Saturday 1 August 2015

ماہنامہ پیش رفت اگست 2015

ماہنامہ پیش رفت اگست 2015

بسم الله الرحمن الرحيم

پیش نامہ
تحريک و تخلیق کا رشتہ
 اور قرآن کا ادبی اعجاز

          فرد کا ہمہ جہتی ارتقا،معاشرے کی تعمےر و ترقی اور تہذےب کی تشکیل و صورت گری سب ادھوری اورناقص ہے،اگر کوئی نظامِ فکر و عمل ےا دےن و مذہب ہماری جمالےاتی اقدار کی نشو نما،ادبی ذوق اور فنون لطےفہ کی تربےت میں اپنا کردار ادا نہ کرے۔ اسی طرح وہ تحرےک محدود اور بالآخر ناکام ہے جو جمالےاتی احساس کو تشنہ چھوڑ دے اور ادبی ذوق کی پرورش کا سامان نہ کرے۔واضح رہنا چاہئے کہ فرد و سماج کے اندر موجود تخلیقی ذہانت و قوت سے وابستہ رہ کر ہی کوئی بڑی تحرےک برگ و بار لاسکتی ہے ۔اگر تخلیقی توانائی اور ادب کی تسخےری قوت سے کسی تحرےک کو کمک نہ ملتی رہے تو وہ فقط ذہنی ورزش کی انجمن ےا بے رنگ و بو چمن بن جائے گی ، اوروقت کے ساتھ سپاٹ ہو کر وےرانے میں تبدیل ہو جائے گی ۔اسی طرح ادبی سرگرمیاں اگرفکری تحریک سے بے نےاز ہو جائےںتو بے مقصد ہو کر ذہنی عےاشی کا کلب ےا ذات کے دلدل میں دھنس جائےںگی اور نہےں تو پھر دےوانے کی بڑ بن جائےںگی۔
          یہی وجہ ہے کہ دنےا میں جس کتاب نے سب سے بڑی کامےاب تحریک برپا کی وہ ادب کا لازوال شاہ کار ہے ۔اس نے اپنی قوت تسخےر سے ایک عالمگےر انقلاب لاکر دکھا دےا ۔افراد کو ارتقا کی بلند ترےن چوٹی پر پہنچا دےا، جس کے ذرےعے ایک پاکےزہ معاشرہ وجود میں آےا اوراعلی وارفع درجے کی تہذےب و تمدن کی پرورش ہوئی۔ پہلے اس نسخہ کےمےا نے عربی قوم اور اس کے ادب کو بدلا۔ پھر دنےا مےں جہاں جہاں اس نسخے کے ساتھ مسلمان اخلاقی وجمالےاتی قدروں سے آراستہ ہو کر پہنچے وہاں انھوں نے انسانوں کی اجتماعی زندگی میں انقلاب برپا کردیا ۔ ان کے معاشرتی آداب اور ادبی قدروں کو بھی بناےا ، سنوارا۔ یہ کوئی سپاٹ کتاب نہےں ہے بلکہ ایک ادبی معجزہ ہے۔ اس کلام الٰہی کے ادبی جلال وجمال کا یہ حال ہے کہ اُس کے آگے و قت کے بڑے بڑے ادبا،شعراءاور عربی ادب کے خدائے سخن تک نے سرِ تسلیم خم کر دےا ۔شعرائے سبعہ معلقہ مےں سے لبےد کو کون نہےں جانتا ۔یہی وہ شاعر ہے جس کے ایک شعر پر فرزوق جےسا بلند پایہ شاعر سجدہ رےز ہو گےا لیکن لبےد خود قرآن کے اعلی اسلوب اور ادبی اعجاز کے آگے گونگا ہو گےا۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ نے لبےد سے شعر سنانے کی فرمائش کی تو اس نے جواب دےا سورہ بقرہ اور آل عمران کے بعد شعر گوئی کہاں۔
          قرآن کو ادب کا اعلی نمونہ بنا کر پیش کرنے میں اللہ کو اپنے ادبی کمال کا اظہار اور تخلیقی اعجاز کی نمائش مقصود نہےں تھی۔وہ بندوں سے واہ واہی نہےں لےنا چاہتا ۔وہ اپنی ذات مےں محمود و یکتا ہے اوروہ اےسی تمام باتوں سے بے نےاز ہے۔اصلاً یہ ہماری ہداےت کی تکمیل کا تقاضا تھا لہٰذا اس ادبی کلام کے ذرےعے قرےش پر حجت قائم کی گئی اورانسانےت کی ہمہ جہتی ارتقاکا سامان بھی کیا گیا۔کےوں کہ انسانی ارتقا ناقص ہے اگر اس کے نازک اور لطےف احساسات بےدار نہ ہوں،اس کا ذوق جمال بالیدہ اور تراشےدہ نہ ہو۔ایک شخص کازاو یہ نظر مکمل نہےں ہے اگر وہ چےزوں کو اس زاوےے سے دےکھنے کا سلےقہ نہےں رکھتا ہے، جس سے ان مےں حسن پےدا ہوتا ہے ۔لفظ ومعنی کے تعلق کو سپاٹ طرےقے سے سمجھنے والا ذہن کند ہو جاتا ہے ۔اےسے شخص مےں جذبات کا رس، ادراک کا نور،احساسات کی لطافت،خےال کی نزاکت ،اظہار کی حلاوت سب ڈےلےٹ ہو جاتی ہےں وہ روبوٹ بن کر جامدہو جاتا ہے اور ترقی کی راہ پر ازخود بڑھنا اس کے لےے مشکل ہو جاتا ہے ۔اس طرح اس کی داخلی نشو نما رُک جاتی ہے ۔(وکذب بالحسنی فسنےسرہ للعسریٰ)
          فرد ،سماج اور تہذےب کو مسلسل ترقی پذےر رکھنے کے لےے لازم ہے کہ انسانوں کے تمام جذبات بےدار اور احساسات زندہ ہوں۔ان کا فکر وشعور پختہ اور ذوقِ لطےف بالےدہ ہو۔یہ سب کام قرآنِ مبےن اورکتاب حکیم نے انجام دیایہ محض کتابِ آئےن نہےں ہے ۔فرد کاآئےنہ اور قوموں کے عروج وزوال کی داستاںہے۔ یہ مومن کا ہتھےاراور اس کی زرہ بھی ہے۔یہ د عا اور دوا دونوں ہے ۔یہ ہمےں جزوی طور پر مخاطب نہےں کرتا۔کسی ایک پہلو سے ہمارا احاطہ نہےں کرتا بلکہ ہمارے پورے شعور کو مخاطب اور پورے وجود کا احاطہ کرتا ہے ۔یہ ہماری شخصےت کے اندرون اور بےرون دونوں کو منور کرتا ہے۔اس کے نور سے ہمارا جمالےاتی احساس اور وجدانی ذوقِ جما ل بھی روشن ہو جاتا ہے ۔اسی لےے قرآن فہمی کے لےے انسان کے جمالےاتی شعور کی خاص اہمےت ہے ۔اگر کسی کا ادبی ذوق تربےت ےافتہ نہ ہو، وہ لفظ میں معنی کے پوشےدہ امکانات کی لذت سے ناآشنا ہو۔لفظوں کے استعمال اور اس کی تہہ داری سے ہونی والی جمالےاتی انبساط سے انسےت نہ رکھتا ہو تو وہ قرآن کا اچھا قاری نہےں ہو سکتا۔ یہ شعور و احساس،فہم و جذبہ اور ادراک واظہار کو جس خوب صورتی سے یکجا کر کے انسان کی پوری شخصےت کو متاثر کرتا ہے ۔قرآن کے اعجاز کا یہ ایک ممتاز پہلو ہے۔کتابِ الٰہی کو ذرا ڈوب کر پڑھےے تاکہ وہ آپ کے ضمےر پر نازل ہونے لگے پھر مشاہدہ ہوگا کہ وہ کس طرح ہماری ذات کے داخل کی ہر سطح کو اور خارج کے پورے ابعاد کو ہر زاوےے سے اس طرح محےط کر لےتا ہے جےسے ہم رَنگ و خوشبو کے ابلتے ہوئے چشمے اور نور و نغمہ کے آبشار کے بیچ پہنچ گئے ہےںپھر ہماری ذات اس کے نور اور سرور سے شرابور ہو جاتی ہے۔ ہم ارتقا ئی منازل سے گزرتے اور قرب الٰہی کی نئی نئی روحانی لذتوں سے دوچار ہوتے ہےں۔ا س دوران کبھی آنکھےں نم ہوجاتی ہےںکبھی دل بھر آتا ہے ۔ کبھی بندہ تسبےح و استغفار کرنے لگتا ہے اور اےمان بڑھ جاتاہے پھرہزاروں سجدوں کی تڑپ کے ساتھ وہ سجدہ رےز ہو جاتا ہے۔
          قرآن کی ادبی اور تسخےری قوت کا اندازہ اس واقعہ سے بھی کےا جا سکتا ہے جس کا ذکر سورہ نجم کے سلسلے مےں تفسےر کی کتابوں مےں محفوظ ہے۔ایک دفعہ رسول اللہ نے قرےش کے مجمعے مےں سورہ نجم کی تلاوت فرمائی۔اس کلام کے شدتِ تاثےر کا یہ حال ہے کہ جب آپ نے اسے سنانا شروع کےا تو مخالفےن کو حسب معمول اس پر شور مچانے کا ہوش باقی نہےں رہا اور جب آپ نے سورہ نجم کے اختتام پر سجدہ کےا تو مومن اور کافر سب سجدے مےں گر گئے ،بعد مےں مشرکےنِ قرےش کو سخت پرےشانی لاحق ہوئی کہ یہ کمزوری ان سے کےسے سرزد ہو گئی۔اصل میں یہ ان کی کمزوری نہےں تھی، قرآن کی قوتِ تاثےر تھی، اس کا زور بےان تھا۔جو اِن کو اس طرف بہا لے گےا۔
          حقےقت یہ ہے کہ کلام کے حوالے سے قرآن تجلیِ الٰہی ہے، جو عربی صوت و آہنگ میں نمودار ہوئی ہے۔ اس لےے اپنے متکلم کی ذات و صفات کی شان بھی رکھتی ہے ۔جےسے کوہِ طور پر ایک تجلی دےدارکے حوالے سے نمودار ہوئی تھی ۔قرآن نے اپنی اس حقےقت کو بہت اچھی طرح سے سمجھاےا ہے۔لو انزلنا ھٰذاالقرآن علٰی جبل لَرَاےتہ (الحشر:۱۲) اگر کلام ِالٰہی براہ راست پہاڑ پر نازل ہو جاتا تو ےقےناً پہاڑ خشےت الٰہی سے کانپ اٹھتا جےسا کہ قرآن نے بتاےاہے۔کےوں کہ کسی زمےنی مخلوق کے اندر یہ استعدادنہےں رکھی گئی ہے کہ وہ بلا واسطہ جلوہ الٰہی کی تاب لا سکے ۔ قرآن پاک جبرےل امےن کے ذریعہ قلب محمدی تک پہنچا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اُمت کو ملا اور اب اُمت کے ذرےعے ساری انسانےت کو قےامت تک پہنچتا رہے گا۔ یہ ایک معجزہ ہے ۔ جس کے ذرےعے امت مسلمہ قےامت تک تحرےک اسلامی کو زندہ رکھے گی ۔ اس سلسلے میں یہ بات بہت اہم ہے کہ قرآن نے جب چیلنج کےا کہ اس کے جیسی ایک سورہ بنا کر لے آﺅتو شعر و ادب کے ماہرےن اس حقیقت کو فوراسمجھ گئے۔ آج بہت سے لوگ اس چےلنج کی حقےقت کو نہےں سمجھتے ۔ کوئی بھی ادب پارہ مواد اور اسلوب،مضمون اور ہیئت،موضوع اور طرز ادا دونوں سے عبارت ہے ۔جب قرآن نے چیلنج کےا تو دونوںحےثےت سے چیلنج کےاصرف اسلوب کا اعجاز،بےان اور طرز ادا کی ندرت کا سوال نہےں۔ کےوں کہ دونوں کو حقےقت مےں جدا نہےں کےا جا سکتا ۔ تنقےدی سہولت کے لےے ہم موضوع سخن اور طرز ادا کو الگ الگ زاوےے سے دےکھتے ہیں اور مطالعہ بھی کرتے ہیںلیکن اصل میں وہ ایک نامیاتی کُل ہوتا ہے،اور اسی کُلی حےثےت سے چیلنج کرنا اصل اہمےت رکھتا ہے ۔جہاں تک انسانی کلام کا معاملہ ہے وہ دونوں حےثےت سے محدود اور زمان و مکان کے اندر محصور ہوتا ہے۔بڑے سے بڑا شاعر و ادےب اپنے علم ،جذبہ،تخیل،احساس اور ادبی کرافٹ کے اعتبار سے بشرےت کے حدود میںپابند ہوتا ہے۔ اپنی تمام جدت کے باوجود اس کے تخلیق کا سانچہ محدود اور فن کا مَدارزمانی و مکانی ہوتا ہے۔انسان کے تصور میں معنی کو ڈھالنے کی جتنی استعداد ہے اس کی بھی ایک حد ہے۔تخیل کی جو پرواز ہے اس کی ایک معلوم سطح ہے۔ اس کا علم غےب سے پرے نہےںہو سکتا۔ماضی،حال اور مستقبل سے وہ باہر نہےںجا سکتا ۔انسان اپنی شکل اور صلاحےت کی ہر جہت سے محدود اور ناقص ہے ۔اس کے برعکس خدا کی ذات و صفات ،علم وقدرت، عزت وحکمت سب لا محدود ہےں۔ہو الاول والآخر والظاہر وا لباطن (الحدےد: ۲-۳)۔ اگر سارے سمندروں کی روشنائی بنا دی جائے اور سارے درخت قلم بنا دئے جائےں تب بھی اس کی ذات وصفات کا احاطہ نہےں کیا جاسکتا ہے ۔اس لےے اس کے کلام کی شان ،اس میں بےان کےے ہوئے مضامےن ومواد ہیئت اور طرزادا سب ہمارے تخلےقی مدار اور علمی دائرے سے بہت پرے ہیں۔ان کا تخلےقی و علمی سانچہ نورانی اور یزدانی ہے ۔اس کے کلام کے اندر،معنی آفرےنی کی سطح اوراس کاادبی کرافٹ سب چےزے دےگر ی ہےں۔لہٰذا اس چیلنج کا یہ مطلب نہےں ہے کہ کسی ایک مےدان کے ماہرِ فن نے اپنے سے کمتر ماہر فن کو مقابلے کی دعوت دی ہے ،بلکہ حقےقت یہ ہے کہ مالک ارض و سماں نے جس کا علم ہر چےز پر محےط ہے،اس نے علم و تحقےق ،نطق و تخلےق کی محدود صلاحےت رکھنے والی مخلوق کو اس کے عجز سے با خبر کرتے ہوئے متنبہ کےا ہے کہ تم اس زعمِ باطل میں مبتلا ہو کہ حےات و کائنات کا سارا علم تم پر منکشف ہو گےا ہے ۔کمال اظہارکی آخری حد کو تم نے چھو لےا ہے اور اب تم کسی ہداےت اور رہ نمائی کے محتاج نہےں ہو تو یہ احساس کبرےائی اپنے دل و دماغ سے نکال دو۔اصل میں اہل عرب کو اپنی زبان دانی اور طرز ادا پر ناز تھا اوراس پر قدرت کاملہ کا غلط زعم بھی تھا۔ اسی لےے حکمتِ دعوت کے تحت ان کو یہ بتاےا گےا کہ تمہاری تخلیقی صلاحےت ،اظہار وبےان کی قدرت اور شعری و ادبی مہارت کا حال تو یہ ہے کہ پوری کتاب الٰہی تو کجا اس کی مانند ایک سورہ بھی تم تخلیق نہےں کر سکتے ۔لہٰذا تم اپنے عجز کو محسو س کرو تاکہ ہداےت پا سکو اور اپنی صلاحےت کو صحےح سمت میں لگا سکو۔چنانچہ ہم سب جانتے ہےں کہ عرب کے شعراءو ادبا نے اس کو محسوس کےا کہ واقعی قرآنی ادب کا تخلیقی کمال بالکل دوسرا اور نرالا ہے ۔بالآخران کو تسلیم کرنا پڑاکہ قرآن جس اسلوب میں کلام کرتا ہے وہ اسلوب ان کے بس کا نہےں ہے۔ وہ تخلےق کے جن اسلوب اور ہیئت سے واقف تھے قرآن کو ان میں سے کسی صنف میں رکھنا ان کے لےے مشکل تھا۔اس کا تخلیقی مدار لا محدود ہے۔لہذٰا یہ کسی بشر کاکلا م نہےں ہو سکتا ہے۔چنانچہ ولےد بن مغےرہ جو ایک بڑا ناقد شعر و ادب ہے ۔وہ بے اختےار کہہ اٹھا کہ”بہ خدا تم میںسے کوئی شخص مجھ سے زیادہ نہ شعر سے واقف ہے نہ رجز اور قصےدے سے، اور نہ جنوں کے الہام سے۔خدا کی قسم یہ کلام جس شخص کی زبان سے جاری ہے،ان میں کسی چےز سے مشابہ نہےں۔بہ خد ا اس کلام میں بڑی حلاوت اور رونق ہے۔ اس کی شاخےں ثمر بار ہےں۔اس کی جڑےں شاداب ہےں۔یہ لازماً غالب ہوگا۔اسپر کوئی چےز غلبہ نہ پا سکے گی اور یہ اپنے نےچے ہر چےز کو توڑ ڈالے گا۔“ خود اللہ کے رسول نے بھی اس کے عجائبات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماےاکہ اس سے زبانےں خلط ملط نہےں ہوتےں۔ انسان تو انسان جب جنوں نے قرآن سنا تو متاثر ہوئے بغےر نہےں رہ سکے اور پکا ر اٹھے کہ ہم نے ایک عجےب قرآن سنا ہے ۔اللہ کے رسول نے صحےح فرماےا کہ علماءاس سے سےر نہےں ہوتے ہےں۔بار بار دہرانے سے یہ پرانا نہےں ہوتا،اس کے عجائب ختم نہےں ہوتے اور اقبال کے لفظوں میں:
فاش گویم آں چہ در دل مضمر است
ایں کتابے نےست چےزے دےگر است

مثل حق پنہاں وہم پےدا ست تو
ایں کلام زندہ و پاےندہ گوےا ست تو
          یہ ہے قرآن کریم جس نے تحرےک اسلامی کی رہ نمائی کےسی حکیمانہ شان اور ادبی آن بان کے ساتھ کی ہے۔اگر آدمی غور کرے تو تحرےک ،تخلےق کے رشتے اور قرآن کے اسلوب دعوت و تربےت اور ادبی اقدار کی اہمےت کو سمجھ سکتا ہے۔
             ڈاکٹرحسن رضا

حمد
کشتی کو دے کنارا اے مالکِ حقیقی
ہوں میں خطا میں ڈوبا اے مالکِ حقیقی

چھپ کر گناہ تجھ سے کیسے کرے گا کوئی
تو ہے علیم و دانا اے مالکِ حقیقی

ہر شئے پہ حکم رانی، قدرت تری نرالی
ہر سو ہے تیرا جلوا اے مالکِ حقیقی

میرا یقیں ہے، جب بھی بیمار میں ہوا ہوں
تونے کیا ہے اچھا اے مالکِ حقیقی

در در سے پھر کے تیری چوکھٹ پہ آگیا ہوں
”خالی ہے میرا کاسہ اے مالکِ حقیقی“

تو اپنے مومنوں کی رکھ لے جہاں میں عزت
وہ ہوں کہیں نہ رسوا اے مالکِ حقیقی

دنیا کو پاکے انساں مسرور ہو رہا ہے
میری بنادے عقبیٰ اے مالکِ حقیقی

دیتا ہے تو ہی اس کو جو مانگتا ہے تجھ سے
خالی کبھی نہ لوٹا اے مالکِ حقیقی

تیرا ضمیر تجھ سے کرتا یہی دعا ہے
اس کو دکھا دے طیبہ اے مالکِ حقیقی

ضمیر اعظمی
نئی دہلی
9810915189

بڑھ کے ماں باپ سے اللہ ہے شفقت تےری
منبع جود و سخا عام ہے رحمت تےری

کافروں کو بھی سدا رزق دےا ہے تو نے
تو ہے رحمن خدا عام ہے رحمت تےری

تےرے بندے ہےں سبھی، سنتا ہے سب کی ےا رب
بخششےں کرتا ہے، ہردل مےں ہے عظمت تےری

پل مےں تو شاہ بنائے اور گدا بھی کردے
جو بھی توچاہے وہ ہو جائے، ہے قدرت تےری

ظلم جتنا بھی ےہ چاہےں کرےں ظالم لےکن
ہے ےقےن زےر کرے گی انھےں قوت تےری

تےرا بندہ ےہ رفےق آےا ہے در پر تےرے
شکر تو اس کو عطا کر، ےہ ہے نعمت تےری

محب اللہ رفیق
نئی دہلی
9311523016

نعــــــت

مدینے سے الگ رہ کر مزہ کیا خاک جینے میں
مزہ جینے کا ہے، جب اپنا مسکن ہو مدینے میں

شرف جس کو ملا اُن کی غلامی کا، زہے قسمت
نہیں ہے اس سے بڑھ کر کچھ دو عالم کے خزینے میں

ملی ہیں عظمتیں کیا کیا اسے آقا کی نسبت سے
وہ اک چھوٹی سی شے، دل، جس کو ہم رکھتے ہیں سینے میں

نہیں ہوگی وہ جنت کے گل و ریحاں میں بھی شاید
وہ اک جاں بخش خوشبو تھی جو آقا کے پسینے میں

نجات اخروی سے بہرہ ور ہوگا وہی جس نے
اماں دنیا میں لی ہے اُن کی طاعت کے سفینے میں

کسی صورت مکمل اس کا ایماں ہو نہیں سکتا
محبت سرورِ دیں کی نہیں ہے جس کے سینے میں

نمونہ سرورِ عالم کی سیرت کا ملے گا بس
ابوبکرؓ و عمرؓ، عثمانؓ و حیدرؓ کے قرینے میں

رئیس اپنی زباں کو مدحِ آقا سے منور رکھ
اسی سے روشنی آئے گی، دل کے آبگینے میں

ڈاکٹر رئیس احمد نعمانی
علی گڑھ

دل و جاں سے ہے جو فدائے محمد
وہ شاہوں سے بڑھ کر گدائے محمد

تصور کی پرواز آخر کہاں تک
تصور سے آگے ہے پائے محمد

وہ دن آنے والا ہے آکر رہے گا
زمانے میں ہوگی ضیائے محمد

سماعت سے پردے ہٹا کر تو دیکھو
ہے رحمت ہی رحمت نوائے محمد

ذرا مرتبہ اُس سُخن ور کا دیکھو
تھی قسمت میں جس کے رِدائے محمد

ہے تفسیرِ قرآں، مجسّم، مکمل
موثر ہے اک اک ادائے محمد

کوئی حد ہے حدِّ رسالت کی مظہر
ابد تک رہے گی ندائے محمد

مظہر محی الدین
کوپل
 9448326670


ہندوستان کی جنگ آزادی میں اردو زبان کا رول

ڈاکٹر قسیم الدین حنظلہ
کانپور (یوپی)
9415903452
          زبان صرف وسیلہ اظہار ہی نہیں، بلکہ تہذیب کی شناخت کا ذریعہ بھی ہے اور اسی کے ذریعہ سماجی روابط کو وسعت حاصل ہوتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے مسائل اور معاملات سے باخبر ہوتے ہیں اور اسی باخبری کی بنیاد پر ایک دوسرے سے روابط استوار ہوتے ہیں۔
          اردو دنیا کی بڑی زبانوں میں ہے، اسے ایک معاشرے، ایک سماج اور ایک تہذیب نے اپنا خون جگر دے کر پروان چڑھایا ہے ۔ اس کے پس منظر میں ہندوستان کی چھ سات سو برس کی تاریخ بھی ہے، جو ہندوستان کے مشترکہ دکھ سکھ کی تاریخ ہے۔ ہندوستانی قومیت کو اردو کی سب سے بڑی دین یہ ہے کہ اس نے تاریخ کو اس طرح اپنے دامن میں محفوظ رکھا جس طرح فانوس میں چراغ روشن رہتا ہے اور جس طرح صبح کے ستارے کی روشنی میں کارواں، بانگ جرس کے ساتھ مقامات طے کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ اسی طرح اردو نے بھی ہمیشہ مستقبل کے لےے راہیں ہموار کیں۔
          اردو کسی فرقے کی جاگیر نہ تھی، یہ کسی مسلک کی پیرو نہ تھی اور کسی دھرم یا مذہب تک محدود نہ تھی ، اس میں اتنی قوت تھی کہ بعض دیگر زبانوں کی طرح یہ جغرافیائی حد بندیوں کی اسیر نہ رہی۔ اسی لےے ہندوستان کے شمال کو جنوب سے، مشرق کو مغرب سے ملانے کا کارنامہ اسی زبان نے انجام دیا۔ یہ ہماری قوت وحدت کا سب سے بڑا نشان اور کثرت میں وحدت کی علامت تھی۔
          ارباب دانش واہل وطن پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح منکشف ہے کہ ۷۵۸۱ءکے اولین خونی انقلاب سے ۷۴۹۱ءتک تحریک آزادی کے طویل دور میں ہندوستان کی مروجہ زبانوں میں اردو نے سب سے اہم اور فعال رول ادا کیاہے۔اس زبان کی تشکیل و تعمیر میں ترقی و سربلندی میں شہرت وناموری میں مادر وطن کے تمام فرقوں کا یکساں خون اور پسینہ، محنت اور جدوجہد شامل ہے۔
          اردو زبان کے سلسلہ میں یہ آگہی بھی ضروری ہے کہ اس کاخمیر حب الوطنی، انسانیت دوستی، پیار و محبت، باہمی اخوت اور روا داری کی آمیزش سے تیار ہوا ہے۔ اردو میں ایک عجیب و غریب انجذابی قوت ہے کہ یہ ہر زبان کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ بقول احسن مارہروی:
” دنیا کی کوئی زبان خواہ مغرب میں بولی جاتی ہو یا مشرق میں، شمال میں جاری ہو یا جنوب میں۔ ایسی نہ ملے گی جو اپنی مخالف زبانوں کے تمام لہجوں پر پوری طرح قادر ہوسکتی ہے۔ عجم (ایران) ٹ، ڑ، ڈ، ص، ض ،ط، ظ اور مخلوط ہائے ہوز کے بولنے میں گونگا ہے۔ عرب پ، چ،ژ، گ پر زبان نہیں ہلا سکتا۔ انگلستان بھی غ اور ق نہیں بول سکتا۔ اسی طرح ہندوستان میں اردو کے سوا تمام پراکرتیں اپنا شین، قاف درست نہیں رکھتیں۔ یہ بات اردو ہی کے لےے مخصوص ہے کہ اجنبی سے اجنبی لہجے کی نقل کا اصل اتار لیتی ہے۔“
          ہمارا وطن عزیز جب جب افتاد و بے کسی کا شکار ہوا اور جب جب فرنگی حکومت کے مصائب و آفات، ظلم و بربریت کے سیاہ بادل چھائے تو اردو زبان نے ہی دار و رسن ، سرفروشی اور جہاد کا ببانگ دہل اعلان و آغاز کیا۔ اس زبان کی تاریخ کے اوراق پارینہ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان کی تحریک آزادی میں اردو نے ناقابل فراموش ، ایسا تاریخ ساز رول ادا کیا ہے جس کی مثال ہندوستان کی دوسری معاصر زبانیں دینے سے قاصر ہیں۔ اردو زبان نے اپنے شاعروں، ادیبوں، افسانہ نگاروں اور صحافیوں کو ہمیشہ ایک امتیازی کردار عطا کیا ہے۔ ملک کی سلامتی اور بقاکے لےے سرفروشی اور جاں بازی کے والہانہ جذبہ سے پوری طرح عبارت ہے۔
          تحریک آزادی کے دوران اردو زبان نے کئی محاذوں پر ایسے کارہائے نمایاں انجام دےے، جنھیں تاریخ ہند کے صفحات اور ہندوستانی عوام کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ اس ذیل میں ایک اہم ترین کارنامہ اردو زبان نے یہ انجام دیا کہ ”برٹش امپائر“ جو اپنے عہد کی سب سے مضبوط و مستحکم اور ناقابل تسخیر سلطنت تھی اور جس کے بارے میں یہ قیاس عام تھا کا اس کا عروج ودبدبہ، اس کی فتوحات بے کراں ہیںاور اس کے زیرتسلط ممالک میں آفتاب کبھی غروب نہیں ہوتا۔ ایسی عظیم الشان اور ناقابل فتح حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لےے ہندوستانیوں کی جانب سے جو اقدامات کےے گئے اردو زبان نے ان اقدامات کے لےے ماحول کو سازگار بنایا۔
          اردو زبان نے ہی ” آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی“ نیز ” دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے“ کا ولولہ ، طنطنہ ، غلغلہ، شعور اور احساس بیدار کیا اور وطن عزیز کے لےے مشکل سے مشکل قربانی کا حوصلہ پیدا کیا۔ ہندوستانیوں کے دلوں میں جذبہ حریت، باہمی اخوت و محبت اور حب وطن کی قندیلوں کو اس طرح روشن کردیا کہ حصول آزادی تک ان کے جوش و جذبہ، ہمت وحوصلہ اور سرفروشی میں کسی نوع کی بھی کمی واقع نہ ہوسکی۔
          ۷۵۸۱ءمیں انگریزی حکومت کے خلاف ہندوستانیوں کی بغاوت گرچہ چند وجوہات کے سبب ناکام رہی تاہم اس نے آنے والے طوفانِ بلا خیز کی نشان دہی ضرور کردی تھی۔ اس ناکام بغاوت کے سر پرست سلطنت مغلیہ کے آخری فرماں رواں بہادر شاہ ظفر تھے۔ یہا ں اس امر کی وضاحت یا اس عندیہ کا اظہار بھی از بس ضروری ہے کہ ان کی اور ان کے دوسرے باغی ساتھیوں کی ساری حریت پسندانہ سرگرمیاں اردو زبان میں ہی جاری تھیں۔ مثلاً وطن عزیز کی فضاو

¿ں میں گونجنے والا ” انقلاب زندہ باد“ کا ولولہ انگیز نعرہ اردو زبان کا ہی عطاکردہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس زمانے کے انگریز قلم کاروں اور تاریخ نویسوں نے ۷۵۸۱ءکی بغاوت کی پوری ذمہ داری اس عہد کے اردو اخبارات اور ان کے حریت پسند مدیروں کے سرفروشانہ اداریوں، جوشیلے مضامین اور مجاہدانہ خیالات پر ہی ڈالی ہے۔

          ریشمی رومال تحریک کے ایک اہم کارکن مولانا عبیداللہ سندھی ریشمی رومال پر انگریزی حکومت کے خلاف خفیہ پیغامات لکھ کر اپنے ہم نواو

¿ں تک بھیجتے تھے، شوم

· قسمت کہ ریشمی رومال کسی طرح انگریزوں کے ہاتھ لگ گئے ، جس کے سبب فرنگی حکومت نے اس تحریک سے وابستہ متعدد علمائے کرام کو گرفتار کرلیا۔ ”تحریک ریشمی رومال“ میں ہندوستان کے مطالبہ

¿ آزادی اور اس کی مکمل اعانت کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس تحریک کا ریکارڈ جو تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے آج بھی برٹش میوزیم لندن میں موجود ہے۔ اس میں مندرج اردو تحریریںاس بات کی گواہ ہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے جنگ آزادی کے لےے کسی بھی قربانی سے گریز نہیں کیا۔ یہ پوری تحریک بھی اردو زبان میں انجام دی گئی۔

          تحریک آزادی کے دوران اردو زبان، شعر و ادب اور صحافت کے میدان میں قومی سطح کے مسلم قائدوں کی ایک طویل کہکشاں ہمارے سامنے ہے۔ اس کہکشاں کے تابندہ ستاروں میں محمد علی جوہر ’ ہمدرد‘ نکالتے تھے۔ مولانا آزاد کا آتشیں جریدہ ’ الہلال‘ تھا۔ ظفر علی خاں کا نقیب ’زمیندار‘ تھا اور حسرت موہانی اپنے سیاسی نظریات اور ادبی خیالات کی تبلیغ ’ اردو ئے معلی‘ کے وسیلے سے انجام دیتے تھے۔ مذکورہ جرائد اور اخبارات نے اردو کے ذریعہ ہی انگریزی حکومت پر بھرپوروار کےے۔ اردو زبان کی زبردست یلغار سے فرنگی حکومت کی ناقابل تسخیر بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ انگریزی سرکار ان جرائد کے حملوں کے وار سے بوکھلا اٹھی اور اردو کے ان جاں باز صحافیوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھاتی رہی تاہم آفرین ہے کہ اردو کے ان سرفروش اور آزادی کے متوالے ادبی سپاہیوں کی ہمت و حوصلہ میں کسی طرح کی کمی نہ آئی بلکہ ان کے جذبہ شوق میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔ انھوں نے اپنی قلمی تلوار سے انگریزی حکومت کی جڑیں کاٹ دیں۔ اردو ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور مدیروں نے اپنے مضامین اور بے باک تحریروں سے ہندوستان کی تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔ یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ اردو کے مدیروں اور صحافیوں نے شروع سے ہی سردھڑ کی بازی لگا کر دل کی بات کہنے کی رسم قائم کی ہے، اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا ہے، فرنگی حکومت سے کھلی ٹکر لی ہے اور جنگ آزادی میں اپنا سب کچھ نچھاور کردیا۔
          حقیقت یہ ہے کہ اگر اردو کے یہ رسائل نہ ہوتے تو ہندوستان میں جنگ آزادی کی تحریک اتنی برق رفتاری سے پروان نہ چڑھتی اور نہ ہی اردو زبان وادب کی ترقی اور عوامی مقبولیت اسے حاصل ہوتی۔ یہاں اس امر کا بھی اظہار ضروری ہے کہ اردو کے مذکورہ رسائل واخبارات کے ہم دوش و ہم رکاب دو سری زبانوں کے جرائد واخبارات بھی ہندوستان کی جنگ آزادی کی تحریک میں شامل ہوگئے تھے، مثلاً بابائے قوم گاندھی جی کا ’ہریجن‘ اور ’ سوراج‘ اور لوکمانیہ تلک کے ’ کیسری‘ کی خدمات سے بھی صرف نظر نہیں کرسکتے لیکن ہمیں اس حقیقت سے بھی مفر نہیں کہ مولانا آزاد کے ’ الہلال‘ کی تحریروں میں جو جوش و خروش ،عزم و حوصلہ اور دل نشیں ساحرانہ اسلوب ہے وہ خالص اردو زبان اور اردو صحافت کا عطیہ ہے۔ اردو زبان کی انہیں خصوصیات کا استعمال، بطور حربہ ہمارے ان مایہ نازادیبوں نے جنگ آزادی کی تحریک میں حسب لیاقت کیا۔ تحریک آزادی میں اردو زبان نے جو رول ادا کیا ہے اس کا اعتراف لالہ لاجپت رائے نے اردو ماہنامہ ’ زمانہ“ کے مدیر منشی دیانرائن نگم کو اپنے ایک مکتوب میں اس انداز سے کی ہے:
” اردو زبان کے پاس الفاظ کا جو خزانہ ہے اس سے دل کی نرمی اور گداز کو بھی بہتر سے بہتر طریقے سے پیش کیا جاسکتا ہے اور تلوار کی کاٹ کا کام بھی لیا جاسکتا ہے۔“
تحریک آزادی میں اردو کے رول کا یہ واشگاف ثبوت ہے۔
          جنگ آزادی کی اس تحریک میں اردو کے دیگر جانثاروں کے با وصف اردو کے شاعر بھی اپنے خون جگر کی کشید سے غلامی کے طوق کو اتا ر پھینکنے میں پوری طرح سرگرم عمل تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری کے وسیلے سے ہندوستانی عوام کے ذہنوں کو بیدار کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ غلامی کی زنجیروں کو پاش پاش کرنے کا عزم و حوصلہ دیا اور آزادی وطن پر نثار ہونے کا جذبہ پیداکیا۔
          تحریک آزادی کی جدوجہد میں اردو نے جس طرح حصہ لیا ہے، اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے۔ اس کی کوئی بھی صنف ایسی نہیں ہے کہ جس میں تحریک آزادی کا اظہار نہ ہوا ہو حتی کہ خالص غزل کے شعرا بھی ’ مشق سخن ‘ کے ساتھ ساتھ ’ چکی کی مشقت‘ میں بھرپور حصہ لیتے رہے۔ چند اہم شعرا کے جذبہ حریت سے سرشار اشعار پیش ہیں۔ مثلاً برج نرائن چکبست کے خیالات ہیں:
وطن پرست شہیدوں کی خاک لائیں گے
ہم اپنی آنکھ کا سرمہ اسے بنائیں گے

طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے
          رام پرشاد بسمل کے جذبہ حریت سے مملو یہ شعر کسی تعارف کا محتاج نہیں:
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
  (اس شعر کے خالق سید شاہ محمد حسن بسمل عظیم آبادی ہیں ، نہ کہ رام پرساد بسمل۔ تفصیل کے لےے اس شمارے میں پرویز اشرفی صاحب کا مضمون ملاحظہ ہو۔ مدیر)
          علامہ انور صابری کے جذبہ حریت سے سرشار نظم ” میرا ہندوستان‘ کے یہ اشعار بھی لائق ذکر ہیں ۔ علامہ یوں نغمہ زن ہیں:
آج ہراک نوجواں کہتا ہے ہندوستاں کا
چپہ چپہ کی حفاظت فرض ہے ہندوستاں کا
ہے یہ ناممکن قدم میدان سے ہٹ جائیں گے
دندناتی گولیوں کے سامنے ڈٹ جائیں گے
          محمد علی جوہر نے اپنی تمنا کا اظہار اس طرح کیا ہے:
سینہ ہمارا فگار دیکھےے کب تک رہے
چشم یوں خوں نامہ بار دیکھےے کب تک رہے
حق کی کمک ایک دن آہی رہے گی ولے
گرد میں پنہاں سوار کب تک رہے
          ظفر علی خاں کا عزم ملاحظہ کیجےے:
ہو تم جس کے ذرّے وہ ہے خاک ہند
چھپے ہیں جو اس میں وہ جوہر دکھاو

¿

ہمالہ بھی آ جائے گر راہ میں
تو ٹھکرا کے آگے سے اس کو ہٹاو

¿

          ۶۳۹۱ءمیں انجمن ترقی پسند مصنفین کے فعال اراکین بھی اپنی تقریروں، تحریروں اور شعری کاوشوں سے وطن عزیز کی آزادی کا پرچم بلند کرتے ہوئے میدان کارزار میں کود پڑے۔ اردو زبان میں اس نوع کی نظموں، غزلوں اور افسانوں کا ایک انبار موجودہے، جس میں حریت پسندانہ ، سرفروشانہ جذبات کی فروانی ہے۔
          بہر کیف ہندوستان کی تحریک آزادی کا سفر مسلسل جدّوجہد ، جاں کا ہی اور سرفروشی کی لرزہ خیرز داستانوں اور خونی انقلاب سے عبارت ہے۔ تحریک آزادی کے اس خوں آشام طویل سفر میں اردو زبان نے ہندوستانیوں کی جو خوں چکاں داستانیں رقم کی ہیں ان کی تفصیل تاریخ کی لا تعداد کتابوں کے علاوہ ” صادق الاخبار“ ”زمیندار“” انقلاب (لاہور)“ ” اردوئے معلی“ ” دہلی اردو اخبار“ ” اخبار اظفر“ ” اودھ پنچ“ ” اخبار ہندوستان“ اور ” قومی راج “ ”دیش بھکت“ ” جمہور“ ” اجالا“ ” زمانہ“ ”ریاست“ وغیرہ کے صفحات پر موجود ہیں۔ قیدوبند کی صعوبتوں سے لے کرتختہ

¿ دار تک کو چوکنے کی ساری کہانیاں ان اخبارات اور رسائل کے صفحات پر موجود ہیں۔

          اس ضمن میں ۷۵۸۱ءکی ناکام بغاوت ہو یا جلیان والا باغ کا خونی منظر ۹۲۹۱ءکے لاہور اجلاس کی جانب سے مکمل آزادی کا اعلان ہو یا ۰۳۹۱ءمیں شروع ہونے والی سول نافرمانی کی تحریک یا ۲۴۹۱ءکا بھارت چھوڑو آندولن، تحریک آزادی کے اس سفر کا کون سا ایسا واقعہ یا حادثہ ہے، جس کی نمائندگی اردو زبان کی مرہون احسان نہ ہو۔
          بحیثیت مجموعی کہا جاسکتا ہے کہ فرنگی حکومت کے ظلم و استحصال ، بربریت و جبریت اور آلام و مصائب کے خلاف ۷۵۸۱ءسے لے کر ۷۴۹۱ءکی آزادی ہند تک تحریک آزادی کی جو معرکہ آرائی رہی ہے، اس میں اردو زبان کا رول ناقابل فراموش ہے۔
***



’اُس کا اندازِ نظر اپنے زمانے سے جُدا‘
ابن صفی کی ادبی خدمات کے تناظر میں
(آمد: اپریل 1928، بروز جمعہ — رخصت: 26 جولائی 1980)

محمد عارف اقبال
ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی
09953630788
اردو دنیا کے عظیم ادیب ابن صفی کی خدمات کے بارے میں اردو دنیا کے تجربہ کار ادیب و نقاد اور موجودہ محققین کی جانب سے ابھی تک کوئی ایسی تحریر منصہ شہود پر نہےں آئی ہے جس کی روشنی میںاندازہ ہوسکے کہ ابن صفی کی طویل ادبی زندگی کی یافت کیا ہے؟ یہ سوال اُن لوگوں کے لےے خاص ہے جن کی ساری دَوڑ دھوپ اردو ادب کے حوالے سے قائم ہے۔ ان میں وہ حضرات بھی شامل ہیں جو ابن صفی کو بڑا ادیب تو مانتے ہےں، ان کی تحریروں سے لطف اندوز بھی ہوتے ہےں لیکن بڑے ادیب کی خدمات پر کچھ لکھتے ہوئے ان پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف اردو دنیا میں بزرگ کہے جانے والے ادیب و شاعر و نقاد اپنے خود ساختہ ادبی خول سے نکلنے کے لےے تیار نہےں۔ ایک ڈیڑھ بزرگ ادیبوں نے شاید اسی میں عافیت محسوس کی ہے کہ اگر پیشے سے کوئی انجینئر ابن صفی پر تحقیق کرے تو اس کی پیٹھ کو تھپتھپادیں۔ نوجوان محقق بھی خوش ہوگیا اور اردو میں ان پر جانب داری کا الزام بھی عاید نہےں کیا جاسکتا۔ بات صرف ابن صفی کی نہےں بلکہ ان کے بعد اردو فکشن کے حوالے سے عوام میں مقبول ان مصنفوں کی بھی ہے جن کی حق تلفی ہو رہی ہے اور جنہوں نے اردو کی آبیاری میں اپنی زندگی کے بیش قیمت لمحات نذر کردیئے۔ ان کی تحریروں کو ادب کی کسوٹی پر پرکھنے کا کام تو نقادوں کا ہے لیکن کیا یہ بات عجیب نہےں کہ اردو شاعری میں پابند نظم اور غزل کے علاوہ بیسیوں تجربات کرنے والے تو اردو ادب کے خادم کہے جاتے ہےں لیکن نثر میں اردو ادب کو نئے تجربے سے آشنا کرنے والے اور صد فیصد کامیاب ادیب کو ادب سے چٹائی باہر کردیا جائے۔
ادب کے چند باشعور نقادوں نے ادیب کی صفت بیان کرتے ہوئے اس کے اندر سماجی، تہذیبی اور تاریخی شعور کو ناگزیر قرار دیا ہے۔ گویا ادیب نہ صرف زبان و بیان پر قدرت رکھتا ہے بلکہ اس کے لےے لازم ہے کہ وہ اپنے سماج، تہذیب اور تاریخ کا گہرا شعور بھی رکھتا ہو۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ابن صفی نے اپنے دَور میں جس موضوع یا موضوعات پر قلم اٹھایا، کیا وہ موضوعات ہمارے سماج، ہماری تہذیب و ثقافت اور تاریخ سے تعلق رکھتے ہےں۔ اس نکتہ نظر سے اگر ان کے تمام ناولوں اور انشائیوں کا مطالعہ کیا جائے تو یقینی طور پر یہ انکشاف ہوگا کہ ابن صفی نے اردو ادب کو بیش بہا عصری علوم سے مالا مال کردیا ہے۔ واضح ہو کہ ہر شاعر یا ادیب اپنے عہد کی نمائندگی کرتا ہے۔ غالب اور میر سے لے کر محمد حسین آزاد، اقبال، سرسیّد اور الطاف حسین حالی تک اردو ادب اپنے ارتقائی دَور سے گزرتا رہا ہے۔ زبان و ادب کا یہی ارتقائی سفر اسے زندگی کی حرارت بہم پہنچاتا ہے۔ مثال کے طور پر غالب ایک عظیم شاعر تھے لیکن ان کی حیات میں ان کی پذیرائی نہ ہوسکی۔ اقبال بھی ایک عظیم شاعر اور بنیادی طور پر وہ مفکر اور دانشور تھے۔ انہوں نے کئی معرکہ آرا لکچرز دیئے لیکن اس حوالے سے اقبال خواص تک محدود رہے۔ جب انہوں نے فارسی اور اردو شاعری کو اظہار کا وسیلہ بنایا تو دیکھتے دیکھتے وہ مقبول عام شاعر ہوگئے۔ خواص کے ساتھ عوام نے بھی ان کی اردو شاعری میں اپنے دل کی آواز محسوس کی۔ مقبول عام شاعر ہوتے ہوئے بھی اقبال کی فکری و علمی حیثیت برقرار رہی اور ان پر سینکڑوں تحقیقی مضامین اور مقالے لکھے گئے جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ سرسیّد نے اردو میں مضمون نگاری کی ابتدا کی اور انشا پردازی کو نیا اسلوب بخشا۔ مقفّٰی و مسجّٰی عبارتوں سے گریز کرتے ہوئے سادہ اسلوب پر توجہ دی۔ انہوں نے اپنے عہد میں تقریباً ہر موضوع پر قلم اٹھایا اور اردو زبان و ادب کے ارتقا میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سیاسی، مذہبی و صحافتی علوم کے اعتبار سے اگر مولانا ابوالکلام آزاد کا منفرد اسلوب ہے تو دوسری جانب مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کا علمی و صحافتی انداز بھی منفرد ہے۔ ان کی چند شہرہ آفاق کتابوں میں الجہاد فی الاسلام، پردہ، رسالہ دینیات اور خلافت و ملوکیت کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ 1920 اور 1930 کے دوران میں لکھی گئی مولانا کی تحریریں اپنے عہد میں منفرد اسلوب کی حامل ہےں۔ انہوں نے قرآن مجید کے اردو ترجمہ میں بھی اردو زبان و ادب کے ارتقائی عمل کا خاص طور سے خیال رکھا ہے۔ ان کی تحریریں بامحاورہ ہوتی تھیں اور اپنی تحریر میں وہ ادبی اسلوب پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ اپنے ”ترجمہ قرآن مجید“ کے ”عرض مترجم“ میں لفظی ترجمے پر نقد کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہےں:
”پہلی چیز جو ایک لفظی ترجمے کو پڑھتے وقت محسوس ہوتی ہے وہ روانی

¿ عبارت، زور بیان، بلاغتِ زبان اور تاثیر کلام کا فقدان ہے۔“ اسی مضمون میں آگے لکھتے ہےں:

” رہی ادب کی وہ تیز و تند اسپرٹ جو قرآن کی اصل عبارت میں بھری ہوئی ہے، اس کا کوئی حصہ ترجمے میں شامل نہےں ہونے پاتا۔ وہ اس چھلنی کے اوپر ہی سے اڑجاتی ہے۔ حالانکہ قرآن کی تاثیر میں اس کی پاکیزہ تعلیم اور اس کے عالی قدر مضامین کا جتنا حصہ ہے، اس کے ادب کا حصہ بھی اس سے کم نہےں ہے۔“
یہی وجہ ہے کہ مولانا مودودی نے پہلی بار قرآن مجید کی اردو میں آزاد ترجمانی کی اور کہا کہ ”اسلوب بیان میں ترجمہ پن نہ ہو بلکہ عربی

¿ مبین کی ترجمانی اردوئے مبین میں ہو۔“

اردو زبان و ادب کی خدمت سماج کے مختلف فن اور موضوع پر دسترس رکھنے والے ادیبوں، شاعروں، دانشوروں، مفکرین اور علمائے دین نے کی ہے۔ جس فن اور موضوع پر بھی انہوں نے قلم اٹھایا اردو زبان و ادب میں اضافہ ہی کیا۔ اردو زبان میں اگر گزشتہ ایک صدی کے سات آٹھ منتخب قرآن مجید کے اردو تراجم کی فرہنگ تیار کی جائے تو ہزاروں الفاظ اپنے قدیم اور جدید مفہوم کے ساتھ جمع کےے جاسکتے ہےں۔ افسوس کہ اردو کے چند مخصوص فکر کے حامل ادیبوں نے اردو زبان کو بھی اپنی مخصوص سوچ اور ذاتی اغراض تک محدود کردیا۔ جس کی وجہ سے اردو زبان و ادب کا ارتقائی عمل ٹھہر گیا۔ آزادی کے بعد اردو کے سکہ بند ادیبوں اور نقادوں نے اردو ادب سے مذہب کو خارج کرنا شروع کردیا اس کے ساتھ ہی انہےں اقدار (Values) سے بھی اُبکائی آنے لگی۔ ایسی صورت میں اردو زبان و ادب کا رواں بہتا پانی ایک تالاب میں گرنے لگا۔ اردو کے وہ ادیب جن کو اپنی زبان اور ادب سے حقیقی محبت تھی انہوں نے زبان و ادب کے ارتقائی عمل کو بحال رکھنے کے لےے نئی راہےں نکالیں اور نئی اصناف کی بنیاد ڈالی۔ چنانچہ اردو میں دوسری زبان کے علوم کے شستہ تراجم کے ساتھ فکشن کے تراجم بھی ہوئے۔ پھر طبع زاد نثری تخلیقات کا دور شروع ہوا۔ ”جاسی ادب“ کے ساتھ سماجی اور رومانی ادب کے تجربات بھی کےے گئے۔ فکشن کے انداز میں تاریخی ادب کے حوالے سے کئی بڑے لکھنے والے مقبول عام مصنف منظرعام پر آئے۔ نسیم حجازی، مائل ملیح آبادی، عنایت اللّٰہ التمش، اسلم راہی، مولانا صادق سردھنوی کے علاوہ عادل رشید، رضیہ بٹ، ہاجرہ نازلی، شکیل جمالی، سراج انور، گلشن نندہ، اظہار اثر، اکرام الٰہ آبادی اور موجودہ دَور میں محی الدین نواب، ایم اے راحت وغیرہ کی تخلیقات کو نظر انداز نہےں کیا جاسکتا۔ ان ادیبوں اور مصنفوں نے اردو زبان و ادب کی ایسے دَور میں آبیاری کی ہے کہ جب اردو زبان پُرآشوب دور میں سسکیاں لے رہی تھی۔ ادب کی راہ سے محبانِ اردو کے تعلیمی و تفریحی ذوق کا سامان مفقود تھا۔ اردو کے موجودہ دورِ انحطاط میں بھی چند مقبول عام ادیب و تخلیق کار اردو زبان و ادب کی حقیقی ترقی اور اس کی آبیاری میں سرگرم عمل ہےں۔
ابن صفی کا شمار ان کمیاب مصنفوں میں ہوتا ہے جنہوں نے سوچ سمجھ کر اور منصوبہ بند طریقے سے اردو زبان و ادب کی آبیاری کا بیڑہ اُٹھایا۔ اس وقت ان کے سامنے بھی عام انداز سے سوچنے والے اور صرف اپنے ”روشن مستقبل“ پر نظر رکھنے والے ادیبوں کی کمی نہ تھی۔ ان کا تو اٹھنا بیٹھنا ہی ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ تھا۔ شاعری کے ساتھ انشا پردازی ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ لیکن ان کے نزدیک بیک وقت دو مسئلے تھے۔ اول اردو زبان کا تحفظ، دوم اردو زبان و ادب سے عوام کو جوڑنا۔ اس سلسلے میں ان کے اختراعی ذہن نے روایتی اسلوب اور رجعت پسندی سے گریز کرتے ہوئے یوروپ کے بعض مصنفوں کے طرز پر اردو میں ایک منفرد صنف دریافت کی۔ اس صنف کے وہ امام ہی نہےں بلکہ موجد بھی ہےں اور خاتم بھی۔ ابن صفی کے بعد کئی اچھے لکھنے والے اردو دنیا میں یقینا پیدا ہوئے لیکن ان کی راہےں الگ ہےں۔ ابن صفی کا یہ بھی اعجاز ہے کہ ان کی تحریروں کو پڑھ کر اسکول اور یونیورسٹی سطح کے اساتذہ پیدا ہوئے۔ ادیب، شاعر اور افسانہ نگار بھی منظرعام پر آئے۔ یہ امر باعث حیرت ہے کہ پچاس ساٹھ سال قبل کے چند معروف بڑے تخلیق کار کو بھی آج لوگ بھول چکے ہےں۔ اس کے برعکس ابن صفی کے تمام ناول کل کی طرح آج بھی تازہ محسوس ہوتے ہےں اور ان کی مانگ میں اب بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس بات کو عالمی ادبی تناظر میں معروف نقاد شمس الرحمن فاروقی نے یوں بیان کیا ہے:
”میری نسل (یعنی وہ نسل جو دوسری جنگ عظیم کے بعد فوراً پروان چڑھی) کے سامنے انگریزی کے جو مقبول ترین ناول نگار تھے، ان میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس کا نام آج لوگوں کو یاد ہو، اس کے ناول کا مقبول ہونا تو دور کی بات ہے۔ تاریخی اہمیت کے جاسوسی افسانہ اور ناول نگاروں میں ایڈگر ایلن پو (Edgar Allan Poe) اور آرتھر کانن ڈائل (Arthur Conan Doyle) کے نام کچھ لوگوں کو یاد ہےں۔ کانن ڈائل کی جاسوسی تحریریں پڑھنے والے بھی کچھ لوگ آج موجود ہےں، بہت نہ سہی۔ لیکن ایڈگر ایلن پو کے جاسوسی افسانے اب صرف کتابی اہمیت رکھتے ہےں حالانکہ کئی اعتبار سے وہ کانن ڈائل سے بہت بہتر تھا۔
ان لوگوں کو چھوڑ دیجئے، ہمارے زمانے کی مقبول ترین جاسوسی ناول نگار (اس نے ایک ڈراما بھی لکھا جو کئی سال تک مسلسل لندن کے تھیٹر میں کھیلا جاتا رہا) یعنی اگاتھا کرسٹی (Agatha Christie) کی بات کیجےے، ایک زمانے میں اس کا ہر ناول دس اور بیس لاکھ کی تعداد میں صرف انگریزی میں چھپتا تھا، غیر زبانوں کے تراجم کو تو چھوڑیئے۔ لیکن آج چند ہی لوگ اگاتھا کرسٹی کا نام جانتے ہےں۔ اس کے ناولوں کے نام اور بھی کم لوگ جانتے ہےں اور ان کو پڑھنے والے آج ان ناولوں کے نام جاننے والوں سے بھی کم ہوں گے۔
ایسی صورت میں کیا یہ بات غیر معمولی نہےں کہ ابن صفی کے پڑھنے والے آج بھی کثیر تعداد میں ہےں حالانکہ انہوں نے پہلا ناول کوئی ساٹھ برس پہلے لکھا تھا او ران کے انتقال کو آج تیس برس سے اوپر ہوگئے۔ اب یا تو ہم اردو پڑھنے والے بالکل غیر ترقی یافتہ اور اعلیٰ تعلیم سے بے بہرہ ہےں یا ابن صفی میں کوئی بات (یا کئی باتیں) ایسی ہےں جو اَب بھی ہمارے دل اور ذہن کو متاثر کرتی ہےں۔“
(ابن صفی: مشن اور ادبی کارنامہ، صفحہ 83-82، 2013 )
شمس الرحمن فاروقی کے مذکورہ وضاحتی سوال کی روشنی میں مزید کئی سوالات ذہن میں کچوکے لگاتے ہےں۔ ایک بات واضح ہے کہ کم سے کم گذشتہ چالیس برسوں میں اردو ادب کے ”اعلیٰ تعلیم یافتہ“ حضرات ”غیر ترقی یافتہ“ محسوس ہوتے ہےں یا کم سے کم ان کا تعلیمی پس منظر غیر ترقی یافتہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج اردو کے بیشتر پروفیسر حضرات بین الاقوامی سطح پر کم ترین علمی درجے پر نظر نہےں آتے۔ سنٹرل یونیورسٹی کے چند سینئر طلبا کا احساس ہے کہ شعبہ اردو کے بیشتر اساتذہ اس لائق نہےں کہ یونیورسٹی میں پڑھاسکیں۔ اس پر دیگر یونیورسٹیوں کے شعبہ اردو اور پھر ملک میں اردو زبان کے مجموعی انحطاط کے سلسلے میں قیاس کیا جاسکتا ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں کے شعبہ اردو کے بیشتر پروفیسروں کو یہ بھی نہےں معلوم کہ ادب میں سماجی، تہذیبی اور تاریخی شعور کوئی اہمیت رکھتا ہے۔ اس ضمن میں بزرگ نقاد ڈاکٹر تنویر احمد علوی مرحوم بے حد حساس تھے۔ لیکن اب ان کے درجنوں شاگرد بھی اس شعور سے نابلد نظر آتے ہےں۔ اردو کے کسی بھی شہ پارے کو مذہبی اور کٹر پسندی کہہ کر مسترد کردینے کا رجحان عام ہوگیا جسے علمی بے بصیرتی کا نام ہی دیا جاسکتا ہے۔ یہ وہی پروفیسر حضرات ہےں جو مفکر اور دانشور بن کر غالب اور اقبال کو سمجھنے کا دَم تو بھرتے ہےں لیکن ان کی ایک تحریر بھی غالب یا اقبال کی تفہیم میں معاون نظر نہےں آتی۔ اردو ادب میں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ابوالحسن علی ندوی اور مولانا عبدالماجد دریابادی کی خدمات کو کیوں کر نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ لیکن طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے اردو کے شعبوں میں ان حضرات کو سیاسی اور مذہبی دائرے میں محصور کردیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر یہ تو محض چند معروف نام ہےں ورنہ اردو دنیا میں سینکڑوں علمی حضرات ہےں جن پر اردو محققین کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اردو دنیا میں ابن صفی کی تخلیقات کی روشنی میں صرف دو ہی کتابیں ”سائیکو مینشن“ اور ”رانا پیلیس“ شائع ہوئی ہےں۔ ان کے مو

¿لف و مرتب ہےں پاکستان کے معروف محقق، تاریخ داں اور اقبالیات کے شناسا خرم علی شفیق۔ انہوں نے بجاطور پر ابن صفی کو علامہ اقبال کا ”مرد بزرگ“ قرار دیا ہے۔ یہ بات انہوں نے پورے وثوق کے ساتھ کہی ہے۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں:

اس کا انداز نظر اپنے زمانے سے جدا
اس کے احوال سے محرم نہےں پیرانِ طریق
خرم علی شفیق کی تحقیق کے بعض پہلو اور خیال سے اختلاف تو کیا جاسکتا ہے لیکن ابن صفی کی تخلیقات پر ان کی تحقیق کو نظر انداز نہےں کیا جاسکتا۔ انہوں نے بجاطور سے لکھا ہے:
” جب ہم ابن صفی کی طرف دیکھتے ہےں تو معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں جب ’ادب عالیہ‘ لکھنے والے بڑے ادیب معاشرے کی اخلاقی اقدار پامال کر رہے تھے، ابن صفی ہی وہ سب سے بلند آواز تھی جو قانون کے احترام اور اخلاقی اقدار کے دفاع میں بلند ہوئی۔ دوسرے جاسوسی ناول نگاروں اور ابن صفی کے درمیان اتنا بڑا فرق ہے کہ ہم مجبورہوجاتے ہےں کہ ابن صفی کو آرتھر کانن ڈائل، اگاتھا کرسٹی، مارس لیبلانک، ارل اسٹینلے گارڈنر، ا

¿ین فلیمنگ، جیمز ہیڈلے چیز اور دوسرے تمام جاسوسی ناول نگاروں سے بالکل الگ کردیں اور ان کے درمیان کسی قسم کا موازنہ کرنے سے گریز کریں۔“

(سائیکومینشن، صفحہ 8، 2011)
خرم علی شفیق نے ابن صفی کے تمام ناولوں کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے موجودہ دَور کے ادیبوں اور نقادوں کی آسانی کے لےے نثری ادب میں ابن صفی کے فنی اور ادبی پس منظر اور ان کی تخلیقات کا تہذیبی و تاریخی اعتبار سے جائزہ لیتے ہوئے ان کی اہم خصوصیات کی درجہ بندی اس طرح کی ہے:
۱ — ابن صفی کی پہلی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ محض چٹخارے دار کہانیاں نہےں لکھ رہے تھے (جیسا کہ ”ادب عالیہ“ والے کر رہے تھے) ابن صفی کے پاس ایک واضح مشن تھا اور اصلاحی ادب کے سب سے بڑے مبلغ کے طور پر سرسیّد احمد خاں، محمد علی جوہر اور علامہ اقبال کی فکری جانشینی کے مستحق صرف وہی تھے نہ کہ ”ادب عالیہ“ کے وہ علمبردار جو اُن بزرگوں کے تصورات اور نظریات سے اعلانیہ طور پر باغی تھے۔
۲ — ابن صفی کی دوسری نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ علمی حوالوں کی جس قدر بہتات ان کے یہاں پائی جاتی ہے، اور ان حوالوں کے درمیان جتنا تنوع ہے، وہ نہ صرف کسی دوسرے جاسوسی ناول نگار کو نصیب ہوا بلکہ اردو میں ۱۹۳۶ کے بعد اُبھرنے والے کسی بھی ادیب کے حصے میں نہےں آیا۔
۳ — تیسری نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے معاشرے کی جیسی نمائندگی کی، ویسی کوئی اور نہےں کرسکا۔ انہوں نے اپنے پڑھنے والوں کی رائے کو اہمیت دی۔
۴ — ابن صفی کی چوتھی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ ان سے بہتر نثر شاید (مرزا غالب اور محمد حسین آزاد کو چھوڑ کر) اردو میں کسی اور نے نہےں لکھی۔ اگر اقبال کی شاعری کو الہامی شاعری کہا جاتا ہے تو ابن صفی کی نثر کو الہامی نثر کہا جاسکتا ہے۔
۵ — ابن صفی کی پانچویں امتیازی خصوصیت مستقبل بینی ہے، جس کے بغیر کوئی ادیب، بڑا ادیب نہےں بن سکتا مگر جس سے بیسویں صدی کے ادیب محروم ہےں۔
(”ابن صفی کا ادبی نصب العین“ بحوالہ ابن صفی: مشن اور ادبی کارنامہ، صفحہ 20-19، مطبوعہ 2013)
خرم علی شفیق نے جس محققانہ انداز میں ابن صفی کی پانچ اہم خصوصیات بیان کی ہےں ان میں ”مستقبل بینی“ یعنی ان کی تحریروں میں Futuristic Approach انہےں یقینی طور پر اردو کا عظیم ادیب قرار دینے کے لےے کافی ہے۔ اس سلسلے میں خرم علی شفیق نے واضح طور پر لکھا ہے کہ بیسویں صدی کے ادیب ”مستقبل بینی“ کی اس صفت سے محروم رہے۔ خرم علی شفیق اس ضمن میں مزید وضاحت اس طرح کرتے ہےں:
”بیسویں صدی میں ایسے ادیبوں کی کمی نہ تھی جنہوں نے مستقبل کے بارے میں بڑی تاریک پیشین گوئیاں کیں۔ ان میں آئرلینڈ کے شاعر ڈبلوبی ییٹس کی نظم ’دی سیکنڈ کمنگ‘ (1919) اور انگریزی ناول نگار جارج آرویل کا ناول ”نائنٹین ایٹی فور‘ (1948) مشہور ہےں۔ مگر ’نشہ پلاکے گرانا تو سب کو آتا ہے‘، ابن صفی ان سے مختلف ہےں کیوں کہ انہوں نے مستقبل میں پیدا ہونے والے مسائل کی صرف نشاندہی نہےں کی بلکہ ان کے حل بھی پیش کےے۔ یہ امتیاز علامہ اقبال کے بعد کسی دوسرے ادیب کو حاصل نہےں ہوا تھا۔ یہ ابن صفی کی تحریر کا ایسا پہلو ہے جس کی طرف گذشتہ ایک دو برسوں میں اردو اور انگریزی کے اخبارات میں کئی لکھنے والوں نے توجہ دلائی۔“
(سائیکومینشن، صفحہ 10)
یہاں اس امر کا اظہار ناگزیر ہے کہ خرم علی شفیق سے بہت پہلے معروف ادیب و نقاد اور مفکر ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ابن صفی کی تحریروں کے پہلے باضابطہ نقاد ہےں جنہوں نے عمران سیریز کے مطالعے کے دوران میں تنقیدی حاشیے لکھے۔ ممتاز ادیب و ناول نگار اور ماہنامہ نئے افق، کراچی کے ایڈیٹر مشتاق احمد قریشی نے ڈاکٹر ابوالخیر کشفی اور ابن صفی سے اپنے گہرے تعلق کا اظہار اس طور کیا کہ 2009 میں ایک کتاب ”دوبڑے: ابن صفی اور ڈاکٹر ابوالخیر کشفی“ مرتب کی۔ اس کتاب میں انہوں نے عمران سیریز کے 18 ناولوں پر ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کے تنقیدی حاشیے مع اقتباسات پیش کردیئے ہےں۔ عمران سیریز کے یہ ناول ہےں: خوفناک عمارت، چٹانوں میں فائر، پُراسرار چیخیں، بھیانک آدمی، نیلے پرندے، سانپوں کے شکاری، رات کا شہزادہ، دھوئیں کی تحریر، لڑکیوں کا جزیرہ، پتھر کا خون، لاشوں کا بازار، قبر اور خنجر، کالے چراغ، خون کے پیاسے، الفانسے، درندوں کی بستی، گمشدہ شہزادی۔ ابن صفی کی تحریروں میں ڈاکٹر ابوالخیر کشفی نے جہاں ان کی ادبی تخلیقی صلاحیتوں اور اردو پر ان کی گرفت کی نشان دہی کی ہے وہےں ان کے حسِ مزاح اور طنزیہ پیرائے کو بھی اجاگر کیا ہے۔ اس کی تعارفی تحریر میں مشتاق احمد قریشی نے ابن صفی کے بارے میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کی یہ رائے بھی لکھی ہے کہ ”اردو زبان پر اس شخص (ابن صفی) کا بڑا احسان ہے۔“ ڈاکٹر کشفی کے بقول: ”ابن صفی کے ہاں اختصار ہے، ان کے مکالموں میں برجستگی اور ظرافت ہے۔ یہ ظرافت کہےں زبان کی ہے، کہےں خیال کی اور کہےں صورتِ حال کی“
(دو بڑے، صفحہ 16)
ابن صفی کی ادبی خدمات کے حوالے سے اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے انتہائی ادب کے ساتھ اردو کے ان محققین، اسکالرز اور ادیبوں و شاعروں سے التماس ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر غور کریں کہ اردو زبان و ادب سے ہماری عملی وابستگی کیسے ہوگی؟ کیا ہم اردو کی ترقی کے روایتی انداز اور ادب کی روایتی تفہیم سے اوپر اٹھ کر سوچنے اور عملی اقدام کے لےے تیار ہےں؟ اردو زبان کا بنیادی وصف اس کے رسم الخط اور اس کے صوتی آہنگ میں ہے۔ اگر ان دونوں نکتے پر ذہن مرکوز کرتے ہوئے اردو زبان کو زندگی کے ہر شعبہ حیات میں متعارف کرانے کا آغاز کردیا جائے تو کوئی سبب نہےں کہ اردو زبان پھر اپنے عروج کی طرف گامزن ہونے لگے۔ لیکن آج کے ادبا اور نقادوں کو اپنے رویے میں بنیادی تبدیلی لانی ہوگی۔ اس سلسلے میں راقم کی گزارش ہے کہ ابن صفی کی تحریروں کا ازسرنو مطالعہ کیا جائے۔ ان تحریروں کو تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے۔ زبان و ادب اور تاریخ و تہذیب کے دائرے میں ابن صفی کی تحریروں کو تنقید کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن یہ کام آج کا وہ نقاد ہی کرسکتا ہے جو مروجہ اور روایتی اصولِ تنقید کے چوکھٹے سے باہر نکل کر اردو کی حقیقی ترقی اور ادب کی عملی توسیع کو اہم سمجھتا ہو۔
***

ہندی فلموں کی اَسا س زبانِ اُردو
(زبانِ اردواورہندی کے پس منظر ميں )

ڈاکٹرسلیمہ بی کولو ر
اسوسيٹ پروفيسرشعبہ اردووفارسی کرناٹک آرٹس کالج دھارواڑ
 08147455635

          ہندوستان کی آب وہوا‘زرخیزمٹّی قدرتی ذرائع مختلف قسم کے خطّے ‘علاقے ہرطرح کے لوگوں کے لےے موزو ں ر ہے ہےںاس لےے ےہاں آرےاﺅں کے قبل سے لے کرانگرےزوں تک کسی نہ کسی بہانے سے قومےںآتی رہی ہیں‘کسی نے اس سرزمین کو اپنا مستقل وطن بناےااور ےہاں کے عوام کی اپنی رعاےاکی طرح سرپرستی کی توکوئی قوم اپنے ہوس ولالچ کی خاطرعوام پر مظالم ڈھاکر ےہاں کی دولت کولوٹتی رہی ۔ تاریخ گواہ ہے کہ صدیوں سے وسطِ ایشیا اور بھارت کے درمیان تجارتی ‘ سیاسی ‘ ثقافتی تعلقات رہے ہیں ۔ وسط ایشیاءسے کئی سیاح ہندوستان آئے اور ہندوستانی سیاح بھی ان ممالک کی سیر کرتے رہے ہیں ۔ (’ ہندو اور ہندوستا ن‘ کے الفاظ/ نام عربوں کی دین ہے) اس طرح صدیوں کے تعلقات سے ہندو ستان کی لسانی تشکیل میں الفاظ ، زبان ، تہذیب وتمدن کے اثرات مرتب ہو نا ضروری تھا۔ چنانچہ ایک نئی زبان کی تشکیل کا خمیر تیار ہو رہا تھا۔ اس کی تکمیل اس وقت ہوئی جب مسلمانوں نے ہندو ستان پر مستقل طور پر اپنا پرچم لہرایا پھراس ملک کی ترقی ، خوشحالی بقا و تحفظ کے لےے اپنے آپ کو وقف کردیا اورتہذیب وتمدّن، فنِ شعرو ادب، فنِ موسیقی ورقص‘فن تعمیرنقش و نگار ‘صنعت وحرفت وغےرہ مختلف شعبہ ہائے حےات مےںہندوستان کوبے انتہاترقی اور بے حساب فروغ ؑحاصل ہواہے ۔
           مسلمانوں نے مذکورہ فنون کے علاوہ تصّوف کے ذریعے سماج کے اخلاقی وروحانی پہلوکو فروغ عطا کےا۔ امیر خسرو اس کی روشن مثال ہیں ۔سندھ و پنجاب کا علاقہ وسط اےشےا/عربوںکے قبضے مےںجانے ےعنی ۲۱۷ عیسوی سے ہی جس پراکرت کو اپ بھرنش بننے اور کھڑی بولی کی صورت اختیا ر کرنے کے عمل کاآغازہو چکاتھا اس کی تکمیل امیر خسرو نے کی۔ امیر خسرو عربی و فارسی کے با کمال و ماہر استاد فن تھے۔ ہمےں ےہ نہ بھولنا چاہےے کہ سندھ اور پنجاب پر صدےوںسے ہی عرب و فارس کی زبانوں کے اثرات مرتب ہوتے رہے ہےں آٹھوےںصدی سے اس مےں اتنی تےزی آتی گئی کہ آگے چل کر خسرو نے نہ صرف کھڑی بولی کو ادبی شکل دی بلکہ دو قومو ں کی ہم آہنگی کے بےشمار عملی اقدامات کے ذریعہ ذہنی و قلبی اتحاد پیدا کیا ۔ اپنے نظریات ، عقائد ‘تصانیف اور علم و فن کے مختلف اسلوب و تحریکات سے ہندوستانیوں کو بیش قیمت و بے نظیر سوغات عطا کیں اوران کے ذریعہ ہندوستانیوں میں قومی شعور کو بیدار کیا ۔ موسیقی ، زبان ، شاعری ، تصوف ، غزل ، قوّالی کے ذریعہ رواداری ، کشادہ قلبی،حب الوطنی وسیع النظری ، اخوت و انسان دوستی کا پیغام دیا۔ یہ پیغام بلا کسی مذہب و ملت ‘ علاقائی و نسلی امتیا ز کے ہر ہندوستانی کے دل کی دھڑکن بن گیا ۔اس پےغا م کا وسیلہ اردوزبان وادب بنا۔ خسرو نے اس زبان مےں گیت‘ غزل و قوالی کی ایجاد کر کے آنے والی نسلوں کوقومی ےکجہتی کا لازوال ذریعہ عطا کےا ہے اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ملی جلی تہذیب کی آبیا ری اوراردو زبان و ادب کے ارتقاءمیں مسلم و غیر مسلم قلمکاروں نے برابر حصہ لیا ہے ‘جن کی مادری زبا ن عربی فارسی اور اردو نہیں تھی۔مسلمان جب ابتداءمیں ہندوستان آئے تو ان کی مادری زبان اردو نہیں تھی، تو کوئی یہ کیسے کہہ سکتاہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے ا ور اسی طرح مسلمانوں کی ہند میں آمد سے پہلے ہندوو

¿ں کی زبان ہندی نہیں تھی کم سے کم وہ ہندی جو آزادی کے بعد ہندوستا ن کی قومی زبان کے طور پر اپنائی گئی ہے اس ہندی کی شکل و صورت مسلمانوں کی حکومت قائم ہونے سے قبل تو ویسی نہیں تھی بلکہ ےہ بھی مسلمانوں کے دور حکومت مےں مسلمانوں وغےرمسلمانوں کے مےل جول سے تشکیل پائی ہے ۔ اسی لےے ” ہندی نہ ہندوو

¿ں کی زبان ہے نہ اردو مسلمانوں سے مخصوص“۔

(حقانی القاسمی۔بحوالہ اردوہندوستان‘ فاروق ارگلی)
  مسلمانوںکی ہند میں آمد سے پہلے شمالی علاقے مےںپالی کے بعد پراکرت کی مختلف صورتےںرائج تھیں خاص طورپرشمال مغربی علاقوں مےں مہا راشٹری اور سورسےنی پراکر ت رائج تھیں اور کچھ پشاچی پراکرت کے اثرا ت نما ےاں تھے ۔ پنجابےوں کی پنجابی مسلمانوں کے آمد کے بعد تشکیل پائی ہے۔ حضرت فریدالدین گنج شکرؒ پنجابی زبان کے پہلے شاعرہےں اور کئی نامور اور شہرئہ آفاق ادیب و شعراءجن میں امیر خسرو سنت کبیر داس، ملک محمد جائسی، سنت کوی ر سکھان، عبدالرحیم خانِ خاناں ، سنت داو

¿د دیال (شیخ داو

¿د)، شیخ عبدالقدوس گنگوہی الکھ داس ، مسعود ، قطب علی ، اکرم فیض ، محمد افضل جھنجھانوی وغیرہ نے ہندی زبان و ادب کی تعمیر و تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح اردو زبان و ادب کی تعمیر و تشکیل میں سب سے پہلے تو”ہند کی اجتماعی اور سماجی زندگی میں دو مختلف اقوام کی محنت اور کاوشیں کا رفرما ہیں‘۔ ‘ان کے علاوہ وہ شعرا ءو ادباءجنہوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ اردو ادب کی تاریخ کا نا گزیر حصہ بن چکے ہیں ان میں راجہ رام نرائن رائے، چندر بھان برہمن‘ اجاگر چندالفت راجہ بنسی بہادر‘ مہاراجہ کلیان سنگھ عاشق‘ بینی پرساد ، الفت رائے سنتوکھ رائے بیتاب ، لالالچھمی نرائن وکیل‘ منشی کیول پرساد ، بیج نا تھ پرساد ،منشی درگا سہائے سرور ،دیا شنکر نسیم، رتن ناتھ سرشار،برج نرائن چکبست،آنند نرائن ملا ‘منشی نول کشور‘ فراق گورکھپوری ، اپیندر ناتھ اشک ، ستیہ پال آنند،گوپی چند نارنگ، پریم پال اشک کرشن کمارطور وغیر ہ سینکڑوں غیر مسلم قلمکا روں نے اب تک اردو ادب کے فروغ میں نہا یت اہم رول ادا کیا ہے۔ مسلمانوں کے دورحکومت مےںحکومت کی زبان فارسی ہونے کے باوجود عوام کی زبان اُردو تھی جسے کبھی مسلمانوں نے ہندی اورانگرےزوںنے ہندوستانی کے نام سے پکاراہے۔ اس ملک مےں عوام کی زبان نہ کبھی سنسکرت رہی نہ کبھی فارسی رہی ہے لیکن تعصّب زدہ سیا سی لیڈ روں نے اس بات کو جانتے ہوئے بھی ناسمجھی کاکھےل کھےلا ہے۔ انیسوےں صدی سے قبل متھرا کاشی بنار س وغےرہ مختلف علاقوںکے پنڈتوںنے دےوناگری تحریر مےںسنسکرت ےا برج بھاشا کے ذریعے اپنے مافی الضمیرکا اظہارکےا ۔ چوںکہ آج جس زبان کو سیکھنے پر زور زبردستی کی جارہی ہے اےک عرصہ پہلے اسی زبان کو سیکھنے کا حق صرف برہمنوں کو تھا۔ان کے علاوہ کسی کو نہیںتھا۔ سنسکرت سیکھنے والوںکو سزائےں دی جاتی تھیں جس کی وجہ سے و ہ زبان صدےوں پہلے عوام سے کٹ گئی تھی۔ اب عوامی سطح پر اردو کی شہرت اور مقبولےت سے انہوں نے شورمچا کرحکومت اور عوام کو بےوقوف بناےا ہے انگرےز حکومت بھی ےہی چاہتی تھی ۔

 ”۷۳۸۱مےںفارسی کی جگہ اردوسرکار ی ز بان بن گئی اور اس کا استعما ل فار سی رسم الخط مےںسرکاریعدالتی اورتعلیمی امورمےںہونے لگا۔سنہ۰۰۹۱ مےںانگرےزی حکومت کی طرف سے اےک حکم نامے کے ذرےعے اردواورہندی کوبرابرکادرجہ دے دےاگےااور دونوں کو سرکاری زبان کی حےثےت حاصل ہوگئی لےکن عملاہندوستان کے ان علاقوں مےں جو اب مختلف شمال مغربی رےاستوں مےںآتے ہےں اردوکو ترجیحی حےثےت حاصل رہی“ ۔
(پروفےسرانوارالےقےن صفحہ۶۱‘اردودنےامارچ۳۱۰۲)
           آگے چل کر جب شدت پسند ہندو اردو کو غیر ملکی قرار دینے پر اڑے رہے اس بات کو ذہن نشین کرا یا گیاکہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے توشر پسندوں کی بےجاضد کی بنا پراردوکوخارج کرنے اورہندی دیو ناگری کو اپنی قومی زبان قرار دینے مےںسازشوں سے کام لےا گےا تووہ مسلمان جنہوں نے صدےوں سے اس ملک کے ذرّے ذرّے سے محبت کی تھی ان کے آباءواجداد نے اس سر زمین کی بقاءوترقی کے لےے اپنا سب کچھ نچھاور کےا تھا تقسیم کے بعد پاکستان میں بسناگوارا کر لیا اور اپنی قومی زبان اُردو کو قراردیا اُن کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہےں تھا کہ اُردو کے سوا کسی اور زبان کو اپنی قومی زبان قرار دے دیں ۔ ایک ہی گھر کے دو ٹکڑے ہوئے اور دونوںنے اےک ہی زبان کے الگ الگ نام رکھ لےے توکیا ان کی زبان و تہذیب یکسر بدل گئی؟عہد ِ امیر خسرو سے آج تک اُردو زبان بر ِ صغیر کی ’لنگو افرینکا‘رہی ہے۔ ےہ زبان فطری طور پر پروان چڑ ھتی رہی مسلمانوں کے دورِ حکومت میں ہندی اور اُردو کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا۔ ۷۵۸۱ کے بعد سے اس بات کا احساس پےدا کیا گیا کہ یہ صرف اور صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔ اس عمل میں انگریزوں کااپنے مفاد کے پیشِ نظر کتنا رول رہا ہے اور فرقہ پسند گرو ہ‘ مذہبی و سیاسی ٹھیکیداروں نے اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دینے میں حقیقت اور سچائی پر کس قدر دبیزپردہ ڈال دیاہے اوراپنے ضمیر کو کس حدتک کچلاہے؟ اس بات کا اندازہ لگانادشوار نہیںہے۔ اگر سنہ ۰۰۹۱ کی انگریزی پالیسی کو ہی بحال رکھا جاتا تو شاید آج ےا مستقبل مےں کسی کو شر مندہ ہونے اورافسوس کرنے یاکسی کو فریا د کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہندوستان مےں اےک مخصوص سےاسی فرقہ ‘اےک مخصوص قوم کی د ل آزاری ‘نا انصافی اور ظلم کو تہمت سے بچ جاتا اور آج بڑے فخرسے ہندی دےوناگری رسم الخط کے ساتھ اُردوکوبھی قومی زبان کا امتےاز حاصل ہوتا‘ ہندی کے نام پر اُردو کے استعمال کا بھرم بھی پےدانہ ہوتابلکہ ہندوستانیوں کے ذہن و ضمیرکووقاروعظمت اورسچّی آزادی مےّسر ہوتی ،کےونکہ ۷۴۹۱ تک تو اردو ہندوستان کی قومی زبان رہی ہے ، اردو کی جڑیں اس سرزمین کے گوشے گوشے میں گہرائی تک پیوست ہیں ۔ بہمنی سلطنت سے لے کر آج تک اُردو دکن کی شان رہی ہے گجرات،راجستھا ن، بنگال،کشمیر ، اترپردیش،بہار،مدھیہ پردیش تک اپنا سکہ جمائے ہوئے ہے بلکہ یہ تو ہندوستان کی رگ رگ میں سرایت کر چکی ہے اورہر کسی کے دل کی دھڑکن ہے ۔ ایسے میں چند مفاد پرست اپنی فسطائی ذہنیت کی بنیاد پر بھلے ہی اردو کو غیر ملکی قرار دے دےں مگر ان کے جھوٹے دعوﺅں کاشکا ر ہو کر یہ پختہ زبان یکسر کیسے دم توڑسکتی ہے۔ سرکاری سطح پر اس کے لےے دروازے بند کر دےے گئے تو عوام کے دلوں پراپنا راج قائم رکھا اور ہندی فلموں میں گیت ، غزل ، قوالی ، مکالمے بن کر اس زبان نے ملک و بےرونِ ملک کی عوام کے دلوں کی دھڑکنوں کو اور تیز کر دیا ،عالم آرا اور اس کے بعد منظرِ عام پر آنے والی فلموں نے بتا دیا تھا اورآزادی سے قبل ہی فلموں کے ذریعے یہ بات ثابت ہو چکی تھی کہ لوگوں کے دلوں پر کس زبان کا راج چلتا ہے چونکہ ہندوستانی سنٹرل بورڈآف فلم سنسرسCBFC1951)/ )سنٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفکےشن اورڈائرکٹورےٹ آف فلم فےسٹیولز‘ جومنسٹری آف انفارمےشن اےنڈ براڈکاسٹنگ کے زےرنگرانی اپنی کارکردگی انجام دےتی رہی ہے ان اداروں سے اکثر اردو زبان کی فلموں کو ہندی سرٹیفکٹ دےاجاتا رہا ہے۔ اس کی بنےادانگرےزوں نے ۱۳۹۱سے ڈال دی تھی صدفیصد اردو زبان کی فلم عالم آرا کو اردو کی بجائے ہندوستانی کا سرٹیفکٹ دےا گےا اس لےے کہ انہوںنے ملک کی نسبت سے اردو کوہندوستانی کے نام سے موسوم کےاتھا۔جناب پرےم پال اشک کی تحریرکے حوالے سے اس موضوع پر روشنی پڑتی ہے۔
” برٹش حکومت کے دورا ن بھی اگرچہ سنسر بورڈکا اردو کے تئےںروےّہ منافقانہ ہی رہااور حکام اردوکے سرٹیفکےٹ جاری کرنے سے کتراتے رہے اور اس کے بجائے ہندوستانی زبان کے نام پر فلم سرٹیفکٹ جاری کرتے تھے جب کہ ہندوستانی زبان کے نام کی کوئی چڑےاکم ازکم ہندوستان مےں تو اڑتی نظر نہےں آتی تھی ےہ برٹش حکومت کی عوام کو بےوقوف بنانے کی اےک چال تھی اس زمانے مےںعوام کی زبان واضح طورپراردو تھی ےا ہندی .... اور فلموں کی زبان اردو تھی۔“
 ”ہندوستانی فلموں کے پچاس سال“ صفحہ ۳۴۱
          انگرےزوں کی اس پا لیسی سے رجعت پسندوںومفاد پرست سےاستدانوں کی ہمّت افزائی ہوئی اور آزادی کے بعدجہاں ہندی اور اُردو کا فرق پےدا کےا جا چکا تھااور اس فرق کو واضح کرنے کے لےے اےک نئی زبان تشکیل دی جا رہی تھی جس مےں صدیوں کے آزمودہ کاراُردو زبان کی سی زرخیزی و توانائی‘پختہ کار ی وپائےداری‘ دلکشی و دلداری کے ساتھ عوام کے دلوں کو موہ لےنے والا رول ادا کرنے کی خوبیاں اچانک کہاں سے پےداہو سکتی تھےں؟ باوجوداس کے صنعتِ فلم سازی مےںآزادی سے قبل کی رواےت کوبرقرار رکھتے ہوئے اُردوکے تےارشدہ ادیبوں، شاعروں اور فنکاروںسے استفادہ کےاگےا۔ظاہرہے جن کی مادری زبان اُردوتھی اور جن کی علاقائی زبان اُردو تھی اوراردو جن کا ذریعہ تعلیم تھا اُن سب فنکاروں نے فلمی دنےا کا رخ کےا۔ چند اےک ناکام لوٹے اور باقی تمام نے اپنی زبان اور اس سے تربےت ےافتہ ذہنوں سے ہندوستان مےں بننے والی فلموں کو مختلف پہلوﺅں سے مالامال کےا اےسے حالات مےں ان فلموں کی زبان اردو نہ ہو کر اور کےا ہو سکتی ہے؟ بدلے ہوئے حالات کے تحت شعوری طورپر چند فلموں میںسنسکرت آمیز الفاظ کوشامل کرنے کی کوشش تو کی گئی لےکن دس ےا بیس فیصد سے زےادہ الفاظ کی بڑی مشکل سے کھپت ہوسکی بلکہ گلزار صاحب کے کہنے کے مطابق ہندی فلموں مےں 90% اردو زبان ہی کا رول اہم ہوتا ہے چند فلم ساز و ہداےت کاروں نے اردوکہنے مےںمعاندانہ روےّہ اپناےاہے۔ شایدہم ہندوستانیوںنے یہ سمجھا ہوگا کہ اردو ٹائٹل،کہانےاں،مکالمے،غزلےں، قوالیاں،گیت اور ا ردو تہذیب کی فلموں کو اردو سرٹیفکٹ کی مانگ کی جائے گی ےاسرٹیفکٹ دے دیا جائے گا تو حب الوطنی کم ہوجائے گی اور پاکستان کی سر خروئی ہوگی کےوںکہ اردوپاکستان کی قومی زبان جو قرارپاچکی ہے ،ہم نے کبھی یہ کیوںنہیں سوچاکہ یہ زبان پاکستان کی تشکیل سے قبل ہمارے ملک کی زبان رہی ہے۔ پاکستان کی قومی زبان تو ا ٓزادی کے بعد قرار پائی ہے۔ کچھ نہیں ےہ سب تعصّب اوربے مقصد ضد کے زےراثرہوتارہاہے۔ چوںکہ اردو کو انیسوں صدی کے اختتام سے ہی غیر ملکی اور پھر ا ٓ زادی کے بعدسے د شمن ملک کی زبان باور کرایا جاتا رہا ہے۔ اس سے ملک و سماج کی فضا مسموم ہوتی جارہی ہے ۔دو قوموں کے درمیان آئے دن مذہب ‘ زبان‘علاقے کے نام پر بلوے وفسادات بڑھتے ہی جارہے ہےںبھائی چارہ اور یکجہتی کو ختم کرنے کی باربار کوشش ہوتی رہی ہے۔ آزادی کے بعد کی نسل اردو زبان و ادب کی حقیقت سے بہت کم واقفیت رکھتی ہے جبکہ وہ اردومیں لکھے گئے گیت‘غزلیں‘قوالیاں‘فلمی مکالمے، اسکرپٹ وغیرہ سے دن رات محظوظ ہوتی رہتی ہے، دل بہلاتی رہتی ہے اورغم غلط کرتی آرہی ہے،لیکن اسے ہندی ہی سمجھتی ہے۔ جب کہ پہلی متکلم (بولتی) فلم سے لے کر 2011 کی امراوجان ادا اور اب تک کی فلموں میں 90% فلمیں اور فلموں کی زبان اردو ہے۔انٹر نےٹ پر بےشمارلوگ ہندی فلموںمےں اردو کی حصہ داری پراپنی رائے اور تاثرات پےش کرتے ہوئے لکھتے ہےں کہ فلموں مےں اردو ہی ہوتی ہے۔ ہندی اور اردو اےک ہی جےسی زبانےں ہےںاس کا مطلب ےہ ہوا کہ اردو جس کا اےک قدیم نام ہندی بھی ہے آزادی کے موقع پراس زبان کو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ دےو ناگری تحریرمےںبدل دےاگےا۔انٹرنےٹ پرسارنگ شرما اپنی رائے اورتاثرات پےش کرتے ہوئےwww.quora.comپرلکھتے ہےںکہ
''Before I give you some names, I will put in a technical disclaimer: almost all Bollywood films (99.99% or more) are in Urdu, And Urdu and Hindi are virtually the same language. Very few are in what can be called chast Hindi."
          اسی طرح فلموں سے وابستہ کئی ہستیوں نے اس حقیقت کا انکشاف کےا ہے اور اس بات کی تائید مےں اپنی رائے ظاہر کی ہے۔اس ضمن مےں اردوزبان و ادب کے اےک بے لوث خدمت گاراور معروف قلمکارجناب محمد خالد عابدی نے کئی مقبول فلمی ہستےوں کے انٹروےولےتے ہوئے ان کے نظرےات و خےالات کو قلمبند کےا ہے کہ فلمی صنعت مےں اردوکے بغےر فلم کی کامےابی مشکوک ہے اور ہندی کے نام پراردو زبان کا رول اہم ہے۔ا س حوالے سے صرف دو شخصیتوں، تےج ناتھ زاراورپرےم واربرٹنی کے جواب بہ لحاظ ترتیب پےش ہےں:
”اردو نے فلموں مےں ےقینا اہم رول ادا کےا ہے محض ہندی کا لبادہ پہنے ہوئے بےشتر فلموں کی زبان اردو ہی ہوتی ہے........“
 ”اردوزبان ’جس کے معنی لشکر کے ہےں، نے واقعی فلموں مےں اےک نماےاں اور زبردست رول ادا کےا ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے فلم لائن پراردو شاعروں اور ادیبوں کا تسلّط ہے گیت کاروں اور کہانی کاروں مےںآج بھی ہندی کے مقابلہ مےں اردو ادیب زےادہ ہےں اور ےہی بات ےعنی اہلِ قلم کی ےہی اکثرےت گواہ ہے کہ فلم کی تاریخ مےں آج بھی اردوادےب چھائے ہوئے ہےں۔“
 (فلمی انٹروےو ۔ محمدخالد عابدی )
           اب اگرغور کرےںکہ ان فلموںمےںاردو والوںکی تعداد کتنی ہے اور ان کی زبان کااستعمال ہندی کے معےار کا ہے ےااردو کے معےارکا ؟ہاتھ کنگن کو آرسی کےا؟دن مےں سورج کی طرح عےاں ہے تقسیم کے وقت ہندوستان کو جس نئی زبان سے متعارف کیا گےاتھااس زبان مےںاُردو جےسے کوےوں اور لےکھکوں کو کہاں سے لاتے؟اردووالوںسے کام چلالےا، اردو والوں نے ہندی کہی جانے والی فلموںکو سہارا دےااورشہرت و مقبولےت عطاکی ہے۔ ہندی نام کی فلموں کو مالامال کےاہے۔جاںنثار اختر، سرشار سیلانی ، مجروح سلطان پوری ، قتیل شفائی ، کیفیاعظمی ، راجندر کرشن ، آنند بخشی ، گلشن باورا ، ایندیور ، شکیلبدایونی ، ساحر لدھیانوی، شمش الہدیٰ بہاری (ایس ،ایچ، بہاری)حسر ت جئے پوری ، راجہ مہدی علی خاں ، ندا فاضلی، شہریار ، گلزار، جاوید اختر کس زبان کے شاعر ہیں اور انہوں نے فلموں میں کس زبان میں اپنے نغمات کے گل بوٹے کھلائے ہیں ۔ نوشاد علی، سچن دیو برمن ، راہول دیو برمن ، ہیمنت کمار ، شنکر جئے کشن، سی رام چندر ، مدن موہن ‘خیام، کلیان جی ، آنند جی ، لکشمی کانت پیارے لال ، اے آر رحمٰن وغیرہ موسیقاروںنے ہندی کہی جانے والی فلموںکے نام پرکس زبان کے گیتوں ،غزلوں اور قوالیوں کے لےے اپنی موسیقی کا جادو عطا کیا ہے؟ طلعت محمود ، منا ڈے ، محمد رفیع ، مکیش ، کشور کمار ، مہندر کپور ، ابھی جیت بھٹا چاریہ، اُدّیت نرائن ، سونو ِنگم ، نورجہاں، شمشاد بیگم ، لتا منگیشکر ، ثُریّا ، آشا بھونسلے اوشا منگیشکر انورادھا پوڈوال ،شرےا گوشال وغیرہ گلوکاروں نے کس زبان کے نغمات کو اپنی آواز سے دلکشی عطا کی ہے؟ ان تمام فنکاروں نے اردو سیکھنے کے لےے باقاعدہ ٹےوٹر رکھا۔اُردو ہی ان کے لےے سازگارزبان ثابت ہوئی ہے ۔بقول ِڈاکٹر خواجہ محمداکرا م الدین :
”چنانچہ آج اگرقوم ہندوستانی سنےماکی پہلی صد ی مکمل ہونے کا جشن منا رہی ہے تو ےہ ُاردو کی بھی اےک اور صدی کا جشن ہے۔سنےما اوراردوکاےہ گہراتعلق ےک طرفہ نہیںےعنی اےسا نہیں کہ اردو سنےما کے آگے دست طلب درازکےے کھڑی ہے۔ حقیقت ےہ ہے کہ اردو زبان کے صوتی وجمالےاتی اوصاف اور ترسیل کی طاقت نے اسے سنےما کی زبان بناےا ہے بلکہ زبان کے درجے سے بھی آگے بڑھ کر دےکھےں توآج اردوہندوستانی سنےما کی ضرورت بنی ہوئی ہے۔“
 ( ادارےہ ،اردو دنےا فروری2015)
          پرتھوی راج کپور، راج کپور دلپ کمار، دیو آنند، دھرمیندر،سنیل دت، رشی کپور، بلراج سہانی، ششی کپور، راجیش کھنہ ّ،راج کمار، امیتابھ بچن، جتندر، نصیرالدین شاہ، عرفان خان، آمر خاں، شاہ رخ خان، سلمان خان، سیف علی خاں،ہرتھک روشن، سنجے دت، نرگس، مینا کماری، وجنتی مالا، شرمیلا ٹیگور، مالا سنہا، مدھو بالا، ریکھا، شبانہ اعظمی، تبسم ہاشمی (تبو) ہیمامالینی وغےرہ کس زبان کے مکالمے ادا کر رہے ہیں اور گیتوں پر ادا کا ری کر رہے ہیں ۔ان تمام کوایک کل کی صورت میں پیش کرنے والے سہراب مودی ، ستیّہ جیت رئے ، محبوب خان ، بی شانتارام، ومل رائے، کمال امروہوی ، رشی کیش مکھرجی ، یش چوپڑا ، کے آصف ، گلزار، شیا م بنیگل نے کس زبان کا سہارا لے کر فلمیں بنائیں۔ ہر فلمساز اور ہدایت کا ر اپنے لےے ایک اردو والے کو مکالمہ نگار اور نغمہ نگار کی حیثیت سے ضرور رکھ لیتا تھااس حقیقت کو نظر انداز کر کے ڈائرےکٹورےٹ آف سنسر بورڈ کی پالیسی کی وجہ سے اُردوزبان کی فلموں کو ہندی سرٹیفکٹ دیاجاناسفےد جھوٹ ہے ،البتہ بقول پرےم پال اشک کے:
” اردوکواس کا حق دلانے مےںسہراب مودی‘بی ےن سرکار‘محبوب خان اسمٰعیل مرچنٹ ‘ستےہ جیت رے‘اورمہےش بھٹ‘.... کما ل امروہوی کے آصف‘سےّد مظفرعلی جیسے فلمسازوںاورہداےت کاروں کی خدمات کو تاریخ کبھی نظرانداز نہیںکر سکتی لےکن افسوس تو اس بات پر ہے کہ اردوکی روٹےاںتوڑ نے و الے ادیبوں شاعروں‘ فلمسازوں‘ اور ہداےتکاروں نے سنسر بورڈمےں کبھی آوازبلند نہیں کی۔“
۰۶۱ ہندوستانی سنےما کے پچاس سال)
          انصاف کے لےے مشہور اس ملک مےںکھلی نا انصافی ہونے لگی جبکہ ہندوستا ن کے آئین اور دستورِ اساس کے تحت آنے والی زبانوں مےںکوئی کسی بھی زبان کو اپنا سکتا ہے’ مارچ 2013 اردو دنیا ‘کے اداریہ میں’ہندوستانی آئین اوراردو‘ پر ڈاکٹر خواجہ محمد اکرم الدین نے روشنی ڈالی ہے ۔ فلمی صنعت سب سے اہم جمہوری شعبہ ہے جس نے اردو زبان کو اپنی تجارت کا وسیلہ بنایا ہے باکس آفس پرہٹ ہونے والے فلموں سے حکومت کو بھرپور انکم ٹےکس حاصل ہوتاہے‘۲۱۰۲تک کی اکثر فلمےں اُردو زبان کے بل ُبوتے پر ہی سُپرہٹ ہوئی ہےں اس زبان کے ذریعہ کروڑوں انسانوں کا دل بہلا یا ہے زخموں پر مرہم لگایا ہے ۔ اس لےے کہ ہندوستان کی سر زمین پر پیدا ہونے والی زبانوں میں اردو سب سے میٹھی، نہایت خوبصورت اور سب سے دلکش زبان ہے۔ انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں بھرپور‘ کا ر آمدذریعہ اردو زبان ہے۔ اس زبان کے ذریعہ علم و ہنروفن کی موثر تعلیم وتربیت دی جاسکتی ہے۔اس کی روشن مثال ہندی سینماہے ۔سنےما کے عالمِ وجود مےں آنے سے بہت پہلے حضرت داغ دہلوی نے بجا فرماےا تھاکہ:
اردو ہے جس کا نام ہمےں جانتے ہےں داغ
سارے جہاں مےں دھوم ہماری زبان کی ہے
***


راشد الخیری کی ناول نگاری: ”فسانہ سعید“ کے حوالے سے
کوثر جہاں
ریسرچ اسکالر
شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی

مصور غم راشد الخیری (جنوری ۸۶۸۱تا فروری ۶۳۹۱) اردو کے پہلے افسانہ نگار ۱ بھی ہےں۔ مصور غم کا خطاب انھیں ۷۱۹۱ میں شام زندگی کی اشاعت پر ’اسوہ حسنہ‘ میرٹھ کے مدیر احسان الحق نے دیا۲۔ راشد الخیری نے اصلاحی ناول ، تاریخی ناول، افسانے، مزاحیہ قصے، مزاحیہ افسانے، خاکے ، تاریخ، مولود شریف ، نظمیں، سلام ، پہیلیاں غرض متعددا صناف میں طبع آزمائی کی اور ان کی تقریباً ہر تصنیف بے حد مقبول ہوئی۔ان کا پہلا ناول ’صالحات‘ یا ’حیات صالح‘ (۷۹۸۱یا۶۹۸۱) دہلی سے شائع ہوا۔ اس کے بعد انھوں نے تقریباً ۴۲ ناول لکھے جس میں صبح زندگی، شام زندگی، طوفان حیات، سنجوگ، بنت الوقت، جوہر قدامت، شب زندگی(دو حصہ) ،نو حہ زندگی اور فسانہ سعید کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔
مولانا راشدالخیری کا زمانہ مسلمانوں کے شکست و ریخت کا زمانہ تھا۔ مسلمان طبقہ تیزی سے زوال پذیر ہو رہا تھا۔ جس کے نتیجہ میں نفسیاتی سطح پر احساس شکستگی پوری طرح حاوی ہوچکا تھا۔ یہی وہ دور تھا جب سرسید نے مسلمانوں کی زبوں حالی کو محسوس کیا اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے تحریک چلائی۔انھوں نے مسلمانوں کو اس قابل بنانے کی کوشش کی کہ وہ موجودہ مسائل سے نبردآزما ہوسکیں اور تعلیم ہی وہ ذریعہ تھی جس کی بدولت وہ عصری پریشانیوں کا مقابلہ کرسکتے تھے اور احساس کمتری سے باہر نکل سکتے تھے۔ چنانچہ سرسید نے عصری تعلیم کو عام کرنے کے لیے ’محمڈن اینگلو اورینٹل کالج‘کی بنیاد ڈالی لیکن مصلحتاً اس تحریک میں انھوں نے عورتوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ نہیں دی۔جس کے باعث اس وقت مسلمان عورت کی زبوں حالی میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی یا سدھار کا امکان نظر نہیں آرہا تھا۔ راشد الخیری کو اس کمی کا احساس شدت سے تھا ۔ انھوں نے اپنے ناولوں اور افسانوں اور بعد میں صحافت کے ذریعہ عورت کی ابتر حالت کو سدھارنے کی کوشش کی اور آخر عمر تک اس کام میں لگے رہے۔
اپنے پھوپھا ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں’ مراة العروس‘ اور’ بنات النعش‘ کے مطالعہ سے علامہ راشد الخیری کو اپنا پہلا ناول ’صالحات‘ لکھنے کی تحریک ملی۔ نذیر احمد کے ناولوں کی موجودگی کے باوجود یہ راستہ ان کے لیے آسان نہ تھا۔ اپنی دشواریوں کا ذکر کرتے ہوئے مولانا راشد الخیری ’صالحات‘ کے آٹھویں ایڈیشن میں شامل دیباچہ میں رقم طراز ہیں:
”رستہ سنسان تھا اور ہو کا میدان ۔ راہ کٹھن تھی اور منزل کڑی۔ جرات نہ ہوتی تھی کہ قدم رکھوں۔ مگر ارادہ مصمم تھا اور غیرت ہم راہ ، خدا کا نام لیا اور قدم بڑھایا۔“ ۳
پہلے ناول ’صالحات‘ کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ ۲۰۹۱ میں ان کا دوسرا ناول ’منازل السائرہ‘ منظر عام پر آیا۔ جس کی وجہ سے انھیں ’چارلس ڈکنز‘۴ کے خطاب سے نوازا گیا۔ ان دو ناولوں کی مقبولیت کے سبب راشد الخیری کی ادبی حیثیت مستحکم ہوگئی ۔ اس کے بعد ناول ’صبح زندگی‘ شیخ عبدالقادر کے کہنے پر لکھاجو پہلی بار ۹۰۹۱ میں منظرعام پر آیا اور اتنا مقبول ہوا کہ ۵۳۹۱ تک اس کے ۸۱ ایڈیشن شائع ہوچکے تھے۔
چونسٹھ صفحات پر مشتمل ناول ’فسانہ  سعید‘ ۰۲۹۱ میں منظر عام پر آیا اور ۱۳۹۱ تک اس کے چار ایڈیشن شائع ہوئے۔ اس میں سعید کے حالات زندگی بڑے پر سوز انداز میں بیان کےے گئے ہیں، جس کے راوی خود راشد الخیری ہیں۔ سعید خاموش طبیعت ایک فرما بردار بچی ہے۔ اس کے مزاج میں سادگی اور معصومیت ہے۔ وہ قطعی شریر اور بدمعاش نہیں۔ اس کی عادتیں اسے دوسرے بچوں سے مختلف کرتی ہیں۔ اس کی اسی سادگی اور خدا ترسی کے سبب اس کے والد مرزا حمید اسے مشنری بھیجنا چاہتے ہیں۔تاکہ وہ دنیا کے طور طریقے سیکھے اور اس میں کچھ تیزی اور تندی آئے۔مگر مذہبی والدہ کی مخالفت کے باعث سعید کی تعلیم و تربیت گھر پر ہی ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ بعد سعید کا نکاح اسلام سے ہوجاتا ہے۔ اسلام جدید تعلیم یافتہ نوجوان ہے جو اپنی بیوی سے ایک خدمت گزار اور بے زبان لونڈی سے زیادہ کی امید نہیںکرتا ہے۔ مگر سعید کی فطرت میں حد سے زیادہ شرم و حیا اور سادگی و خاموشی ہے۔جس کے سبب وہ شوہر کے تقاضوں کو پورا نہیں کرپاتی ۔ نتیجتاً اسلام دن بہ دن سعید سے متنفر ہونے لگتا ہے۔ سعید کو بھی احساس ہے کہ وہ اپنے شوہر کی توقعات پورا نہیں کرپارہی اور اسی صدمے میں بیمار پڑ جاتی ہے۔ اسلام اس کے علاج کے لیے ڈاکٹر مقرر کرتا ہے مگر خود اس کی خیریت نہیں پوچھتااور اس سے ملے بنا پہاڑوں پرتفریح کے لےے چلا جاتا ہے۔ حالات تبدیل ہوتے ہیں، اسلام خود بیمار پڑ جاتا ہے اور بیوی کی خدمت کا اعتراف کرنے کے بعد رحلت کرتا ہے ۔ سعید کی زندگی پہلے بھی خوبصورت نہیں تھی مگر اب سر پر چھت بھی نہیں رہتی اور مجبوراً مائکہ آجاتی ہے۔جہاں والدہ کے انتقال کے بعد والد نئی شادی کی فکر میں ہےں۔ دوسری شادی میں سعید اور اس کے تین بچے حائل ہیں۔سعید کو راستہ سے ہٹانے کے لیے اس کی دوسری شادی کارخانہ دار سے ہوجاتی ہے۔ جو پہلے ہی تین بچوں کا باپ ہے۔ سعید کا دوسرا شوہر اس کے سابقہ شوہر سے بھی ظالم نکلتا ہے اور نہ صرف سعید بلکہ اس کے بچوں سے بھی بدسلوکی کرتا ہے۔ سعید کچھ کچھ بولنے لگی ہے مگر اب بھی وہ باحیا اور خاموش رہتی ہے۔ آخر کار اپنے مصائب سے گھبرا کر اپنے بچوں کے ساتھ خود کشی کرلیتی ہے۔اس جملہ کے ساتھ ناول ختم ہوتا ہے:
”کنوئیں پر پہنچ کر سر کی چادر اتار بچوں کو چھاتی سے باندھا آسمان کی طرف دیکھا اور کہا خود کشی نہیں لال کی تلاش ہے۔ یہ کہا اور کنوئیں میں گر پڑی۔“ ۵
ناول میں کئی کردار ہیں جس میں سعید، مرزا حمید اور اس کی بیوی، اسلام، کارخانہ دار اور کلثوم کے کردار اہم ہیں۔ ان کرداروں میں سعید ناول کا مرکزی کردار ہے اور پورا ناول اس کے ارد گرد گھومتا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار ہونے کے باوجود سعید کا کردار سپاٹ اور اکہرہ ہے۔ وہ بااخلاق اور سلیقہ شعار ہونے کے باوجود ڈرکے علاوہ بقیہ تمام انسانی جذبات سے عاری ہے۔ اس کے اندر خودداری ، غصہ، پہننے اوڑھنے ، سجنے سنورنے کا شوق، کھیل تماشے اور گھومنے پھرنے کا شوق بالکل نہیں۔ وہ سارے کام خوش اسلوبی سے کرتی ہے مگر شوق اور خوشی سے نہیں صرف کام یا فرض سمجھ کر کرتی ہے۔ قاری سے اس کی پہلی ملاقات کراتے ہوئے ناول کاراوی رقم طراز ہے:
”سعید کا بچپن ہماری آنکھ کے سامنے ہے۔ ایسی خاموش بچی مرزا حمید کی سات پشتوں میں بھی پیدا نہ ہوئی ہوگی۔ اس کی طبیعت شروع ہی سے اطاعت و فرماںبرداری کے بیش بہا جواہرات سے مالا مال تھی۔ ہم نے خود وہ سماں نہ دیکھا ہو مگر ہمارے سامنے وہ شواہد موجود ہیں جنھوں نے ایک آدھ بار نہیں بارہا دیکھا کہ ماں باپ یا بڑے بہن بھائی نہیں چھوٹوں نے اس کو مارا اور وہ خاموش، غلط سلط شکایت کی وہ چپ، جھوٹ سچ الزام اٹھائے اور وہ گونگی بنی کھڑی ہے۔“۶
ہر بات کے جواب میں خاموش رہنے کی یہ عادت دراصل سعید کی پوری شخصیت ہے۔ قصہ آگے بڑھتا ہے اور بہت جلد قاری سعید کی اس فطرت سے پوری طرح واقف ہوجاتا ہے۔ ملاحظہ ہو:
”انسانیت کے اکثر جذبات اس سے ہزاروں کوس دورتھے، حد یہ ہے کہ کھانا کپڑا کوئی ایسی چیز نہ تھی جس کا شوق اس کی طبیعت میں پایا جاتا، کبھی کسی زیور کی طرف اس کی رغبت نہ ہوتی، کسی اچھی غذا کی طرف اس کا مائل ہونا ناممکن تھا۔ جو مل گیا اور سامنے آگیا وہ ہی غنیمت تھا اور کافی تھا۔ برسات کے موسم میں حمید اکثر باغوں میں جاتا۔ بیوی بچے ساتھ ہوتے اور یہ موسم تھا جس کے نام سے دل میں امنگ پیدا ہوتی ہے، مگر اس کے واسطے ہر خواہش قسم اور ہر امنگ گناہ تھی۔ یہ نہ تھا کہ وہ ساتھ نہ جاتی ہو یا کھانے پینے میں شریک نہ ہوتی ہو، وہ باغوں میں جاتی ، جھولے جھولتی، آم کھاتی، شربت پیتی مگر اس کی شرکت علی الاعلان بتا رہی تھی کہ ان تمام مسرتوں کا عدم اور وجود اس کے واسطے برابر ہے۔ مینہ اگر عمر بھر پڑتا رہے تو اور گرمی ساعت بہ ساعت ترقی کرے تو اس کے واسطے دونوں باتیں یکساں تھیں۔“ ۷
تمام چیزوں اور باتوں سے اس کی عدم وابستگی اور خاموش رہنے کی یہ فطرت اس کی پوری زندگی پر حاوی ہے۔ وہ بڑے سے بڑے ظلم و مصائب میں بھی اسی خاموشی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ یہ خدا ترسی اس حدتک بڑھی ہوئی ہے کہ خو د داری ، غیرت جیسے جذبات سے بھی وہ ناواقف ہے۔ یہ کردار اخلاقی طور بہت بلند ہے اور کسی بھی قسم کی بداخلاقی یا برائی سے دور ہے۔راشد الخیری نے اخلاق کا درس دیتے ہوئے اس بات کو قطعی نظر انداز کردیا ہے کہ عورت کے اندر خودداری جیسا جوہر بھی موجود ہونا چاہیے۔ نہ صرف مذکورہ ناول بلکہ ان کے دوسرے ناولوں کی ہیروئن بھی تمام خوبیوں سے مزین ہونے کے باوجود خودداری کے جذبہ سے یکسرخالی ہیں ۔ اگر قسمت سے انھیں اچھا شوہر ملتا ہے تو کوئی مسئلہ نہیں مگر تمام اخلاقی صفات کی مالکن ہیروئن کو اگر برا شوہر مل جاتا ہے اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ ساتھ اس کے والدین اور خاندان کی مٹی پلید کرتا ہے تو بھی چونکہ عورت اعلیٰ صفات کی مالکن ہے اس لیے نہ اس کی غیرت جاگتی ہے اور نہ ہی اسے غصہ آتا ہے بلکہ وہ تمام باتیں خاموشی سے سنتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر قدسیہ ، زائرہ ، نسترن وغیرہ کا کردار پیش کیا جاسکتا ہے۔ سعید بھی جب اس طرح کے حالات سے دوچار ہوتی ہے تب اس کے پاس بھی خاموشی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ملاحظہ ہو:
”سال ڈیڑھ سال کے بعد اسلام کی زبان کا ٹانکا ٹوٹ گیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ جو کچھ منہ میں آتا دھڑ لے سے سناتا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس تمام داستان میں ایک حرف بھی ہم کو ایسا نہیں ملتا کہ بے زبان بیوی نے کبھی بھی طرار شوہر کا جواب دیا ہو ابھی تک فضیحتوں میں صرف اس کی ذات شامل تھی اب اس کے باپ دادا اور پردادا بھی شامل ہوگئے۔“ ۸
یہاں مصنف کے افسوس کرنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ناجائز اور غیر مناسب حالت میں وہ عورت کی خاموشی کے خواہش مند نہیں ہیں۔ اس کے باوجود ان کی اعلیٰ صفات ہیروئن میں خودداری کی صفت نہیں۔ تمام بدسلوکی کے بعد بھی جب اسلام بیمار پڑتا ہے تو سعید اس کی اتنی خدمت کرتی ہے کہ تنگ دل شوہر کا دل موم ہوجاتا ہے ۔ بیوگی اور نکاح ثانی کے بعد سعید کے کردار میں حیا اور مظلومی کی مقدار میں تھوڑی کمی ضرور ہوتی ہے مگر اس قدر نہیں کہ وہ اپنے ناگفتہ بہ حالات کا مقابلہ دل جمعی اور بہادری سے کرسکے۔ آخر کار خود کشی میں راہ فرار اختیار کرتی ہے۔ سعید کا کردار اپنے اکہرے اور سپاٹ پن کے باجود متاثر کرتا ہے۔ قاری اس کے غم میں شریک ہو کر اس کے مصائب میں آنسو بہاتا ہے اور اس کی خود کشی پر متحیر رہ جاتا ہے۔
راشد الخیری کے تقریباً تمام ناولوں میں اچھے اور مثالی کردار کے مد مقابل ایک برا کردار موجود ہے۔ اس ناول میں اسلام کا کردار کافی حد تک برا کردار ہے مگر ان کے بقیہ کرداروں کی طرح اسلام میں صرف برائیاں ہی نہیں ہیں بلکہ کچھ اچھائیاں بھی ہیں۔ اسلام جدید تعلیم یافتہ اور پیشہ سے وکیل ہے۔ وہ بیوی سے ناز نخرے اور زیبائش و آرائش کا متقاضی ہے۔ جب اسے احساس ہوجاتا ہے کہ سعید اس کی خواہش اور معیار پر پورا نہیں اترسکتی تو اس کی طرف سے متنفر ہونے لگتا ہے۔ اولاد ہوجانے کے بعد سعید کی اہمیت اس کی نظر میں ’ماما‘ یا ’آیا‘سے زیادہ نہیں رہ جاتی ، اس کے باجود روپیہ پیسہ کے اعتبار سے اسے تکلیف نہیں پہنچاتا۔ اس کے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے ، ڈانٹتا ہے، مارنے کا بھی قصد کرتا ہے مگر دوسری شادی کی طرف راغب نہیں ہوتا۔ سعید کے بیمار ہونے پر بذات خود اس کی تیمارداری اور دل جوئی نہیں کرتا مگر اس کے علاج کے لیے دو ڈاکٹروں کا بندوبست کرتا ہے۔ سعید کی طرف سے جب ڈاکٹر ناامید ہوجاتے ہیں تو اس سے ملے بنا تفریح کے لیے پہاڑوں پر چلا جاتا ہے۔ مگر جب وہ خود بیمار پڑتا ہے تو سعید کی خدمت گزاری سے متاثر ہوکر اپنے گزشتہ رویے پر پشیمان اور شرمندہ ہوتا ہے۔ آخر کار زبانی اقرار کرتا ہے اور سعید سے معافی مانگتا ہے۔ اسلام کی شخصیت ارتقائی منزلوں سے گزرتی ہے۔ ابتداً وہ سخت مزاج اور کڑوی زبان کا مالک شوہر ہے جسے اپنی بیوی میں صرف کمیاں نظر آتی ہیں اس کے باوجود وہ اس سے بے پروا اور غافل نہیں ہے۔ بعد میں نرم گفتار ، نیک دل اور محبت کرنے والا شوہر بن جاتاہے ۔ اسلام کا کردار سعید سے زیادہ پیچیدہ اور تجریدی نوعیت کا ہے۔ اچھائی اور برائی کا مجموعہ ہونے کے باعث وہ انسانی فطرت سے زیادہ قریب محسوس ہوتا ہے۔
ناول کے دوسرے کرداروں میں مرزا حمید کا کردار بھی اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ابتدا میں وہ ایک مشفق باپ ہے جو بعد میں خود غرض باپ میں تبدیل ہوجاتا ہے ایک اچھے انسان سے برے انسان تک کا یہ سفر کئی اعتبار سے ہمارا ذہن اپنی طرف مبذول کرتا ہے۔ یہ کردار نفسیاتی الجھنوں اور انسانی ضرورتوں کے تحت بدلتا ہے۔
راشد الخیری نے اپنے ناولوں میں دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ جس مسئلہ پر سب سے زیادہ زور دیا ہے وہ تعلیم کا مسئلہ ہے ۔ وہ معاشرہ اور قوم کی ترقی کے لیے عورت کی تعلیم و تربیت کو نہایت ضروری خیال کرتے ہیں۔ ’صبح زندگی‘میں لکھتے ہیں:
”ہمارے حضرت نے فرمایا ہے کہ علم ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے ۔ ....پیغمبر زادیاں اور پیغمبر صاحب کے زمانے کی عورتیں علم کا دریا تھیں۔ موٹی سے بات ہے کہ علم آدمی کو آدمی بنادیتا ہے۔“ ۹
اپنے خیال کی تائید کے لیے راشد الخیری مذہبی دلائل دیتے ہیں اور مذہبی تعلیم کو ہی صحیح قرار دیتے ہیں ۔ انھوں نے جدید تعلیم خصوصاً انگریزی تعلیم کی مخالفت کی ہے۔ مگر مذہبی اور مشرقی تعلیم کے وہ زبردست حمایتی ہیں۔ ان کے نزدیک جدید تعلیم انسان اور مسلمان کے لیے مضر ہے۔ انھوں نے اپنے ناولوں کے ذریعہ عورتوں کی تعلیمی و معاشرتی خامیوں کو دور کرنے اور عورت کو یہ ذہن نشیں کرانے کی کوشش کی کہ تعلیم ہی وہ حربہ ہے جس سے انسان ساری برائیوں کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ تعلیم جتنی مرد کے لیے ضروری ہے اس سے کہیں زیادہ عورت کے لیے ضروری ہے کیوں کہ عورت ہی آئندہ نسل کو پروان چڑھاتی ہے اور مستقبل کی تابناکی اسی کی مرہون منت ہے۔ مگر وہ مغربی تعلیم اور مشنری تعلیم کے خلاف ہیں۔ ’جوہر قدامت ‘ میں لکھتے ہیں:
”اگر تعلیم کا یہ منشا ہے کہ آدمی مذہب چھوڑ دے تو میںکہتا ہوں تعلیم گناہ سخت گناہے۔“۰۱
ناول’سراب مغرب‘ میں لکھتے ہیں:
”پڑھی لکھی بیویوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے محلے کی لڑکیوں کو مشنریز سے بچائیں اور انھیں گھر پر تعلیم دیں۔“۱۱
مگر ’فسانہ سعید‘ تک پہنچ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی حد تک مشنریز کے قائل ہونے لگے ہیں۔ مرزا حمید جدید تعلیم کا دلدادہ ہے اور اپنی بیٹی سعید کو مشن میں داخل کرنا چاہتا ہے۔ اس کا خیال ہے :
”مشن کی لڑکیاں جو کچھ پڑھ اور لکھ رہی ہیں وہ میری بچیاں گھر بیٹھے سیکھ رہی ہیں۔ ہاں ایک بات ضرور تھی اور وہ یہ کہ جو چستی اور چالاکی ،جو طراری اور تیزی وہ مشن کی لڑکیوں میں پاتا تھا وہ ان لڑکیوں میں نہ تھی۔ اسی کمی نے اس کو اکثر تکلیف دی اور خود ہمیشہ اس فکر میں رہا کہ جس طرح بھی ہوسکے ان کو زمانہ کی رفتار کا اندازہ ہو اور یہ بھونرے میں پل کر جاہل مطلق رہیں گی اس کا بار صرف میری گردن پر ہے۔“۲۱
راشد الخیری نے عورت کی زندگی کے ہر پہلو پر نظر ڈالی اور ان کے ہر مسئلہ کو اپنے علم اور دانش وری سے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ نجم السحر اعظمی لکھتی ہیں:
”راشد الخیری نے عورت کے مسائل کو عورت کی نظر سے دیکھا اور اس کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھ کر اس کا مداوا کرنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں ان کی نظر عورت کی زندگی کے ہر پہلو پر گئی۔ اور اس طرح پہلی مرتبہ ہمارا ادب عورت کی معاشرتی حیثیت کا صحیح مصور اور مفسر بننے کے علاوہ اس کی ذہنی اور جذباتی زندگی کا آئینہ دار بنا۔“۳۱
راشد الخیری نے مسلمان عورت کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ہے۔ دراصل ان کا مقصد مشرقی روایات اور تہذیب کی حفاظت کرنا ہے۔ عورت گھریلو زندگی کا محور اور مرکز ہوتی ہے۔ چونکہ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے اس لیے وہ آئندہ نسل کی نگہدار اور اس کی محافظ بھی ہے۔ مستقبل کا دارومدار عورت کی ذات پر منحصر ہے۔ یہی سبب ہے کہ راشد الخیری نے اصلاح معاشرہ کے لیے عورت اور اس کی زندگی کے مسائل کو اپنا موضوع بنایا ۔ انھوں نے مشرق و مغرب کی تہذیبی کشمکش کو ظاہر کرتے ہوئے مشرقی تہذیب کی پاسداری کی کیوں کہ اس میں مذہبی قدریں چھپی ہوئی ہیں۔ اصلاح معاشرہ کے لیے انھوں نے حزنیہ طرز تحریر اپنایا۔ کیوں کے حزنیہ طرز تحریر زیادہ دیر پا اور موثرہوتی ہے۔
راشد الخیری کو زبان پر قدرت حاصل ہے ۔ خصوصاً عورتوں کی زبان پر اس قدر عبور حاصل ہے کہ ان کے ناولوں کو پڑھتے ہوئے اکثر یہ گمان ہوتا ہے کہ ناول کا مصنف کوئی عورت ہی ہوگی۔ ان کی عبارت میں تشبیہ و استعارہ ، محاورہ ، کہاوت ، قصے اس طرح شامل ہیں کہ نثر میں شاعری کا احساس ہوتا ہے۔ قصہ یا ماحول کو تشکیل دیتے ہوئے ان کی نظر جزئیات پر رہتی ہے۔ ان جزئیات کے ذریعہ وہ قاری کے سامنے پورا واقعہ پیش کردیتے ہیں۔ ان کے دیگر ناولوں کی طرح ’فسانہ سعید‘ کا اسلوب اور انداز بیان نہایت دل کش او رپرکشش ہے۔
عام طور پر راشدالخیری کے ناولوں کے پلاٹ میں ترتیب و تنظیم کی کمی کا احساس شدت سے ہوتا ہے لیکن ’فسانہ سعید‘ کا پلاٹ زیادہ مربوط ہے۔ غیر ضروری طوالت نہ کے برابر ہے ۔ پھر بھی اپنے بقیہ ناولوں کی طرح اس ناول میں بھی راشد الخیری درس دیتے نظر آتے ہیں۔ سعید کے بیوہ ہونے کے بعد بیوہ کے نکاح ثانی کی ضرورت اور اہمیت پر تین صفحات پر مشتمل راوی کی ایک تقریر ہے جس کی ضرورت نہیں تھی اور یہ ناول کے فن کو نہ صرف مجروح کرتی ہے بلکہ کہانی کی بے ربطگی کا باعث بھی ہے۔
 مسلم معاشرہ کی فلاح او رترقی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی انھوں نے عورت کی تعلیم پر زور دیا۔ اگر چہ یہ تعلیم صرف مذہبی تعلیم پر مبنی ہے۔ اس کے باوجود اس بات کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا کہ تعلیم نسواں کے متعلق سوچنا اور اس کے لیے کوشاں رہنا ایک بڑا چیلنج تھا جسے انھوں نے قبول کیا اور اس کی طرف توجہ دی جو کہ اس زمانہ کے لحاظ سے قابل غور ہے۔ عورت کو اس زمانہ میں اصلاح معاشرہ کا حصہ تسلیم کیا جانا بھی عورت کی عصری حالات کے مدنظر اس کی زندگی خصوصاً معاشرتی زندگی کا ایک اہم موڑ ہے۔ عبادت بریلوی لکھتے ہیں:
”علامہ راشد الخیری نے صنف نازک کا جو تصور پیش کیا ہے وہ اپنے ماحول کے اعتبار سے زیادہ سائنٹفک اور صحت مند ہے۔ اس میں نہ انتہا پسندی کو دخل ہے اورنہ قدامت پر ستی کو ۔ ان کا راستہ اعتدال کا راستہ ہے۔ وہ نہ بہت زیادہ ترقی پسند ہیں اور نہ زیادہ رجعت پسند بلکہ اعتدال کے راستے پر چل کر وہ صنف نازک کو سماج کے لیے زیادہ مفید اور انسانی زندگی کے لیے زیادہ اہم ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ اور اس کی زبوں حالی پر کڑھتے بھی ہیں۔“۴۱
راشد الخیری کے ناولوں پر مقصدیت حاوی ہے۔ انھوں نے اپنے تمام ناول ایک مقصد کے تحت لکھے ہیں۔ اس مقصد کی وجہ سے ناول کا فن مجروح بھی ہوتا ہے تاہم ’فسانہ سعید‘بے حد مربوط ناول ہے اور مصنف کی مقصدیت کے باوجود کہیں بھی ناول کا فن متاثر نہیں ہوتا سوائے دو ایک جگہوں کے جہاں راوی نصیحت کرنے لگتا ہے یا اپنے نقطہ نظر سے قاری کو واقعہ سمجھانے لگتا ہے ۔ مگر اپنی مقصدیت کی وجہ سے فن پر پوری توجہ نہیں دینے کے لیے ان کی گرفت نہیں کی جاسکتی ۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس وقت اردو میں ناول نگاری ابتدئی مرحلہ میں تھی ۔ اس کے خدو خال پوری طرح واضح نہیںتھے۔ اولین دور کے تمام ناول نگاروں نے مقصدیت پر زیادہ زور دیاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ راشد الخیری کے یہاں بھی وہ نقائص ملتے ہیں جو اس عہد کے تمام ناول نگاروں کے یہاں موجود ہیں۔ لیکن اردو ناول کے فروغ اور عوام میں ناول کو مقبول کرنے میں ان کا بہت اہم رول ہے۔ جس سے انکار ممکن نہیں۔ خصوصاً تعلیم نسواں اور اصلاح نسواں کے لیے انھوں نے جو کوششیں کی اس کے لیے انھیں اردو ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
حواشی:
۱۔بحوالہ اردو کا پہلا افسانہ نگارراشدالخیری از ڈاکٹر مرزا حامد بیگ، علامہ راشدالخیری اکیڈمی کراچی۳، ۲۹۹۱۔ (اردو کا پہلا افسانہ ’نصیر اور خدیجہ‘مخزن لاہور، ستمبر ۳۰۹۱ میں شائع ہوا جب کہ پریم چند کا پہلا افسانہ ’دنیا کا انمول رتن ‘مشمولہ ’سوز وطن‘۸۰۹۱میں شائع ہوا)
۲۔ایضاً، ص۲۳
۳۔بحوالہ مونو گراف علامہ راشدالخیری از ڈاکٹر نجیب اختر،اردو اکادمی دہلی۲۱۰۲۔ ص۹۳
۴۔بحوالہ مونو گراف علامہ راشدالخیری از ڈاکٹر نجیب اختر،اردو اکادمی دہلی۲۱۰۲۔ ص۱۴
۵۔ فسانہ سعیداز راشدالخیری ، حمیدیہ پریس ، کوچہ چیلاںدہلی،سنہ ندارد، ص۴۶
۶۔ایضاً،ص۱
۷۔ایضاً،ص۹
۸۔ایضاً،ص۴۱
۹۔صبح زندگی از راشدالخیری ، عصمت بک ڈپو ، لکھنو، سنہ ندارد،ص۱۴۔۲۴
۰۱۔بحوالہ راشدالخیری کی افسانہ نگاری از محمد اکبر ، محمداکبر،مکتبہ صدف نئی دہلی،۲۱۰۲، ص ۸۳
۱۱۔ایضاً ، ص۸۳
۲۱۔ فسانہ سعیداز راشدالخیری ، حمیدیہ پریس ، کوچہ چیلاںدہلی،سنہ ندارد،ص۳۔۴
۳۱۔علامہ راشدالخیری:شخصیت اور ادبی خدمات از نجم السحراعظمی، ادارہ بزم خضرراہ،اکتوبر۰۰۰۲
۴۱۔ص۴۷، جلد ۴، نمبر ۲، فروری ۵۴۹۱
***

مشہور انقلابی غزل کا حقیقی شاعر بسمل عظیم آبادی عرف جھبّو شاہ
پرویز اشرفی
نئی دہلی
9990129128, parwezashrafi1955@gmail.com

          بیسویں صدی میں متعدد شعرائے کرام نے جنگ آزادی میں قیمتی جان و مال کا نذرانہ پیش کےے جانے پر نظمیں لکھی ہیں۔ مگر ان سب کے باوجود بیسویں صدی کے اوّل عشرے میں ایک ایسی غزل کی بھی تخلیق ہوئی کہ جس نے تحریک ِ آزادی میں نیا جوش اور ولولہ پیدا کردیا۔ اکثر مجاہدین آزادی کی زبان پر یہ غزل چڑھی رہی۔ اُس غزل کا مشہور مطلع تھا:
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
          یہ شعر اتنا مقبول اور مشہور ہے کہ محتاجِ تعارف نہیں ، لیکن اس شعر کے تخلیق کار کے بارے میں اب نئی تحقیق آئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صحیح اور مستند ہے۔ اب تک لوگ یہی سمجھتے تھے کہ یہ شعر معروف مجاہد آزادی رام پرساد بسمل کا ہے،کیوں کہ اتفاق سے وہ بھی شاعر تھے۔ زیادہ تر لوگ اسے رام پرساد بسمل سے منسوب کرتے رہے ہیں۔ اس غلط فہمی کی وجہ یہ تھی کہ اپنی انقلابی تحریک کے دور میں اکثر یہ شعر رام پرساد بسمل کی زبان پر ہوا کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ جب ۷۲۹۱ءمیں اُنھیں پھانسی کے تختے پر لے جایا گیا اُس وقت بھی اُنھوں نے اس شعر کو پڑھنے کے بعد ہی پھندا اپنے گلے میں ڈالا تھا۔ حد یہ ہے کہ اُن کے دیگر انقلابی رفقا بھی جیل جاتے وقت، عدالت میں پیش ہوتے وقت اور مجسٹریٹ کو چڑانے کے لےے کورٹ میں یہ ترانہ گاتے تھے۔ اسی لےے عوام میں یہ مشہور ہوگیا کہ یہ شعر رام پرساد بسمل کا ہے۔
          ” ۶۲جنوری ۴۱۰۲ءکے ہندی روزنامہ ”ہندوستان“ کے صفحہ نمبر ۸ پر فیروز اختر رقم طراز ہیں کہ یہ غزل سید شاہ محمد حسن بسمل عظیم آبادی عرف جھبّو شاہ کی لکھی ہوئی ہے۔اُن کے مطابق ۱۲۹۱ءمیں بسمل عظیم آبادی نے یہ غزل تخلیق کی تھی۔ اُس وقت اُن کی عمر ۰۲سال تھی۔ اپنے وقت کے عظیم شاعر شاد عظیم آبادی جو اُن کے اُستاد بھی تھے، سے اس غزل پر اصلاح بھی لی تھی۔ جس کاغذپر اُنھوں نے غزل لکھی اُس کی نقل پٹنہ کی خدا بخش لائبریری میں شاد عظیم آبادی کی اصلاح شدہ کاپی موجود ہے۔ غزل کی اصل کاپی آج بھی پٹنہ سٹی میں مقیم اُن کے خاندا ن کے پاس موجودہے۔“
          اس طرح یہ ایک پختہ ثبوت ہے کہ سرفروشی کی تمنا .... غزل سید شاہ محمد حسن بسمل عظیم آبادی کی تحریر کردہ ہے، رام پرساد بسمل کی نہیں۔ اُن کے حق میں ثبوت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بسمل عظیم آبادی کی منجھلی بیٹی شمیمہ خاتون کے فرزند ڈاکٹر سید مسعود حسن کے مطابق”نانا جان کی یہ غزل جنگ آزادی کے وقت قاضی عبدالغفار کے رسالہ ”صباح“ میں۲۲۹۱ءمیں شائع ہوئی تو انگریز حکومت تلملا گئی۔ مدیر (ایڈیٹر) نے نانا جان کو خط لکھا کہ برٹش حکومت نے شمارہ ضبط کرلیا ہے۔
(بحوالہ فیروز اختر کے مضمون ” بہار کی دھرتی پر لکھی گئی سرفروشی کی تمنا....“)
          ۰۸۹۱ءمیں بہار اردو اکادمی کے مالی تعاون سے بسمل عظیم آبادی کی غزلوںکا مجموعہ بعنوان ” حکایت ِ ہستی“ شائع ہوا تھا۔ یہ مجموعہ خدا بخش لائبریری پٹنہ میں موجود ہے۔ اُسی مجموعہ میں گیارہ شعروں کی مذکورہ مطلع والی غزل بھی شامل ہے۔ بہار کی سرکاری نصابی کتاب ”درخشاں“ نویں جماعت میں تحریر کیا گیا ہے کہ ”سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے“ کی تخلیق بسمل عظیم آبادی نے ہی کی تھی۔
          ایک اور ثبوت پیش کرتے ہوئے بسمل عظیم آبادی کے پوتے سید شاہ منور حسن کے ذریعہ جاری ہفت روزہ رسالہ ” ندائے بسمل“ کے ۵۱تا ۱۲اگست کے شمارے میںڈاکٹر شانتی جین نے لکھا ہے کہ ” ۱۲۹۱ءمیں کانگریس کے کلکتہ اجلاس میں بسمل عظیم آبادی نے اپنی یہ غزل پڑھی تھی۔“ اس کے علاوہ خدا بخش لائبریر کے سابق ڈائریکٹر عابد رضا بیدار کا بسمل عظیم آبادی سے لیا گیا انٹرویو بعنوان ’بسمل عظیم آبادی کے ساتھ ایک شام‘ نام سے ایک ریکارڈنگ (ٹیپ نمبر ۰۸) آج بھی خدا بخش لائبریری میں موجود ہے۔ بات چیت میں بسمل عظیم آبادی نے نہ صرف اپنی غزل کی بارے میں بتایا بلکہ اُسے اپنی آواز میں سنایا بھی ہے۔
 (بحوالہ ہندی روزنامہ ہندوستان، صفحہ نمبر۸،
۶۲جنوری ۴۱۰۲ئ)
          لہٰذا مذکورہ تمام ثبوتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ مذکورہ غزل کے اصل تخلیق کار سید شاہ محمد حسن بسمل عظیم آبادی عرف جھبّو شاہ ہی ہیں۔ اس کی تصدیق ماہنامہ اردو دُنیا ۸۹۹۱ءمیں شائع مشہور شاعر علی اصغر جعفری کی تحریر سے بھی ہوجاتی ہے جس میں وہ رقم طراز ہیں ”رام پرساد بسمل نے اپنے ہم نام بسمل عظیم آبادی کی غزل کو پھانسی کے تختے پر چڑھ کر امر کردیا۔“ اپنی غزل کے ایک مصرع میں اُنھوں نے کہا تھا :
وقت آنے پر بتادیں گے تجھے اے آسماں
ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے
           لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ نئی نسل اس عظیم شاعر بسمل عظیم آبادی کی مشہور زمانہ غزل کوپس و پیش کے سمندر سے چھان کر حقیقت کی روشنی میں لے آئے اور اُنھیں صحیح مقام عطا کرے۔
تعارفی خاکہ:
پورانام : سید شاہ محمد حسن بسمل عظیم آبادی
           عرف جھبّو شاہ
پیدائش: ۱۰۹۱ءپٹنہ سے ۰۳کلو میٹر دور
           خسرو پور قصبہ میں
سلسلہ نسب: حضرت مخدوم شاہ فرید طویلہ بخش سے منسلک ہوتے ہوئے مشہور صوفی حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیائؒ سے جاملتاہے۔
***

مشینی دور میں ادب کا مطالعہ
اور نوجوان
محمد علم اللہ اصلاحی
نئی دہلی
           اگر کسی قوم کے مزاج کو سمجھنا مقصود ہو تو اس کی زبان و ادب کا مطالعہ ضروری ہے۔ کسی قوم کا ادب اس کے مزاج کا آئےنہ دار ہوتا ہے اور اس کے اندر تبدیلےاںپےدا کرنے کی بھر پورصلاحیت رکھتا ہے، ماضی میں اس کی مثالیںہندوستان میں آزادی کی جد و جہداورانقلابِ فرانس اور روس کی صورت میں نظر آتی ہیں جہاں ادب نے انقلاب کی راہ ہموار کی۔اکیسویں صدی کو اگر مشینی دور کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ لیکن ٹیکنالوجی نے زندگی کو سہل بنانے کے ساتھ ساتھ تنہائی کا ساتھی بھی فراہم کردیا ہے۔ اب انسان گھنٹوں مشینوں کے ساتھ تو گزار ہوسکتا ہے لیکن جیتے جاگتے انسان کے ساتھ وقت گزارنا دوبھر ہوگیا ہے۔ جسے علامہ اقبال کی زبان میں ہم یوں کہ سکتے ہیں:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
          سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بھاگتی دوڑتی، ہر لمحہ اور پل پل رنگ بدلتی زندگی نے انسان کا دوسرے انسان کے لیے وقت نکالنا مشکل کردیا ہے ایسے حالات میں مطالعہ کے لیے کیوںکر وقت نکالا جاسکتا ہے ؟ یہ بھی سوال ہے کہ کیا ٹیکنالوجی جو ہر س

±و اپنے کرشموں سے عقل کو حیران کررہی ہے، کتاب کی کمی کو پورا کرسکتی ہے؟ اگر نوجوانوں سے پوچھا جائے کہ اس دور مےں کتابوں سے دوری کاسبب کیا ہے؟ تو کمالِ سادگی سے یہ جواب ملتا ہے کہ”یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے، ٹی وی، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ فقط انگلیوں کے اشاروںکے محتاج ہیں، ایسے دور میں کتاب بوجھ لگتی ہے اورکتاب کی کمی کو تو نیٹ بھی پورا کررہا ہے، ایسی کون سی معلومات ہیں جو نیٹ پر دستیاب نہیں۔ پھر کتاب کیوں؟“ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا....!! رہی سہی کسر چند انچ کے موبائل فون نے پوری کردی ۔

          ستّر اور اسّی کی دہائی میں جو نوجوان ہاتھوں میں ابن صفی، اظہاراثر اور نسیم حجازی کی کتابیں لیے کھمبوں سے ٹکراتے پھرتے تھے، آج موبائل فون ہاتھ میں لیے یہ کارنامہ انجام دیتے ہیں اور سونے پہ سہاگہ اگر نوجوانوں کو مطالعے کی اہمیت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی جائے تو ارشاد ہوتا ہے: ”میاں! راگنی بے وقت کی گاتے ہو کیا“۔ جو نوجوان کتاب کی اہمیت کو تسلیم ہی نہیں کرتے کیا ا

±ن سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ادب کا مطالعہ کریں گے؟ اگر کسی سے پوچھا جائے کہ ادب کیا ہے؟ تو شاید وہ سائل کے جواب میں دوسرا سوال بن جائے گا۔یہ ادیب و شاعر ہی ہیں جو معاشرے میں پھیلتی محرومیوں کو شدت سے محسوس کرکے قلم کی طاقت سے انہیں دوسروں تک پہنچاتے ہیں، تاکہ کہیں تو روک لگے۔ بعض اوقات ہم سامنے کی چیز کو پوری طرح سمجھ نہیں پاتے یا وہ مکمل طور پر ہمارے ادراک کی گرفت میں نہیں آتی، ایسے حالات میں ادیب اپنے خون جگرسے حالات کا عکس کھےنچ کرہمارے فہم و ادراک کے دائرے مےں لے آتاہے جس کی روشنی مےں دوسرے لوگ اپنی آگے کی راہ ہموار کرتے اور منزل کا پتہ لگاتے ہیں ۔ جدید ہندوستان کی تاریخ کو ہی دیکھ لیجئے جس میں بے شمار قلم کا روں نے اپنی تحرےروںسے قوم کے فکری دھارے کو صحےح سمت دکھائی اور ملک و ملت کی رہنمائی کافرےضہ انجام دیا، یہاں ہم صرف اردو ادب سے تعلق رکھنے والے چند افراد کا نام لیتے ہیں جن میں قرة العین حیدر کا ”آگ کا دریا“، ”سیتا ہرن“، قدرت اللہ شہاب کا ”یاخدا“، انتظار حسین کا ”آگے سمندر ہے“، ”بستی“، ”ممتاز مفتی کا ”علی پور کا ایلی“، ”الکھ نگری“، خدیجہ مستور کا ”آنگن“، سعادت حسن منٹو کا ”سیاہ حاشیے“، ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“، کرشن چندر کا ”غدار“، عبداللہ حسین کا ”اداس نسلیں“ مختار مسعود کا ”آواز دوست “ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ لیکن آج کی نوجوان نسل ان آثار قدےمہ سے انجان ہے، انہےں خبر نہیں کہ دفتےوں کے بےچ مےں زبان وادب اور فکر وفن کے کس قدر بےش بہا لعل وگہر دفن ہےں۔

          ہندوستان مےں اردو زبان وادب کی تارےخ پرانی ہے اور زبان نے درجہ بہ درجہ ترقی کے مدارج طے کےے ہےں، اس لےے ہر دور اس کے لےے ترقی کی نئی راہوں کا دور ثابت ہوا ہے، اردو زبان کو جن لوگوں نے خاص معےار دےا اور اسے عام فہم بناےا انہےں اردو کے عناصر خمسہ کا لقب دےا گےا ہے، ےہ سرسےداحمد خان، ڈپٹی نذےر احمد،خواجہ الطاف حسےن حالی،علامہ شبلی نعمانی اور محمد حسےن آزادہےں،ان کے مقالات، مکتوبات، اشعار، افسانے،مضامےن،تصانےف اور تالےفات زبان وادب کی معراج اور عمدہ ذہنی وفکری تربےت کا سامان ہےں، ان عناصر خمسہ کو اردو ادب سے باہر رکھ کر اردو زبان وادب کے عام فہم اسلوب مےں لانے کاکوئی مدعی نہےں ہوسکتا،پہلے اردو زبان وادب کا استعمال محدود اصناف سخن مےں ہوتا تھا ، لےکن ان عناصر خمسہ نے نوبہ نو مضامےن کواردو زبان کے قالب مےں ڈھال دےا اور یہیں سے اس زبان کی وسعتےں لامحدود ہوتی چلی گئےں، اردو زبان ان عناصر خمسہ کی ہمےشہ احسان مند رہے گی۔
           کاش ! کوئی ہمارے نوجوانوں کو بتادےتاکہ ادب ہماری زندگی کا وہ ورثہ اور وقف املاک ہے جو بے توجہی اور غفلت کے سبب دےمک کی خوراک بنتا جارہا ہے ،اگر اس پہلو پر نظر نہ کی گئی تو تہذےب و ثقافت اور تارےخ ادب کا اےک زرےں باب مقفل ہو کر رہ جائے گا۔ ادب زندگی کا آئینہ ہی نہیں بلکہ حال کی تعبیر ہے جس سے کسی طرح فرار ممکن نہیں، نوجوانوں کا یہ کہنا بھی اپنی جگہ درست ہے کہ حال مےںمعیار ی ادب تخلیق نہیں ہورہا ہے لیکن اس بنیاد پر ادب سے منہ نہیں موڑا جاسکتا، ہماری نئی نسل اگر، عصمت چغتائی، ابن فریدسعادت حسن منٹو،مائل خیر آبادی، بانو قدسیہ، آغا حشر کاشمیری، نسیم حجازی، صادق حسین سردھنوی، راشد الخیری، ڈپٹی نذیر احمد،راجندر سنگھ بیدی، امتیاز علی تاج،ماہر القادری،عامر عثمانی، ابو المجاہد زاہد، حفیظ میرٹھی، منشی پریم چند، قرة العین حیدر اور کرشن چندر سے واقف نہیں تو ےہ اسلاف سے بے تعلقی اوراپنے ادبی ورثہ کو خاطر مےں نہ لانے کی دلےل ہے۔
          ابن صفی کا ذکر انفرادی طور پر اس لےے کےا جارہا ہے کہ وہ پہلے ادےب ہےں جن کی تحرےروں کو سماج کے ہر طبقہ مےں ےکساں مقبولےت حاصل ہوئی اور اب تک اس کا تسلسل باقی ہے، اگر چہ ادب کے ٹھےکے داروں نے ان کو ادےبوں کی فہرست مےں شمار نہ کےا اور ان کی تحريروں کو ادبی شہ پارہ تسيم نہ کےا ، لےکن اس سے ان کی انفرادی ادبی حيثيت پر کوئی حرف نہيں آتا،زندگی ميں بھی ان کی تحرےروںکو قبول عام حاصل رہا اور اب تک ہے، اگر سب سے زيادہ پڑھے جانے کا اعزاز کسی کو حاصل ہے تو وہ صرف ابن صفی ہيں، ان کی تحرےرےں مختلف زبانوں مےں ترجمہ ہو کر مقبول ہوچکی ہےں۔
 اسکول کی نصابی کتابوں میں منتخب ادےبوںکے حالات پڑھ لےنا اور ان کی نگارشات رٹ لینا ادبی ذوق کی پہچان نہیں، بلکہ نوجوانوں کو اس سے آگے بڑھ کر مطالعہ کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، ےہ اقدام ان کی صلاحےتوں کو نکھارنے کا سبب ہوگا اور وہ اپنے تہذيبی اور ثقافتی ورثہ کو نہ صرف باقی اور محفوظ رکھنے کا شرف حاصل کرسکيں گے بلکہ اگلی نسل میں اس بے بہا ورثے کی منتقلی کا ذریعہ بھی بنیں گے۔
***









شیخ رحمن اکولوی کا طنز ومزاح
ایک جائزہ
سید شبیر علی
آکوٹ،اکولہ(مہاراشٹر)
          ادب فنون لطیفہ کی ایک شاخ ہے۔ انسان اپنے جذبات اور خیالات کی موثر ترجمانی اس کے ذریعہ کرتا ہے۔ یہ ترجمانی جس پیرائے میں کی جاتی ہے وہ ادب ہے۔ انسانی خیالات نظم اور نثر دونوں میں الگ الگ انداز سے ظاہر ہوسکتے ہیں۔ نثر میں انشائیہ ہو ، خاکہ ہو، تقریر ہو، رپورتاژ ہو، افسانہ ہو، ڈرامہ ہو، مقالہ ہو یا طنز و مزاحیہ مضمون ہو یا دیگر اصناف ادب اِن تمام مضامین کے لکھنے میں ہر ادیب کا اسلوب الگ ہوتا ہے۔ اسلوب کے متعلق مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں:
” میں اس نظرےے کا قائل ہوں کہ ہر خیال اپنے ساتھ خود الفاظ لاتا ہے اور ہر خیال کو ادا کرنے کے لےے سب سے زیادہ موزوں وہی الفاظ ہیں جو اس خیال کے ساتھ ساتھ خود بخود چلے آتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں صرف مضمون سوچنا چاہےے، باقی رہے الفاظ تو ان کے انتخاب میں الجھن کی ضرورت نہیں، وہ آپ سے آپ مضمون کے ساتھ آجائیں گے۔“
          ایک سنجیدہ تحریر کے لےے یہ تعریف صحیح ہے لیکن مزاح نگار کے لےے ضروری ہے کہ وہ تحریر میں لطف پیدا کرنے کے لےے موزوں الفاظ کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ جملہ میں برجستہ استعمال کرے۔
          طنز و مزاح کی اہمیت اور اس کے حدودد کے متعلق مولانا محمد فاروق خاں لکھتے ہیں:
”اگر کسی شخص میں بولنے یا مزاح کے حسن اور ظرافت کا مادّہ نہیں پایا جاتا تو اس سے کوئی بڑی توقع نہیں کی جاسکتی، اس لےے کہ ترقیوں اور امیدوں کا تعلق ہمیشہ زندہ دلی اور جوش و خروش سے ہوا کرتا ہے۔ خشک طبیعت خدا کی بہت سی لطیف نعمتوں اور محبتوں کو محسوس کرنے سے قاصر رہتا ہے، مطلب یہ کہ مزاح ظرافت کی انسانی زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔“
          آسکر وائلٹ کہتا ہے:
”اگر کسی سے سچی بات کہلوانا ہو تو اسے ایک نقاب دے دو، ظرافت ایک ایسی ہی نقاب ہے۔“
          رشید احمد صدیقی کہتے ہیں:
”طنز بڑا مشکل فن ہے، ظرافت اس سے بھی زیادہ طنز حربہ ہے، ظرافت طاقت ہے، بغاوت ہے، ظرافت انقلاب۔“
          شیخ رحمان اکولوی کہتے ہیں:
”مزاح کے متعلق میرا ناقص خیال یہ ہے کہ طنز کی شدت اور غیر ضروری فلسفہ بازی مزاح کو بوجھل کردیتی ہے۔ (اور قاری اونگھنے لگتا ہے) طنز کا عنصر کم ہونے پر طنز و مزاح کی آمیزش سے جو کاک ٹیل بنتی ہے مزہ دیتی ہے۔ اس معیار پر میرا مزاح کس حدتک پورااترتا ہے اور اترتا بھی ہے یا نہیں، اس سلسلے میں کچھ نہیں کہوں گا۔ یہ قارئین کا کام ہے اور دوسروں کے کام میں ٹانگ اڑانے کی میری عادت نہیں۔“
(میں اور میرا مزاح)
” اپنی مزاح نگاری کے بارے میں صاف صاف کہہ دینا چاہتا ہوں کہ مزاح نگار بنا نہیں بلکہ بنایا گیا ہوں اور اس جرم میں کئی لوگ شریک ہے۔( میں قطعی بے قصور ہوں) آپ نے بات چھیڑ دی تو بھگتئے۔ میرے دوستوں کے ساتھ رہتے مجھے احساس ہوا کہ مزاح جاندار صنف ہے۔ اس کے علاوہ دوسری اصناف ادب کے مطالعہ کے لےے ایک خاص موڈ کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ مزاح کا معاملہ اوروں کے برعکس ہے۔ یہ وہ ٹانک ہے جس کا استعمال ہر موسم میں بچے، جوان، بوڑھے سب ہی کرسکتے ہیں۔“
(میں اور میرا مزاح)
          موصوف کا مشاہدہ، مطالعہ اور معلومات کے وسیع ہونے، نیز اس کو طنز اور ظرافت میں تبدیل کرکے پیش کرنے کے طریقہ کے لےے اُن کے مضامین سے یہ چند فقرے پڑھ کر لطف لیجےے:
”مشاعروں اور ادبی نشستوں کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان کی صدارت کے فرائض غیر ادبی شخصیتیں انجام دیتی ہیں۔ “
(میرا شہر میرے لوگ)
”قلعے کی عمارت کالے پتھر سے بنی ہوئی ہے، اس لےے نظر بد سے محفوظ ہے ورنہ کب کی زمین بوس ہوچکی ہوتی۔“
(میرا شہر میرے لوگ)
” شک کرنا پولس کا پیدائشی حق ہے۔“
(میرا یار جمیل فاروقی)
” رشوت وہ شہد ہے جو ہندوستانی سماج کی ہر بیماری کا تیر بہ ہدف علاج ہے۔“
(چار مینار کا پانچواں مینار)
          طنزیہ اور مزاحیہ مضامین میں دیگر زبانوں کے الفاظ اور اصطلاحوں کے استعمال سے طنز گہرا اور مزاح دوبالا ہوجاتا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی کا ایک شعر ہے:
محبوبہ بھی رخصت ہوئی ساقی بھی سدھارا
دولت نہ رہی پاس تو اب ”ہی“ ہے نہ ”شی“ ہے
          اس شعر میں He اور She انگریزی الفاظ نے زر پرستوں پر کےے گئے نشتر کو مزید گہرا کردیا ہے۔
          شیخ رحمن بھی اپنے مضامین میں انگریزی الفاظ کا برجستہ استعمال کرتے ہیں، جس سے طنز گہرا اور مزاح میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ ظ۔انصاری صاحب کے ساتھ ناشتہ کا منظر اس طرح پیش کرتے ہیں۔ (ظ۔ انصاری صاحب ناشتہ کے دوران پل بھر خاموش نہیں رہے، شربت کی ، کبھی پھلوں کی اور ناشتہ کی تعریف کرتے رہے۔)
” ظ۔انصاری صاحب کے ساتھ ناشتہ کرکے عجیب لطف آیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ہم نے اس طرح رننگ کامنٹری Running Comentry کے ساتھ ناشتہ کیا۔“
          ایک سفر کا تذکرہ کچھ اس طرح کرتے ہیں:
”دوران سفر ایک جگہ ہم نے دیکھا کہ ۵برس کا بچہ پھٹے ہوئے چتھڑوں میں سڑک کے کنارے سنگ میل کے سہارے کھڑا ہے۔ ہم نے سوچا کہ ہندوستان کے معاشی اور اقتصادی ترقی کے اظہار کے لےے اس سے بہتر Symbol کیا ہوسکتا ہے۔“
(لوٹ کے آنے کے لےے جا)
          پولس کی کارکردگی اور لفظ کرفیو کاپوسٹ مارٹم اس طرح کرتے ہیں:
”دیکھنے میں آیا ہے کہ کرفیو کے دوران فسادی زیادہ سرگرم ہوجاتے ہیں، عوام الناس کرفیو کی وجہ سے گھروں میں دبکے رہتے ہیں اور فسادیوں کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ رہی پولس کی بات تو وہ کہاں کہاں اور کب کب پہنچے گی؟ اور کچھ ہونے سے پہلے وہ جائے واردات پہنچ کر کرے گی بھی کیا؟ کیوں کہ اس کی کارروائی تو پنچ نامہ کے بعد شروع ہوتی ہے اور جب کہیں کچھ ہوا ہی نہ ہو تو پولس کیا کرے گی۔ (آئے دن وہ فرضی کیس بھی تو نہیں بنا سکتی) ایسے حالات میں ”کرفیو“ کے اجزائے ترکیبی کچھ یوں بیان کےے جاتے ہیں:
(جرائم) C, for Crimes
(غیر یقینی حالات) U, for Uncertenty
(عصمت دری) R, for Rape
(آتش زنی) F, for Fire
(دھماکے) E, for Explosion
(لمبی دردناک چیخیں) W. for Wails
(فساد سے فساد تک)
          طنزیہ اور مزاحیہ مضامین کے مطالعہ کے لےے قاری کا مطالعہ بھی گہرا اور وسیع ہونا چاہےے۔ اگر ایسا ہوا تو قاری محظوظ ہوئے بنا نہیں رہ سکتا۔ مثال کے طور پر یہ واقعہ پڑھئے:
”شکیل اعجاز الرحمن صاحب مظفر حنفی سے ملنے کے لےے گئے۔ اسٹیشن پر سہیل صاحب نے ان کو پہچان لیا اور گھر لے آئے۔ رحمن صاحب نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ہمیں کیسے پہچانا؟ انھوں نے جواب دیا کہ ڈاکٹر صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ ” ڈیڑھ متوالے“ قسم کے دو لڑکے تمھیں نظر آئیں تو سمجھ لینا کہ وہی شکیل اور رحمن ہیں۔“
          دونوں کے قدوں کے فرق کے اظہار کے لےے اس سے بہتر تشبیہ نہیں ہوسکتی تھی۔ (کیوں کہ رحمن صاحب تو ہیں ’الف‘ سے قطب مینار ، دراز قد اور دوسرے شکیل اعجاز ان سے تقریباً نصف گویا ’ب‘ سے باقی آئندہ)۔ ”الف سے قطب مینار “ نام طنزیہ اور مزاحیہ مضامین کے مجموعہ کا اور ”باقی آئندہ“ نام ہے مضامین والی کتاب کا جو رحمن صاحب نے لکھی ہیں۔
          قاری نے اگر ابن صفی کے ناولوں کا مطالعہ کیا ہے تو ا س کا ذہن فوراً ان کے ناول ”ڈیڑھ متوالے“ کی طرف جائے گا اور مسکرائے بغیر نہ رہ سکے گا۔ گمان غالب یہ ہے کہ مضمون نگار کا منشا بھی یہی تھا اور اس نے ایک تیر سے دو شکار کر ڈالے۔
          ان کی تحریروں کے متعلق دیگر مشاہیر ادب کیا فرماتے ہیں۔ یوسف ناظم کہتے ہیں:
” شیخ رحمن رہتے تو ہیں ایسے شہر میں جس کے نام میں کوئی نقطہ نہیں، لیکن ہر بات میں کوئی نہ کوئی نکتہ ضرور پیدا کردیتے ہیں۔“
 ظ۔انصاری کا کہنا ہے:
” اردو شاعری میں شیخ پر طنز و تعریض کے جتنے تیر چل چکے ہیں سب کا حساب برابر کرنے کی صلاحیت ہے اکولوی شیخ میں۔“
ڈاکٹر مظفر حنفی فرماتے ہیں:
”ان کی طنز لطیف ہوتی ہے۔ ایسی کہ پڑھنے والا بے ساختہ اپنے اندر گدگدی محسوس کرتا ہے اور زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ کچھ مسوس کر رہ جاتا ہے۔“
جوگیندر پال کہتے ہیں:
” آپ کی تحریر دل چسپ اور شگفتہ ہے اور اکثر مقامات پر آپ کے طبع زاد اوصاف بھی متوجہ کرتے ہیں جو بڑی بات ہے۔“
محمد نعیم اللہ صاحب لکھتے ہیں:
” شہر اکولہ کو اس بات پر نازہے کہ اس کی سرزمین سے ایک ایسا طنز و ظرافت نگار ابھرا جسے ودربھ کا پہلا طنز و ظرافت نگار ہونے کا شرف حاصل ہے۔“
          ان مشاہیر ادب کے تبصرے اور مختصر جائزے کا اختتام اُن کے اس شعر پر کرتا ہوں۔ عرض کرتے ہیں:
یہ بھی کرکے دکھانے کے لےے زندہ ہوں
موت سے آنکھ ملانے کے لےے زندہ ہوں
***


غزليات

مزاجِ شب کو بدلنے کا تجربہ ہے مجھے
میں اک چراغ ہوں جلنے کا تجربہ ہے مجھے

تمام عمر ہے گزری شکستہ پائی میں
قدم قدم پہ سنبھلنے کا تجربہ ہے مجھے

میں جانتا ہوں وہ وعدہ نہیں نبھائے گا
تسلیوں سے بہلنے کا تجربہ ہے مجھے

ہنر وہ چہرہ بدلنے کا جانتا ہے اگر
لباسِ زیست بدلنے کا تجربہ ہے مجھے

سدا بہار ہیں یہ پھول میرے زخموں کے
خزاں میں پھولنے پھلنے کا تجربہ ہے مجھے

سوادِ دشت تمنا میں آج ہوں تنہا
کسی کے ساتھ بھی چلنے کا تجربہ ہے مجھے

میں کیا کروں کہ خوشی راس بھی نہیں آتی
حصارِ غم سے نکلنے کا تجربہ ہے مجھے

گلہ نہیں ہے مجھے شعلہ بار سورج سے
خود اپنی آگ میں جلنے کا تجربہ ہے مجھے

وہ اجنبی نہیں اعجاز مجھ سے ہے واقف
ہر ایک رنگ میں ڈھلنے کا تجربہ ہے مجھے

اعجاز رحمانی
0300-2405865

انھوں نے وعدہ کیا جس کا بار بار ابھی
خزاں کی رت میں ہے وہ موسم بہار ابھی

تمھارے سر پہ ہوس کا ابھی ہے بھوت سوار
کہاں ہوئی ہے حقیقت یہ آشکار ابھی

دیا ہوا تھا انہی کا انہی کو لوٹایا
برے بھلے کا ملا تھا جو اختیار ابھی

وہی جو چشم تصور نے ہم کو بخشا ہے
وہی تو دل پہ ہے چھایا ہوا خمار ابھی

ہے اب یہ عمر دو روزہ تمام ہونے کو
تمھاری دید کا دل کو ہے انتظار ابھی

نظر میں جلوے ہی جلوے ہیں روز و شب جاوید
جنوں سے دامنِ دل ہے یہ تار تار ابھی

مسعود جاوید ہاشمی
حیدرآباد (تلنگانہ)


عرشِ بریں پہ اس کی جھلک دیکھ لی گئی
”اک دل جلا تو دور تلک روشنی گئی“

فطرت سے میری جھوٹ، ریا، خود سری گئی
روشن ہوا ضمیر تو ہر تیرگی گئی

میٹھی زباں سے بات جب اردو میں کی گئی
دل سے غمِ حبیب گیا شاعری گئی

فکر و نظر کا دیپ بجھا روشنی گئی
دل سے غمِ حبیب گیا شاعری گئی

امن و اماں کے طمغے ہوئے اس کے نام جب
دہشت کی کارروائی مرے نام کی گئی

کڑوے مزاج والے جو کہنے لگے غزل
شعروں سے وہ مٹھاس گئی چاشنی گئی

رونا جو چھوٹا نور بھی چہرے سے ہٹ گیا
شبنم گئی تو پھول سے سب تازگی گئی

دن بھر کی دھوپ سہہ کے مکینوں کے واسطے
کھڑکی مرے مکاں کی تمازت بھی پی گئی

یاروں کے مشورں سے عدو کے مکان میں
طاہر تمھارے قتل کی سازش رچی گئی

طاہر گلشن آبادی
(حیدرآباد)

جو کاروبار تھا، نقصان سے بچا ہی نہیں
ہمارا نفع کے کاموں میں دِل لگا ہی نہیں

اُڑان اُونچی بھلا اُن کی دسترس میں کہاں
زمیں سے جن کو کبھی حوصلہ ملا ہی نہیں

نہ جانے کیسے دُعائیں مری قبول ہوئیں
دُعا کے نام پہ لب پر کوئی دُعا ہی نہیں

عزیز سے ہے زمانے کو اب شکایت کیوں
عزیز کو تو زمانے سے کچھ گلہ ہی نہیں

عزیز بلگامی
9900222551


گمراہی کی دلدل میں سر ڈوب گئے تھے
ہم بھی کیا کرتے رہبر ڈوب گئے تھے

ہم نے اس دریا میں کشتی ڈال رکھی تھی
جس میں شاہِ وقت کے لشکر ڈوب گئے تھے

اپنا شوق تو موجِ رواں سے ٹکرانا تھا
لوگ تو چٹانوں پہ رہ کر ڈوب گئے تھے

بچنے کی کوشش تو سب نے کی تھی لیکن
بچنے کی کوشش میں اکثر ڈوب گئے تھے

ریاض حنفی
حضرت نگر، نور پور ، بجنور (یوپی)


عکس یہ آئینے سے کہتا ہے کہ میں ہوں
خود آئینہ جو ہے وہ سمجھتا ہے کہ میں ہوں

میں ہوں کہ میری آنکھوں کا دھوکا ہے کہ میں ہوں
ہے ایک حقیقت کہ فسانا ہے کہ میں ہوں

پہچان لےے پھرتا ہے آپ اپنی ہر اک شخص
ہر شخص کی پیشانی پہ لکھا ہے کہ میں ہوں

کوئی نہیں دراصل یہاں کوئی نہیں ہے
ہر آدمی پھر بھی یہ سمجھتاہے کہ میں ہوں

ہر شخص سے اپنائیت اس درجہ ہے مجھ کو
ہر شخص کو دیکھوں تو یہ لگتا ہے کہ میں ہوں

اک آگ سی مجھ میں ہے جو بجھتی ہی نہیں ہے
اک تپتا سلگتا ہوا صحرا ہے کہ میں ہوں

خود مجھ کو میری تھاہ کا اندازہ نہیں ہے
دریا ہے، سمندر کوئی گہرا ہے کہ میں ہوں

دوزخ کی طرح آگ چھڑکتا ہوا ماحول
جنت کا کھلا ایک دریچہ ہے کہ میں ہوں

اک دھند سی ہے کچھ نظر آتا نہیں پھر بھی
کچھ کچھ تو کہیں سے نظر آتا ہے کہ میں ہوں

کیا واقعتاً میں کوئی شاعر ہوں اے راہی
محسوس تو شاید یہی ہوتا ہے کہ میں ہوں

محبوب راہی
بارسی ٹاکلی، اکولہ (مہاراشٹر)


یورپ کے ننگے پن سے کیا خوف و خطر مجھے؟
ساتر لباس و شرم و حیا ہیں سِپَر مجھے

قدرت کے ضابطوں نے کیا ہے نڈر مجھے
”یہ شام دے رہی ہے نوید سحر مجھے“

ہوں فخر کائنات بنایا بشر مجھے
بخشا ہے بولنے کا خدا نے ہنر مجھے

جنت کی نعمتوں کی ملی جب خبر مجھے
دنیا کی ہر متاع لگی ہیچ تر مجھے

آسودہ و عزیز لگے کیسے گھر مجھے؟
در پیش ہے بہت ہی ضروری سفر مجھے

کیا کر گئی نہال تری رہ گزر مجھے
پاو

¿ں کے آبلے لگیں لعل و گہر مجھے


نرگس خدا سے بولی کہ کر بے بصر مجھے
اکیسویں صدی کا نہ دے دیدہ ور مجھے

اتنا حسین و نیک ملا ہمسفر مجھے
حور و ملک سے بڑھ کر لگا معتبر مجھے

غازی ہے تیرگی سے عناد اس قدر مجھے
کہتا ہے آفتاب بھی نور نظر مجھے

 محمد اسلم غازی
986910329, maghazi.jih@gmail.com



وہی فاصلہ ہے کہ جو تھا
پروفیسر صغیرا فراہیم
پروفیسر ڈپارٹمنٹ آف اردو ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ۔ علی گڑھ (یوپی)

          اشرف جب بھی رسول آباد کی حویلی کا ذکر کرتا ایمن ہمہ تن گوش ہوجاتی اوراشرف کی آنکھوں میں اِس طرح جھانکنے لگتی جیسے حویلی کے دُھندلے نقش و نگار اُس کے اندر چھُپے ہیں جنھیں وہ کھوجنے کی کوشش کر رہی ہو۔ کھوجنے کی اس ادا سے اشرف لطف اندوز ہوتا اوربتاتا کہ کچی پکّی اینٹوں سے بنی دیواریں جگہ جگہ سے گرنے لگی ہیں۔جگہ جگہ پر شگاف پڑگئے ہیں۔ اس درمیان وہ اُس کے چہرے کے تغیّرات کو دیکھ کر وہ بوکھلاجاتا مگر ایمن کسی نہ کسی وسیلے سے اُسے پھر کچھ کہنے پر مجبورکرتی اور اشرف قصّہ گو کے انداز میں کہتا ! جب سے قاضی نثار حسین کی اچانک موت ہوئی ، خان بہادر قاضی ستّار حسین کی حویلی پر سوگواری کی تاریکی سیاہ تر ہو گئی ہے اور اب تو اُس کے مکین کسمپرسی کی حالت سے دو چار ہیں۔
          ” ایسا کیوں ہوا ؟ یہ ناگہانی کیونکر آئی ؟“
          ”روایت مشہور ہے کہ تباہی قاضی نثار کی اپنی لائی ہوئی تھی جنھوں نے ایک کم ذات نو مسلم عورت سے شادی کرکے قاضی خاندان کے وقار کو پامال کیا اور اس کے نام و ناموس کو چکنا چور کر دیا۔“اشرف نے اظہارِ افسوس کیا۔
          ایمن کی فکر مندی اور اس کے پژمردہ چہرہ کو دیکھ کر اشرف کبھی کبھی سوچتا شاید ایمن مجھے چاہتی ہے ؟ یا یہ کہ رسول آباد کے قاضیوں کی اُس شکستہ حویلی کو جووقت کے ہاتھوں زمین دوز ہونے پر ، افسردہ ہوتی ہے ۔یہ ایک سوالیہ نشان تھا جس کا وہ جواب جاننا چاہتاتھا ؟ اُس نے دماغ پر بہت زور ڈالا مگر ذہن میں کوئی تصویر نہیں اُبھرسکی پھر جھنجھلاہٹ، بیزاری میں تبدیل ہونے لگتی تو وہ ذہن کو جھٹک دیتا ۔ ایمن اکثر کہتی کہ مجھے تم سے محبت ہے تو تمہارے شہر سے کیوں نہ ہو ؟اس وقت خیال و خواب کی دنیا میں پہنچ جاتا اور بغیر پروں کے پرندوں کی طرح آسمان پر اڑنے لگتا۔اب رسول آباد قصبہ سے شہر میں تبدیل ہو گیا ہے ۔ادھ کچّے مکانوںکی جگہ پکے مکانات اور چمچماتی عمارتوں نے لے لی ہے ۔ بجلی اور ٹیلیفون کے کھمبے قطار در قطار سینہ تانے کھڑے ہیںلیکن حویلی سے ایک عجیب بے بسی اور ویرانی عیاں ہے قصبہ نے جتنی ترقی کی حویلی نے اُتنی ہی تنزلی ۔
          ایمن اور اشرف ایم۔بی۔بی۔ایس۔ کے آخری سال کے طالب علم تھے۔ ایمن خوبصورت ہونے کے ساتھ شرمیلی اور کم گو تھی۔ اشرف کی قربت کی وجہ شاید رسول آباد تھا، جہاں کا وہ رہنے والا تھا۔ رسول آباد کے تعلق سے اُس کو صرف اتنا یاد تھا کہ بچپن میں وہ اپنے ابّو کی اُنگلی پکڑ کر مدّو کی دوکان سے مٹھائی لینے جاتی تھی یا پھر بیٹھک میں ابّو کی کرسی کے ہتّے کو پکڑے، تو تلی زبان میں کلمہ سنایا کرتی تھی۔ اُس کے علاوہ تمام حالات ماضی کے پردے میں پوشیدہ تھے۔ پانچ سال کی عمر کوئی ایسی عمربھی نہیں ہوتی جس میں بچہ تمام حالات کو بخوبی یاد رکھ سکے۔ ہاں ایک منظر ایمن کو اور بھی یاد تھا جب اُس کے ابّو ہمیشہ کے لیے اپنے اور بیگانوں سے روٹھ کر دُور کہیں دُور جارہے تھے اور وہ رو رو کر انہیں منارہی تھی۔ مت جا

¶ ! ابّورُک جا

¶، نہ جا

¶۔ ایمن کی فریاد پر روح افلاک کانپ کانپ اُٹھی مگر لوگوں نے کچھ نہ سُنااور نہ ہی ابُّو کے قدموں کو روک سکی ۔

          قسمت بھی کیا چیز ہے ؟ شاید مجبوری اور معذوری کا دوسرا نام ہے جس کا ایک سرا مشیتِ ایزدی سے ملتاہے اور دُوسرا سرا انسان کی نامُرادی اور ناکامی سے۔ یہ دونوں سِرے دراصل انسانوں کو زندگی گذارنے کا ایک نیا حوصلہ بخشتے ہیں۔ اگر یہ فریب پیہم نہ ہوتا تو یقیناًآدمی کا دم نکل جاتا۔ایمن کو کچھ بھی یاد نہیں۔ قصبہ، حویلی، مکین اور نہ ہی وہاں کی سوندھی سوندھی مٹی۔ ایمن بچپن میں ہی وہاں سے سارے ناطے توڑ کر اپنی ماں کے ساتھ چلی آئی تھی جب تمام رشتہ داروں نے اُس کی ماں کو گدھ کی طرح نوچنا شروع کردیاتھا پھر بھی لاشعوری طور پر رسول آباد سے اُس کا رشتہ ابھی باقی تھا کہ وہاں کی ایک ایک چیز اور ایک ایک فرد کے متعلق نہ چاہنے کے باوجود سوچتی رہتی اور پھر اُن تمام چیزوں کو یاد رکھنے کی کوشش کرتی ۔
          ایمن نے ابھی تک اشرف کو اپنی ماں سے متعارف نہیں کرایاتھا۔ وہ ایک عجیب کشمکش میں مبتلاتھی۔ ہر لمحہ، ہر پل احساس کا بدن چھلنی ہو رہا تھا۔ اُس کی بے چینی اب ماں سے پوشیدہ نہیں رہی تھی۔ وہ اکثر پوچھ بیٹھتی ! آج کل تجھے کیا ہوگیا ہے ؟ ہر وقت تو کیا سوچتی رہتی ہے ؟ مجھے بتا ! ماں کی محبت بھری باتیں ایمن کو اور بھی تڑپادیتیں۔ آخر ایک دن ماں نے ایمن کو حکم دیا۔ بیٹی ! دوپہر میں اشرف کو ساتھ لیتی آنا۔ وہ ہم لوگوں کے ساتھ کھانا کھائے گا۔ میں نے بہت تعریف سُنی ہے اُس کی ! اشرف نے آتے ہی ماں سے شکوہ کیا کہ وہ عرصہ سے آپ سے ملنے کا خواہش مند تھا مگر ایمن نے کبھی موقع ہی نہیں دیا۔اب وہ برابر قدم بوسی کے لیے حاضر ہوتااور ڈھیر ساری باتیں کرتا۔ ایک دن اُس نے اپنے والدین کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی تو ایمن کی ماں کو پیروں تلے زمین کھسکتی محسوس ہوئی ۔اشرف کب واپس گیا اُسے علم نہ ہوسکا۔ اُس کا ذہن چکرارہاتھا۔ دل و دماغ میں ایک عجیب ہلچل سی مچی ہوئی تھی۔ دل کا زخم جو وقت نے بھردیاتھا۔ اچانک اس کے ٹانکے کُھل گئے ۔ قاضی نثار حسین کا با رعب تمتماتا ہوا چہرہ حسب و نسب کے تفاخر سے دمک رہاتھا۔ انھوں نے خاندان والوں کے سمجھانے بجھانے کے باوجود سید علی کی اکلوتی بیٹی کو حلقہ

¿ زوجیت میں لینے سے نہ صرف انکار کردیا بلکہ راتوں رات نو مسلم زینت سے شادی کر لی تھی۔ حویلی میں کہرام مچ گیا۔ بندوقیں تن گئیں ۔ بڑی مشکلوں سے حالات معمول پر آئے تھے۔ سید علی نے اپنے بھتیجے سے اپنی بیٹی کی شادی تو کردی مگراِس حادثے کو وہ جیتے جی بُھلا نہ سکے تھے۔ اشرف اُسی اعلیٰ خاندان کا چشم و چراغ تھا جس نے زینت کی زندگی میں تاریکی کا زہر گھول دیا تھا۔ قصہ کا تقریباً ہر فرد جانتاتھا کہ قاضی نثار حسین کی موت میں سید علی کا ہاتھ ہے چونکہ حویلی کے لوگ ہی اس تفتیش سے گُریز کر رہے تھے تو غیروں کو مداخلت کی جرا

¿ت کیوں کر ہوتی؟ حویلی والوں کو تو محض اِس بات کی عجلت تھی کہ زینت اپنی بیٹی کو لے کر جلد سے جلد دفع ہوجائے ۔ زینت نے بھی اس میں عافیت سمجھی اور ایمن کو لے کر علی گڑھ آگئی کیونکہ یہی اُس کے لیے آخری پناہ گاہ اور گوشہ

¿ عافیت تھا۔

          زینت کی تربیت اور ایمن کی ذہانت رنگ لائی۔ ایم۔ بی۔ بی۔ ایس۔ میں کامیابی حاصل کرکے اب وہ House Jobکر رہی تھی ۔ جلد ہی خواب حقیقت میں تبدیل ہونے والے تھے۔ کچھ دنوں بعد اُسے ڈاکٹری کی سند کے ساتھ پھولوں کی سیج بھی میسّر ہونے والی تھی،جس کی تمنّا اشرف کو دیکھنے کے بعد اُس میں بیدار ہوگئی تھی۔ اُس نے اشرف کو بڑے ہی نرم لہجے میں حالات کی سنگینی سے باخبر کیا۔ ماضی کی کوتاہیوں کی نشان دہی کی۔ اشرف تین دن کی چھٹّی لے کر گھر چلاگیا حالانکہ یہ چُھٹیاں اُسے بڑی دقتوں سے ملی تھیں ۔ ٹی۔بی۔ کا ایک مریض دین محمد جس کی حالت بہت نازک تھی، اشرف اور ایمن کی نگرانی میں تھا۔ اب اِس مریض کی پوری دیکھ ریکھ ایمن کے ہاتھ میں تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اشرف گھر ہو آئے ۔ اشرف خلافِ توقع بہت تاخیر سے آیا اور بغیر کسی تمہید کے اپنا حتمی فیصلہ سنادیا۔ ایمن کا تعمیر کردہ کانچ کا گھر پل بھر میں ریزہ ریزہ ہوگیا ۔ اُسے لگا کہ جیسے کسی نے اس کا دل مٹھی میں لے کر مسَل ڈالا ہو۔ اُس رات وہ پھوٹ پھوٹ کرروئی۔ زینت نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ بیٹی ! زندگی کی صعوبتوں اور اُلجھنوں میں رہ کر جینا ہوتا ہے۔ مرمر کر جینے کا نام ہی زندگی ہے۔ ماں کی عظیم قربانیوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے اُس نے خود کو سنبھال لیااور زندگی سے سمجھوتہ کر لیا۔
          میڈیکل کالج کے گول گنبدوں کے نیچے اچانک اُس کے قدم رک گئے ۔ اُسی جگہ اس نے اشرف کو پہلی بار دیکھا تھا جب میڈیکل کے سینئر طالب علموں کے سامنے جونیر طالب علم، جن کے داخلوں کو مکمل ہوئے ایک ہفتہ بھی نہیں گذرا تھا، سر جھکائے م

¶دب کھڑے ہوئے تھے اور جب ایک سینئر انٹروڈکشن لیتے ہوئے اشرف سے کرخت لہجے میں پوچھ رہا تھا”کس جنگل سے آئے ہو“ تو اُس نے ہکلاتے ہوئے کہا تھا ’رسول آبادسے‘۔ رسول آباد کا نام سن کر ایمن کا جھکا ہوا سر نہ صرف اٹھ گیاتھا بلکہ اُس نے ایک ہی نظر میں اشرف کا پورا جائزہ لے لیاتھا اور پھر دن بدن نگاہ سے دل تک کے فاصلے کم ہوتے گئے۔ لیکن آج رُکے رُکے سے قدم بتارہے تھے کہ آج بھی وہی فاصلہ ہے کہ جو تھا۔ ایمن نے خیالوں کے تانوں بانوں کو جھٹکتے ہوئے کوریڈور کو پارکیا تو ڈاکٹر رستوگی کے الفاظ اُس کے کان میں گونجے :

          ”ڈاکٹر تم نے دین محمد کیس میں لاپرواہی برتی ہے۔“
          ”جی سر“ سر جھکائے اشرف کھڑا تھا۔
          ”تم جانتے تھے اُس کے مہلک مرض میں افاقہ کے آثار پیدا ہو چلے تھےاگر تم توجہ دیتے تو وہ بچ سکتا تھا۔“ ڈاکٹر رستوگی نے کہا۔
          ”جی سر، جی سرکی آوازیں وارڈ میں پھیلے موت کے سنّاٹے میں گونج رہی تھیںایمن سوچ رہی تھیگھمنڈ کا سر جُھکا ہے اور رسول آباد کی پُر شکوہ حویلی ٹوٹ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو رہی ہے۔    
***

قبــــــــــــــر
 سيد عبدالباسط انور
حيدرآباد
ميں ايک قبر ہوں ۔ بہت ہی پرانی قبر سےنکڑوں سال پرانی مےں نے کبھی ےہ نہ جانا کہ مےں ےہاں کب پےدا ہوئی ۔ لےکن مجھے ےاد ہے کہ جب پہلی صبح مےں آئی تو اس کھلے اور پھےلے ہوئے مےدان مےں ‘ مےں تنہا تھی ۔ بالکل تنہا، کوئی ساتھی نہ ہمساےہ کسی کی دےوار مجھ سے لگی تھی نہ کسی کا ساےہ مچھ پر پڑتا تھا۔مےں بالکل اکےلی اپنی گود مےں سوئی ہوئی اےک بے گناہ مظلوم بےٹی کی حفاظت اور اس کا دل بہلانے کے سامان کرتی ۔ ےہ پہلی شہےد بےٹی ہے ۔ ےہی بےٹی مےری جان،مےری روح، ےہی مےرا سب کچھ ہے ۔ اس کا معصوم چہرہ دےکھ کر مےرا دل دکھ سے بھر آتا کہ کسی ظالم نے اس پر اس طرح وار کےا تھا کہ شرم و حےاءکے نازک آبگےنے کرچےاں بن کر اےک عالم مےں بکھر گئے ....! ظلم تو ظلم ہے ....ظالم اپنے ہی جال مےں پھنس جاتا ہے ....لےکن ےہ لڑکی تارےخ کی ضخےم کتاب کا سنہرا رُو پہلا ورق بن گئی ۔ ےوں آرام کر رہی ہے ، جےسے ملکہ عالم....!
جس دن سے وہ مےری گود مےں آئی ہے ہر صبح جب سورج کی کرنےں اپنی نےند سے جاگ کر روشنےوں کا شہر سجاتی ہےں اور ہرشام جب ےہ کرنےں سمٹ کر شب کی ہمنوابن جاتی ہےں تو مجھے حکم ہو تا ہے کہ اس ملکہ کو اپنی کھڑ کی سے جنت کا نظارہ کراﺅں ....اور مےں اس کے لےے بہت کشادہ بھی کر دی گئی ....!
وقت کے گزرتے گزرتے ےوں ہو تا گےا کہ مےرے اطراف اےک اےک کر کے اور بھی قبرےں سراٹھانے لگےں مےں خوش ہوئی کہ مےری تنہائی ختم ہوتی جارہی ہے ۔ لےکن کبھی افسردگی کی گھپاﺅں مےں بےٹھ کر سوچتی ہوں کہ کتنے ہی مرد ‘ عورتےں ‘ زندگی کی جفاﺅں کی تاب نہ لا کر ےہاں چلے آتے ہےں کہ جہاں زندگی کا راستہ ثوابوں اور گناہوں کی فصیلوں کے بےچ سے گزر کر ےکلخت ختم ہی ہو جائے تو پھر کےاکرےں آخر....!
گھروں کے ماتم ‘ بےٹےوں کی آہےں ‘ بہن بھائےوں کا غم‘ سہاگ کے بانکپن کا ٹوٹا ہوا تاج....راستہ سے گزرنے والوں کے اجنبی کاندھے ۔ رشتہ دار‘ دوست ‘ پےارے ‘ محبت کرنے والوں کی دھےمی دھےمی چاہتوں کی آنکھوں سے ٹپکنے والے درد کے آنسو ۔غمزدہ سرگوشےاں ‘ دعائےں دل کی گہرائےوں سے نکلنے والی آہٹوں کے لرزتے ہاتھ تھام کر سرد آنسو سے لبرےز شب گزےدہ پگڈنڈےوں سے گزر کر خموشےوں کے سمندروں مےں گم ہو جاتی ہےں تو سوائے خدائے بزرگ و برتر کے کوئی اور ان کو سننے والا نہےں ....!!
جنتے لوگ اتنی باتےں ۔مرحوم بہت نےک سےرت تھے ۔ بے وقت کی موت ‘ ابھی عمر ہی کےا تھی ۔ ساری زندگی انسانوں کی خدمت مےں صرف کر دی ....اور ....اور نہ جانے کتنی باتےں، شکوے، شکاےتےں ، حکاےتےں ....!! مےں سوچتی ....ےہ زندگی کےا ہے؟ کےا لوگ بس اسی لےے جےتے ہےں کہ اےک دن سب چھوڑ کچھ ےہاں آجا ئےں کہ کتنے ہی اہم منصوبے ‘ ارمان آرزوں کے قافلے تھک ہارکر اسی چوکھٹ پر خاموش ہو جاتے ہےں ۔ اور اس مٹی کا پےوند بن جاتے ہےں ۔ مےرے اطراف سے گزرنے والے اکثر مےرے بارے مےں کہتے ہےں کہ اس پرانی قبر سے مشک و عنبر کی خوشبو آتی ہے ےہ سن کر مےں خوشی سے اندر ہی اندرجھوم اٹھتی ہوں مجھے ےقےن ہونے لگتا ہے کہ ےہ مہک اسی معصوم شہےد بےٹی کے پاک جسم سے آتی ہے جو مےری مےراث ہے ۔ مجھے نہےں معلوم اور دوسری قبروں کا کےا حال ہے، مےں اپنی قسمت پر شکر گزار ہوں کہ مےری گود مےں پھولوں کی گٹھری پڑی ہے ۔
کبھی مےرا دل چاہتا ہے کہ باہر سرنکال کر دےکھوں کہ اس کھلے مےدان کا کےا حال ہوا ہے ۔ اےک دن تو مےں سخت حےران ہو گئی کہ مےدان تو سارا چھوٹی بڑی قبروں سے پُر ہو گےا ہے ۔ ےہ احساس ہمت بندھاتا رہا کہ اب مےں تنہا نہےں رہی لےکن ےہ سوچ کر کہ ےہاں کی آبادےاں کتنی بستےوں کو وےران کررہی ہےں، مےں غمزدہ ہو جاتی ....!
اےک دور مجھے وہ بھی ےاد ہے جب لوگ رات کے آخری پہر ےہاں آجاتے رات کے دبےز تہ بہ تہ سناٹے کے درمےان خاموش کھڑے ہوجاتے تو ان کی آنکھوں سے آنسوﺅں کی بارش ےوں برسنے لگتی کہ گمان ہو تا کہ ےہ تو اب تھمنے والی نہےں ۔ ان کی ہچکےوں سے جےسے اندھےرے ماحول مےں بجلےاں چمک جاتےں ۔ ےہ آنسو‘ ےہ ہچکےاں کس کے لےے.... کچھ سمجھ مےں نہےں آتا ....لےکن جانے کےوں اب اےسے لوگ بہت کم ہو گئے شاےد لوگوں کی نےند ےں بہت گہری ہو گئےں ‘ خواب دےکھنے کے عادی ہو تے جارہے ہےں شاےد مصروفےت نے فاصلوں کو بڑھا دےا ہے ....
مےں تو اےک پرانی قبرٹھہری مجھے ےہ سب کچھ نہےں سوچنا چاہےے ےہ سوچ کر مےں اپنی خاموشی کی چادر اوڑھ لےتی ہوں....!
لےکن آج اےک عجےب واقعہ پےش آگےا .... مےری گود مےں لےٹی ہوئی مےری بےٹی نے بہت دنوں بعد مجھے آوازدی ‘ اس کی آواز مےں بڑا درد اور سوزتھا ۔
اس نے کہا دےکھو کہےں اےسا تو نہےں بےٹےوں پر ظلم و ستم کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ آج تک جاری ہے ۔ ےہ دےکھو مےرے ارد گرد میری کتنی بہنےں ‘ سہےلےاں ظلم کی شدت سے تڑپ رہی ہےں ۔کوئی ہے جو اس سلسلہ کو ختم کر ے گا ۔ کبھی تو ےہ سلسلہ ختم ہو ....مےں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ....بےٹی تم گہری نےند مےں کوئی خواب تو نہےں دےکھ رہی ہو ....اس نے اپنی بات جاری رکھی۔ دےکھو ابھی جو نوجوان لڑکی مےرے پہلو مےں سوئی ہے اس کے سرخ جوڑے کا رنگ بھی مدھم نہےں ہوا ہے وہ بھی مےری طرح زخمی ہے۔ اس کی آواز تےز سے تےز ترہو تی جارہی تھی مےں اس کو دلاسہ دےتی رہی....اس نے تقرےباً چےخ کر کہا ۔کب تک چلے گا ےہ اندھوں کا قانون کب تک ےہ نا پاک رسميں انجام دی جاتی رہیں گی ‘ کب تک طاقتور ہاتھ فالج زدہ بوڑھوں کی مانند کپکپاتے رہیں گے ‘ کب تک ‘ ےہ مُجرم کالے ناگ معصوم جسموں کو ڈستے رہیں گے ....ےہ ظلم اور بربرےت کا شرمناک ناچ معصوم روحوں کے ساتھ کب تک جاری رہے گا ‘ بندھے ہوئے ہاتھ کب ان زہر کے پےالوں کو شکستگی کا درس دیں گے ....اس سلسلہ کو کون ختم کرے گا۔ کوئی تو ہوگا ،ضرور ہو گا ۔!
اس کی کربناک چےخےں رات کے سناٹے مےں گونجتی رہےں....!
اور مےرے پاس ان کا کوئی جواب نہےں تھا!
مےں تو اےک بے جان سی بہت پرانی قبر ٹھہری....!!

دُکھوں کا مداوا

حسن نظامی کیراپی
جمشید پور(جھارکھنڈ)

          اپنے ملک کا اہم ترین سائنسداں ایک خفیہ میٹنگ میں ملک کی اہم ترین شخصیات کے سامنے سینہ تان کر فخریہ اعلان کررہا تھا ---” آخر کار برسوں کی محنت، جدوجہد، مغز ماری کے بعد وہ نسخہ

¿ نایاب بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے، جس کے طُفیل میں اب انسانوں کو روٹی، کپڑا، مکان کی قطعی ضرورت نہیں ہوگی۔ نہ وہ روئے زمین پر کسی بھی پریشانی سے دوچار ہوگا۔ لڑائی جھگڑے، روزی روٹی کا چکر، بے روزگاری، مہنگائی کا رونا.... یعنی وہ سارے جھمیلوں سے آزاد ہوجائے گا۔ اور.... اور.... پھر ساری دنیا پر ہماری حکومت ہوگی، صرف ہماری ....

          تالیوں کی گڑگڑاہٹ اور نعروں کی گونج سے فضا کانپنے لگی۔ حاضرین کے چہروں سے خوشیوں کے فوّارے سے چھوٹنے لگے تھے۔ اس درمیان ملک کے سربراہ نے اپنی بے پناہ خوشیوں کا اظہار کرتے ہوئے اُسے بہت بہت مبارکباد دی۔ پھر اپنے بے پناہ جوش و خروش کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا۔
          آپ کی اُس گراں قدر ایجاد کا نام کیا ہے۔ مسٹر ایچ پی ذرا تفصیلات سے حاضرین کو آگاہ کرنے کی زحمت گوارا کیجےے۔
          سائنس داں نے فوراً جواب دینے کے بجائے حاضرین کے چہروں پر بھرپور نظر ڈالی ، جن کے چہرے خوشی و شادمانی سے روشن تھے، پھر اُس کی رعب دار مگر رعونت سے پر آواز گونجی۔
          معزز حاضرین!
          ہماری موجودہ ایجاد صرف ایک گیس ہے گیس، جسے صرف دو ہزار میٹر کی بلندی سے ایک مخصوص راکٹ کے ذریعے چاروں سمت اسپرے کرنے سے محض پندرہ منٹوں میں روئے زمین سے ۵ہزار مربع میل تک رہنے والے سارے انسان مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوجائیں گے، لیکن جانوروں و پرندوں پر گیس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اتنا کہہ کر اُس نے حاضرین کے چہروں پر اپنی طائرانہ نظر ڈالی۔ حاضرین کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں، لیکن وہ بڑے فخر اور رعونت سے اعلان کررہا تھا۔ اس کے بعد ساری دنیا کے مالک و مختار کل ہم ہوں گے ، صرف ہم۔ اس کا وحشیانہ قہقہہ مسلسل کافی دیر تک گونجتارہا ، جیسے وہ پاگل ہوگیا ہو....




افغان قوم
اپنی قومی روایتوں کے امیں
قوم افغاں یہ سرخ رنگ و حسیں
جتنا ان کا بلند عزم و یقیں
شاید اتنا تو آسماں کا نہیں

غیر کے آگے جھک نہیں سکتے
چل پڑے ہیں تو رُک نہیں سکتے
عمل خونچکاں سے گزرے ہیں
یعنی اپنے لہو کے دریا میں

ڈوب کر جیسے خود ہی اُبھرے ہیں
اپنی دھرتی کو لالہ رنگ کیا
دُشمنوں سے طویل جنگ کیا
مرحبا ان کا جذبہ آزادی

اس صدی کا وہ معجزہ ٹھہرا
(بے عصائی ہے ید بیضائی)
اُن کے شاہیں صفت جوانوں سے
آج قائم ہے ایشیا کا وقار

اُن مجاہد کے قافلوں کو سلام
اُن کی ہمت کو حوصلوں کو سلام

فاخر جلال پوری
جلال پور، امبیڈکر نگر(یوپی)
9918617576


ڈاکٹر سرور عثمانی مرحوم
شاعر ، ادیب و مدیر
ڈاکٹر وقار انور
نئی دہلی
ڈاکٹر سرور عثمانی کا ۶۲جون ۵۱۰۲ءمطابق ۸رمضان المبارک ۶۳۴۱ھ بروز جمعہ، دن کے ۰۳:۸بجے رانچی میں انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم ایک اچھے شاعر و ادیب اور مفاہیم نام کے ایک ادبی مجلہ کے مدیر تھے۔
          سرور عثمانی کا اصلی نام سرور جاوید تھا۔ انھوں نے اپنے چچا قیصر عثمانی جنھوں نے اپنے اصلی نام عبد الح· کے بدلے میں قلمی نام اختیار کیا تھا کی پیروی کی۔ نام میں ڈاکٹر کا لاحقہ دو جہتوں سے تھا۔ ایک یہ کہ ہومیوپیتھک ڈاکٹری کی سرٹیفکٹ رکھتے تھے اور دوسری یہ کہ فارسی میں شاہ باقر علی پیر بیگھوی کے حالات ، فن اور شاعری پر مگدھ یونیورسٹی گیا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔
          شاہ باقر علی پیر بیگھوی غالب کے ایک شاگرد تھے اور سرور عثمانی کے دادا شاہ عبد العزیز آزاد پیر بیگھوی کے استاد تھے۔ سرور عثمانی کو علم و ادب سے تعلق ورثہ میں ملا تھا۔ دادا اور چچا کی طرح ان کے والد عبد القیوم اثر بھی شعر و ادب سے وابستگی رکھتے تھے۔
          پیر بیگھہ، گیا شہر سے تقریباً بارہ کیلو میٹر کی دوری پر آباد ایک گاو ہے، جہاں پانی پت سے شاہ جلال الدین رحمة اللہ علیہ کے خاندان کے ایک بزرگ جناب شاہ ماہ روؒ آکر آباد ہوئے اور نتیجتاً اس گاوں کے علاوہ مضافات میں آباد میلوں دور تک کے گاوں کی بڑی آبادی اسلام کے سایہ عاطفت میں آگئی۔ سرور عثمانی اسی خاندان کے ایک فرد تھے۔ شاعری اس خانوادہ کے لےے نہ تو ذریعہ عزت رہی اور نہ پیشہ آبا سپہ گری پیشہ رہا۔ رشد و ہدایت، علم و ادب کی سنجیدہ خدمت اور دینی و سماجی امور میں عوامی قیادت اس کا خاصہ تھا۔ سرور عثمانی کے حصہ میں علم و ادب کی خدمت آئی۔
          شاعری سے سرور عثمانی کا شغف جوانی میں شروع ہوگیا تھا۔ گیا شہر کے ایک استاد شاعر منیر واحدی کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا۔ منیر واحدی ریلوے میں ملازم تھے، کم گو اور شاعروں سے احتراز برتنے والے شخص تھے۔ البتہ اپنے شاگردوں کی تربیت میں سخت تھے۔ اشعار کی اصلاح کے ساتھ فن کے رموز سے واقف کراتے اور جب تک انھیں اطمینان نہیں ہوجاتا کہ شاگرد کے ذوق کی تربیت بھی ہوگئی اور فن شعر اور اس کی گرامر پر دستر نہیں ہوگئی، اسے فارغ نہیں کرتے۔ سرور عثمانی کئی سال تک ان کے زیر تربیت رہے اور ایک دفعہ جب اپنی ایک غزل استاد کے سامنے بغرض اصلاح پیش کی تو استاد نے یہ کہہ کر فارغ کردیا کہ اب تمھیں اصلاح کی ضرورت نہیں ہے، محنت کرتے رہو، مشق کرتے رہو۔ اس غزل کا درج ذیل شعر مشہورہوا:
آتے جاتے موسموں کا سلسلہ باقی رہا
روز ہم ملتے رہے اور فاصلہ باقی رہا
          سرور عثمانی خدمت ادب کرتے رہے۔ گیا شہر میں ادبی انجمن بنائی اور ماہانہ مشاعرہ اپنے گھر کے باہر کے ہال میں کراتے رہے۔ جہاں شہر کے بزرگ و نوجوان شاعرجمع ہوتے اور شمع ادب جلتی اور نور بکھیرتی۔ والد محترم عبد القیوم اثر ان مشاعروں میں شریک نہیں ہوتے، البتہ گھر کے اندر سے ہی لطف اندوز ہوتے اور مشاعروں میں شریک ہونے والے اپنے احباب جو شہرو مضافات کے بزرگ شعراءتھے کی ضیافت کرتے اور اس طرح اپنے ہونہار بیٹے کی تائید کرتے۔ ان شعراءمیں عموماً منیر واحدی کے علاوہ فرحت قادری اور ناوک حمزہ پوری ہوتے۔ ایک دفعہ اسی طرح پردے کے پیچھے سے اپنے بیٹے کی غزل سن کر اپنے دوست منیر واحدی سے استفسار کیا ”غزل تم نے لکھ کر دی یا اس کی اپنی کاوش ہے۔“ استاد نے اپنے شاگرد کی تعریف کی اور بتایا کہ اس کا ذوق صاف ستھرا ہے۔
          سرور عثمانی نے ہومیوپیتھک ڈاکٹری کی سرٹیفکٹ حاصل کی اور دھنباد میں اپنے ماموں ڈاکٹر قاضی سید آصف کے ساتھ کام شروع کیا اور وہیں الگ سے اپنی پریکٹس شروع کردی۔ اسی زمانے میں یونین بینک میں ملازمت مل گئی اور معالج نے ملازمت اختیار کرلی۔ ملازمت کے دوران چند برسوں کے لےے اپنے شہر گیا میں بھی پوسٹنگ ہوئی جہاں ملازمت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹری بھی جاری رہی اور ایک بار پھر ادبی سرگرمیوں میں لگ گئے۔ پریکٹس بھی خوب چلی اور ادبی کاوشیں بھی برگ و بار لائیں۔ تاج انور کے ساتھ ایک ادبی شمارہ ” اب“ کے نام سے نکالا جو بعد میں ” مفاہیم“ کے نام سے نکلنا شروع ہوا۔ ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ہوئی۔ ملازمت کی وجہ سے گیا سے باہر جانا پڑا اوریہ دونوں سرگرمیاں سرد خانے میں چلی گئیں۔
          سرد مہری کا یہ زمانہ تقریباً پینتیس (35) سال کو محیط ہے۔ ملازمت کا سلسلہ رانچی شہر میں ختم ہوا اور وہیں مکان بناکر بس گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد دونوں دبی ہوئی چنگاریاں ایک بارپھر سلگ اٹھیں۔ شہر کے وسط میں ہومیو پیتھک کا دواخانہ کھولا اور اس فن کی تمام باریکیوں کو ملحوظ رکھ کر علاج و معالجہ میں لگ گئے اور نئے آب و تاب کے ساتھ”مفاہیم“ کے از سر نو اجراءکی کوششیں بھی شروع کردیں۔ بالآخراس پرچہ کے چار سو صفحات پر مشتمل دو ضخیم شمارے شائع کےے گئے۔ جس نے دیکھا داد دی۔ ناولٹ نمبر کے نام سے تیسرے شمارہ کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے کہ وقت قضا آگیا۔ موت سے کس کو رستگاری ہے، باری آئی بلا لئے گئے ۔

          سرور عثمانی رشتہ کے اپنے ایک ماموں شاہ منصور دیورویؒسے مرید تھے۔ خاندان میں یہ بات حیرت و محبت سے نوٹ کی گئی کہ پیر کا انتقال بھی ۸رمضان المبارک کو ہوا تھا۔
***

نقد و تبصره
پروفیسر نجات اللہ صدیقی کی کتاب ” اسلام اور فنون لطیفہ “۲۱۰۲ءمیں شائع ہوئی تھی، جس پرماہنامہ ”پیش رفت“ کے سابق مدیر ڈاکٹر عبد الباری شبنم سبحانی مرحوم نے نہایت گراں قدر تبصرہ کیا تھا۔ یہ تبصرہ ” پیش رفت“ کی پرانی فائلوں میں جس حال میں ملا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تبصرہ کہیں شائع نہیں ہوسکا تھا۔ افادہ عام کے خیال سے اسے ”پیش رفت“ میںشائع کیا جارہا ہے۔
(ادارہ)
كتاب:           اسلام اور فنون لطیفہ
مصنف:                   پروفیسر نجات اللہ صدیقی
صفحات:        ۹۰۱
قیمت:            150/- روپے
ملنے کا پتہ:    دفتر ادارہ

¿ ادب اسلامی ہند
                   ڈی-۱۲۳، دعوت نگر،
                   ابو الفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی-۵۲
مبصر:           ڈاکٹر سید عبد الباری مرحوم
          یہ ملک کے ایک ممتاز اسلام پسند صاحب قلم کے ۵نہایت فکر انگیز مضامین کامجموعہ ہے، جس میں اسلام اور فنون لطیفہ ، اسلامی ادب کا مزاج، ولیم سمرسٹ مائم کے افکار کا جائزہ، ناول کی اہمیت اور ہماری ادبی تحریک پر خاصی خرد افروز تحریریں ہیں۔ قرآن و حدیث کے حوالوں سے مصنف نے فنون لطیفہ کی حدود و قیود پر گفتگو کی ہے، مغرب کے ایک ممتاز نقاد و ناول نگار کی فکر کے مثبت اور تعمیر ی پہلوو

¿ں پر روشنی ڈالی ہے۔ نجات اللہ صدیقی کی یہ تحریریں نصف صدی قبل کی ہیں جب اسلامی ادب اور فنون لطیفہ کو اسلامی اصولوں کی روشنی میں دیکھنا ایک بہت بڑی بدعت کچھ لوگ تصورکر رہے تھے۔ مصنف نے عالمی مفکرین اور اسلامی فکر کے سرچشموں کی مدد سے بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے۔ جمالیاتی قدر کے نظام اقدار میں ایک مقام پر گفتگو کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ” اقدار کے مجموعی نظام میں بنیادی حیثیت حق یا صداقت کوحاصل ہے۔ حقیقت کو نظر انداز کرکے خیر کے حصول کی کوشش یا حسن کی طلب فطرت سے بغاوت ہے اور انسانی زندگی کے توازن کو مجروح کرتی ہے۔ حقیقت حسن کاری یا خیر طلبی میں مانع نہیں اس کو صحیح رخ پر ڈالتی ہے۔ خیر کے حصول میں حقیقت سے رو گردانی بالآخر مقصد میں ناکامی کا سبب ہوتی ہے۔ اگرچہ حقیقت، خیر اور حسن مستقل بالذات قدریں ہیں لیکن ان میں باہمی ربط پایا جاتا ہے۔ان قدروں کے درمیان فطری توازن اسی وقت برقرار رہتا ہے جب حقیقت کو اولیت حاصل ہواور خیر کے تصورات حقیقت واقعہ سے ہم آہنگ ہوں“ موصوف کا خیال ہے کہ قدر جمال کو حقیقت اور خیر کے تصورات کے تابع رکھنا ضروری ہے ورنہ وہ غلط رخ پر جا پڑے گی۔
          نجات صاحب نے جمالیاتی قدر اور اخلاقی اقدار پر نہایت مربوط اور ٹھوس گفتگو کی ہے جس کا مطالعہ ہر قلم کار کے لےے ضروری ہے۔ پھرانھوں نے فنون لطیفہ کو اسلامی تاریخ میں کیا مقام حاصل رہا ہے اس پر بحث کی ہے اور موسیقی، مصوری، سنگ تراشی ، رقص و ڈرامہ اور فن تعمیر میں اسلامی موقف کی وضاحت کی ہے جو کتاب کا نہایت اہم حصہ ہے۔ اسلامی ادب کے مزاج کے عنوان سے انھوں نے بڑی معلومات افزا گفتگو کی ہے جس پر ہر تعمیر پسند ادیب کی توجہ ضروری ہے تاکہ وہ ایک متوازن ادب کی تخلیق کرسکے۔ وہ لکھتے ہیں: ” اسلامی ادب کے مزاج کی شاہ کلیداسلام کے بنیادی ما بعد الطبعی نظریات اور اخلاقی قدریں ہیں ان کے علاوہ اس کی امتیازی علامت اندروں، داخل یا ضمیر کی اہمیت اور ہمہ گیری وہمہ جہتی ہے۔ ہم نے اپنے جائزے کو قصداً ادب کے مواد تک محدود رکھا ہے کیوں کہ ہماری رائے میں اسلامی تہذیب کا اولین اثر ادب کے مواد پر پڑتا ہے اور ہئیتیں خود اس مزاج کے مطابق ڈھلتی اور بنتی رہتی ہیں۔“
تحریک ادب اسلامی کے ابتدائی مراحل میں یہ مقالہ لکھا گیا اوریہ خوشی کی بات ہے کہ اس حلقہ کے ادیبوں، شاعروں اور افسانہ نگاروں نے نجات صاحب کی اس توقع کو پورا کیا۔ موصوف نے لکھا تھا : ” اسلامی ادب کی تحریک ایک ابھرتی ہوئی تحریک ہے اور ادب کے ساتھ اس کے ادیب ابھی تجرباتی دور سے گزر رہے ہیں۔ اگر مزاج واضح اور منزل متعین ہے تو ہم بجا طور پر یہ توقع کرسکتے ہیں کہ سچے اسلامی ادیبوں اور اعلیٰ اسلامی ادب کا تناسب دن بدن بڑھتا جائے گا۔“
          افسوس کہ نجات صاحب ایسی بیدار کن تحریروں کے بعد فکر اسلامی کے ایک اہم شعبہ اقتصادیات کی طرف اس قدر متوجہ ہوئے کہ پھر اسی کے ہوکر رہ گئے اور اس دنیا میں انقلاب آفریں افکار سے اسلامی اقتصادیات کے عملی پہلوو

¿ں کو پیش کرکے اس کی راہیں ہموار کیں۔ کاش وہ اسی طرح اسلامی ادب و تنقید کو مرکز توجہ بناتے تو شاید اسلام پسند ادیبوں کی راہیںآسان ہوتی رہتیں۔
          اس کتاب کاایک اہم مضمون سمرسٹ مائم کے افکار و نظریات کا جائزہ ہے ۔ نجاتب صاحب نے اس اہم انگریزی ادب کے ناول نگار کے کچھ خیالات کی تعریف کی ہے لیکن آخری عمر میں جب وہ الحاد کی منزل تک پہنچ کر مذہبی عقائد پر ضرب لگاتاہے تو نجات صاحب اس کی خامیوں اور محرومیوں کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں اور اس دور کے الحاد پسند نوجوانوں کے لےے بڑی کام کی باتیں رقم کرتے ہیں۔ چنانچہ اس مقالہ کی عصری معنویت خاصی دلکش ہے۔ آج سے پچاس سال قبل بھی اور آج بھی دانشوری کی معراج کچھ لوگوں کے نزدیک یہی ہے کہ خدا کا انکار کیا جائے اور ما بعد الطبیعی عقاید کا مذاق اڑایا جائے یا اسے موضوع گفتگو بنانے سے گریز کیا جائے۔
          غرض ادارہ

¿ ادب نے یہ نہایت معلومات افزا مجموعہ مقالات صدر ادارہ
¿ ادب کے مفصل مقدمہ کے ساتھ شایع کیا ہے جس کی اشد ضرورت تھی۔ نجات اللہ صدیقی اسلامی ادب کے اولیں مفکرین میں رہے ہیں اور موصوف نے ہر مرحلہ میں اپنی دیگر مصروفیات کے باوجود اسلامی ادب کی تحریک سے گہری دلچسپی لی ہے اور ہر طرح کا تعاون اسے پیش کیا ہے۔ خدا کرے ۰۶سال پہلے کی ان کے قلم کی جولانی پھر واپس آجائے اور وہ اسلامی ادب کو مزید شہ پارے عطاکرسکیں۔
............
نام کتاب:        بُنے ہیں خواب کچھ میںنے
شاعر:            انتظار نعیم
صفحات:        120
قیمت:            100/- روپے
ملنے کا پتا:     مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز
                    دعوت نگر،ابو الفضل انکلیو، جامعہ نگر،
                   نئی دہلی-۵۲
تبصرہ نگار:    ڈاکٹر منور حسن کمال
موبائل: 09873819521
          جناب انتظار نعیم حلقہ

¿ ادبِ اسلامی کے ان خوش قسمت لوگوں میں ہیں جنھوں نے اپنی شناخت مختلف جہتوں میں قائم کی ہے۔ انھیں جماعت اسلامی ہند کے پلیٹ فارم سے تقریر کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے اور دلتوں یا دوسری پچھڑی قوموں کے جلسوں میں اظہار خیال کرتے یا مشورہ و تجویز پیش کرتے ہوئے بھی۔ وہ کم و بیش چار دہائیوں سے دہلی میں مقیم ہیں اور اس دوران میں انھوں نے یہاں کی مختلف مذہبی، جماعتی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں شعر و سخن کا بھی ذوق عطا کیا ہے۔ ایک مدت تک وہ جماعت اسلامی ہند کے ادبی وِنگ (Wing) ادارہ
¿ ادب اسلامی ہند کے جنرل سکریٹری رہے ہیں۔اس کے ترجمان ماہنامہ ’ پیش رفت‘ کے مدیر منتظم کی حیثیت سے بھی انھوں نے لمبے عرصہ تک خدمت انجام دی ہے۔اب ادارہ ادب اسلامی ہند کے نائب صدر ہیں۔

          زیر نظر کتاب ’ بنے ہیں خواب کچھ میں نے‘ جناب انتظار نعیم کی ان نظموں کا مجموعہ ہے جو وقتی اور عصری مسائل سے متاثر ہوکر شاعری کے اصولوں، ضابطوں ، اوزان اور ردیف و قوافی سے آزاد ہوکر لکھتے رہے ہیں اور وہ سہ روزہ دعوت، ماہنامہ پیش رفت اور دوسرے رسائل و جرائد میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان چیزوںکو شاعری یا نظم تو نہیں کہا جاسکتا، اس لےے کہ شاعری اسی چیز کو کہیں گے، جس میں اس کے تمام اصول و ضوابط کا التزام کیا گیا ہو۔ تاہم چوں کہ انھیں ایک منصوبہ بند طریقے سے قلم بند کیا گیا ہے، اس لےے یہ قابلِ مبارکباد ہیں۔ البتہ یہ بات سوچنے اور غور کرنے کی ہے کہ ان کا کیا نام دیاجائے۔
          آغاز کتاب میں مشہور افسانہ نگار جناب اقبال انصاری کا مقدمہ بھی ہے، جس کا عنوان ہے ’ انتظار نعیم کی آزاد نظمی پر ایک طائرانہ نظر‘ جناب اقبال انصاری ہمارے عہد کے بڑے نامور افسانہ نگاروں میں ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہاں انھوں نے الفاظ کو برتنے میں توجہ کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ لفظ ’ آزاد نظمی‘ کی ترکیب سمجھ سے بالا تر ہے۔ اگر چہ وہ افسانہ نویسی میں کافی درک رکھتے ہیں۔ کئی افسانوی مجموعے اور ناول ان کی شناخت کے مظہر ہیں۔
          چوں کہ اقبال انصاری شاعری کے آدمی نہیں ہے، اس لےے ان سے ایسی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ شاعری یا نظم کے سلسلے میں کوئی ایسی بات کریں، جن سے نئی نسل کو کچھ سیکھنے کا موقع مل سکے گا۔ انھوں نے اپنے مضمون میں آزاد شاعری کے سلسلے میں جو باتیں لکھی ہیں، وہ اسی ذیل میں آتی ہیں۔
          ’بنے ہیں خواب کچھ میں نے‘ کی پہلی نظم کا عنوان ہے ’ التجا‘۔ اس میں آج کی خاندانی منصوبہ بندی مہم پر ایسی کاری اور مو

¿ثر ضرب لگائی گئی ہے جو قاری کو رلاتی بھی ہے اور کچھ سوچنے پر مجبور بھی کرتی ہے۔ انتظار نعیم کی پوری کتاب ان کے دعوتی مقصد اور اصلاحی مزاج کی ترجمانی کرتی ہے۔ ہر تخلیق خواہ ہم اسے نظم نہ کہہ سکیں ، لیکن اس قابل ہے کہ اسے اصلاح معاشرہ، دعوت و تبلیغ اور تحریکِ اقامت دین کے فروغ و ارتقا کے سلسلے کا ایک شاہ کار کہہ سکتے ہیں۔ کتاب کے عناوین ، بوجھ، وہ توڑتی تیر، ایکسیڈنٹ، نیا گیت محرومی کا، اندیشہ، حفاظتی دیوار ، میں اب بھی قید میں ہوں، درگا واہنی، سانحہ ٹل گیا، نامکمل اعتراف، ممبئی 7/11 ، نیا چلن، مجرم، خون کا پانی، کیوں گرے آنسو، فیصلہ ، ممبئی ایسی بھی تھی، 6دسمبر، تقاضا، پسپائی، رفیوجی، پھر ہوا ایک تماشا، سرور فتح مکہ کا تمنائی، کرپشن، سچ کہنا ہی افضل ہے، لہو لہو کشمیر، ٹریجڈی، انتباہ، جشن آرزو اور تلافی وغیرہ سے میری بھرپور تائید ہوتی ہے۔ نیا گیت محرومی کا تو ملک کے ہر طبقے کو متوجہ کرتی ہے۔
          میں جناب انتظار نعیم اور ادارہ ادب اسلامی ہند کو اس مو

¿ثر اور مفید مجموعے کی اشاعت پر تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
............
نام کتاب:        ہاں! میں دیش بھکت ہوں
مصنف:         سیفی سرونجی
سن اشاعت:     ۴۱۰۲ئ
قیمت:            150/- روپے
ناشر:             انتساب پبلی کیشنز
                   سیفی لائبریری سرونج (ایمپی)
مبصر:           دلشاد حسین اصلاحی
موبائل: 9891305609
          ہر فن پارہ قاری کو متاثر ضرور کرتا ہے۔ البتہ اثر کی نوعیت جداگانہ ہوسکتی ہے۔ سیفی سرونجی کو مشرف عالم ذوقی کے ایک ناول ” آتش رفتہ کا سراغ“ نے اس قدر متاثر کیا کہ خود انھوں نے ایک ناول ” ہاں میں دیش بھکت ہوں“ تخلیق کر ڈالا۔ سیفی سرونجی اردو دنیا کا معروف نا م ہے، وہ ایک اچھے مصنف و شاعر ہیں اور ایک ادبی رسالہ ”انتساب“ کے مدیر بھی ہیں۔ اس اثر پذیری کے باعث انھوں نے اپنی تخلیق کو ” آتش رفتہ کا سراغ“ کے مصنف کے نام منسوب کیا ہے۔
          اس ناول کا مرکزی کردار ایک مسلم نوجوان ہے جس کا تعلق سرزمین ہند سے ہے، اس کا خاندان ملک کی آزادی کے لےے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکاہے۔ چنانچہ اس کی ماں نے اس جذبہ کے تحت اپنے لخت جگر کی تربیت کی ہے کہ وہ بھی اپنے باپ دادوں کی طرح وطن کی خاطر وقت پڑنے پر اپنی جان کا نذرانہ بخوشی پیش کردے۔اس جذبے نے اسکو فوج کی نوکری کرنے پر مجبور کیا اور اس نے ملک کی خاطر جام شہادت نوش کیا۔ مگر اس کا صلہ یہ ملا کہ اس کی قربانی کو اس کے ایک دوست .... پیش شخص بلونت کے کھاتے میں ڈال دیا گیا اور اسے اعزاز و اکرام سے نوازا گیا، جس کی تاب نہ لا کر جاوید کی بیوہ صدمہ سے فوت ہوگئی اور یہ سب اس عصبیت کی بنا پر ہوا کہ جاوید ایک صحیح العقیدہ محب وطن مسلمان اور مسلم مجاہد خاندان کا چشم و چراغ تھا۔
          اس پورے ناول میں ایک طرف بڑی شد و مد سے جاوید کی حب الوطنی کی عکاسی کی گئی ہے تو دوسری طرف فسطائی ذہن کی عصبیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ہندو ومسلم تہذیب کے تناظر میں جاوید اور انل کمار جو جاوید کا جگری و مخلص دوست ہے کہ کردار کو واضح کیا گیا ہے۔ یہ دونوں ناول کے مرکزی کردار ہیں، انل اپنے دوست کے اہل خانہ کی جان پر کھیل کر حفاظت کرتا ہے، اپنے گھر لا کر عین فساجات کی حالت میں اپنے گھر والوں کو بھی اپنا جانی دشمن بنا لیتا ہے، مگر دوست کی بیوی، بچی اور ماں کی حفاظت کا حق ادا کرتا ہے۔ جب کہ اس کا چھوٹا بھائی فسادیوں کے ساتھ جاوید کا گھر جلانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، جس پر فسادیوں کا سرغنہ زعفرانی لیڈر اپنی سبھا میں جو اقبال کی ” ابلیس کی مجلس شوریٰ“ کی طرح ہے میں بڑی تحسین کرتا اور اس کو شاہ باش دیتا ہے۔
          فنی لحاظ سے ” ہاں! میں دیش بھکت ہوں“ میں آپ زبان و بیان کی چستی کا بہت زیادہ التزام نہ پائیں گے، جس کی مثالیں پیش کرنے کا یہاں موقع نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرورکہا جاسکتا ہے کہ یہ ناول فن سے زیادہ حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار ہے۔ اس نقطہ

¿ نظر سے اس ناول کا مطالعہ مفید ہوگا۔ آج جس متعصبانہ فکر کا ہم شکار ہیں اس کو اس ناول میں بڑی وسعت سے پیش کیا گیا ہے۔ وہ حضرات جو زعفرانی عصبیت کو مسلمانوں کے سلسلے میں قابل اعتنا نہیں گردانتے، اس ناول کو پڑھ کر ان کے سامنے حقیقت عیاں ہوجائے گی۔ کتاب کی جلد اور طباعت اچھی ہے، ہاں پروف کے اغلاط ہیں۔ قیمت ہمارے لحاظ اردو کے قاری کی قوت خرید سے بالا ہے، ہاں سرکاری اداروں کے پیش نظر تو ٹھیک ہے۔


جهان ادب
محبوب نگر میں طرحی نشست
          محبوب نگر (تلنگانہ) عصر حاضر میں اخلاقی گراوٹ اور بے راہ روی کے سبب لوگوں کی فکر و نظر میں منفی تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں اور معاشرے میں برائیاں پنپ رہی ہیں۔ایسے میں ضرورت ہے کہ ہم تعمیری ادب کو فروغ دیں اور معاشرے میں شعور بیدار کریں تاکہ ایک صالح معاشرہ تشکیل پائے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر شیخ سیادت علی صاحب صدر ادارہ ادب اسلامی ہند محبوب نگر نے ماہانہ طرحی و غیر طرحی مشاعرہ میں 27ماچ 2015 کو ہپنیز اسکول میں خطاب کرتے ہوئے کیا اور واضح کیا کہ ادارہ صالح ادب کے فروغ کے لےے کوشاں ہے۔ اس مشاعرہ کی صدارت محترم جناب نور آفاقی صاحب نے فرمائی۔ مہمان خصوصی جناب محمد عبدالجبار صاحب امیرجماعت جماعت اسلامی محبوب نگر، جناب مولانا نعیم کوثر رشادی تھے۔ مہمان شعراءمیں جناب فاروق ساحل، جناب قیوم یاور، جناب رفیق جگرتانڈو رکے نام شامل ہیں۔
          مقامی شعراءمیں چناب نور آفاقی، جناب حلیم بابر، صادق علی فریدی، مولانا نعیم کوثر، جناب چچا پالموری، جناب دکن حضرامی، اسماعیل قیصر، ضیا برہانی، جنا ب محبت علی منان، جناب تقی احمد تقی، جلیل رضا، جنا ب محمد ممتاز حسین نے اپنا کلام سنایا۔ مصرعہ

¿ طرح ”زندکی میں ہر قدم پر حادثہ اچھا لگا“ دیا گیا تھا۔ مشاعرہ کا آغاز جناب عبدالحمید کی تلاوت سے ہوا۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد عزیز سہیل نے انجام دےے۔ دیگر معززین میں جناب ہارون رشید ایڈوکیٹ، جناب محمد علی دانش قائد ٹی آر ایس، شیخ شجاعت علی ناظم ضلع جماعت اسلامی محبوب نگر شامل تھے۔ جناب محمداسحاق کے شکریہ پر مشاعرہ کا اختتام عمل میں آیا۔
(رپورٹ: ڈاکٹر محمد عزیز سہیل، محبوب نگر)

” حرف شیریں “ کی رونمائی اور محفل مشاعرہ
          ارریہ کا ایک فن کار کیرلہ کی سرزمین پر داد سخن دے رہا ہے اور اردو زبان و ادب کے گل بوٹے کھلا رہا ہے، یہ اہل ارریہ کے لےے فخر و اعزاز کی بات ہے۔ یہ شعری مجموعہ شاعر کی بھی ترجمانی ہے اور اہل ارریہ کی بھی۔ گویا شاعر اہل ارریہ سے سوال کررہا ہے کہ بتا یہ ” حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا“۔ ان خیالات کا اظہار جناب مشتاق احمد نوری، سابق سکریٹری بہار اردو اکیڈمی نے ۵۲اپریل۵۱۰۲ءکو ہوٹل ایورگرین ، ارریہ ، بہار میں منعقدہ ڈاکٹر ضیاءالرحمن ضیا مدنی، صدر شعبہ اردو اسلامک یونیورسٹی شانتا پورم کیرلا کے شعری مجموعہ ” حرف شیریں“ کی رسم رو نمائی کی تقریب کے دوران خطبہ صدارت میں کیا۔ پروگرام کا آغاز حافظ اکبر کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ ذیشان ارشد نے ” حرف شیریں“ سے ماخوذ بارگاہِ رساسالت میں گلہائے عقیدت پیش کےے۔ پروفیسر ظفر حبیب نے بہ حیثیت مہمان خصوصی محفل کو زینت بخشی۔ جن ادبی شخصیات نے اس پروقار تقریب میں اظہار خیال کیا ان میں شمیم انور صدر جمعیة علماءارریہ، اشعر حمیدی سکریٹری ادارہ ادب اسلامی ہند بہار شامل ہیں۔ ماسٹر محمد محسن سکریٹری کلیة الصالحات نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا۔
          رسم اجرا کے بعد پروفیسر ظفر حبیب کی صدارت میں ایک شعری نشست بھی منعقد ہوئی۔ نظامت کے فرائض ہارون رشید غافل نے انجام دےے۔ جن شعرائے کرام نے اپنا کلام پیش کیا، ان میں فرمان علی فرمان، حامد حسین حامد، مشتاق انجم، دین رضا اختر، ضیاءالرحمن ضیا، مشتاق نوری شامل ہیں۔ عفان احمد کامل کے شکریہ کے ساتھ محفل برخواست ہوئی۔

ارریہ میں ادارہ ادب اسلامی کی تشکیل
          پروفیسر ظفر حبیب اور اشعر حمیدی کی زیر نگرانی ۶۱اپریل ۵۱۰۲ءکو ایک تنظیمی نشست منعقد ہوئی جس میں ارریہ شہر میں ادارہ ادب اسلامی ہند کی یونٹ کی تشکیل عمل میں آئی۔ مندرجہ ذیل افراد کو یونٹ کا ذمہ دار بنایا گیا۔
          سید زبیر الحسن غافل (صدر)، مشتاق انجم (نائب صدر)، احسان الحق عزمی(سکریٹری)، ہارون رشید غافل (آرگنائزنگ سکریٹری) ، حامد حسین حامد (خازن)۔

ادب اطفال کے نامور قلم کارجناب وکیل نجیب ” بچوں کے ابن صفی ایوارڈ“ سے سرفراز
          کامٹی (ناگپور): اردو ادب ِ اطفال کے تیزی سے اُبھرتے ہوئے شاعر جناب سہیل عالم کی نظموں کی دوسری کتاب ” کلیاں کھلنے دو“ کی اجراءکی تقریب مو

¿رخہ ۸۲مارچ ۵۱۰۲ءکو بھوئی لائن کامٹی میں واقع پدم بھوشن ڈاکٹر محمد خلیل اللہ لائبریری اینڈ کلچرل ہال میں منعقد ہوئی۔
          اجراءکی تقریب میں جناب وکیل نجیب کی دلچسپ ناول نگاری و ادب ِ اطفال میں نمایاں اور بے مثار کارکردگی کے لےے انھیں ” بچوں کے ابن صفی“ اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔ انھیں یہ ایوارڈ معروف شاعر ڈاکٹر مدحت الاختر صدر جلسہ کے دست ِ مبارک سے پیش کیا گیا۔ جب کہ حضرت روش جعفری کے دست ِ مبارک سے ”کلیاں کھلنے دو“ کا اجراءعمل میں آیا۔ مشہور ادیب جناب رونق جمال اس پروگرام میں شرکت کے لےے دُرگ سے تشریف لائے۔ اس موقع پر جناب وکیل نجیب نے ادب ِ اظہار کے آغاز و ارتقاء کامٹی اور ناگپور میں ادب ِ اطفال کی سمت و رفتار نیز سہیل عالم کی ادب ِ اطفال میں نظمیہ شاعری پر سیر حاصل مقالہ پیش کیا۔
          نظامت کے فرائش جناب رضی رضوان حیدری اور جناب نقی جعفری نے مشترکہ طور پر انجام دےے ، جب کہ رسم شکریہ کامٹی نگر پریشد کے سابق صدر جناب الحاج شکور ناگانی نے ادا کی۔ جعفری ساہتیہ اکادمی گجری بازار کامٹی کی جانب سے منعقدہ اس تقریب میں شہر کامٹی کی بیشتر علمی، ادبی و سماجی شخصیات موجود تھیں۔ بڑی تعداد میں ادب نواز خواتین بھی اس جلسہ اجراءمیں شریک ہوئیں۔
(رپورٹ: نثار اختر انصاری، ایڈیٹر ہمہ گیز ناگپور)

ادارہ ادب اسلامی ہند جامعہ نگر کی نعتيہ نشست
          نئی دہلی ،ادارہ ادب اسلامی ہند جامعہ نگر کی نعتےہ نشست دفتر ادارہ دعوت نگر،ابوالفضل انکلےو مےں معروف شاعر جناب ابرار کرتپوری کی زیر صدارت منعقد کی گئی ۔ بطور مہمان خصوصی معروف شاعر ڈاکٹر تابش مہدی شرےک ہوئے۔شاہ اجمل فاروق ندوی نے نظامت کے فرائض انجام دےے۔جناب عطا رحمانی نے تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز کےا ۔پسندیدہ اشعار ہدےہ

¿ قارئین ہےں :
حےات کے جو کسی مسئلے مےں الجھن ہو
مےں حل معمے کا ان کے نقوش پائے سے کروں
ابرار کرتپوری
سورج کی طرح سارے زمانے مےں ہے روشن
سرکار کی رحمت کی ردا سب کے لےے ہے
تابش مہدی
مٹی جس سے ظلمت زندگی ہے وہ آفتاب پےمبری
ہے زمانہ جس کا قصےدہ خواں، وہ عرب کا در ےتےم ہے
حسنین سائر
شاہ بطحا ہو گئے دانش ترے دل مےں مکےں
اب ےہ تےرا دل نہےں سرکار کا گھر ہو گےا
دانش نورپوری
ےہ مےرے دور کے بوجہل ہےں کےوں خوں کے پےاسے
بندھا ہے کےا محمد سے وفا کا سلسلہ مےرا
ڈاکٹرخالد مبشر
نہ ہوں کےوں بدر مےں فاتح صحابہ
مرے آقا قےادت کر رہے ہےں
فرمان چودھری
سرکار کی رحمت بھی اسی طرح ہے سب پر
جس طرح سے ےہ آب و ہوا سب کے لےے ہے
تنوےر آفاقی
آمنہؓ کی گود مےں جب آگئے پےارے رسول
تب ہوا معلوم بخت آمنہؓ کچھ اور ہے
ضمیر اعظمی
ظلمت گہہ عالم مےں عجب شان سے واللہ
جو دےپ حرا مےں تھا جلا سب کے لےے ہے
شاہ اجمل فاروق ندوی
جاو

¿ نہ کسی در پہ کہےں دل کے مرےضو!
ارشاد نبوت مےں شفا سب کے لےے ہے
عطا رحمانی
خاتمِ باب نبوت، لافنا مہرِ رسالت
مہِ تکمےل شرےعت، اسوہ حلم و شرافت
خوش ترےں آپ کی امت، ورفعنالک ذکرک
منصورذکی
معےار اطاعت تو فقط اس کو کہےں گے
کردار مےں گفتار مےں رنگ ان کا بھرا ہو
کاظم بن حبےب بجنوری
بھوکے رہ کر جو غرےبوں کی مدد کرتا ہو
کاش قائد کو مےرے اےسا ادب مل جائے
محب اللہ رفیق
 نشست میں سامعین کی بھی قابل لحاظ تعداد موجود تھی، جن مےںمحمدجاوےد اقبال، جلےل اصغر، احسن فےروز آبادی، مرزا نہال بےگ، پروےز اشرفی، شکےل الرحمن،ابوالخےر، محمد احمد اللہ کليم قاسمی ، عبدالحی اورعبدالرزاق وغیرہ قابل ذکر ہےں۔
(رپورٹ: شکيل الرحمن ،میڈیا انچارج)