مثبت اور منفی قدریںاپنی تمام تر توانائی اور استعجابی کیفیتوں کے ساتھ ابھرتی نظر آتی ہیں۔ چارلس ڈکنس، ڈیوڈ کا پرفیلڈ میں اپنے نامکمل کرداروں کی جذباتی بازیافت میں مصروف کار نظر آتا ہے۔ لیکن یہی کام بیدی نے اپنے مختصر ناول میں بخوبی انجام دیا ہے۔
            مغربی فلسفی اور فن کار اور ان سے متاثر مشرقی ادیب و شاعر تہذیب وثقافت کے موروثی اور جذباتی سائنس کے عطا کردہ سماجی شعور پر معاش و معیشت، سیاست و ثقافت کے جدید مادیاتی تفکرات و نظریات کو فن کی سچائی کے بطور ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن مشرق میں فن کو جذباتی اجتماعیت کے روایتی اور اخلاقی تصورات کے بغیر قبول کرنے کا رجحان عام نہیں ہے۔ سبب یہ کہ عقل کا مجرد شعور تکنیکی ذہن رکھتا ہے، جب کہ تخلیقی ذہن جذباتی حقائق کا ترجمان ہے۔ دونوں میں دن اور رات کا بعد ہے۔ بجلی کے قمقموں سے رات کو روشن کیا جاسکتا ہے، مگر وہ دن کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ عقلی بصیرتیں جذباتی حقائق پر محاسبہ قائم کرسکتی ہیں، مگر جذبہ کی تخلیق نہیں کرسکتیں۔ حواس نہ ہوںتو عقل کا بیدار ہونا بھی ممکن نہیں ہے۔ بدحواس آدمی کی بصیرت پر کیوں یقین کیا جاسکتا ہے؟ جب کہ عدالت کو اس کی گواہی قبول کرنے میں بھی تامل ہوتا ہے۔ جذبہ فطرت کا محکوم ہے، عقل کا محکوم نہیںہے۔ اس حقیقت کو صدیوں سے مادیاتی فلسفہ کے ماہرین اور فن کار فراموش کرتے رہے ہیں۔ ان کی نظر میں فطرت وکائنات کا تخلیقی نظام اعتبار کے قائل نہیں ہے۔ خواہشات ِ نفسی کے سیلاب رواں کے آگے تمام جذباتی شواہد و نظریات اپنی حقیقت ثابت کرنے پر مجبور و معذور نظر آتے ہیں۔ انھی وجوہات کی بنا پر علامہ اقبال کو کہنا پڑا:
سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار
غلامی سے بدتر ہے بے یقینی

خدائے لم یزل کا دست قدرت تو، زبان تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے

کرم اے شہ عرب و عجم کے کھڑے ہیں منتظر کرم
وہ گدا کہ تو نے عطا کیا ہے جنھیں دماغ سکندری
            جذباتی سائنس نے رشتوں کی تعمیر و توقیر کے ذریعہ جذبات ِ انسانی کو منضبط کرنے کا گراں قدر کارنامہ انجام دیا ہے۔ اگر یہ رشتے ختم ہوجائیں تو ادب و سماج میں نفسا نفسی کے سوا کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔ دنیا میں روز بروز بڑھتی ہوئی سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی آلودگی نے آج حیات و معاشرت کو ایک ہیجان انگیز کیفیت میں مبتلا کردیا ہے۔ خصوصاً جنسی بے راہ روی نے تمام دنیا میں رشتوں کا قحط پیدا کردیا ہے۔ معاشی بے راہ روی ، غربت و افلاس اور ثقافتی آلودگی نے فنی علوم و فنون میں میکانکی افکار وعمل کی راہ ہموار کردی ہے۔ جس کی وجہ سے انسان کا ذہن اور کائنات کا فطری توازن و عمل متزلزل ہوگیا ہے۔ جمہوری سیاست ِ انسانی انفرادیت (Individualism) کو تقویت دے کر مفاداتِ نفسی کے غیر اصولی نظریات کو تقویت دینا چاہتی ہے۔ غیر بیانیہ کا تصور اس کی ایک عمدہ مثال ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی کا عظیم الشان ڈکشن اس کی پشت پناہی میں ہے۔ وجہ یہ کہ ضرورت اور خواہشات نفسی کا فروغ نہ صرف معاش و معیشت بلکہ سائنس و ٹکنالوجی کی بقا کے لےے بھی ضروری ہے۔ فرد کی ضرورت میں جس قدر اضافہ ہوگا ، سیاست و سرمایہ کی دوڑ بھی اسی قدر تیز ہوگی۔ جذبات ِ انسانی کی متعین کردہ قدریں- صارفی سماج (Consumer Society) کی ضرورت نہیں ہوسکتیں۔ ورنہ کاروبار سیاست و معیشت معطل ہوجائے گا۔ نیک سیرت انسان سیاسی اور کاروباری زندگی کی مطلوبہ شخصیت نہیں ہوسکتا، کیوں کہ اس کا ضمیر ہر قدم پر نیک و بدکے خیال میں الجھا کر اسے آگے قدم بڑھانے سے روکتا ہے۔ دنیا میں آج کسی علم کی کوئی اخلاقی حیثیت متعین نہیں ہے۔ تمام علوم و فون کا روباری نفع وضرر کے اطراف ہی گردش کرتے ہیں۔ سیاسی اور معاشی طور پر کامیاب آدمی کا اخلاقی طور پر کامیاب ہونا صارفی سماج کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ کے یقین اور فطری انسان کی مرکزیت ثانوی ہے۔ لہٰذا تمام ادبی فلسفے خواہ کتنے ہی نظریاتی اور سائنٹفک کیوں نہ ہوں، بنی نوعِ انسانی کی فلاح و بہبود میں ناکامیاب ہیں۔ خواہشاتِ نفسی کی انفرادیت ثابت کرنا ہی ان کا مقصد فکر ہے۔ بلکہ آج دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ بے مقصد زندگی کے بے اصول فنی اور سماجی تصورات کے فروغ میں مصروف ِ کار ہے۔ جس کے اثرات بھی اب فن و فلسفہ میں نظر آنے لگے ہیں۔ با محاورہ زبان اور روداد زندگی کا بیان رفتہ رفتہ معدوم ہورہا ہے۔ انسان کا کاروباری اور نفسیاتی شعور علم و فن کی تمام تخلیقی جہت پر حاوی ہے۔
            کاروبارِ معیشت کے فروغ اور ارتقا کے لےے ضرورتوں کا پیدا کیا جانا ضروری ہے ۔ اس موضوع پر آدم اسمتھ، جے ایس مل اور مالتھس وغیرہ نے فلسفہ معیشت میں عمدہ مباحث قائم کےے ہیں۔ روسو کا Real will اور Actual will کا نظریہ بھی سیاسی ضرورت کے بطور قبول کرلیا گیا ہے۔ اس طرح سیاست و معیشت کے اشتراک سے سیاسی معیشت (Political Economy) کا وجود ہوا۔ اور آج تمام دنیا ملٹی نیشنل کمپنیوں کی گرفت میں ہے۔ یہی کمپنیاں خواہشاتِ نفسی کو انسانی ضرورت کے قالب میں منتقل کرنے کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ مثلاً روز مرہ کے کام کاج میں استعمال کی جانے والی مشین اور مشروبات کو Status Symbol کی صورت میں پیش کیا جاتاہے۔
            Individualism کا فلسفہ اور De Construction theories کا مقصد بھی انفرادیت زدگی کو تقویت دینے کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ اس طرح جدید فنی نظریات جمہوری سیاست کے بنیادی حقوق (Fundamental Rights) میں ضم ہوجاتے ہیں، جس میں فرد کی آزادی کا تصور اور ووٹ دینے کا حق سماجی ضابطوں سے کلیتاً مستثنیٰ ہے۔ لہٰذا فرد کی نفسی حیثیت کو جدید سائنٹفک معاشرہ کے لےے ضروری اور تہذیب و ثقافت کی عطا کردہ اجتماعی قدروں کو غیر ضروری قرار دےے جانے کا عمل روز افزوںترقی پر ہے۔ اس کے برعکس اجتماعیت کا تصور ہی مشرقی فن و فلسفہ کی بنیاد ہے۔ اہل مشرق نے جذباتی سائنس کی فطری قوتوں کے ذریعہ ایسے علوم و فنون کی پرورش و پرداخت کی ہے، جس کا مقصد حیات و معاشرت کو اجتماعی خطوط پر منظم کرنا تھا۔ سائنس و ٹکنالوجی نے فنی علوم و سماج کو جنم نہیں دیا بلکہ جذباتی دروبست نے سماجی ڈھانچہ کو فنی خطوط پر مرتب و مربوط کیا ہے۔
            سقراط کی زبان میں تمام علوم محض فن ہیں اور فن کے لےے طہارت اور پاکیزگی کو اس نے لازمی قرار دیا تھا۔ سائنٹفک نظرےے چوں کہ شخصی آزادی کو تقویت دیتے ہیں اور طہارت ِ فکر ی سے آزاد ہیں۔ لہٰذا انفرادیت زدہ زندگی اور سماج کا تصور.... فنی مقاصد کی تکمیل میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ علامہ اقبال کے مطابق:
رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود!

زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعلِ راہ
کسے خبر کے جنوں بھی ہے صاحبِ ادراک

موت ہے ایک سخت تر، جس کا غلامی ہے نام
مکر و فنِ خواجگی کاش سمجھتا غلام!
            جذبہ مادہ نہیں قدرت کی عطا کردہ نعمت ہے، جس کی اظہاریت سے رشتوں کی پاکیزگی اور علم کی طہارت برقرار ہے۔ اور کاروانِ عشق کا تخلیقی سفر جاری ہے۔ عشق میں نفع و ضرر کا خیال نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کی پرورش میں والدین تمام دکھ مصیبت برداشت کرجاتے ہیں۔ مصیبت زدہ افرا د کی داد رسی کے لےے جان و مال کی پرواہ کےے بغیر لوگ سینہ سپر ہوجاتے ہیں۔ سائنس و ٹکنالوجی کی غیرتخلیقی وجودیت انسانی تکالیف کا مداوا نہیں ہوسکتی ۔ مگر جذباتی حقیقتیں قدم قدم پر اس کا ساتھ دیتی ہے۔ محبت کے دو میٹھے بول زندگی میں امنگ اور حوصلہ بھر دیتے ہیں۔ کبھی خون کے رشتے کام آتے ہیں اور کبھی کوئی اجنبی رحمت کا فرشتہ بن کر لوگوں کے دکھ درد کا مداوا کرنے دھرتی پر اتر آتا ہے۔ جذبہ انسانیت کا تمام تر فلسفہ اور نظریہ حیات عشق کی بنیاد پر قائم ہے ۔ بے لوث خدمت کا جذبہ، مادیاتی حقائق سے پرے اپنی دنیا آپ ہی تعمیر کرتا ہے۔ صلہ رحمی، دوستی، رفاقت، غم گساری، دادر سی، رحمدلی، ہمدردی، ہمت، حوصلہ اور حق و انصاف کے تمام سلسلے جذبات انسانی کی توقیریت پر تمام ہوتے ہیں۔ اگر جذبہ عشق نہ ہوتا تو مذکورہ احساسات کاوجود بھی نہ ہوتا۔ میزان عدل و انصاف کاتصور، عقل کی کرشمہ سازی نہیں ہے، بلکہ عشق و محبت کی بنیاد پر عالم انسانیت کے تحفظ وبقا کے لےے ترتیب دیاگیا ایک آفاقی نظریہ ہے۔ سائنٹفک حقیقتیں مادیاتی وجود اور اشیاءکی مظہریت پر یقین رکھتی ہیں۔ لہٰذا حقائقِ عقلی کے نزدیک عشق کا وجود محض خلل ہے دماغ کا۔
            فلسفہ خیر و شر اور حق و انصاف کی درجہ بندی جذبہ انسانیت کا عظیم الشان کارنامہ ہے۔ جس نے حیات و معاشرت کو صالح قدروں پر استوار کیا، ورنہ انسان اور حیوان میں کوئی تفریق نہ ہوتی۔ عدالت کا وجود نہ ہوتا ۔ میزان عدل و انصاف کے فطری اور اخلاقی تصورات، سماجی نظم و نسق کی صالح اور آفاقی قدروں کو تقویت دیتے ہیں، جس سے سکون و اطمینان کی فضا بحال ہوتی ہے۔ لوگوں میں تعمیر و ترقی کے جذبات بیدار ہوتے ہیں۔ اتحاد و اتفاق کو راہ ملتی ہے اور انسان کا اخلاقی شعور مستحکم ہوتا ہے۔ سماجی ضابطے انسان کی قوت ِ احتساب اور توازنِ فکر و عمل پر منحصر ہیں۔ لیکن کبھی کبھی جذباتی جوش میں انسان اخلاقی حقیقتوں کو فراموش کرجاتا ہے، جس سے سماجی قدریں اور ضابطے ٹوٹ جاتے ہیں۔ لہٰذا ان پر سزائیں تجویز کی جاتی ہیں۔ سائنٹفک ذہن چوں کہ مادیاتی حقیقت کا قائل ہے اور جمہوری سیاست کے بنیادی حقوق پر یقین رکھتاہے۔ لہٰذا تاویلات ِ عقلی کے مادیاتی شعور کو حکم بناکر وہ ان سزاو ں کے خلاف احتجاج کرتا ہے۔ سیاست داں اور دانشور حضرات کے علاوہ شر پسند افراد دولت، طاقت اور اثر و رسوخ کی بنیاد پر ذاتی مفادات کے حصول میں اکثر غیر منصفانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ جس سے سماج میں انارکیت پھیلتی ہے۔ جدید انسان کا اخلاقی طور پر کامیاب ہونا ضروری نہیں ہے۔
            رسم و رواج کا تصور حالانکہ سماجی ضابطوں کو تقویت دیتا ہے لیکن وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق ان میں تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ ورنہ ان کے منفی اثرات خاندانی اور معاشرتی تنزلی کا سبب بن جاتے ہیں۔ مثلاً شادی بیاہ کی تقریبات میں ادا کی جانے والی رسمیں اس اعتبار سے عمدہ کہی جائیں گی کہ ان کی چمک دمک میں میاں بیوی کے جنسی تعلقات کی بہیمیت ایک خوشگوار فریضہ کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ لیکن جہیز کی ادائیگی میں نہایت سنگین حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا انسانی افعال و کردار، افکار و نظریات، روایت اور تقلید کی کوئی اخلاقی حد ضرور ہونی چاہےے تاکہ عالم اور عوام مفاد پرست ذہنیت کے عتاب سے محفوظ رہ سکیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ سائنٹفک ذہن نکاح کی شرط کا قائل نہیں ہے لہٰذا والدین کی شفقت و محبت سے محروم بچوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
            جذباتی سائنس کا وجود یقینی اور اعتماد پر قائم ہے۔ انسان کو اللہ کی ذات پر یقین ہے۔ اس کا عقیدہ ہے کہ اللہ ہی کائنات کا خالق و مالک ہے۔ والدین کی شفقت و محبت کا یقین، خاندانی اور معاشرتی رشتوں کا یقین طمانیت قلب و نظر کا باعث ہے۔ جب یہ رشتے ٹوٹتے ہیں تو معاشرتی ڈھانچہ زیر وزبر ہوجاتا ہے۔ تجرباتی اور مادیاتی سائنس انسانی رشتوں کی تعمیر میں ضرورت و خواہش نفس کو ترجیح دے کر انسان کو معاشیاتی سطح پر ایک خوش گوار مستقبل کی جانب پیش قدمی کا حوصلہ دیتی ہے۔ چوں کہ انسان دولت کا حریص ہے اس لےے جذباتی حقائق پر حرص وہوس کو ترجیح دیتا ہے۔ عقلی دلائل قائم کرنے سے حالانکہ جذباتی حقیقتیں نہیں بدلتیں مگر بعض افراد متاثر ضرور ہوتے ہیں اور تاویلاتِ عقلی کے مجرد خیالات کے ذریعہ اپنی خواہشات نفسی کا دفاع کرتے ہیں۔ اس طرح جذباتی سائنس کا مقرر کردہ معیارِ صداقت بے حس ذہنیت کا شکار ہوجاتاہے۔
            کائنات کا نظم و نسق قدرت کے مقرر کردہ معیار کے مطابق روزاول سے جاری وساری ہے۔ زمین اور آسمان کے درمیان قانونِ قدرت کے مطابق ہر شے گردش میں ہے اور اس گردش کے سبب ہی جذباتی، جدلیاتی اور ارتقائی عمل وقوع پذیر ہوتا ہے۔ کائنات میںتحرک اور اشیاءمیں خواص پیدا ہوتے ہیں۔ سمندروں میں مد و جزر اٹھتا ہے۔ موسموں میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ یہ سبھی تغیرات و عمل انسانی جذبات و احساسات کو مہمیز کرتے ہیں۔ اسی بنا پر انسان نے اپنی فکر و فن اور دنیاوی معاملات کو جذباتی وحدت کے بطور متعارف کیا اور سمجھا کہ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا تھا۔ ” وسدھا کٹم بکم“ اور ” جیو اور جینے دو“ کے نظریات بھی اسی وحدت ِ فکر کا نتیجہ ہیں، جس نے عالمِ انسانیت پر اپنے گہرے نقش ثبت کےے ہیں۔ اوصاف ِ حمیدہ کی اخلاقی عالمگیریت میں بھی اسی احساس کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس جدید سائنس کے نزدیک زندگی کی ابتدا پانی سے ہوئی اور تمام جاندار پانی سے وجود میں آئے ہیں۔ وہ شاید نہیں جانتے کہ پانی کا وجود بذات ِ خود مٹی ہے۔
            زبان و ادب، موسیقی اورمصوری کا فن کائنات اور انسان کے غیر عقلی مگر جذباتی رشتوں کی فطری صداقتوں کا ترجمان ہے۔ عقل کا مجرد شعور وعمل فنی اور تخلیقی سطح پر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ سانکھیہ فلسفہ کے مطابق:
انانیت یا اہنکار عام شعور کا خصوصی اظہار ہے۔ جو تجربے کو اَہم( غرور) کے طور پر قبول کرتا ہے۔ پس انانیت کا کام ’ابھیمان‘ (فخریہ) کہلاتا ہے۔
            فنی علوم چوں کہ جذبات و احساسات پر منحصر ہیں اور اپنی اظہاریت کا فطری جواز رکھتے ہیں، لہٰذا ماہرین فن، فنی ریاضت کو عبادت کی طرح متبرک عمل گردانتے ہیں۔ تخلیقیت کے اس عمل میں جذباتی تواتر وتوازن معین ہے، اس لےے اسے جذباتی سائنس کے فطری عمل سے منسوب کیا جانا ضروری ہے، ورنہ مادیاتی سائنس کی تجرباتی ذہنیت اسے نفسیاتی عقل کے فکری اور نظریاتی زندانوں میں محصور کردے گی اور وحدت  عمل کا آفاقی تصور معدوم ہوجائے گا....
یہ دیر کہن کیا ہے؟ انبار خش و خاشاک!
مشکل ہے گزر اس میں بے نالہ آتشناک!
***

مولانا حالی اور مولانا شبلی کی خوش طبعی
اور ظرافت پسندی
اسیم کاویانی
            مولانا شبلی کی سوانح حیات اور تحریروں کے مطالعے سے اُن کی ایک زندہ دل اور شگفتہ مزاج شخصیت کا تصور اُبھرتا ہے اور یہ اتنا قوی ہے کہ یہاں اس پہلو کو مزید تفصیل سے متعارف کرانے کی ضر ورت نہیں محسوس ہوتی، البتہ ’حالی شناسوں‘ نے اُن کی شبیہ قوم کے نوحہ گر کی سی بناکر رکھ دی ہے جب کہ خود اُن کی اپنی زندگی اس طرح کی رہی کہ ع کلفت میں بھی آرام ہے، غم میں بھی خوشی ہے۔ کوئی اُن سے ڈھنگ سے ملے تو یہی کہتا اُٹھے گا ع بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر۔ پھر خاندانی اثر اور پرورش کا فرق بھی ذہن میں رکھیے۔ شبلی ایک آسودہ حال اور زمین دار خاندان کے فرد تھے اور حالی نے غریبا مﺅ زندگی گزاری تھی۔ شبلی غدر کے سال (۷۵۸۱ئ) میں پیدا ہوئے تھے، اُس وقت بیس سالہ حالی غدر کے مصائب کو جھیل رہے تھے۔
            خوش قسمتی سے حالی کو غالب اور سرسید دونوںہی کی صحبت نصیب ہوئی تھی اور فکری تربیت بھی۔ غالب اگر حیوانِ ظریف تھے تو سرسید بھی کچھ کم ظریف طبع نہیں تھے۔ اُن دونوں ہی شخصیتوں نے یقینا حالی کی فکر و نظر میں کشادگی پیدا کی تھی اور ایک زاہد خشک مولوی کو قہقہہ بار نہیں تو تبسم پسند اور خندہ آشنا ضرور بنادیا تھا۔ وہیں سرسید کی صحبت نے بقول شخصے شبلی کے دینی عقائد لچیلے کردیے تھے ورنہ وہ نرے ملاٹّے رہتے۔
            مقالاتِ حالی میں ہمیں ایک مقالہ ’مزاح‘ پر بھی ملتا ہے۔ ۹۷۸۱ءمیں ’تہذیب الاخلاق‘ میں شائع ہوا یہ مقالہ ’مزاح‘ کے سلسلے میں حالی کے نقطہ نظر کی بخوبی ترجمانی کرتا ہے۔ اُنھوں نے اپنے مقالے کی تمہید میں لکھا ہے کہ ’مزاح‘ ایک جبّلی خاصیت ہے جو کم و بیش ہر انسان میں پائی جاتی ہے۔ مزاح کا مقصد ’خوش کرنا‘ ہونا چاہیے اور اس لیے ضروری ہے کہ وہ دل خوش کُن ہو، بہ مثل ’ایک ٹھنڈی ہوا کے جھونکے‘ اور ’ایک سہانی خوشبو کی لپٹ‘ کے ’پژمردہ دل باغ باغ کرنے والا‘۔ ایسا مزاح فلاسفہ حکما، اولیا اور انبیا نے بھی کیا ہے اور یہی مزاح کسی کو لوگوں میں محبوب و مقبول بناتا ہے۔
            اسی کے ساتھ اُنھوں نے خبردار بھی کیا ہے کہ ’مزاح‘ کا حد سے تجاوز کرنا مسخرگی، استہزا، پھکّڑ پن، فحش اور دشنام میں بدل جاتا ہے اور وہ بجائے خوبی کے عیب بن جاتا ہے۔ ہماری قوم میں اڈیٹر اپنے اخبار کی گرم بازاری کے لیے، سخن ور اپنی شاعری چمکانے کے لیے ، واعظ اپنی مجلسوں میں جوش بڑھانے کے لیے اور امرا اپنی محفلوں میں رنگ بھرنے کے لیے ظرافت کی انتہائی ادنا و پست سطح پر نظر آتے ہیں، جو کہ مسلمانوں کے قومی تنزّل کا ثبوت ہے۔ اب یہ پتا نہیں کہ تنزّلِ اخلاق کی وجہ سے تنزّلِ قومی ہے یا تنزّلِ قومی کے سبب سے تنزّلِ اخلاق۔ یہ اُن کے مقالے کی تمہید کا خلاصہ ہے۔
            بہرکیف حالی و شبلی دونوں ہی نے مدرسوں کی تہلیل و تسبیح کی مذہبی فضاوں میں تعلیم پائی تھی، اس لیے جہاں عروسِ ادب کی مشاطگی اُن کے فن کا فریضہ تھا وہیں دین و ملّت کی غم خواری اُن کا لازمہ حیات ٹھہرا تھا۔ اب ہمیں اُن سے دوسرے خندہ فروشوں کی سی ہنسی ٹھٹول کی توقع تو رکھنی نہیں چاہیے۔ ان زعماے ادب کے یہاں ظرافت کا عنصر مطائبات اور شگفتگیِ بیان کی حد سے آگے نہیں بڑھتا۔ ظاہر ہے ع عشق کے درد مند کا طرزِ کلام کچھ اور ہے۔
            مولانا حالی نے اپنی ایک تحریر (مدّعیانِ تہذیب کی بداعمالیاں) کے ضمن میں Free Trade کا ذکر کرتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ متمدن قومیں جن حکمتوں اور تدبیروں اور جائز و ناجائز طریقوں سے دنیا کی دولت گھسیٹتی جارہی ہیں، اس میں اور اگلے زمانے کی لوٹ کھسوٹ میں کوئی خاص فرق نہیں رہ گیا ہے۔ اس کی مثال میں اُنھوں نے ایک نہایت حاذق طبیب اور محمد شاہ کے معالج حکیم علوی خاں کا یہ دل چسپ قصّہ بیان کیا ہے کہ اُس کے زمانے میں ایک عطّار بھی اُس کے نسخے دیکھتے دیکھتے علاج کرنے لگا تھا۔ لوگوں نے اُس کے بارے میں علوی خاں کو بتایا اور کہا کہ جس قدر مریض آپ کے علاج سے اچھے ہوتے یا مرتے ہیں، اسی کے قریب اُس کے علاج سے بھی اچھے ہوتے یا مرتے ہیں۔ علوی خاں نے اُنھیں جواب دیا: ”بلے! لاکن من بقاعدہ می کُشم و آں قرّم ساق بے قاعدہ می کُشد۔“ (ہاں! لیکن میں (اُصولِ طب کے) قاعدے سے مارتا ہوں اور وہ قرم ساق بے قاعدہ مارتا ہے۔)
            اب اس قصّے کو پرے رکھیں تو بھی اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ خود حالی اپنی ساری زندگی ’ازقاعدہ نہ باید گذشت‘ پر کاربند رہے۔ اُنھوں نے اپنی زندگی کی چند منتخب نیکیوں، چند قدروں اور چند اُصولوں کے دائرے سے باہر قدم رکھنا کبھی گوارا نہیں کیا۔ اردو شاعری کی اصلاح کرنے کے اپنے پیغام کو عام کرنے کا بیڑہ اُٹھایا تو اپنے کلاسیکیت سے رچے بسے طرزِ سخن کی طرف مُڑ کر بھی نہ دیکھا۔ اُن کے برعکس شبلی کے یہاں مفاہمت بھی ہے اور لچک بھی۔ یہاں تک کہ تضاد سے بھی تعلق نبھانے کا ظرف موجود ہے۔ چودھری نظیر الحسن رضوی (صاحبِ ’المیزان‘) حضرت امام حسن کے حالاتِ مبارک لکھ رہے تھے۔ شبلی نے اُنھیں خط میں تحریر کیا:
            ” آپ حضرت امام حسن کے حالاتِ مبارک لکھ رہے ہیں۔ بہتر اور باعثِ اجر ہے، لیکن پہلے جناب امیر کا درجہ تھا اکثر اہلِ سنّت اُن کے بہت سے فضائل سے بے خبر ہیں۔ میں حضرت عمر کے بارے میں سنّی اور حضرت امیر کے بارے میں شیعہ ہوں۔
            ۲۹۸۱ءمیں سرسید کے دورہ حیدرآباد کے وفد میں حالی اور شبلی شامل تھے۔ وہاں ایک مشاعرے میں جب داغ نے اپنی منتخب غزل ع ’اِدھر لا ہاتھ، مٹھی کھول، یہ چوری یہیں نکلی‘ اپنے ہنگامہ خیز انداز میں شروع کی تو حاضرین بے خود ہوگئے تھے۔ شبلی نے حالی کو مشورہ دیا کہ ’وہ محفل کا رنگ دیکھ کر اپنی کوئی قدیم چیز سنائیں، یہاں نئی شاعری کا موقع نہیں۔‘ حالی نے اُنھیں انکار کرتے ہوئے جواب دیا تھا کہ ’از قاعدہ نہ باید گذشت‘ اور اپنی نئے طرز کی غزل پڑھی تھی :
ہے عارفوں کو حیرت اور منکروں کو سکتہ
ہر دل پہ چھار ہا ہے رعبِ جمال تیرا
اور سچ تو یہ ہے کہ اپنا رنگ جمادیا تھا۔
            مولانا حالی کی نواسی اور اردو کی مشہور مصنفّہ صالحہ عابد حسین نے مولانا حالی کے ایک منہ چڑھے ملازم عطا اللہ کا ذکر کیا ہے۔ نہ صرف مولانا نے اُسے مدّت العمر تک جھیلا تھا بلکہ اُن کے انتقال کے بعد وہ جب تک جیتا رہا تھا، خواجہ سجاد حسین (فرزندِ حالی) سے متوسّل رہا تھا۔ وہ اتنا اونچا سنتا تھا کہ اُسے کچھ کہنے کے لیے گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخنا پڑتا تھا۔ ایک ٹانگ بیکار تھی، ہاتھوں میں الگ نقص تھا۔ بدمزاج اور غصیل اتنا کہ خدا کی پناہ۔ کوئی کام ڈھنگ سے نہ کرپاتا تھا، اس پر بھی کبھی اپنی خطا یا نااہلی کو تسلیم نہ کرتا تھا۔ شاید اُس کے اِن ہی نقائص کی وجہ سے حالی اُ س کے ساتھ خاص ہم دردی اور محبت سے پیش آتے تھے اور کبھی نہ ڈانٹتے تھے۔ مولانا وحید الدین سلیم پانی پتی نے برسوں تک عطااللہ کے کردار اور مولانا حالی کے سلوک کا مشاہدہ کیا تھا۔ ایک مرتبہ کہنے لگے، ”اگر علاوہ اور خوبیوں کے عطا اللہ اندھا بھی ہوتا تو بلا مبالغہ مولانا کے نقطہ خیال سے اُس میں ایک اور خوبی کا اضافہ ہوجاتا،“گویا وہ ہمہ صفت موصوف ہوتا۔
            شبلی ایسی فرشتگی کے حامل نہیں تھے، لیکن دل آسائی کے جذبے سے محروم بھی نہ تھے۔ علی گڑھ کے قیام کے دوران ایک بار اُنھیں کشمیر جانے کی سوجھی۔ اُن کی خواہش تھی کہ مولوی سمیع کو اپنے ساتھ لے جائیں۔ اُنھیں لکھا کہ ’سفر خرچ تمھارے ذمے، باقی اقامت کا خرچ میرے ذمّے۔ علاوہ میری ہم رہی وہم دردی کے ، کشمیر کا دیکھنا کچھ کم نہیں۔ یہاں نہ دیکھا تو قیامت میں اگرچہ اس کا نمونہ دیکھنے میں آئے گا، مگر اصل ونقل میں پھر فرق ہے۔ کشمیر جانے سے ممکن ہے تمھارے ظاہری رنگ میں فرق آجائے۔ یعنی ’نتواں شستن از زنگی سیاہی‘ غلط ہوجائے۔“ ملحوظ رہے کہ مولوی سمیع کا رنگ خاصا سیاہ تھا۔
            اس خط سے ظاہر ہے کہ شبلی اگرچہ آخرت اور اُس کی نعمتوں کے قائل تھے، لیکن اُنھیں دنیوی جنت سے بھی انکار نہ تھا۔ بلکہ کچھ زیادہ ہی قائل تھے، بالخصوص جب کوئی جنتِ نگاہ ہم دم بھی ہو۔ ایک خط میں مولانا حبیب الرحمان شروانی کو بمبئی کی رنگین صحبتوں کا ذکر کرتے ہوئے اُن کا قلم یوں کیف بار ہوتا ہے۔ ”بہشت سے آپ کو خط لکھ رہا ہوں۔ افسوس آپ ایمان بالغیب کو ایمان بالحضور پر ترجیح دیتے ہیں۔
            شبلی اگر شبلی نہ ہوتے تو تسنیم رہتے اور تب بھی جنت کا ساتھ نہ چھوڑتے۔ حالی اگر حالی نہ ہوتے تو خستہ ہوتے، تب نہ جانے اُن کا کیا حال ہوتا اور تب شاید اُن کی خستگی کی داد دینا بھی محال ہوتا۔ اچھا ہوا کہ وہ حالی ہوگئے اور شاید اسی باعث اب تک اردو ادب کی تاریخ میں ان کا سکّہ رواں ہے۔ جب علی گڑھ کالج کے ڈیپوٹیشن میں سرسید کے ساتھ وہ حیدرآباد گئے تھے، وہاں سروقار الامرا منصب وزارت پر فائز تھے۔ اُنھوں نے حالی کے پچھتّر روپیوں کے وظیفے میں اضافہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ ’سکّہ  حالی کے مطابق آپ کی رقمِ وظیفہ میں پچیس روپیوں کا اضافہ کیا جاتا ہے۔‘ پھر مسکرا کر فرمایا کہ ’سکّہ حالی‘ کے معنی مجھے آج ہی معلوم ہوئے۔ ”حالی نے جواب دیا: ’مجھے بھی اپنے تخلص کی قدروقیمت کا آج احساس ہوا کہ اب یہ ٹکسالی ہوگیا ہے۔
اپنے اس تخلص پر تو حالی نے ایک دہقاں کی بیداد کو بھی داد کے طور پر قبول کرلیا تھا۔ جب وہ ایک بار سہارن پور میں ایک معزز رئیس اور زمین دار کے یہاں آئے ہوئے تھے اور محوِ استراحت تھے۔ وہاں ایک کسان چلا آیا۔ رئیس نے اُسے حکم دیا کہ ’یہ جو بزرگ آرام کررہے ہیں، اُن کو پنکھا جھل۔‘ وہ بے چارہ پنکھا جھلنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اُس نے چپکے سے رئیس سے پوچھا کہ ’یہ بزرگ کون ہیں؟ میں نے ان کو پہلی مرتبہ دیکھا ہے۔‘ رئیس نے جواب دیا: ”کم بخت تُو ان کو نہیں جانتا! سارے ہندستان میں ان کا شہرہ ہے۔ یہ مولانا حالی ہیں۔‘ یہ سن کر غریب کسان نے بڑے تعجب سے کہا کہ ’جی کبھی ہالی (ہل چلانے والا) بھی مولبی ہووے ہیں!‘ مولانا حالی آنکھیں بند کیے لیٹے تھے۔ یہ فقرہ سُن کر پھڑک اُٹھے اور رئیس سے فرمایا: ”حضرت! اس تخلص کی آج داد ملی ہے۔
            بیگم صالحہ عابد حسین جب مولانا حالی کی سوانح ’یاد گارِ حالی‘ لکھ رہی تھیں تو وہ اُن کے حالات کی جستجو میں مولانا ابوالکلام آزاد سے بھی رجوع ہوئی تھیں۔ مولانا آزاد نے اُنھیں مولانا حالی کے تعلق سے چند دل چسپ واقعات تحریر کردیے تھے، جو ’یاد گارِ حالی‘ کے آغاز میں ’عطیہ ابوالکلام آزاد‘ کے طور پر شامل ہیں۔
            مولانا آزاد نے ذکر کیا ہے کہ سرسید کے مذہبی نظریات میں اُن کا یہ موقف معلوم و معروف ہے کہ دینی تعلیم کو قانونِ فطرت کے خلاف نہیں ہونا چاہیے۔ اسی بِنا پر اُنھیں طنزاً ’پیرِ نیچر‘ اور اُن کے مقلدوں کو ’نیچری‘ کہا جانے لگا تھا۔ شبلی خود کو اُن کے مقلدوں سے الگ رکھتے تھے۔ جس زمانے میں سرسید سورہ اسریٰ کی تفسیر لکھ رہے تھے، ایک موقع پر مولانا حالی بھی موجود تھے اور مولانا شبلی بھی۔ واقعہ اسریٰ کی بحث میں حضرت عائشہ کے اس مسلک کا ذکر آیا کہ وہ حضور کے معراجِ جسمانی کی قائل نہ تھیں۔ سرسید نے بھی یہی مسلک اختیار کیا تھا۔ مولانا شبلی ازرہِ ظرافت بول اُٹھے کہ ’معلوم ہوتا ہے، حضرت عائشہ بھی نیچری تھیں، ورنہ معراجِ جسمانی سے انکار کیوں کرتیں؟‘ یہ سنتے ہی مولانا حالی نے کہا، ”اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نیچری ہونا بڑی ہی فضیلت کی بات ہے کہ حضرت عائشہ تک اس جرگے میں داخل ہیں، لیکن مولانا کل تک تو آپ بڑے اصرار سے کہہ رہے تھے کہ میں نیچری نہیں ہوں۔ اچھا، اب معلوم ہوا، یہ آپ کا انکسار تھا!“
             سرسید کی تعلیمی تحریک اور اُن کے نظریات سے وابستہ ہونے کے بعد مولانا حالی نے سرسید کے رفقا اور متبعین میں سب سے موثر اور فعال کردار ادا کیا تھا۔ اسی وابستگی کے دور میں جو کہ اخیر دم تک رہی، اُن کے دو انتہائی اہم اور نمایاں کارنامے ’مسدس حالی‘ ۹۷۸۱ءمیں اور ’مقدمہ شعر و شاعری‘ ۳۹۸۱ءمیں منصّہ شہود پر آئے۔ مسدس میں اُنھوں نے مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان رقم کی ہے اور خاص طور پر اُن کے اُن معائیب کو بیان کےا ہے جو اُن کی زار وزبوں حالت کا سبب بنے اور مقدمے میں اُنھوں نے روایتی اردو شاعری کے تقریباً کُل دفتر کو رد کرتے ہوئے مقصدی، تعمیری اور حقیقی ادب کا ایک بالکل نیا پیغام دیا ہے۔ ان دونوں ہی کتابوں نے ہماری ادبی تاریخ میں روایت پسندوں اور لکیر کے فقیروں کی طرف سے سب سے زیادہ جارحانہ مخالفت کا سامنا کیا تھااور پھر حالی کا حامیِ سرسید ہونا بھی ایک ناقابلِ معافی جرم تھا۔ نتیجتاًاُن کی مخالفت میں جہاں خالی، خیالی، ڈفالی، موالی اور عوالی جیسے تخلصوں سے لیس ہرزہ گویوں کا غول کا غول سب وشتم کے تیر چلانے میں مسلسل مصروف تھا، وہیں کچھ ثقہ حضرات بھی شامل تھے۔ ’بہار پنچ‘، ’مشیرِ قیصر‘، ’مشرق‘، اور ’ریاض الاخبار‘ نے اپنے اپنے محاذ قائم کرلیے تھے، لیکن اصل میدانِ کار زار ’اودھ پنچ‘ نے گرم کر رکھا تھا۔ ’اودھ پنچ‘ کے قلمی جرنیلوں میں اکبر الہٰ آبادی اور ابوالمجدّد دیسنوی بھی شامل تھے۔ ۴۰۹۱ءمیں ابوالمجدد دیسنوی نے ایک فکاہیہ ’النامہ‘ لکھا تھا اور نیچری لفظوں کی ایک فرہنگ بھی مرتب کی تھی۔ ’اودھ پنچ‘ نے اس نوٹ کے ساتھ کہ ’عروسِ نیچریت کا حسن جہاں سوز تھا۔ نیچری کانفرنس کی آرایش دشمنِ ایمان و آگہی تھی۔ پیرِ نیچر کا وعظ رہزنِ تمکین و ہوش تھا۔ نیچری احباب، نیچری تہذیب، نیچری شاعری سب کفر بہ ساماں تھی‘، نیچری فرہنگ کا نمونہ شائع کیا تھا۔ آپ بھی ملاحظہ کیجیے:
            نیچرل شاعر و شاعری: وہ جو عروض سے نابلد، قوافی سے انجان ہو، مگر لن ترانی کے میدان میں شیرِ زبان اور ایجادِ گندہ پر نازاں۔
            نیچرل نثّاری: وہ جس کی بناوٹ حسن فروشوں کی کشش رکھتی ہو۔ ٹھیٹ ہندی کی بھرمار اور غیر مانوس لفظوں کا طومار ہو۔
            نیچرل ترجمہ: دہقانی جنات اور وہمی شیاطین کی بولیاں۔ اجنبی زبانیں، مہمل تاویلیں اور اس پر ہم چومن دیگرے نیست کی احمقانہ صدائیں۔
            نیچرل تعلیم: الحادو دہریت کی تربیت، خدا کے وجود سے انکار، پیغمبری سے بے خبری
            نیچرل ترقی: مالِ مفت کی تلاش ریفارمری کا ادّعا جدّت کا فریفتہ۔ اجتہاد کا شیفتہ۔ ریفارمیشن قائم کرنے کا دل دادہ۔
            نیچرل ملّا: نیمے دروں نیمے بروں۔ نہ نیچرم نہ مسلماں۔ نہ صوفیم نہ جہود، یعنی معجونِ مرکب۔
            نیچرل شمس العلما: لکھے نہ پڑھے نام ملّا فاضل۔ چارپاے بروکتا بے چند
            (’اودھ پنچ‘ ۹۲دسمبر۴۰۹۱ء، منقول از ’حالی بہ حیثیت شاعر‘)
            مولانا حالی نے بہت کم کسی کے جواب میں قلم اُٹھایا۔ اُن کے ۶۰۹۱ءمیں لکھے ایک مکتوب میں اُن کے ایک نامکمل فارسی ’النامہ‘ کا ذکر ملتا ہے۔ اگر وہ دیسنوی کے النامے اور فرہنگ کے جواب میں نہ بھی لکھا گیا ہو تب بھی وہ دونوں تحریر یں اُن کے پیشِ نظر ضرور رہی ہوں گی۔ مولانا کے طنز کی کاٹ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اور آج کے حالات میں بھی کافی حد تک بامعنی نظر آتی ہے:
            المذہب: اعلانِ جنگ
            الدین: تقلید آباءو اجداد
            المولوی: آں کہ جمیع مسلماناں را از دائرہ اسلام خارج می کند۔
            الواعظ : آں کہ در تفریقِ بین المسلمین خطا نہ کُند۔
            الانجمن ہاے اسلامیہ: سبزہ برشگال۔
            الامیر: آں کہ تہی دست و قرض دار باشد۔
            الرئیس: آں کہ از ریاست بے خبر باشد۔
            الیونیورسٹی: کارخانہ کلرک سازی۔
            الامتحان: آزمائشِ لیاقتِ ممتحنان۔
            الکمیشن: وجہ موجہ براے فیصلہ یک طرفہ
            العلی گڑھ: پارٹیِ شہیدِ وفا۔
            مولانا شبلی نے بھی اپنی کئی کتابوں کے سلسلے میں علمی و ادبی محاذ آرائی کا سامنا کیا تھا۔ ان کی ایک ’موازنہ ‘ ہی کے خلاف کئی کتابیں نکلیں اور یہ بات ثابت کی گئی کہ انھوں نے دبیر پر انیس کی فوقیت ثابت کرنے کے لیے کئی مقامات پر حد سے تجاوز کیا ہے، لیکن آخر میں ادبی دنیا نے تسلیم کرلیا کہ اُن کا نقطہ نظر غلط نہیں تھا اور انیس، دبیر پر فائق ہیں۔ ’موازنہ‘ میں اُنھوں نے دبیر شکنی میں جابجا طنز کے وار کیے ہیں۔ ایک مقام پر اُن کے بے محابا طنز نے دبیر کے ایک بند کے مندرجہ ذیل ٹیپ کے شعر کی جو درگت بنائی ہے، اُس کا یہاں دہرانا لُطف سے خالی نہ ہوگا۔
شہرہ ہے یہ تائیدِ شہِ جنّ و ملک سے
مضمون مرا گھر پوچھتے آتے ہیں فلک سے
            شہرہ بھی انتہا کا ہے اور مضمون کو گھر پوچھنے کی بھی ضرورت ہے۔ شاید یہ مراد ہو کہ صرف نام مشہور ہوچکا ہے، لیکن چوں کہ مضامین کو کبھی مرزا صاحب سے روشناسی نہیں ہوئی اور آستانہ مبارک تک پہنچنے کی نوبت نہیں آئی، اس لیے گھر کا پتا پوچھنا پڑا۔
            ہمارے یہ ذی احترام بزرگ بھی اپنی تصنیفات پر اپنے قدر دان اور ادب شناس معاصرین کی رایوں اور تبصروں کے آرزو مند رہا کرتے تھے، لیکن آج کل کے ادیبوں کی اپنی مدح و تحسین کی گرسنگی سے وہ بہت دور تھے۔ ذرا اُن کے اعتدالِ ظرف اور منصفیِ مزاج کو ملاحظہ کیجیے۔ مولانا حبیب الرحمان شروانی نے مولانا شبلی کی کتاب ’شعرالعجم‘ پر ایک بے حد تعریفی ریویو لکھا تھا۔ اُسے ملاحظہ کرکے شبلی نے اُنھیں لکھا:
            ”آپ نے ’شعر العجم‘ کی وہ مدح سنجی کی ہے کہ میں نے خود اس پر دوبارہ اس لحاظ سے نظر ڈالی کہ یہ خطّ و خال اُس میں ہیں بھی یا اس میں بھی چشمِ مجنوں کی قوتِ اختراع ہے!“
            ایم مہدی حسن (مہدی افادی) اور شبلی، دونوں ہی ایک دوسرے کی طرزِ تحریر کے مداح تھے۔ مہدی نے اپنے ایک خط میں اُن کے کسی مضمون کی داد دی تو شبلی نے اُنھیں تحریر کیا، ”آپ کا تو خط بھی ایک دل چسپ آرٹیکل ہوتا ہے، لیکن اگر اس کی داد دوں تو ہم دونوں ’حاجی‘ ہوئے جاتے ہیں۔
            جب ’حیاتِ جاوید‘ شائع ہوئی تو نواب محسن الملک نے اُس پر تبصرہ لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ اسی کا ذکر کرتے ہوئے مولانا حالی نے ایک دوست کو اپنے خط میں لکھا تھا کہ ’مگر اُن کا ارادہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ہر مسلمان حج کا ارادہ رکھتا ہے۔‘ ’حیاتِ جاوید‘ پر جب مولوی عبدالحق کا ریویو آیا تو اُنھیں لکھتے ہیں: ”حیاتِ جاوید‘ پر آپ کا ریویو دیکھا۔ جو کلمات بہ تقاضائے محبت تصنیف اور مصنف کے حق میں بے اختیار آپ کے قلم سے ٹپک پڑے ہیں اگرچہ میں اپنے تئیں ان کا مستحق نہیں سمجھتا، لیکن بہرحال آپ کا شکریہ ادا کرنا اپنا فرض جانتا ہوں۔ یہ وہی خصلت ہے جس کو اہلِ ایران ’یارفروشی‘ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں اور ہماری زبان میں ’چھِڑک چھِڑک کر بیچنا‘ کہتے ہیں۔
            ہمارے یہ بزرگ بھی ناشروں کے ناز نخروں سے نالاں رہا کرتے تھے۔ مولانا شبلی نے ’نامی پریس کان پور‘ کی حسنِ طباعت دیکھ کر ’الفاروق‘ وہیں چھپوائی تھی۔ منشی رحمت اللہ رعد کتاب چھاپ کر دینے میں مہینوں کیا کبھی کبھی برسوں لگا دیتے تھے۔ ’سوانح مولانا روم‘ اُنھیں اس تاکید کے ساتھ دی گئی تھی کہ چھے مہینے میں مل جائے لیکن بقول عبدالرزاق کان پوری، جو کہ شبلی کی کتابوں کے پروف ریڈر اور نگراں ہوا کرتے تھے، کئی سال لگ گئے۔ شبلی نے اُن سے کہا کہ ’وہ توبہ کرتے ہیں جو ا ٓیندہ کبھی رعد کے یہاں کتاب چھپوائیں، بس یہ کتاب نکل آئے۔‘ جب ’سوانح مولانا روم‘ چھپ گئی تو شبلی اگلے ہی سال دوسری کتاب لے آئے۔ کان پوری مرحوم نے اُنھیں یاد دِلایا کہ وہ توبہ کرچکے ہیں۔ شبلی نے جواب دیا: ”میری حالت اُس حاملہ عورت کے مشابہ ہے جو دردِ زہ کی تکلیف سے مجبور ہوکر عہد کرتی ہے کہ اب وہ کام نہ کرے گی جو باعثِ دردِ زہ ہو، لیکن وضعِ حمل کے بعد وہ اپنے عہد پر قائم نہیں رہتی۔ یہی میرا اور رحمت اللہ رعد کا حال ہے۔ جب کتاب طبع ہوکر آجاتی ہے تو پچھلی باتیں بھول جاتا ہوں۔
            حالی و شبلی دونو ںہی ایک دوسرے سے محبت و اخلاص رکھتے تھے اور ایک دوسرے کی رایوں اور مشوروں کی قدر کرتے تھے۔ اگر شبلی کو کوئی چشمک تھی تو وہ حالی سے نہیں، حالی کے ممدوح سرسید سے تھی۔
            مولانا شبلی نے سید سلیمان ندوی کو بتایا تھا کہ جب جاحظ کی کتاب ’البیان و التبیین‘ نئی نئی چھپ کر آئی تو وہ اُنھیں انتہائی بے ترتیب و پراگندہ معلوم ہوئی۔ رات کو مولانا حالی آئے اور وہ کتاب مانگ کر لے گئے۔ صبح کو واپس کی تو فرمایا: ”یہ تو نثر کا حماسہ ہے۔“ بقول شبلی ’اُن کے اس فقرے نے کتاب کے موضوع کو اُن کے سامنے آئینہ کردیا اور اُس کی ترتیب کا وہ پہلو اُن کے سامنے آگیا جو پہلے واضح نہ ہوا تھا۔ اُنھوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ جب تک کافی مواد و تحریر موجود نہ ہو، و ہ ایک قدم بھی نہیں چل سکتے، مگر حالی کی نکتہ آفرینی اس کی محتاج نہیں۔ اُن کی دقیقہ رس اور نکتہ سنج طبیعت ایسی جگہ سے مطلب نکال لیتی ہے جہاں ذہن بھی منتقل نہیں ہوتا اور یہ کمالِ اجتہاد کی دلیل ہے۔
            مولانا حالی، مولانا شبلی کی تصنیفات کو شوقیہ منگواتے تھے اور وکٹوریا میموریل لائبریری (پانی پت) میں رکھتے تھے، جو اُنھوں نے اہلِ شہر کے چندے سے قائم کی تھی۔ ایک بار مولانا کی چند کتابیں لائبریری کے لیے منگوائیں اور اُنھیں لکھا کہ ’گو خود آنکھوں سے معذور ہوں لیکن دوسروں کے لیے منگوائی ہیں۔ع
قحبہ چوں پیر شود پیشہ کُند دلّالی
ایک بار کافی دنوں بعد مولانا شبلی نے مولانا حالی کو خط لکھا اور غالباً اُن کے تغافل کی شکایت کی۔ حالی نے اُنھیں جواباً تحریر کیا:
            ”ایک مدّت کے بعد عنایت نامے کے ورود نے میری آنکھوں کے ساتھ وہی کام کیا جو پیراہنِ یوسف نے چشمِ یعقوب کے ساتھ کیا تھا۔ میری کوتاہ قلمی سے اگر آپ یہ سمجھے ہوں تو کچھ تعجب نہیں کہ میں آپ کے حقوقِ صحبت کو بھول گیا ہوں۔ مگر مولانا یہ تغافل اسی قسم کا ہے جس کی نسبت کہا گیا ہے:ع
تغافلے کہ کم از صد نگاہ حسرت نیست
            مولانا شبلی کو اپنے رفقا میں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا شروانی اور ایم مہدی حسن سے خاص ذہنی قربت رہی تھی۔ ایک بار اُنھیں مولانا آزاد کے اجمیر جانے کی خبر ملی تو اپنے خط میں یوں دریافت کرتے ہیں: ”اجمیر کب تک جائیے گا؟ جغرافیہ تواس قدر ضرور معلوم ہوگا کہ اس راہ میں لکھنو بھی آتا ہے!“ مولانا شروانی سے منقول ہے کہ حادثہ لنگِ پا کے بعد کے زمانے میں ایک بار مولانا شبلی علی گڑھ کالج میں لکچر کے لیے مدعو کیے گئے، کافی تاخیر سے پہنچے۔ تاخیر کا عذر بیان کرکے فرمایا: ”یہ عذر عذرِ لنگ نہ خیال فرمایا جائے۔“ وہ ملاقاتیوں سے گھبراتے تھے۔ بمبئی اُنھیں اس بِنا پر بھی پسند تھا کہ یہاں کوئی اُن کی خلوت گزینی میں مخل نہ ہوسکتا تھا۔ بمبئی سے ایم مہدی حسن کو اُنھوں نے ایک بار لکھا تھا: ”یہاں شبلی پڑا پھرتا ہے اور کوئی جانتا بھی نہیں کہ یہ شبلی ہے۔
            پھلوں میں مولانا شبلی کو نارنگیاں کافی پسند تھیں اور انناس ناپسند تھا۔ اُن کے ایک عزیز شاگرد نے شاید اُنھیں انناس بھیجا تھا یا بھیجنے کا عندیہ ظاہر کیا تھا، جس کے جواب میں اُنھوں نے لکھا:
            ”ہاں مجھ کو نارنگیاں بہت پسند ہیں، لیکن تمھاری تکلیف کے لحاظ سے کبھی تکلیف نہیں دی۔ میں آدمی تو ہوں، مگر ’انا النّاس‘ کو پسند نہیں کرتا۔“ (’انناس‘ کو ظرافتاً ’انا النّاس‘ لکھا ہے، جس کے معنی ہیں ’میں آدمی ہوں‘)
            حالی نے ’یادگارِ غالب‘ میں ذکر کیا ہے کہ ’ایک دن غروبِ آفتاب سے قبل مرزا غالب شام کا کھانا کھارہے تھے اور کھانے میں صرف شامی کباب تھے۔ حالی بھی اُن کی خدمت میں حاضر تھے اور اُن کے سامنے بیٹھے رومال سے مکھیاں جھل رہے تھے۔ مرزا غالب نے اُن کی سعادت مندی کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا: ”آپ ناحق تکلیف فرماتے ہیں۔ میں اِن کبابوں میں سے آپ کو کچھ دوں گا نہیں۔
            گو کہ مولانا شبلی کو ایک صوفی کا نام عطا ہوا تھا، لیکن انھوں نے دل ایک عاشق کا پایا تھا اور طبیعت میں نخوت و افتخار پسندی شامل تھی۔ حالی کی سپاٹ زندگی کو نہ تو کسی عطیہ فیضی کے سے تعلق کی شیفتگی و دشادمانی حاصل ہوئی اور نہ ہی اُنھیں کبھی حریفانِ ندوہ کی سی شورش و شاطری کا سامنا کرنا پڑا۔ شبلی کی زندگی میں عشق و حریفائی (اب وہ حریفائی چاہے سرسید کی ہو یا حریفانِ ندوہ کی) نے ایک جرّت و دل کشی بھردی تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کے مکاتیب میں جابجا اُن کی زندہ دلی اور مکتوب الیہ سے تعلق کی سرشاری چھلکتی ہے، جب کہ حالی کی مکتوب نویسی بے کیف اور اداے فرض کے احساس سے بوجھل ہے۔
            اب تو ندوے کے بندگانِ عالی بھی بادل نخواستہ سہی عطیہ و شبلی کے قصّے کو تسلیم کررہے ہیں۔ دراصل اپنے قریبی احباب کو لکھے شبلی کے نجی خطوط نے کچھ بھی راز نہ رکھا تھا۔ مولانا شروانی کو لکھے ایک خط میں اُنھوں نے اپنے نظریہ زندگی کا یوں اظہار کیا تھا کہ ’عشق مجازی، عشق حقیقی کا پُل ہے۔‘ اور اُن ہی کو لکھے ایک اور خط میں اپنے عاشقانہ مزاج کا یوں اعلان کیا تھا کہ ’لوگ اکبری یا عالم گیری ہوتے ہیں، لیکن میں جہاں گیری ہوں۔‘ رہے عطیہ کے نام لکھے خطوط ، تو اُن کے اسلوب میں جو لطافت اور زندگی کی حرارت ہے وہ اُن کی دوسری تحریروں میں نہیں ملتی۔ جب عطیہ نے اُنھیں بنا اطلاع دیے ایک یہودی سیموئل رحیمن سے شادی کرلی تھی تو اُنھوں نے ایم مہدی حسن کو لکھے ہوئے ایک خط میں اپنے دل کا درد اُنڈیلتے ہوئے بھی تحریر کی لطافت کو ہاتھ سے نہ جانے دیا تھا۔
قرآن پاک میں یہودی ذلیل و خوار بتائے گئے ہیں لیکن کیا ۵دسمبر ۲۱۹۱ءکے بعد بھی! جس دن عطیہ ایک یہودی کو ہاتھ آئی۔ مشہور کیا گیا ہے کہ وہ مسلمان ہوگیا، اس لیے تو نہیں کہ ع
میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلمان ہوگیا
معاملاتِ دل کی گفتگو میں اکثر اُن کا یہی انداز نظر آتا ہے۔
            ایم مہدی حسن نے مولانا شبلی کو اپنے عقدِ‘ ثانی کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ’مدت کے بعد وہ جنسِ لطیف ہاتھ آئی ہے جو آپ لوگوں کو دوسری دنیا میں ملے گی۔‘ مولانا نے اُنھیں جواب میں لکھا، ’آپ کے احرامِ جدید کی داد دوں یا رشک کروں!‘ شبلی چاہتے تھے کہ بیگم مہدی اُن سے پردہ نہ کریں، لیکن بیگم مہدی اور مہدی حسن کو یہ منظور نہ تھا۔ ایک دوسرے خط میں بیگم مہدی کو اس انداز سے سلام بھجوایا کہ ’حرم سے گو اب تک نامحرم ہوں، لیکن ایمان بالغیب کا سلام کہہ دیجیے گا۔
            بہت کم مواقع پر فرشتہ صفت حالی ’بشریت‘ یا ’خوے آدم‘ کے اظہار میں کھُلتے ہیں۔ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی رقم طراز ہیں کہ ۹۰۹۱ءیا ۰۱۹۱ءکی بات ہے، جب مولوی محمد یحیٰ تنہا نے مولانا حالی کو اپنی شادی میں پانی پت سے بُلایا تھا۔ شادی کی تقریب کے بعد مولانا حالی، مولوی محمد اسماعیل میرٹھی اور چند دوسرے بزرگ آپس میں بیٹھے گفتگو کررہے تھے۔ مولوی محمد اسماعیل میرٹھی نے مسکراتے ہوئے مولوی محمد یحیٰ سے کہا، ’اب آپ اپنا تخلص بدل دیں، کیوں کہ اب آپ تنہا نہیں رہے۔“ اس پر مولانا حالی نے فرمایاکہ ’نہیں مولوی صاحب، یہ بات نہیں۔ ’تن ہا‘ تو یہ ابھی ہوئے ہیں۔‘احباب مولانا کی جودتِ طبع اور شگفتہ مزاجی پر کھِل اُٹھے تھے۔
            یہ اُن کی اپنی اپنی شخصیت اور پرورش کا فرق ہے کہ حالی نے دہلی میں اپنے پہلی بار کے ڈیڑھ برس کے قیام میں (جامع) مسجد کے زیر سایہ مدرسے میں اقامت اور حصولِ علم ہی سے غرض رکھی تھی اور کبھی نظر اُٹھا کر دلّی کالج تک کو دیکھا نہیں تھا۔ جب کہ شبلی حیدرآباد میں عید کے دن داغ سے ملنے جانکلے تھے تو داغ کے حرم سے ناگہانی طور پر چلی آئی پانزدہ (۵۱) سالہ نازنین و مطربہ (بقولِ شبلی ’بہ مثل جنت الفردوس کی حور‘بحوالہ کان پوری) کے ہوش رُبا نظارے کو بھی اپنی نظروں میں سمیٹ لائے تھے ۔
            نیک خو اور مصلحِ قوم حالی نے عورت میں صرف ماوں، بہنوں اور بیٹیوں کو دیکھا۔ کہیں اور توجہ کی بھی تو بیوہ کی مناجات سُناتے پائے گئے یا پھر اپنی پوتی کی دل بستگی میں یہ لکھتے ہوئے :
            ”کیا اچھی بات ہو کہ تم وہا ںسے ایسی موٹی تازی ہوکے آوکہ یہاں تمھیں کوئی پہچان نہ سکے اور تم قسمیں کھاکھا کے یقین دلاوکہ ’میں وہی ہوں‘۔“ اُن کا جامِ مے زم زم ہی سے بھرا رہا۔
            کوئی شخص صحیح معنوں میں ظریف الطبع نہیں ہوسکتا اگر وہ خود کے ہدفِ ظرافت بنائے جانے کی سہار نہ رکھتا ہو۔ ہمارے یہ دونوں بزرگ اس سلسلے میں بڑے کشادہ ظرف واقع ہوئے تھے۔ جیسا کہ محمد داود عباسی کے قصّے سے ظاہر ہوتاہے۔
            ایم اے او کالج کے ابتدائی عہد میں محمد داود عبّاسی وہاں کے ایک ہر دل عزیز طالب علم تھے۔ وہ نہ صرف قادر الکلام شاعر و ادیب تھے بلکہ غضب کے بذلہ سنج بھی تھے۔ مولانا ظفر علی خاں نے جو اُن سے جونیر تھے، اُن کے بارے میں لکھا تھا کہ ’مبداے فیاض سے ایک خاص ذوق مرحمت ہوا تھا۔ شعر فی البدیہ کہتے تھے اور ظرافت تو مرحوم کا خاص حصّہ تھی۔‘ مولانا محمد علی کے بقول ’داو د اگرچہ پرانی روش کے اور بزرگانہ وضع کے طالب علم تھے، لیکن وہی اپنے وقت میں طلبا کی سب سے ممتاز جماعت کے سردار بھی تھے۔ مولانا حالی کی ایک مشہور غزل ہے :
اُن کے جاتے ہی کیا ہوگئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت
اور اس غزل کا مقطع ہے :
اُن کو حالی بھی بُلاتے ہیں گھر اپنے مہماں
دیکھنا آپ کی اور آپ کے گھر کی صورت
            داود عباسی اُن دنوں اپنی تعلیم ختم کرکے علی گڑھ کالجیٹ اسکول میں ٹیچر لگے ہوئے تھے۔ اُنھوں نے مولانا حالی کے مقطع کی ایسی شوخ تضمین کی کہ اُن کے مقطع کا بھٹّا بیٹھ گیا ۔ذرا ملاحظہ کیجیے:
گر کرے قصد کسی کام کا دل میں انساں
پہلے یہ دیکھے وہ اس کام کے ہے بھی شایاں
سُن کے لوگوں سے کہ وہ آئے تھے داود کے ہاں
اُن کو حالی بھی بُلاتے ہیں گھر اپنے مہماں
دیکھنا آپ کی اور آپ کے گھر کی صورت
حالی نے یہ تضمین سُنی تو بڑی خوش ظرفی کا اظہار کیا۔ وہ جب علی گڑھ آئے تو داود کو ملاقات کے لیے بُلایا۔ اُس کی تضمین کی بے انتہا تعریف کی اور اپنے دیوان کی درجہاول کی ایک جلد تحفتاً عنایت کی۔
            مولانا حالی ہی پر موقوف نہیں داود عباسی نے مولانا شبلی کو بھی نہیں بخشا تھا۔ مولانا محمد علی سے مرقوم ہے کہ علی گڑھ کالج میں ایک خاص مدّت کے لیے ہر ’نسل‘ میں ایک طالب علم کو ’بوم‘ کا لقب عطا ہوتا تھا۔ ایک بار اس نسل کا ’بوم‘ مولانا شبلی کا شیدائی نکلا۔ جب کالج کا گروپ فوٹو کھینچا جانے لگا تو حضرتِ بوم فوراً مولانا شبلی کی کرسی کے پیچھے جاکر کھڑے ہوگئے۔ جب وہ گروپ فوٹو داود عباسی کے ہاتھوں میں آیا تو اسے دیکھ کر اُنھوں نے فی البدیہ ارشاد کیا:
آج کالج میں مچ رہی ہے دھوم
طلبہ کا ہے ہر طرف سے ہجوم
بول اُٹھی روحِ سعدیِ مرحوم
کس نہ آید بزیرِ سایہ بوم
الّا مولانا شبلیِ مخدوم
یہ دیکھنے کی بات ہے کہ اپنے طبعی اضمحلال اور عوارض کی سختی کے عالم میں بھی ایک نکتہ سنج ادیب اپنی شایستہ مذاقی کا دامن کس طرح تھامے رہتا ہے۔ اس تعلق سے دونوں بزرگوں کے ذیل کے واقعات ان کی شایستہ مذاقی کے شاہد ہیں۔ اگر کچھ فرق ہے تو اُن کی شخصیت کا فرق ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ حالی اپنی عمر کے تقریباً چوہتر ویں سال کے پڑاو پر تھے۔
            ۹۹۸۱ءمیں ایک بار مولانا شبلی سخت علیل ہوگئے تھے۔ اُن کے دوست مولانا حبیب الرحمان شروانی نے اُن کی عیادت کے لیے اعظم گڑھ آنے کا ارادہ ظاہر کیا تو مولانا شبلی نے اُنھیں جو خط لکھا، اس کے لفظ لفظ سے اُن کی دلی مسرت چھلکی پڑتی ہے:
            ”کیا واقعی آپ یہاں جلوہ فرما ہوں گے اور کیا درحقیقت ع میرے ویرانے میں ہوجائے گی دم بھر چاندنی۔ نامہ والا کو بار بار پڑھتا ہوں اور اس سے مخاطب ہوکر کہتا ہوں ع سچ سچ بتا یہ حرف ان ہی کے قلم کے ہیں!“
            بیگم صالحہ عابد حسین نے لکھا ہے کہ غالباً ۱۱۹۱ءمیں جب مولانا حالی بہ سبب ضعیفی و کم زوری کئی امراض کا نشانہ بنے ہوئے تھے اور بصارت سے تقریباً محروم ہوچکے تھے، مولوی عبدالحق نے اُنھیں اپنے جلد ہی ا ٓنے کی اطلاع دی۔ حالی نے جواباً اُنھیں اپنی اُن دنوں کی حالت اور زندگی سے مایوسی کی کیفیت کو بڑے ہی حزنیہ انداز میں مگر حسن اسلوب سے تحریر کیا تھا:
            ”آپ نے بہت جلد تشریف لانے کا وعدہ کیا ہے، مگر میں اپنی حالت کے لحاظ سے کسی کا یہ شعر پڑھتا ہوں :
خدا ہی جانے سحر ہو نہ ہو، جئیں نہ جئیں
شبِ فراق کئی احتمال رکھتی ہے
میں اپنی طرف سے تو اُس وقت تک زندہ رہنے کے لیے بہت کوشش کروں گا۔
            سید افتخار عالم مارہروی مولانا شبلی کی سوانحِ حیات لکھنا چاہتے تھے، لیکن مولانا نے اُنھیں منع کردیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ مارہروی کی لکھی ہوئی ڈپٹی نذیر احمد کی سوانح عمری ’حیات النذیر‘ اُنھیں پسند نہ آئی تھی۔ چند برس بعد (۴۱۹۱ءمیں) افتخار عالم دوبارہ رجوع ہوئے۔ مولانا شبلی نے اُنھیں باز رکھنے کے لیے بہ لطائفِ حیل یوں لکھا: ”میری لائف میرے بعد لکھیے گا، ورنہ مکمل کیوں کر ہوگی؟“ شومیِ قسمت، اسی برس اُن کی کتابِ زندگی تمام ہوئی۔ 
مصادر:
(۱) ’یاد گارِ حالی‘ (صالحہ عابد حسین)
(۲) ’تذکرہ حالی“ (شیخ محمد اسماعیل پانی پتی)
(۳) ’حالی بہ حیثیت شاعر‘ (شجاعت علی سندیلوی)
(۴) ’یادِ ایّام‘ (عبدالرزاق کان پوری)
(۵) ’مکاتیبِ شبلی
(۶) ’مکاتیبِ مہدی‘ (بیگم مہدی)
(۷) ’مطائباتِ شبلی‘ (مولانا جالب مظاہری)     
(۸) مقالہ : ’علی گڑھ کے دورِ اوّلین کی ایک عجیب و غریب شخصیت: شاعر و ادیب محمد داود عباسی مرحوم، (سبط محمود فاروقی) ’نگار‘، لکھنوجون ۶۵۹۱ئ۔
(۹) ’مکاتیبِ حالی‘ (نادر) (شیخ محمد اسماعیل پانی پتی)
(۰۱) مقالات حالی (حصہ اول)
(۱۱) موازنہ انیس و دبیر وغیرہ
***



سوانح نگاری اور علامہ شبلی نعمانی کا فنِ کمال

ڈاکٹرمحمد عبدالعزیز سہیل
لیکچرار ایم وی ایس ڈگری و پی جی کالج محبوب نگر
 نظام آباد تلنگانہ
09299655396, maazeez.sohel@gmail.com

            اردو ادب میں کسی معروف شخصیت کی زندگی کے حالات اور ان کے کارناموں کواجا گر کرنے کے فن کو سوانحBiographyکا نام دیا گیا ہے ۔ اردو ادب میں غیر افسانوی نثر کی ایک صنف سوانح بھی ہے۔سوانح عربی زبان کے لفظ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کسی شخص کی زندگی کے حالات بتائے گئے ہیں اس سے سوانح نگاری مراد لی گئی ہے جس سے کسی شخص کی حالات زندگی لکھنے والا کہا گیا ہے۔ یہ صنف اردو ادب میں انگریزی ادب سے در آئی اس کا آغازانیسویں صدی کے نصف بعد ہوا۔حالانکہ اردو ادب میں اس صنف سے قبل تذکرہ نگاری میں اس طرح کی باتیں پیش کی جاتی تھیں۔ انیسویں صدی میں سرسید کی اصلاحی تحریک کے زیر اثر حالی اور شبلی نے محسوس کیاکہ لوگوں میں حرکت و عمل پیدا کرنے اور انہیں زندگی میں ترقی کی راہوں پر ڈالنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں اپنے اسلاف کے کارناموں سے واقف کرایا جائے تاکہ مثالی انسانوں کے کارناموں سے خواب غفلت میں ڈوبی قوم میں بیداری پیدا ہو۔ اردو ادب میں سوانح نگاری کا آغاز حالی سے ہوتا ہے لیکن حالی سے بہت پہلے نصرتی نے اپنی مثنوی” علی نامہ“ میں سلطان علی عادل شاہ کی داستان حیات پیش کی تھی لیکن اس سوانح عمری کو تاریخی اہمیت دی گئی ہے۔سوانح نگاری کو تاریخ کی ایک شاخ بھی تسلیم کیا گیا ہے۔
            ڈاکٹر عبدالقیوم نے سوانح نگاری سے متعلق اپنے نقطہ نظرکا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:
            ”سوانح تاریخ کی ایک شاخ ہے لیکن بعض خصوصیات کی وجہ سے اس کا شمار ادب میں بھی کیا جاتا ہے اب سوانح محض انسان کی پیدائش خاندان، تعلیم،مشاغل زندگی اور وفات کا بیان ہی نہیں بلکہ کسی فرد کے ظاہر و باطن، عادات و اطوار، اخلاق و معاشرت، وراثت اور نفسیاتی کیفیت اور اس کی زندگی کے نشیب و فراز کی داستان بن گئی ہے۔اب سوانح نگار کے لئے وہ تمام باتیں دلچسپی کا باعث ہیں جس سے شخصیت کی تعمیر اور ایک مکمل تصویر کے بنانے میں مدد ملے۔ اس میں سطحی واقعات اور ظاہری حالات بیان کردینے سے زیادہ باطنی کیفیت، نفسیاتی حالات،ذہنی ارتقاء،رحجانات اور خوبیاں و کمزوریاں دکھا نا مقصد ہوتا ہے تاکہ ایک واضح تصور ابھر کر سامنے آسکے“۔
(اردو نثر کا فنی ارتقائ،ڈاکٹر فرمان فتح پوری،
ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،ص318)
            اردو ادب میں خواجہ الطاف حسین حالی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے علامہ سعدیؒکی سوانح ”حیات سعدی“۱۸۸۱ءمیں لکھ کر سوانح نگاری کاباضابطہ آغازکیا ۔خواجہ الطاف حسین حالی کے بعد سوانح نگاری کے فن کو آگے بڑھانے والوں میں ایک اہم نام شبلی نعمانی کا ہے جنہوں نے اسلامی شخصیات کی سوانح لکھ کرلوگوں کو دعوت عمل دی ۔اس صنف سے انہوں نے ایسا کام لیا کہ ادب میں اس فن کو بام عروج پر پہنچادیا۔حالی کی تین سوانح بہت مشہور ہوئیں ان میں حیات سعدی۱۸۸۱ئ،یادگار غالب ۶۹۸۱ئ، اور حیات جاوید۱۰۹۱ءشامل ہیں۔ حالی اور شبلی دونوں مغربی ادب سے واقفیت رکھتے تھے جن کی شخصیت پر سرسید احمدخاں اور ان کی علی گڑھ تحریک کے اثرات نمایاں طور پر اثرانداز ہوئے تھے جس بنا پر انہوں نے پاک شخصیات کے حالات زندگی کو موجودہ نسل نو کے سامنے رکھا اور اپنی زندگیوں کو ان شخصیات کی طرح گزارنے کا مشورہ دیا۔یہ الگ بات کے حالی کا مطمح نظر ادبی شخصیات تھا اور شبلی کا اسلامی شخصیات۔
            انیسویں صدی میں سرسید احمد خاں کی علی گڑھ تحریک نے سائنسی نقطہ نظر اور اظہار کی صداقت کو اہمیت دی تھی جس کی وجہ سے اس کا اثر سوانح اور سیرت نگاری کی صنف پر پڑا۔اور سیرت نگاروں نے اردو ادب میں حقیقتوں اور صداقت کو پیش کرنے کا بیڑا اٹھایااور شبلی نے بھی اس صنف کی طرف توجہ کی۔ سوانح نگاری کے فن میں شبلی ؒ بھی کسی سے کم نہ تھے۔ اردوسوانح نگاری کو فروغ دینے میں انہوں نے نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے۔ علی گڑھ تحریک سے وہ بھی متاثر تھے۔ انہوں نے اسلام کی مایہ ناز شخصیات کو یاد دلانے اور ان کے عظیم کارناموں کو اجاگر کرنے کے لےے سوانح عمریاں لکھیں جن میں خلیفہ مامون الرشید کی سوانح عمری ۹۸۸۱ئ”المامون“ امام ابو حنیفہؒ کی سوانح عمری ۱۹۸۱ئ، ”سیرةالنعمان“ فاروق اعظمؓ کی سوانح عمری ”الفاروق۸۹۸۱ئ، امام الغزالیؒ کی سوانح عمری”الغزالی۲۰۹۱ءاور سوانح مولانا روم۲۰۹۱ءشامل ہے ساتھ ہی انہوں نے سیرت نگاری میں اللہ کے رسول کی سوانح عمری ”سیرت النبی“۰۱۹۱ءمیں لکھی تھی۔
             شبلی نعمانی کی سوانح نگاری سے قبل الطاف حسین حالی نے حیات سعدی کے ذریعے اردو میں سوانح کی بنیاد ڈالی تھی۔ مولانا شبلی نے محسوس کیا کہ نامور ان اسلام کوسوانح نگاری کا موضوع بنایاجاسکتا ہے اور ان کی زندگی کے کارناموں کو تاریخ کے تناظر میں پیش کرکے عوام کو اسلام کی مثالی شخصیتوں سے واقف کرایا جائے تاکہ ان کے احساس کو بیدار کیا جاسکے انہوں نے اس صنف کو استعما ل میں لایا اور درجہ کمال تک پہنچادیا۔شبلی کے عہد کے دیگر لوگ جنہوں نے سوانح عمریاں لکھیں ان میں ڈپٹی نذیر احمد ، مولوی چراغ علی اور عبدالحلیم شرر وغیرہ شامل ہیں۔
            شبلی نعمانیؒ کی سوانح عمریوں میں تحقیق و تنقید کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ان کا انداز بیان ایک اچھوتے پن کا احساس دلاتا ہے، وہ روایت کی پاسداری کرتے ہیں۔ ان سوانح عمریوں میںشبلی کا رنگ پر کیف اور شگفتہ دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے جمالیاتی ذوق کا خاص خیال رکھا ہے ان کا اسلوب بیان انفرادیت رکھتا ہے ان کی باتیں پر اثر اور معنی آفریں ہوتی ہےں۔
            علامہ شبلی کے فن سے متعلق مہدی افادی کا اقتباس نقل کرتے ہوئے عظیم جنیدی نے لکھا ہے:
            ”مہدی افادی نے’ شبلی کو تاریخ کا معلم اول کہا ہے‘لیکن جو چیز انہیں دوسرے ہم عصر وں سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کا اسلوب نگارش ہے۔ ان کی تحریرمیں شگفتگی و رعنائی کے ساتھ وقار و تحمل بھی ملتاہے۔ ان کی عبارت پر جوش اور مترنم ہوتی ہے ۔وہ اپنی نثر میں شعری وسائل سے کام لیتے ہیں اور تخیل سے اس میں رنگ آمیزی کرتے ہیں۔ استعارے اور کنائے کا وہ بہت استعمال کرتے ہیں اور ایسے الفاظ و تراکیب کا انتخاب کرتے ہیں جن میں موسیقی پائی جاتی ہے“۔
(اردو ادب کی تاریخ،ایجوکیشنل بک ہاوس دہلی،ص226)
            شبلی نعمانی نے سوانح نگاری کے جو اصول مرتب کئے تھے ان سے متعلق یہ تھا کہ جو سوانح نگار جس شخصیت کی سوانح لکھ رہا ہو وہ اس عہد کے مکمل حالات سے واقف ہوتاکہ اس کے عہد کی تہذیب وتمدن،مذہب و اخلاق اور معاشرے کی ایک نمایاں تصویر قارئین کے سامنے آجائے اوروہ ان کا اثر قبول کریں۔اسی اصول کو انہوں نے اپنی سوانح نگاری میں ملحوظ رکھا۔بیسویں صدی میں اردو کا سوانحی ادب میں مظہر مہدی نے شبلی نعمانی کی سوانح نگاری سے متعلق لکھا ہے۔
            ”حالی کے ہم عصر شبلی نے فن سوانح نگاری کو نئی آب وتاب بخشی۔انہوں نے المامون، الفاروق،سیرت النعمان،الغزالی اور سیرت النبی جیسی بلند پایہ سوانح عمریاں لکھیں۔ ان میں الفاروق اور سیرت النبی کو زیادہ اہمیت حاصل ہے الفاروق میں شبلی نے اس تاریخی ماحول اور سیاسی پس منظر کی عکاسی کی ہے جس میں حضرت عمر فاروقؓ کی شخصیت اور کردارکی تعمیر ہوئی تھی،کسی مذہبی شخصیت اور وہ بھی اسلامی ہیرو کی حیثیت رکھنے والے فرد کو اپنا موضوع بنانا خطرے سے خالی نہیں تھا۔شبلی نے عمر فاروق ؓ کے ہم رتبہ حضرت ابوبکرؓ،حضرت عثمانؓاور علی ؓ کے درمیان توازن قائم رکھا اور کسی کا قد چھوٹا کیے بغیر اپنے ہیرو کی مرکزی حیثیت برقرار رکھی ہے“۔
(بیسویںصدی میں اردو ادب،مرتب گوپی چند نارنگ، ساہتیہ اکیڈمی2002ئ،ص 332)
            مولانا شبلی نعمانی دراصل تعمیری ادب کی نمائندہ شخصیت تھی انہوں نے اردو ادب کے ذریعہ اسلامی فکر کو عوام میں فروغ دیاتاکہ مسلمان علم کے میدان میں ترقی کرے ۔انہوں نے الندوہ تحریک کو آگے بڑھایا،اورایک تحقیقی ادارہ اعظم گڑھ میں دارالمصنفین کے نام سے قائم کیاتھا۔شبلی کی اسلامی فکر سے متعلق پروفیسر خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں:
            ”شبلی نے تحقیق کے ہرگوشہ میں قدم آگے بڑھانا چاہا،لیکن پھر دامن دل کسی اور طرف کھچ گیا۔ان کے علم الکلام،الغزالی، سوانح مولاناروم نے اسلامی فکر کی جو مسلسل تاریخ پیش کردی ہے وہ تمدن اسلام کے مورخین کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئی ہے۔ ان کی تصانیف اور مضامین کا اگر فکری تجزیہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ تاریخ ترتیب قران سے لے کر علوم اسلام کے زوال و انحطاط تک اسلامی علوم و افکار کی مکمل تصویر ان کے سامنے تھی انہوں نے اس وسیع تاریخ کے میدان میں اپنی تاریخی بصیرت سے رہبری کے چند ستون الفاروق،الغزالی، المامون کی شکل میں کھڑے کردئے تھے کہ آنے والی نسلیں جب ان منزلوں سے گزریں تو انھیں اپنی تحقیق و جستجو کا میدان پوری طرح نظر آئے“۔
(مولانا شبلی بحیثیت مورخ ،علی گڑھ تحریک کی علمی خدمات ،ص120)
            سرسید احمد خان اورپروفیسر آرنلڈکی صحبت نے مولاناشبلی نعمانی پر اچھے اثرات مرتب کئے ان سے متاثر ہوکر شبلی نے تاریخی تصانیف رقم کی۔حکومت ہند نے ۴۹۸۱ءمیں مولاناکی خدمات پر شمس العلماءکا خطاب عطا کیا۔شبلی کی سوانح اور تاریخ نگاری کا خاص مقصد امت مسلمہ میں جوش،جذبہ اور غیرت پیدا کرنا تھا۔ اس لئے انہوں نے تاریخِ اسلام کے شاندارماضی کو پیش کیا ہے۔ایک سوانح نگار کی حیثیت سے ان کا درجہ اردو ادب میں نہایت ممتاز اور سربلند کیا وہ اردو زبان کے پہلے مورخ ہیں جنہوں نے تاریخ پر فلسفہ کا رنگ چڑھایا۔ شبلی نے سوانح اور تاریخ نگاری کے ذریعے اسلامی تہذیب اور ثقافتی زندگی کا مرقع پیش کیا ہے۔المامون ، الفاروق اور سیرت نبی اس کی یادگار مثالیں ہیں۔
مولاناشبلی نعمانی کی سوانح عمریاں ایک جائزہ:
المامون :مولانا شبلی نعمانی کی سب سے پہلی سوانح ”المامون“ ہے جو ۹۸۸۱ءمیں لکھی گئی تھی جس میں انہوں نے عباسی خلیفہ مامون رشید کے سوانحی حالات بیان کئے ہیںیہ سوانح دو حصوں پر مشتمل ہے جس کے پہلے حصہ میں مامون رشید کی تعلیم وتربیت،جنگیں اور فتوحات کا تذکرہ شامل ہے اور دوسرے حصہ میںمامون کے اخلاق ،عادات و اطور کو موضوع بنایا گیا ہے۔اس سوانح کو تخلیق میں لانے کے لےے انہوں نے سخت محنت سے تمام تاریخی واقعات کوجمع کیا اور بڑی صحت اور جامعیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔لیکن مولانا نے نہایت ہی دیانت داری سے مامون رشید کی شخصیت کے مثبت پہلووںکے ساتھ ساتھ کمزور پہلووں کوبھی اجاگرکیاہے۔اور اپنے موضوع سے انصاف کیا ہے۔انہوں نے اپنی سوانح نگاری میں حوالے و ماخذ کی سختی سے پابندی کی ہے۔
النعمان:مولانا شبلی نعمانی کی دوسری سوانح عمری ”النعمان“ ہے جو ۱۹۸۱ءمیں لکھی گئی جس میں انہوں نے امام ابوحنیفہ کے سوانحی حالات کو پیش کیا ہے یہ سوانح بھی دو حصوں پر مشتمل ہے۔پہلے حصہ میں امام ابو حنیفہ کے حالات زندگی اور دوسرے حصہ میںان کے کارناموں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ امام ابو حنیفہ سے مولانا شبلی نعمانی کو بڑی عقیدت اور محبت تھی اسی نسبت سے ان کے نام میں نعمانی کا لقب استعمال کیا گیا ہے۔اس سوانح میں انہوں نے روایت اور درایت کا پورا پورا لحاظ رکھا اس سوانح میں انہوں نے انہی باتوں کو پیش کیا ہے جو تحقیق کے اصولوں پرکھری اترتی ہیں۔انہوں نے النعمان میں لکھا ہے:
 ”میں صرف ان واقعات کو قلم انداز کروں گا اور ان ہی روایتوں پر اکتفا کروں گا جو بہ ظن غالب صحیح اور ثابت ہیں۔“  (النعمان،ص۹۷)
الفاروق :مولانا شبلی نعمانی کا ادبی شاہکار ہے جو اردو دنیا میں مولانا کی شناخت اور مقبولیت کا ذریعہ ہے۔ مولانا شبلی نعمانی فاروق اعظم حضرت عمر ؓ کی سوانح حیات کواس تصنیف میں بیان کیاہے۔حضرت عمر ؓ پر اب تک جتنی کتابیںلکھی گئی ہیں ان سب میںبہترین اورمعیاری تصنیف ہے جس کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے حصہ میں تمہید ،حضرت عمر ؓکی ولادت ، وفات اور فتوحات ملکی کے حالات ہیں اور دوسرے حصہ میںان کے ملکی اور مذہبی انتظامات اور علمی کمالات اور ذاتی اخلاق و عادات کی تفصیل شامل ہے۔ مخصوص انداز بیان اور منفرد اسلوب میں ان چیزوں کو پیش کیا گیا ہے۔
            الفاروق کے پہلے حصہ میں مولانا شبلی نے جن موضوعات کو پیش کیا ہے ان میں تاریخ، عرب کی خصوصیت،واقعات،روایت،داریت جیسی چیزیں شامل ہیں ساتھ ہی حضرت عمر ؓ کی ولادت،نسب،تعلیم وتربیت،تجارت،قبول اسلام، خلافت،فتوحات،شہادت کا ذکر بھی شامل ہے۔ الفاروق کے دوسرے حصہ میںفتوحات،نظام حکومت،سیاست و تدبر،عدل و انصاف،امامت و اجتہاد،حالات اور اخلاق،ازواج و اولاد کا تذکرہ ملتا ہے۔مولانا شبلی نعمانی نے اس سوانح میں عرب کی تاریخ و ثقافت اورمعاشرے کے حالات کو بہتر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو حقائق پر مشتمل ہیں۔حضرت عمرؓ کی زندگی کے مختلف پہلووں ،ان کی شجاعت،دیانت داری اور سیاسی شعور کو اجاگر کیا ہے اور اپنے موضوع سے متعلق پورا پورا انصاف کیا ہے۔
            الفاروق میں مولانا شبلی نعمانی نے حضرت عمر فاروق ؓ کی خطابت اور شاعری سے متعلق لکھا ہے :
            ”قوت ِتقریر کی نسبت اگر چہ کوئی مصرّح شہادت موجو د نہیں لیکن یہ تمام مورخین نے بہ اتفاق لکھا ہے کہ اسلام لانے سے پہلے قریش نے ان کو سفارت کا منصب دیا تھا اور یہ منصب صرف اس شخص کو مل سکتا تھا جو قوت تقریر اور معاملہ فہمی میں کمال رکھتاتھا،اس کتاب کے دوسرے حصہ میں ہم نے اس واقعہ کو تفصیل سے لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ شاعری کا نہایت عمدہ ذوق رکھتے تھے،اور تمام مشہور شعراءکے چیدہ اشعار ان کو یاد تھے، اس سے قیاس ہوسکتا ہے کہ یہ مذاق انھوں نے جاہلیت ہی میں عکاظ کی تعلیم گاہ میں حاصل کیا ہو گا، کیونکہ اسلام لانے کے بعد وہ مذہبی اشغال میں ایسے محو ہوگئے تھے کہ اس قسم کے چرچے بھی چنداں پسند نہیں کرتے تھے۔“(الفاروق،ص۸۴)
            الفاروق شبلی نعمانی کی علمی و شعوری پختگی کا مظہر ہے۔اس میں انہوں نے واقعات کے بیان کرنے میں اپنے تواز ن کو بنائے رکھا اور اپنے ہیرو کے ساتھ ساتھ تمام عظیم شخصیات سے بھی انصاف کیایہی وجہ ہے کہ ان کی اس سوانح کو بہترین سوانح عمری کا درجہ حاصل ہوا ہے۔
الغزالی اور سوانح مولانا روم: مولانا شبلی نعمانی نے1902ءمیں یہ دونوں سوانح عمریاں قلم بند کی ہیں۔”الغزالی “امام غزالیؒ کے حالات زندگی اور کارناموں پر مشتمل سوانح ہے اور ”سوانح مولانا روم“میں سلاطین روم ،مولانا روم کے معاصرین ،ارباب صحبت،مولانا کی ولادت سے متعلق تفصیلات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان دونوں سوانح عمریوں میںموجود نقائص کی نا قدین نے نشاندہی کی ہے۔یہ دونوں سوانح عمریاںسوانح نگار ی کے اصولوں پر کھری نہیں اترتی ہیں۔
سیرت النبی: مولانا شبلی نعمانی کی سوانح نگاری کی آخری کڑی ”سیرت النبی“ ہے جو ۰۱۹۱ءمیں منظر عام پر آئی ۔یہ سوانح مولانا کے فن کا شہکار نمونہ ہے جس میں انھوں نے حضر ت محمدمصطفی کی سیرت نگاری کو نہایت ہی معیار اور بلند انداز کے ساتھ پیش کیا ہے۔اس سیرت نگاری کی دو جلدوں کی ہی انہوں نے تکمیل کی تھی کہ زندگی نے وفا نہ کی اور داعی اجل کو لبیک کہاان کے اس خواب کی تکمیل انہی کے شاگرد سید سلیمان ندوی نے بعد وفات ۴ جلدوں میں مکمل کی۔سیرت النبی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی رقمطراز ہیں:
            ”سب سے اہم اور قابل ذکر چیز واقعات سیرت کے بیان میں مورخانہ اسباب و علل کی تلاش ہے،مولانا نے اس طرف خاص توجہ دی ہے،اور سیرت النبی میں جا بجا مستقل عنوانات قائم کرکے بعض اہم واقعات اور ان کے اسباب سے متعلق عمدہ بحثیں کی ہیں جن کی مثالیں عام کتب سیرت میں نہیں ملتیں۔
(مولانا شبلی بحیثیت سیرت نگار،ص ۱۱۱)
            مولانا شبلی نعمانی کی یہ سوانح عمریاں ہمارے اسلاف کی زندگی اور ان کے کارناموں کا مکمل احاطہ پیش کرتی ہیں،جن کے مطالعہ سے ہم درس حاصل کرسکتے ہیںاور اپنی زندگی کو بھی انہی شخصیات کے طرز پر گزار سکتے ہیں۔ضرورت ہے ان پر عمل پیرا ہونے کی ۔مولاناشبلی نعمانی نے ان سوانح عمریوں میںمنفرداسلوب کے ساتھ بڑی دلکش و شگفتہ زبان پیش کی ہے۔ سر سید کی علی گڑھ تحریک سے متاثر ہو کر ادب کو مقصدیت عطا کرنے والوں میں شبلی کا نام ادب میں زندہ جاوید رہے گا۔
***

اَدب اطفال- ایک تاثر

عطا عابدی
معرفت بُک امپوریم، سبزی باغ ،پٹنہ(بہار)
09934296773

            ہم اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لےے بجا طور پر فکر مند رہتے ہیں اور مطلوبہ تقاضوں کی تکمیل کے لےے ہر ممکن کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اجتماعی و ادبی سطح پر عموماً ہمارا رویہّ اس سنجیدگی کا مظہر نہیں ہوتا جو ہونا چاہےے۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہمارے سماجی و ادبی وسیلوں میں بچوں کی اخلاقی تعلیم و تربیت ترجیحی حیثیت رکھتی، لیکن ایسا نہیں ہے۔ بعض لوگ ادب میں سماج کے ذکر سے ہی ناک بھوں چڑھانے لگتے ہیں تو بعضوں کو سماجی سروکاروں سے دلچسپی کار زیاں معلوم ہوتی ہے۔ در اصل وہ اپنی ذات سے باہر نکلنا نہیں چاہتے کہ وہاں کئی سخت مقام آتے ہیں۔
            ادب اطفال کی تخلیق آسان عمل نہیں ہے۔ جو لوگ اسے دوئم درجے کا ادب کہتے ہیں یا تُک بندیوں سے تعبیر کرتے ہیں وہ یاتو بچوں کے ذہنی استعداد اور اس کے تقاضوں سے واقف نہیں ہوتے یا پھر ایک قلم کار ہونے کے ناطے ان پر بچوں کے لےے جو اضافی ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں، انھیں تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔بچوں یعنی کم عمر طلبہ و طالبات کے لےے لکھتے وقت شاعر و ادیب کو اپنی توجہ بچے کی ذہنی سطح پر مرکوز کرنی پڑتی ہے تاکہ بچے کو نہ صرف ادب سے دلچسپی پیداہو بلکہ اس ادب میں پنہاں نصیحتوں سے بھی وہ فیض یاب ہوسکیں۔ ظاہر ہے، ایسے ادب کی تخلیق اُن خود ساختہ ” عظیم “ شعراءو ادباءکے بس کی بات نہیں ہے جو اپنی ذہنی سطح کو بچوں کی ذہنی سطح سے ہم آہنگ کرنے کی لیاقت سے عاری ہیں۔ ایسے قلم کار بچوں کے لےے لکھنا تو کسر شان سمجھتے ہی ہیں، بچوں کے لےے لکھنے والوں کو ادب کی پچھلی صف کا آدمی خیال کرتے ہیں۔ ایسے قلم کاروں کے اہداف اپنی ذات کی نمائش یا اس سے وابستہ تحفظات و تعصبات تک محدود ہوتے ہیں۔ انھیں ان امور پر پردہ ڈالنے کی ترکیب بس یہی نظر آتی ہے کہ بچوں کے لےے لکھے جانے والے ادب کو ادب کے زمرے میں رکھنے سے پرہیز کیا جائے، اسے دوسرے درجے کا ادب سمجھ کر نظر انداز کیا جائے یا پھر تک بندی قرار دے کر اسے تحقیر آمیز نگاہوں سے دیکھا جائے۔
            ایک بات اور بھی ہے، بچوں کے لےے لکھتے وقت اچھی اچھی باتوں کی تلقین و نصیحت کا جذبہ کارفرما رہنا چاہےے، لیکن جب ہم خود اچھی اچھی باتوں سے محروم ہوں تو بچوں کو کس طرح نصیحت کریں گے؟ جب ہم جھوٹ، فریب، حسد، کینہ، تعصب جیسے مکروہ افعال کے مرتکب ہورہے ہوں تو وہاں کس طرح بچوں کوان سے دور رہنے کی تلقین و ترغیب دیں گے؟ اگر ہم ایسا کریں بھی تو خلوص کا فقدان ہماری باتوں کو تاثیر سے محروم کردے گا۔ لہٰذا ان کو اپنی خیریت اسی میں نظر آتی ہے کہ ایسے ادب کی آبیاری یا پذیرائی سے گریز کیا جائے۔
            میں یہ نہیں کہتا کہ جو لوگ ادب اطفال کی تخلیق نہیں کرتے، ان سب کے یہاں وہی دو جہتیں ہیں جو اوپر درج کی گئی ہیں۔لیکن جو لوگ ادب اطفال کو تُک بندی یا دوسرے تیسرے درجے کا ادب کہتے ہیں ان کا یہ رویّہ یقینا ان کے تحفظ وتعصب کی پیدوار ہوتا ہے۔ ورنہ سچ تو یہ ہے کہ ادب اطفال بچوں کی تعلیم وتربیت کے لےے لازمی و ناگزیر عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی بچوں کے ادب کی تخلیق غیر معمولی ذمہ دارانہ عمل ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ بچوں کے لےے لکھنا بچوں کا کھیل نہیںہے۔
            ماہرین تعلیم بھی ادب (ادب اطفال) کی تعلیمی معنویت کا اظہار واعتراف کرتے رہے ہیں۔ میں نے ایک مضمون ” ادب کی تعلیمی معنویت“ (مشمولہ: مطالعے سے آگے۶۰۰۲) میں ماہرین تعلیم کے خیالات کی روشنی میں ادب کی تعلیمی معنویت واضح کی تھی۔ اس مضمون سے دو اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
(۱)
 پروفیسر اکبر رحمانی جو تعلیم اور ادب اطفال کے مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ان موضوعات پر کئی کتابیں بھی ترتیب دے چکے ہیں، لکھتے ہیں --” یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خاندان، قوم اور ملک کے روشن مستقبل کا انحصار بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت پر ہوتا ہے۔ آج کابچہ کل کا شہری ہے، اس لحاظ سے بچے ” قومی امانت“ ہوتے ہیں۔ اور اس امانت کا تحفظ معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری تقاضا کرتی ہے کہ خاندان و معاشرہ اور قوم وملک کا مفید خادم بنانے کے لےے اس کی جسمانی نشو ونما کے ساتھ اس کی عمدہ ذہنی تربیت اور شخصیت کی متوازن نشو ونما پر بھی توجہ دی جائے۔ اس مقصد کے حصول میں ادب ایک اہم اور موثر وسیلہ ثابت ہوا ہے مگر افسوس کہ ہم نے اس ”موثر وسیلے“ کو اتنی اہمیت نہ دی جتنی اسے دینا چاہےے تھی۔
(۲)
 تعلیم و تربیت کے فن پر افضل حسین (ایم اے ایل ٹی) کی کتاب ” فن تعلیم و تربیت“ اپنے موضوع پر مکمل کتا ب ہے اور شاہکار تصنیف کا درجہ رکھتی ہے۔ افضل حسین صاحب نے جس عرق ریزی اور محنت و خلوص سے اس کتاب کی تصنیف کی ہے، اس کا اندازہ ہر ورق سے لگایا جاسکتا ہے۔ افضل حسین ماہرتعلیم تھے اور بچوں کی نفسیات سے بخوبی واقف تھے۔ ظاہر ہے ان کی نگاہ بلند سے تعلیم و تربیت کے باب میںادب کی افادیت کس طرح پوشیدہ رہ سکتی ہے۔ لہٰذا اس کتاب میں مختلف جگہ، تعلیم و تربیت کے لےے ادب اور اس کی مختلف اصناف کی اہمیت کا ذکر واضح الفاظ میں کیا گیا ہے۔
            الکٹرونک میڈیا آج پرنٹ میڈیا کے سامنے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ مختلف کارٹون چیلنجس ما فوق الفطرت مناظر وواقعات پیش کرکے بچوں کوجرائم کے متنوع پہلو اور سحر زدہ طلسمی کیفیات سے دوچار کرتے رہتے ہیں۔ آج نصابی کتابوں کے موضوعات، آرٹس ہوں یا سائنس، زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسائش سے نوازنے والی ملازمتوں کے حصول کے پیش نظر ترتیب دےے جاتے ہیں۔ میں اقتصادیات کی اہمیت کا منکر نہیں کہ اس کے بغیر آدمی مختلف برائیوں پر مجبور ہوجاتاہے۔ مجھے کہنا صرف یہ ہے کہ وہ چیلنجس یا نصابی کتابوں کے موضوعات اخلاقیات کے باب میں خاموش صورت حال پیش کرتے ہیں۔ ایسے میں انسانی واخلاقی اوصاف سے مزین وہ معاشرہ جو صالحیت و نافعیت کا امین ہو، کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ آج سماج کی بہت ساری خرابیوں کی وجہ یہ بھی ہے کہ نصاب سازوں کی توجہ بچے کو ڈاکٹر، انجینئر،اعلیٰ افسر اور نئی نئی تکنیک کے ماہرین بنانے کی طرف تو ہوتی ہے لیکن یہ ماہرین سماج میں اپنے اخلاقی اوصاف اور اعلیٰ انسانی قدروں کی پاسداری کی بنا پر بھی اپنی پہچان بنا سکیں، اس کی ویسی فکر نہیںہوتی جیسی ہونی چاہےے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج نہ تو ڈاکٹر میں مریض کے تئیں ویسی ہمدردی کا جذبہ ہے، نہ استادکو اپنی عظمت کا پاس ہے، نہ طالب علم کو استاد کی حرمت کا خیال۔ یہی وجہ ہے کہ آج بہت سے گھپلوں اورجرائم میں اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات بھی ملوث نظر آتے ہیں۔ یہ ایک ایسا خلا ہے جسے ادب اطفال کے ذریعہ پُر کیا جاسکتا ہے تاکہ مستقبل حال سے زیادہ تاب ناک اور نفع بخش ہو۔ اس اعتبار سے ادب اطفال کے تئیں قلم کاروں کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ ہمارے شعرا، ادبا اور نقاد ادب اطفال کی اہمیت وافادیت کو نہ صرف سمجھیں بلکہ اسے اپنی گفتگو و مطالعے کا حصہ بھی بنائیں۔
***


اردو انشائیے کا فن اور اس میں سماجی
 و اخلاقی اقدار کی جھلکیاں
شکیلہ خاتون
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو ، ڈورنڈا کالج ،رانچی

            اردو ادب مےں انشائیہ نگاری ایک لطیف فن ہے جو ہمیشہ پڑھنے والوں کے ذہن کومتحرک رکھتی ہے۔ جب انشائیہ نگار کسی موضوع کا انتخاب کرتا ہے تو اسے آزادانہ طور پر قلم برداشتہ اس طرح لکھتا ہے کہ وہ ہر بات کے کئی پہلو نکالتا ہے جو قاری کے ذہن کو مسلسل چھیڑتا رہے۔ انشائیہ نگاری کا فن موضوع کے انوکھے پہلوﺅں کو اجاگر کرتا ہے اس لیے اس مےں کم اور چنے ہوئے الفاظ استعمال کیے جاتے ہےں۔ انشائیہ کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ یہ ماضی اور حال سے شروع ہو کر مستقبل کو بھی اپنے اندر سمو لیتا ہے ۔ انشائیہ خیال کی لطیف صور ت اورکیفیت کا نام ہے ۔ انشائیہ نگار کی ایک اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے موضوع کے خیال کو پہلے جملے سے آخری جملے تک ایک ریشمی تار کی طرح کھولتا اور لپیٹتا ہے ۔ انشائیہ نگاری کی لطافت تو اس مےں پوشیدہ ہے کہ اس کو بار بار پڑھے جانے کے باوجود اس کی تازگی کم نہ ہو اور اس کی دلکشی، اس کے لفظوں کا جادو ایسا متاثر کن ہو کہ قاری کے ذہن کو روشن کر ڈالے ، یوں سمجھ لیجئے کہ انشائیہ ذہن کو تازگی بخشتا ہے اسی لیے تو جانسن نے بھی اسے ” انسان کی ذہنی ترنگ کہاہے“۔
            اگر ہم ادب کا گہرائی سے مطالعہ کرےں تو یہ حقیقت ہمارے سامنے عیاں ہو جا ئے گی کہ ادب کے بعض اصناف مخصوص زمانے مےںفروغ پاکر ترقی کی منزل طے کرتے ہوئے آج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ اردو مےں غزل کی روایت قدیم اور بہت مضبوط ہے لیکن نظم کے ارتقاءنے کچھ وقت کے لیے اس کی مقبولیت کم کر دی تھی، اس نظریے کے مدِ نظر یہ بات صاف طور پر معلوم ہوتی ہے کہ انشائےے کے آغاز کے ساتھ دوسری صنفوں نے بھی جنم لیا مثلاً طنز و مزاح وغیرہ جس کی وجہ سے شاید صنف انشائیہ کی مقبولیت مےں کچھ کمی آئی ہو مگر بعد مےں اس نے اپنی ایک مضبوط جگہ متعین کر لی ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ با لکل درست ہے کہ اچھا انشائیہ نگار ہر زمانے مےں پیدا نہیں ہوتا بلکہ انشائیہ آزاد ماحول کا متقاضی ہے، اسی لیے یہ ایک لازمی امر ہے کہ انشائیہ تو صرف اس دور مےں پنپ سکتا ہے جب ماحول اور حالات سے فرد ایک شدید بے اطمینانی کے احساس مےں مبتلا ہو ، اس سلسلے مےں ڈاکٹر جانسن نے سٹیل کے بارے مےں لکھا ہے کہ :
وہ غیر مطمئن عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے ”ایسے“ لکھتا رہا ہے اور اس نے نثر مےں غیرجارحانہ اور سرد رویےّ کی عکاسی کر کے سیاست کی پیدا کردہ گرمی کو معتدل بنانے کی کاوش کی ہے ۔
 (انشائیہ اردو ادب مےں از ڈاکٹر انور سدید ۔ص: ۰۱۱)
            طر بیکن جسے انگریزی انشائیہ نگاری کا بانی قراردیا جاتاہے، اس کے انشائیوں مےں سولہویں صدی کے ہنگامہ خیز عہد کی تصویر نظر آتی ہے ۔ اگر ہم آزادی کے پہلے کے ہندستان پر سرسری نگاہ ڈالےں توپتہ چلے گا کہ وہ زمانہ شدید سیاسی تحرّک، تبدیلی اورنعرہ بازی کا زمانہ تھا اور آزادی کے بعد ہر فرد نئے معاشرے کی تعمیر و تشکیل مےں مصروف ہو گیاتھا۔اب تو لوگوں کے مستقبل کے خواب بھی چکنا چور ہو گئے ، شایدیہی وہ وقت تھا جب انشائیہ کی تخلیق عمل مےں آسکتی تھی۔ اصل مےں تو انشائیہ کی صحیح فضا سر سیدکے مضامین سے پیدا ہوئی ، یہاں پر مزید باتےں عرض کر دی جائےں کہ سر سید کی ۲۲دسمبر ۰۷۸۱ءکو انگلستا ن سے واپسی کے بعد تہذیب الاخلاق کا اجرا کیا گیا تھا ،اگر اس مےں ماسٹر رام چندر کے جرائد” فوائد الناظرین “ ۳۲مارچ ۵۴۸۱ءاور ”محب ہند “ یکم ستمبر ۷۲۸۱ءاور اس مےں ان مضامین کو بھی شامل کر لیا جائے جو ڈاکٹر سیدہ جعفر اور ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی کے بموجب انشائیہ قرار پاتے ہےں تو پھر انشائیہ کی عمر ۰۴۱ برس قرار پاتی ہے، آگے کے مطالعے مےں ہمےں پتہ چلتا ہے کہ پہلا ناول نذیر احمدکا ”مراة العروس “مطبوعہ ۹۶۸۱ءچوبیس برس زیادہ ہے اور پہلا افسانہ ”دنیا کا سب سے انمول رتن“ پریم چند زمانہ ۷۰۹۱ءسے ۲۶ برس زیادہ ہے اور اگر اختلافات کی بنا پر نکالے گئے نتیجے مےں سجاد حیدر یلدرم کا افسانہ”نشے کی پہلی ترنگ“ (۰۰۹۱ء) کا بھی شمار کیا جائے تو اس مےں مزید سات برس کا اضافہ ہو جاتا ہے اور اس طرح انشائیہ ۹۷ برس تک جا پہنچتا ہے۔ لہٰذا انشائیہ اردو کی ان دو مقبول نثری اصناف کے مقابلے مےں کہیں زیادہ قدیم ثابت ہوتا ہے اور یہ پتا چلتا ہے کہ اردو ادب مےں موجودہ تمام اصناف کے ساتھ انشائیہ بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔
             اردو ادب مےں باضابطہ طور پرمضمون نگاری سر سید احمدخاں سے شروع ہوتی ہے۔ سر سید احمد نے انگلستان میں انگریزوں کی محنت ترقی، وہاں کے علم و ادب ، تعلیم و تدریس ، تہذیب و اخلاق سے بے حد متاثر ہوئے ،انھوں نے وہاں سے شایع ہونے والے اہم رسالوں ٹیٹلراو ر اسپکٹیٹرکا مطالعہ کیا اور ایڈیسن اور سٹیل کے مضامین سے خاصے متاثر ہوئے ، ہندستا ن آکر انھوں نے اسی نوع کی تحریر کو’ تہذیب الاخلاق‘ مےں شامل کیا۔ البتہ آج ان کی تحریروں کی وجہ سے ان کے سر اردو انشائیہ نگاری کے بانی ہونے کا سہرا باندھا جاتا ہے۔ اس مشن مےں ان کے ساتھ ان کے رفقا بھی پیش پیش رہے، حالاںکہ اس ضمن مےں بہت سی تحریروں کو انشائیہ کی ابتدائی کڑی کی شکل مےں دیکھا گیا ہے جس مےں ملا وجہی کی ”سب رس“ کے علاوہ رام چندر کے جرائد ،اودھ پنچ کی تحریرےں ، مرزا غالب کے خطوط ، آزاد کی ’نیرنگِ خیال ‘، مولانا آزاد کی ’غبارِ خاطر‘ کو بھی اس فہرست مےں رکھا جاتا ہے، مگر اب تک اس صنف کے اصل بانی کا پتہ نہیں چل سکا ہے اور تحقیق کا کام اب بھی جاری ہے، ہر محقق اب بھی اپنے زورِ قلم سے اس سوال کاجواب تلاش کرنے مےں لگا ہے ۔
            اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اب تک انشائیہ کی کوئی مکمل تعریف دستیاب نہیںہوئی ہے ، ہاں خال خال جواب وقتاً فوقتاً ہمےںتحریروں مےں پڑھنے کو مل جاتے ہےں۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس صنف کے سلسلے مےں اتنی کشمکش کیوں کر ہو رہی ہے ، تو معلوم یہ ہوا کہ آج تک اس صنف کو Essay کے متبادل ہی سمجھا جاتا رہا ہے جب کے محققین کی الگ الگ رائے ہے تو اس سلسلے مےں اگر چند نظریات پر نظر ڈالےں تو پاتے ہےں کہ محمدحسین آزاد نے اپنی کتا ب ” نیرنگ ِ خیال“ کے دیباچے مےں Essayکے لیے ”جواب مضمون“ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے فرماتے ہےں:
مےں نے انگریزی انشاءپردازوں کے خیالات سے اکثر چراغِ شوق روشن کیا ہے، بڑی بڑی کتابےں ان مطالب پر مشتمل ہےں جنھےں یہاں’ ایسے‘(Essay) جوا ب مضمون کہتے ہےں ۔
 ( انشائیہ کی بنیاد از ڈاکٹر سلیم اختر۔ص: ۵۵۱)
             احمد ندیم قاسمی کا یہ خیال کچھ مختلف ہے:
برسو ں تک اردو ناقدین و محققین یہی طے نہیں کر سکے کہ انگریزی کے ایک معروف صنفِ ادب ”ایسے“ کو اردو مےں کیا کہنا چاہئے۔ بڑی رد وکد کے بعد” انشائیہ“ کا لفظ منظور ہوا یا یوں سمجھ لیجئے کے کثرت استعمال کے سبب منظور ہو گیا۔
 ( ایضاً ،ص: ۶۵۱)
            انشائیہ نگاری کا فن تو ایسا ہے کہ جس میں ہلکی پھلکی تحریرےں پیش کی جاتی ہےں اور اس مےں زندگی کے گہرے فلسفے پر بھی نگاہ ڈالی جاتی ہے ۔ اس مےں مصنف اپنی کمزوریوں پر ہنستا ہے اور کبھی کبھی دوسرے کی کمزوریوں پر بھی۔ انشائیے کا رہبر تو وہ ہوتا ہے جو ہر قسم کی چیزوں کو ایک الگ زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہے اور دکھاتا ہے۔
            اس سلسلے میں انشائیہ نگاری کے فن پر اگر نگا ہ دالی جائے تو اس صنف کو مقبول بنانے میں کئی اہم اصحاب ِ قلم کا ہاتھ ہے۔ان مےںڈاکٹر وزیر آغا، غلام جیلانی اصغر ، مشتاق احمد جمیل آذر ، خواجہ حسن نظامی، فرحت اللہ بیگ ، رشید احمدصدیقی، پطرس بخاری، کرشن چندر، علی اکبر قاصد، نصیر آغا ، جاوید صدیقی ، کاظمی، ممتاز مفتی ، تاریق جامی، محمد اسد اللہ ، اکبر حمیدی، حامد برگی ، محمد اقبال انجم ، بشیرسیفی، سلمان بٹ ، انجم مانپوری ، تمنا مظفر پوری وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔
            انشائیہ نگاری میں استعمال ہونے والے موضوعات بھی کافی دلچسپ ہوتے ہیں۔ بہ ظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ انشائیہ تفریح اوقات کے لیے اور ہلکے پھلکے موڈ(Mood) میں لکھا جاتاہے ۔ لیکن یہ بات درست نہیں۔اس صنف کو ابتدا ہی سے ایسے اصحاب ِ قلم ملے جنھوں نے اس میں سماجی اور اخلاقی درستگی کے موضوعات اور پند ونصائح کو جگہ دی۔ سر سید کے انشائیوں کی طرف ہی نگاہ ڈالیں تو اندازہ ہوتاہے کہ ان میں کسی خاص مقصد کے لیے یہ تحریریں پیش کی جا رہی ہیں اور اخلاقی اور تعمیری ذہن کے ساتھ اس صنف کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ’انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا ‘، ’خوشامد‘، ’گزرا ہوا زمانہ‘ اور ’اپنی مدد آپ‘ جیسے مضامین دیکھ کر یہ انکار کرنا مشکل ہے کہ ان میں اخلاقی درس اوراعلیٰ سماجی مقصد کا فقدان ہے۔ محمد حسین آزاد کے یہاں بھی ایسی ہی کیفیت پائی جاتی ہے۔
            انشائیہ نگاراپنے انشائیوں میں ایسے لطیف اشارے کرتے ہیں کہ محسوس ہوتاہے کہ قاری کے منھ سے آہ نکل جائے لیکن غور کرنے پر محسوس ہوتاہے کہ یہ جملہ یا اشارہ تو دراصل آہ نہیںبلکہ واہ کا متقاضی تھا۔ بعض انشائیہ نگاراستعاراتی انداز سے اس طرح اپنی بات پیش کرتے ہیں جس سے معانی ومفاہیم کے نِت نئے پیرائے بھی سامنے آ جائیں۔انہی میں سے ایک خواجہ حسن نظامی ہیںجن کو دہلی کی ٹکسالی زبان کا آخری امین مانا جاتاہے ۔ انھوں نے اپنے انشائیوں میں سماجی اقدار کو سلیقے سے پیش کیا ہے۔ ان کے انشائیوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ عنوان تو بہ ظاہر بہت سیدھے سادے استعمال کرتے ہیں لیکن بڑی سلاست اور شائستگی سے اپنے خیالات اور نظریات اُن میں پیش کر دیتے ہیں۔ اپنے انشائیوں میں وہ جانوروں ، پرندوں ، کیڑے مکوڑوں اور معمولی چیزوں کو موضوع بنا کر باتیں کرتے ہیں لیکن ان کے بیان سے صوفیانہ رنگ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔خواجہ صاحب کا استعمال کیا ہوا ایک ایک جملہ ہمارے ذہن میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اُن کا مشہورِ زمانہ انشائیہ’جھینگر کا جنازہ ‘کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
اگرچہ اس جھینگر نے ستایا تھا،جی دکھایا تھا لیکن حدیث میں آیا ہے کہ مرنے کے بعد لوگوں کا اچھے الفاظ میں ذکر کیا کرو۔ اس واسطے میںکہتاہوں خدا بخشے بہت سی خوبیوں کا جانور تھا۔ ہمیشہ دنیا کے جھگڑوں سے الگ کونے میںکسی سوراخ میں بوریے کے نیچے، آبخورے کے اندر چھپا بیٹھا رہتا تھا۔ نہ بچھو کا سا زہر یلا ڈنک تھا ، نہ سانپ کا سا ڈسنے والاپھن۔ نہ کوّے کی سی شریر چونچ تھی ،نہ بلبل کی مانند عشق بازی۔شام کے وقت عبادت ِ رب کے لیے ایک مسلسل بین بجاتا تھا اور کہتا تھا کہ غافلوں کے لیے صور ہے اور عاقلوں کے لیے جلوہ طور “ ۔
            خواجہ صاحب جھینگر جیسے معمولی کیڑے کوموضوعِ گفتگو بناکر حدیث ِ رسول کے حوالے سے اُس کا ذکر خیر کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں انھوں نے جھینگر کی ایک ایک ادا کو پیش کرکے اپنے مشاہدے کی قوت کا ثبوت دیا ہے۔ اُس کے ہر عمل کو اس طرح دکھایا ہے کہ جیسے وہ کوئی انسان ہو جو زمانے سے لاتعلق ہو کر عبادت رب میں مگن ہو۔ اس کی سب سے بڑی صفت یعنی اس کی آواز کو وہ نقارہ خدا قرار دےتے ہیں ۔ جس سے غفلت میں ڈوبے ہوئے لوگ بیداری حاصل کرتے ہیں اور عقل والے آئندہ کے احوال کو سوچ کر مسرت حاصل کرتے ہیں۔
            اسی طرح دورِ جدید میں اقتدارکے لیے کرسی ایک عام استعارہ ہے۔ شفیقہ فرحت نے اپنے انشائیے ’کرسی‘ میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان پر یہ اقتدار کس طرح حاوی ہو گیا ہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
شروع شروع میں آدمی کرسی کو بناتا تھا مگر آج کرسی آدمی کو بناتی ہے۔ اور بہت ممکن ہے زمانہ قدیم میں کرسی آدمی کے لیے بنائی جاتی ہو لیکن آج تو آدمی کرسی کے لیے بنایا جاتاہے۔
            اسی لیے آدمی اور کرسی کا فرق مٹتا جا رہا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب آدمی غائب ہو جائے گا اور کرسی باقی رہ جائے گی۔
            اس اقتباس میںموجودہ دور کی سماجی اور سیاسی صورتِ حال کو بڑے سلیقے سے پیش کیا گیا ہے۔ اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو اس جملے ’ آج تو آدمی کرسی کے لیے بنایا جاتاہے ‘کی بلاغت کا بخوبی اندازہ ہوتاہے۔
            مندرجہ بالا باتوں سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ انشائیہ نگاری کا فن کافی دلچسپ ہے ۔ انشائیے پر دوسری نثری اصناف مثلاً ناول، افسانہ وغیرہ کی طرح خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ اردو میں انشائیوں کے ذریعے ہمیں نہ صرف کسی مضمون کو مختلف زاویے سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے بلکہ انشائیہ نگار اپنی فن کاری سے اس میں سماجی اور اخلاقی اقدار بھی پرو سکتاہے۔اردو میں ایسے کئی انشائیہ نگار ہیں جنھوں نے یہ کام کیا ہے۔ موجودہ عہد کے تخلیق کاروں اور خصوصاً تعمیری ادب سے وابستہ افراداپنے اسلاف سے روشنی حاصل کرکے اس صنف کے ذریعے وہ یہ کام بہ خوبی انجام دے سکتے ہیں.
***

غزليات
یہ دُکھ تو جھیلنے ہوں گے یہ رونا عمر بھر کا ہے
لہو تو کھینچنا ہوگا تقاضہ چشمِ تر کا ہے

غبار اُڑتا تھا پہلے بھی گھَٹا پہلے بھی اُٹھتی تھی
مگر اب کے عجب عالَم ترے شوریدہ سر کا ہے

کھُلی آنکھوں پہ کچھ احوال دُنیا کا نہیں کھُلتا
جو دیکھا ہے وہی سچ ہے کہ سب دھوکا نظر کا ہے

تمنّا ہے بگولوں کی نہ جانے کس طرف جائیں
بیاباں اُس طرف کو ہے یہ رستہ میرے گھر کا ہے

کسی کی حسرتِ پرواز بِکھرا دی گئی ہوگی
خلاوں میں یہ سارا اِنتشار اِک مشتِ پر کاہے

ہزاروں نقشِ پا ہیں راستے میں اور کہتے ہیں
ہمیں چلنا نہیں آتا اِرادہ تو سفر کا ہے

مظفر خَیر سے نقّاد بھی ہو غور سے دیکھو
کھری تحریر تھوڑی ہے نوِشتہ آبِ زر کا ہے

پروفیسرمظفر حنفی
نئی دہلی
حیات و مرگ سے آگے کسی جہاں کی طرف
نکل پڑا ہوں میں خورشیدِ بے نشاں کی طرف

بجھے چراغ جلانا بھی اک عبادت ہے
قدم بڑھائےے ٹوٹے ہوئے مکاں کی طرف

یہاں کے بعد ہی منزل کے فیصلے ہوں گے
ہیں گامزن سبھی اک یومِ امتحاں کی طرف

حیات کا یہ سفر گو کہ مثلِ صحرا ہے
یہ راستا ہی تو جاتا ہے گلستاں کی طرف

دورنِ ذات یہ کس روشنی نے دستک دی
بلا رہا ہے کوئی فکرِ بے کراں کی طرف

ہے جن کا عزم اندھیروں کو زیر کرنا مراق
نگاہ رکھتے ہیں وہ لوگ کہکشاں کی طرف

مراق مرزا
ممبئی

اِن دنوں ہم پر عجب عالم پریشانی کا ہے
ہم کہ بستر سے لگے ہیں حکم جنبانی کا ہے

ہو رہا پہ بہ پہ تازہ بہ تازہ انکشاف
کیا کہیں یارو! کہ یہ موسم ہی حیرانی کا ہے

کچھ تمھارا شہر بھی شامل ہے اس افتاد میں
اور ہم کو شوق بھی کچھ چاک دامانی کا ہے

اب کوئی دریا کناروں کی ذرا سنتا نہیں
بستیوں کو کھیتوں کو خوف طغیانی کا ہے

ڈھونڈےے کچھ قتل ناحق کے نشاں شاید ملیں
ہاں یہی کوچہ ہمارے دشمنِ جانی کا ہے

اس نے خود پر اک دوامی حبس عاید کرلیا
یہ طریقِ منصفی راشد سے زندانی کا ہے

راشد جمال فاروقی
رسی کیش (دہرہ دون)
09456753096

جذبہ  عشق میں اظہار کی حاجت کب ہے
نکہت گل کو نمائش کی ضرورت کب ہے

اہلِ زر کے لےے سارے ہیں مناصب اب تو
عظمتوں کا یہاں معیار شرافت کب ہے

آگئیں پل میں چراغوں کو بجھانے کے لےے
ان ہواو ں کی نگاہوں میں مروت کب ہے

ہوگی ہر وقت زمانے کو ضرورت میری
میں ہوں سورج مجھے دنیا کی ضرورت کب ہے

جان لے لے گا مری چاہنے والوں کا خلوص
ڈھا کے کہتے ہیں ستم ہم کو عداوت کب ہے

اب تو رشتے بھی ہیں دنیا میں سرابوں کی طرح
جو نظر آتا ہے آنکھوں کو حقیقت کب ہے

داستاں درد کی آنسو ہی سنا دیں گے شعیب
حال دل کہنے کو لفظوں کی ضرورت کب ہے

شعیب رضا نو گانوی
08506050314

زندگی بھر سوال بن کے جئے
ایک مبہم خیال بن کے جئے

حزن و رنج و ملال بن کے جئے
زندگی تیری ڈھال بن کے جئے

لمحے لمحے کا اعتبار نہ تھا
مدتوں ماہ و سال بن کے جئے

جن کو جینے کا فن نہیں آیا
وہ سراپا وبال بن کے جئے

آسماں سے زمین پر اترے
مژدہ  لا زوال بن کے جئے

یہ تقاضا ہے آج کا لوگو!
جو جئے با کمال بن کے جئے

ہم عروج و زوال میں حیدر
شام بدر و بلال بن کے جئے

حیدر مظہری
قول بازار ، بلاری(کرناٹک)
09844428175
مانا کھینچا تانی ہوگی
بات مگر سلجھانی ہوگی

وہ جو چہرہ ڈھانپ رہی ہے
عورت ہندوستانی ہوگی

پھر دل میں ارمان جگے ہیں
پھر کوئی نادانی ہوگی

خدمت کر ماں، باپ کی ناداں
قبر تری نورانی ہوگی

نسلِ نو کی خاطر ہم کو
شمعِ علم جلانی ہوگی

ممکن ہے فرقان جہاں میں
کل اپنی سلطانی ہوگی

فرقان بجنوری
رائے گڑھ (مہاراشٹر)

پاشکستہ ہم مسافر آرزو کرتے رہے
منزلیں تھیں دُور لیکن جستجو کرتے رہے

کھل نہ پایا بابِ رحمت بھی مناجاتوں کے بعد
مدعائے دل بیاں ہم بے وضو کرتے رہے

لوگ سب مصروف تھے ہم کس سے ہوتے ہم کلام
گھر کی تنہائی سے اکثر گفتگو کرتے

وہ مسلسل زخم دل پر زخمِ نو دیتا رہا
ہم ہمیشہ اپنے زخموں کو رفو کرتے رہے

ایک پیکر تھا خیالی وہ بھی اب دھندلا گیا
عکسِ آئینہ سے گھنٹوں گفتگو کرتے رہے

زندگی کی تنگ گلیوں میں اندھیرا تھا نواز
ہم وہاں بھی روشنی کی آرزو کرتے رہے

مسلم نواز
کولکاتا - 9681811271



ناکامیوں کا رنج نہ کوئی ملال ہے
میں ہی نہیں ہوں سارا جہاں خستہ حال ہے

نقشِ وفا کو میرے مٹانا محال ہے
یہ وہم ہے، بھرم ہے، یہ خواب و خیال

کچھ پھول خندہ زن ہیں تو کچھ پھول ہیں ملول
یہ باغبانِ دہر کا کیسا کمال ہے

بے شک نگاہِ غیر میں تیرا نہ ہو مقام
میری نگاہِ شوق میں تُو بے مثال ہے

تُو کیوں اُداس ہے مری بے چارگی پہ شاد
میں گُل ہوں اس چمن کا جو پژمردہ حال ہے

احمد علی شاد قاسمی
نہٹور، بجنور (یوپی)
***


سراب زندگی

عظیم راہی
اورنگ آباد(مہاراشٹر)
09423781787

            خراماں خراماں سورج اپنی آنکھیں کھول رہا تھا، اور بیداری کا خواب دیکھنے کے لےے ہر پل آگے بڑھ رہا تھا۔ اس وقت یہاں خاموشی اور ویرانی کا ہی بسیرا تھا۔ بس اسٹینڈ پر صرف چند بسیں کھڑی ہوئی تھیں.... ڈپو انچارچ بھی اپنی سیٹ پر بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ دسمبر کی کڑکتی ہوئی سردی میں کئی جسم ٹھٹھر رہے تھے۔بہت ہی کم تعداد میں لوگ یہاں موجود تھے۔ جن میں کچھ ایسے بھی تھے جو ننگے فرش پر لیٹے ہلکی معمولی سی چادر اوڑھے سردی سے بچنے کی ناکام کوشش کررہے تھے۔ جن بسوں کا صبح جانے کا وقت تھا ان ہی بسوں پر چند مسافر نظر آرہے تھے، جنھیں شاید کسی ضروری کام سے اپنی منزل مقصود تک پہنچنا تھا۔
            جیسے جیسے سورج کی روشنیوں میں اضافہ ہونے لگا۔ لوگوں کی آمد و رفت بھی بڑھنے لگی اور پھر بڑھتی ہوئی بھیڑ نے میلے کی شکل اختیار کرلی۔ لیکن نہ جانے کیوں ہر لمحہ بڑھتے ہوئے اس ہجوم میں بھی خود کو تنہا محسوس کرنے لگا۔ بالکل تنہا! ہر شخص جیسے اپنی دنیا میں گم تھا اور اپنی منزل تک پہنچنے کے لےے بے چین اپنی بس کے انتظار میں۔ ہر طرف مضطرب و بے چین چہروں کا ہجوم اور ان کے درمیان میں تنہا۔ اسی بے چینی کے عالم میں دوپہر ہوگئی۔ وقت جاتے دیر نہیں لگتی۔ پھر دوپہر شام میں بدل گئی۔ سورج بھی اپنا سفر ختم کرکے اپنی منزل تک پہنچنے کے لےے بے تاب تھا۔ یوں تو بس اسٹینڈ پر موجود تمام مسافروں کا ذہن انتشار کا شکار تھا۔ افراتفری کے عالم میں مسافر ادھر سے اُدھر بڑی بے چینی کے ساتھ گھوم رہے تھے۔ ماحول میں ہر سو ایک عجیب سی گہما گہمی پھیلی ہوئی تھی۔ ہر شخص بس اپنی بس کا منتظر تھا۔ میری ہی طرح ایک مسافر جو دیر سے یہاں بس کے انتظار میں بے چینی سے ادھر اُدھر ٹہل رہا تھا۔ مجھ سے بڑی اپنائیت سے پوچھنے لگا۔
            ” بابو ، تم کہاں جارہے ہو؟!“ میرا دل اداس ہوکر سوچنے لگا ” کاش! یہ مجھے معلوم ہوگیا ہوتا کہ مجھے کہاں جانا ہے تو شاید اب تک میں وہاں پہنچ گیا ہوتا۔ مجھے توہر بس بالکل بے بس کر گئی ہے۔ ” لیکن میں نے اپنے دکھ کو یکسر بھول کر اپنے ہونٹوں پر مصنوعی مسکراہٹ چسپاں کرتے ہوئے کہا۔
            ” بھیا! ابھی میری وہ بس نہیں آئی جو مجھے میری منزل تک پہنچا سکے۔“ یہ سن کر وہ یوں آگے بڑھ گیا جیسے اسے میری بات پر یقین نہ آیا ہو، یاشاید اسے میرا جواب فلسفیانہ لگا ہو۔ لیکن یہی میری زندگی کی حقیقت تھی۔ بے یقینی کے ایک عجیب سے عالم میں غیر ارادی طور پر میرے قدم ایک بار پھر آگے بڑھ گئے۔ لیکن ہر بڑھتے ہوئے قدم نے مجھے یہ احساس دلایا کہ میں پیچھے کی طرف جارہا ہوں۔ بہت پیچھے.... دور تک منزل کا کوئی پتہ چلتا ہے اور نہ ہی منزل کا کوئی سراغ نظر آتا ہے۔
            کئی دنوں سے روز قسطوں میں مر مر کر میں اس بے ثبات دنیا میں یوں جی رہا ہوں جیسے جینے کاکوئی مقصد ہی نہیں ہوتا ہو۔ پھر کیوں لوگ اس ناپائیدار بے وفا زندگی کے پیچھے اس طرح بے تحاشہ بھاگتے ہیں۔ آخر بے سمت بھاگتے رہنے کا بھی کوئی مقصد ہوتا ہے۔ ہر انسان کے جینے کاانداز، ایک دوسرے سے مختلف اور منفرد ہوتاہے۔ زندگی کے کئی مقصدہوتے ہیں۔ ایک تو وہ زندگی ہوتی ہے جو خود اپنے لےے ہی ہوتی ہے۔ جس میں انسان خود غرض بن کر، اپنی دنیا میں محدود ہوجاتا ہے اور شاید ایسا فرد، انسان کہلانے کا بھی اہل نہیں ہوتا۔ اور ایک زندگی وہ ہوتی ہے جو دوسروں کے لےے وقف کردی جاتی ہے، جس میںانسان دوسروں کو خوشی سے زندگی بسر کرتا ہوا دیکھ کر خوش ہونے لگتا ہے۔ تعصب کی کوئی عینک اس کی آنکھوں پر چڑھی نہیں ہوتی بلکہ وہ دوسرے کے غم کو بھی اپنا غم سمجھ بیٹھتا ہے۔ در اصل یہی زندگی بھی ہے۔ لیکن ایسا شخص کیا کرے جس کی زندگی کا کوئی مقصد نہ رہا ہو۔ جس کی زندگی خود بے سمت دوڑتے ہوئے اس گھوڑے کی مانند ہوجس کا مالک اس سے ہمیشہ کے بچھڑ گیا ، اور پھر اس کی لگام تھامنے والا کوئی بھی نہ ہو۔ بھلا پھر وہ کیا کرے، کس طرح اپنی زندگی کے اس مقصد کے حصول کے لےے جدو جہد کرے۔ جس کے بغیر زندگی بذات خود ایک سراب کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوتی۔ خوشی اور غم کے درمیان ہمیشہ اتنا ہی فاصلہ ہوتا ہے جتنا زندگی اور موت کے درمیان۔ یہ فاصلہ کبھی کم ہوجاتا ہے تو کبھی بالکل معدوم ہوجاتا ہے۔ اس فاصلہ کا سارا دارومدار انسان کے احساس پر ہے۔ اگر انسان خوشی اور غم کے اس کھیل کو قدرت کا کھیل سمجھ لے تو پھر شاید دنیا میں غم جیسی چیز کابھی کوئی غم نہیں ہوگا۔مگر ایسا سمجھنا اور ایسا سمجھ کر جینا کتنا مشکل ہے، کوئی کیا سمجھے۔ لیکن ناممکن ہرگز نہیں۔
            زندگی کے اس سفر میں کئی پڑاو آئے۔ راہیں ناہموار اور راستے اوپر کھابڑ.... اس طویل سفر میں کامرانیوں کے نخلستان کی تلاش میں مایوسیوں کے سراب ملنے کے باوجود زندگی کے لامتناہی اور پرخطر راستوں پر میں تنہا مسلسل آگے بڑھتا رہا۔ زندگی کے الم و مصیبتوں کو گلے لگاکر اورافلاس کی صعوبتوں کو جھیل کر میں نے بڑی دشواریوں کے ساتھ اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا۔ بچپن ہی سے میرے سر پر یتیمی کے بے رحم سائے منڈلا رہے تھے۔ کمسنی میں ہی میرے ماں باپ، مجھے اس فانی دنیا میں اکیلا چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ایک یتیم کا تنہا زندگی گزارنا بھلا آسان کیسے ہوسکتا ہے؟! اس دنیا میں کسی بے سہارا بچے کا پروان چڑھنا اندھیروں میں گھر جانے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کہیں ایسے مددگار ہاتھ نظر نہیں آتے جو کسی لا وارث بچے کو سہارا دے کر اسے اپنا سکے۔ گم نامیوں کی کھائیوں سے نکال کر اسے کچھ اوپراٹھا سکے۔ لیکن ان تمام محرومیوں اور اذیتوں کے احساس کے باوجود با مقصد زندگی گزارنے کا عزم میرے اندر پوری طرح موجزن تھا۔ شاید اس لےے کہ دوسروںکے دکھ درد کا احساس وہی کرسکتا ہے، جس نے خود بھی کبھی دکھ جھیلے ہوں۔ مصیبتوں کے پہاڑ جیسے دن گزارے ہوں۔ ابتدائی دنوں میں روزانہ بس اسٹینڈ پر اخبارات فروخت کرتے ہوئے ابتدائی تعلیم پوری کی۔ اور بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ میرا عزم مستحکم ہوتا گیا اور تکلیفوں کو جھیلتے ہوئے ہی سہی میں اپنے تعلیمی سفر کو دن بہ دن جاری رکھنے کی کوشش میں کامیاب ہوتا گیا۔ اور ان کوششوں کو پورا کرنے کے لےے میں ٹیوٹر بن گیا۔ چند امیروں کے بچوں کو پڑھانے کے لےے ان کے گھرجایا کرتا تھا کہ انھیں اپنے گھر بلانے کی نہ تو میری حیثیت تھی اور نہ ہی میرا اپنا کوئی گھر تھا۔ میں تو اپنی آگے کی تعلیم جاری رکھنے کے لےے گھر گھر جاکر ایسے بچوں کو پڑھاتا رہا جنھیں قسمت سے سرپرستی کا سائبان میسر تھا۔ اس طرح میں اپنی تعلیم مکمل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
            جب مجھے بہت ساری ڈگریاں مل گئیں تو یہ امید پروان چڑھنے لگی کہ یہ سب ڈگریاں ایک نہ ایک دن ضرور میرے کام آئیں گی اور میں زندگی کے اس مقصد کو بہرحال حاصل کرہی لوں گا جو دوسروں کے لےے زندگی گزارنے کا نہ صرف سبق دیتا ہے بلکہ حوصلہ بھی دیتا ہے۔ لیکن اب یہاں پہنچ کر یہ سب کچھ بڑا عجیب دکھائی دینے لگتا ہے۔ جس مقصد کو پانے کے لےے نہ جانے کتنی مشکلات کا سامنا کیاتھا۔ اس خود غرض دنیا کے طنز و تضحیک کا مردانہ وار مقابلہ کیاتھا۔ ان کی ہر گالی طعنے اوربہت سارے دکھ سہے تھے۔ لیکن اب اگر دیکھا جائے تو وہ مقصد ہی فوت ہوچکا تھا۔ ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد سے میرا بس یہ معمول بن گیا ہے کہ....ڈھیر سارے اخبارات کا مطالعہ کرنا اور جہاں بھی ”ضرورت ہے“ کا اشتہار نظر آجائے تو وہاں بغیر کسی پس و پیش کے عرضی بھیج دیتا ہوں۔ انٹرویو کا ل تو تقریباً ہر جگہ سے آجاتے ہیں لیکن میرا انتخاب کوئی نہیں کرتا۔ کیوں کہ میرے سر پر کسی کی سرپرستی کا کوئی ہاتھ ہے اور نہ ہی ایسی سفارش جس کے سبب میں کبھی کہیں منتخب کرلیا جاوں۔ کیوں کہ روزگار کے میدان میں آج کل ایسے سفارشی گھوڑے دوڑ رہے ہیں جو صرف کسی بڑے سہارے یا پھر دولت کے بل بوتے پر ہی دوڑ سکتے ہیں۔ لیکن میں تو ان دونوں ہی چیزوں سے محروم ہوںتو کیا آدمی کی تعلیمی قابلیت اور خدادا صلاحیت اوراس کی ڈگریاں کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہیں۔ اور نہ ہی آج سماج میں اس کی کوئی حیثیت ہے۔ لیکن مجھ جیسے محروم انسان کو زندگی کی اس دوڑ دھوپ اور اعلیٰ تعلیم کی تگ و دو میں بھی اگر اسے شدید محرومی کا احساس اور کچھ حاصل نہ ہو تو پھر اس کی زندگی کیا معنیٰ رکھتی ہے۔؟! لیکن یہ بھی تو اتنا ہی سچ ہے کہ تنہا شخص تو بس سہارے ڈھونڈتا ہے۔ شاید میں بھی انہی سہاروں کی تلاش میں یوں، بے سہارا جوہوں اسی لےے یہ جانتے ہوئے بھی، ہر روز کسی نہ کسی نوکر ی کے لےے انٹرویو دینے چلا جاتا ہوں۔ اپنے شہر سے دور پرائے اور اجنبی شہر اور بےگانے لوگوں کے بیچ ویسے میرے اپنے شہر کے لوگ بھی میرے نزدیک یہی حیثیت رکھتے ہیں۔ گھنٹوںبس اسٹینڈ پر گزر جاتے ہیں۔ بس تو مل جاتی ہے مگر وہ بس نہیں آتی، وہ بس نہیں مل پاتی جس کا راستہ میری منزل تک پہنچتا ہو، جو میرے مقصد کے گھر تک جاتی ہو۔ اب سوچتا ہوں تو سب کچھ کتنا عجیب سا لگتا ہے کہ جب میں چھوٹا تھا تو اسی جگہ کھڑے رہ کر صبح و شام سارے اخبارات فروخت کیا کرتا تھا اور آج جب میں اتنی ساری تکلیفیں اٹھاکر، اذیتیں جھیل کر ، کچھ بن کر، سب کچھ کرگزرنے کا عزم میں نے اپنے اندر پیدا کرلیا ہے تو بھی اسی جگہ پر ہوں۔ اسی بس اسٹینڈ پر کھڑ ا ہوں۔ بالکل بے یارو مددگار۔ زندگی کے اپنے اسی مقصد سے محروم، اپنے حالات سے مجبور ہوکر اور ناکام و نامراد۔ تنہا اور بے بس........اپنی بھوک تو میں کل بھی مٹالیا کرتا تھا۔ آج بھی اپنے پاپی پیٹ کا دوزخ بھرسکتا ہوں۔ لیکن دوسروں کے لےے جینے کا میرا وہ اہم مقصد کہاں کھو گیا ہے؟!۔ آخر کہاں؟! ........اب سوچتا ہوں تو میری سوچ سمندر کی لہروں کے مانند میرے اطراف پھیل جاتی ہے اور میں سوچ کی ہر لہر کے ساتھ ٹوٹتا بکھرتا جاتا ہوں۔ ایسے عالم میں جب اپنے ارد گرد دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کئی مسافر اپنی منزل تک پہنچ گئے ہیں اور کچھ ابھی اپنی بس کے انتظار میں بے چینیوں کے کرب سے دوچار ہیں۔ مگر شاید میں بے یقینی کے ایک عجیب سے عالم میں بے مقصد یونہی گھومتا رہوں گا۔ پتہ نہیںکب تک ........ اپنے اس مقصد کے حصول کے لےے بھٹکتا رہوں گا۔ جواب یہاں آکر مجھے ایک سراب کی طرح دکھائی دیتاہے۔ جیسے زندگی، سرابِ زندگی کے سواکچھ بھی نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔
            رات کے اندھیرے بہت گہرے ہوچکے ہیں۔ شاید آدھی رات بیت گئی ہو۔ اب مجھے شدت سے سردی کا احساس بھی ہونے لگا ہے۔ مسافروں کی چہل پہل اور ان کی آمد و رفت میں بھی کمی آگئی ہے۔ اکّا دکّا مسافر کہیں نظر آجاتا ہے شاید میری طرح۔ پورا بس اسٹینڈ رات کے گہرے اندھیروں میں ڈوب سا گیا ہے اور اپنے وجود کے نامعلوم مگر لا محدود اندھیروں کے ساتھ۔ اب شاید میں بھی ناکامی کی اس مہیب تاریکی میں کہیں ڈوب گیا ہوں۔
***


افسانچے

ڈاکٹر وقار انور
نئی دہلی

حدود اثر
            دعا کے زود اثر ہونے کا میں پہلے سے قائل تھا۔ البتہ اس کے حدود ِ اثر کے سلسلے میں میری معلومات میں اضافہ موصوف سے ملاقات کے بعد پیدا ہوا۔
            میں نے برسبیل تذکرہ ان سے ان کی عمر معلوم کرلی۔
            ” بہتّر سال“ جواب ملا۔
            ” ماشاءاللہ! میں تو پچاس سے پچپن سال کے درمیان کا سمجھ رہا تھا، آپ کی اس غیر معمولی صحت کا راز کیا ہے؟
            ان کا جواب دل چسپ بھی تھا اور محیر العقول بھی۔ کہنے لگے:
            ” میں نے چار شادیاں کی ہیں، ان سے پندرہ بچے پیدا ہوئے، ان سب کی دعائیں مجھے حاصل ہیں۔ ان کے علاوہ میں جانوروں کے ڈاکٹر کی حیثیت سے سرکاری اسپتال میں ملازم تھا۔ تقریباً دس ہزار گایوں، بکریوں، بھینسوں اور دیگر جانوروں کا علاج کیا ہے۔ان سب کی دعائیں بھی مجھے حاصل ہیں۔
گمراہ
            ابو ذر کی رگ شرارت پھڑک رہی تھی۔ میں بار بار اس کا ہاتھ دبا کر اسے روک رہا تھا۔ سامنے بیٹھے دونوں افراد تیز آواز میں بحث و تکرار میں مبتلا تھا۔ ان لوگوں نے پورے ہوٹل کے ماحول کو مکدر کردیاتھا۔ مصیبت یہ تھی کہ وہ دونوں ہمارے ہی ٹیبل پر سامنے کی طرف بیٹھ کر چائے پی رہے تھے۔ ہمارا چائے پینا دوبھر ہورہاتھا اور میں جانتا تھا کہ اگر میں حائل نہ ہوتا تو میرا ساتھی ابو ذر جس کے ساتھ چائے پینے میں اس ہوٹل میں آیا تھا، ان کی بحث میں مخل ہوکر کوئی نہ کوئی شرارت ضرور کرتا۔
            سامنے بیٹھے ہوئے دونوں افراد گفتگو کے حدود سے تجاوز کررہے تھے۔ ایک صاحب دوسرے کو ”وہابی“ اور دوسرے پہلے کو” بدعتی“ کہہ رہے تھے اور ایک دوسرے کو گمراہ ثابت کرنے کی حرکت سے وہ دونوں باز نہیں آرہے تھے۔ آخر کار ہوٹل کے منیجر کو اس ٹیبل کے پاس آکر ان کی سرزنش کرنی پڑی۔ ” آپ لوگوں کو اس طرح جھگڑا کرنا ہے تو جائےے، سامنے ایک میدان ہے، وہیں زور آزمائی کرلیجےے ، میرے ہوٹل میں یہ غیر شریفانہ حرکت نہیں کرسکتے۔
            وہ دونوں سٹپٹا گئے، وہ صاحب جو اپنے ساتھی کو ” بدعتی“ کہہ رہے تھے ، پاوں پٹکتے ہوئے ہوٹل سے باہر چلے گئے، دوسرے صاحب اپنی پیالی کی بقیہ چائے پینے کے بہانے ہوٹل میں ہی رہے۔
            اور پھر میرا ساتھی میرے کنٹرول سے باہر ہوگیا، میرا ہاتھ جھٹکتے ہوئے ان صاحب کی طرف جھکتے ہوئے دھیرے سے بہت معصومیت کے ساتھ کہا ” حضور! آپ وہابی ہیں کیا؟“     
            ” لاحول و لاقوة، میں اور وہابی“ کہتے ہوئے تیز تیز قدموں سے ہوٹل کے باہر چلے جانے میں ہی انھوں نے اپنی عافیت سمجھی۔
بن اُگے پود ے
            ادارہ کے ذمہ داروں کی میٹنگ میں یہ مسئلہ زیر بحث تھا کہ شہر کے تمام علاقوں میں ان کے کام کی رفتار اچھی تھی، جب کہ اُس علاقہ میں جہاں سب سے زیادہ با صلاحیت افراد رہتے ہیں، کام کی رفتار سست تھی۔
            یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ اتنے باصلاحیت افراد کی موجودگی کے باوجود وہاں کام خراب کیوں ہے؟ کیا ہمارے یہ ساتھی توجہ نہیں دیتے اور ان کی صلاحیتیں کہیں اور لگ رہی ہیں؟“ ایک ذمہ دار نے سوال کیا۔
            نہیں ایسا بالکل نہیں ہے۔ ہمارے یہ ساتھی بہت مخلص ہیں۔ اپنے علاقہ میں ہردلعزیز بھی ہیں۔“ دوسرے صاحب نے جواب دیا۔
            ” آخر یہ کیا معاملہ ہے؟ مخلص بھی ہیں، مقبول بھی ہیں اور با صلاحیت بھی اور سرگرم بھی ہیں، لیکن نتیجہ خاطر خواہ نہیں نکل رہا ہے۔ جب کہ دوسرے علاقوں میں افراد نہ اتنے باصلاحیت ہیں اور نہ اتنا مقبول ، یہ نا قابل فہم ہے!“ اور ایک صاحب نے تبصرہ کیا۔
            یہ گفتگو دیر تک ہوتی رہی اور مسئلہ لا ینحل ہی رہا۔ اخیر میں مجلس میں موجود ایک بزرگ سے جو عموماً خموشی سے باتیں سنتے رہے ہیں، رجو ع کیا گیا۔ ان کے جواب نے یہ گتھی سلجھا دی۔
            ” جس علاقہ میں چھوٹے چھوٹے پودے ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں اور پورا علاقہ سر سبز و شاداب ہوجاتا ہے۔ جب کہ برگد کے تناور درخت کے نیچے دوسرے پودے اگ نہیں پاتے۔ وہ تناور درخت سایہ تو دور تک دیتا ہے لیکن مزید ہریالی کو پنپنے کا وہاں موقع نہیں ملتا۔
برسر روزگار
            میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ آپ نے اپنی بیٹی کے لےے آیا ہوا پہلا منسوب رد کیوں کردیا اور دوسرا منسوب قبول کیوں کرلیا؟
            ”ہم نوکر پیشہ لوگ ہیں اور اپنی بچی کی منسوب برسر روزگار لڑکے سے ہی کرنا چاہتے تھے، اسی بنیاد پر دوسرا رشتہ قبول کرلیا۔
            ”یہی معاملہ تو ناقابل فہم ہے۔ پہلا نوجوان اس کمپنی کا مالک ہے جس میں دوسرا ملازمت کرتا ہے۔ اس طرح کمپنی کامالک بیکار ٹھہرا اور اس کا ملازم برسرروزگار ہوکر قابل ترجیح ٹھہرا۔
            ہاں بھئی ہاں! کیا یہ ضروری ہے کہ زندگی کے تمام معاملات قابل فہم ہی ہوا کریں۔ کچھ معاملات کا تعلق انسانی نفسیات سے ہے جو بہرحال عقل سے ماورا ہے۔
کتر ے ہوئے پر
            میں نے خلاف معمول چچا جان اور چچی جان کو مغموم دیکھا، بلکہ گھر میں ایک قسم کا تناومحسوس کیا۔ میں نے خیریت معلوم کی تو چچا جان کہنے لگے ” تمھاری چچی نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ جب بھی گھر میں داخل ہوتا ہوں، پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ بیٹی کی منسوب کی بات کہیںکی یا نہیں؟ ہر وقت گھوم پھر کر یہی مسئلہ چھیڑ دیتی ہیں۔ کوئی رشتہ سامنے آئے تو بات کی جائے۔ اس طرح آخر میں کیسے ہر طرف منسوب منسوب کہتا پھروں؟
            چچی جان مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگیں ” یہ ایک اہم کام ہے۔ یہ فکر ستارہی ہے، بیٹے تم بھی کوئی اچھی سی منسوب تلاش کردو۔
            اس دن کے بعد میں نے اپنے آپ کو اس کام پر مامور کرلیا اور کافی تلاش کے بعد اپنی سمجھ کے مطابق ایک مناسب منسوب تلاش کی اور خوشی خوشی چچا چان کے گھر پہنچ گیا۔ وہ اس وقت باہر کے کمرہ میں تھے اور ان کے چند احباب موجود تھے۔ میں تھوڑی دیر تک وہیں بیٹھا رہا اور مناسب موقع کی تلاش میں رہا، کیوں کہ اس طرح کے معاملہ پر دیگر افراد کے سامنے گفتگو کرنا مناسب نہیں تھا۔ موقع ملتے ہی میںنے دھیرے سے اپنے آنے کا مقصد بتادیا۔ دھیرے سے ہی جواب ملا۔ اندر جاکر چچی کو بتا دو۔
            میں نے گھر کے اندر جاکر چچی جان سے بات کی۔ ان کا جواب میرے لےے مایوس کن تھا۔ اپنا سا منہ لے کر دوبارہ باہر کے کمرے میں آکر بیٹھ گیا۔
            مہمانوں سے فارغ ہونے کے بعد چچا جان مجھ سے مخاطب ہوسکے۔
            ” تم نے اپنی چچی سے بات کرلی؟
            ” جی ہاں! لیکن انھوں نے کہا کہ میں جہاں سے منسوب لایا ہوں وہ لوگ نجیب الطرفین نہیں ہیں۔ کہنے لگیں کہ میں ایسی جگہ کیسے رشتہ کرسکتی ہوں جہاں پر نانی کے پر کترے ہوئے ہوں؟“ میرے جواب کی تلخی اور مایوسی کو چچا جان نے محسوس کیا۔ دھیرے سے مسکراکر میری طرف جھکے اور بولے۔
            ” جانتے ہوئے نجیب الطرفین کسے کہتے ہیں۔ اس کی تعریف کیا ہے؟
            میں خاموش رہا، کیوں کہ میں ان کا سوال اور منشا نہیں سمجھ سکا تھا۔ وہ خود کہنے لگے۔
             ” نجیب الطرفین وہ ہے جو دوسرے کو نجیب الطرفین نہ سمجھے۔
***


تو کون؟ میں خواہ مخواہ

منظور عثمانی
نئی دہلی
            قرص نصیحت سے زیادہ قابل نگل گولی شاید ہی کوئی دوسری ہو۔ اس کا کڑوا کسیلا پن کچھ وہ ہی جانتے ہیں جن کے گلوں سے یہ اتاری جاتی ہے۔ مزید اری یہ بھی کہ ہر آدمی ہر آدمی کے گلے سے چاہے ان چاہے اتارتارہتا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے” دوسروں کے لےے وہی پسند کرو جو اپنے لےے کہ یہی سچے مومن کی پہچان ہے۔ لیکن نصیحت کے معاملے میں زریں اصول قطعی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ وہی آدمی جو دوسروں کو بہ اصرار پلاتا رہتا ہے جب خود کو نگلنی پڑتی ہے تو کیسے برے برے منہ بناکر پیتا ہے۔ اس کی تلخی کا اندازہ کچھ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جب غالب جیسے بذلہ سنج حیوان ظریف کو حضرت ناصح کے یہ گھونٹ پینے پڑتے تو آپ سے ” تم“ پر اتر آتے تھے یوں محسوس کرکے گویا ان کے گھاو ں پر کوئی نمک پاشی کررہا ہو۔
شورِ پند ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ“ سے کوئی پوچھے ”تم“ نے کیا مزا پایا؟
            سارے ” غزل گو“ شعرا اور عشاق اس کے ہمیشہ شکار رہے یہی وجہ ہے حضرت ناصح اور شیخ محترم ان کے خاص ہدف بنے رہے۔ اس کے علاوہ بزعم خود ہر مخلص دوست کی جیب میں نصائح کی وافر مقدار ہمیشہ پڑی رہتی ہے۔ غالب نے اسی پر چڑ کر کہا تھا:
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا
            بہرحال کاروبار نصیحت ایسا چالو، دھندا ہے کہ سنسیکس Sensex گرے کہ چڑھے اس میں کبھی مندی نہیں چھاتی بلکہ ڈالر کی طرح بھاو چڑھتے ہی رہتے ہیں اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے جو قوم جتنی بے عملی کا شکار ہوتی جاتی ہے اتنا ہی یہ کاروبار نصیحت پھلتا پھولتا ہے، اسی لےے مسلمانوں کے یہاں خیر سے اس کا چلن کچھ زیادہ ہی ہے۔ چنانچہ ہر مفکر ہر دانشور جو قوم کے دردِ زہ میں مبتلا ہوتا ہے قوم کو اپنے نادر مشوروں سے نواز نواز کر ذائقہ بگاڑتا رہتا ہے۔
            ایسے ایک ہی مشہور ماہر قلب ڈاکٹر صاحب کو بیٹھی بٹھائے نہ جانے کیا سوجھی کہ ایک ” ملی مزاج مخالف“ انتہائی ایمان سوز مشورہ سے پوری امت مسلمہ کو منغض کر ڈالا کہ مسلمان اگر دل کی زندگی چاہتا ہے تو گوشت خوری ترک کردے کیوں کہ اس کے یہاں درد دل، کی اوسط شرح دوسری قوموں سے زیادہ اس لےے ہے کہ وہ گوشت خور ہے۔اور گوشت کے استعمال سے کولسٹرول کی مقدار بڑھتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتاکہ کسی کو کھاتا پیتا دیکھ کر ڈاکٹر کا کولسٹرول اور دل کی دھڑکن کیوں بڑھ جاتی ہے۔ان ڈاکٹر صاحب کے سلسلہ میں واضح ہو کہ قبلہ کے یہاں مشورہ کی بڑی معقول فیس اینٹھی جاتی ہے لیکن ” ترک لحم“ کا مشورہ بالکل مفت! کیوں کہ اس سے اہل ایمان کی دل آزاری ہوتی ہے، اس لےے یقین ہے محترم خالص ” ملکی ایجنٹ ہیں“۔
            مسلمان کو ” تارک گوشت“ بنانے کا مشورہ وہی دے سکتا ہے جسے اول تو مسلمان کو منہ ہی دکھانا نہ ہو۔ دوئم یہ کہ وہ اس کی نفسیات سے بالکل نابلد ہو ، اس کے لےے گوشت ” تقویت الایمان“ کا درجہ رکھتا ہے۔ اسے دو دن گوشت کا فراق برداشت کرنا پڑ جائے تو ” ضعف ایمانی“ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ایک مومن کا قول فیصل ہے کہ دو دن کی دال خوری سے تجارت کرنے کوجی بے اختیار چاہنے لگتا ہے۔ اس کا قومی ترانہ ہے۔
مرغ کی جو موت ہے قوم کی حیات ہے
            نوٹ: (مرغ گوشت کی علامت کے طور پر لیا گیا ہے ورنہ بھینس، بکرا، بھیڑ غرض ہر وہ جانور شامل ہے جو شرعاً حلال ہے۔ دھیان رہے کہ وہ ایسا جانور پالتا ہی نہیں جسے حلال کرکے کھا نہ سکے۔)
            دو دن گوشت کی ہڑتال ہوجائے تو تلاشِ بسیار میں ایسا بوکھلایا پھرتا ہے جیسے زندگی میں کوئی بڑا خلا واقع ہوگیا ہو۔ گویا-
جب تو نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے حیات میں
            ایسے میں کوئی اُسے اِسے ترک کرنے کا مشورہ دیتا ہے تو وہ کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے بلا سے خون خرابہ ہوجائے اس کی نظرمیں -
مسلمانی میں طاقت خون ہی بہنے سے آتی ہے
            حضرت ناصح یعنی ڈاکٹر صاحب کی مزید جانکاری کے لےے انہی کے ایک مریض قلب کا ایک سچا واقعہ بیان کردیں۔ آپ ہی کا ایک مریض جو دن پہلے I.C.U میں داخل تھا چپکے سے اپنے بیڈ سے غائب ہوگیا۔ جب دو ایک گھنٹوں کے بعد لوٹا تو پوچھنے پر بولا” جمعہ کی نماز پڑھنے گیا تھا“ لیکن راوی نے خبر کچھ اس طرح دی کہ اپنے پاس کے ایک ہوٹل میں جاکر ٹیبل پر جو نیت باندھی تو اس وقت تک سلام نہ پھیرا جب تک خوب سیر ہوکر نہاری نہ کھالی۔ روایت یہ بھی ہے کہ اس چلت پھرت سے نقاہت کی جگہ چہرہ نور ایمانی سے کچھ زیادہ منور تھا۔
کب تک آخر دل بیمار کا کہنا نہ کریں
            اپنے ایک پروفیسر دوست کا واقعہ بھی ڈاکٹر صاحب کے گوش گزار کردیں۔ گوشت پر ان کاایمان اتنا راسخ ہے کہ انھوں نے اگلے دن ایک میجر آپریشن کی رات کو جمّا مسجد جاکر برائے تقویت قلب نہاری کھانا ضروری سمجھا کہ اس سے پیدا زور ایمانی کے بل بوتے پر اگلے مرحلہ زیست سے آسانی سے گزرا جاسکے۔ ان حقائق کی روشنی میں ڈاکٹر صاحب ذرا دل پر (اپنے) ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا وہ اس مشورہ سے گمراہ ہوگا؟ یہ تو مان نہ مان والا معاملہ ہی ہوا۔
            مجاز سے ایک بار راجہ محمود آباد نے ہر ماہ ایک معقول رقم کی اس شرط پر پیشکش کی وہ شراب نوشی چھوڑ دیں۔ اس پر مجاز نے اسے شکرےے کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے کہاتھا ” نواب صاحب پھر اس رقم کا یہ بندہ کیا کرے گا؟“ کچھ ایسی ہی بات اہل ایمان کی ہے۔
جو تمھاری مان لیں ناصحا تو دامن دل میں بچے گا کیا؟
            اسے دو وقت کی بوٹی مل جائے تو بس شکر اللہ کا۔ رہی بات جسم پر گوشت نہ چڑھنے کی ( بہ سبب بیماری دل) تو اس کی بلا سے نہ چڑھے پر پیٹ میں ضرور پڑے فرق کیا پڑتا ہے؟ گھی کھچڑی میں کہ کھچڑی گھی میں۔
            ماہ رمضان المبارک سر پر ہے ذراتصور شرط ہے کہ گوشت کھانا اس ماہ مقدس میں چھوڑ دیا جائے تو رمضان میں کیا چارم رہ جائے گا۔ سارا دن اسی کے اہتمام میں گزر جاتا ہے۔ اگر بھیجا نہ ملے تو بھیجا آوٹ، کوفتہ نہ ہو بلا کی کوفت، تکّہ نہ ملے تو ہرایک کی تکّہ بوٹی کے لےے تیار، کباب نہ حاصل ہو تو جلے کباب کی طرح جلا بھنا۔ ہر ایک کو کاٹ کھانے کو تیار۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ دورانِ روزہ اس کے نظام الاوقات کا مشاہدہ کیا جائے تودن کا زیادہ حصہ وصال یار کے چاومیں گزرجاتاہے:
ذکر تیرا تجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
بد مزاجی اور چڑچڑاہٹ کا یہ عالم کہ:
مزاجاً روزہ دار شام بارود اور گندھک ہیں
اور ان میں نظم، ضبط اور رواداری یہاں تک ہیں:
کہ شدت بھوک اور پیاس کی ایسے مٹاتے ہیں
بزعم روزہ ابنائے وطن کو کاٹ کھاتے ہیں
            رہی بات عبادت کی تو بس ” تھوڑی سی مزہ منہ کا بدلنے کے لےے“ ۔
            ڈاکٹر صاحب ! آپ جس چیز سے مسلمان کو ڈراتے ہیں (دل کا روگ)آپ کیا جانیں وہی اس کے لےے اصل ایمان ہے۔ حکیم الامت ڈاکٹر سر محمد اقبال سیالکوٹی صاحب نے فرمایا تھا:
دردل دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
            اسی بات کو ان کے بھی استاد جناب داغ دہلوی نے یوں کہا ہے:
دل تو سب کو تری سرکار سے مل جاتے ہیں
درد جب تک نہ ملے دل نہیں ہونے پاتے
            آپ جسے نقصان اور ضرر سمجھ بیٹھے ہیں وہ اس کی نظر میں:
جس نے دل کھویا اس کو کچھ ملا
فائدہ دیکھا اسی نقصان میں
            آپ بلا وجہ پریشان ہوتے ہیں جب کہ وہ شیر دل مرد مومن:
دل کی بربادیوں پہ نازاں ہے
اس نے تو ہمیشہ ”فتح پاکر شکست کھائی ہے
            داناوں کا قول ہے کہ:
لازم ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل
            لیکن مسلمان نے صدیوں سے پاسبانِ عقل کو دل کے پاس بھٹکنے بھی نہیں دیا۔ بس دل کی انگلی پکڑے چلے جارہا ہے۔ راہ مستقیم پر رہا دماغ تو وہ اس سے نہیں شکم سے سوچتا ہے خدا کا شکر ہے اس کے:
سب کام چل رہے ہیں ذہن کے بغیر بھی
            اس لےے ہماری امت مسلمہ کی طرف سے ڈاکٹر صاحب موصوف سے درخواست ہے کہ اگر چارہ سازی اور غمگساری کرنی ہی ہے تو ” ضیافتی مجاہدوں“ میں ” زورشکم“ پیدا کرنے کی تدبیر کریں تاکہ ان کا ”بول“ اور شکم بالا ہو۔ دل کا چنداں فکر نہ کریں اس لےے کہ دل کا کہا جتنا وہ کرتا ہے من حیث القوم کوئی دوسرا نہیں۔ دل کے معاملات وہ آپ سے کہیں بہتر سمجھتا ہے۔ کیوں کہ آپ کے لےے چاہے دل کی حیثیت ایک گوشت کے ” لوتھڑے “ یا ” پمپ“ کی ہو لیکن اس کے لےے دل ایک رہنما طاقت کا درجہ رکھتا ہے، وہ دل لینے، دینے، ڈالنے اچکنے، لٹنے لٹانے، پھینکنے ، لبھانے اس میں سمانے ،پھسلنے لُبھانے وغیرہ سب رموز سے واقف ہے اس کے یہاں:
لٹ گئے سید تو انہی باتوں میں
            جواباً ڈاکٹر صاحب کو مشورہ عرض ہے کہ اس لنڈورے کو لنڈورا ہی رہنے دیں۔ اگر کہیں خدا نہ کرے اس نے آپ کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے گوشت خوری ترک کردی تو اس کی زندگی میں رہی سہی رمق بھی غائب ہوجائے گی اور وہ نرا ٹھس ہوکر رہ جائے گا اور آپ اس الزام سے بچ نہیں پائیں گے:
مسیحا تیرا مرہم ہی ترے گھائل کو لے ڈوبا
***


جہان ادب

عالمی مشاعرہ
            شبلی اکیڈمی میں صدی تقریبات کے دوران ایک بین الاقوامی مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا۔ مشاعرہ کی صدارت دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چیئرمین پروفیسر خالد محمود نے فرمائی اور نظامت ڈاکٹر عمیر منظر نے انجام دی۔ صدر مشاعرہ پروفیسر خالد محمود نے اسے ایک تاریخ ساز واقعہ قرار دیا اورکہا کہ شبلی کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں مقالہ خوانی کے ساتھ ساتھ مشاعرہ کا اہتمام بھی ضروری تھا۔ دوران خطاب انھوں نے سامعین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ سمینار کے مختلف اجلاس اور مشاعرہ کے دوران سامعین کی توجہ اور ان کی سنجیدگی قابل داد ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ شبلی صدی تقریبات کے مختلف پروگراموں کی ایک خاص بات یہ بھی رہی ہے کہ اس میں اعظم گڑھ اورمضافات کی خواتین اور طالبات نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور استفادہ کیا۔ منتخب کلام قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہاہے:
بڑی لمبی پلاننگ کر رہی ہے
ہماری زندگی لمحات والی
پروفیسر خالد محمود
اس نے بھی دیکھنے کی حد کردی
میں بھی تصویر سے نکل آیا
ڈاکٹرشہپر رسول
اک ہوا آخر اڑا لے گئی گرد وجود
سوچئے کیا خاک تھے اس کی نگہبانی میں ہم
ڈاکٹراحمد محفوظ
اب مرے پاس خزانہ بھی نہیں ہے کوئی
کیا کروں گا میں علی گڑھ کے یہ تالے لے کر
مصداق اعظمی
آج جی چاہتا ہے رونے کا
کیا اسی بات پر ہنسا جائے
عمیر منظر
سکھ شانتی تھی شہر میں امن و امان تھا
لیکن ہوا میں تیر کوئی چھوڑتا رہا
نیاز جیراج پوری
بھری محفل میں تنہائی بہت ہے
کسی کی یاد پھر آئی بہت ہے
میکس بروس نادر(امریکہ)
اتفاقاً کھنچ گئی تھی ایک ہلکی سی لکیر
میرے ان کے بیچ لمبا فاصلہ ہوتا گیا
شمیم طارق
  جناب عبد اللہ (امریکہ) نے متعدد نظموں سے نوازاجن کو بہت پسند کیا گیا۔ اس کے علاوہ ممتاز اعظمی اور ڈاکٹر شمس بدایونی نے بھی اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔


ڈاکٹر بدر الدین احمد (انگلستان) کے اعزاز میں ادبی نشست
  فیس بک اُردو حلقوں میں اُردو نوازی،ادب نوازی اور شعراءنوازی کے ذریعہ شہرت حاصل کرنے والی ایک دِ ل نواز شخصیت ڈاکٹر بدر الدین احمد صاحب، اِسکس (UK) Witham, Essex کی ہندوستان آمد کے موقع پر اُن کے سفرِ بنگلور کے دوران جناب عزیز بلگامی کی رہائش گاہ پر اوردوپہر ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا گیا، جس میں بنگلور اور اطراف و اکناف کے شعرا اورادب نوازوں نے شرکت فرمائی۔ بطور مہمانانِ خصوصی، جوش و امُنگ کے مدیر اعلیٰ پروفیسر ایوب احمد صاحب اور کنڑ ادیب اور آل انڈیا کنفیڈریشن آف بنک ایپلائزاسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری، جناب جی ڈی نداف اور کلکتہ سے آئے ہوئے مہمان نجم العابدین تابش صاحب شریک محفل رہے۔ تلاوتِ کلام پاک کی بعد حسن علی خان حسن (چن پٹن) کی مناجات سے نشست کا آغاز ہوا۔ عزیز بلگامی نے مہمانوں کا تعارف کرایا اور مہمان اعزازی ڈاکٹر بدر الدین احمد صاحب اور دیگر مہمانان کی گل پوشی و شال پوشی کی گئی۔ اِس موقع پر عزیز بلگامی، الف احمد برق، اکرم اللہ اکرم اور حسن علی خان حسن نے اپنے کلام سے نوازا۔ بعد ازیں پروفیسر ایوب احمد صاحب نے اپنے اظہارِ خیال میں عرض کیا کہ ایسی پُر وقار نشست میں شرکت کووہ اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں۔ اِس موقع پر جی ڈی نداف صاحب نے چاشنی کے اعتبار سے اردو زبان کو سب سے اعلیٰ زبان قرار دیا، جس کی بغیر کسی مادی سہارے کے آج ساری دُنیا میں دھوم مچی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر بدرالدین احمد نے بنگلور کے اعلیٰ ادبی ذوق پر اپنی خوشی کا اِظہار فرمایا اور شعرا کے کلام کی دِل کھول کر تعریف فرمائی اور انہیں مبارک باد دی۔ عزیز بلگامی کی صدارت میں منعقدہونے والی اِس ادبی نشست میں معروف قلم کار شکیل رضا،مولانا مفتی رضوان رشید، قاری اعجاز، سید آفاق علی جیسی با ذوق شخصیات شریک نشست رہیں۔ قاری اعجاز صاحب کی تلاوت کلام پاک سے نشست کا آغاز ہوا۔ سید آفاق علی صاحب کے ہدیہ تشکر پر نشست اختتام پذیر ہوئی۔  (رپورٹ: عزیز بلگامی، بنگلور)


ادارہ ادب اسلامی ہند، جامعہ نگر کی طرحی نشست
            ادارہ ادب اسلامی ہند کے زیر اہتمام دفتر ادارہ دعوت نگر، ابو الفضل انکلیو میں ایک طرحی نشست کا انعقاد کیا گیا۔ جس کی صدارت معروف شاعر فہیم کمایونی نے کی جب کہ مہمان خصوصی کے طور پر فہیم جوگاپوری نے شرکت کی۔ دلشاد حسین کاظم نے نظامت کے فرائض انجام دےے۔ ضمیر اعظمی کے نعتیہ کلام سے پروگرام کا آغاز ہوا، جب کہ وفاکمایونی، فہیم جوگاپوری، درد دہلوی، بشیر چراغ سری نگر، دانش نور پوری، ضمیر اعظمی، اظہر نواز، منصور ذکی، سحر محمود اور اسلم جاوید سمیت دیگر شعرا نے اپنا کلام پیش کیا۔ نشست میں جاوید اقبال، راودلبر حسین، حسنین سائر، محب اللہ رفیق قاسمی، محمد احمد اللہ قاسمی سمیت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
کل ہند بزمِ ادب و ثقافت کی جانب سے قلمکارانِ برار کا اعزاز و اکرام
  اکولہ (ڈاکٹر ذاکر نعمانی کے ذرےعے):کل ہند بزمِ ادب و ثقافت کے بانی رفےق شادندوی کی کاوشوں سے بزمِ ہذا ہر سال علاقہ برار کے مستندو معتبر قلمکاروں کو اعزاز و اکرام سے سرفراز کرتی آرہی ہے۔گزشتہ دو بر سوں سے شاعر برار کا اےورڈ بالترتےب اقبال خلش اور مرحوم جہانگےر جوہر کو دےا گےا ہے سال ۴۱۰۲ کے انعامات و اعزازات کے لئے 31 ڈسمبر کو اکولہ شہر کے پرمےلاتائی اوک ہال مےں اےک تقرےب انعقاد پذےر ہوئی جس مےں علاقہ برار کے بزرگ و کہنہ مشق شاعر حضرت غلام حسےن راز بالاپوری صاحب کو ان کی شعری و ادبی خدمات اور پانچ شعری مجموعوں کی اشاعت پر بزم کی جانب سے ” شاعر برار“ کا اےوارڈ اور مبلغ گےارہ ہزار روپئے کا انعام دےا گےا۔ راز بالاپوری کے فن و شخصےت پر فصےح اﷲ نقےب نے بڑے ہی دلکش ودلچسپ اندازاور اپنی مقّفہ مسجع تحرےر مےں تعارف پےش کےا۔اسی طرح برار کے مشہور و معروف نقاد ڈاکٹر سےد صفدر صاحب کو ان کی تنقےدی خدمات کے لےے ” ناقدِبرار“ کا خطاب اور مبلغ گےارہ ہزار روپئے کا انعام دےا گےا۔ڈاکٹر زےنت اﷲ جاوےد صاحب نے ڈاکٹر سےد صفدر کی تنقےدی بصارت و تنقےدی خدمات کا اجمالی تعارف پےش کےا۔سال ۴۱۰۲ءکے مرکزی ساہتےہ اکادمی دہلی کا ادب اطفال انعام ےافتہ،صدرِ جمہورےہ کا مرکزی مثالی مدرس انعام ےافتہ،پرائمری مدرس تا سےنئر کالج کی پرنسپل شپ کے حےرت انگےز راہی،۲۴ کتابوں کے خالق و مالک ، صوبائی اکادمےوں اور رےاستی اکادمی کے مختلف انعامات ےافتہ عالمی شہرت ےافتہ شاعر و ادےب و کثےرالجہات فنکار ڈاکٹر محبوب راہی صاحب کو ان کی بے مثال ادبی خدمات پر بزم کی جانب سے” محاصلِ زيست“ اےوارڈ اور اکےس ہزار روپئے کا انعام دےا گےا۔ شمےم فرحت نے ڈاکٹر محبوب راہی کے امتےازی کارنامے پےش کئے۔ برار کے بزرگ و کہنہ مشق شاعر اقبال خلش صاحب کے تازہ ترےن شعری مجموعہ ” ےہ خلش ےہ سوز آگہی“کا رسم اجراءڈاکٹر راحت اندوری اور بانی بزم رفےق شاد اکولوی کے ہاتھوں انجام پذےر ہوا۔بزم کی جانب سے مذکورہ شعری مجموعے کی کاپی مبلغ پچےس ہزار روپئے مےں خرےد کر اقبال خلش صاحب کو مالی اعانت کی گئی۔مذکورہ تقارےب کے انعقاد و انصرام کے لئے بانی بزم علامہ مولانا رفےق شاد اکولوی ،نعےم فراز،شمےم فرحت،ساجد محشر،ڈاکٹر محمد ذاکر نعمانی ،ڈاکٹر ناصر الدےن انصار اور اراکےن کل ہند بزم ادب و ثقافت و اراکےنِ دبستانِ برار نے جدوجہد کی۔  (رپورٹ: ڈاکٹر محمد ذاکر نعمانی)


گلشن خطائی کے ساتھ ایک شام
گلشن خطائی اب کوچن اورکیرلا والے ہوگئے ہیں۔وہ ہمارے محبوب اور ہردل عزیزہیں ۔ وہ تاجر کے ساتھ ایک اچھے ادیب اور شاعربھی ہیں ۔ بلکہ اس وقت کیرلہ کے اکلوتے، صاحب دیوان شاعر ہیں ۔ان کے دیوان کا ملیالم میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے جو عنقریب زیور طبع سے آراستہ ہوگا۔ ڈاکٹر ضیاءالرحمٰن ضیا بھی اردو کے شاعر اور ادیب ہیں ۔وہ پہلے فرد ہیں جنھوں نے کیرلا میں اقبالیات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی۔ییچ ڈی (Ph.D)حاصل کی اور اردو زبان وادب کی بیش بہا اور قابل قدر خدمت کررہے ہیں ۔
ان خیالات کا اظہا ر کیرلہ کی معروف اردو شخصیت ،جناب کے پی شمس الدین ترورکاڈ نے اسلامک یونیورسٹی،شانتاپورم،کیرلا میں منعقدہ ایک شعری نشست(ایک شام۔گلشن خطائی کے نام ) میں کیا۔ اس پروگرام کا اہتمام اادارہ ادب اسلامی ہند، شانتاپورم نے ۰۱ جنوری ۵۱۰۲ءکی شام ،امام شافعیؒ آڈیٹوریم میں کیا تھا۔پروگرام کی صدارت ڈاکٹر شاہ جہان ندوی نے کی ۔نظامت کے فرائض سعود اعظمی نے انجام دئے۔ماہ ربیع الاول کی مناسبت سے طرحی نعت کے لیے مصرعے بھی دئے گئے تھے: ”ہم مدحت ممدوح جہاں کرتے رہیں گے“”وہاں کی شام ،وہاں کی سحر کا کیا کہنا“ ۔
پروگرام کا آغاز اسداللہ کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔طارق کشمیری نے اپنی شیریں آواز میں بارگاہ رسالت میں گلہائے عقیدت پیش کئے۔ اس کے بعد صدر ادارہ ادب اسلامی،کیرلہ ڈاکٹر ضیاءالرحمٰن ضیا نے مہمان خصوصی کا تعارف کراتے ہوئے تما م مہمانوں کا خیر مقدم کیا۔انہوںنے گلشن خطائی کی شانتاپورم آمد کو ایک اہم واقعہ بتاتے ہوئے دلی مسرت کا اظہار کیا۔اس کے بعد شانتا پورم کے نوخیز فنکا روں نے اپنی شعری تخلیقات پیش کیں ، جن میں مجسم حسین،عبدالقادرساغر بدایونی،ذیشان ارشد ، نعمان ابرار ،منہاج الحق شامل ہیں ۔اس کے بعد عماد عاقب قاسمی اور ڈاکٹر ضیاءالرحمٰن ضیا نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔
مہمان خصوصی گلشن خطائی کاشمیری نے اپنے خطاب میں شانتاپورم آمد پر اپنی بے انتہا مسرت کا اظہار کیا۔شانتاپورم کو اپنی توقعات سے بھی زیادہ اچھا بتایا۔انھوں نے کہا کہ یہاں آکر اورڈاکٹر ضیاءالرحمٰن ضیا مدنی صاحب اور ان کے احباب کی ادبی کوششوں کو دیکھ بڑی خوش گوار حیرت ہوئی۔گلشن خطائی نے اپنی مترنم آواز میں حمد،نعت اور غزل پر مشتمل اپنے کلام سے سامعین کو ھل من مزید کی صدا کے بیچ خوب خوب محظوظ کیا۔اس موقع سے ان کی کتاب ”گلبن“ کی رسم رونمائی بھی عمل میں آئی۔
  ڈاکٹر شاہ جہان ندوی نے اپنے صدارتی خطاب میں آج کی اس شام کو ایک یادگار شام قرار دیا۔ انھوں نے اس موقع پر اردو کی نعتیہ شاعری پر مختصر اظہار خیال فرمانے کے علاوہ اپنی نعت سے بھی سامعین کو نوازا۔ شبلی ارسلان (سکریٹری ادارہ ادب اسلامی کیرلا)کے اظہار تشکر پر اس خوب صورت شام کا اختتام ہوا۔
رپورٹ: نجم السحر(شعبہ نشر واشاعت)


محبوب نگر میں ادبی اجلاس و مشاعرہ
  اردو عالمی سطح پر مقبول زبان ہے، اس زبان کی شیرینی اور شعر و ادب نے لوگوں کو بلا لحاظ مذہب و ملت اس کی جانب راغب کیا ہے، لوگ اردو شاعری کو پسند کرتے ہیں،ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اردو ذریعہ تعلیم کو اختیار کرنے پر طلبہ کو راغب کریں اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ کو یہ احسا س دلائیں کہ اردو میں تعلیم حاصل کرنے سے ہی ہم اپنی مادری زبان میں اچھی طرح سے تعلیم حاصل کرسکتے ہیںاور دیگرزبان و علوم پر مکمل عبور حاصل کرسکتے ہیں، اردو کی تحریک کو اپنے گھروں سے شروع کرنے کی ضرورت ہے ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر بشیر احمد پرنسپل المدینہ کالج محبوب نگرادارہ ادب اسلامی کی جانب سے آج ہپینز اسکول پرمنعقدہ ادبی اجلاس سے کیا وہ”اردو ذریعہ تعلیم اور ہماری ذمہ داریاں“کے موضوع پر مخاطب تھے۔انہوں نے مزید کہا کہبچوں کی ذہنی نشوونما صرف اور صرف مادری زبان ہی میں ممکن ہے اکیسویں صدی میں ہر فرد کی ترجیح انگریزی زبان اپنے بچوں کو سکھانے کی ہے لیکن یہ بات ہمیں نہیں بھولنی چاہئے کہ انگریز بھی اپنے بچوں کومادری زبان ہی میں تعلیم دلواتے ہیں ہمیں چاہئے کہ اپنے بچوں کو مادری زبان اردو میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کریں ساتھ ہی ساتھ دیگر علوم بھی سکھائیں تاکہ دور حاضر کے تقاضوں کی تکمیل ممکن ہو۔قبل ازیں ڈاکٹر معید جاوید صاحب صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد نے اپنے خطاب میں ادارہ ادب اسلامی کو فعال ادارہ قراردیا جو سارے ہندستان میں صالح ادب کے فروغ کے لےے جدوجہد کررہا ہے انہوںمزید کہا کہ ادبی و ثقافتی پروگرامس اور مشاعروں کے ذریعے اردو کے فروغ کی کوشش کی جارہی ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو زبان کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے،ادبی اجلاس کi صدارتی خطاب میں ڈاکٹر سیادت علی صدر ادارہ ادب اسلامی ہندمحبوب نگرنے کہا کہنئی نسل انسانی کی بہترین پرورش کی ذمہ داری بنیادی طور پر والدین اوردوسرا ساتذہ پر ہوتی ہے اور یہ تربیت کا کام اس قدراہمیت کا حامل ہے کہ بچے کی پیدائش سے لے کر نوجوان ہونے تک ہر بچہ کو اپنے ماں باپ اور اساتذہ کی رہنمائی ومددکی ضرورت ہوتی ہے ۔ ہر کامیاب انسان کے پیچھے والدین اور خاص طور پر اساتذہ کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ قبل ازیں ادبی اجلاس میں ”اے وقت تجھے سلام “کے موضوع پرطنزیہ مضمون محمد اسحاق صاحب مدرس نے پیش کیا، ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل معتمد ادارہ ادب اسلامی محبوب نگر نے نظامت کے فرائض انجام دئے ، ادبی اجلاس کے فوری بعد غیر طرحی مشاعرہ جناب حلیم بابر صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا جس میںشعراءاکرام جناب نور آفاقی،جناب ڈاکٹر معید جاوید، جناب حلیم بابر، جناب صادق فریدی،جناب انجم برہانی(چچا) جناب جامی وجودی، مولانا جواد مظاہری ، مولانانعیم کوثررشادی،جناب محبت علی منان،جناب ضیاءبرہانی نے اپنا کلام سنایا۔آئند مشاعرے کے لےے طرحی مصرعہ”زندگی میں ہر قدم پر ِ‘ حادثہ اچھا لگا“ دیا گیا ہے۔ڈاکٹر عزیز سہیل کے شکریہ پر مشاعرے کا اختتام عمل میں آیا۔محمد شجاعت علی صاحب نے انتظامات انجام دئے۔ اس پروگرام میں ڈاکٹر معید جاوید کی بحیثیت صدر شعبہ عثمانہ اردو منتخب ہونے پر تہنیت پیش کی گئی۔
(منجانب: ادارہ ادب اسلامی محبوب نگر)
***


تاثرات
            امید کہ آپ نیز ماہنامہ ” پیش رفت“ کے اشاعتی و ادارتی امور سے وابستہ تمام احباب بفضلِ رب کائنات خیر و عافیت سے ہوں گے۔
            ماہ دسمبر ۴۱۰۲ءکا شمارہ اپنے تمام تر امتیاز و اختصاص کے ہمراہ موصول ہوا۔ اِس سے قبل کے شمارے بھی وقت پر ملتے رہے ہیں۔ مسرت کی بات ہے کہ آپ کی ادارت میں رسالہ نہایت کامیابی کے ساتھ اپنا اشاعتی سفر طے کررہا ہے۔ تقریباً ہر شمارے کے مندرجات عمدہ اور بامقصد ہوتے ہیں۔ تازہ شمارے کے مشمولات بھی حسب ِ روایت معیاری ہیں۔
            مزرا خلیل احمد بیگ، شکیل احمد، تسلیم عارف اور سہیل انجم کے مضامین بصیرت افروز ہیں۔ آپ کا پیش نامہ بعنوان ” اسلامی ادب اور سفر نامہ حج“ ذہن سے گزر کر روح میں اترجاتا ہے اور وادفکر میں روحانی روشنی بکھیردیتا ہے۔ ابو نبیل خواجہ مسیح الدین اور محمد طارق کے افسانے بھی پسند خاطر ہیں۔ ” سوز و ساز“ کے اوراق بھی دلکش منظومات سے مزین ہیں۔ خدا کرے اس رسالہ کا سفر اسی طرح جاری و ساری رہے۔
مراق مرزا
 ممبئی
........
  "پیش رفت“ بڑی پابندی سے موصول ہورہا ہے اور تحریک ادب اسلامی کی پیش رفت میں مزید پیش قدمی کررہا ہے۔ تازہ شمارہ ستمبر ۴۱۰۲ءاس بات کا بین ثبوت ہے۔ مقالوں کے باب میں مختصر مضامین شامل ہیں جو اپنے اچھوتے موضوعات کے سبب متوجہ کرتے ہیں اور مختصر ہونے کے باوجود جامع انداز میں اپنے موضوع پر روشنی ڈالتے ہیں۔اکبر الٰہ آبادی پر بہت دنوں کے بعد ایک اچھی تحریر پڑھنے کو ملی ہے، جس سے ان کی ایک صحیح تصویر سامنے آئی۔ عام طور پر وہ اپنے مسلم معاشرے میں مشرقی تہذیب کے دلدادہ سمجھے جاتے ہیں۔ در اصل وہ مغربی تہذیب کی ترقی معکوس کے خلاف تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے غیر محسوس طریقے سے اصلاح معاشرہ کا کا م کیا تھا۔ اس لحاظ سے وہ سرسید کے خلاف نہیں تھے۔ البتہ نظریاتی اختلاف ہونا ایک الگ بات ہے، لیکن انھیں سرسید کے دشمن کے طور پر پیش کرنے کی ایک غلط تصویر ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وہ تو سرسید کی خدمات کا اعتراف کرتے تھے۔ ان کا یہ شعر اس بات کا ثبوت ہے:
ہماری باتیں ہی باتیں تھیں سید کام کرتا تھا
نہ پوچھو فرق جو کہنے والے کرنے والے میں ہے
            اسلم غازی کو میں ایک شاعرکی حیثیت سے جانتا تھا لیکن محمد یحیٰ جمیل کے افسانوں کا تجزیہ پڑھ کر بطورِ خاص فکشن جیسے میدان میں ان کی تنقیدی بصیرت کا اندازہ ہوا۔ ابن صفی پر محترم محمود الٰہ آبادی کا مضمون متاثر کرتا ہے۔ آج ابن صفی کے کارناموں کو پیش کرکے اعتراف خدمات کا ایک اچھا سلسلہ چل پڑ ا ہے۔ پیش رفت نے بھی اس مثبت سلسلے کی نمائندگی کی ہے۔ ڈاکٹر عمیر منظر کا ” اردو کی غزلیہ شاعری پر فارسی غزل کا اثر“ مختصر مگر اہم مضمون ہے۔ ڈاکٹر قسیم الدین نے اردو ادب میں تذکرہ نگاری کی اہمیت پر بڑے اچھے انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ البتہ ’ ’ہم عصر اردو افسانے“ کا جائزہ تشنہ لگتا ہے۔ تسلیم عارف کو ممتاز افسانہ نگار غضنفر کے علاوہ دیگر اہم ہم عصر افسانہ نگاروں کے افسانوں کے تجزےے بھی پیش کرنے چاہےے تھے۔تاکہ ہم عصر اردو افسانے کا یہ منظر نامہ کسی قدر نمایاں ہوتا۔
            افسانے سبھی اچھے ہیں اور مثبت انداز فکر کو پیش کرتے ہیں۔ ارشد صدیقی نے اپنے افسانے میں پامال موضوعات پر افسانے تخلیق کرنے کی بابت ایک اچھوتے انداز میں افسانہ تخلیق کیاہے اور آخر میں سلمیٰ صنم کے مثبت ردعمل نے اسے بامعنیٰ بنا دیا ہے جو متاثر کرتاہے۔ محمد طارق کا افسانہ آج کے سیاست دانوں کی موقع پرستی اور اشتہارانہ سیاست کا کھلا ثبوت ہے۔ وکیل نجیب کے افسانے متوجہ کرتے ہیں جن میں عصری حسیت کے ساتھ غضب کا طنز موجودہے جو پڑھنے والے کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور غوروفکر کی دعوت بھی دیتا ہے کہ آج مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور ظلم و ستم کی وہ سچی تصویر پیش کرتے ہیں۔
            ادبی سرگرمیاں، تبصرے اور مکتوبات کا کالم بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں، لیکن ان کالموں کو مزید وقیع اور قوی بنانے کی ضرورت ہے۔ کمپوزنگ کا فاونٹ اگر کچھ کم کردیا جائے تو مواد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
            شعری حصہ بھی غنیمت ہے۔ کل ملا کر ” پیش رفت“ کی اس پیش رفت پر میں آپ کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ادب کے افق پر پابندی سے ” پیش رفت“ کے اسی طرح جلوہ گر رہنے کی دعا کرتا ہوں۔
ڈاکٹر عظیم راہی
اورنگ آباد(مہاراشٹر)
........
            ” پیش رفت“ نومبر ۴۱۰۲ءکا شمارہ پڑ ھ کر معلومات میں اضافہ ہوا۔ پیش نامہ میں Feminism کی تحریک کو اسلامی ادب کے تناظر میں بالکل نئے زاوےے سے پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح اسلامی روایات میں ترقی پسند عناصر کی نشان دہی جس انداز سے مختلف اقوال اور مثالوں کے ذریعہ کی گئی ہے ایک انوکھی بات ہے۔ شاہ اجمل صاحب نے اسلامی ادب میں افسانہ نگاری کے مسائل و امکانات پر بحث کرتے ہوئے لکھا کہ ” اسلامی افسانہ نگار شتر بے مہار کی طرح مغرب کے افسانوی یا ادبی جنگل میں آزاد نہیں گھوم سکتا۔“ اس کے علاوہ انھوں نے افسانے میں صالح فکر کی بات کی ہے۔ یہ چند نکتے سمجھ میں نہیں آئے۔ کیوں کہ افسانہ نگار تو زندگی اور معاشرے کی پیچیدگیوں کا عکاس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ غزلیں اور افسانے وغیرہ معیاری ہیں۔ اس سے ایڈیٹر کے کمال انتخاب کا اندازہ ہوتا ہے، جو کہ قابل تعریف ہے۔
شہناز رحمان
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
........
            ” پیش رفت“ اکتوبر ۴۱۰۲ءکا شمارہ ہاتھوں میں ہے۔ سب سے اچھی بات یہ لگی کہ رسالہ اب مکمل طور پر ادبی ہوگیا ہے۔ ادبی مضامین سے لے کر شاعری، تمام تحریریں، ملک میں وقوع پذیر ادبی تحریکات اور رجحانت کا پتہ دیتی ہیں۔ماشاءاللہ۔ مزید یہ کہ اس میں ہرنوعیت اور ہر صنف ِ ادب پر تحریریں شائع کی جارہی ہیں۔البتہ ایک مشورہ اگر آپ بُرا نہ مانیں تو عرض کروں کہ کتابوں پر تبصروں کے لےے بہت زیادہ جگہ نہ دی جائے یا پھر مضامین کی کتربیونت نہ کرتے ہوئے فانٹ سائز کم کردیا جائے، جس کی وجہ سے زیادہ لوگوں کو رسالے میں جگہ مل سکے۔ میں نے تو یہ بھی محسوس کیا ہے کہ ایک صفحے پر صرف ایک نظم یا زیادہ سے زیادہ دو شعری تخلیقات دی جارہی ہیں جب کہ اس میں اس سے زیادہ شعری نگارشات شامل کی جاسکتی ہیں۔ ادبی مواد کا انتخاب تو ماشاءاللہ بہت خوب ہوتا ہے۔ ایک تو آپ کا حسنِ انتخاب پھر اوپر سے معیارِ ادب، دونوں کی اپنی اپنی سطح ہے جس کی وجہ سے پیش رفت کو ایک نیا روپ ملا ہے۔ اللہ اسے اعلیٰ و ارفع مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ یوں ہی بناتا رہے۔ آمین!
خان حسنین عاقب ایڈوکیٹ
پوسد(مہاراشٹر)
........
آن لائن موصولہ تاثر
            ماشاءاللہ بہت خوب!’پیش رفت‘ آخر کار آن لائن ہوہی گیا،جس کا انتظار تھا۔ جب ’سہ روزہ دعوت‘آن لائن ہوا تھا ، تبھی میں نے عرفان صاحب سے درخواست کی تھی کہ کبھی پیش رفت پر کام ہونا چاہےے۔ آپ نے پہل کی اور آخر کار کام ہوگیا۔اب اس کا باقاعدہ ویب پیج (web page) بھی بن جاناچاہيے۔
ابراہیم علی حسن

سینٹ جانس( کنیڈا)