Thursday 30 April 2015

ماہنامہ پیش رفت مئي 2015

ماہنامہ پیش رفت مئي 2015
پیش نامہ

جمالیاتی مسرت اورتفریحی لذت
          ادب کا تعلق اصلاً جمالیاتی تجربے اور اس سے حاصل ہونے والی مسرت اور بصیرت سے ہے۔ تفریحی لذت اس سے مختلف چیز ہے۔ اس کو آپ ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ آپ کسی باغ میں جاتے ہیں جہاں رنگ برنگ کے پھول کھلے ہوں۔ چٹکتی ہوئی کلیاں ان سے شوخی کررہی ہوں۔ تتلیاں ناچ رہی ہوں۔ درختوں کے ہرے بھرے پتے تالیاں بجا رہے ہوں۔ طرح طرح کے پودے جھوم رہے ہوں تو آپ پر بھی ایک وجد کی کیفیت طاری ہوجائے گی۔ آپ کچھ گنگنانے لگیں گے۔ وہیں بیٹھ کر محو نظارہ ہوجائیں گے، آپ کو ایک مسرت اور خوشی کا احساس ہوگا۔ کیوں؟ اس لےے کہ آپ کے اندر جو احساسِ جمال ہے وہ متحرک ہوجاتا ہے اور آپ محظوظ ہونے لگتے ہیں۔ یہاں آپ فطری اور ابتدائی شکل میں حسن وجمال کو محسوس کررہے ہیں۔ ابھی اس میں لفظ ، ادب اور فن کار شامل نہیں ہوا ہے یہاں پر کائنات کا حسن اور فطرتِ انسانی میں پایا جانے والا احساسِ حسن براہِ راست گلے مل رہے ہیں۔ اگر انسان گونگا ہوتا، زبان ایجاد نہ ہوتی، ادب وجود میں نہ آتا،تو حسن سے محظوظ ہونے کی یہی سطح رہ جاتی۔ فطری احساس جمال کو ادب کی کارفرمائی کچھ سے کچھ کردیتی ہے۔ یہی الفاظ احساس جمال کو تصور دیتے ہیں، اس کو معنی پہناتے ہیں،معنی کی جمالیاتی تشکیل ہوتی ہے اور چوں کہ الفاظ و معانی کا رشتہ خودایک پیچیدہ عمل ہے، اس ليے جب لفظ کا رشتہ حسن سے قائم ہوتا ہے تو تصور میں آکر نئی نئی شکلیں بنتی ہیںاور اظہار میں تنوع پیدا ہوتا ہے۔ اس تنوع کی وجہ زبان و بیان اور ذہن و تخیل کا رشتہ ہے۔ اس مثال سے آپ جمالیاتی مسرت کی تہہ داری اور ادب کی کارفرمائی کو سمجھ سکتے ہیں۔
          اسی طرح تفریحی لذت کو بھی ایک اور مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ آپ کسی چڑیا گھر میں جاتے ہیں بندروں کے غول کو اچھلتے کودتے، نقالی کرتے، پیڑ پر چڑھتے گرتے دیکھتے ہیں ، اس کو روٹی کا ایک ٹکڑا پھینک کر دیتے ہیں، وہ اچک کر آتا ہے، جھپٹتا ہے ، آپ کو ہنسی آجاتی ہے اور خوشی محسوس ہوتی ہے۔ یہ تفریحی مسرت ہے۔ یہ فرحت کھیل کوداور تماشہ سے حاصل ہونے والی فرحت ہے، جو اصل اور نقل، واقعہ اور حقیقت کے مابین ناہمواری کو اچانک محسوس کرلینے سے جنم لیتی ہے۔ ناہمواری جتنی خلافِ توقع ہوگی اتنی ہی شدید طور پر ہنسی آئے گی۔
          کبھی کبھی تفریحی لذت اور جمالیاتی مسرت کے فرق کو نہیں سمجھنے کی وجہ سے ہم ادب کی قدر و قیمت اور اس کے تفاعل کو بھی نہیں سمجھ پاتے ہیںاور شعر و ادب کی سنجیدہ محفل سجانے کو بندر بھالو کے کھیل تماشا یا ٹی وی میں ہنسنے ہنسانے کے تفریحی پروگرام سے بس تھوڑا ہی بہتر ایک شریفانہ عمل سمجھتے ہیں۔ بعض مذہبی حلقوں میں تو ادبی محاذ کو ایک ذیلی اور طفیلی چیز سمجھا جاتا ہے۔ایسا کیوں ہے اس لےے کہ ہم فطرت انسانی، تہذیب اور ادب کو پوری طرح سمجھ نہیں پاتے۔اصل میں جس کو ہم فطرت انسانی (Nature) کہتے ہیں، وہ حقیقت سے ہم آہنگ خیر و حسن کی متوازن ترکیب کا نام ہے۔ حق، خیر، حسن یہ تینوں بنیادی قدریں مل کر تہذیب انسانی کی تعمیر کرتی ہیں۔ لہٰذا فطرت کی نگہبانی اور تہذیب کی تعمیر و ترقی کے لےے ان تینوں اعلیٰ قدروںکو توازن اوراعتدال کے ساتھ برتنا اوران کی نشو ونما ضروری ہے۔ ادب زندگی میں جمال کو توازن سے برتنے کانام ہے۔وہ ہمارے تصور حقیقت سے بننے والے شعور اور جذبہ

¿ خیر سے تعمیر ہونے والے وجود کو سیراب کرکے ہمیں سرسبز وشاداب اور تازہ دم رکھتا ہے، جس سے تہذیبی ترقی میں گُل بوٹے کھلتے رہتے ہیں اور جمالیاتی تسکین کا سامان ہوتارہتاہے۔

          ادب کی اس اہمیت،افادیت اور کرامت کو سمجھنا ضروری ہے ورنہ ہمارے خوابوں کے چمن مرجھانے لگیں گے ۔ بلکہ ہم نئے نئے خواب دیکھنا بھی بند کردیں گے۔ ہمارے خیر کا جذبہ زنگ خوردہ ہوجائے گا۔حق کی شناخت مدھم پڑ جائے گی، خواب کو نئی آب و تاب دے کر اس کو زندگی کی حقیقت سے ہم آہنگ رکھنا اور جذبہ خیر کو شاداب رکھنا ادب کافریضہ ہے۔ اگر ادب سے ہم تفریح، کھیل تماشہ، مزاح (Joke) اور فرصت و فراغت کے اوقات میں فقط جی بہلانے کا کام لینے لگیں گے توگویا ہم زندگی کے اعلیٰ نصب العین اور تہذیب کی تعمیر سے دست بردار ہوجائیں گے۔ جمالیاتی پہلو سے ہم بچوں کی سطح پر جینے لگیں گے جن کی زندگی میں کھلونا ہی سب کچھ ہوتاہے۔
          واضح رہے جمالیاتی مسرت صرف حسی واردات نہیں ہے بلکہ ان میں معنیاتی دریافت شامل ہے۔ جمالیاتی تجربہ معنی کی بصیرت سے خالی نہیں ہوتا ہے۔ فن وآگہی جمالیاتی مسرت کو روشن کرتی ہے ، لہٰذا جمالیاتی لطف وانبساط میں دریافت اور تجزیاتی بصیرت سے ملنے والی خوشی سب شامل ہوتی ہے۔ قاری کسی فن پارے سے دوچار ہوتا ہے تو یہ عمل چٹکلا سننے اور اکبر و بیربل والے لطیفے سے دوچار ہونے والی گدگداہٹ سے مشابہ نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ وہ جذب کی ایک نئی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے اور ادب پارے میں معنی آفرینی کی جوکئی سطحیںہوتی ہیں سنجیدہ قاری ان میں غوطے لگاتا ہے۔ جس میں حسی، تخیلاتی، تصوراتی، وجدانی اور ماورائی پہلو اپنے مختلف تناسبات کے ساتھ شریک ہوجاتے ہیں، اور یہ سب اپنی حرکت پذیری سے باشعور قاری کو جمالیاتی لطف وانبساط سے دوچار کرتے ہیں۔ اس طرح ایک بالیدہ، پختہ، تراشیدہ شعور رکھنے والا قاری جمالیاتی تجربے سے گزر سکتاہے اور یہی ادب اور فن کا کام ہے۔
          موجودہ دور میں ہنگامی، عارضی، وقتی ، لمحاتی لطف اندوزی اور جبلی تسکین کے سامان کی مقبولیت نے اعلیٰ ادب کی تخلیق اور سنجیدہ قرات کے عمل کو بری طرح سے مجروح کیا ہے۔ صارفیت اورمارکیٹ کے مفاد نے ڈراما، فلم، اسپورٹس، ادب، شاعری، موسیقی سب کو تفریح کے نام پر یرغمال بنالیا ہے۔ اس سے ادب کو نجات دلانا ادارہ ادب اسلامی کا نیا فریضہ ہے۔ اسلام پسند ادیب و فن کار اور اس کا قاری دونوں کی یہ نئی ذمہ داری ہے، جس سے عہدہ بر آہوکر ہی قافلہ ادب کوآگے بڑھایا جاسکتاہے۔ خدانخواستہ ادب کی تفہیم میں اور اس کی معنویت و اہمیت کو سمجھنے میں ہم نے خطا کی اور مارکیٹ ویلو (Value)میں گرفتار ہوکر اپنے ادب و شاعری میں ” لے دہی کی کیفیت“ ، ”چناچور گرم“ اورپیزاہٹ والے ذائقہ کو ہی جمالیاتی ذائقہ سمجھ لیا تو یہ بہت بڑا المیہ ہوگا۔
          ہمیں تفریح کی بنیادی حقیقت او رجمالیات کی اصلیت کو ہمیشہ تازہ رکھنا چاہےے۔ تفریح شئے کی اصلیت اور بنیادی معنویت پر پردہ ڈالتی ہے بلکہ بسا اوقات اس کو مسخ کرکے تفریح کا سامان کرتی ہے۔ اصل اور نقل کے بیچ جو خلا ہوتا ہے اس خلاکو پیدا کرنے کا جو کرتب ہے اسی پر تفریح کا دارومدار ہے۔ غیر متوقع طور پر جب آدمی اس خلا سے گزرتا ہے تو گدگداہٹ پیدا ہوتی ہے اور ایک فرحت میسر آتی ہے۔ کھیل اور تفریح کا یہ عمل آپ جانوروں میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن جمالیات شئے کی اصلیت کو پیش کرتی ہے اور اس کی حقیقی معنویت کو تلاش کرتی ہے۔ اس لےے جمالیاتی مسرت کثیر الجہات ہوتی ہے۔ فن پارے میں جمالیاتی حظ کے امکانات ہوتے ہیں ان کو صاحب نظر قاری دریافت کرتا ہے۔ اسی دریافت کے عمل میں وہ جن مسرتوں کو حاصل کرتا ہے اسے جمالیاتی مسرت کہتے ہیں۔ خوشی دونوں میں حاصل ہوتی ہے مگر تفریحات، کھیل، تماشہ، مزاح ،ٹھٹھول نقالی سے ملنے والی خوشی اور حسن وجمال کے رو برو ہونے، اس کو مختلف روپ میں دیکھنے اور جستجو کرنے کی خوشی میں نوعیت سطح اور درجے کا بڑافرق ہے۔ ان کے گہرے، فکری ،نفسیاتی اور تہذیبی نتائج پیدا ہوتے ہیں۔اگر مسرت محض حسیات کی سطح تک محدود ہو تو یہ لذتیت ایک حیوانی تسکین ہے۔لیکن جب مسرت میں حسیت ہی نہیں تخیل شعور اور نظر کی کارفرمائی شامل ہوجاتی ہے تو یہ خوشی ایک ارتفا ع کے عمل سے گزرتی ہے، جس کو جمالیاتی مسرت کہتے ہیں۔ اس طرح جمالیاتی تجربے میں حسی مواد کو معنی کی تپش اور تخیل کی خوشبو سے گزرنا پڑتا ہے، تب جمالیاتی حظ نصیب ہوتا ہے۔ جمالیاتی مسرت، حسیاتی لذت اور فلسفیانہ خوشی دونوں کے امتزاج سے عبارت ہے اور اس طرح توازن وعدل اس کی روح ہے۔
          ایک اور پہلوسے غور کیجےے۔ کائنات میں اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو جوڑا جوڑا بنایا ہے۔ چنانچہ جہاں حسن ہے وہاں قبح بھی ہے، کمال کے ساتھ نقص بھی ہے ۔ جب زندگی کے حسن سے ہم فنکارانہ سطح پر لطف اندوز ہوتے ہیں تو وہ جمالیاتی لطف ہے۔ جو ادب کا اصل وظیفہ ہے۔ لیکن جب زندگی کے قبح ، بھونڈے پن، اور کوبڑ پن سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو وہ مزاح اور تفریح ہے۔ اس مزاح کا اظہار اکہری سطح پر اورتخیل کی آنچ سے خالی ہو تو تفریح، تماشہ اور نقالی ہوجاتی ہے۔
          جس طرح یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ ادب فقط سامان تفریح ہے۔ اسی طرح ادب کا یہ تصور بھی کہ یہ مخصوص آئیڈیا لوجی کی ترسیل کا صرف ذریعہ ہے ادھوار اور ناقص ہے ، ادب کونہ کھیل بنا دینا چاہےے اور نہ خشک وعظ ونصیحت ۔ ادب سے فلسفے کا ذائقہ لینا بھی پسندیدہ نہیں ہے۔
          آج ضرورت ہے کہ ادب اسلامی کے حلقوں میں ادب کے حوالے سے ایک نئی تازگی، تابندگی پیدا کی جائے۔ بنیادی سوالات کو نئے تناظر میں دیکھا جائے اور اس کے لےے ضروری ہے کہ ادب پر ہم تازہ دم ہوکر بحث کریں۔ اپنے ماضی کا تجزیہ کریں،اپنی عینک کا پاور درست کرلیں۔ اپنی چھتری کو بند کرلیں ،اپنی بالکونی سے اتر کر اپنے حلقوں کے آنگن میں نہیں بلکہ کھلے میدان میں مل جل کر مکالمہ کریں۔ تب ہی ہم ادب کے محاذ پر سچی پیش رفت کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹرحسن رضا


                   مناجات
اہلِ ایماں کو کامراں کردے
زور باطل کا بے نشاں کردے

ظلم آتش فشاں ہوا ہے آج
اس کو یا رب دھواں دھواں کردے

جن کا ظاہر ہے کچھ تو باطن کچھ
ان شیاطیں کو بے نشاں کردے

توڑ دے ظلم و بربریت کو
قہر ان سب پہ ناگہاں کردے

جو ہیں تحت الثریٰ میں آج انھیں
برسرِ بام آسماں کردے

نذرِ آتش جو ہورہے ہیں آج
دور اُن سب کی سختیاں کردے

حق نوازوں کو استقامت دے
جبر عالم کا رائیگاں کردے

اہلِ باطل کو اہل ایماں کا
ہم نوا اور ہم زباں کردے

اپنے ابرار کی دعاوں کو
مستجاب اور کامراں کردے
ابرار کرت پوری
نئی دہلی



کہیں کیسے کسی سے اپنا حال زار یا اللہ
جہاں میں ہر جگہ ہیں ہم ذلیل و خوار یا اللہ

کریں غیروں کا کیا شکوہ صفیں اپنی شکستہ ہیں
مسلماں خود ہیں اپنے دین سے بیزار یا اللہ

منافق اکثریت میں، اقلیت میں ہیں مخلص
صفوں میں ہیں ہماری کس قدر غدار یا اللہ

حجاز و مصر، اسرائیل منظر ایک جیسا ہے
ہے حق کا نام لینا ہر جگہ دشوار یا اللہ
اختر سلطان اصلاحی
رائے گڑھ
9223240829


نعـــــت

مہکتی شام معطّر سحر مدینے میں
ہے رشکِ خلدِ بریں ہر پہر مدینے میں

خوشا یہ دل پہ مبارک اثر مدینے میں
کہ سر بہ سجدہ ہیں قلب و نظر مدینے میں

نظر نواز ہیں شہر حبیب کے جلوے
نکھر گیا مرا نورِ بصر مدینے میں

یہاں فلک سے زمیں پر سلام آتے ہیں
کہ ذرّہ ذرّہ ہے رشکِ قمر مدینے میں

یہ محویت یہ عقیدت یہ کیفیت یہ سرور
کہاں کسی کو کسی کی خبر مدینے میں

حفیظ کاش یہیں پر تمام ہوجائے
مری حیاتِ رواں کا سفر مدینے میں
حفیظ محمود بلند شہری
نئی دہلی

ہے تفسیرِ قرآں شہِ دیں کی سیرت
یقینا ہیں وہ شمعِ بزمِ ہدایت

ملے خندہ پیشانی سے دشمنوں سے
شہِ انبیا ہیں سراپا شرافت

بتائیں گی تم کو یہ طائف کی گلیاں
وہ پتھر کے بدلے لٹاتے ہیں رحمت

اسے دل سے سمجھو، خدا نے کہا کیا؟
کرو سورة النجم کی جب تلاوت

کلام محمد، کلامِ خدا ہے
ہے اُن کی اطاعت، خدا کی اطاعت

وہ نور الہدیٰ ہیں وہ بدر الدجیٰ ہیں
وہ تشریف لائے، مٹی ساری ظلمت

منور منور، معطر معطر
وہ ہیں پھول! مجموعہ نور ونکہت
تنویر پھول
امریکہ
***


پروفيسر ممتاز احمد کی ادبی خدمات
ڈاکٹر خالد سجاد
 صدر شعبه اردو،کنور سنگھ کالج، لہريا سرائے ، دربھنگہ

          سرزمينِ بہار کی عظمت اور علم پروری سے کون انکار کر سکتا ہے ۔ تارےخ شاہد ہے کہ ہزاروں سال پہلے س ےہ خطہ ارض گہوارہ علم وادب تھا اور آج تک ا س کی ےہ خصوصيت باقی ہے۔ مگدھ کا علاقہ تو قلبِ ہندوستان ہے۔ اگر دل کو سےنہ سے جدا کےا جائے تو سارا جسم مردہ نظر آئے گا۔
          اسی مگدھ کا قدےم اور مشہور شہر عظےم آباد اپنے دامن مےں تارےخ کے بہت سے اوراق چھپائے ہوئے ہے۔
          شہرِ عظےم آباد نے ہر عہد اور زمانے مےں اےسی اےسی ادبی اور علمی ہستےاں پےدا کی ہےں جنہےں آج بھی ہم نہاےت ادب واحترام کے ساتھ ےاد کرتے ہےں۔اےسی ہی اہم ادبی اور علمی ہستےوں مےں اےک معتبر اور باوقار نام پروفےسر ممتاز احمد مرحوم کا بھی ہے۔ جن کی شخصےت اسم بامسمیٰ ہے۔ جنہوں نے اپنی ادبی خدمات سے دبستانِ عظےم آباد کی شاندار رواےت کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اس کے ادبی سرماےے مےں بے بہا اضافہ کےا ہے ۔ ان کی چھ تخلےقات منظرِ عام پر آچکی ہےں جن کے نام کچھ اس طرح ہےں:
          (۱) مثنوےاتِ راسخ (۲) کلےم الدےن احمد کی شاعری پر اےک نظر(۳) اردو شعراءکا تنقےدی شعور(۴) حدےثِ سخن(۵) مکاتبِ شہباز(۶) تحلےلِ نفسی اور ادبی تنقےد(کلےم الدےن احمد کی انگرےزی کتابPsycho analysis and litrary criticism) کا اردو ترجمہ۔
          ےہاں موصوف کی چند تخلےقات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
          مثنوےاتِ راسخ مےں پروفےسر ممتاز احمد لکھتے ہےں:
”راسخ عظےم آبادی کا نام دنےا کے لئے نہ نےا ہے اور نہ غےر اہم۔ لےکن ان کی طرف وہ توجہ نہ ہوسکی جس کے وہ مستحق تھے۔ ان کے کلام کا بےشتر حصہ شائع ہو چکا ہے ان مثنوےوں مےں بھی بہت ساری مطبوعہ ہےں لےکن ان کی طباعت کا معےار کوئی خاص بلند نہےں۔ اس کے علاوہ انہےں تحقےق وتنقےد کی روشنی مےں لا کر آج تک ادبی قےمت نہےں لگائی گئی ہے “۔
(مثنوےاتِ راسخ۔ از ممتاز احمد ، ص:الف)
          پروفےسر ممتاز احمد نے مثنوےاتِ راسخ پر اہم تحقےقی کام کےا ہے ۔ راسخ کی مثنوےوں کے متعدد نسخے تلاش کئے ۔ ان کا تقابلی مطالعہ کےا، ضروری حاشےے اور نوٹ لکھ کر تحقےق کو مدلل بناےا ۔ اس حد تک کہ مثنوےاتِ راسخ پر شاےد ےہ کام آخری درجے کا ہو گےا ہے۔ نےا محقق ان مثنوےوں کے باب مےں ہمےشہ استفادہ کرنے پر مجبور ہے اور مےں ےہ کہہ سکتا ہوں کہ اب تک ممتاز احمد کے کام سے آگے کوئی دوسرا کام نہےں ہو سکا۔ حالانکہ راسخ کی مثنوےاں اب بھی محققےن اور ناقدےن کی دلچسپی کا سبب ہےں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہےں کہ ممتاز احمد نے اس سلسلے مےں جو روشنی مہےا کی ہے وہ بہت دیر پا ہے۔ اےک دوسرا پہلو مثنوےوں کے تجزےے کا ہے ۔ ےہ تجزےہ بھی بے حد اہم ہے اور تقابلی نوعےت کے ہےں۔ دراصل ممتاز احمد کے ےہاں اےک تنقےدی شعور موجود تھا اور اسی شعور کی وجہ سے وہ عالمانہ تجزےہ پےش کر سکے۔ چنانچہ ہر مثنوی مےں داخل ہو کر موصوف نے اہم نکات پےدا کئے اور مثنوےوں کے اہم پہلوﺅں پر گراں قدر روشنی ڈالی۔
          پروفےسر ممتاز احمد نے مثنوےوں کے مطالعے مےں اس بات کابھی خےال رکھا کہ راسخ کے باب مےں تذکرے کےا کہتے ہےں چنانچہ انہوں نے نہاےت جاں فشانی سے تمام تذکروں کا ذکر کےا ہے جس مےں ذرا بھی کوئی پہلو درج ہے اسے پےش کےا ہے ۔ اس سے ےہ ہوا کہ زمانہ

¿ راسخ سے لے کر آج تک کا رےوےو سامنے آگےا ہے اور شاےد اس سے آگے بڑھنا امرِ محال ہے۔

          اردو ادب کے عظےم محقق قاضی عبد الودود نے تےن گراں قدر تحقےقی مقالات پر تبصرے پےش کئے جن مےں :
          ۱۔ بہار مےں اردو زبان وادب کا ارتقاء، مولفہ پروفےسر اختر اورےنوی
          ۲۔ مرزا محمد علی فدوی۔ ان کا عصر، حےات، شاعری اور کلام، مولفہ ڈاکٹر محمد حسنين
          ۳۔ مثنوےاتِ راسخ۔ مولف پروفےسر ممتاز احمد
ان تينوں مقالات پر قاضی عبد الودود نے تنقيد اور تبصرہ کرتے ہوئے مفےد مشورے پيش کئے ہيں۔
(مقالاتِ قاضی عبد الودود جلد اول۔ مرتب کلےم الدےن احمد، ص:۳۱۲)
          اس طرح ہم کہہ سکتے ہےں کہ مثنوےاتِ راسخ کی اہمےت سے انکار ممکن نہےں۔ چوں کہ تحقےق اےک اےسا عمل ہے جس کی راہ مسدود نہےں ہوتی اور نہ ہی اس کو تھکان کا احساس ہوتا ہے ۔ ممتاز احمد کی ”مثنوےاتِ راسخ“ اردو ادب خصوصاً اردو تحقےق مےں اےک بےش بہااضافہ ہے۔
اردو شعراءکا تنقےدی شعور:
          بلا شبہ اےک بڑا تحقےقی کام ہے ۔اردودنےا اس پر جتنا فخر کرے کم ہے۔ اس کتاب پر موصوف کی بڑی پذےرائی ہوئی۔ وقت کے اہم تنقےد نگاروں اور محققوں نے ستائش کرتے ہوئے اردو ادب مےں بےش بہا اضافہ مانا ہے۔ ”اردو شعراءکا تنقےدی شعور“ مےں پروفےسر ممتاز احمد نے نہ صرف ےہ کہ تنقےد وتخلےق کے آپسی رشتے کو واضح کےا ہے بلکہ کلاسےکی شعراءسے لے کرجدےد شعراءکے کلام کے تجزےے کی روشنی مےں ان کے تنقےدی شعور کو واضح کےا ہے۔
          مذکورہ کتاب کے حرف اول مےں اردو کے معروف صحافی ڈاکٹر خالد رشےد صبارقم طراز ہےں:
”اردو مےں جہاں تک مجھے علم ہے ، مےں ےہ کہہ سکتا ہوں کہ اس موضوع پر تنقےدی وتحقےقی نقطہ نظر سے اب تک کوئی کتاب نہےں لکھی گئی ہے ۔ جس مےں خود اردو شعراءکے زاوےہ ہائے نگاہ اور انہی کی زبان سے ادا کئے گئے خےالات کو جنہےں انہوں نے اپنے اشعار مےں پےش کئے ہےں تنقےد و تحقےق کی کسوٹی پر پرکھ کر ان سے اصولِ نقد استنباط کئے گئے ہوں اور ان پر موجود ہ تنقےدی معےار کی روشنی مےں محاکمہ بھی کےا گےا ہو“۔
(اردو شعراءکا تنقےدی شعور۔ از ممتاز احمد ، ص:ب)
          ڈاکٹر صبا کا ےہ قول حقےقت سے بہت قرےب ہے ۔ اردو تنقےد کی تارےخ مےں شعراءکے کلام سے شعورِ نقد اخذ کرنے کی رواےت دور دور تک نظر نہےں آتی۔” اردو شعراءکا تنقےدی شعور“کے سلسلے مےں ڈاکٹر وہاب اشرفی رقم طراز ہےں:
”اس مےں تحقےقی ژرف بےنی کی اچھی مثالےں ملتی ہےں اور جس نوعےت کی محنت کی اس مےں ضرورت تھی وہ پوری طرح کام مےں لائی گئی ہے۔ ےہ کتاب اپنی نوعےت کی پہلی اور آخری کتاب ہے ۔ بعض نکات اس کے بے حد توجہ طلب ہےں لےکن عام طورسے اس کتاب پر ناقدےنِ ادب اور محققےن کی نگاہ نہےں ہے “۔
(تارےخ ادب اردو ، جلد سوم۔ از ڈاکٹر وہاب اشرفی، ص:۵۷۶۱)
          پےشِ نظر کتاب کے مقدمے سے صاحبِ کتاب کی تنقےدی وتحقےقی بلندی کا پتہ چلتا ہے جس سے ہمارے ناقدانہ شعور کو بالےدگی حاصل ہوتی ہے۔ اس مےں مشاہےر ادبےاتِ عالم کے ناقدانہ شعور کا خاکہ ان کے اشعار وافکار کی روشنی مےں پےش کےا ہے اور اس امر کی بھرپور وضاحت کی ہے کہ ابتدائی شعراءمےں تنقےدی شعور کی کارفرمائی ملتی ہے۔
          پروفےسر ممتاز احمد نے شعراءکے تنقےدی شعور کے بارے مےں اہم نکتوں کی وضاحت ”مقدمہ“ مےں کر دی ہے ۔ ان امور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہےں:
”ہر صنفِ سخن کی طرح اردو تنقےد کا ارتقاءبھی مختلف پےچ وخم اور عملی نظرےے کی پر پےچ پگڈنڈےوں سے گزر کر موجودہ معےار ومحک تک پہنچتا نظر آتا ہے ۔ مشاعرے، تذکرے اورپھر ناقدےن ،اردو تنقےد کے ارتقاءکے وہ ابواب ہےں جن کے پےشِ نظر ہم تارےخی نقطہ

¿ نظر سے اردو تنقےد کا اےک واضح لےکن غےر مکمل خاکہ تےار کر سکتے ہےں۔ کےوں کہ ان کے علاوہ ہمےں اےک اور نہاےت زبردست اور غےر معمولی تنقےدی شعور اور نظرےات کی اےک اےسی کڑی کا پتہ خود اردو شعراءکے کلام مےں ملتا ہے جن کی چھان بےن کرنے کے بعد ہمےں اس کا شدےد احساس بجا طورپر ہوتا ہے کہ اردو شاعروں نے اوائل سے اپنے شعری ادب کے ذرےعہ جن بےش قےمت تنقےدی مسائل پر اظہارِ خےال کےا ہے ان پر اب تک ہماری نگاہےں صرف سرسری طورپر گئی ہےں“۔

          مير نے کہا ہے :
سرسری تم جہان سے گذرے
ورنہ ہر جا جہانِ دےگر تھا
          پروفےسر ممتاز احمد نے جن اہم نکتوں کی وضاحت اپنے ”مقدمہ“ مےں فرمائی ہے اسے چند لفظوں مےں بےان کرےں تو یوںکہا جا سکتا ہے کہ :
          (۱) تذکرہ نگار شعراء(۲) وہ شعراءجنہوں نے اپنے کلام پر خود نظر ثانی کی (۳) اصلاح کی رسم (۴) اور اعتراض
          ممتاز احمد ”مقدمہ کے آخر مےں لکھتے ہےں:
”اردو کے شعری ادب مےں قلی قطب شاہ سے لے کر کلےم الدےن احمد تک نے فن کی باتےں اٹھائی ہےں ۔ اس کے مختلف پہلوﺅں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔سخن ، شعر، شاعری،شاعر، غزل، نظم اور اس قسم کے بہت سارے دوسرے موضوعات پر کافی غوروفکر کےا ہے اور اپنے غوروفکر کے نتائج کو شعری جامہ پہناےا ہے ۔ہاں ےہ ضرور ہے کہ چوں کہ اپنے خےالات کا اظہار شعر مےں کےا ہے اس لئے باتےں مسلسل اور کافی مدلل طورپر نہےں کہی گئی ہےں۔خےالات کو بھی منطقی ڈھنگ سے نہےں پےش کےا گےا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ ےہ بھی ہے کہ کبھی کبھی بےان مبہم اور غےر متعےن سا ہوگےا ہے ۔ لےکن ان کوتاہےوں کے باوجود آپ دےکھےں گے کہ اردو شعراءنے کافی سوجھ بوجھ اور غوروفکر سے کام لےا ہے اور صرف اضطراری طورپر ےا عالمِ جذب وکےف مےں باتےں نہےں کی ہےں“۔
(اردو شعراءکا تنقےدی شعور۔ از ممتاز احمد ”مقدمہ“ ص: ۴۲)
          پروفےسر ممتاز احمد کے اسلوب سے متعلق صرف اتنا کہنا بے جا ہوگا کہ تنقےد وتحقےق کی زبان عام طورپر ثقےل اور بوجھل ہوتی ہے لےکن ےہاں بھی انہوں نے اپنی انفرادےت قائم رکھی ہے ۔ فنِ تحقےق کے دقےق سے دقےق مسائل کی وضاحت عام فہم اور لطےف انداز مےں کی ہے ۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہےں کہ موضوع کی طرح ان کا اسلوب بھی اچھوتا ہے ۔
          سخن کے حوالے سے پےش کردہ اشعار تقرےبا چار صدےوں پر پھےلا ہوا ہے۔ےہ کوئی معمولی عرصہ نہےں ۔ ےہ عرصہ اردو زبان وادب کی بہ تدرےج ترقی ، صفائی اور پختگی کا عرصہ تھا۔
حدےثِ سخن:
          پروفےسرممتاز احمد صرف اےک اچھے استاد، بالغ النظر تنقےد نگار ، سنجےدہ ادبی محقق اور بلند پاےہ نثر نگار ہی نہےں بلکہ اےک لائقِ توجہ شاعر بھی ہےں۔ جس کی زندہ مثال اےک طوےل نظم کی شکل مےں ”حدےثِ سخن “ ہے۔
          ”حدےثِ سخن“ کا پےشِ لفظ کلےم الدےن احمد نے لکھا ہے اور پس منظر ڈاکٹر محمد صدےق نے تحرےر کےا ہے ۔ کلےم الدےن احمد کے پےشِ لفظ سے اس کتاب کی قدروقےمت مےں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔ پروفےسر ممتاز احمد کے لئے کلےم الدےن احمد کی ےہ سند موجود ہے کہ انہو ںنے ”نئی شاعری کی دکھتی رگ کو پکڑ لےا ہے “۔ کلےم الدےن احمد جےسے ناقد کے قلم سے ”حدےثِ سخن“ کے شاعر کے لئے اس اعتراف کا اظہار محض اےک بات ہی نہےں بلکہ بہت بڑی بات ہے اور اس سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ پروفےسر ممتاز احمد نے اپنی زندگی مےں اربابِ نقد ونظر کے نزدےک کس قدر مستند مقام حاصل کرلےا تھا۔
          ”پےشِ لفظ“ مےں پروفےسر کلےم الدےن احمد رقم طراز ہےں:
”ممتاز احمد نے شاےد اسی قسم کی باتےں کہی ہےں ”شتر بے مہار“ مےں سمجھتا ہوں کہ ممتاز احمد نے نئی شاعری کی دکھتی ہوئی رگ کو پکڑ لےا ہے“
          جدےد اردو شاعر ی کے دورِ عروج مےں جب کہ بڑے بڑے جغادری اس لہر کی نذر ہو رہے تھے ےقےنا اتنی صاف گوئی کے ساتھ شاعرانہ ہنر مندی کے ساےے مےں نئی شاعری کی دکھتی ہوئی رگ کو پکڑ لےنا اور وقت کے اےک ممتاز نقاد سے اس کی سند حاصل کرلےنا پروفےسر ممتاز احمد کا اےک بڑا کارنامہ ہے جسے تارےخ ساز کارنامہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔
          ڈاکٹر وہاب اشرفی” تارےخِ ادب اردو “ جلد سوم صفحہ ۶۷۶۱ مےں ”حدےثِ سخن “ کے سلسلے مےں رقم طراز ہےں:
”مجھے اےک زمانہ کے بعد معلوم ہوا کہ ممتاز احمد شاعر بھی ہےں۔ ان کی اےک مثنوی ”حدےثِ سخن “ شائع ہوئی تب مجھے معلوم ہوا کہ نہ وہ صرف شاعر ہےں بلکہ طوےل مثنوی لکھنے کی صلاحےت رکھتے ہےں۔ بہر طور! ”حدےثِ سخن“ جدےدےت کے خلاف مثنوی کے صنف مےں اےک تخلےقی تنقےد ہے ۔ اس کا پےشِ لفظ کلےم الدےن احمد نے لکھا ہے ۔وہ لکھتے ہےں:
”فلسفہ کی طرح تکنےک بھی نئی ہے اور ےہ بھی مانگے کی نہےں۔ نئے شاعر Surrealism سے متاثر نظر آتے ہےں لےکن ےہ چےز ان کے بس کی بات نہےں۔ بات نئی ہو ، تجربہ نےا ہو اور اس مےں اصلےت ہو تو تکنےک بھی نئی ہو جاتی ہے ۔ ہر آرٹسٹ رلکے اور سارتر نہےں ہو سکتا۔ اگر کوئی رلکے ہو ےا سارتر ہو تو وہ اپنے تجربوں کے لئے نئی تکنےک بھی حاصل کرلے گا۔ لےکن نئے تجربے نہ ہوں تو نئی تکنےک بے معنی سی ہو جاتی ہے ۔ نئی شاعری مےں تجربوں اور تکنےک، مواد اور فورم مےں کوئی ناگزےر ربط نہےں، اور ہےئت ، فورم ، امےجز، الفاظ تجربوں پر اےک گہرا پردہ ڈال دےتے ہےں۔ ممتاز احمد نے شاےد اسی قسم کی باتےں کہی ہےں :
نظم ہے ےا تسلسلِ ابہام
جس مےں تمہےد ہے نہ ہے اتمام

چند لفظوں کی پھےلتی زنجےر
جس مےں روحِ عروض مثلِ اسےر

فکر وفن کا فشار ہےں نظمےں
شتر بے مہار ہےں نظمےں
          ”شتر بے مہار“مےں سمجھتا ہوں کہ ممتاز احمد نے نئی شاعری کی دکھتی ہوئی رگ تو پکڑ ہی لی ہے :
بندش الجھی ہے بات ادھوری ہے
ےہ شعور اےک بے شعوری ہے
(حدےثِ سخن۔ص:ج، بہار اردو رائٹرس سرکل ، پٹنہ)
          ڈاکٹر وہاب اشرفی مزےد آگے لکھتے ہےں :
”اسلوب کا فطری انداز ، محاکاتی رنگ، رواں اور برجستگی اور بعض جگہوں پر فلسفےانہ موشگافی سبھی اےسے اشارے ہےں جو کسی مستند شاعر کی طرف راغب کرتے ہےں۔ ےہاں چند شعر نقل کر رہا ہوں :
گرچہ لفظوں کی ہے تراش نئی
کوئی تخےل بھی ہو کاش نئی

لہجہ گو بےسوےں صدی کا ہے
ذہن انےسوےں صدی کا ہے

جہل کے نشے دل پہ طاری ہےں
خود توالفاظ کے پجاری ہےں
(تارےخِ ادب اردو، جلد سوم۔ ڈاکٹر وہاب اشرفی، ص: ۶۷۶۱ )
          جہاں تک شاعری کا تعلق ہے اس مےدان مےں بھی ”حدےثِ سخن“ کے حوالے سے پروفےسر ممتاز احمد کی بہترےن صلاحےتوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔نظم کی روانی، زورِ بےان، بلند آہنگی اور سلاست قابلِ دےد ہے۔ اکثر شعر سہل ممتنع کا بہترےن نمونہ سامنے لاتے ہےں۔ اگر سخن کے اعتبار سے دےکھا جائے تو اےک اےک شعر مےں متعدد صنعتےں موجود ہےں، حسنِ تراکےب کی اےک بڑی دنےا آباد ہے۔ شاعر نے ہندی الفاظ کو بھی جس خوبصورتی اور چابکدستی کے ساتھ پےش کےا ہے اس کی داد دئے بغےر نہےں رہا جا سکتا۔
          پروفےسر ممتاز احمد صرف اردو زبان وادب کے پروفےسر ہی نہےں اردو کے اےک معتبر نقاد ، قابلِ قدر محقق،اےک ممتاز انشاءپردازاور تخلےقی صلاحےتوں کے حامل فنکاربھی تھے۔ ےہی وہ صفات ہےں جو پروفےسر ممتاز احمد کا اردو ادب مےں اےک مقام متعےن کرتی ہے ۔ ان کی تصنےفات اس بات کا ثبوت ہےں کہ اردو ادب کی مختلف اصناف کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد انہوں نے جوہرِ طبع کی اےک عمدہ اور معےاری مثال پےش کی ۔ جےسا کہ مےں نے عرض کےا ہے کہ وہ نقاد بھی تھے، محقق اور انشاءپرداز بھی ليکن ان کا اصل مےدان فنِ تنقيد وتحقيق ہے۔
***


ہمہ جہت شاعر: اسمٰعیل میر ٹھی
صبیحہ ناہید
ریسرچ اسکالر، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی-۵۲

اسمٰعیل میرٹھی کا شما ر ایسے شاعروں کی حیثیت سے ہوتا ہے جس نے متعدد نسلوں کی اپنے فکرو فن سے آبیاری کی ہے اور یہ سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔یہ ایک ایسا نام ہے جس کی رسائی بچوں کے بستوں سے لے کر بڑوں کے ذہن و شعور تک یکساں طور پر رہی ہے۔اردو زبان و ادب کو جاننے والا ہر فرد بشر ان کا مرہون منت ہے کیوں کہ ان کی تالیف کی ہوئی درسی کتابیں ہی اس کے لئے علم و آگہی کی پہلی سیڑھی بنی ہےں۔
اسمٰعیل میرٹھی کو ایک بڑا اردو داں طبقہ محض بچوں کا شاعر او ر ادیب سمجھتا ہے لیکن حقیقت اس کے بر خلاف ہے ۔وہ صرف بچوں کے شاعر و ادیب نہیں ہیں ۔ وہ تو ہمہ صفت اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔”پن چکّی “اور” اسلم کی بلّی“ جیسی ادب اطفال میں اضافہ کرنے والی نظموں کا خالق محض بچوں کا شاعر نہیں ہے ،وہ ستّر مثمن بندوں یعنی ۰۸۲ اشعار پر مشتمل ”آثار سلف“ اور ۸۰۱ اشعار پر مشتمل ”مکالمہ سیف و قلم“ جیسی نظموں نیز ”جریدئہ عبرت“ جیسے طویل قصیدے کا خالق بھی ہے۔
اسمٰعیل میرٹھی کی شخصیت اور شاعری کا ایک اور نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ایک انقلابی ذہن رکھتے تھے اور انہوں نے پرانی روایات سے انحراف کرتے ہوئے کئی نئے تجربے بھی کئے۔ انہوں نے نظم ،غزل، قصیدہ، رباعی، قطعہ، مرثیہ تقریبا ہر صنف سخن میں روایات سے انحراف کرتے ہوئے نئے تجربات کئے۔انہوں نے غزل میں ہئیت کے نئے تجربے کو اپناتے ہوئے شعوری طور پر متعدد جگہوں پراپنی غزلوں میں مطلع کہنے سے پرہیز کیا نیز انہوں نے اپنی کسی بھی غزل میں مقطع نہیں کہا۔
اس کے علاوہ قصائد اور رباعیات میں بھی روایات سے واضح طور پر انحراف کیا۔اس کے علاوہ ان کی شناخت عربی کے عالم اور فارسی کے استاد کی حیثیت سے بھی ہوتی ہے۔لہذا ان کے کلام میں عربی اور فارسی زبان کو بھی جا بجا جگہ دی گئی ہے۔انہوں نے یک شعری نظموں (مطلع کی ہیئت میں محض ایک شعر میں بات کہنے) کی طرح ڈالی ہے۔انہوں نے ”تاروں بھری رات“ اور” چڑیا کے بچے“ کہہ کر اردو کی نظمیہ شاعری میں نظم معریٰ کا اضافہ کیا۔
 اسمٰعیل میرٹھی نے اپنی شاعری کی ابتدا تو غزل گوئی سے کی تھی لیکن جب انہیں قلق میرٹھی کی انگریزی کی ۵۱اخلاقی نظموں کے منظوم تراجم کا مطالعہ کیا تو اس کے بعد ان کی شاعری کا رخ ہی بدل گیا ۔تراجم کا یہ مجموعہ ۴۶۸۱ءمیں ”جواہر منظوم “کے نام سے منظر عام پر آیا۔ انہوں نے یہ قابل قدر تعمیری اور سنجیدہ کا م کا ۷۵۸۱ ءمیں غدر کے ہنگامہ خیز دور کے معا ً بعد کیا۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنے کشیدہ حالات میں ایسا کام کیا جا سکتا ہے ۔وہ بھی ایک ایسے مقام پر جہاں سے ۷۵۸۱ءکی چنگاری اٹھی تھی۔ اس سلسلے میں اسمٰعیل میرٹھی کے صاحبزادے اسلم سیفی فرماتے ہیں :
 ”مولانا فرمایا کرتے تھے کہ اس ترجمے کو دیکھ کر استعجاب ہوا کہ شاعر ایسا کلام بھی لکھتے ہیں ،ایک طرف دور از کار حیرت انگیز مبالغہ جو غزل اور قصیدے کی جان سمجھا جاتا تھا ، ادھر اس ترجمے کا مطالعہ ایک امر اتفاقی تھا جس نے مولانا کی طبیعت کا رخ بالکل بدل دیا۔اس ترجمے کو دیکھ کر بعض انگریزی نظموں کا ترجمہ کیا ۔یہ نظمیں کلیات میں موجود ہیں۔آئندہ کے کلام کی بنیاد اسی انداز پر رکھی۔“
(حیات کلیات اسمٰعیل،اسلم سیفی،دیال پرنٹنگ پریس، ۹۳۹۱ء،ص:۵۰۱)
اسمٰعیل میرٹھی نے قلق میرٹھی کے ترجموں سے متاثر ہوکر جن نظموں کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے وہ درج ذیل ہیں:
۱-کیڑا                    ۷ ۶۸۱ء
۲-ایک قانع مفلس       ۷۶۸۱ئ
۳-موت کی گھڑی      ۷۶۸۱ئ
۴-فادر ولیم      ۷۶۸۱ئ
۵-حب وطن    ۸۶۸۱ء
۶-انسان کی خام خیالی ۸۶۸۱ء
متذکرہ بالا سبھی نظموں میں کوئی نہ کوئی اخلاقیات سے متعلق درس و نصیحت چھپا ہوا ہے۔ عیاں رہے کہ اسمٰعیل میرٹھی اور قلق میرٹھی کے ان تراجم نے انگریزی شاعری کے دروازے اردو شاعری پر وا کئے اور ان ترجموں سے متاثر ہوکر دیگر ادبا اور شعرا نے بھی اس طرح کے کامیاب تجربے کئے۔مثال کے طور پر نظم طباطباعی نے گرے کی مشہور ایلجی کا ترجمہ ”گور غریباں “ کے نا م سے کیا۔اکبر الہ آبادی کی نظم ”روانی آب“ بھی انگلستان کے ایک مشہور شاعر روبرٹ ساﺅرے کی انگریزی نظم” ہاﺅ دی واٹر کمز ڈاﺅن ایٹ لوڈور“(How The Water Comes Down the Loder) کا اردو ترجمہ ہے ۔اس طرح اردو شاعری کی نئی زمینیں اور نئے آسمان کی دریافت میں اسمٰعیل میرٹھی نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے ۔
اسمٰعیل میرٹھی کے منظوم تراجم کے علاوہ ان کی طبع زاد نظمیں بھی کافی اہمیت کی حامل ہیں ۔ انھوں نے جہاں بچوں کے لئے متعدد اخلاقی اور اصلاحی نظموں کی تخلیق کی ہے وہیں بڑوں کے لئے بھی بے شمار نظمیں لکھ کر ایک سچے مصلح کا رول ادا کیا ہے۔اس مضمون میں ان کی بڑوں کے لےے لکھی گئی نظموں پر ہی گفتگو کی جائے گی تاکہ بعض ادبی حلقوں میں پائی جانے والی اس غلط فہمی کا کسی حد تک ازالہ ہو سکے کہ اسمٰعیل تو بچوں کے شاعر ہیں۔
 ”صنائع الٰہی “اسمٰعیل میرٹھی کی ۹۵ اشعار پر مشتمل ایک طویل نظم ہے جو کہ مثنوی کے فورم میں لکھی گئی۔ اس نظم میں خدا کی تخلیق کی گئی اس کائنات کے مختلف مظاہر پر غورو فکر کرنے اور اس وسیلے سے خدا کی قدرت کو پہچاننے کی تلقین کی گئی ہے۔
اسمٰعیل فرماتے ہیں کہ صرف اللہ کی صناعی سے اور اس کی تخلیق کردہ اشیا ءسے ہی اللہ کے وجود کا اور اس کی عظمت کا علم انسان کو ہوتا ہے۔اسمٰعیل میرٹھی نیلگوں فلک کے ذریعے اللہ کی صناعی کی تعریف کرتے ہیں ۔مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ ہوں:
اگر تیری قدرت کی کاریگری
نہ کرتی سمجھ بوجھ کی رہبری
تو وہ سر پٹکتی ہی رہتی مدام
طلب میںبھٹکتی ہی رہتی مدام
بنائی ہے تو نے یہ کیا خوب چھت
کہ ہے سارے عالم کی جس میں کھپت
(جدید اردو شاعری کا نقطہ آغاز ۔اسمٰعیل میرٹھی۔ڈاکٹر شاداب علیم۔ص: ۱۴۲)
وہ خلاءمیں بکھرے اجرام فلکی اور دیگر سائنسی حقائق کا بیان اپنی شاعری میں کرتے ہیں جس سے اس بات کا بخوبی اندزہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اس کائنات کو صرف ایک شاعر کی نگاہ سے ہی نہیں بلکہ ایک سائنسی مفکر کی نظر سے بھی دیکھا ہے اور اپنے کلام میں جابجا برتا بھی ہے۔ مثال کے طور پر کشش ثقل(Gravity)اور اس کے باعث سیّاروں کے مدار میں گردش کرنے کی حقیقت کا بیان اس طرح کرتے ہیں:
یہ قائم ہیں تیری ہی تدبیر سے
بندھے ہیں بہم سخت زنجیر سے
وہ زنجیر کیا ہے؟ کشش باہمی
نہ اس میں خلل ہو نہ بیشی کمی
یہ سب لگ رہے ہیں اسی لاگ پر
لگاتے ہیں چکر اسی باگ پر
نشہ میں اطاعت کے سب چور ہیں
کہ قانون قدرت سے مجبور ہیں
(جدید اردو شاعری کا نقطہ آغاز ۔اسمٰعیل میرٹھی۔ ص:۲۴۲)
وہ اس خیال کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ ممکن ہے نظام شمسی کی طرح ان ستاروں میں بھی کئی دنیا آباد ہو جو ہماری زمین ہی کے جیسی ہو ۔ ممکن ہے وہاں اس زمین کی ہی مانند جمادات اور نباتات بھی ہو ں ۔موسموں کی تبدیلی بھی اس زمین کی طرح ہوتی ہو نیز اس کے فلک پرچاند ، سورج اور ستارے بھی ہوں ۔ اسمٰعیل کے دور کو اگر مد نظر رکھیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ مولانا ایک انقلابی اور اجتہادی شاعر تھے۔
اسمٰعیل کی ایک مثنوی ”آب زلال “ ہے جو ان کی بے نظیر تخلیقات میں سے ایک ہے۔اس میں انہوں نے بظاہر معمولی سی چیز سمجھا جانے والا پانی کی اہمیت و افادیت اور اس کے کیمیائی عناصر کا تجزیہ سائنسی حقائق کی روشنی میں کیا ہے۔یہ ایک سائنسی حقیقت ہے کہ پانی در اصل دو گیسوں آکسیجن اور ہائیڈروجن کے ملنے سے بنتا ہے ۔ اسمٰعیل میرٹھی اس کو کچھ اس انداز میں بیان کرتے ہیں :
نظر ڈھونڈے مگر کچھ بھی نہ پائے
زباں چکھے مزہ ہرگز نہ آئے
ہواﺅں میں لگایا خوب پھندہ
انوکھا ہے تری قدرت کا دھندہ
مزاج اس کو دیا ہے نرم کیسا
جگہ جیسی ملے بن جائے ویسا
تواضع سے سدا پستی میں بہنا
(جدید شعری کانقطہ آغاز۔ اسمٰعیل میرٹھی ۔ص:۰۶۲)
اسمٰعیل نے مندرجہ بالا اشعار میں پانی کی طبعی و کیمیائی خصوصیات کا ذکر کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح وہ بظاہر روکھے پھیکے سائنسی حقائق کو خوبصورت اور واضح انداز میں برتنے کا ہنر جانتے ہیں۔
 ۷۴اشعار پر مشتمل ایک مثنوی ”خدا کی صنعت “ ہے ۔ اس مثنوی میں بھی خدا کی بنائی ہوئی مختلف اشیا کا اور اللہ کی صناعی کاذکر کرتے ہیں خواہ وہ پھول او ر پرندے ہوں ،اجرام فلکی ہوں یا موسم ہوں سب کا ذکر کرتے ہوئے وہ قاری کو غور و خوض کرنے کی تلقین بھی کرتے ہیں ۔
اسمٰعیل میرٹھی کے کلام کا ایک نمایاں وصف اس میں پیش کئے گئے منظر نگاری کے نمونے ہیں۔ ان کی بچوں کے لئے لکھی گئی نظم ہو، مثنوی ہو،کائنات کی بوقلمونی کا تذکرہ ہو یا تہذیبوں کے زوال کی داستان ، جس موضوع پر انہوں نے قلم اٹھایا ہے منظر نگاری کے نشان صاف طور پر چھوڑے ہیں۔
اسمٰعیل میرٹھی نے اس دور کی فرسودہ شاعری سے انحراف کرتے ہوئے نئی طرح ڈالی ۔ اس کا تذکرہ کوثر مظہری نے بجا طور پر کیا ہے ۔ فرماتے ہیں :
” مگر یہی کیا کم ہے کہ اس دور میں اسمٰعیل میرٹھی (اور بعد میں آزاد اور حالی نے) فرسودہ شاعری سے بیزار ہوکرانگیا، چوٹی، زلف و لب و رخسار اور ہجر و وصال کی ظلمت سے نکل کر اعلیٰ تہذیبی،سماجی اور ثقافتی قدروں،حب ا لوطنی،محنت و مشقت اور نیچرل طرز کی شاعری کی طرف قدم بڑھایا جس میں ہندی تہذیب و تمدن اور اسلامی تمدن کے روشن نقوش در آئے جو آگے چل کر جدید تر نظم نگاری کا پیش خیمہ بنے ۔“
(جدید نظم : حالی سے میراجی تک، کوثر مظہری۔ص۸۹)
اردو شاعری میں فطرت کی منظر کشی مغرب کی نیچرل شاعری کی تقلید میں ہی داخل ہوئی ہے ۔ اسمٰعیل میرٹھی کی نظمیہ شاعری میں فطرت اپنے تمام تر تنوع ‘ رنگینی اور حسن کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ان کی نظموں میں جگہ جگہ فطرت کے مناظر کی جلوہ گری ہے ۔ان کے منظوم کلام بعنوان ہوا چلی، گرمی کا موسم ،رات، برسات، شفق ،کو ہ ہمالہ، ساون کی جھڑی وغیرہ قابل ذکر ہیں جن میں مناظر فطرت کے خوبصورت نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ان کی ایک نظم گرمی کا موسم ہے ۔۰۱ ا شعار پر مشتمل اس نظم میں منظر کشی کے ساتھ مقامی رنگ بھی دکھائی دیتا ہے :
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ
چلی لو اور تراقے کی پڑی دھوپ
لپٹ ہے آگ کی گویا کڑی دھوپ
زمیں ہے یاکوئی جلتاتوا ہے
کوئی شعلہ ہے یا پچھوا ہوا ہے
 (جدید شاعری کا نقطہ آغاز۔ص۳۹۲)
ان کی ایک نظم” برسات“ہے جو حقیقت نگاری کا مرقع ہے۔اس نظم میںشمالی ہندوستا ن میں گرمی کے موسم کے بعد برسات کی آمد کا نقشہ دکھائی دیتا ہے جو کہ ہمارے دیہی علاقے کے برسات کی جیتی جاگتی تصویر پیش کرتا ہے۔یہ نظم اسمٰعیل میرٹھی کے تخلیق کی سادگی ،روانی اور حقیقت نگاری کی عمدہ مثال ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے دیہی مناظر اور دیہی عناصر کو بھی اپنی شاعری کا خاص موضوع بنایا ہے۔اپنی نظم میں انہوں نے مختلف ہیئتوں کا استعمال کیا ہے نئے تجربوں کو بھی برتا ہے ۔
ان کی ایک مشہور نظم” آثار سلف “ ہے ۔یہ نظم مثمن کے فورم میں ہے اور ۰۷ بندوں پر مشتمل ہے ۔اس میں قلع اکبر آباد سے منسلک بادشاہوں ، ادیبوں، شاعروں اور بزرگان دین کی سرگرمیوں نیز اس کے رو بہ زوال ہونے کا نقشہ کھینچا ہے ۔
ہندوستان میں اس قلعے کو ایک خاص مقام حاصل تھا ۔اس قلعے کے اقبال و جلال کو برتری حاصل تھی لیکن اب ہر طرف ادبار و افسردگی کا راج ہے یہاں اسمٰعیل نے قلعہ کو طاقت گویائی دے کر عہد گذشتہ کی عظیم شخصیتوں کے احوال و کوائف کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ بند ملاحظہ ہو :
وہ چتر وہ دیہیم و سامان کہاں ہےں
وہ شاہ وہ نوئین وہ خاقان کہاں ہےں
وہ بخشی وہ دستور وہ دیوان کہاں ہےں
خدام ادب اور وہ دربان کہاں ہیں
وہ دولت مغلیہ کے دربان کہاں ہیں
فیضی وہ ابو الفضل سے اعیان کہاں ہیں
سنسان ہے وہ شاہ نشیں آج صد افسوس
ہوتے تھے جہاں خان و خوانین زمیں بوس
 (جدید نظم: حالی سے میراجی تک۔ص:۲۰۱)
مندرجہ بالا نظم اسمٰعیل میرٹھی کی ایک لاثانی نظم ہے ۔اس نظم میں حقیقت و تخیل کا حسین امتزاج دیکھائی دتیا ہے۔بظاہر تو یہ مغلیہ سلطنت کے عروج و زوال کی داستان ہے لیکن ان کے تخیل کی پرواز صرف مغلیہ دور تک محدود نہیں رہی ہے آئینہ تخیل میںوہ بکرم ‘ ارجن ‘ بھوج ‘ کسریٰ ‘ سکندر اور جمشید کو بھی دیکھتے ہیں۔ان کے تخیل کی پرواز جب مغلیہ دور کے علوم و فنون کی طرف ہوتی ہے تو یہ ابو الفضل اور فیضی سے ہوتی ہوئی بو علی سینا اور افلاطون تک جاتی ہے۔ ان حقائق کے مد نظر ”آثار سلف“ کی اہمیت اور معنویت آفاقی ہے۔ اس نظم کے سلسلے میںپروفیسر حامد کاشمیری کچھ اس طرح رقمطراز ہیں :
”نظم کا موضوع ایک خارجی نوعیت رکھنے کے باوجود شاعر کی خلاقانہ صلاحیتوں کی بدولت داخلی جذبے کی گہرائی سے ہم کنار ہے۔“
(جرات افکار ، کوثر مظہری،شارب پرنٹنگ پریس ایجنسی۔ ص۲۵)

اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جدید نظم نگاری کے میدان میں حالی اور آزاد سے ایک قدم آگے بڑھ کر اسمٰعیل میرٹھی نے اپنے فکرو فن و آہنگ کے ذریعے اردو شعر و ادب کی زمین کو سیراب کیا ہے ۔اس لئے انہیں محض بچوں کے شاعر تک محدود کرنا ایک بہت بڑا مغالطہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے فکرو فن کے ہمہ جہت پہلوکو زیر بحث لا یا جائے تاکہ ادبی دنیا ان کے فکر و فن سے مزید روشناس ہو سکے۔
***





پروفیسر نثار احمد فاروقی کی غالب شناسی
سعیدہ اقبال
محلہ قاضی زادہ، امروہہ (یوپی)

نثار احمد فاروقی کا نام موجودہ دور میں تنقید و تحقیق کے حوالے سے کسی طرح بھی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ علم کی کان اور راہِ تنقید و تحقیق کے مرد افگن تھے۔ جہاں ان کی تحریریں بحیثیت ادیب، نقاد و محقق اور مترجم دامانِ علم و فن کو وسعت دیتی ہیں وہیں تشنہ کامانِ علم کو آگہی و بصیرت افروزی عطا کرتی ہیں۔
پروفیسر نثار احمد فاروقی اخذِ علم و مطالعہ کے جنون کی حد تک رسیا تھے۔ میدانِ تحقیق میں بے پناہ انہماک ان کا اولین فریضہ تھا۔ انھوں نے تقریباً پچیس سال تک عربی، فارسی،اردو، انگریزی اور ہندی زبانوں میں مہارت و قدرت پیدا کرنے کے ساتھ اپنا تحقیقی وتنقیدی، علمی و فنی سفر بڑی محویت و انہماک سے جاری رکھا اور اس سفر کے دوران علم کے ناپید اکنار بحروں میں غوطہ زنی کرکے وہ وہ دُرِنایاب دریافت کےے کہ دنیائے علم و ادب میں ہمیشہ کے لےے ان کا کام اور نام باقی رہے گا۔
پروفیسر نثار احمد فاروقی کو میریات و غالبیات میں اختصاص حاصل تھا۔ انھوں نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے:
”اردو میں میر اور غالب سے شغف تھا“
ایک جگہ انھوں نے لکھا ہے :
”یہاں یہ اعتراف دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ابتدامیں راقم الحروف (نثار احمد فاروقی) غالب سے مغلوب اور میر کا کلام تعصب کی عینک لگا کر پڑھتا تھا۔“
انھوں نے اپنے ادبی سفر کی ابتداءمیر سے کی تھی۔ ان کی سب سے پہلی ادبی کاوش” ذکر میر“ میر کی خودنوشت سوانح کا فارسی سے اردو ترجمہ ”میر کی آپ بیتی“ کے عنوان سے ہے، جس کے سبب وہ ادبی دنیا میں پہچانے گئے۔ اس کے بہت بعدانھوں نے مرزا غالب پر پہلا مقالہ ”غالب کا اسلوب“ لکھا جو۶۵۹۱ءمیں ”مہرنیم روز کراچی“ میںشائع ہوا۔ لیکن اس مقالے کے بعد ہی سے پروفیسر نثار احمد فاروقی غالب کے ہوگئے اور مرزا غالب پر پے در پے وقیع اور اہم کارنامے انجام دےے۔ غالبیات کے سیکڑوں نادر مآخذ و مصادر تلاش کےے اور غالب کو نئی نئی جہات سے اس طرح علمی دنیا میں متعارف کرایا کہ اس میدان میں تو زیادہ تر غالب کے عاشقوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ فاروقی صاحب کی غالب شناسی پر گفتگو کرنے سے پہلے ان تمام کارناموں کا مختصر ذکر کر دینا ضروری ہے جو انھوںنے غالب کے سلسلے میں کےے۔
دیوانِ غالب نسخہ امروہہ:
 اس دیوان کے بارے میں جب سے یہ دریافت ہوا اب تک سیکڑوں مقالات، متعدد کتابیں، اور بحثیں شائع ہوچکی ہیں۔ یہاں اس کی مختصر ترین روداد یہ ہے کہ یہ قلمی نسخہ امروہہ کے ایک معروف نوادر فروش جناب توفیق احمد قادری چشتی نے شقیق احمد بھوپالی سے گیارہ روپیہ میں خریدا۔ مختلف بحث و مباحثوں کے بعد نثار احمد فاروقی نے پہلی بار اس کے نسخہ غالب بخط غالب ہونے کی توثیق کی۔ ان کا اس اہم نسخے سے متعلق بہترین کام یہ ہے کہ اس پر ایک طویل مقدمہ، انتہائی اہم حواشی وفرہنگ کے ساتھ ہی اس کے دریافت کی سرگزشت بیان کی، بخط غالب ہونے کے ثبوت و شواہد پیش کےے۔ غالب کے املا اور انداز تحریر سے بحث کی، زمانہ
¿ ترتیب و زمانہ کتابت کا اظہار کیا۔ نسخہ میں شامل ۹۱غزلیں، ۲۱فارسی رباعیاں اور ایک اردو رباعی کا غیر مطبوعہ ہونا بتایا۔ غزلیات کی تعداد۳۵۲ اور کل اشعار کی تعداد ۴۵۶۱بیان کی مگر بحیثیت مرتب اس پر فاروقی صاحب کا نام نہیں ہے۔ ڈاکٹر گیان چند جین نے اپنی کتاب ”رموز غالب“ میں لکھا ہے:

” نسخہ میں مرتب کا نام صریحاً درج نہیں ہوا۔ لیکن چونکہ اس کے پہلے نثار احمدفاروقی صاحب کا طویل مقدمہ ہے اور فہرست عنوانات میں متن کی سرخی علاحدہ سے شامل نہیں کی گئی ہے، اس لےے ہم فرض کر سکتے ہیں کہ مقدمہ، متن اور تصریحات تینوں کے مرتب نثار احمد فاروقی ہیں۔“
اس کا بھی مختصر جواب یہ ہے کہ ”نسخہ امروہہ“ کی ملکیت اور دریافت کا مسئلہ متنازع تھا اس لےے پروفیسر نثار احمد فاروقی نے جان بوجھ کر اپنا نام بحیثیت مرتب شائع نہیں کرایا۔ یہ نسخہ پہلی بار ماہ نامہ”نقوش“ لاہور کے غالب نمبر دوم اکتوبر ۹۶۹۱ءمیں بڑی آب و تاب سے شائع ہوا۔ پروفیسر نثار احمد فاروقی اور محمد طفیل صاحب کے مخالفین نے اس پر بہت زیادہ ہنگامہ آرائی بھی کی، لیکن اس کی اولین اشاعت و تدوین کا سہرا نثار احمد فاروقی کے ہی سر رہا اور ان کا نام غالبیات میں سرفہرست آگیا۔اس کے ساتھ ہی پروفیسر نثار احمد فاروقی کی غالب پر ایک انتہائی عالمانہ و محققانہ تصنیف ”تلاش غالب“ ہے،جوغالب پر ان کے مختلف اوقات میں لکھے گئے مقالات کا مجموعہ ہے۔

اس کا تیسرا ایڈیشن ۹۹۹۱ءمیں غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی نے اچھے پیمانے پر شائع کیا۔ اس میں مضامین کی تعداد اٹھارہ ہے۔ جن میں سارے مقالات انتہائی تحقیقی و تنقیدی بصیرت کے ساتھ لکھے گئے ہیں اور غالب کے سلسلے میں انہیں ماخذو حوالے اور سند کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کتاب میں غالب کی اب تک کی نامعلوم تحریریں، خطوط، اشعار وغیرہ کم یاب یا قلمی ماخذ سے تلاش کرکے پیش کیے ہیں ان میں غالب کے متعلق اہم ضروری معلومات یعنی اس کا تاریخی ماحول و پس منظر، مزاج، زبان اوربہت سے نئے نئے پہلوو

¿ں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ پروفیسر نثار احمد فاروقی نے ان نادر تحریروں کا نہ صرف اصل متن ہی بعد اصلاح پیش کیا بلکہ ان کا پس منظر، فارسی تحریروں کا سلیس اردو ترجمہ تصریحات اور مراجع و ماخذ وغیرہ کا تفصیلی اندراج پیش کرکے نوجوان نسل کے لےے اس سے بھرپور استفادہ کو آسان ترکر دیا ہے۔ اس کتاب میں شامل ہر ایک مقالے پر گفتگو کرنا تو اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں ہے البتہ ایک دو مقالوں پر ضرور چند جملے کہنا چاہوں گی۔

”غالب تاریخ کے دوراہے پر“ اعلیٰ درجہ کی تاریخی و تحقیقی بصیرت کے ساتھ لکھا گیا مقالہ ہے۔ اس مقالے میں ہمیں غالب کے طفیل، اس وقت کی تاریخی، علمی، مذہبی، ادبی اور سماجی سرگرمیوں کے بارے میں اچھی معلومات فراہم ہوجاتی ہیں۔ دوسرے ”مطالعہ

¿ غالب، کے نئے امکانات“ کے عنوان سے ایک مقالہ ہے جو آئندہ غالب پر کام کرنے کے لےے مفید و کارآمد مشوروں پر مشتمل ہے جس میں بہت ہی کارآمد باتیں بیان کی گئی ہیں جو نئی نسل یا غالب پرستوں کے لےے ایک مشعل راہ کا کام دیتا ہے۔ اسی طرح ”تلاش غالب“ کے تمام ہی مقالات ہمیں فاروقی صاحب کی غالب شناسی کی غمازی کرتے نظر آتے ہیں۔ مرزا اسداﷲ خاں غالب کے بارے میں پروفیسر نثار احمد فاروقی کا ایک اور انوکھا کارنامہ ”غالب کی آپ بیتی“ ہے۔ اس کی سب سے بڑی اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ خود مرزا غالب کا ہے۔اس لےے مکمل طور پر مستند بھی ہے۔ اس میں فاروقی صاحب کا کارنامہ یہ ہے کہ غالب نے اپنے بارے میں اپنی مختلف تحریروں میں جگہ جگہ ضمناً جو بیانات دےے اس کو فاروقی صاحب نے اس حسن ترتیب سے سجایا ہے گویا غالب اگر اس کو سوانحی انداز میں لکھتے تو بالکل اسی طرح لکھتے:

”عرصہ ہوا میں نے رسالہ ”آجکل“ دہلی میں جناب محمد عتیق صدیقی کا ایک مضمون پڑھا تھا جس میں غالب کی زندگی کے حالات اس کے خطوط کی عبارتوں کو جوڑ کر بیان کےے گئے تھے۔ یہ خیال مجھے پسند آیا اور جب ۳۶۹۱ءمیں ”نقوش“ (لاہور) نے آپ بیتی نمبر کے لےے مضامین کا مطالبہ کیا تو میں نے غالب کے اردو خطوط کی مدد سے ایک مفصل آپ بیتی تیار کرکے بھیج دی، جسے عام طور پر بہت پسند کیا گیا۔“(۱)
فاروقی صاحب کا یہ کارنامہ پہلی بار ماہ نامہ ”نقوش“ لاہور کے آپ بیتی نمبر میں شائع ہوا پھر کتابی صورت میں کتابیات لاہور سے ۹۶۹۱ءمیں شائع ہوا اس کے بعد ۱۷۹۱ءمیںعلمی مجلس دہلی سے شائع ہوا اور چوتھی بار غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی سے۷۹۹۱ءمیں شائع ہوا۔ یہ چوتھا ایڈیشن کل ۶۷ صفحات پر مشتمل ہے جس میں شروع کے بارہ صفحات پر فہرستِ عنوانات، کوائف، سید منظر حسین برنی کا پیش لفظ، نثار احمد فاروقی کا دیباچہ (اشاعتِ ثانی) اور موجودہ مقدمہ ”عرضِ بساط“ اور ایک صفحہ پر غالب کا فوٹو وغیرہ ہیں۔ کتاب کی افادیت اور عوامی دلچسپی کے پیش نظر ۸۹۹۱ءمیں اس کا ہندی ایڈیشن بھی شائع ہوا ہے۔ مرزا اسداﷲ خاں غالب کی دیگر تحریروں سے اس میں ابھی اور بھی اضافے ہوسکتے تھے۔ حواشی میں ان کے بعض مشکل الفاظ کی تصریح و تشریح اور حوالے بھی ضروری تھے جیسا کہ خود فاروقی صاحب نے اعتراف کیا ہے۔
غالب نما:یہ مرزا غالب پر ۱۶۹۱ءتک لکھے گئے مضامین، اور کتابوں کااشاریہ ہے جو ماہ نامہ ’برہان“ دہلی، جنوری ۱۶۹۱ءمیں شائع ہوا۔ اس کے بارے میں فاروقی صاحب ”در مدح خود می سرایم“ میں لکھتے ہیں:
”غالب سے متعلق مضامین کا اشاریہ ”غالب نما“ پہلے میں نے ترتیب دیا جورسالہ ’برہان“ دہلی میں طبع ہوا۔ “(۲)
اس کے علاوہ پروفیسر نثار احمد فاروقی نے مرزا غالب پر متعدد مقالات مختلف اوقات میں لکھے جو ان کی کتاب تلاش غالب میں شامل نہیں بلکہ مختلف ادبی و علمی رسائل و جرائد میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ان تمام مقالات کو یکجا کرکے فاروقی صاحب کی ایک اور کتاب، غالب کے سلسلے میں شائع کی جا سکتی ہے۔
 کتاب نما کے نثار احمد فاروقی نمبر میں پروفیسر عبدالقوی دِسنوی نثار احمد فاروقی صاحب کے غالب سے متعلق مضامین و مقالات کا حوالہ دےتے ہوئے لکھتے ہیں:
” جن کی وجہ سے فاروقی صاحب کا نام غالب شناسوں میں شمار کیا جانے لگا تھا اور اہل ادب کے حلقوں میں وہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے تھے۔ لیکن صدسالہ جشن غالب کے عین ابتدائی ہنگاموں میں نثار احمد فاروقی کا نام غالبیات کے آسمان پر روشن ستارہ بن کر چمکنے لگا۔“(۳)
 میرے نزدیک غالب پر بہت زیادہ کام کرنا ”غالب شناسی“ کی دلیل نہیں۔ اس کے لےے ضروری ہے کہ غالب پر کام کرنے والوں نے غالب کے کلام اور نثری تحریروں کو کہاں تک سمجھا ہے اور اس کے الفاظ و معنی کی اساس کو کس درجہ تک پہنچے ہیں۔اس کے فکر و تخیل کو کہاں تک صحیح طور پر گرفت میں لائے ہیں۔ یہ دیکھنا ان کی غالب شناسی میں انتہائی ضروری امر ہے۔ آئےے دیکھیں کہ فاروقی صاحب نے خود غالب کو صحیح طور پر سمجھنے کے لےے کن شرائط کو ضروری قرار دیا ہے اور وہ خود ان شرائط پر کس حد تک پورے اترتے ہیں ۔ وہ ’تلاشِ غالب‘ میں لکھتے ہیں:
”غالب کہنے کو ایک شاعر ہے مگر اس کا گہرا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ کرنے والے کا چند صفات سے متصف ہونا ضروری ہے یعنی اسے تاریخ کا شعور ہو، فارسی زبان سے عالمانہ واقفیت ہو، اردو شاعری کی روایات اور عہد بہ عہد ارتقاءپر نظر ہو، وہ علوم مغربی جن کا نفوذ عہد غالب سے شروع ہوچکا تھا ان سے باخبر ہو، لغات پر گہری نظر رکھتا ہو، ہند ایرانی شائستگی کے رموز کا شناسا ہو۔ “ (۴)
اس میں کوئی شک نہیں کہ پروفیسر نثار احمد فاروقی ان تمام صفات حسنہ سے بدرجہ اتم متصف تھے۔ فاروقی صاحب درس و تدریس کی حد تک تو عربی زبان و ادب کے پروفیسر تھے مگر فارسی ادبیات کے رموز و نکات ان کی رگ رگ میں سرایت کےے ہوئے تھے۔انھوں نے فارسی کے کئی اہم علمی و ادبی متون کو نہ صرف مدوّن و مرتب کیا بلکہ ان کو تصریحات و تشریحات کے ساتھ بامحاورہ اردو زبان میں ترجمہ بھی کیا کیونکہ وہ فارسی زبان پر عالمانہ قدرت رکھتے تھے۔وہ ایک ذہین اور محنتی اسکالر تھے اس لےے ان کا تاریخی شعور بھی کمال کا تھا۔ یہاں میں ان کے دیگر تاریخی کارناموں کو نظرانداز کرتے ہوئے غالب ہی سے متعلق ان کے ایک تاریخی مقالہ ”غالب تاریخ کے دوراہے پر“ کا نام لینے پر اکتفا کرتی ہوں۔ اس مضمون کو پڑھ کر فاروقی صاحب کا تاریخی شعور اور تاریخی ذہن ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ لغات پر بھی ان کی بڑی گہری نظر تھی، فاروقی صاحب کو انگریزی زبان و ادب سے بھی کماحقہ واقفیت ہے کیونکہ وہ انگریزی زبان میں بھی کئی کتابوں کے مولف و مترجم ہیں، ان کا پی ایچ ڈی مقالہ مکمل انگریزی زبان میں ہے۔ اسی سبب انہیں مغربی علوم پر بھی اچھی دسترس حاصل تھی۔ ہندایرانی اور مشرقی شائستگی کے رموز و حقائق کی آشنائی تو انہیں گھٹی میں گھول کر پلائی گئی تھی۔ اردو شاعری کی قدیم و جدید روایات اور عہدبہ عہد ارتقاءپر انہیں کتنا عبور تھا یہ جگ ظاہر ہے۔ عہد بہ عہد تو دور کی بات ہے نثار احمد فاروقی اردو شاعری کی روایات کے ایک ایک قدم سے واقفیت رکھتے تھے۔
مجھے تعجب ہے جو اسکالرس فارسی زبان و ادب سے پوری طرح واقف نہیں وہ کیونکر غالب آشنائی کا دعویٰ کرتے ہیں یا ان کے یارانِ درگاہ انہیں کیوں ”غالب آشنا“ کہتے ہیں۔
مرزا اسداﷲ خاں غالب کے ذہن و فکر اور اس کے تخیل، عقائد و نظریات سے فاروقی صاحب کو کس درجہ آشنائی تھی اس کا اندازہ اس تحریر سے ہو سکتا ہے جو ان کی بالکل ابتدائی دور یعنی اس زمانہ کی تحریر ہے جب فاروقی صاحب دلی یونیورسٹی میں عربی اےم اے کے طالب علم تھے۔ ملاحظہ کیجئے فاروقی صاحب کی میر و غالب آشنائی۔
”غالب صاحبِ فکر ہیں، میر صاحبِ نظر، غالب ایک مفکر ہیں، میر مبصرو مشاہد، غالب دماغ سے زیادہ کام لیتے تھے، میر دل سے، میر کا ”عشق“ جس آگ میں ”بے خطر کود پڑتا ہے“ وہاں غالب کی ”عقل محو تماشہ

¿ لب بام“ نظرآتی ہے۔ میر کے الفاظ میں ان کے معانی گم ہوجاتے ہیں اور غالب کے معانی میں الفاظ، میر کے اشعار پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ الفاظ، معانی کو وسعت دے رہے ہیں جبکہ غالب کے اشعار میں معنی، الفاظ کی اہمیت کا سبب بن جاتے ہیں اور مختصر کرکے یوں کہیںگے کہ غالب کے اشعار میں فشارِ الفاظ ہے اور میر کے کلام میں فشار معانی، دونوں آرٹ جداگانہ ہیں اور بڑے ہیں۔ غالب اور میر کے بنیادی تصورات میں بھی بہت فرق ہے، میر کو تصوف کی عملی تعلیم ملی، جس نے ان کے دل کی کھڑکیوں کو کھول دیا۔ غالب نے فلسفہ اور تصوف کو کتابوں میں تلاش کیا۔ ان کے ذہن کو بیداری اور روشنی ملی، دراصل غالب کو میر کی تصویر کا دوسرا رُخ سمجھنا چاہےے، یہ بات ضرور ہے کہ جتنی رنگا رنگ، دل کش اور جامع شخصیت غالب کی ہے اتنی میر کی نہیں، غالب زندگی کی تلخ حقیقتوں پر ہنستے ہیں اور میر روتے ہیں۔ “(۵)

دیکھےے مندرجہ بالا اقتباس میں کس باریک بینی اور بصیرت افروزی سے غالب کی شخصیت اور فن کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ پروفیسر نثار احمد فاروقی کی اسی طرح کی عالمانہ اور ناقدانہ تحریریں انھیں غالب شناسوں میں ایک ممتاز مقام اور منفرد حیثیت کا حامل قرار دیتی ہیں۔ ان کے تمام مقالات کو پڑھ کر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ فاروقی صاحب غالب کی تمام تصانیف اور تحریروں پر ایک عالمانہ غلبہ اور عبور رکھتے ہیں۔ غالب کی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے واقعے اور حادثے پر ان کی نگاہ ہے۔ اب تک کی دریافت شدہ غالب کی تمام تحریروں اور دیوانِ غالب کے تمام معلوم نسخوں پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ غالب کے کلام کی صحیح قرا

¿ت پر فاروقی صاحب کو اچھی قدرت حاصل ہے۔ اس کے اختلافات اور دوسرے لوگوں کے ذریعہ پیدا کےے گئے اشکالات پر فاروقی صاحب کو مکمل واقفیت ہے اور وہ اس کی مکمل معلومات رکھتے ہیں۔ بعض کے مدلل جوابات بھی لکھ چکے ہیں۔ غالب کے خاندان، آباواجداد، معاصرین ومعاندین، اور اس کے مکتوب الیہ و شارحین و ناقدین سے بھی پوری طرح واقف ہیں۔ یہی دلائل ہیں،ان کی غالب شناسی کے۔

کتابیات:
(۱) ”غالب کی آپ بیتی“ ص ۱۱، ۲۱ مطبوعہ ۷۹۹۱ء
  غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی
 (۲) ماہ نامہ ”انشا“ کلکتہ ،ص ۱۱،نثار احمدفاروقی نمبر
(۳) ”کتاب نما“ کا پروفیسر نثار احمد فاروقی نمبر ص : ۸۳
(۴) تلاش غالب ص: ۰۹۳
(۵) دہلی کالج میگزین کا ”میرنمبر“ ص ۳۴۱ ،
  مرتبہ پروفیسر نثار احمد فاروقی
***




غزليات
وقت کو چپ سی لگی ہو، یہ ضروری تو نہیں
آپ جو کہہ دیں وہی ہو، یہ ضروری تو نہیں

اک گلی جس کے لےے چھوڑ دیا گھر ہم نے
وہ تمھاری ہی گلی ہو، یہ ضروری تو نہیں

آگ پھولوں سے بھی گلزار میں لگ سکتی ہے
کوئی بجلی ہی گری ہو، یہ ضروری تو نہیں

وہ جو زندہ ہے زمانے کی خوشی کی خاطر
اس کی خاطر بھی خوشی ہو، یہ ضروری تو نہیں

سب سمندر کی شناسائی کا دم بھرتے ہیں
پیاس بھی سب کی بجھی ہو، یہ ضروری تو نہیں

قیدی آزاد فضاوں میں بھی مل جائیں گے
پگ میں زنجیر پڑی ہو، یہ ضروری تو نہیں
ایاز گورکھپوری
A-302 ، فلوریڈا، شاستری نگر، اندھیری (ممبئی)


مری انا کا اثاثہ ضرور خاک ہوا
مگر خوشی ہے کہ تیرے حضور خاک ہوا

مجھے بدن کے بکھرنے کا غم نہیں لیکن
ملال یہ ہے دلِ نا صبور خاک ہوا

میں اپنی خاک سے روشن ہوا جو صورتِ مشک
تمام موسمِ گل کا غرور خاک ہوا

بچھڑ کے تجھ سے یہ کم تو نہیں زیاں میرا
ہر ایک منظرِ نزدیک و دور خاک ہوا

میں حرف حرف تو روشن کیا گیا لیکن
لکھا ہوا تھا جو بین السطور خاک ہوا

یہ کیسا قحط مرے ذہن و دل پہ آیا ہے
سلیم میری غزل کا شعور خاک ہوا
سلیم انصاری
آنند نگر، جبل پور (ایمپی)

پھول کو اُس کی نکہت زندہ رکھتی ہے
رشتوں کو بس حاجت زندہ رکھتی ہے

خیر کو، خیر سے الفت زندہ رکھتی ہے
جبر کو اُس کی لذت زندہ رکھتی ہے

جس منظر سے جیسی نسبت ویسا راج
ہر منظر کو نسبت زندہ رکھتی ہے

اہل نظر میں اُن کی کیا قیمت، جن کو
جھوٹی شان و شوکت زندہ رکھتی ہے

سوچ سمجھ کر سنگت کی انگلی تھامو
سنگت کو تو رنگت زندہ رکھتی ہے

ہم دونوں کے بیچ کی وحشت رانی کو
”تیری میری نفرت زندہ رکھتی ہے“

زندہ تحریروں کو مظہر موت کہاں
زندہ لفظ کی عظمت زندہ رکھتی ہے
مظہر محی الدین
                                                           کوپل
9448326670

قلب و یراں ہے کیا کیا جائے
عقل پےچاں ہے کیا کیا جائے

فکر تو ایک طائر حُر ہے
لفظ زنداں ہے کیا کیا جائے

دیکھو چلنا سنبھل سنبھل کے یہاں
راہ مژگاں ہے کیا کیا جائے

غم سے کس کو نجات ملتی ہے
غم کا ساماں ہے کیا کیا جائے

آدمی آدمی میں نفرت ہے
شہر ویراں ہے کیا کیا جائے

جس کو دیکھو وہ آسمان پہ ہے
بزمِ رنداں ہے کیا کیا جائے

یہ سبھی عشق کے مراحل ہیں
حسن خنداں ہے کیا کیا جائے

آبلے بھی مجھے گوارا ہیں
کوئے یاراں ہے کیا کیا جائے

تم کو طاہر سے کیا شکایت ہے
وہ پریشاں ہے کیا کیا جائے
طاہر مدنی
ناظم جامعة الفلاح بلریا گنج، اعظم گڑھ(یوپی)
9450737539

خود کو ہرگز نہ تم سزا دینا
رفتہ رفتہ مجھے بھلا دینا

دل دکھانا تو اس کی عادت ہے
آپ کا کام ہے دعا دینا

تم بھی شعلوں کی زد میں آوگے
نفرتوں کو نہ یوں ہوا دینا

بندگی کا یہی تقاضا ہے
اس کا سکّہ یہاں چلا دینا

جب بھی جاوید مشکلیں آئیں
                                                تم اسے ہی فقط صدا دینا        
جاوید صدیقی
ابو ظہبی

خود پہ گر انحصار کرنا ہے
اپنا کل پُر وقار کرنا ہے

پُر خطر راستوں سے ہوکر ہی
خار زاروں کو پار کرنا ہے

ہر نیا زخم حوصلہ دے گا
زخم کا کیا شمار کرنا ہے

لے کے پھولوں سے اس کی رعنائی
ہر طرف لالہ زار کرنا ہے

اَبر کو دیکھ کر زمیں بولی
کب تلک انتظار کرنا ہے
ارشد قمر
ڈالٹن گنج (جھارکھنڈ)
8092535235

سنتا ہوں وہ جفا پہ بہت شرمسار ہے
مجھ کو یقیں نہیں ہے، وہ بے اعتبار ہے

جتنے بھی زخم کھائے ہیں، ان کا شمار ہے
قاتل ترا حساب بھی مجھ پر اُدھار ہے

بے لطف ہے بہار جو دل بے قرار ہے
دل کو سکون ہو تو خزاں بھی بہار ہے

یا لِلعجب، جہاں کا عجب کاروبار ہے
دولت ہے باوقار، بشر بے وقار ہے

کب ختم ہوگی رات؟ بڑا اضطرار ہے
اے صبح انقلاب، ترا انتظار ہے

دنیا کے جبر کا جو مرے دل پہ بار ہے
غازی وہی کلام سے بھی آشکار ہے
محمد اسلم غازی
9869106329
maghazi.jih@gmail.com


کہاں کسی پہ بھی کھلنے دیا محبت کو
تمہارا نام ہمیشہ حجاب میں رکھا

تمہاری آنکھوں کے ہائے شراب خانے وہ
بھلا نشہ کہاں ایسا شراب میں رکھا

تمہارا عکس ہے جو چاند یوں چمکتا ہے
وگرنہ کچھ بھی نہیں ماہِ تاب میں رکھا

نہ جانے کتنی ادھوری کہانیاں چھوڑیں
مگر تمہیں تو ہے ہر ایک باب میں رکھا

تمام دن کی تھی مصروفیت مگر پھر بھی
تمہیں نہ بھول سکے روز خواب میں رکھا

ہو ایک تم کہ سوالوں میں ہم کو رکھتے ہو
اور ایک ہم ہیں تمہیں ہر جواب میں رکھا

تمہیں نے دی مجھے تحریک شعر گوئی کی
تمہارا نام غزل کی کتاب میں رکھا
حیدرعلوی
لکھنو (یوپی)
نظـــــم
نوائے مومن

کریں اہل کلیسا لاکھ اپنی سعی امکانی
مٹا سکتے نہیں حق کے رخِ زیبا کی تابانی

کریں مطعون یہ جتنا بھی چاہیں ذاتِ اقدس کو
نہیں گھٹ سکتی ہے شمعِ رسالت کی ضو افشانی

نہ دو الزامِ ظلمت ہم کو ظلمت کے پرستارو!
ہمارا دین ہے اوّل سے آخر دینِ نورانی

ملا ہے در گہ حق سے ہمیں یہ رُتبہ عالی
کہ ہم ہیں خیرِ امت، تم سراپا شر و طُغیانی

تمھارے کون سے حاکم نے دنیا کو دکھائی ہے
ابوبکرؓ و عمرؓ، عثمان و حیدرؓ جیسی سلطانی

ہمارے عہدِ زرّیں میں یہ دنیا رشک جنت تھی
مگر اب ہر طرف کردی ہے تم نے خوں کی ازرانی

عداوت اور نفرت کے علاوہ کیا دیا تونے
عطا کی ہم نے دنیا کو محبت کی فروانی

تمھاری کھوکھلی تہذیب میں آخر دھرا کیا ہے
بہیمیت، خباثت، بے حیائی اور عریانی

زوال آمادہ ایسی قوم کو سمجھو تم اے عارف
جو بن جاتی ہے حیواں کھوکے اپنی شانِ انسانی
احسان عارف آئمی
جامعة الفلاح، بلریا گنج، اعظم گڑھ (یوپی)
 9793561145

بک شیلف
انجم عثمانی
نئی دہلی

          رات کے پہلے پہر وہ دفتری سفر سے گھر لوٹا تو کافی سامان نئے مکان کے باہر لان میں پڑا ہوا تھا۔ جب وہ ٹور پر جارہا تھا تو اس نئے مکان میں شفٹنگ شروع ہوچکی تھی۔ چاہتا تو یہی تھا کہ پرانے مکان سے پوری طرح نئے مکان میں منتقل ہونے تک ٹور تو کیا وہ آفس بھی نہ جائے اور اس نے کچھ دن کی چھٹی لے بھی لی تھی مگر کسی دفتری مجبوری کی وجہ سے اسے چھٹی منسوخ کرکے اچانک دفتری سفر اختیار کرنا پڑا۔ ملازمت بہر حال ملازمت ہے، چاہے وہ افسر ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ جاتے جاتے وہ اہلِ خانہ سے کہہ گیا تھا کہ شفٹنگ کا کام جاری رکھا جائے ، وہ ایک دو دن میں آہی جائے گا۔ اور ہوا بھی ایسا ہی اور جب وہ سفر سے لوٹا تو اس نئے مکان کے لان میں کئی دوسری چیزوں کے ساتھ اس کی وہ بک شیلف بھی رکھی تھی جسے اس نے ہمیشہ اپنی مختصر سی لائبریری کے طور پر سجائے رکھا تھا۔
          وہ ایک پرانا سرکاری ملازم تھا، اب رٹائرمنٹ کے قریب تھا، مگر سرکاری ملازمت کی ساری مدت میں وہ کیسے بھی چھوٹے سے چھوٹے مکان میں رہا ہو، کتابوں کا یہ شیلف ہمیشہ مکان کے اہم کونوں میں جگہ پاتا رہا تھا۔ کتابوں کے اس ستھرے ذوق نے ہی غالباً اس کو فائلوں کے بے جان کاغذوں اور دفترزدہ جسموں کے درمیان سالہا سال گھرے رہنے کے باوجود باطنی طور پر خود کو زندہ رکھنے میں مدد کی تھی۔ اس میں ابھی تک وہ گوشہ محفوظ تھا جس میں جذبہ، تہذیب اور تربیت سانس لیتی ہے۔ اسے یاد تھا کہ قصبے کے بڑے سے گھر کے چھوٹے بچے جب خود مدرسے جانے کے لائق ہوجاتے تو اونچی دیواروں والے دالانوں میں بنی چھوٹی چھوٹی سی الماریوں میں سے ایک الماری جسے ان کے یہاں کھڑکی کہتے تھے اس بچے کی اختیار میں دے دی جاتی ہے۔یہ چھوٹی سی الماری اس کی پوری دنیا بن جاتی ، وہ اسے صاف کرتا اور سجاتا اور اپنا قاعدہ، کاپی قلم اور بہت سی ایسی چیزیں جنھیں وہ اہم سمجھتا اس میں رکھتاتھا، کچھ اور بڑی کلاسوں میں جاتا تو اسے گھر میں بڑی الماری مل جاتی اور بالغ ہوکر الگ ایک کمرہ مل جاتا ، گویا معاشرتی تربیت تھی جو مرحلہ وار طے ہوتی۔
          سرکاری ملازمت کے سلسلہ میں شہر آکر اسے پڑھنے کے لےے ایک الگ کمرہ تو در کنار کبھی الگ سے کوئی گوشہ بھی میسر نہیں آیا، مگر اس نے اس بات کا اہتمام رکھا کہ اسے اپنے لےے جو گوشہ بھی میسر آئے اس میں کتابوں کے اس شیلف کو ایڈجسٹ کرے اور اب تو خیرسینئر ہونے کے ناطے اسے اچھا خاصا بڑا مکان ملاتھا اور اس کا ارادہ تھا کہ وہ جلد ہی ایک بڑی سی الماری خریدے گا اور باقاعدہ اپنا اسٹڈی روم بنائے گا، مگر بڑا مکان ملنے پر اس کے چھوٹے سے بک شیلف کو غیر ضروری سامان کی فہرست میں ڈال دیا گیاتھا اور اب رات کی نیم تاریکی میں نئے مکان کے لان میں ایسے رکھا تھا جسے رکھا ہوا نہیں پڑا ہوا کہتے ہیں۔
          ” کیسا رہا آپ کا سفر؟“ کھانے کی میز پر اس کے سامنے کھانا بڑھاتے ہوئے اس کی بیوی نے پوچھا۔
          سرکاری ٹور سب ایک جیسے ہوتے ہیں، بس وہی روٹین ورک۔
          ” نئے مکان میں شفٹنگ میں کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی۔“اس نے پوچھا۔
          ” نہیں۔ سجاوٹ کیسی لگی آپ کو؟کافی اچھی ہے، بس کچھ چیزوں کو شایدایڈ جسٹ نہیں کیا جاسکا۔
          ” ہاں اصل میں بچے کچھ نئی چیزیں خرید لائے تھے اس لےے کچھ چیزوں کے لےے جگہ نہیں بچی۔“
          ” جو چیزیں ایڈجسٹ ہونے کی طاقت نہیں رکھتیں، وہ کہاں جگہ بنا پاتی ہیں۔“ اس کا دل چاہا زور سے چلا پڑے اور مکان میں موجود لوگوں کو بتائے کہ کتنے سال سے وہ سب کو ایڈجسٹ کےے ہوئے ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو شاید تم یہ نئی چیزیں خریدنے کے لائق ہی ہوتے، مگر وہ خاموشی پسند ایک صلح کل شخص تھا۔ ایک خاص تہذیب کا پروردہ ہونے کی وجہ سے بہت مرتبہ اس کا رد عمل عام لوگوں سے مختلف ہوتا تھا۔ اس نے خاموشی سے کھانا کھایا اور اپنے سونے کے کمرے میں چلا گیا۔ اس کے کمرے کی کھڑکی اسی لان میں تھی جہاں دوسری چیزوں کے ساتھ اس کی وہ بک شیلف بھی رکھی ہوئی تھی۔
          اس نے ارادہ کیا کہ ابھی کہ ابھی لان میں سے کتابیں لاکر اپنے کمرے میں کچھ جگہ بنا کر صحیح جگہ رکھ دے، مگر بیچ رات میں سامان ادھر سے ادھر کرنا اور سب کو جگانا اسے مناسب نہیں لگا۔ وہ سونے کی کوشش کرنے لگا مگر سفر کی تھکان کے باوجود اسے نیند نہ آئی۔ اس نے کھڑکی کے باہر جھانک کر دیکھا، اسے محسوس ہوا کہ اس کے بچپن کے کچھ دوست، اس کے کئی محسن رات میں گھر کے باہر کھڑے اس کو عجیب نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ کئی کتابوں کے کردار شیلف سے باہرنکل آئے تھے اور اس سے استفسار کرنے لگے تھے:
          ” کیوں جناب بس ہوچکی دوستی، ایک تو ایسے موقع پر ہمیں تنہا چھوڑ کر چلے گئے، جب ہماری جگہ بدلی جارہی تھی اور اب کیسے آرام سے نئے مکان میں بستر پر دراز ہیں اور ہم یہاں لان میں ٹھٹھر رہے ہیں۔“ کسی کردار نے اس کی ونڈو تھام لی تھی ، کوئی کہہ رہا تھا ” ہم نے تمھاری اداسیوں، تمھاری تنہائیوں میں تمھارا کتنا ساتھ دیا مگر تم ....“
          مجھے تو تم جانتے ہونا، مجھ سے تو تمھیں لگ بھگ عشق تھا۔ کہانی ایک ہیروئین نے اسے یاد دلایا ” تم نے میرے نام پر اپنی بچی کا نام تک رکھ دیا، مگر ....“ رات کا آخری پہر ہوچکا تھا .... نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ بے قراری کے اسی عالم میں اس نے صبح کی۔ اگلی صبح لوگوں نے دیکھا کہ و ہ گھر کے باہر لان میں رکھے بک شیلف میں سے کتابیں اس طرح منتقل کررہا ہے جیسے کسی کی انگلی تھام تھام کر اندر لا رہا ہو۔ اس کے چہرے کے تاثرات نے کسی کو جرا¿ت نہ ہونے دی کہ اس سے کچھ سوال کرسکے۔

          شیلف سمیت ساری کتابیں اندر لاکر وہ آرام سے کرسی پر آکر ایسے بیٹھ گیا جیسے اس کے کمرے میں اس کی پسند کے بہت سے دوست جمع ہوں۔ سفر کی تھکان اور نیند کا خمار اس کی آنکھوں سے غائب تھا، اس نے کھڑکی میں سے کمرے کے باہر نظر ڈالی جہاں دونوجوان ایک پرانے سے اسکوٹر پر ایک بڑا سا ٹی وی سیٹ ڈھوئے لے جارہے تھے۔
          اس کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ چمکی۔ بہت اطمینان کے ساتھ اس شیلف سے ایک کتاب نکالی، اس پر ایسے ہاتھ پھیرا جیسے کسی بے تکلف دوست سے ہاتھ ملا رہا ہو اور سکون کے ساتھ بیٹھ کر پڑھنے لگا۔
***

مُہرِتصدیق
ضیاء کرناٹکی
بنگلور
”جاوید! شادی کے دعوت نامے کے نمونے آگئے کیا؟“
امین الدین نے اپنے پرسنل اسسٹنٹ سے پوچھا!
”جی ہاں صاحب! ابھی کچھ دیر پیشتر، امان رقعوں(شادی کارڈز) کے نمونوں کا البم لے کر آیا ہے۔“ جاوید نے البم امین الدین کے سامنے رکھ دیا۔
امین الدین البم کھول کر ہر رقعے کو غور سے دیکھنے لگے۔ پھر ایک رقعے پر اپنی انگلی رکھ کر کہنے لگے۔
”جاوید! یہ رقعہ جاذب نظر ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ ہمارا رُقعہ(شادی کارڈ) اس سے زیادہ خوبصورت ہو ،کاغذ بھی بہت موٹا و چوڑا ہونے کے ساتھ ساتھ کور بھی شاندار ہو“
”جی صاحب! میں ابھی پر نٹنگ پریس کے مینیجر کو یہاں بلوا لونگا۔“ کچھ ہی دیر بعد پرنٹنگ پریس کا مینیجر امین الدین کے بنگلے میں حاضر ہوگیا۔
”آداب عرض ہے جناب! فرمائےے، آپ کی پسند کا رقعہ تیار کرنے میں ہمیں خوشی ہوگی، آپ کی ہدایت پر سختی سے عمل کیا جائے گا“۔
مینیجر نے نہایت ہی ادب سے امین الدین صاحب کے سامنے اپنی بات رکھی۔
”جاوید نے آپ کو ہماری پسند کے رقعے کی نشاندہی کردی ہوگی۔ دیکھو، رقعے(شادی کارڈز) بہت ہی نفیس اور دلکش ہونے چاہئےں، اور تقریباً دوہزار رقعے پرنٹ کرنے ہوںگے۔“
امین الدین بڑے رعب دار آواز میں مینیجر سے مخاطب ہوئے۔
”جناب آپ کی پسند کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا۔ ایک رقعے کی قیمت تقریباً دوسو روپے ہوگی“۔
 مینیجرنے ڈرتے ڈرتے قیمت بھی بتادی۔
”ارے میاں! تم اپنا کام کرو۔ تمہیں تمہارے کام کے دام مل جائیں گے“۔
 اس طرح امین الدین کی دختر، شاہین مہ لقا کی شادی کی تیاریوں کا آغاز ہوا۔
”جاوید! موتی محل کی بُکنگ کی کتنی رقم ہوگی؟“
”صاحب،7لاکھ روپے ادا کرنے ہوں گے۔“
”اچھا! اب کیٹرر کو بلوا لو۔ اور اُسے نان ویج اور ویج(گوشت اور سبزیوں) دونوں پکوانوں کی ذمہ داری سونپ دو۔ اور اس سے کہو کہ دوہزا رلوگوں کے کھانے کا انتظام کرنا ہے“۔
”شام تک مجھے کیٹرنگ کی جملہ رقم کا حساب مل جانا چاہےے“۔
اتنا کہہ کر امین الدین صاحب دیگر انتظامات کے سلسلے میں فون پر اپنے ماتحتوں کو ہدایات دینے میں مشغول ہوگئے۔
امین الدین کافی مالدار اور کامیاب بزنس مین ہیں۔ شہر کے باہر ان کا فارم ہاﺅس بھی ہے،ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ان کے بیٹے پڑھ لکھ کر ان کے بزنس میں ان کا ہاتھ بٹارہے ہیں۔ان کی بڑی بیٹی کامرس میں گریجویٹ ہے اور چھوٹی بیٹی ابھی کالج میں زیر تعلیم ہے۔ ان کی بیوی بھی اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتی ہےں اور تعلیم یافتہ بھی ہیں۔
مہ لقاکا رشتہ شہر کے ایک اور مالدار گھرانے میں طے ہوا ہے۔ لڑکا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور خوبرو ہے۔ اس کا نام گوکہ فیروز احسان اللہ ہے مگر خاندان میں فیروزکے نام سے جانا جاتا ہے اور سب کا لاڈلا ہے۔ اس کے والد عظیم اللہ، امین الدین کے گہرے دوست ہیں۔ اس ناطے سے دونوں خاندانوں میں پُرانا رشتہ ہے لیکن عظیم الدین کی بیوی نغمہ خاتون کافی اناپرست ہیں۔ وہ اپنے آپ کو سب سے الگ سمجھتی ہیں اور حددرجہ مغروربھی ہیں۔ انہیں اپنی آن بان اور شان کا بہت خیال رہتا ہے۔ اسی لئے وہ اپنے بیٹے فیروز احسان اللہ کی شادی بڑی دھوم دھام سے کرنے کی خواہش مند ہیں۔ انہیں کی ایما پر مہ لقا اور فیروز احسان اللہ کی شادی کی تیاریاں بڑے ہی شاندار پیمانے پر ہورہی ہیں۔
جاویدنے، امین الدین کے سامنے نکاح خوانی تک ہونے والے اخراجات کا تخمینہ پیش کیا۔ اور ان کی بیوی آمنہ خاتون نے زیورات اور دُلہن کے ملبوسات، لاچا اورساڑھیاں اور دیگر اشیاءکے اخراجات کا حساب کتاب پیش کیا۔
امین الدین صاحب کے سامنے تقریباً ایک کروڑ روپیوں کے اخراجات کی فہرست تھی۔ اس کے علاوہ، دولہا کی والدہ نعیمہ خاتون کے مطالبے پر شہر کے پوش علاقے میں ان کی ایک سائٹ جس کی لاگت تقریباً 80لاکھ ہے، اس کی بھی دولہا کے نام پر رجسٹریشن ہونے والی ہے۔ مزید برآں دولہا کے نام پر ابھی ابھی مارکیٹ میں آئی ہوئی ایک نئے ماڈل کی کار بھی بک کروانے کے انتظامات ہونے جارہے ہیں۔ جس کی قیمت تقریباً70 لاکھ روپے ہیں۔
اسی دوران میں امین الدین نے دولہا کے والداور اپنے دوست عظیم اللہ کو فون کے ذریعہ رابطہ قائم کرکے اپنے ہاں بلوا بھیجا۔ عظیم اللہ وقت ضائع کئے بغیر امین الدین کی قیام گاہ پہنچ گئے۔ چائے کا دور چلا، امین الدین نہایت ہی نرم لہجہ میں عظیم اللہ سے مخاطب ہوئے۔
”عظیم ! ہماری جانب سے شادی کی تیاریوںکا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ شادی کے اخراجات تقریباً ایک کروڑ نوے لاکھ روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ 80لاکھ روپے کی لاگت کی سائٹ بھی احسان اور مہ لقا کے نام پر رجسٹرڈ ہو جائے گی۔ اور 70لاکھ کی کار بھی بُک ہوجائے گی۔ یعنی جملہ تین کروڑ سے زائد کا تخمینہ میرے سامنے پیش ہوچکا ہے۔ اب تم بتاﺅ تمہاری طرف سے شادی اور ولیمہ کے لئے کتنے اخراجات کا اندازہ لگوایا گیا ہے“۔
عظیم اللہ امین الدین کی باتوں کو سن کر چونک پڑے، پھر انہوں نے نہایت ہی اطمینان سے جواب دیا۔
 ”دلہن کے زیورات اور کپڑے لتوں کے لئے تقریباًپچاس لاکھ اور دیگر اشیا کے لئے چالیس یا پچاس لاکھ اور ولیمے کی دعوت کے لئے بھی تقریباً پچاس لاکھ روپیوں کا حساب لگوایا گیا ہے۔ کیٹرر نے کہا ہے کہ کھانے کھلانے اور پلانے میں کوئی چوک نہیں ہوگی۔ جیسا نکاح میں کھانے پینے کا انتظام ہوگا اسی طرح یا اس سے بڑھیا طریقے سے دعوت کا انتظام ہوگا۔ نان ویج میں چکن کباب، شیرمال، رومالی روٹی، گاجر اور کدّو کا حلوا، متنجن اوردیگر لوازمات کے ساتھ بیرونی حصے میں آئیس کریم، جلےبی، کولڈ ڈرنکس، چائے اور پان کے اسٹال بھی ہوں گے۔ ویج پکوان میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی، انشاءاللہ“۔
ایک ہی سانس میں عظیم اللہ نے اپنی جانب سے شادی میں ہونے والے اخراجات اور ولیمے کی دعوت کا ایک دلکش خاکہ پیش کردیا۔ امین الدین نے بڑے غورسے عظیم اللہ کی باتوں کو سنا اور پھر یوں گویاہوئے۔
”عظیم ! تو اس شادی میں جملہ 4کروڑ سے زائد رقم خرچ ہوجائے گی اور شادی کے چرچے سب کی زبانوں پر چند روز تک رہیں گے۔ اس کے بعد حسب معمول دُنیا کے کام و کاج میںمصروف ہوکر لوگ اس شادی کو بھول جائیں گے۔“
”تم کہنا کیا چاہتے ہو بلا جھجھک صاف صاف بتاﺅ، تامّل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟“
عظیم اللہ نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”جو سائٹ یا زمین احسان کو دی جارہی ہے ویسی کئی سائٹس یا زمینیں تمہارے پاس بھی ہیں۔ اور نئے ماڈل کی کار جو 70لاکھ میں خریدی جانے والی ہے ویسی نہ سہی لیکن کار تو تمہارے اور احسان کے پاس موجود ہے۔ تو کیوں نہ ہم اس سائٹ پر ایک وسیع عمارت کھڑی کروادیں۔ “
”امین الدین نے عظیم اللہ کے سامنے ایک چونکا دینے والی تجویز رکھی۔“
” عمارت کھڑی کروا کے کیا کروگے؟“
عظیم اللہ نے تعجب سے پوچھا۔
”ارے بھائی! ہم اس عمارت میں لڑکیوںکی تعلیم اور خواتین کے روزگار کی تربیت کے مراکز قائم کرسکتے ہیں“۔
عظیم اللہ کسی سوچ میں ڈوب گئے۔ وہ امین الدین کے ارادے کو بھانپ چکے تھے۔ انہوں نے کہا ۔
”لیکن نعیمہ خاتون کو سمجھانا ذرا مشکل ہوگا۔ ان کے ذہن میں ہمارے بچو ں کی شادی کا جو نقشہ بن چکا ہے اس کو بدلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے“۔
”دیکھوعظیم ! اس عمارت میں ہم لڑکیوں اور بے روزگار خواتین کے لئے زردوزی اور ٹیلرنگ کی تربیت کے شعبے قائم کرکے نئے نئے ڈیزائن کے ڈریسز مارکٹ میں لا سکتے ہیں۔اور آج کل وےسے بھی نقش و نگار کا فیشن چل پڑا ہے۔ اس سے سینکڑوں عورتوںکو روزگار مہیا ہوگا۔ اس کے علاوہ ایس ایس یل سی یا پی یو سی تک پڑھی ہوئی لڑکیوں کے لئے کمپیوٹر کی تعلیم کا شعبہ بھی قائم کرسکتے ہیں۔ اور ان کو انگریزی،اُردو، کنڑا اور عربی زبان کے کمپیوٹر آپریٹر بننے کا موقع ملے گا۔ مزید برآں اُس میں ہم ایک اسکول بھی قائم کرسکتے ہیں جہاں پرائمری سے لے کر کالج تک کی تعلیم کا انتظام ہوسکتا ہے“۔ اس طرح امین الدین نے اپنا منصوبہ پیش کیا۔
عظیم اللہ نے کہا۔
”میں تمہارے جذبے کی قدر کرتا ہوں ہمارے چار کروڑ روپے جو چند دِنوں کے لئے خرچ ہونے والے ہیں وہ تمہارے تجویز کردہ منصوبے پر خرچ ہوں گے تو ہمارے دیگر مالدار طبقے کو بھی اس سے تحریک ملے گی۔ہو سکتا ہے ان کے روپے بھی ہماری اسکیم میں شامل ہوجائیں اور ہمارے 4کروڑ کی رقم سے شروع ہونے والی یہ اسکیم 4سوکروڑ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔لیکن سوال نعیمہ خاتون کو سمجھانے کا ہے۔ ان کو سمجھا لیا جائے تو ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔“
اس دوران میں امین الدین کی بیگم آمنہ خاتون نے نعیمہ خاتون کو بھی اپنے بنگلے پر بلوالیا تھا اور وہ دونوں چلمن کی اوٹ سے اپنے شوہروں کے درمیان ہونے والی گفتگو غور سے سن رہی تھیں۔
امین الدین نے کہا۔دیکھو عظیم ”نعیمہ بھابھی بہت ہی نیک سیرت اور پڑھی لکھی خاتون ہےں ان کو سمجھانے میں ہمیں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ ہاں! یہ اسکیم انہیں کے نام سے شروع ہوگی۔یعنی نعیمہ خاتون گرلز اینڈ ویمن ایمپلائمنٹ اینڈ ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ کے نام سے اس کی بنیاد رکھی جائے گی۔ “
”نعیمہ خاتون انسٹی ٹیوٹ نہیں بلکہ آمنہ خاتون گرلز اینڈ ویمن ایمپلائمنٹ ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ کے نام سے یہ ادارہ قائم ہوگا۔“
 اندر سے چلمن ہٹا کر نعیمہ خاتون نے امین الدین اور عظیم اللہ کی تجویز پر اپنی مُہرِ تصدیق لگادی۔
***

شانتاپورم ادبي كانفرنس

جزیرہ اردو کے دو حسین دن
( جشن اردو 2015 : ايک رپورتاژ)
           شانتاپرم کےرالا جنوبی ہند مےںاردو کے اےک خوبصورت جزیرے کی حےثیت سے اب اےک معروف نام ہے۔کوہساروں کے دامن مےں آباد یہ حسین پر فضا بستی ملک بھر مےں تحریک اسلامی کے حوالے سے محتاج تعارف نہیںہے۔ اپنے طرز کی منفرد دانش گاہ الجامعہ الاسلامیہ کےرالا گزشتہ چھ سالوں سے یہیں قایم ہے۔جب سے یہاں شمالی ہند کے طلبہ کی آمد شروع ہوئی ہے اردو زبان و ادب کی رنگا رنگ سرگرمیاں بھی شروع ہوگئیں۔باضابطہ ادارہ ادب اسلامی ہند کی اےک شاخ بھی یہاںقایم ہے اورگذشتہ چھ سالوں سے اس کی سرگرمیاں منظم انداز مےں چل رہی ہےں۔جنوبی ہند کی یہ اےک فعال یونٹ ہے۔ گذشتہ چارسالوں سے یونیورسٹی کے اشتراک و تعاون سے یہ ادارہ سالانہ جشن اردو کا شاندار اہتمام بھی کر رہا ہے۔ان تقاریب مےں مہمانان خصوصی کی حےثیت سے تحریک ادب اسلامی کی قائدانہ شخصیات اپنی شرکت سے جشن کی رونق مےں اضافہ کرتی رہی ہےں۔جشن اردو کی پہلی تقریب (2012 ) مےں، ہندوستان مےں قافلہ ادب اسلامی کے آخری حسےن اور' کڑی دھوپ مےں برگ برگ شبنم ' کی مانند شخصیت مرحوم ڈاکٹر سید عبدالباری شبنم سبحانی نے اپنی با وقار موجودگی سے جشن اردو اور طلبہ جامعہ کی یادوں کے اجالے مےں خوبصورت اضافہ کیا تھا۔ باذوق طلبہ جامعہ کو کسی بڑی ادبی شخصیت سے اپنی تشنگی دور کرنے کا بھرپور موقع ملا تھا۔ادبی ذوق رکھنے والا طلبہ کا اےک جھنڈ ہر دم ان کے ساتھ تھا۔قیام گاہ ،ڈائننگ ٹےبل اور پروگرام کے درمیانی وقفوں مےں بھی طلبہ اور مندوبین ان سے استفادہ کرتے نظر آتے۔ ادب اسلامی کے مرکزی عنوان پر منعقدہ سےمینار کے صدارتی خطبے کی یادےں اب تک تازہ ہےں۔ واپسی پر انہوں نے پےش رفت مےں شانتاپرم کا سفر نامہ بھی لکھا تھا۔
          ادب خواتین اور اسلام کے مرکزی عنوان پر منعقد ہ دوسرے جشن اردو کے موقع پر مہمان خصوصی کی حےثیت سے ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی (سابق نائب صدر) نے شرکت فرمائی۔اس موقع پر کرنا ٹک سے تعمیر ی رجحان رکھنے والی خواتین ادبا نے بھی شرکت فرمائی۔اس طرح یہ جشن اردوکی تاریخ مےں اےک اہم باب کا اضافہ تھا۔
          گزشتہ سال (2014 ) مےں تحریک ادب اسلامی کے نئے قافلہ سالار ڈاکٹر حسن رضا کی آمد جشن اردو کی تاریخ مےں اےک اہم سنگ میل تھی۔روحانی اقداراور جمالیاتی شعور کے حوالے سے ان کے پر مغز صدارتی خطاب،ادبی ورکشاپ مےں طلبہ سے بے تکلف گفتگو کی صدائے باز گشت آج بھی طلبہ کی رسمی اور غےر رسمی گفتگو کا عنوان ہے۔
          امسال 21 ،22 فروری کے جشن اردو کے موقع پر بزرگ ادیب و دانشور ،دو بار ادارہ کے کل ہند صدر رہ چکے ڈاکٹر احمد سجاد(سابق صدر شعبہ اردو،رانچی یونیورسٹی) رونق بزم تھے۔ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود رانچی سے بذریعہ ٹرےن لمبی مسافت طے کر کے ،آپ کی تشریف آوری پر ہم سبھی ان کے ممنون ہےں۔مغربی فلسفیوں اور ادباءکے اقوال،اسلامی اقدارو مشرقی روایات کے حوالے سے ان کی مضبوط تنقیدی گرفت اور بے حد میٹھی شخصیت سے شرکائے جشن خوب خوب محظوظ و مستفیض ہوئے۔
          اس دو روزہ جشن اردو کاباقاعدہ افتتاح کرتے ہوئے پروفیسر احمد سجاد نے ملکی اور عالمی تناظر مےں ادب کی موجودہ صورتحال کا جایزہ لیا۔ موصوف نے کہا کہ موجودہ نا گفتہ بہ سماجی و اخلاقی حالات مےں مثبت تبدیلیاں لانے کے لئے ادارہ ادب اسلامی ہندکو فعال اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہے۔ زندگی کے بارے مےں تعمیری اور کلی نقطہ نظر کو انہوں نے ادب اسلامی کا امتیاز قرار دیا۔
          افتتاحی سےشن کے بعد ڈاکٹر احمد سجاد کی زےر صدارت اےک ادبی سےمینار بعنوان ” حفیظ مےرٹھی: فن اور شخصیت “ منعقد کیا گیا۔جس مےں ’ حفیظ مےرٹھیؒ : حیات و شخصیت کے نمایاں پہلو (سعود فیروز،شانتاپرم)’ حفیظ مےرٹھیؒ کا نظریہ شعر و فن (ڈاکٹر ضیاءالرحمن ضیائ،شانتاپرم)’ حفیظ مےرٹھیؒ کی حق گوئی و بےباکی(ڈاکٹر فرحت حسےن خوشدل، رانچی) ’حفیظ مےرٹھیؒ کی غزل گوئی (ڈاکٹر حنیف شباب،بھٹکل)’ حفیظ مےرٹھیؒ کی شاعری مےں عصری حسیت (شبلی ارسلان، شانتاپرم) اور ’ حفیظ مےرٹھیؒ کی شاعرانہ عظمت (مسعود جاوےد ہاشمی ، حےدرآباد) موضوعات پر مقالے پےش کئے گئے۔ سید عبد الباسط انور،حیدرآبادکا مقالہ(حفیظ میرٹھی کی شاعری میں تحریکی عناصر) وقت پرموصول نہ ہونے کی وجہ سے پیش نہیں کیا جاسکا۔صدر سےمینار نے پیش کردہ تمام مقالات کا جایزہ لےتے ہوئے ان پر تبصرہ فرمایا۔اس موقع پر آپ نے حفیظ میرٹھی ؒ سے اپنے دےرینہ رشتے کو بھی تازہ کیا۔

           پروفیسر احمد سجاد اور کہنہ مشق شاعر مظہر محی الدین (ہبلی) کی زےر سرپرستی ادبی ورکشاپ اس دو روزہ جشن اردو کا نہایت اہم پروگرام تھا ۔ الجامعہ مےں زےر تعلیم اردو داں نو خےز قلمکاروں نے شارٹ اسٹوری،غزل،انشائیہ ،آزاد نظم اور طنز و مزاح کی شکل مےں اپنی تخلیقات پےش کیں۔ ماہرین نے ان تخلیقات پر تبصرہ فرمایا ۔نوخےز قلمکاروں کی ادبی کاوشوں کو سراہتے ہوئے پروفیسر موصوف نے مستقبل کے تئیںان سے وابستہ امیدوں کا اظہار بھی کیا۔
           21 فروری کی رات اےک شاندار محفل مشاعرہ منعقد کی گئی۔مشاعرے کی صدارت بھی پروفیسر احمد سجاد نے انجام دی۔جنوبی ہند مےں اردو کے مراکز حےدرآباد،ہبلی اور بھٹکل وغےرہ سے تشریف لائے شعرائے کرام نے اس مشاعرے مےں اپنا کلام پےش کر کے شایقین ادب کو محظوظ کیا۔شانتاپرم کے مقامی شعرانے بھی اپنا کلام پےش کیا۔ شعرا ئے کرام مےں مسعود جاوید ہاشمی (حےدرآباد)مظہر محی الدین (ہبلی) ڈاکٹر حنیف شباب(بھٹکل)ڈاکٹر راحت پاشا (ورنگل) اشرف برماور(کاروار) ڈاکٹر ضیاءالرحمن ضیاء(شانتاپرم) مظاہر حسےن عماد عاقب (شانتاپرم) نجم السحر(شانتاپرم) کے نام قابل ذکر ہےں۔ مشاعرے کی نظامت کے فرایض استاد شاعر مظہر محی الدین (ہبلی) نے انجام دیئے۔
          ادارہ ادب اسلامی ہند،کےرالا نے جشن اردو کی روایات مےں اےک روشن باب کا اضافہ کرتے ہوئے اس موقع پر شاندار مسابقہ غزل سرائی کا اہتمام بھی کیا ۔ مسابقے مےں کےرالا کے چار اضلاع پالاکاڈ،تریشور،کالی کٹ اور ملاپرم کے کالجوں سے طلبہ و طالبات نے انتہائی جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا۔ حصہ لےنے والے طلبہ نے اردو کے ممتاز قدیم و جدیدشعرائے کرام کی معیاری غزلوں کو اپنی خوبصورت آواز مےں پےش کیا۔ اول ،دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والے مشارکین پرکشش نقد انعامات سے نوازے گئے۔بقیہ مشارکین کو بھی تشجیعی انعامات دیئے گئے۔
          دوسرے دن دوپہر مےں منعقد اختتامی سےشن اےک یادگار سےشن تھا۔اس سےشن کے مہمان ذی وقار تھے’کیرالا مےں اردو کے ’نقیب ا ور ترجمان اقبال‘ کے القاب سے معروف سیاسی وملی رہنما جناب عبد الصمد صمدانی (سابق راجیہ سبھا ممبر)۔اس موقع پر ادارہ ادب اسلامی کے ریاستی صدر ڈاکٹر ضیاءالرحمن ضیاءکا پہلا شعری مجموعہ ”حرف شیریں“ بھی منظر عام پر آیا۔ جناب عبد الصمد صمدانی نے اس کا اجرا اپنے ہاتھوں سے کیا۔
          کیرالا مےں اردو کے حوالے سے اس قسم کی ادبی محفل کے انعقاد پر آپ نے اظہارمسرت فرمایا۔جناب صمدانی کے ان الفاظ کے ساتھ دوروزہ جشن اردو (Shantapuram Urdu LitFest-2015) اپنے اختتام کو پہنچا ” ادب اےک خوشبو ہے ۔ ادب مےں تعمیری اپروچ کو پروان چڑھانا وقت کی ضرورت ہے۔“
(ترتیب و پيشکش : شبلی ارسلان ذکی)


حفیظ میرٹھی
کومل کومل غزلوں میں طوفانوں کے پیغام کا شاعر
ڈاکٹر محمد حنیف شباب
 بھٹکل (کرناٹک)
919986300865, haneefshabab@gmail.com

          یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی زبان کا ادب اس زبان سے وابستہ معاشرہ کی انفرادی و اجتماعی فکر، تہذیب و ثقافت اور طرززندگی کا ترجمان ہوتا ہے۔جہاں تک اردو زبان و ادب کا معاملہ ہے ، دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح یہ بھی گزشتہ صدی کے دوران مختلف ادبی نظریات اور تحریکات کے زیر اثر عروج و زوال اور افراط و تفریط کے مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ایسے میں اردو ادب پرایک دور ایسا بھی آیا ،جب ہر طرف ترقی پسندی اور جدیدیت کے نام پرتہذیب واخلاق اور دینی ومذہبی اقدار کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا تھا۔سرخ سویرے کے نام پراماوس کی کالی راتوں کا استقبال کیا جارہا تھا۔بے سمتی اور بے راہ روی کا بول بالا ہوا جارہا تھا۔ تقدیس فن اور عصمت حرف و قلم نیلام ہوئے جارہے تھے۔ اس موڑ پر انسانیت کی خیر خواہی کا پیغام لے کرمقصدی اور تعمیری ادب کو فروغ دینے کے لیے چند باکردار اور باشعور فنکار اٹھے اور ادب اسلامی کے پرچم تلے پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ ادبی محاذ پر اس طوفان بلاخیز کا مقابلہ کرنے کے لیے جم کر کھڑے ہوگئے۔ ایسی سعید روحوں میں حضرت حفیظ میرٹھی کا نام ہمیشہ بہت ہی عزت واحترام کے ساتھ لیا جائے گا۔
          حضرت حفیظ میرٹھی نے اردو شاعری کی آبروغزل کو ہی اپنے جذبات و افکار کی ترسیل کا وسیلہ بنایا۔ اور اس وقت بنایا جب اینٹی غزل کی تحریک جڑ پکڑ چکی تھی اور غزل کو یا تو نیم وحشی صنف سخن کے طور پر مستردکیا جارہا تھا، یا پھر ترقی پسندوں اور جدیدیوںکے ہاتھوں اس کی آبرو پامال ہورہی تھی۔ یا پھر کلاسیکل شاعری کے نام پر فرسودہ لفظیات اور سطحی و بے ہودہ خیالات کی جگالی کی جارہی تھی۔
          بلا شبہ غزل گوئی کو حفیظ نے فیشن کے طور پر نہیں بلکہ شعوری طور پر اپنایاکیونکہ وہ انسانی مزاج پر غزلیہ اشعار کے اثرات سے واقف تھے۔ ساتھ ہی غزل کے پر اثر ہونے کے لیے جن بنیادی لوازمات کی ضرورت تھی، اس میں فنکار کے خون جگر کی کیا اہمیت ہے اس کا انہیں بخوبی ادراک تھا۔ وہ کہتے ہیں :
تخلیق میں آتے نہیں شہکار کے انداز
جب تک نہ سنواریں اسے فنکار کے آنسو
ہم نے بھی جگر تھام کے دیکھے ہیں حفیظ آج
رخسار غزل پر ترے اشعار کے آنسو
          غزل بنیادی طور پرغنائیت کی متقاضی ہے۔ اس کا نرم و لطیف لہجہ انسان کی طبیعت میں سوز وگداز بھرنے اور وجدان پر سر مستی کی کیفیت طاری کرنے کا سبب ہوتا ہے۔ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ غزل کی اپنی فنی روایت ہے۔ اس کا اپنا ڈھانچہ اور لفظیات وتراکیب ہیں جن کو اگر پوری احتیاط اور مہارت کے ساتھ برتا نہ گیا توپرورش لوح و قلم کے لیے جگرخون کرنا کسی بھی طرح سود مند نہیں ہو سکتا۔اس لحاظ سے اگر ہم جناب حفیظ میرٹھی کی غزلوں کا جائزہ لیں توبقول اختر انصاری دہلوی :
          ”غزل کی طرف حفیظ صاحب کا رویہ ایک تخلیقی اور متحرک رویہ ہے۔ ان کے یہاں غزل کی روایت کی پاسداری بھی ہے اور غزل کے فنی لوازم کا احترام بھی۔ غزل کے رموز و علائم کو انہوں نے سلیقے سے برتا ہے اور ہر جگہ تخیل اور جذبے کی خلاقانہ قوت سے کام لینے کی کوشش کی ہے۔“
          اس تبصرہ کی روشنی میں کلام حفیظ میرٹھی کا مطالعہ ہمیںخالص غزل کے چند ایسے شاہکار اشعار سے روبرو کرتا ہے ، جو سیدھے دل و دماغ پر اثرانداز ہوتے ہیں اور ایک سرشاری کی کیفیت سے دوچار کرتے ہیں۔ ملاحظہ کریں :
شیشہ ٹوٹے غل مچ جائے
دل ٹوٹے آواز نہ آئے
بحر محبت توبہ توبہ
تیرا جائے نہ ڈوبا جائے
ہزار حیف کہ ہم تیرے بے وفا ٹھہرے
ہزار شکر کہ ہم کو ہوس نہ راس آئی
حیات پوچھ رہی تھی سکون کا مفہوم
تڑپ کے دل نے ترے درد کی قسم کھائی
ان کے جانے کا منظر تماشہ نہیں
دور تک دیکھئے، دیر تک سوچئے
          لیکن انہیںمحبت اور ہوس کے درمیان پائے جانے والے لطیف فرق کا احساس ہے۔ وہ غزل کے رنگ میںسستے اورسطحی جذبات کو ہوا دینے والی شاعر ی سے گریز کرتے ہیں۔ اور مبنی بر اقدار خیالات کوبڑے ہی رکھ رکھاو

¿ ،وقار اور کمال ہوشیاری سے پیش کرتے ہیں:

رنگ آنکھوں کے لیے ، بو ہے دماغوں کے لیے
پھول کو ہاتھ لگانے کی ضرورت کیا ہے
لا مری سمت بڑھا جام محبت ساقی
میں نہ پوچھوں گا کہ انجام محبت کیا ہے
          سچ ہے کہ تقاضائے غزل کو پورا کرنے والے حفیظ میرٹھی کے یہ اشعار دل کے تاروں میں جھنکار پیدا کرتے ہیں۔ اور اپنے اندر گہری معنویت اور سنجیدہ پس منظر رکھنے کے باوجود غزل کے عام رومانی مزاج کا مظہر نظر آتے ہیں۔مگر حفیظ میرٹھی ان جزیروںمیں مقید نہیں رہتے بلکہ دورکہیںآفاقی وسعتوں میںسرگرداں نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غزل کو اپنا وسیلہ اظہار بنانے والے حفیظ اسے بے مقصد زندگی کی ترجمان اوربے معنی وقت گزاری کا ذریعہ بنانانہیں چاہتے۔ وہ اپنا نظریہ

¿ فکر و فن واشگاف الفاظ میں واضح کرتے ہوئے غم جہاںکو غم جاں اورغم جاناںپر فوقیت دیتے ہیں :

کیسا خیال ، کس کی محبت ، کہاں کا عشق
یوں ہی جھجھک گئے تھے ترے پاس آکے ہم
اب انتہائے ضبط نے دل میں لگائی آگ
بیٹھے تھے آنسوو

¿ں کی بغاوت دبا کے ہم

          اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ گیسوو

¿ں کی گھٹاو

¿ں اور عارض گلگوںکی تابانیوں سے پرے انسانیت کی فلاح اور زندگی کی تعمیر کاایک خاکہ ان کی نظروں میں ہے جس میں رنگ بھرنے کا مشن پورا کرنے کے لیے انہوں نے غزل کو وسیلہ بنایاہے۔جس کا اظہار یوں کرتے ہیں :

ہیچ ہیں میری نظر میں آشیان و گلستاں
آدمی ہوں ، عزم تعمیر جہاں رکھتا ہوں میں
گلوں سے داغ ، کانٹوں سے خلش لینے کو آئے ہیں
گلستاں میں ہم اپنے دل کو بہلانے نہیں آئے
          لیکن حفیظجس عہد میں جی رہے ہیں ، وہاں امن و آشتی اور سکون و سلامتی پر جبر واستبداد اورظلم و ناانصافی کی حکمرانی چل رہی ہے۔ وہ جس طرف بھی دیکھتے ہیں، ایک حسین اور محبتوں بھری دنیا کا خواب چکناچور نظر آتا ہے۔اوروہ اس منظر نامہ پر تڑپ اٹھتے ہیں :
کہیں مسلی ہوئی کلیاں ، کہیں روندے ہوئے غنچے
بہت سی داستانیں ہیں شبستانوں سے وابستہ
حصار جبر میں زندہ بدن جلائے گئے
کسی نے دم نہیں مارا مگر دھواں بولا
یہ ناچتی گاتی ہوئی اس دور کی تہذیب
کیا جانئے کس کرب کا اظہار کرے ہے
          حضرت حفیظ میرٹھی موجودہ نظام زندگی کے عیارانہ اور ظالمانہ رویہ سے نالاں ہیں ۔ وہ تخریبی ماحول کو تعمیری رخ دینے کے لیے ہر ممکنہ جد و جہد کے داعی ہیں ، وہ ایک صالح سماجی اور معاشرتی انقلاب کے نقیب بن جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ :
آج کی بد حال دنیا کے بھی دن پھر جائیں گے
اے مورخ ہم اگر تاریخ دہرانے اٹھے
باری باری جاگنا ہے خوف سے شبخون کے
ہم تبھی سوئیں گے جب بیدار ہوجائیں گے آپ
          انہیںیہ بھی یقین ہے کہ جب اخلاص اور للہیت کے ساتھ انقلاب کے لہجے میں بولا جائے گا تو غرور ستمگراںبھی ادب سے بولنے پر مجبور ہو جائے گا۔مگر حفیظ کواس بات کا احساس ہے کہ یہ راہ آسان نہیں ہے ۔ اس لیے کہ زمانہ میں جب بھی انقلاب کے لہجے میںسچ بولا گیا ہے تو دنیا ہمیشہ بوکھلا اٹھی ہے اور پھولوں میں تولنے والے قتل پر تُل گئے ہیں۔ اس کے باوجود وہ صرف شعر وسخن کے محاذ پر ہی میں نہیں بلکہ اپنی عملی زندگی میںبھی عزم و حوصلہ اور جرا

¿ت و بے باکی کے ساتھ اس قافلہ

¿ سخت جاں کا حصہ بنے رہے جوعزیمت کی اس راہ گزرپر پورے استقلال کے ساتھ گامزن رہا :

وہیں وہیں نظر آیا ہے سر بلند حفیظ
پڑی ہے سر کی ضرورت جہاں جہاں لوگو
ہمارا جذبہ

¿ تعمیر دیکھ لے دنیا

سجارہے ہیں قفس کو بھی آشیاں کی طرح
گھروں سے تا در زنداں وہاں سے مقتل تک
ہر امتحاں سے ترے جاں نثار گزرے ہیں
ہر ظالم سے ٹکر لی ہے سچے فنکاروں نے حفیظ
ہم وہ نہیں جو ڈر کر کہہ دیں، ”ہم ہیں تابعداروں میں“
          یہ بات ماننی پڑے گی کہ جناب حفیظ میرٹھی نے ایک واضح مقصد زندگی اور اخروی فوز و فلاح کے ضامن نظام حیات کے روشن نقوش کو عام انسانی زندگی پر واضح کرنے کے لیے شعر و سخن کا سہارا لیا۔ مگر انہوں نے شاعری کو دیگر نظام ہائے فکر کے مبلغ فنکاروں کی طرح پروپگنڈہ کا آلہ بنانے اور فن کے ساتھ بھونڈے مذاق سے مکمل گریز کیا۔ان کے یہاں پیامی انداز ہونے کے باوجودکلاسیکل شاعری کی تراکیب اور لفظیات، تشبیہات واستعارے، رموز و کنایات ، علامتیں اور صنعتیں پوری شان اور وقار کے ساتھ نئے زاویے اور نئے افق اجاگر کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے کلام میںزنجیریں، آگ، میدان، برف، میخانہ،پیمانہ،مقتل،جبر،ساقی، میکدہ، نمکدان، زخم،مرہم،طوفاں،ساحل،مالی،باغباں،عشق، محبت جیسے الفاظ استعاروں اورپیکر تراشی کے اعلیٰ نمونوں میں بدل کر بے جان علامتوں میں نئی روح پھونکتے نظر آتے ہیں، جیسے :
ابھی کیا ہے کل اک اک بوند کو ترسے گا میخانہ
جو اہل ظرف کے ہاتھوں میں پیمانے نہیں آئے
زنجیریں تو ہٹ جائیں گی، ہاں ان کے نشاں رہ جائیں گے
میرا کیا ہے ظالم تجھ کو بدنام کریں گی زنجیریں
ہم نے لکھا ہے اپنے شہیدوں کے نام سے
مقتل کی داستان کا عنوان زندگی
یہ بھی اک حساس دل رکھتی ہے پہلو میں ضرور
گدگداتا ہے کوئی جھونکا تو بل کھاتی ہے آگ
          لیکن انہیں ایک طرف اس پیغام کی اصل مخاطب نوجوان نسل کی تن آسانی اور خودفراموشی والی زندگی فکر مند کرتی ہے ، اور وہ کہتے ہیں:
میدان کارزار میں آئے وہ قوم کیا
جس کا جوان آئینہ خانے میں رہ گیا
          تو دوسری طرف اپنی زندگی کے بنیادی مقصد کو نظر انداز کرکے بدلتے ہوئے حالات سے بیگانہ رہنے والی ملت کی سرد مہری سے انہیںوقتی جھنجھلاہٹ بھی ہوتی ہے ، اور وہ زیر لب یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں :
خاک سرگرمی دکھائیں بے حسی کے شہر میں
برف کے ماحول میں رہ کر ٹھٹھر جاتی ہے آگ
جب کوئی آغوش کھلتا ہی نہیں اس کے لیے
ڈھانپ کر منھ راکھ کے بستر پہ سو جاتی ہے آگ
          حالانکہ ان کی ذاتی زندگی بھی رنج والم بھرے نشیب وفرازسے گزری ہے،لیکن غم جہاں میں آنسو بہانے والا یہ دل درد مند،غم ذات کو اس ہنرمندی کے ساتھ غم کائنات بنا کر غزل کی زبان میں بیان کرتا ہے کہ یہ آپ بیتی ہوتے ہوئے بھی جگ بیتی بن جاتی ہے :
جس شاخ نے آغوش میں کلیوں کو کھلایا
اس شاخ نے پھولوں کے جنازے بھی اٹھائے
سب مجھ پہ مہرِ جرم لگاتے چلے گئے
میں سب کو اپنے زخم دکھانے میں رہ گیا
داد دیجے کہ ہم جی رہے ہیں وہاں
ہیں محافظ جہاں قاتلوں کی طرح
          انہیں اپنے مقصد وجود اور پیام حیات کی حقانیت پر پورا اعتماد اور بھروسہ تھا۔ اپنے نصب العین سے شعوری وابستگی نے انہیں ایک غیر متزلزل ایمان اور ایقان سے سرفراز کیا تھا۔ اس کا اظہار جابجا ان کے کلام میں ہمیں متوجہ کرتا ہے :
ایک بھی لفظ ہٹانے کی نہیں گنجائش
مرے پیغام محبت کا خلاصہ نہ کرو

اندھیروں سے ڈرے کیوں دل ہمارا
بہت روشن ہے مستقبل ہمارا
          وہ سماجی زندگی میں رائج دوغلے پن اور صراط مستقیم سے انحراف کو بخوبی سمجھتے ہیں۔حقیقی صورتحال یہی ہے کہ مکارانہ سازشوں کے جنگل میں منزل مقصود کی طرف رواں دواں قافلہ کے لیے حالات اتنے مخدوش ہیں کہ بھروسہ اور اعتماد کا شیشہ قدم قدم پر چور چور ہوا جاتا ہے۔ اور حفیظ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں :
ہمیںتو باد صبا کا بھی اعتبار نہیں
خزاں سے ہاتھ ملا کر چمن میں آئی ہے
ہائے مجبوری

¿ الفت کہ بایں سوز و گداز

ہم نے ہنس ہنس کے ترے عشق سے انکار کیا
          حفیظ اس ماحول میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ وہ ایک ایک فرد کو اس انقلابی تبدیلی کی ضرورت کا احساس دلانے اور اپنا ہمنوا بنانے کی تمنا رکھتے ہیں۔ وہ فنکاروں کوفکر اورفن میں موجود فاصلہ کو ختم کرکے قول و عمل میں یکسانیت کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ آدمی کی بے کسی پر ہر ایک دل میں انسانی خیر خواہی کی تڑپ اور ہر آنکھ میں نمی دیکھنا چاہتے ہیں۔علاج درد دل کے اسی جذبہ کے تحت وہ کہتے ہیں:
بھر نہ آئے جو کسی کی بے کسی پر اے حفیظ
اس کو کیسے آنکھ کہہ دیں، اس کو کیوں کر دل کہیں
          وہ نظم جہاں کوایک مثبت سوچ دینے اوراسے ظلم و جبر سے پاک اور عظمت انسانیت کی منھ بولتی تصویر میں بدل دینے کی راہ میں کسی بھی غم اور ستم کی پرواہ نہیں کرتے، بلکہ غم و الم پر شکوہ کی بجائے شکر کرتے ہوئے اسے اپنے لیے روح رواں کادرجہ دیتے ہیں۔ وہ ہر مرحلہ

¿ دارورسن سے گزرنے کے لیے تیارنظر آتے ہیں۔ اپنے زخموں کو نمکدانوں سے وابستہ رکھنے والا یہ درویش صفت فنکار مجاہدانہ شان کے ساتھ غزل کی زبان میں یہ بتا رہا ہے کہ ظالم اور باطل سے لوہا کیسے لیا جائے گا اور صالح انقلاب کس راستے سے آئے گا ۔

          لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں ہوگاکہ حضرت حفیظ میرٹھی کی غزلیں اپنی تمام تر غنائیت اور شبنمی لبادہ کے ساتھ عز م و حوصلہ کی آگ اور تعمیری جذبات کی تپش سے معمور کسی کھولتے ہوئے لاوے سے کم نہیں ہیں۔ ان کی غزلوں میں موجود زیریں لہریںہر حساس دل اور بیدار ذہن کو تحریک دینے کا سبب بن جاتی ہیں۔ جس کے زیر اثر طاغوتی اور جبروتی قوتوں کے آگے سینہ سپر ہونے اور للکارنے کاحوصلہ جوان ہو جاتا ہے۔
          اس لیے حاصل کلام کے طور پر حفیظ مرحوم ہی کے الفاظ میں ان کے کلام کی جامع تعبیر یہی ہو سکتی ہے :
کومل کومل غزلوں میں طوفانوں کے پیغام حفیظ
میٹھی میٹھی باتوں سے بھی تم تو آگ لگاتے ہو
***


حفیظ میرٹھی کی شاعری میں
 تحریکی عناصر

سید عبد الباسط انور
حیدرآباد

          حفیظ میرٹھی کی شاعری پر گفتگو آگے بڑھانے سے پہلے موضوع کے ایک اہم جزو تحریکی عناصر پر مختصراًغوروفکر کرلینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ تحریک کے معنی ہیں جنبش، حرکت، کسی کام کا آغاز کرنا شامل ہیں۔ اس کو انگریزی زبان میں Movement کہا جاتاہے ۔ جس شخص یا اجتماعیت میں یہ صفت شامل ہو اس کو ” تحریکی“ کہا جانا چاہےے۔ تحریک میں کئی عناصر شامل ہیں لیکن تین عناصر اہم ہیں جو قابل ذکر ہیں۔ پہلی بات یہ کہ تحریک کے لےے کوئی بڑا اور واضح مقصدہو جو سماجی زندگی میں تبدیلی لا سکے۔ مقصد اتنا واضح اور اہم ہو اور ایسے دل نشیں پےرائے میں پیش کیا جائے کہ لوگ کھنچے کھنچے چلے آئیں۔ کشش ایسی ہو کہ کشمکش کے لےے تیار ہوجائیں، وہ ایک ایسا نظریہ

¿ حیات (Ideology) ہو جوکائنات میں انسانی وجود کے لےے انتہائی مفید اور کارآمد بن سکے، زندگی کی اقدار کی حفاظت کرسکے۔ دوسرا عنصر تحریک کی اجتماعی قوت، نظم ، ڈسپلن اور تنظیم کی مضبوطی ہے۔ تیسرا عنصر تحریک کے لےے مل جل کر کام کرنے کا جذبہ یا اجتماعی جدوجہد ۔ ان کے علاوہ بھی اور عناصر شامل کےے جاسکتے ہیں جن کی تفصیلات میں جانے کا یہ موقع نہیں۔

          تحریک اور تحریکی عناصر کی روشنی میں ہم حفیظ میرٹھی کی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کی شاعری میں یہ تینوں عناصر بدرجہ

¿ اتم پائے جاتے ہیں۔

          کسی شاعر و ادیب کی فکر اور تخلیقات پر خاندان، بچپن، جوانی، تعلیم و تربیت، معاشی حالات، تجربات ، حوادث کے گہرے اثرات پائے جاتے ہیں جن کی بنا پر ادیب کے ذہن کی ساخت بنتی ہے۔ اسی نقطہ نظر سے وہ زندگی کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔
          حفیظ میرٹھی ۰۱جنوری ۲۲۹۱ءکو میرٹھ میں اپنے والد محمد ابراہیم خلیل اور والدہ فاطمہ کے گھر پیدا ہوئے۔ والدہ محترم کا انتقال ان کے بچپن ہی میں ہوگیا ۔ نانا کے گھر میرٹھ میں پرورش ہوئی، کیوں کہ والد اپنی اہلیہ کے انتقال کے بعد اپنے وطن کرت پور ضلع بجنور واپس چلے گئے۔ حفیظ میرٹھی کے بچپن، تعلیم و تربیت میں ان کے والد کا کیا حصہ رہا اس کی تفصیلات نہیں ملتیں اور نہ حفیظ نے ان حالات کا کوئی تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔
          حفیظ کی شخصیت میں، یاسیت و قنوطیت نہیں پائی جاتی ، بلکہ اس کے مقابل میں آگے بڑھتے رہنے،جدوجہد کرنے، صبر و شکر کے ساتھ مشکل حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کرنے کا عزم و حوصلہ پایا جاتا ہے، جو ان کی شاعری کی پہچان بھی ہے۔ حفیظ بہت سادہ طبیعت، بے تکلف اور قلندرانہ مزاج، شرافت و ہمدردی کا قابل تقلید نمونہ تھے۔
          ڈاکٹر فہیم الدین احمد (MANU) نے اپنے تخلیقی مقالہ میں لکھا ہے کہ ” حفیظ کی غزل زندگی سے بھرپور اور توانا غزل کی صورت میں قاری کے سامنے آتی ہے۔ حفیظ کی شاعری کے موضوعات زندگی کے حقیقی تجربات پر مبنی ہیں۔“
          حقیقی شاعر اپنی شاعری کے ذریعہ زندگی کی حقیقتوں، اس کی گہرائیوں تک پہنچ کر ایسے نادر و نایاب موتی اکٹھا کرنا چاہتا ہے جو اندھیری راتوں میں روشنی کے مینار بن کر ابھرتے ہیں۔ شاعری صرف الفاظ و معانی سے لطف اندوز ہونے یازلف پریشاں کو سنوارنے کا نام نہیں، وہ دن تو بہت پےچھے چلے گئے جہاں شاعری، محبت، عشق و عاشقی کی بناوٹی داستانوں کا مجموعہ ہوا کرتی تھی۔تخیلات کی پر پیچ وادیوں میں لب و رخسار ، گردن اور کمر کی نزاکتوں کی صدائے بازگشت بن کر غمزدہ زندگیوں کی محرومیوں میں مزیداضافہ کرنے والی ہوتیں۔ میخانوں کے بند دریچوں کے پےچھے، شراب ، صراحی و ساقی کے نیم برہنہ قصوں کو دہراتے فرش پر بے جان پڑے رہتے۔ آج کی شاعری، زندہ دلی، پرجوش، جواں عزائم ، خوشیوں، مسرتوں، بشارتوں سے بھرپور حوصلہ اور امنگ کی امانتیں اہل دل کے حوالے کرنے والی ہے۔ حفیظ در اصل ایسے شاعر ہیں جو زندگی کو زندگی دیتا ہے، اس کی سمت متعین کرتا ہے اور صراط مستقیم سے بھٹکنے نہیں دیتا۔
          حفیظ ایسا شاعر ہے جو اپنی بصیرت کی کھلی آنکھوں سے مستقبل کے اُفق پر کئی نئے سُورجوں کو روشنی بکھیرتے دیکھتا ہے۔ ایسا شاعر جو خود چلتا ہے، متحرک رہتا ہے، بلکہ زمانے کے دل میں ایسی امنگ پیدا کرتا ہے کہ وہ بھی اس کے ساتھ ساتھ ہوجاتا ہے۔ عظمتوں کے حصول کے لےے ہمیشہ بے چین و مضطرب رہتا ہے:
قائل ہوں اہل بیت کی عظمت کا میں حفیظ
وجہ سکون دل ہے یہی اضطراب میں

ہر سکوں کی تہہ میں سو آتش فشاں رکھتا ہوں میں
ضبط کا اک رخ نمایاں اک نہاں رکھتا ہوں میں
          حفیظ میرٹھی کے کلام کی خصوصیت میں سے ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ ادب کے ذریعہ کائنات میں انسانوں کی ایک ایسی دنیا بسانا چاہتے ہیں جس میں عدل و انصاف، محبت، یگانگت پائی جائے۔ ظلم و تشدد سے نفرت ہو۔ جہاں کے موسم عدل و انصاف کی روشنی میں اس طرح سبک رفتاری سے بدلتے ہوں کہ سماجی اقدار کے جسم پر کوئی خراش بھی نہیں آنے پاتی:
ہیچ ہیں میری نظر میں آشیاں و گلستاں
آدمی ہوں عزم تعمیر جہاں رکھتا ہوں میں

مجھ سے کب ہوتی بھلا پابندی رسم وجود
ان کی دلداری کی خاطر جسم وجاں رکھتا ہوں میں
          سید علی مرحوم رقم طراز ہیں:
” یہ قلم کار کے فکر و ذہن اور نظریہ پر منحصر کہ وہ زندگی کے ایجابی پہلو اور اخلاقی اقدار کو کتنی اہمیت دیتا ہے اور حقائق کے ساتھ کتنا انصاف کرتا ہے۔ وہ سچائی کا ساتھ دیتا ہے یا منفی رویہ اختیار کرتا ہے اور قومیت کے محور پر گھومتا ہے۔“
(سید علی۔ پیش رفت دسمبر۰۱۰۲ئ)
          حفیظ نے اپنی شاعری میں جن جذبات و احساسات کا بے خوف و خطر اظہار کیا ہے، یہ انھی کا حصہ ہے ۔ کیوں کہ جس کی نس نس میں تحریکی عناصر دوڑ رہے ہوں او رجو زندگی کی قیمت کو اچھی طرح جانتا ہو وہی در اصل توازن کے ساتھ زندگی کی اقدار کی شعوری طور پر آبیاری کرتا ہے، جس کی وجہ سے سنگلاخ زمینوں کی کوکھ سے سرسبز و شاداب فصلوں کو حیات جاوداں ملتی ہے۔
          جذبہ تحریک فردکی صلاحیتوں اور قوتوں کو مثبت و مو

¿ثر انداز میں اصل منزل کی طرف رہنمائی کرتاہے، اس کی بدولت اجتماعیت کی مضبوط بنیادیں قائم ہوتی ہیں او رایسی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی ہیں کہ جس کو ظلم و بربریت، ناانصافی ، بے حیائی، لذت پسندی کی طوفانی ہوائیں بھی منہدم نہیں کرسکتیں:

زہے طلب جستجو کی راہیں قدم قدم پر بدل رہے ہیں
سنبھل رہے ہیں، بہک رہے ہیں، بہک رہے ہیں سنبھل رہے ہیں

زہے گداز غم محبت، خوشا یہ آداب سوز الفت
نہ کچھ دھواں ہے نہ کوئی شعلہ، بڑے سلیقہ سے جل رہے ہیں
          سلیقہ سے جلنے کاہنر تو انھی کو آتا ہے جو انسانی زندگی کو روشن مشعلوں کے سائے میں جیتا جاگتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب جذبہ تحریک جواں ہوتا ہے تو پھر دانشوری ، فکر و فن کی پرپیچ وادیوں میں چہل قدمی شاعر کو ڈسنے لگتی ہے۔ اسی احساس و کرب سے کہہ اٹھتا ہے:
اب قدم اہل جنوں ہی کو اٹھانا ہوگا
ہوش والوں میں تو حوصلہ کم ہوتا ہے
          جب قدم پتھر بن جائیں، افراد کاروان میں ہمت وحوصلہ باقی نہ رہے ، راستہ کی تیرگیاں بے سمت کردیں، عزائم لہولہان ہوجائیں تو منزل کو گناہ گار بنانے سے کیا فائدہ:
راہ طنز کرتی ہے روٹھ جاتی ہے منزل
کارواں جھجھکتا ہے جب قدم بڑھانے سے
          جب دل کے نہاں خانہ میں مقصود جان کو حاصل کرنے کی چاہ پر دنیا کی عزتیں اور دولتیں نہ قربان کردی جائیں گی تب تک سکون دل حاصل نہیں ہوسکتا:
حیات پوچھ رہی تھی سکون کا مفہوم
تڑپ کے دل نے تیرے درد کی قسم کھائی

اسی کی راہ میں آنکھیں بچھائے گی منزل
وہ عزم جو نہیں محتاج ہمت افزائی کا
          جب شاعر پر زندگی کی حقیقتیں آشکار ہوجاتی ہیں تو وہ ان اشاروں کو سمجھنے لگتا ہے جن سے قدرت کا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ وہ دنیا کی رنگینیوں کو یکلخت اپنے سے دور کردیتا ہے۔ زندگی کے رباب و مضراب اس کے لےے بے کیف و بے مزہ ہوجاتے ہیں:
کھلیں کہ بند رہیں راحتوں کے دروازے
حریم صبر میں دل باریاب ہو بھی چکا

اسی لےے تویہ مضراب و تار روتے ہیں
حفیظ تارک چنگ و رباب ہو بھی چکا
          حفیظ کی شاعری کے کئی دلنواز پہلو ہیں لیکن ان کی شاعری کا یہ پہلو آج کے دور کے شاعروں میں انھیں ممتاز کرتا ہے۔ ان کے وہ تجربے ہیں جس میں انھوں نے تحریکی عناصر کو اپنی شاعری میں بڑی خوبصورتی سے داخل کیا ہے۔ ان کی سیماب صفتی و مضطرب مزاجی نے کبھی بھی حالات سے مجبور و مرعوب ہوکر سپر نہیں ڈال دےے۔ وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں سے دامن بچاکر خاموش رہنے پر کبھی بھی تیار نہیں ہوئے۔ چاہے وہ ان کی زندگی کے ابتدائی دور کے حالات ہوں، یا ایمر جنسی کے غیر معمولی حالات ہوں، جیل کی تنگ کوٹھریاں ، صعوبتوں کے طوفان ان کے عزم و حوصلہ کو متزلزل نہ کرسکے، نہ ان کے چہرہ سے شگفتگی و مسکراہٹ کی روشنیوں کو متاثر کرسکے:
ڈوب جائے گی یہ کشتی اگر اسے ساحل ملا
زندگی کو ہر قدم پر ایک طوفاں چاہےے

اور ہمت ہو تو یہ پردہ بھی کردے چاک چاک
سانس بھی کیوں درمیاں جان و جاناں چاہےے

حفیظ! ہم تو روانہ ہوئے خدا حافظ
قدم اٹھائے گا کب کارواں نہیں معلوم

سفر ہی ابتداءمیری، سفر ہی انتہا میری
مسافر ہوں مجھے اندیشہ شام و سحر کیا

سر پھرے باندھے ہوئے سر سے کفن پھرتے ہیں
کج کلاہی کی ہے کچھ فکر نہ پگڑی کا خیال ہے
          ڈاکٹر سید عبد الباری نے حفیظ کی شاعری ، فکر و فن پر بہت کچھ لکھا ہے۔ حفیظ کی تحریکی شاعری اور ان کی حق گوئی و بے باکی کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”حفیظ میرٹھی نے ماحول کے گوناگوں مسائل، سماج کی صحت مند بنیادوں پر تعمیر نو، فرد کی اخلاقی نشو و نما اور ماحول میں انسان دوستی اور امن پسندی کے رحجانات کو فروغ دینے کے لےے پوری بے باکی کے ساتھ فکر اسلامی کی ترجمانی کی....“
(تعبیر و تشکیل، از شاہ رشاد عثمانی)
          حرکت و عمل حفیظ کا انتہائی پسندیدہ موضوع ہے۔ یہ اور اس طرح کے کئی اشعار حفیظ کی شاعری میں مل جائیں گے:
مجھ کو طوفانوں سے لڑنے میں مزہ آتا ہے
ورنہ بہہ جاتے ہیں سیلاب کے رخ پر کتنے

دل انسان پہ حوادث کی یہ چوٹیں توبہ
پھول کے سینے پہ توڑے گئے پتھر کتنے

ہماری بے قراری کو نہ چھیڑو مطمئن لوگو
کہ تقدیر سکوں ہے ہم پریشانوں سے وابستہ
          غرض یہ کہ حفیظ کی شاعری زندگی میں ایک نئی حرارت اور روشنی بکھیرتی ہے اور یہ روشنی کا مینار ۷جنوری ۰۰۰۲ءمیں اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔
***


حفیظ میرٹھی کا نظریہ شعر وفن
 ڈاکٹر ضیاءالرحمٰن ضیا مدنی
صدر ادارہ ادب اسلامی کیرلہ
 dr.zr.br@gmail.com, 9526029212

           بڑے شاعر اور ادیب کی تخلیق کا مطالعہ کیا جائے تویہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اس کا ادب وفن اپنے پس منظر میں مخصوص تصور رکھتا ہے۔یہ تصور اس کے تصور کائنات اور زندگی سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ بیسویں صدی کے ممتاز غزل گو شاعر حضرت حفیظ میرٹھی کا شمار بھی ایسے ہی شاعروں میں ہوتاہے۔انہوں نے زندگی سے متعلق گونا گوں موضوعات کی طرح شعرو ادب سے متعلق بھی اپنے افکار وخیالات کو شعر کا جامہ پہنایا ہے۔ چنانچہ ان کے کلام کے مطالعے سے ان کا نظریہ شعر وفن وضاحت کے ساتھ سامنے آجاتا ہے۔وہ عام معنوں میں کوئی نقاد نہیں ہیں مگر شعر وسخن کے مالہ وماعلیہ کا واضح شعور رکھتے ہیں۔ ذیل کی سطور میں ہم حفیظ کے ادبی نظریات کو چند عناوین کے تحت پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
شاعر ی کی قدروقیمت:
          حفیظ اس خیال کو باطل قرار دیتے ہیں کہ شاعری دینداری اور تقویٰ کو متا

¿ثر کرنے والا مشغلہ ہے۔وہ ان تنگ نظر علماءکو ہدف تنقید بناتے ہیں ، شعر وادب کے ذکر سے، جن کی پیشانی پر شکن آجاتی ہے ، یا جو مذاق سخن سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے رعنائی خیال کو گناہ خیال کربیٹھتے ہیں:

دین سے بھی نہیں ہے دور حفیظ
شاعری سے بھی رشتہ ناتہ ہے

دیکھو یہ پندار تقویٰ ٹھیک نہیں ہے مولانا
شعر وادب کا ذکر چھڑے تو چیں بہ جبیں ہوجاتے ہو
 فن کا جوہر- خلوص وصداقت:
           حفیظ شعر میں خلوص دل کی قدر وقیمت کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ان کے مطابق جب شعر و سخن کو خلوص وبے لوثی اور دل سوزی ودردمندی سے آراستہ کیا جاتا ہے تو انجمن کی رگوں میں خون زندگی دوڑنے لگتا ہے۔وہ شاعری کو ہنسنے اور ہنسانے کے بجائے تڑپنے اور تڑپانے کا عمل کہتے ہیں۔ان کے نزدیک سخن میں تاثیر ناپ تول یا پیمائش سے نہیں آتی ۔اس میں جذبہ ، خلوص اوردلسوزی ووارفتگی کی ضرورت ہوتی ہے۔خامہ فرسائی کمال نہیں ہے ۔دل کا خون قلم سے ٹپکانا اصل کمال ہے۔ان کے نزدیک شگفتگی ،تاثیر اور بصیرت تینوں کے امتزاج سے شعر میں حسن و دلکشی پیدا ہوتی ہے:
دل کا خون قلم سے ٹپکے تب تو ہے کچھ بات حفیظ
یوں ہونے کو تو کتنی ہی خامہ فرسائی ہوتی ہے
خلوص دل کی جھلک جب سخن میں آتی ہے
تو زندگی سی نظر انجمن میں آتی ہے
شاعری اک درد بھی ہے،درد کا پیغام بھی
یہ تڑپنے اور تڑپانے کا فن اچھا لگا
احسان درد وغم کا مرے فکر وفن پہ ہے
نکھرا ہے درد وغم سے مرے فکر وفن کا حسن
تاثیر ناپ تول سے آگے کی بات ہے
پیمائشیں بتا نہ سکیں گی سخن کا حسن
شگفتگی بھی ہے، تاثیر بھی ،بصیرت بھی
پسند آئی تمہاری غزل حفیظ میاں
فن کی پاسداری:
  حفیظ فکر کے ساتھ فن کی پاسداری کو بھی یکساں اہمیت دیتے ہیں ۔ان کے خیال میں فن سے جو فنکار خالی ہوتے ہیں ان کو کسی بھی مصنوعی کوشش سے ادب میں اعلیٰ وارفع مقام نہیں مل سکتا۔ان کے مطابق رعنائی افکار کا مطلب عریانی افکار نہیں ہے۔ وہ حسین وپاکیزہ افکار کو رمزیت وایمائیت اوراستعار وکنایہ کے لباس میں مستور دیکھنا چاہتے ہیں:
فن سے جو فنکار خالی تھے وہ کیا پاتے مقام
یارلوگوں نے ابھارا تو مگر ابھرے نہیں
بات جب ہے کہ فاصلہ نہ رہے
فکر اور فن کے درمیاں لوگو
رعنائی افکار و خیالات کا مطلب
عریانی افکار و خیالات نہیں ہے
           حفیظ شعر کے لیے نغمگی اور موسیقیت کو ضروری خیال کرتے ہیں ۔چنانچہ وہ نثری ومعریٰ غزلوں اور نغمہ و آہنگ سے محروم شعری تجربوں کے قائل نہیں ۔ کلام میں یہ نغمگی فنی تقاضوں کی پاسداری سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔وہ جدید ہیئتی تجربوں کوپسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے۔نثری نظم پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں:
شعر کی محفل میں نثری نظم جب چلنے لگی
ہم نے بھی رکھا غزل اپنے اک افسانے کا نام
معیار کی پستی:
          حفیظ کے مطابق کسی بھی فن پارے کی قدروقیمت میں فکر ونظر کی بلندی کے ساتھ دل کی گہرائی کا ہونابھی ضروری ہے۔ان دونوں کی کمی کے سبب ادبی فن پارے بے وقعت ہوتے جارہے ہیں ۔وہ ادب کے معیار میں گراوٹ کی وجہ ، سطح پسندی کے بڑھتے رجحان کو قرار دیتے ہیں:
کہاں یہ سطح پسندی ادب کو لے آئی
جہاں نظر کی بلندی ،نہ دل کی گہرائی

کہاں تک کام دے گا زیر و بم بے روح نغموں کا
حدی خواں سے مزاج ناقہ محمل نہیں ملتا
          حفیظ شعر وادب کے گرتے معیار پر سخت کبیدہ خاطر نظرآتے ہیں ۔وہ اس پستی کاایک اہم سبب شعر کے حسن وقبح کو پرکھنے والے اچھے سخن فہموں اور باذوق سامعین اور قارئین کی کمی کو قرار دیتے ہیں ۔ ان کے مطابق اب شاعر اور فنکار شعروفن کے اصول وآداب اور اس کے تقاضوں کے کو سامنے رکھنے کے بجائے عوام کی پسند وناپسند اور بازار کی طلب کے حساب سے جذباتیت پر مبنی،سستی شہرت کی حامل شاعری کرتے ہیں:
جب سخن فہموں کی دنیا میں کمی ہونے لگی
شاعری رخصت ہوئی خانہ پری ہونے لگی

مانگے ہے حفیظ اور ہی کچھ شعر کا بازار
کچھ اور طلب شعر کا معیار کرے ہے
           اس ضمن میں مشاعروں کے گرتے معیارپر بھی وہ تیکھے تبصرے کرتے ہیں۔ اردو ادب کے اس مقبول عام ادارے کے تجارتی کرن،مشاعرہ باز شاعروں کی مقبولیت اورمتشاعرین ومتشاعرات کی دراندازیوں نے اس ادارے کو جو نقصان پہنچایاہے،حفیظ اس پر انگشت نمائی کرتے اور اس کو اپنی مثبت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ان کے مطابق ان کاروباری مشاعروں کی وجہ سے فن کی آبرو خطرے میں دکھائی دیتی ہے:
مشاعروں میں حفیظ آج کل وہی جائے
کہ جس کو حد سے زیادہ ہو ذوق رسوائی
کاروباری مشاعروں میں حفیظ
آبروئے ہنر نہ جا ئے کہیں
فکر وفن سے نہیں ، ا سٹیج کے شاعر کی شناخت
اب یہ معیار ہے کیا لیتے ہیں ،کیا دیتے ہیں
اپنے اپنے ڈھنگ سے شاعر داد طلب کرتے ہیں حفیظ
کوئی ڈراما بازی کرکے ،کوئی گاکر مانگے ہے
 تنقید وتبصرہ :
           حفیظ شعروادب کے معیار کو گرنے سے بچانے کے لیے تنقید وتبصرہ کی ضرورت واہمیت شدت سے محسوس کرتے ہیں ۔ان کے خیال میں تنقید سے شاعر کی تقدیر سنورتی ہے ۔ اس لیے ادیب وشاعر کو تعریف وتحسین کا متوالا نہیں ہونا چاہیے۔وہ تحسین وآفرین کے پھول برسانے والوں سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ وہ ان کی غزل کے چہرے پرغائر نگاہ ڈال کر عیوب کی نشاندہی کرتے تو ان کے حق میں زیادہ بہتر ہوتا:
تنقید سے شاعر کی تقدیر سنورتی ہے
تعریف کے متوا لے تنقید گوارا کر
حفیظ اب مرحبا کے شور سے تسکیں نہیں ہوتی
کبھی نقد ونظر سے بھی غزل کو آشنا کرتے
یہ کیا مقام ہے کہ ہمارے کلام پر
تنقید کی گئی نہ کوئی تبصرہ ہوا
 حفیظ جہاں تنقید وتبصرہ کی ضرورت واہمیت اجاگر کرتے ہیں،وہیں ناقدوں اور تبصرہ نگاروںکو بھی انصاف سے کام لینے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ نقاد سے کہتے ہیں کہ اگر وہ واقعی پارکھ اور جوہری ہے تو اس کو چاہیے کہ فنکار کی شہرت کی روشنی میں نہیں ،فن پارے میں موجود کمالات کی بنیاد پر فنکار کا مقام متعین کرے۔شہرت کی مشینیں بعض پست قد فنکار وں کو قدآور بنادیتی ہیں۔وہ عیبوں کو ہوا دینے والے ناقدوں اور اشتہاری تبصرہ نگاروں کو بھی ہدف ملامت بناتے ہیں۔
تو جوہری ہے تو زیبا نہیں تجھے یہ گریز
مجھے پرکھ ، میری شہرت کا انتظار نہ کر
مجھ سے کہتا ہے کہ اس سے تیری شہرت ہوگی
میرا ناقد میرے عیبو ں کو ہوا دیتا ہے
ذلیل کرتے ہیں خود تبصرہ نگاروں کو
وہ تبصرے جو فقط اشتہار ہوتے ہیں
مزاج داں ہیں اگر آپ شاعری کے حفیظ
کسی کے شعر نہ پرکھیں عروض داں کی طرح
شہرت کی مشینوں نے نام اس کا اچھالا ہے
مشہور ہے وہ جتنا اتنا نہیں قدآور
 شہرت وجاہ کی چاہ:
  حفیظ کے خیال میں شہرت کی طلب اور خود نمائی فنکار کی شخصیت اور فن دونوں کو مجروح کرتے ہیں ۔ستائش کی تمنا اور صلے کی خواہش فنکار کی شخصیت کی طرح اس کے فن پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔اہل جاہ کی مصاحبت سے فنکار ساقط الاعتبار ہوجاتاہے:
آسماں اس سے بہت دور ہے عظمت کا حفیظ
آشیاں فن کا نہ شہرت کے شجر پر رکھنا
اپنی تعریفوں کے پل باندھے ہیں جس فنکار نے
شخصیت اچھی لگی اس کی نہ فن اچھا لگا
شرماتا ہوں فنکار سمجھتے ہوئے خود کو
جب جھوٹی خوشامد کوئی فنکار کرے ہے
لاکھ علم والا ہو، لاکھ فضل والا ہو
معتبر نہیں ہے وہ، شہہ کا جو مصاحب ہو
   آخر میں یہ عرض کرتا چلوں کہ حفیظ نے شعر وفن سے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا ہے ، وہ خود ان کی شخصیت اور فکروفن میں پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر نظر آتے ہیں۔ان کی شخصیت کی طرح ان کا فن بھی منافقت اور دورنگی سے یکسرپاک ہے ۔      
***

حفیظ میرٹھی کی حق گوئی
 اور بے باکی

فرحت حسین خوشدل
ہزاری باغ (جھارکھنڈ)
9798562194
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
          علامہ اقبال کے مشہور زمانہ شعر کو جب ہم پڑھتے یا سنتے ہیں تو ہماری سماعتوں میں ایک نیا جوش وولولہ موجزن ہوتا ہے۔ تصورات کی دنیا میں ہم اپنے اسلاف کے کارناموںاور ان کی حق گوئی و بے باکی کو دیکھ کر حیران بھی ہوتے ہیں اور اپنی بے عملی پر پشیمان بھی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ علامہ اقبال نے جس طرح اپنی شاعری کے توسط سے حق گوئی اور بے باکی کامظاہرہ کیا اس کے گہرے اثرات حفیظ میرٹھی کے اشعار میںجا بجا ملتے ہیں۔
          حفیظ میرٹھی اردو شاعری کی تاریخ کا ایک اہم نام ہے۔ اردو کے اہم دبستانوں میں ایک نام دبستان میرٹھ بھی ہے۔ ان کی شاعرانہ بے باکی پر گفتگو سے قبل میرٹھ کی تاریخی اور ادبی پس منظر کاذکر کرنا ضروری سمجھتاہوں۔
          ڈاکٹر خالد حسین خاں کی مطبوعہ کتاب ”ادبی تحریریں“ کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں:
  ” میرٹھ دہلی سے متصل، شمال کی جانب عہد قدیم سے دو آبے کا ایک زرخیز اور معروف ضلع ہے۔ اس کی تاریخ ساز حیثیت کائنات اردو میں اس لےے کہ کھڑی بولی کا حقیقی اور اصلی علاقہ یہی ہے .... اردو ادب کی تاریخ میں نظم ونثر کو مساوی حیثیت حاصل ہے۔ دبستان میرٹھ کی بیسویں صدی کی ادبی تاریخ کے مطالعے سے اس حقیقت کا انکشاف ہوتاہے کہ یہاں سخن وروں کے ساتھ ساتھ با کمال نثاروں کی تعداد بھی کسی طور فرومایہ نہیں سمجھی جاسکتی۔
  مذکورہ حقائق کی روشنی میں بیسویں صدی کے اوائل سے آزاد ہند تک اردو شعر و ادب کی آبیاری کرنے والوں کا ایک اہم اور سرگرم مرکز و محور میرٹھ کالج بھی رہا ہے۔ اس علمی درس گاہ سے فیض یاب ہونے والے سر آوردہ نثّاروں میں خواجہ احمد فاروقی، ڈاکٹر شوکتسبزواری، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر ظ۔انصاری، ڈاکٹرجمیل جالبی، محمد یح تنہا، مولوی عبد الحق، مولوی چراغ علی،علامہ سحر عشق آبادی، حبیبالرحمن خاں شیروانی، مرزا رحیم بیگ، ڈاکٹر نور احمد میرٹھی، ریوتی سرنشرما، پنڈت لیکھ رام شرما، شیبہ عباس، انتظار حسین، امدادحسین زبیری، ڈاکٹر امین اللہ شاہین، محمد مشتاق شارق کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔
  اسی طرح سخن وروں میں مولوی محمد اسماعیل میرٹھی، سید یار خاں ساغر نظامی، تسکین میرٹھی، کوثرمیرٹھی، روش صدیقی، افسر میرٹھی، تسخیر میرٹھی، بوم میرٹھی، حفیظ میرٹھی، نور تقی نور میرٹھی، ولیم ہما، بی۔ایس۔ جین جوہر، اور دیپک قمر جیسے مستند و مایہ ناز شعراءکی خدمات نے اردو دنیا میں دبستان میرٹھ کو مقام رفیع اور تاریخ ادب و صحافت میں مقام وقیع دلایا ہے۔“
(میرٹھ-تاریخی، ادبی اور سیاسی پس منظر۔ص:۲۱۲-۴۱۲)
          اس اقتباس سے دبستان میرٹھ کے ادبا و شعرا کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ البتہ شعرا کی اس فہرست میں اسمٰعیل میرٹھی کے بعد حفیظ میرٹھی کو اسلامی فکر کی ترجمانی کرنے کے ساتھ ساتھ حق گوئی و بے باکی کا برملا اظہار کرنے والوں میں شمار کرتا ہوں۔
          موصوف کی پیدائش ۰۱جنوری ۲۲۹۱ءمیں میرٹھ کے مردم خیز خطہ

¿ ارضی پر ہوئی۔ ۰۳ سال کی عمر میںجماعت اسلامی ہند کے اصولوں سے متاثر ہوکر ۲۵۹۱ءمیں شمولیت اختیار کی۔ ان کے والد محترم ابراہیم خلیل صاحب اپنے عہد کے باکمال شاعر تھے۔ حفیظ میرٹھی کو شاعری وراثت میں ملی۔ اپنی حق گوئی اور بے باکانہ شاعری کے حوالے سے رنج و محن اور ایمرجنسی کے دوران اسیران حق گوئی کے ساتھ جیل بھی گئے۔ دورانِ اسیری اپنے اکلوتے بیٹے کے انتقال پُرملال کے غم کو برداشت کیا۔ علامہ اقبال کے مذکورہ شعر کے پس منظر میں انھوں نے اپنے شعر میں صفت ِ اسد اللّٰہی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا:

بے عصا اپنی کلیمی ہے تو کیا
وقت کے فرعون سے ڈر جائیں کیا
داد دیجےے کہ ہم جی رہے ہیں وہاں
ہیں محافظ جہاں قاتلوں کی طرح
میں حق کا سپاہی ہوں تماشائی نہیں ہوں
ہر معرکہ

¿ کرب و بلا میرے لےے ہے

مظلوم تھا میں مجھ کو ہی ٹھہراتے ہیں مجرم
یہ فلسفہ جرم و سزا میرے لےے ہے
          حفیظ میرٹھی کے یہ اشعار ان کی حق گوئی اور بے باکی کاجس طرح ثبوت فراہم کرتے ہیں ان کی روشنی میں جب ہم اپنے عزم و استقلال کا جائزہ لیتے ہیں تو بڑی حد تک مایوسی ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ حفیظ میرٹھی جس قدراپنی فکر انگیز اور پُرسوز شاعری نیز افادیت سے بھرپور اور معنی خیز کلام کے لےے برصغیر ہند و پاک کے علاوہ اردو دنیا کے اُفق پر درخشندہ ستارہ کی مانند خوب چمکے لیکن یہ اَلمیہ بھی کم نہیں کہ ان کے فکر و فن پر دورانِ حیات اور بعد از وفات جتنا لکھا جانا چاہےے تھا نہیں لکھا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے کارناموں پر توجہ کم ہی لوگوں نے کی۔ آج بھی ان کے کلام کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی شاعری میں وہ گوہر آبدار مخفی ہے جس کی روشنی میں یہ شعرزبان پر از خود آکر ان کی عظمت کا اعتراف کرانے کے لےے کافی ہے:
مُشک آنست کہ خود بَبُوید
نہ کہ عطّار بگُوید
          اسلامی و صالح نظرےے کے حامل شاعر حفیظ میرٹھی اگرچہ ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کا کلام آج بھی زندہ ہے اور ان شاءاللہ کل بھی زندہ رہے گا۔ حفیظ میرٹھی کے کارناموں پر کسی ایک مضمون میں اپنی باتوں کو مختصراً سمیٹنا آسان نہیں، لیکن ان باتوں کو جو نہایت اہم ہیں تحریر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ان کے کلام میں حرارت اور حرکت و عمل پر آمادہ کرنے والے اشعار ہیں وہ آپ کے حوالے کرتا ہوں:
کارواں چاہے مختصر ہوجائے
کوئی رہزن نہ ہم سفر ہوجائے
مردانِ حق پرست کو ہر کربلا قبول
پیچیدہ مسئلہ ہو تو کچھ غور بھی کریں
رات کو رات کہہ دیا میں نے
سنتے ہی بوکھلا گئی دنیا
اب اہلِ کارواں پہ لگاتا ہے تہمتیں
وہ ہم سفر جو حیلے بہانے میں رہ گیا
          موصوف کے مذکورہ اشعار کا جو رنگ و آہنگ ہے اس کی روشنی میں یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ ” شاعری جزویست از پیغمبری“ اور ” ان من الشعر حکمة“ کی کسوٹی پر کھرا اترتا ہے۔ لیکن شاعری کا ایک رنگ وہ بھی ہے جس کی قرآن حکیم میں ممانعت ہے۔ اول الذکر شعر کا بے باکانہ اور منصفانہ طنز ہماری زندگی کے انفرادی اور اجتماعی طرز عمل پر قدغن بھی لگاتا ہے اور ہمیں متنبہ بھی کرتا ہے۔
          موصوف کے عزم و ہمت کی داد دینے کی مجھے چنداں ضرورت نہیں بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان نفوس قدسیہ کے پیغام سے سبق لیں اور ان کے حق میں دعائے خیر کریں۔ علامہ اقبال کا یہ شعر بڑا ہی قیمتی ہے، کاش کہ یہ شعر ہمارے دل میں اتر جائے:
چوں می گویم مسلمانم بہ لرزم
کہ دانم مشکلات لا الہ را
          حفیظ میرٹھی نے یہ بات اپنے قول و عمل سے ثابت کرکے دکھلا دی ہے۔ جس کا معترف آج بھی ایک زمانہ ہے کہ جو مردانِ حق پرست ہیں انھیں ہر کرب و بلا کی آزمائش سے گزرناہوگا۔
          حفیظ میرٹھی ہوں یا اسماعیل میرٹھی، حفیظ جالندھری ہوں یا علامہ اقبال ان جیسے شعرا اور بے شمار ادبا نے اپنی تحریروں اور کارناموں سے ملت اسلامیہ کے سوئے ہوئے افراد کو بیدار کرنے کی کوشش کی لیکن انھیں کے قلوب میں تغیر وتبدل کی کارفرمائی ہوئی جن کا قلب زندہ اور نرم و نازک تھا۔ ان لوگوں نے اسلاف کی صفات ِ حسنہ سے خود کو بھی متصف کیا اور دوسرے احباب کے لےے اپنے عمل سے ذریعہ

¿ نجات بنے۔ ایسے لوگوں کی فہرست میں ایک نام حفیظ میرٹھی کا بھی ہوگا۔

          حفیظ میرٹھی کا پہلا شعری مجموعہ ” شعروشعور“ ۵۷۹۱ءمیں منصہ شہود پر آکر ان کی شاعرانہ بے باکی اور صالح افکار کی معیاری روش کو اہل نظر میں معتبر کرانے میں کامیاب ہوا۔ ایک طویل عرصہ کے بعد دوسرا مجموعہ ” متاع آخر شب“ ۶۸۹۱ءمیں شائع ہوا۔ یہ سال موصوف کے لےے حزن و ملال کاتھا۔ ایک مسلمان جو موصوف کے قریبی بتائے جاتے ہیں، نے ان کی اہلیہ کا بڑی بے دردی سے قتل کردیا۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ میں نے روانی میں اس قاتل کو مسلمان کے لقب سے کیوں ملقب کیا؟ لیکن یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیںہے۔ اس کی ایک نہیں ہزاروں لاکھوں مثالیں قوم مسلم کے دامن کو داغدار کرچکی ہیں اور کررہی ہیں:
جو قتل عام کے شاہد تھے، مظلوموں کے حامی تھے
اجارہ دار ہیں دامانِ قاتل کی صفائی کے
حفیظ اب وہ مری حق گوئی پر تنقید کرتے ہیں
مرے احباب کو دعوے تھے میری ہمنوائی کے
          ” حفیظ میرٹھی کی یاد آرہی ہے“ کے عنوان سے ایک وقیع مضمون مولانا سید جلال الدین عمری امیرجماعت اسلامی ہند کامیری نظروں سے گزرا۔ انھوں نے حفیظ میرٹھی سے متعلق جو باتیں تحریر کی ہیں ان کو Nutshell کی شکل میں آپ کے حوالے کرتاہوں:
           ”حفیظ صاحب فطری شاعر تھے۔ ان کا ذوقِ شعری خداداد تھا۔ اقبال سہیل مرحوم مولانا شبلی کے شاگرد خاص تھے........خود شاعر تھے اور اردو اور فارسی شاعری پر وسیع نظر رکھتے تھے۔ ان کے ایک عزیز اور میرے دوست محمداکرام صاحب (جو اب مرحوم ہوچکے ہیں)نے بیان کیا۔ (کاتب کی زیادتی ہے کہ انھوں نے لفظ مرحوم کو جو اسم مفعول ہے اپنی نادانستہ غلطی سے مرنے یا مرا ہوا کے معنی میں لیا ہے، جب کہ آغاز اقتباس میں لفظ مرحوم جس کا مادہ رحم ہے موت نہیں لیا گیا ہے۔ خوشدل)یہ اس وقت کی بات ہے جب میرٹھ سے ادارہ

¿ ادبِ اسلامی ہند کا ترجمان ماہنامہ ’ معیار‘ شائع ہونا شروع ہواتھا اور حفیظ صاحب کی غزلیں اس کی زینت بن رہی تھیں کہ اتفاق سے ایک مرتبہ اس کے کچھ شمارے سہیل صاحب دیکھ رہے تھے۔ حفیظ صاحب کی غزل پر ان کی نظر جم گئی۔ انھوں نے اکرام صاحب سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہیں؟ انھوں نے غائبانہ تعارف کرایا تو اقبال سہیل نے کہا۔ اور ان کا کہنا سند کا درجہ رکھتا ہے، کہ اس شخص میں شعر گوئی کی فطری صلاحیت ہے........حفیظ صاحب کی شخصیت کی تعمیر میں تحریک ِ اسلامی کا بڑا دخل رہا ہے۔ وہ عنفوان شباب ہی سے تحریک سے وابستہ ہوگئے۔اس کی خاطر انھوں نے قید و بند کی تکلیف بھی برداشت کی، لیکن اُن کے استقامت اور عزم و حوصلہ میں کوئی فرق نہیں آنے پایا۔ وہ اپنے عمل سے اعلان کرتے رہے:

بڑھتا ہے ذوقِ جنوں یاں ہر سزا کے بعد“
(ماہنامہ پیش رفت۔جولائی ۴۱۰۲ئ۔ ص:۴۱)
          طوالت کاخوف دامن گیر ہے۔ مضمون کے اختتام سے قبل چندایسے اشعار جن میں حق گوئی و بے باکی کا برملا اظہار بھی ہے اور ان کے روشن افکار بھی آپ کی نذر کرتا ہوں۔ گزارش ہے کہ اس کے اعماق پر توجہ خاص دے کر موصوف کی شاعرانہ بے باکی کو زمانے پر مشتہر کریں:
زباں بندی سے کب جذبات کا سیلاب رکتا ہے
حدود بحر کی پابند طغیانی نہیں ہوتی
جان ہتھیلی پر رکھ لے
کہنی ہے گر سچی بات
          سہل ممتنع میں اتنی سچی بات اور حق گوئی کا اظہار داد کے قابل ہے۔
کبھی جب امتیاز حق و باطل کا سوال آیا
ہمارے سامنے پھر اپنے بیگانے نہیں آئے
          کاش اس شعر پر عمل پیرا ہوکر امت کے تمام افراد اقوام غیر پر مثبت گہری چھاپ چھوڑنے کا عزم مصمم اور نمونہ پیش کریں۔
سر بکف ہم جو بڑھے دین کی نصرت کو حفیظ
کفر کا فتویٰ لگا شیخِ حرم کے ہاتھوں

دست ہوس میں سیف ہے،جہل کے ہاتھ میں قلم
معرکہ

¿ حیات میں رہ گئے خالی ہاتھ ہم

          یہ المیہ صرف اور صرف قوم مسلم کا ہے کہ آپس میں ہم دست و گریباں ہی نہیں بلکہ تکفیر بازی کی لعنت میں آج بھی محبوس ہیں۔ ہر گروہ دوسری جماعت کو قابل نفرین سمجھتا ہے۔ ہر جماعت اپنے آپ کو نجات دہندہ سمجھتی ہے اور دوسروں کو مغضوب و معتوب۔ واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا پر عمل کرنے کے لےے کوئی تیار نہیں۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
          ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نہج پر ہمارے اکابرین غور فرمائیں اور ایسی اچھی باتیں جو ہماری دنیوی منفعت کے ساتھ ساتھ اخروی منفعت کے لےے کار آمد ہوں ان پر زبانی جمع خرچ سے صرف نظر کرتے ہوئے ایک ٹھوس لائحہ عمل تیار کریں۔ کاش ایسا ہو۔
***

حفیظ میرٹھی کی شاعری ميں
عصری حسیت
شبلی ارسلان
شانتا پرم
8089421471

          زندہ و توانا شاعری ردیف شناسی و قافیہ پےمائی سے نہیں ،عصری حسیت سے جنم لےتی ہے۔ عصری حسیت یعنی عصر حاضر کا شعور و ادراک اور عصری آگہی و حساسیت کا اظہار۔ بقول حفیظ :
مزاج داں ہےں اگر آپ شاعری کے حفیظ
کسی کے شعر نہ پرکھےں عروض داں کی طرح
           شاعر حساس دل انسان ہوتا ہے۔ہندی مےں تو '' کوی ہِردے'' باضابطہ اےک لفظی ترکیب ہے۔اےک اچھا سچا شاعر اپنے عہد کے واقعات و حوادث پر پگھل اٹھتا ہے۔وہ ان واقعات و حوادث کے گہرے اثرات کو عام انسانوں کے مقابلے مےں زیادہ شدت سے محسوس کرتا ہے۔حفیظ میرٹھی کا یہ شعر دےکھےں :
کس حادثہ کی چوٹ نہ جانے کہاں پڑے
دنیا ہے اک حلقہ زنجیر کائنات
          لےکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شاعری نیوز اسٹوری اور بیان واقعہ کا نام نہیں ہے۔رمزو کنایہ، اشارات و استعارات ،ترکیب لفظی شاعری کے لوازم ہےں۔نعیم صدیقی اسے یوں کہتے ہےں”شاعر جذبات واحساسات اور تجربات و کےفیات کو پےش کرتا ہے مگر وہ اپنے پاس سے ذرا سا اےک جوہر بھی شامل کر دےتا ہے۔“
          حفیظ میرٹھی نے اپنی دنیائے مشاہدات و تجربات کو اسی نازک فارم مےں پےش کیا ہے۔اور اپنے پاس سے وہ 'ذرا سا جوہر' بھی بھر پور مقدار مےںشامل کردیا ہے۔
          حفیظ میرٹھی نے اپنی زندگی مےں عصر حاضر کے گوناگوں سیاسی تغیرات دےکھے،ذہنی و فکری انتشار دےکھا، اخلاقی و معاشرتی فساد کا بچشم سر مشاہدہ کیا،بے حسی ،شقاوت اور ظلم و بربریت کا نظارہ بھی کیا۔سماجی و معاشی نا انصافی اور بدعنوانی کی عفریت کا ننگا ناچ بھی دےکھا۔اےک فکر و نظر سے مضبوط وابستگی کی وجہ سے جو کچھ دےکھا اسے شعور و عبرت کی نگاہ سے دےکھا اور اسے شاعری کے نازک قالب مےں ڈھالا۔واضح رہے کے حفیظ نے اپنے پہلے مجموعے کا نام ' شعر و شعور' رکھاتھا' شعر شورانگےز' نہیں!
          حفیظ نے عصری حقائق کے مطالعہ و مشاہدہ کے لئے کس طریقے کو اختیار کیا اس پر نعیم صدیقی کے الفاظ ملاحظہ فرمائےں'' حقیقت کا اےک مطالعہ یہ ہے کہ آپ نے راستے مےں کانٹے بکھرے ہوئے دےکھے اور ادھر ادھر سے بچ بچا کر نکل گئے۔ حقیقت کا دوسرا طریق تجربہ یہ ہے کہ آپ کے تلوے مےں کانٹا چبھ گیا اور اس کے ساتھ درد کی ٹیسےں اٹھنے لگیں بلکہ آنسو نکل آئے۔تےسری معرفت یہ ہے کہ رہررو کو کانٹا بھی چبھے،درد بھی ہو مگر وہ ہنستا مسکراتا بھی رہے اورحفیظ میرٹھی کے شعر گنگنانے لگے۔حفیظ میرٹھی نے تلخ حقائق کا مطالعہ اسی تیسرے طریق معرفت سے کیا ہے۔''
          حفیظ کی شاعری مےں جو عصری حسیت ہے اس کا سب سے نمایاں پہلو طنز ہے۔مگر حفیظ کی شاعری مےں تند و تےز طنز نہیں اےک گلابی سرد طنز پائی جا تی ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ فرمائےں:
مدتوں پھول سمجھتی رہی ان کو دنیا
ہم نے تو زخم بھی رکھے ہےں سجا کر کتنے
دل انسان پہ حوادث کی یہ چوٹےں توبہ
پھول کے سینے پہ توڑے گئے پتھر کتنے
ہمارے سماج مےں جہےز کے نام پر دلہن سوزی کے واقعات عام ہےں۔اس پر حفیظ کی یہ طنز دےکھئے :
یہ کیا سلوک محبت سے آدمی نے کیا
لباس گل مےں گئی تھی کفن مےں آئی ہے
          سفےد پوش سیاست داں ، شیوخ ،واعظین و قائدین پر حفیظ کی نشتر زنی ملاحظہ فرمائےں:
کوئی فرےب نہ کھائے سفےد پوشی سے
نہ جانے کتنے ستارے نگل گئی ہے سحر
          اےسے ہی خوبصورت گلابی سرد طنز سے حفیظ کی شاعری بھری پڑی ہے۔
          حفیظ صرف طنز کے تیر نہیں چلاتے بلکہ مسائل حاضرہ پر تڑپاتے بھی ہےں،سوز و ساز اور درد وکسک بھی شےئر کرتے ہےں۔فرقہ وارانہ فسادات کے پس منظر مےںیہ اشعار ملاحظہ فرمائےں:
ہم سایوں سے ہم وطنوں سے لاشےںپوچھا کرتی ہےں
پیار کی باتےں کرنے والو پاگل کیوں ہوجاتے ہو؟
یہ دور سنگ دل ہی نہیں تنگ دل بھی ہے
گر بس چلے تو آہ بھی کرنے نہ دے مجھے
منظر کی تکمیل نہ ہوگی تنہا مجھ سے فنکارو
دکھ کے گیت تو مےں گا دوں گا آنسوکون بہائے گا
          حفیظ کی شاعری مےں عصری حسیت کے حوالے سے تیسری نمایاں چیز بے باکی و حق گوئی ہے۔مثلاً حفیظ امن و شانتی کے جھوٹے دعوےداروں کو آئینہ دکھا تے ہےں ۔ان کے قول و فعل کے تضاد کو کھل کر پےش کرتے ہےں:
امن کے ہی دےوتاﺅں کے اشاروں پر حفیظ
جنگ کی دےوی کھلے شہروں مےں برساتی ہے آگ
امن کا پےغام تو کس منہ سے دےتا ہے ہمےں
خون اے ظالم ٹپکتا ہے تری شمشیر سے
          حفیظ مسائل حاضرہ کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی فکر و نظر کی روشنی مےں اس کی اصل وجہ سے بھی بحث کرتے ہےں:
آسمانی ہدایت سے منہ موڑ کر
اب کہاں تک فرےب خرد کھائیے
          عصری حسیت کے حوالے سے حفیظ کی شاعری کا اےک آخری نمایاں پہلو یہ ہے کہ مسائل حاضرہ اور عہدحاضر کے المیوں کے حل کے لئے وہ لوگوں کواکساتے بھی ہےں،تحریک بھی دےتے ہےں:
یہ گوشہ نشینی تو اک بزدلی ہے
نظر زندگی سے ملاﺅ تو جانےں
غریبوں کا خوں جن کے منہ لگ گیا ہے
اگر ان سے توبہ کراﺅ تو جانےں
حفیظ آج انسانیت مر رہی ہے
کسی طرح اس کو بچاﺅ تو جانےں
***

         
جہان ادب
بنگلور میٹرو کی تنظیم نو اور ادبی اجلاس
          ادارہ ادب اسلامی ہند بنگلور میٹرو کی تنظیم نو کے سلسلہ میں ایک نشست مورخہ ۵۱مارچ ۵۱۰۲ءبروز اتوار، بفٹ ہال، بنگلور میں منعقد ہوئی۔ جناب فیاض قریشی صدر، جناب ارشد صدیقی سکریٹری اور جناب نذیر نصرت خازن منتخب ہوئے۔ جناب امان اللہ شکیل آزر نائب صدر، جناب ریاض احمد خمار اور جناب عبد الوہاب سردار دانش جوائنٹ سکریٹریز منتخب ہوئے۔ بزرگ اور کرناٹک کی معروف شخصیت جناب ضیا کرناٹکی ادارہ کے سرپرست ہوں گے۔ ان کے علاوہ جناب مشتاق احمد شاہ، جناب دادا سیٹھ پٹیل اور جناب این، آر، ساجد مجلس عاملہ کے اراکین منتخب ہوئے۔
          انتخابی عمل کے بعد ادبی اجلاس اور مشاعرہ کا انعقاد ہوا۔ جناب فیاض قریشی نے ” عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں“ کے عنوان سے ایک دلچسپ اور طویل افسانہ سنایا، طوالت کے باوجود سامعین کی آخری دم تک دلچسپی برقرار رہی اور خواب دا د دی گئی۔ ارشد صدیقی کی تلاوت قرآن کے بعد سردار وہاب دانش اور نذیر نصرت نے نعت کا نذرانہ قیدت پیش کیا۔ شکیل آزر نے غزل کے دور کا خوب صورت اور متاثر کن آغاز کیا۔ سردار وہاب، نذیر نصرت، مشتاق شاہ نے بھی خوب داد وصول کی۔ ارشد صدیقی کی نظامت میں دادا سیٹھ پٹیل نے حمد پاک کا ترنم چھیڑ کر اس مجلس شعر و سخن کا آغاز کیا۔ آئندہ سالانہ پروگراموں کے سلسلہ میں مشاورتی اجلاسوں میں شرکت کرنے کی عہدیداران سے گزارش کرتے ہوئے ارشد صدیقی نے سامعین کا شکریہ ادا کیا اور مجلس اختتام پذیر ہوئی۔

(رپورٹ: ارشد صدیقی، بنگلور)

چتر پور (جھارکھنڈ) میں ادارہ کی تشکیل
          صدر ادارہ ادب اسلامی ہند ڈاکٹر حسن رضا کی چتر پور آمد پر ادارہ ادب اسلامی ہند کی مقامی شاخ کا قیام عمل میں آیا۔ ماسٹر صبغت اللہ صاحب کو صدر بنایا گیا۔ ادارے کی جانب سے گزشتہ ماہ پہلا نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد ہوا۔ اس میں حافظ مظہر الحسن مظہر چتر پوری، ماسٹر محمد علی انصاری، حافظ حیدر علی حیدر اور معروف و ہر دل عزیز مقامی شاعر حفیظ اللہ صدیقی حفیظ نے اپنے نعتیہ کلام سے سامعین کو نوازا۔ حفیظ اللہ حفیظ نے اپنے خوبصورت ترنم سے نعت پڑھ کر سامعین سے بھری محفل نعت میں ایک سماں باندھ دیا۔ مشاعرے کی نظامت کی ذمہ داری ماسٹر اشفاق احمد نے ادا کی۔ انھوں نے مشاعرے سے قبل ادارہ ادب اسلامی ہند کا جامع تعارف بھی کرایا۔
(رپورٹ: محمدتوقیر احسن، چتر پور)

ڈالٹن گنج میں ایک اعزازی نشست
          ۴۱فروری ۵۱۰۲ءبروز ہفتہ شام ۷بجے مقامی اردو لائبریری کے ہال میں ادارہ ادب اسلامی ہند ڈالٹن گنج (جھارکھنڈ) کی جانب سے دہلی سے تشریف لائے مشہور و معروف شاعر اور ادارہ کے نائب صدر جناب انتظار نعیم کے اعزاز میں ایک شعری نشست منعقد کی گئی۔ اس میں مقامی شعرا کے علاوہ دیگر محبانِ اردو نے شرکت کی۔ اس نشست کی صدارت جناب انتظار نعیم نے کی ، جب کہ نظامت ادارہ ادب اسلامی کے مقامی سکریٹری ڈاکٹر انتخاب اثر نے کی۔
          مشاعرے کا آغاز حمد باری تعالیٰ اور نعت پاک سے ہوا۔ جسے نسیم ریاضی نے اپنی مترنم آواز میں پیش کیا۔ اس کے بعد باضابطہ مشاعرے کا آغاز ہوا۔ مشاعرے میں پڑھے گئے شعراءکے منتخب اشعار قارئین کی دلچسپی کے لےے پیش کےے جاتے ہیں:
دل میں ہلچل مچا گیا کوئی
جام الفت پلا گیا کوئی
علاءالدین چراغ
میسر ہو اگر سامان صحرا کا
تو رکھ لوں گا میں بھی مان صحرا کا
ندرت نواز
جس کو جینے کا سلیقہ ہے جہان اس کا ہے
ورنہ دنیا میں نہیں مکان اس کا ہے
ایم جے اظہر
گناہوں کے لہو سے بھی
نمازی ہاتھ دھولے ہے
عالم پرواز
جسے خبر تھی وہ کیا کیا گمان رکھتا تھا
جو دل میں عزم ہتھیلی پہ جان رکھتا تھا
ڈاکٹر انتخاب اثر
چین سے رہنے نہ دیں گے مجھے اہل ثروت
مفلسی آ تجھے ہم اپنا پتا دیتے ہیں
مقبول منظر
چلو بھی ختم کرو سلسلہ تصادم کا
و گر نہ روز نیا انقلاب بھی ہوگا
ارشد عمر
وہ رہے ساتھ زندگی بن کر
اب وہ ملتے ہیں اجنبی بن کر
نسیم ریاضی
اقرار تم نہ کرسکے انکار تو کرو
وہم و گماں کا میرے بھی اظہار تو کرو
شمیم جوہر
غم سے ٹوٹ جاتا ہے آدمی اکیلے میں
جب کبھی بھی رہتی ہے زندگی اکیلے میں
قیوم رومانی
سنگِ رہ دیکھنا زخم پا دیکھنا
چل پڑے ہیں تو کیا مرحلہ دیکھنا
محرومیوں کا ذکر مسلسل نہ کیجےے
دل کو اداس کیجےے پاگل نہ کیجےے
انتظار نعیم
(رپورٹ: ارشد قمر، ڈالٹن گنج)

الکل(کرناٹک ) میں ایک نشست
          سرزمین الکل ادب کے لحاظ سے بڑی زرخیز ہے۔ماہانہ ادبی نشستوں کا انعقاد ادارہ ادب اسلامی شاخ الکل کی خصوصیت رہی ہے۔ معروف شعرائے کرام جیسے مسلم بیجاپوری، قدیر احمد قدیر ، مظہر محی الدین کے علاوہ عزیز بلگامی نے بھی اپنے کلام سے یہاں کی نشستوں کو پُروقار رونق بخشی ہے۔
          ادبی نشست کی صدارت جنا ب محبوب عالم بڑگن نے فرمائی اور نظامت کے فرائض جناب عبدالکریم بڑگن نے انجام دےے۔ جناب محمد سراج الدین ہمناباد کی تلاوت کے بعدنور محمد نور نے حمد باری تعالیٰ اور نعت رسول شمس الدین ہمناباد نے پیش کیا۔ جناب مظہر محی الدین کی شخصیت ریاست کرناٹک میں بہت معروف ہے۔ موصوف حلقہ

¿ کرناٹک کے سابق صدر بھی رہے ہیں۔ کرناٹک اردو اکادمی نے آپ کے مجموعہ کلام ” لفظ لفظ روشنی“، ” جاگتی دہلیز“ اور ”اعتبار“ پر حال ہی میں ایوارڈ سے نوازا ہے۔ مقامی شاخ ادارہ نے موصوف کی تہنیت میں جناب ملک صاحب بیلگی کے ہاتھوں شال اور گل دستہ پیش کیا۔

          اس نشست میں جناب محمد فاروق عمری، جناب محمد تاج الدین، جناب محمد علی یتنٹی، عادل الکلوی اور محبوب گنجی کوٹی سمیت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
(رپورٹ: عبد الکریم بڑگن، الکل)

نعت رسول کی ایک شام،اعجاز رحمانی کے نام
          نئی دہلی( پریس ریلیز) اعجاز رحمانی کا نام برصغیر کے ادبی منظر نامے پر روشن ہے۔انھوں نے اپنے فکر و فن سے ادبی دنیا میں ایک خاص شناخت بنائی ہے۔ کئی ہزار مسدس، قطعات، رباعیات اور غزلوں و نعتوں کے ذریعے انھوں نے غیر معمولی زود گوئی کا ثبوت دیا ہے۔ اس ضمن میں مشکل ہی سے کوئی ان کا شریک و سہیم ہوسکتا ہے۔ان خیالات کا اظہار بزم شہباز دہلی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ’ نعت رسول کی ایک شام،اعجاز رحمانی کے نام‘ کا افتتاح کرتے ہوئے بزم کے صدر ڈاکٹر تابش مہدی نے کیا۔ انھوں نے بہ طور مثال اعجاز رحمانی کے متعدد اشعار پیش کرتے ہوئے کہا کہ اعجاز رحمانی کا کلام فن کی بلندی اور فکر کی پاکیزگی سے عبارت ہے۔ اس کے بعد نعت کے ایک مصرعے ’ عجیب شان سے طیبہ کو جارہا ہے کوئی‘ پر نعتیہ طرحی نشست منعقدہوئی، جس کی صدارت سید راشد حامدی نے کی ۔ کچھ اشعار نذر قارئین ہیں:
عجیب طرز کی نعتیں سنا رہا ہے کوئی
فراز عرش سے قرآن لا رہا ہے کوئی
سید راشد حامدی
درِ رسول پہ تیری بھی حاضری ہوگی
تصورات میں مژدہ سنا رہا ہے کوئی
ڈاکٹر تابش مہدی
لٹا رہا ہے کوئی اُن کے نام پر دنیا
ان ہی کے نام پہ دنیا کما رہا ہے کوئی
دانش نور پوری
زمانے بھر کو یہ پیغام مصطفی سے ملا
نظام سارے جہاں کا چلا رہا ہے کوئی
ضمیر اعظمی
پہنچ سکے نہ جہاں عام روحِ انسانی
بدن کے ساتھ وہاں آج جا رہا ہے کوئی
شاہ اجمل فاروق ندوی
عرب کی دھوپ میں ہے گرم ریت کا بستر
احد احد کی صدائیں لگا رہا ہے کوئی
سحرمحمود
سکونِ دل کے لےے آواس سے مل آئیں
سنا ہے لوٹ کے طیبہ سے آرہا ہے کوئی
عطا رحمانی
          محفل کا آغاز تنویر آفاقی کی تلاوت اور اختتام مولانا محب اللہ قاسمی کی دعا سے ہوا۔ نظامت کے فرائض شاہ اجمل فاروق ندوی نے انجام دےے۔
(رپورٹ: شاہ اجمل فاروق ندوی(بذریعہ ای میل)

حلقہ ادبِ اسلامی قطر کا تعمیری
 ادبی اجلاس و مشاعرہ
          قطر میں تعمیری ادب کے فروغ کے لیے دو دہائیوں سے سرگرمِ عمل تنظیم حلقہ ادبِ اسلامی قطر کے زیرِ اہتمام ۲۱ فروری ۵۱۰۲ءبروز جمعرات ماہانہ ادبی اجلاس و مشاعرہ حلقہ کے مرکز مدینہ خلیفہ میں منعقد ہوا۔ پروگرام کی صدارت حلقہ ادبِ اسلامی قطر کے سابق جنرل سکریٹری و قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم بزمِ اردو قطر کے صدر و خوش فکر شاعر جناب محمد رفیق شاد اکولوی نے کی ۔ مہمانانِ خصوصی انڈیا اردو سوسائٹی کے نائب صدر اور معروف شاعر جناب عتیق انظر تھے۔ جب کہ مہمانِ اعزازی کی نشست پر ایک شیدائے اردو جناب سراج الحق جلوہ افروز ہوئے۔
           ابتدائی نظامت حلقہ ادبِ اسلامی قطر کے صدر جناب ابو عروج خلیل احمد نے کی اور خطبہ استقبالیہ بھی پیش کیااور حلقہ کے اغراض و مقاصد کا اعادہ کیا۔ جب کہ مشاعرے کی نظامت کے فرائض سابق صدر جناب ڈاکٹر عطاءالرحمن صدیقی ندوی نے بہت ہی حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیے۔ قاری محمد راشد ندوی کی تلاوتِ کلام پاک سے اجلاس کا آغاز ہوا۔
          نثری حصہ کے آغاز سے قبل دو طالبات عزیزہ نجیحہ آمة المومن اور نبیہہ آمة المعز دخترانِ جناب سید مطیع الرحمن حنیف نے اپنی سریلی آواز میں حمد پیش کی:
مرے مولیٰ تیرا ثانی نہیں کوئی زمانے میں
توہی ہے قادرِ مطلق سدا اس کارخانے میں
          نثری حصے میں جناب مصطفےٰ مزمل نے بڑا عمدہ مضمون بعنوان ”وہ میری ارضِ وطن کا شاعر رزاق افسر“ پیش کیا جسے حاضرین نے خوب سراہا۔ آپ نے رزاق افسر کی شاعری اور ان کی کتاب ”زبرجد “ کا بھرپور تعارف کرایا اور منتخب اشعار پر تبصرے کیے۔ اس کے بعد جناب افتخار راغب نے ڈاکٹر محمد عزیز کا مضمون ”اسلامی ادب کا منصب“پیش کیا جس میں ادب اسلامی کے منصب کے مختلف پہلوو ں پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔
          اس کے بعد افتخار راغب کی حمد سے مشاعرے کا آغاز ہوا۔ ان کے بعد ابو الحسن ندوی، فیاض بخاری کمال، عامر عثمانی شکیب، مظفر نایاب، عتیق انظر اور محمد رفیق شاداکولوی نے اپنا اپنا غزلیہ کلام پیش کیا۔
          مشاعرے کے اختتام پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے مہمانِ اعزازی جناب سراج الحق نے کافی مسرت کا اظہار کیا اور حلقہ کے ذمہ داران کا شکریہ ادا کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ایک خاص بات یہ دیکھنے کو ملی کہ تمام ہی شعراءکرام نے اسلامی اور تعمیری فکر کی نمایندگی کی اور عمدہ کلام پیش کیے۔
          مہمانِ خصوصی جناب عتیق انظر نے بہت تفصیل سے نثری اور شعری حصوں پر تبصرہ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ادب اسلامی بہت ذمہ داری کا کام ہے۔ اسلامی ادیب و شاعر کی ذمہ داری دوسروں سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ آپ نے ایک ایک شاعر کے کلام پر سیر حاصل گفتگو کی اوران کی خصوصیات بیان کیے۔
          صدرِ اجلاس جناب محمد رفیق شاد اکولوی نے مہمانانِ اعزازی اور خصوصی کی باتوں کی تائید کی اور ایک کامیاب ادبی اجلاس و مشاعرے کے انعقاد پر حلقہ ادبِ اسلامی کے ذمہ داران کو مبارک باد پیش کی۔ آخر میں افتخار راغب نے تمام مہمانان و شعراءو سامعین کا شکریہ ادا کیا۔
(رپورٹ: افتخار راغب)
 جنرل سکریٹری ، حلقہ ادبِ اسلامی قطر۔دوحہ قطر

کپل میں شاندار مشاعرہ
          ادارہ ادب اسلامی ہند کرناٹک شاخ کپل کے زیر اہتمام ۴۲جنوری۵۰۱۲ئ، بروز ہفتہ ساہتیہ بھون کپل ، شب 9:00 بجے ایک ہمہ لسانی مشاعرے کا اہتمام کیا گیا ، جس کی صدار ت سابق صدر ادارہ ادب اسلامی کرناٹک اور حالیہ کرناٹک اردو اکیڈمی ایوارڈ یافتہ (برائے شاعری) بزرگ شاعر جناب مظہر محی الدین نے فرمائی۔مشاعرے کا آغاز جناب عبد العلام شارق صدر ادارہ ادب اسلامی ہند شاخ کپل کی تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ خوش گلو اور مترنم شاعر انور حسین انور نے نعت شریف کا نذرانہ پیش فرمایا۔ بعد ازاں اُردو میں وزارت علی طائر انور حسین انور ، رضا علی خان رضا، عبد العلام شارق کے علاوہ صدر ادارہ ادب اسلامی کرناٹک قدیر احمد قدیر اور صدر مشاعرہ مظہر محی الدین نے اپنے خوبصورت کلام سے سامعین کو نوازا۔ کنڑا شعرا میں الطاف کپل ، سراج بسرلی، پی بی پاٹل ہلگیری، مہانیش ملن گوڈر، مہیش بلاری وغیرہ نے اپنے بہترین کلام سے سامعین کو نوازا۔ سامعین نے بھی دل کھول کر شعرا کو خوب داد و تحسین سے نوازا۔ اس شاندار مشاعرے کی نظامت قدیر احمد قدیر صدر ادارہ ادب اسلامی کرناٹک نے فرمائی۔ تقریباً رات ۱۱بجے یہ خوبصورت مشاعرہ ناظم مشاعرہ کے اظہار تشکر کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
(رپورٹ: قدیر احمد قدیر، کپل)

اورنگ آباد میں ایک پُر وقار مشاعرہ
          ادارہ ادب اسلامی صالح ادبی قدروں کا امین ہے، جو مختلف سرگرمیوں کے ذریعہ اس کی صالح قدروں کے فروغ میں کوشاں ہے۔ جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر کی مہم ’اسلام سب کے لےے‘ کے تحت ادارہ کی جانب سے ایک مشاعرہ ۰۳جنوری ۵۱۰۲ء، بروز ہفتہ ، 8:30 بجے شب سلیم شہزاد (مالیگاوں) کی صدارت میں مولانا آزاد ریسرچ سینٹر میں منعقد ہوا۔ جس میں مقامی اور بیرونی شعراءنے شرکت کی، نیز کثیر تعداد میں اہل ذوق حضرات شریک ہوئے۔ کنوینر مشاعرہ و سکریٹری ادارہ ادب اسلامی اورنگ آباد معین عظیم اور صدر ادارہ ادب اسلامی اورنگ آباد احمد اقبال نے اس مشاعرے کے انعقاد میں اہم رول ادا کیا۔

(رپورٹ: معین عظیم، اورنگ آباد)